خواب زندگی کو کبھی سنوارتے ہیں، اجاڑتے ہیں اور کبھی ویرانیوں اور تنہائیوں میں بھی دھکیل دیتے ہیں۔ میری زندگی جن بربادیوں کی نذر ہوئی ہے، وہ سب خود میری نادانیوں کے سبب ہے۔ کوئی اور قصور وار ہوتا تو اس کا دامن پکڑتی اور خود کو اس کرب سے نکال لیتی۔ میں خود کو قصور وار ٹھہراتی ہوں، مگر سزا نہیں دے پاتی۔ میری تربیت میں کچھ کمی تھی یا پھر لاڈ پیار نے مجھے تباہ کیا؟ سمجھ نہیں پاتی۔ ماں باپ کی طرف سے تو کبھی دکھوں کی ہلکی سی آنچ بھی مجھ تک نہیں آنے دی گئی، لیکن چند جھوٹے اور بے ترتیب خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے میں نے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔
ماں نے سلطانہ نام رکھا اور قدرت نے شہزادیوں سا حسن دیا۔ عقل و ذہانت بھی ملی تھی، مگر کام نہ آئی۔ نو عمری کے حسین اور خطرناک دور نے مجھے راہ سے بھٹکا دیا۔ میں ایک خوشحال گھرانے کی فرد، چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ خوش نصیبی یہ تھی کہ چاروں بھائی مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ والدین بھی ہر وقت میری بات سننے کے منتظر رہتے اور مجھے ناز برداریوں میں لگے رہتے تھے، لیکن میں بد نصیب، ان مقدس رشتوں کی قدر نہ کر سکی۔ دسویں جماعت تک میرے خیالات نیک اور پاکیزہ تھے، مگر فرسٹ ایئر میں آتے ہی ایک دم خیالات بدل گئے۔ ان دنوں میرے بڑے بھائی بیرون ملک میں تھے۔ گھر میں پہلے ہی کسی چیز کی کمی نہ تھی، پھر بھائی نے اور بھی نئے سامان کے ڈھیر لگا دیے۔ میں جس چیز کی فرمائش لکھتی، وہ بھیج دیتے۔ ہمارے گھر میں ہر کمرے میں الگ ٹی وی سیٹ تھا، ایک وی سی آر پہلے سے تھا۔ بھائی نے ایک اور بھیج دیا، وہ میں نے اپنے کمرے میں رکھ لیا۔ اب جب بھی بور ہوتی، وی سی آر پر اپنے کمرے میں انڈین فلمیں لگا لیتی۔ انڈین فلموں میں جو بے حجابی ہوتی ہے، ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس کے باوجود یہ فلمیں اتنی دلچسپ اور رومانوی ہوتی تھیں کہ سب اپنے تفریحی جذبے کی تسکین کے لیے ان کو دیکھنا پسند کرتے تھے۔
ہمارے گھر میں بھی رفتہ رفتہ یہ احساس مرتا گیا کہ ہمارے نو عمر بچیوں اور بچوں کو ان سے دور رہنا چاہیے۔ میں ملازم سے روز ہی نت نئی فلمیں منگوا کر دیکھتی اور گھر والے مجھ کو نہ روکتے۔ الٹا یہ ہوتا کہ جو کوئی بھی میرے کمرے کے قریب سے گزر رہا ہوتا، وہ بھی تھوڑی دیر میرے کمرے میں بیٹھ کر فلم دیکھنے میں محو ہو جاتا۔ بس اسی بات نے میری زندگی کو بدل دیا۔ میں فلمی ہیروئنوں کو اپنا آئیڈیل سمجھنے لگی اور پردے پر تھرکتی زندگی مجھے جنت نظر آنے لگی۔ ان فلموں نے مجھ پر سلو پوائزننگ کی طرح اثر کیا تھا۔ پہلے میں بے پردگی اور فیشن کو اچھا نہیں سمجھتی تھی، مگر اب میری شخصیت و عادات میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی تھی۔ محبت کی داستانیں دیکھ کر دل میں عجیب طرح کی خواہش جنم لینے لگی۔ اب مجھ کو جنس مخالف میں بے پناہ کشش محسوس ہونے لگی تھی۔ میں نے اپنے بناؤ سنگھار پر خصوصی توجہ دینی شروع کر دی تھی۔ ہر نئے فیشن کو اپنانا اپنا فرض سمجھ لیا تھا۔
امی ابو پیار سے سمجھاتے تھے کہ زیادہ فیشن ٹھیک نہیں۔ اس سے پیسوں کا ضیاع ہوتا ہے اور کبھی میری دل آزاری کے خیال سے مجھ پر مچنے والے لباس کی تعریف بھی کر دیتے تھے۔ میری خوابوں بھری زندگی شروع ہو چکی تھی اور میں کسی فلمی ہیرو کے خواب دیکھنے لگی تھی، جس کی برائیوں کو بھی اچھائیوں کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ فلموں میں تو کرداروں کو اتنا گلیمرس بنا دیا جاتا ہے کہ ہر بڑا آدمی بھی کشش رکھتا ہے۔ ان خوابوں نے آہستہ آہستہ مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا اور میں دن رات تصورات کی دنیا میں جینے لگی۔
اب میں اپنی سہیلیوں سے بے حد مختلف ہو گئی تھی۔ مجھ کو لڑکوں سے باتیں کرنے کا شوق چرانے لگا تھا، یوں میری لڑکوں سے راہ اور سم بڑھتی چلی اور کئی لڑکوں سے دوستی ہو گئی، لیکن یہ تعلق فون تک ہی رہا۔ سہیلیاں حیران تھیں کہ میں کس راہ چل پڑی ہوں؟ جو خیر خواہ تھیں، وہ مجھ کو منع بھی کرتی تھیں، لیکن ان دنوں میں ہواؤں میں اڑ رہی تھی اور مجھ کو کسی کی پرواہ نہیں تھی۔
طبیعت میں خود سری بھی تھی، جو مجھ کو اپنی مرضی کا کام کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ ان سب باتوں کے باوجود میں نے تعلیم کی طرف سے غفلت نہ برتی۔ سہیلیاں میرے اس رویے سے خوف کھانے لگی تھیں۔ ماں باپ کو مجھ پر اعتماد تھا اور بھائی اپنے اپنے دھندوں میں الجھے ہوئے تھے۔ وہ میری جانب کم ہی توجہ دیتے تھے۔ ماں دبے لفظوں سمجھانے کی کوشش کرتیں، مگر میں ان کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہ دیتی۔ میری کچی سوچوں پر فلموں کے رومان پرور مناظر نے پوری طرح اپنا قبضہ جمالیا۔
ایف اے کے بعد مجھ کو کسی ساتھی کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی۔ اب میں فون پر باتیں کرنے کے علاوہ کسی اور طرح کی آزادی کی خواہاں ہو چلی تھی۔ اُن دنوں جب کہ جذبات نے میرے حواس مختل کر رکھے تھے، ہمارے محلے میں ایک نیا گھرانہ آ کر آباد ہوا۔ شہزاد اسی گھرانے کا اکلوتا چشم و چراغ تھا۔ یہ کھاتے پیتے لوگ تھے اور شہر کے معززین میں گنے جاتے تھے، تاہم مجھے ان باتوں سے دلچسپی نہ تھی۔ مجھے تو صرف شہزاد سے محبت تھی کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھا اور اس کی سج دھج بالکل مسلمی ہیرو جیسی تھی۔ اب میں اٹھتے بیٹھتے خوابوں اور تصورات میں خود کو اس کے ساتھ چلتے پھرتے محسوس کرنے لگی۔ پہلی بار میں نے اس کو اپنی سہیلی کے گھر جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ گلی کے نکڑ پر کھڑا تھا، مجھ کو دیکھتے ہی ہٹ گیا۔ وہ مجھ کو بالکل اپنے خوابوں کے شہزادے جیسا لگا۔ لمبا، گوری رنگت، مردانہ وجاہت، مجھ جیسی کسی بھی لڑکی کے لیے وہ آئیڈیل ہو سکتا تھا۔
میں اس کو اپنے محلے میں دیکھ کر حیران تھی۔ یہ حیرانی اجنبیت کے باعث تھی۔ میری سہیلی نے بتایا کہ اس لڑکے کا نام شہزاد ہے اور ان لوگوں کو یہاں آئے زیادہ دن نہیں گزرے۔ اس کی بارعب شخصیت نے مجھ کو متاثر کیا۔ وہ میری سہیلی کا کزن تھا۔ اب میں روز بہانے بہانے سے اس کو دیکھنے لگی، لیکن وہ میری طرف سے بے نیاز رہا۔ شاید وہ ان جھمیلوں میں پڑ کر اپنی زندگی برباد کرنے کا خواہاں نہ تھا۔ وہ ایک لائق لڑکا تھا اور اب سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا، لہذا اس کو عشق و محبت کے چکروں سے کیا واسطہ؟ مجھ جیسی لڑکی کے لیے یہ مشکل امر تھا کہ اس کو اس کا آئیڈیل نظر آئے اور وہ اس سے بات تک نہ کرے، مگر اس نے خاموشی کا حصار اپنی شخصیت کے ارد گرد تعمیر کر رکھا تھا، جس کو توڑنا بھی آسان نہ تھا۔
اب ہمارے گھر والوں کی ان سے واقفیت بھی ہو چکی تھی۔ امی کئی بار شہزاد کے گھر جا چکی تھیں اور ان کی والدہ اور بہنیں بھی آتی تھیں۔ پھر مجھے بھی شہزاد کے گھر جانے کا موقع ملا۔ سوچتی تھی، اس بار وہ بیٹھا ہو گا تو خود بات کرلوں گی۔ اس سے دل کے جذبوں کا اظہار بھی کر دوں گی، لیکن جب وہ سامنے ہوتا تو اس کا رعب حسن میری زبان گنگ کر دیتا تھا۔ بالآخر اس کی دوستی میرے بھائی سے ہو گئی اور وہ کبھی کبھار ہمارے گھر آنے لگا۔ میں ابھی جذبوں کے اس ادھیڑ بن میں لگی تھی کہ ابو نے میرے لیے اس کو پسند کر لیا۔ مجھ کو اس بات کا علم نہ تھا نہ ہی کسی نے مجھ سے تذکرہ کیا، البتہ ان لوگوں کا ہمارے گھر زیادہ آنا جانا ہو گیا۔ اس کی بہنیں مجھ کو زیادہ اہمیت دینے اور پیار سے بلانے لگیں، تب بھی میں کچھ نہ سمجھی کہ رشتے کی بات چل رہی ہے۔
ایک دن میری سہیلی ثمینہ آئی۔ میں نے اس کو کہا، میری مدد کرو، میں شہزاد پر مر مٹی ہوں، مگر وہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا۔ وہ ہنس پڑی اور بولی، تم کس پر نہیں مرمٹتی؟ جو پہلے تمہارے بوائے فرینڈز تھے، ان سے تو نمٹ لو۔ وہ تو صرف فون کی حد تک دل لگی اور وقت گزارنے کے لیے ہیں۔ پھر میں نے کہا، مگر اب میں سنجیدہ ہوں۔ ثمینہ نے جواب دیا، آخر کیوں؟ وہ اس لیے کہ تم محبت کے معنی نہیں سمجھتیں، تم فلمی عشق کرتی ہو اور زندگی فلمی عشق کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ان دنوں شہزاد بھی کہیں پڑھنے جاتا تھا اور میں بھی کالج کے لیے نکلتی تھی۔ ہم عموماً ایک ہی وقت میں گھر سے نکلتے تھے۔ وہ روز ہی میری جمع کی ہوئی ہمت کی دھجیاں بکھیرتا ہوا پاس سے گزر جاتا تھا۔ مجھ کو اس کی بے نیازی پر سخت غصہ آتا تھا، مگر میں اپنے پندار کی خاطر خود اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کو تیار نہ تھی۔ پھر اچانک ہی مجھ کو وہ خوشی مل گئی جو شاید ہی اس دنیا میں کسی خوش نصیب لڑکی کو ملی ہو گی۔ شہزاد کے والدین باتعدہ میرا رشتہ مانگنے آگئے۔ یہ میرے والد صاحب کی کوششوں کا ثمر تھا۔ خیر، منگنی کے بعد میرا بہت دل چاہتا تھا کہ شہزاد مجھ سے بات کرے، لیکن وہ بات نہیں کرتا تھا۔ دل کی ویرانی سے تنگ آ کر میں نے اس کی کزن دردانہ کا سہارا لیا، جو اب میری دوست بن چکی تھی اور اس کی منگنی شہزاد کے تایا زاد سے ہو چکی تھی۔
دردانہ نے خدا جانے اس کو کیا کہا اور کیسے راضی کیا۔ بہر حال شہزاد کے گھر سے پہلے دردانہ نے مجھے فون کیا، پھر ریسیور اُس کو پکڑا دیا۔ میں نے بہت خوشی بھرے لہجے میں پوچھا، آپ کیسے ہیں؟ کیا آپ کو میری یاد آتی ہے؟ لیکن جواب میں وہ چپ سادھے رہا، جیسے گھبرا گیا ہو۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرے محبت بھرے جذبات کا خیرمقدم کرے گا اور مجھ سے اظہار محبت کرے گا کیونکہ فون پر تو سب ہی لڑکے ایسا کرتے ہیں، مگر میری ساری باتیں اور سوچیں اس وقت ہوا میں بھر گئیں، جب اس نے شادی سے پہلے اظہار محبت کی بجائے محبت کے نقصانات پر ایک لمبے لیکچر دینا شروع کر دیا۔
شہزاد سے بات کرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا، جیسے اس کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔ یقیناً اس کے ساتھ کسی نے بے وفائی کی ہوگی۔ اس کی باتوں میں احتیاط کا جو رنگ تھا، وہ کسی سے ٹھوکر کھانے کے بعد آتا ہے۔ اس نے یقیناً جذبوں کے اس گورکھ دھندے میں بہت کچھ کھویا ہے۔ پھر میں نے اس بات کی تحقیق شروع کر دی اور اس کے لیے شہزاد کی ایک اور کزن سے دوستی کر لی، جو کچھ میرے مزاج سے مطابقت رکھتی تھی اور اکثر ان کے گھر آتی رہتی تھی۔ میں نے اپنے ولی خدشات سے اس کو آگاہ کیا تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ مجھ کو اس کے بارے میں سب کچھ بتا دے گی۔ مہوش نے کچھ دنوں بعد مجھ کو بتایا کہ تم ٹھیک سوچتی ہو، واقعی شہزاد کو ماضی میں کسی سے محبت تھی اور اب وہ اسی ناکام محبت کی وجہ سے تھکا تھکا اور بیزار نظر آتا ہے۔ اس نے مجھ کو ایک بہت دلچسپ اور فرضی کہانی بھی سنادی، جس کے بعد میرا دل اپنے اس خوابوں کے شہزادے سے کھٹا ہو گیا اور میں اپنی پہلی والی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئی۔ میں اپنے فون والے دوستوں سے گپ شپ کرتی۔ انہی میں سے ایک نواز تھا، جس کو میری اور شہزاد کی منگنی کا کسی طرح علم ہو گیا تھا۔ وہ کہتا تھا، تم شہزاد سے شادی مت کرنا، تم اس سے شادی کر کے غلطی کرو گی۔ بہتر ہے کہ ہم یونہی دوستی والی زندگی گزاریں۔ نواز اکثر مجھ سے کہتا تھا کہ تم مجھ سے ایک بار کہیں باہر ملو، مگر میں ہر بار انکار کر دیتی تھی کیونکہ میں باہر ملنے سے ڈرتی تھی۔ میرے چار جوان بھائی تھے، اگر کوئی مجھے کسی کے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھ لیتا تو یقینا قتل کر دیتا۔ فون پر باتیں کرنے سے تو میں خود کو اس لیے محفوظ سمجھتی تھی کہ گھر پر ہوتی تھی اور گھر والے سمجھتے تھے کہ میں اپنی سہیلیوں سے باتیں کر رہی ہوں۔
نواز نے مجھ کو بہت مجبور کیا۔ ان دنوں میری شادی کی تاریخ رکھی جا چکی تھی۔ اس نے کہا، اگر ایک بار مل لو تو کیا مضائقہ ہے؟ میں قسم کھاتا ہوں کہ اس کے بعد تمہیں ملنے پر مجبور نہ کروں گا، ورنہ عمر بھر میرے دل میں تم سے ملنے اور تمہیں دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی۔ اس نے مجھ کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم مجھ سے نہ ملیں تو میں تمہاری گفتگو کا ٹیپ تمہارے شہزاد صاحب کو دے دوں گا۔ اس دھمکی سے میں ڈر گئی اور اس کو کہہ دیا کہ آج شام میں خالہ کے گھر جانے کے بہانے فلاں شاپنگ سینٹر میں آجاؤں گی۔ تم وہیں مجھ کو دیکھ لینا۔ میں نے یہی سوچا کہ وہاں اور بھی لوگ ہوں گے۔ اگر کسی نے دیکھ بھی لیا تو میں یہی کہہ دوں گی کہ خریداری کے لیے شاپنگ سینٹر گئی تھی۔ خبر نہ تھی کہ نواز کی شہزاد سے جان پہچان ہے اور دونوں ہم جماعت رہے ہیں۔ دراصل میری منگنی کا سن کر نواز کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی اور اس نے شہزاد کا دل برا کرنے کی کوشش کی تو شہزاد نے کہا کہ اگر وہ فون پر کسی سے بات کرتی ہے، تو میں اسے برا نہیں مانتا، البتہ اگر وہ کسی سے باہر ملتی ہے تو پھر میں اس سے شادی ہرگز نہیں کروں گا۔ تب نواز نے شرط لگائی کہ میں تیری منگیتر سے کو فلاں دن فلاں جگہ بلا کر تم کو دکھا دوں گا۔
فون پر میں نے نواز کو بتایا کہ میں سبز رنگ کے کپڑے پہنے ہوں گی اور میرے ہاتھ میں ایک سبز رنگ کا رہن ہو گا۔ یہی بات اس نے شہزاد کو کہی، یوں وہ بھی شاپنگ سینٹر آگیا تھا اور ایک کونے میں کھڑا ہو گیا تھا، ہمارا تماشہ دیکھنے کے لیے۔ نواز میری طرف آیا، اس نے مجھ کو ایک چھوٹا سا گفٹ دے کر کہا، تمہارا شکریہ، اب میں تمہیں پھر کبھی ملاقات کی تکلیف نہ دوں گا اور نہ ہی فون پر بات کرنے کے لیے مجبور کروں گا، کیونکہ تم کسی کی امانت ہو۔ وہ مجھ سے مختصر سی بات کر کے چلا گیا۔ مجھ کو کیا خبر کہ میری بے عقلی نے کیا قیامت ڈھادی ہے۔
شہزاد اور میرے درمیان جو دیوار حائل ہوئی، وہ میرے اپنے کرتوتوں کی تعمیر کردہ تھی۔ اگرچہ اب میرا ان لڑکوں کے ساتھ تعلق نہیں تھا، مگر پھر بھی مجھ کو سزا مل ہی گئی، حالانکہ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں شہزاد کی امانت میں خیانت نہیں کروں گی اور اس کے سوا کسی سے محبت نہیں کروں گی۔ اس کے بعد ہماری منگنی ٹوٹ گئی۔ شہزاد ملک چھوڑ کر اعلیٰ تعلیم کے لیے چلا گیا اور ہمیشہ کے لیے پردیسی ہو گیا، مگر اس کے بعد میری کسی سے نہ بن سکی کیونکہ دل میں کسی ایک کے لیے کچی الفت گھر بناتی ہے اور وہ شہزاد تھا۔ باقی کھوٹے رشتے اور کھوٹے سکے تھے۔ اس کے بعد میں نے شادی کی، مگر یہ بندھن عارضی ثابت ہوا اور پھر میری دنیا بدل گئی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد بھائیوں نے بے رخی اختیار کر لی کیونکہ وہ اپنے گھروں میں خوش تھے۔ میں نے ایک ویمن ورکنگ ہاسٹل میں رہائش اختیار کر لی۔ اب ملازمت کرتی ہوں اور اپنا بوجھ خود اٹھاتی ہوں۔ کسی سے کوئی گلہ نہیں۔
آج بھی شہزاد یاد آتا ہے تو آنسو نکل آتے ہیں۔ اس کو بھلانا میرے اختیار میں نہیں۔ زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ کہانی تو ان دنوں کی ہے، جب ابھی موبائل فون نہیں تھے۔ لڑکیاں لینڈ لائن فونز پر باتیں کرتی تھیں یا انڈین فلموں کے کیسٹ منگوا کر گھر میں ذہنی تفریح کر لیا کرتی تھیں۔ تب بھی وہ ان تفریحات کے مثبت پہلوؤں سے زیادہ منفی پہلوؤں کی طرف مائل ہو جاتی تھیں، تو دلی دکھ اور صدمات سے دوچار ہو جاتی تھیں۔
آج کا دور موبائل فون اور زیادہ آزادی کا ہے۔ آج بھی اچھی اور سمجھدار لڑکیاں ان نعمتوں سے فائدہ لیتی ہیں اور ترقی کر کے نیک نامی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں، لیکن جو کم عقل ہیں، وہ ان نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنے کی بجائے خسارے ہی خرید رہی ہیں۔ بجائے زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے، آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی وجہ سے نہ صرف خود بربادی کی راہ پر گامزن ہیں، بلکہ قیمتی وقت کو مٹی میں ملا لیتی ہیں اور اپنی زندگی کے ساتھ ماں باپ کی زندگی کو بھی بے سکون اور ملیا میٹ کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ خدا ایسے موبائل فون کی حد سے زیادہ چاہت اور فریب سے بچائے، جو بڑوں تو کیا اب بچوں کو بھی اس طرح اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے کہ تعلیم سے غفلت اور وقت کے ضیاع کے باعث ہماری نئی نسل کی بربادی کا سامان بن گیا ہے۔
(ختم شد)