والدین نے میری منگنی اس وقت کر دی تھی جب میں میٹرک کا امتحان دے رہی تھی۔ شادی ان کی پسند رضا اور مرضی سے ہوئی لیکن انہوں نے مجھے کس بات کی سزا دی، اس بارے سوچتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں۔
ہمارا تعلق دراصل ایک ایسی قبائلی فیملی سے تھا، جو اس ترقی یافتہ دور میں بھی دقیانوسی خیالات کے حامل تھے۔ پہاڑوں کے باسیوں کے دل شاید پہاڑوں کی مانند سنگلاخ ہو جاتے ہیں، تبھی وہ ذرا سی غلطیوں پر بھی سخت رد عمل کر گزرتے ہیں۔ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا، جس کی وجہ سے ہم نے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی فقیروں اور کنگالوں جیسی زندگی دیکھی اور ہمارے بزرگوں نے ہمیں نظروں سے گرا دیا۔
میرا قصور صرف اتنا تھا کہ منگنی کے بعد میں نے اپنے منگیتر کے ساتھ بات چیت کی تھی، جب کہ ہمارے یہاں منگیتر کے ساتھ شادی سے پہلے گفت و شنید کو بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا۔ عطا اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور لاہور میں ملازمت کر رہے تھے۔ والدین نے یہ رشتہ اسی سبب سے پسند کیا تھا کہ لڑکا بر سر روز گار ہے اور ہماری بیٹی لاہور میں سکون سے رہے گی لیکن عطا لاہور میں کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا، اسے مجھ سے شادی منظور نہ تھی۔ مجھے اس کی بہن نے یہ بات بتائی۔ میں خاموش ہی رہی، سوچا فیصلہ والدین نے کرنا ہے۔ حالانکہ میں آگے پڑھنا چاہتی تھی مگر ماں باپ کی رضا و خوشنودی کی خاطر مہر بہ بلب تھی۔
ایک روز عطا اپنے والدین کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ وہ لاہور میں اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اُسے ماں باپ کی رضا در کار ہے۔ اس پر اس کے والد آگ بگولہ ہو گئے وہ سخت گیر آدمی تھے۔ بیٹے سے کہا۔ عطا اللہ کان کھول کر سن لو میں لڑکی والوں کو زبان دے چکا ہوں ، اب انکار نہیں ہو سکتا۔ تم نے اگر لاہور کی شہری لڑکی سے شادی کی تو یاد رکھو میں تم کو عاق کر دوں گا۔ بابا جان مجھے اسی لڑکی سے شادی کرنا ہے، جس کو میں پسند کر چکا ہوں ۔ آپ راضی ہوں یا نہ ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ شہر چل کر میرے لئے رشتہ طلب کریں۔ انہوں نے رشتہ طلب کرنے کیا جانا تھا ، بس اسی وقت کھڑے کھڑے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ کہا کہ اب مجھے تم اپنی مشکل مت دکھانا۔
عطا لاہور گیا اور اس لڑکی کو یہ بات بتائی تو وہ بولی۔ جب تک تمہارے والدین میرا رشتہ لینے، نہیں آئیں گے ، میرے والدین میری شادی تم سے کرنے پر راضی نہیں ہوں گے۔ میں ان کی مرضی کے بغیر تم سے شادی کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ معاملہ یوں کھٹائی میں پڑ گیا۔ جب یہ خبر ہمارے گھر پہنچی تو بابا جان اور میرے بھائیوں نے عطا کے والدین سے منگنی توڑنے کا مطالبہ کر دیا۔ عطا کے والد نے ابا سے منت سماجت کی بتایا کہ لاہور والی لڑکی سے میرے بیٹے کی شادی ممکن نہیں، لہذا آپ لوگ جلد بازی مت کریں۔ منگنی کو برقرار رکھیں ہماری بہو آپ کی بیٹی ناز خانم ہی بنے گی۔ آپ کا لڑ کا جب ہماری بیٹی سے شادی پر راضی نہیں ہے تو یہ شادی کیوں کر ہو سکے گی ؟ وہ پہلے راضی نہیں تھی، لیکن اب راضی ہے بے شک آپ خود اس سے پوچھ لیں۔ لڑکے کے والد نے جواب دیا۔ والد نے عطا سے پوچھا تو اس نے جواب دیا۔ بے شک میں پہلے راضی نہ تھا کیونکہ میں اپنی منگنی سے ہی لا علم تھا، لیکن اب میں دل سے راضی ہوں۔
ہمارا تعلق دراصل ایک ایسی قبائلی فیملی سے تھا، جو اس ترقی یافتہ دور میں بھی دقیانوسی خیالات کے حامل تھے۔ پہاڑوں کے باسیوں کے دل شاید پہاڑوں کی مانند سنگلاخ ہو جاتے ہیں، تبھی وہ ذرا سی غلطیوں پر بھی سخت رد عمل کر گزرتے ہیں۔ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا، جس کی وجہ سے ہم نے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی فقیروں اور کنگالوں جیسی زندگی دیکھی اور ہمارے بزرگوں نے ہمیں نظروں سے گرا دیا۔
میرا قصور صرف اتنا تھا کہ منگنی کے بعد میں نے اپنے منگیتر کے ساتھ بات چیت کی تھی، جب کہ ہمارے یہاں منگیتر کے ساتھ شادی سے پہلے گفت و شنید کو بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا۔ عطا اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور لاہور میں ملازمت کر رہے تھے۔ والدین نے یہ رشتہ اسی سبب سے پسند کیا تھا کہ لڑکا بر سر روز گار ہے اور ہماری بیٹی لاہور میں سکون سے رہے گی لیکن عطا لاہور میں کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا، اسے مجھ سے شادی منظور نہ تھی۔ مجھے اس کی بہن نے یہ بات بتائی۔ میں خاموش ہی رہی، سوچا فیصلہ والدین نے کرنا ہے۔ حالانکہ میں آگے پڑھنا چاہتی تھی مگر ماں باپ کی رضا و خوشنودی کی خاطر مہر بہ بلب تھی۔
ایک روز عطا اپنے والدین کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ وہ لاہور میں اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اُسے ماں باپ کی رضا در کار ہے۔ اس پر اس کے والد آگ بگولہ ہو گئے وہ سخت گیر آدمی تھے۔ بیٹے سے کہا۔ عطا اللہ کان کھول کر سن لو میں لڑکی والوں کو زبان دے چکا ہوں ، اب انکار نہیں ہو سکتا۔ تم نے اگر لاہور کی شہری لڑکی سے شادی کی تو یاد رکھو میں تم کو عاق کر دوں گا۔ بابا جان مجھے اسی لڑکی سے شادی کرنا ہے، جس کو میں پسند کر چکا ہوں ۔ آپ راضی ہوں یا نہ ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ شہر چل کر میرے لئے رشتہ طلب کریں۔ انہوں نے رشتہ طلب کرنے کیا جانا تھا ، بس اسی وقت کھڑے کھڑے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ کہا کہ اب مجھے تم اپنی مشکل مت دکھانا۔
عطا لاہور گیا اور اس لڑکی کو یہ بات بتائی تو وہ بولی۔ جب تک تمہارے والدین میرا رشتہ لینے، نہیں آئیں گے ، میرے والدین میری شادی تم سے کرنے پر راضی نہیں ہوں گے۔ میں ان کی مرضی کے بغیر تم سے شادی کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ معاملہ یوں کھٹائی میں پڑ گیا۔ جب یہ خبر ہمارے گھر پہنچی تو بابا جان اور میرے بھائیوں نے عطا کے والدین سے منگنی توڑنے کا مطالبہ کر دیا۔ عطا کے والد نے ابا سے منت سماجت کی بتایا کہ لاہور والی لڑکی سے میرے بیٹے کی شادی ممکن نہیں، لہذا آپ لوگ جلد بازی مت کریں۔ منگنی کو برقرار رکھیں ہماری بہو آپ کی بیٹی ناز خانم ہی بنے گی۔ آپ کا لڑ کا جب ہماری بیٹی سے شادی پر راضی نہیں ہے تو یہ شادی کیوں کر ہو سکے گی ؟ وہ پہلے راضی نہیں تھی، لیکن اب راضی ہے بے شک آپ خود اس سے پوچھ لیں۔ لڑکے کے والد نے جواب دیا۔ والد نے عطا سے پوچھا تو اس نے جواب دیا۔ بے شک میں پہلے راضی نہ تھا کیونکہ میں اپنی منگنی سے ہی لا علم تھا، لیکن اب میں دل سے راضی ہوں۔
ناز خانم میری منگیتر ہیں تو میں ان سے ہی شادی کروں گا۔ یہ باتیں میں پردے کے پیچھے سے سن رہی تھی۔ میں نے جانا کہ عطا اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ ہے۔ اُس کی معافی تلافی میرے دل پر اثر کر گئی، سوچا۔ اب عطا کو ٹھکرانا ٹھیک نہیں ہے۔ جب ابو نے اس بارے میں مجھ سے رائے مانگی تو میں نے عطا کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ میرا خیال تھا کہ لڑکے ایسی غلطیاں کرتے ہیں لیکن شادی کے بعد اچھی بیوی شوہر کو اپنا بنا سکتی ہے۔ چونکہ منگنی ٹوٹنے سے عزت پر حرف آتا تھا لہذا رشتہ بحال ہو گیا۔ عطا کو پتا چلا کہ میں نے بغیر مجھے دیکھے معاف کر دیا ہے تو وہ میرا از حد مشکور ہوا ، تب ہی میری والدہ سے اجازت لے کر اس نے مجھے فون کیا۔ میں اس سے فون پر بات کے لئے راضی نہ تھی، مگر والدہ نے کہا۔ جب تمہاری شادی عطا سے ہوئی ہے، تو اپنے منگیتر سے بات کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بہر حال، اس نے مجھ سے بات کی اور معذرت کی کہ اس سے غلطی ہوئی ہے ، دراصل اسے منگنی کا بھی علم نہیں تھا۔
ایک دن عطا میری امی سے اجازت لے کر مجھ سے ملنے ہاسٹل آ گیا اور جب مجھے دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ کہنے لگا مجھے خبر نہ تھی کہ میری منگیتر پڑھی لکھی ہے، خوبصورت اور آزاد خیال گھرانے کی لڑکی ہے ، ورنہ میں کیوں کسی اور لڑکی سے شادی کی بات کرتا۔ واقعی والدین جو فیصلہ کرتے ہیں، اچھا کرتے ہیں۔ آج تم کو دیکھ کر میرے دل میں تمہاری قدر اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اب وہ کبھی کبھی مجھ سے ملنے آ جاتا اور ہم باہر جا کر باتیں کر لیتے ۔ ہمارے گھر والوں اور عطا کے والد صاحب کی عجیب طبیعت تھی۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر اختلاف کرتے تھے۔ عطا کی بھی بچپن سے اب تک کئی منگنیاں کی تھیں اور ذراسی بات پر رشتے توڑ دیتے تھے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا کیا گیا، لیکن میں نے اپنے والدین اور عطا نے اپنے والدین کو سنبھالا اور منگنی کے رشتے کو بحال کرا لیا۔ دراصل وہ اس بات پر خفا تھے کہ ان کا بیٹا شادی سے پہلے کیوں مجھ سے ملنے ہوسٹل جاتا ہے۔
عطا ایم بی اے ہونے کے باوجود بیروز گار تھا۔ اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ ان حالات کے پیش نظر والدین نے مجھے سمجھایا کہ اس لڑکے سے منگنی ختم کر دو، یہ کوئی کام نہیں کرے گا، لیکن مجھے عطا سے اور اُسے مجھ سے پیار ہو چکا تھتا اور ہمارے گھر والوں کو ہماری ملاقاتوں کا علم ہو چکا تھا، لہذا مجھ پر کافی سختی کی جاتی تھی، لیکن میں نے عطا کو دل سے نہ نکالا۔ خدا خدا کر کے اس کی کہیں جاب ہو گئی، تو اس کے والدین نے شادی کی تاریخ مانگی۔ میرے ابو نے جان چھڑانے کے لئے جلدی سے تاریخ دے دی۔ عطا کے والد کو اس بات پر افسوس تھا کہ لڑکی اور لڑکے نے شادی کی جلدی مچا رکھی ہے ، جب کہ ابھی تک عطا نے کچھ کمایا بھی نہیں ہے۔ کم از کم اتنا روپیہ تو کما لیتا جس سے ہم گھر میں اس کے لئے علیحدہ کمرہ بنوا لیتے ۔ خیر، ہماری شادی بڑی مشکلوں سے ہو گئی۔ ہم نے
ایک دن عطا میری امی سے اجازت لے کر مجھ سے ملنے ہاسٹل آ گیا اور جب مجھے دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ کہنے لگا مجھے خبر نہ تھی کہ میری منگیتر پڑھی لکھی ہے، خوبصورت اور آزاد خیال گھرانے کی لڑکی ہے ، ورنہ میں کیوں کسی اور لڑکی سے شادی کی بات کرتا۔ واقعی والدین جو فیصلہ کرتے ہیں، اچھا کرتے ہیں۔ آج تم کو دیکھ کر میرے دل میں تمہاری قدر اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اب وہ کبھی کبھی مجھ سے ملنے آ جاتا اور ہم باہر جا کر باتیں کر لیتے ۔ ہمارے گھر والوں اور عطا کے والد صاحب کی عجیب طبیعت تھی۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر اختلاف کرتے تھے۔ عطا کی بھی بچپن سے اب تک کئی منگنیاں کی تھیں اور ذراسی بات پر رشتے توڑ دیتے تھے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا کیا گیا، لیکن میں نے اپنے والدین اور عطا نے اپنے والدین کو سنبھالا اور منگنی کے رشتے کو بحال کرا لیا۔ دراصل وہ اس بات پر خفا تھے کہ ان کا بیٹا شادی سے پہلے کیوں مجھ سے ملنے ہوسٹل جاتا ہے۔
عطا ایم بی اے ہونے کے باوجود بیروز گار تھا۔ اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ ان حالات کے پیش نظر والدین نے مجھے سمجھایا کہ اس لڑکے سے منگنی ختم کر دو، یہ کوئی کام نہیں کرے گا، لیکن مجھے عطا سے اور اُسے مجھ سے پیار ہو چکا تھتا اور ہمارے گھر والوں کو ہماری ملاقاتوں کا علم ہو چکا تھا، لہذا مجھ پر کافی سختی کی جاتی تھی، لیکن میں نے عطا کو دل سے نہ نکالا۔ خدا خدا کر کے اس کی کہیں جاب ہو گئی، تو اس کے والدین نے شادی کی تاریخ مانگی۔ میرے ابو نے جان چھڑانے کے لئے جلدی سے تاریخ دے دی۔ عطا کے والد کو اس بات پر افسوس تھا کہ لڑکی اور لڑکے نے شادی کی جلدی مچا رکھی ہے ، جب کہ ابھی تک عطا نے کچھ کمایا بھی نہیں ہے۔ کم از کم اتنا روپیہ تو کما لیتا جس سے ہم گھر میں اس کے لئے علیحدہ کمرہ بنوا لیتے ۔ خیر، ہماری شادی بڑی مشکلوں سے ہو گئی۔ ہم نے
شادی کے لئے اتنی مصیبت سہی کہ لکھ نہیں سکتی۔
سب کا خیال تھا کہ عطا ایک لا ابالی لڑکا ہے ، ضرور ناز کو شادی کے بعد چھوڑ دے گا لیکن ایسانہ ہوا، بلکہ اس نے میرا بہت زیادہ خیال رکھا۔ اسی دوران اس کی ملازمت ختم ہو گئی اور ہماری مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔خدا کا شکر ہے کہ بھاگ دوڑ کر کے اس نے دوبارہ ملازمت حاصل کر لی لیکن اس بار جاب خانیوال میں لگی تھی، اس نے مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہا لیکن اجازت نہ ملی تو یہ نوکری بھی چھوڑنی پڑی۔
ہماری شادی میں میرے والدین نے خوب خرچ کیا تھا، جہیز بھی دیا لیکن پھر جہیز اپنے گھر رکھ لیا کیونکہ عطا کے والد نے میرے لئے اپنے گھر میں کمرہ نہیں بنوایا تھا۔ میرے والدین کو اس بات کا غصہ تھا کہ ان لوگوں نے تو بس نام کی شادی کی تھی ، نہ بری نہ ابٹن ، مہندی، ولیمہ تک نہ کیا کیونکہ انہوں نے اس بات کو مسئلہ بنالیا کہ لڑکی، لڑکے سے شادی سے پہلے کیوں بات کرتی تھی۔ شادی ہو چکی تھی ، اب مجھے صبر سے کام لینا تھا۔ عطا کو بھی میں نے سمجھا دیا کہ تحمل سے کام لو۔ والدین آخر کار ٹھیک ہو جائیں گے۔ عطا کا کہنا تھا کے اسے کسی دشمن نے کالے علم کے ذریعے جکڑ لیا ہے۔
پہلے میں ماں تو ہمات پر یقین نہیں رکھتی تھی، لیکن عطا کی حالت دیکھ کر میں نے امی کی مدد سے ایک عالم سے رابطہ کیا۔ اس کے بعد میں پتا نہیں کہاں کہاں اس کے ساتھ عالموں کے پاس گئی۔ وہ جو علاج بتاتے ، کیے ، جب کہ جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی، رشتہ داروں نے بھی منہ موڑ لیا تھا، لیکن میں نے صبر اور ہمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا کیونکہ عطا ایک محبت کرنے والا شوہر ثابت ہوا تھا۔چھے ماہ تک اسے جاب نہ ملی، نوبت فاقوں تک آگئی۔ سسرال میں رہنے کو گھر نہ ملا تو کرایہ کا مکان تلاش کرنا پڑا۔ زیور و غیره سرال والوں نے واپس لے لیا تو ادھر میرے والدین نے بھی میرا ز یور اور جہیز اپنے پاس رکھ لیا۔ عرض میں ہر طرف سے محبور اور بے بس تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہم مکان کا کرایے کیسے دیں۔ والدین نے ہم دونوں کو آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ بہر حال عطا نے دوستوں سے ادھار لیا اور میں نے سہیلیوں سے مدد مانگی اور کرایہ ادا کیا۔
ہمارے پڑوسی نے میرے والدین کو فون کر کے بتایا کہ آپ کی بیٹی کے گھر فاقوں کی نوبت ہے اور آپ کا داماد بھی بے روز گار ہے۔ والدین نے مجھے فون کیا کہ تم ہمارے پاس اؤ لیکن میں نے انکار کر دیا کہ میں شوہر کو ان مصیبت کے دنوں میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔ جو میرا مقدر ہے جھیلوں گی لیکن وہ لوگ مجھے لینے آ گئے اور ابا جان نے میرا بیگ تیار کروا دیا۔ یوں وہ مجھے گھر لے گئے۔ والدین نے مجھے کہا کہ تم طلاق لے لو، مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ میں اپنے شوہر سے پیار کرتی تھی۔ وہ بھی مجھے چاہتے تھے۔
ہمارے پڑوسی نے میرے والدین کو فون کر کے بتایا کہ آپ کی بیٹی کے گھر فاقوں کی نوبت ہے اور آپ کا داماد بھی بے روز گار ہے۔ والدین نے مجھے فون کیا کہ تم ہمارے پاس اؤ لیکن میں نے انکار کر دیا کہ میں شوہر کو ان مصیبت کے دنوں میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔ جو میرا مقدر ہے جھیلوں گی لیکن وہ لوگ مجھے لینے آ گئے اور ابا جان نے میرا بیگ تیار کروا دیا۔ یوں وہ مجھے گھر لے گئے۔ والدین نے مجھے کہا کہ تم طلاق لے لو، مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ میں اپنے شوہر سے پیار کرتی تھی۔ وہ بھی مجھے چاہتے تھے۔
جب میں نہیں مانی تو انہوں نے عطا کو مجبور کیا کہ وہ طلاق لکھ دے اور مجھے کمرے میں بند کر دیا کہ کہیں یہ اپنے شوہر کے ساتھ چلی نہ جائے۔ عطا نے طلاق لکھنے سے انکار کر دیا اور مہلت مانگی۔ اب روزانہ علاقے کے بزرگ آکر منت سماجت کرتے کہ طلاق نہ لیں، میں بھی رو رو کر والد صاحب کو منانے کی کوشش کرتی۔ خدا نے میری سن لی، والدین کی کی عطا سے صلح ہو گئی۔ یہ ہم دونوں کی زندگی کا یاد گار دن تھا ، لیکن مصیبتیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں، یہ تو پچھلی مصیبتوں سے بھی زیادہ تھیں لیکن میں نہیں گھبرائی۔
اب ولن کا کردار سسر صاحب نے ادا کرنا تھا انہوں نے میرے آنے جانے پر پابندی لگادی کہ یہ عطا کے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔ اگر جانا ہے تو میرے گھر والوں کے ساتھ ، میری اجازت سے جائے گی۔ نہ اس کی ہنسی کی آواز آئے گی اور نہ زیادہ دیر تک کمرے کی لائٹ چلے گی، یہ فیشن کے کپڑے نہیں پہنے گی۔ ہمارے گھر کا سارا کام کرے گی۔ وہ میرے والد کی جگہ تھے لیکن میری خواہشوں کی راہ میں اتنی روکاوٹیں کھڑی کر دی تھی مجھے بہت دکھ ہوا، پھر بھی صبر کیا کہ سسرال میں رہنے کی جگہ تو ملی اور طلاق کے عذاب سے بھی بچ گئی۔ یہ صرف اس بات کی سزا تھی کہ منگنی کے بعد ہم نے ملاقاتیں کیوں کیں۔ دو وقت کا کھانا بھی سارا کام کرنے کی وجہ سے ملتا تھا۔ میں نے ایک اسکول میں ملازمت کرلی۔ عطا ابھی تک صحیح طرح سے برسر روز گار نہ تھے۔روزانہ سسر صاحب کی جھڑکیاں سنتی تھی، میرے شوہر اپنے والد کے سامنے بول نہ سکتے تھے۔ بیروز گار جو تھے ، مجبور تھے ، اس لئے ہم گھر چھوڑ کر بھی نہیں جاسکتے تھے۔
اب ولن کا کردار سسر صاحب نے ادا کرنا تھا انہوں نے میرے آنے جانے پر پابندی لگادی کہ یہ عطا کے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔ اگر جانا ہے تو میرے گھر والوں کے ساتھ ، میری اجازت سے جائے گی۔ نہ اس کی ہنسی کی آواز آئے گی اور نہ زیادہ دیر تک کمرے کی لائٹ چلے گی، یہ فیشن کے کپڑے نہیں پہنے گی۔ ہمارے گھر کا سارا کام کرے گی۔ وہ میرے والد کی جگہ تھے لیکن میری خواہشوں کی راہ میں اتنی روکاوٹیں کھڑی کر دی تھی مجھے بہت دکھ ہوا، پھر بھی صبر کیا کہ سسرال میں رہنے کی جگہ تو ملی اور طلاق کے عذاب سے بھی بچ گئی۔ یہ صرف اس بات کی سزا تھی کہ منگنی کے بعد ہم نے ملاقاتیں کیوں کیں۔ دو وقت کا کھانا بھی سارا کام کرنے کی وجہ سے ملتا تھا۔ میں نے ایک اسکول میں ملازمت کرلی۔ عطا ابھی تک صحیح طرح سے برسر روز گار نہ تھے۔روزانہ سسر صاحب کی جھڑکیاں سنتی تھی، میرے شوہر اپنے والد کے سامنے بول نہ سکتے تھے۔ بیروز گار جو تھے ، مجبور تھے ، اس لئے ہم گھر چھوڑ کر بھی نہیں جاسکتے تھے۔
بہر حال عطا نے چھوٹے موٹے کام کر کے کمرہ بنوا لیا اور میں نے والدین سے شادی کے ایک سال بعد اپنا جہیز منگوا لیا۔ ہم نے خدا پر بھروسہ کر کے صبر سے کام لیا۔ بس دعاؤں کا سہارا تھا اور پھر خدا نے اپنے محبور بندوں کی لاج رکھ لی۔ جلد ہی عطا کو ایک اچھے محکمے میں جاب مل گئی لیکن ملازمت حاصل کرنے کے لئے تین لاکھ کی ضرورت تھی۔ میں نے سُسر صاحب سے پیسوں کے لئے کہا تو انہوں نے مجھے اور عطا کو برا بھلا کہا۔ ان کی خفگی دیکھنے کے قابل تھی۔ مایوس ہو کر ہم نے جاننے والوں سے قرض لیا، میں نے زیور بیچا، پھر کہیں جا کر رقم پوری ہوئی۔ ایک سیاست دان کو تین لاکھ دے کر عطا نے ملازمت حاصل کی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ ان کی ترقی ہو گئی اور پھر ان کی آمدنی اتنی ہوئی کہ ہم نے سب کا قرض ادا کر دیا اور ہم خوش باش ہو گئے۔
آج سوچتی ہوں کہ پیسہ ایسی چیز ہے جو انسان کے پاس نہ ہو تو اپنے بھی منہ موڑ لیتے ہیں اور دولت ہو تو ہو تو غیر بھی اپنے ہو جانے ہیں۔ وہ لوگ جو کل میرے میاں سے منہ موڑتے تھے ، آج جھک جھک کر انہیں سلام کرتے ہیں۔ عطا نے مجھے زیور بھی بنوا دیا۔ خدا کے فضل سے اب میرے پاس پیسہ اور زیور سب کچھ ہے۔ عطا بر سر روزگار ہیں، اس وجہ سے سسر صاحب بھی کچھ نہیں کہتے، خاموش رہتے ہیں۔ میں اپنے سسر صاحب کی خدمت کرتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ برے دنوں میں غصہ کرنا ان کا فعل تھا اور خدمت کرنا میرا فرض ہے۔ ہم اب بھی اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں اور ان کی مالی مدد کرتے ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ آج میں بہت خوشحال اور خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں، بہت خوش ہوں۔
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے بڑے دنوں میں عطا کا ساتھ دیا۔ اپنے خاوند کو مصیبت میں تنہا نہیں چھوڑا ہمیشہ اپنے شوہر کے دُکھ سکھ کی ساتھی رہی اور آئندہ بھی رہوں گی۔ خدا کرے ان کی زندگی میں کوئی دکھ نہ آئے اور اپنے جیون ساتھی کا سایہ مجھ پر سلامت رہے۔ اللہ پر بھروسہ کرنے سے خدا بھی بندوں کی مدد کرتا ہے۔ آج سارا خاندان میرے صبر اور ایثار کی مثال دیتا ہے۔ خدا نخواستہ اگر طلاق لے لیتی تو کیا ہوتا ؟ سسرال والے اسی وجہ سے مجھے وفا کی دیوی کہتے ہیں۔
آج سوچتی ہوں کہ پیسہ ایسی چیز ہے جو انسان کے پاس نہ ہو تو اپنے بھی منہ موڑ لیتے ہیں اور دولت ہو تو ہو تو غیر بھی اپنے ہو جانے ہیں۔ وہ لوگ جو کل میرے میاں سے منہ موڑتے تھے ، آج جھک جھک کر انہیں سلام کرتے ہیں۔ عطا نے مجھے زیور بھی بنوا دیا۔ خدا کے فضل سے اب میرے پاس پیسہ اور زیور سب کچھ ہے۔ عطا بر سر روزگار ہیں، اس وجہ سے سسر صاحب بھی کچھ نہیں کہتے، خاموش رہتے ہیں۔ میں اپنے سسر صاحب کی خدمت کرتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ برے دنوں میں غصہ کرنا ان کا فعل تھا اور خدمت کرنا میرا فرض ہے۔ ہم اب بھی اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں اور ان کی مالی مدد کرتے ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ آج میں بہت خوشحال اور خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں، بہت خوش ہوں۔
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے بڑے دنوں میں عطا کا ساتھ دیا۔ اپنے خاوند کو مصیبت میں تنہا نہیں چھوڑا ہمیشہ اپنے شوہر کے دُکھ سکھ کی ساتھی رہی اور آئندہ بھی رہوں گی۔ خدا کرے ان کی زندگی میں کوئی دکھ نہ آئے اور اپنے جیون ساتھی کا سایہ مجھ پر سلامت رہے۔ اللہ پر بھروسہ کرنے سے خدا بھی بندوں کی مدد کرتا ہے۔ آج سارا خاندان میرے صبر اور ایثار کی مثال دیتا ہے۔ خدا نخواستہ اگر طلاق لے لیتی تو کیا ہوتا ؟ سسرال والے اسی وجہ سے مجھے وفا کی دیوی کہتے ہیں۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے