لیکن الہیٰ بخش کی کہانی اب بھی ختم نہیں ہوئی تھی!
چوتھے دن تینوں بیٹوں نے ماں کے سامنے وہ بکس کھولا جسے الہیٰ بخش بہت عزیز رکھتا تھا- کسی کوچھونے نہیں دیتا تھا- بکس کھلنے کے بعد وہ سب حیران کھڑے تھے- بکس میں زیادہ چیزیں نہیں تھیں- سب سے اوپر ایک پھول دار کاغذ اور ایک چھوٹا سا کارڈ تھا- کارڈ پر بہت خوبصورت تحریر میں لکھا تھا ----
"الہیٰ بخش کے لئے سالگرہ کی دلی مبارکباد اور نیک خوائشات اور خلوص و محبت کے ساتھ-
سادی "
پھول دار کاغذ کے نیچے پیکٹ تھا- مزمل نے پیکٹ کو کھولا تو گتے کی پیکنگ نمودار ہوئی- پیکنگ میں ہلکے نیلے رنگ کی خوبصورت شیشی نکلی، جس میں زرد سیال بھرا ہوا تھا- یقیناٰ وہ کوئی خوشبو تھی ----- باہر کی خوشبو-
مزمل نے بلا ارادہ اسپرے کیا- خوشبو کی پھوار نکلی اور خوشبو ہر طرف پھیلنے لگی- وہ بہت پیاری خوشبو تھی-
دونوں بھائیوں نے چونک کر دیکھا تو مزمل کھسیا گیا- مگر خوشبو پر اس کا اختیار نہیں تھا- وہ تو اب پھیل رہی تھی-
"یہ کیا ہے؟" حاجرہ نے مدثر سے پوچھا-
"خوشبو ہے اماں، ابا کے کسی دوست نے کبھی انہیں تحفہ دیا تھا"
تینوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں طے کیا کہ وہ ماں کو حقیقت کبھی نہیں بتائیں گے- تینوں اپنی اپنی جگہ سادی کے بارے میں سوچ رہے تھے- کیسا عجیب نام ہے ------ سادی! اس سادی سے ابا کا کیا تعلق ہو گا- یہ کب کی بات ہے------ کہاں کی بات ہے؟
خوشبو کے نیچے ایک پینٹ اور شرٹ تھی- جوتے تھے جس میں جرابیں تھیں- کپڑے نالکل نئے لگ رہا تھت- الہیٰ بخش نے ہمیشہ اس بکس کا بہت خیال رکھا تھا-باقاعدگی سے فنائل کی گولیاں ڈالا کرتا تھا-
سب حیرت سے ان چیزوں کو دیکھتے رہے- یہ طے تھا کہ کپڑے ایک بار بھی نہیں دھلے تھے- بیٹے سوچ رہے تھے ---- ابا نے یہ کپڑے پہنے ہوں گے- جانے کیا عمر ہو گی اس وقت ان کی ---- کیسے لگ رہے ہوں گے انہیں پہن کر- وہ تصور میں باپ کو یہ کپڑے پہنے دیکھنے لگے-
حاجرہ بھی یہی سب دیکھ اور سوچ رہی تھی-
وہ سب وقت کے طلسم کے اسیر تھے- وقت ہی اس طلسم کو توڑ سکتا تھا اور وقت نے ہی توڑا-
دروازے پر دستک نے ان سب کو چونکا دیا- مدثر نے کہا " میں دیکھتا ہوں"
اس نے جا کر دروازہ کھولا- سامنے ایک موٹر سائیکل کھڑی تھی- موٹر سائیکل سوار وردی پہنے ہوئے تھا- اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا "الہیٰ بخش صاحب یہیں رہتے ہیں؟" اس نے پوچھا-
"جی ---- کیا بات ہے؟"
"یہ پیکٹ ہے ان کے نام"
"کہاں سے آیا ہے؟"
"کراچی سے، آپ الہیٰ بخش صاحب کو بلا دیں "
"وہ تو نہیں آ سکتے" مدثر نے اداسی سے کہا-
"تو ان سے رسید پر دستخط کرا دٰیں"
"تین دن پہلے ابا کا انتقال ہو چکاہے"
کورئیر کو شاک لگا- وہ وہیں دعا کے لئے بیٹھ گیا- پھر اس نے کہا "مجھے بہت افسوس ہے جناب، آپ اس رسید پر دستخط کر دیں"
مدثر نے دستخط کئے اور پیکٹ لے کر گھر میں آ گیا-
گھر میں اس پر بحث شروع ہوئی کہ پیکٹ کھولا جائے یا نہیں- پیکٹ پر بھیجنے والے کا نام پتا موجود تھا- وہ آفتاب نامی کسی ایڈوکیٹ نے بھیجا تھا- ان میں سے کوئی بھی اسے نہیں جانتا تھا- آخر مزمل نے کہا "ابا نے کہا تھا میرے معاملے میں باجی سے مشورہ کرنا- ہمیں یہ پیکٹ لے کر باجی کے ہاں چلنا چاہیئے"
اس پر دوسرے دونوں بھائی بھی متفق ہو گئے- حاجرہ کو تو کسی معاملے سے دلچسپی نہیں تھی- وہ بس گم صم بیٹھی تھی-
تینوں بھائی پیکٹ لے کر شاہ فرید کے گھر پہنچے- شاہ صاحب نے انہیں عزت سے بٹھایا "کیا بات ہے بالکو؟"
"باجی، ابا کے نام یہ پیکٹ آیا ہے- ہمیں اسے کھولنا چاہیئے یا نہیں- ہم یہ آپ کے پاس لے آئے ہیں" مدثر نے کہا اور پیکٹ شاہ صاحب کی طرف بڑھا دیا-
شاہ صاحب نے پیکٹ لے لیا- ان کے کانوں میں الہیٰ بخش کی کہی ایک بات گونج گئی- اس نے کہا تھا ------ میں اپنے بچوں کو اپنے بارے میں سب کچھ بتانا چاہتا ہوں- کچھ چھپانا نہیں چاہتا ان سے لیکن مجھے بتانا نہیں آتا- کیسے بتاؤں -----
شاہ صاحب نے سوچا، ممکن ہے یہ پیکٹ ہی بچوں کو باپ کے بارے میں کچھ بتانے والا ہو "تم لوگ اسے کھول لو" انہوں نے کہا-
"باجی آپ ہی کھول کر دیکھ لیں- پھر فیصلہ بھی آپ ہی کریں گے کہ اس کا کیا کیا جائے- ابا نے ہمیں یہی ہدایت کی تھی-" مبشر نے کہا-
شاہ فرید نے بڑی احتیاط سے لفافہ چاک کیا- اندر سے ایک خط اور ایک ایک لفافہ نکلا- انہوں نے خط پڑھا-
"الہیٰ صاحب!
آپ کو حیرت ہو گی کیونکہ آپ مجھ سے واقف نہیں- میں بھی آپ سے واقف نہیں ہوں- میں اپنا تعارف کرا دوں- میرا نام آفتاب حسین ہے اور میں وکیل ہوں- گزشتہ بیس سال سے میں اپنی موکلہ محترمہ سعدیہ بیگم کے مالی اور کاروباری امور کا نگراں ہوں- کوئی چھ ماہ پہلے بیگم صاحبہ نے مجھے طلب کر کے ایک خط اور آپ کا پتہ دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ ان کی موت کے بعد میں یہ خط آپ کو پوسٹ کر دوں-
آپ کو یہ جان کر دکھ ہو گا کہ ابھی چند روز پہلے دس ذی الحجہ کو شام چھ بجے محترمہ سعدیہ بیگم کا انتقال ہو گیا- ان کی ہدایت کے مطابق آپ کی یہ امانت کورئیر سروس کے ذریعے آپ کو ارسال کر رہا ہوں-
کار لائقہ سے یاد فرمائیے گا-
وسلام-
خلوص کیش
آفتاب حسین- ایڈوکیٹ
شاہ فرید خط پڑھنے کے بعد چند لمحے سوچ میں ڈوبے رہے- پھر انہوں نے خط مدثر کی طرف بڑھا دیا- تینوں بھائیوں نے مل کر وہ خط پڑھا اور شاہ صاحب کو سوالیہ نظروں سے دیکھا-
"میرا خیال ہے یہ ذاتی نوعیت کا خط ہے- تمہیں یہ خط پڑھ لینا چاہیئے" شاہ صاحب نے کہا-
تینوں لڑکوں نے نفی میں سر ہلایا-
"الہیٰ بخش تمہارے سامنے اپنی پوری زندگی کھول کر رکھنا چاہتا تھا- یہ بات اس نے خود مجھ سے کہی تھی- لیکن وہ بے بسی محسوس کرتا تھا، کچھ نہ بتا سکا- شاید یہ تمہارے لئے موقع ہے کہ تم اپنے باپ کے بارے میں جان سکو- اسے سمجھ سکو- یہ خط کھول لو- تمہیں یہ حق حاصل ہے-" شاہ صاحب نے کہا-
تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تینوں متفق تھے- مدثر نے کہا " باجی، اپنے معاملات کے لئے اابا نے آپ کو نامزد کیا تھا- آپ یہ خط کھول لیں اور پڑھیں- پھر مناسب سمجھیں تو ہمیں بھی پڑھنے کی اجازت دے دیں-'
شاہ فرید چند لمحے ہچکچائے پھر انہوں نے دوسرا لفافہ چاک کیا اور خط نکال لیا- ان کے ہاتھوں میں لرزش تھی اور دل کانپ رہا تھا- وہ مرنے والے کی ذاتی زندگی میں داحل ہونے والے تھے- کون جانے، اس میں کیسے کیسے راز ہوں-
چھلکتی آنکھوں سے انہوں نے خط پڑھنا شروع کیا-------
چھلکتی آنکھوں سے انہوں نے خط پڑھنا شروع کیا-
---------------------*-----------------------
عزیز دوست!
اسلام وعلیکم
مجھے بھول گئے ہو- عرصہ بھی تو اتنا بیت گیا- تیسری دہائی گزری جا رہی ہے- درمیان میں کئی بار تمہیں خط لکھنے کو جی چاہا لیکن سوچا کہ وہ مقصد ہی فوت ہو جائے گا جس کے لئے اتنی اذیت سہی ہے، حالانکہ جانتی تھی کہ وہ مقصد کبھی پورا نہیں ہوا-
یہ خط تمہیں ملے گا تو میں اس دنیا میں نہیں ہوں گی- شرم آتی تھی اس لئے یہ شرط رکھی کہ یہ خط میرے مرنے کے بعد تمہیں پوسٹ کیا جائے- میری ایک بہت بڑی غرض تم سے وابستہ ہے- وہ غرض نہ ہوتی تو میں شاید اب بھی تمہیں خط نہ لکھتی- اس غرض کے لئے ہی یہ ضروری تھا کہ تمہیں سب کچھ بتاؤں کہ تا کہ تم میری غرض پوری کر سکو-
اس خط میں کچھ اعترافات ہیں اور کچھ انکشافات- اس یقین کے ساتھ پڑھنا کہ ایک ایک لفظ سچ ہے، کوئی مرنے والا جھوٹ نہیں بولتا نا- میں بھی سب کچھ سچ لکھ رہی ہوں- بے حجاب ہو کر لکھ رہی ہوں- برا لگے تو مجبور سمجھ کر معاف کر دینا لیکن میری غرض پوری کر دینا-
میں اس دوپہر کو کبھی نہیں بھولی جب طارق روڈ کت فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ایک رنگ ساز کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا- آج اعتراف کر رہی ہوں کہ مجھے پہلی نظر میں ہی تم سے محبت ہو گئی تھی-میں اس وقت بہت کم عمر تھی- مجھے نہیں معلوم تھا کہ مقام اور مرتبے کا فرق کتنا بڑا فرق ہوتا ہے- پھر بھی میں نے اس محبت کی نفی کی، اس کا مزاق اڑایا- میں اس طرف نہیں گئی- میں نہیں چاہتی تھی کہ بات آگے بڑھے- اس کے باوجود مجھ سے نہیں رہا گیا- میں ایک بار اور گئی اور تمہیں دیکھا- یوں کہ تمہیں پتا بھی نہیں چلا ہو گا-
پھر قسمت تمہیں میرے گھر محسن بنا کر لے آئی- تم نے میرے چھوٹے بھائی کی جان بچائی تھی- اللہ جنت نصیب فرمائے، میرے پاپا بہت اچھے انسان تھے- محسنوں کی عزت کرتے تھے- انہوں نے تمہیں پرکھا اور پھر میرا ہی ڈرائیور بنا دیا- اب میں کیا کرتی- فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کر دیا تھا کہ مجھے تم سے محبت کرنی ہے-
میں پہلی ہی نظر سے جانتی تھی کہ تم بھی پہلی ہی نظر سے مجھ سے محبت کرنے لگے ہو- تم مجھے کالج لے جانے اور لانے لگے تو میری آنکھیں خواب دیکھنے لگیں- میں اپنی عمر سے بڑی اور سمجھدار ہوتی گئی- میں نے سوچا تمہیں ڈرائیوری چھوڑ کر دفتری کام کی طرف راغب کروں گی- پاپا اس سلسلے میں بخوشی کام آتے- تم مزید تعلیم حاصل کرتے اور شاید کسی دن تمہارے پاس وہ سب کچھ ہوتا جو پاپا کے پاس تھا- میں نے اللہ کی نوازاشات دیکھی ہیں- میرے پاپا بھی غربت ہی سے یہاں تک پہنچے تھے- تو یہ سب کچھ سوچا تھا میں نے!
لیکن اس سلسلےمیں تم سے ہونے والی گفتگو نے میری آنکھیں کھول دیں- مجھے پتا چل گیا کہ حقیقت پسندی کیاہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں- تم جو تھے وہی رہنا چاہتے تھے- اب میں سوچتی ہوں کہ یہ درست ہے- آدمی کو وہی رہنا چاہیئے جو وہ ہے- تم میری خاطر سمجھوتے تو نہیں کر سکتے تھے- تمہیں مجھ سے محبت تھی تو اس لئے کہ تم اس محبت پر مجبور تھے- پھر میری سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ تم نے مجھے پانے کا کبھی سوچا بھی نہیں- تم مجھے پانا ہی نہیں چاہتے- تمہاری محبت بے غرض اور بہت بلند ہے-
یاد ہے تم نے مجھ سے کہا تھا، نیچے سے اوپرجانا مشکل ہے- ہاں اوپر سے نیچے آنا آسان ہے- اور یہ بھی کہ کیا اوپر ہے اور کیا نیچے، یہ تو اپنا اپنا نقطہ نظر ہے- میں تمہاری خاطر سمجھوتے کر سکتی تھی- نیچے آ سکتی تھی- میں بانڈہ بٹنگ میں دال چاول چنتے چارہ بناتے، اپلے تھاپتے زندگی گزار سکتی تھی لیکن عزت جاتی رہتی- میں بغاوت کرتی تو والدیں کی بھی جاتی اور میں تمہارے گھر میں بھی عزت کی مستحق نہ ہوتی-
میں اعتراف کر رہی ہوں کہ محبت تو مجھے ہو گئی تھی-لیکن محبت کیسے کی جانی چاہیئے، یہ میں نے تم سے سیکھا – مگر میرے اور تمہارے انداز میں ایک بڑا فرق تھا- تم محبت کئے جاتے تھے لیکن تمہیں میرے جذبات اور محسوسات سے کوئی غرض نہیں تھی- محبت مجھ پر کیسے اثر انداز ہو گی، یہ تم نے کبھی نہیں سوچا جبکہ مجھے تمہاری فکر تھی- میں نے یہ محسوس کیا کہ شہر اور شہر کے لوگوں، بالخصوص خواتین کے بارے میں تمہارے نظریات اور طرح کے ہیں- تمہارے میں وہاں حیا اور آبرو کی کوئی اہمیت نہیں- یہ غلط تھا اور غلط ہے، میں تمہیں سمجھا سکتی تھی لیکن نہیں، مجھے تو تمہارے نظریات کی اس خامی سے فائدہ اٹھانا تھا-
چنانچہ میں نے تمہارے لئے شاہد کا ہوا تخلیق کر ڈالا- میری سوچ یہ تھی کہ یا تو تم رقابت میں مبتلا ہو کر میرے تجویز کردہ سمجھوتے کو قبول کر لو گے یا پھر مجھے برا سمجھ کت میری محبت چھوڑ دو گے اور نفرت کرنے لگو گے- اب سوچتی ہوں کہ میرا سوچنے کا انداز بچگانہ تھا- دونوں میں سے ایک بات بھی نہ ہوئی- ہاں شاید شہر اور شہریوں کے بارے میں تمہارا نظریہ اور پختہ ہو گیا-
میں اس کے بعد پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی اور نہیں ہٹی- یونیورسٹی میں ہر روز تمہارے لئے اپنی آوارگی کے ثبوت فراہم کرتی رہی- لیکن تمہارا کچھ نہیں بگڑا، البتہ عشق کا مفہوم مجھ پر واضح ہوتا چلا گیا-
میں نے کئی بار سوچا کہ پاپا سے بات کروں- میں جانتی تھی کہ پاپا دشواری سے سہی، میری بات سمجھ اور مان لیں گے، اس لئے کہ ان کے لئے میری خوشی اہم تھی- لیکن مسئلہ امی کا تھا- امی ابتدا ہی سے چڑتی تھیں اور ان کا چڑنا بے سبب نہیں تھا- بیٹی کو ماں سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا- ماں، بیٹی کی ہر نظر ہر لہجہ اور ہر خوائش پہچانتی ہے- ہمارے درمیان کبھی اس موضوع پر اشارتاٰ بھی بات نہیں ہوئی- لیکن مجھے یقین ہے کہ امی نے مجھے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا ----- اسی دن جب میں نے طارق روڈ پر پہلی بار تمہیں دیکھا تھا، امی میرے ساتھ تھیں- شاید امی نے جبھی سمجھ لیا تھا اور پھر تم ہمارے گھر آ گئے اور میرا تمہارا ساتھ رہنے لگا- امی کھل کر کچھ کہہ نہیں سکتی تھیں- تو وہ تم سے نفرت کے سوا اور کیا کرتیں-
تم نہیں جانتے الہیٰ بخش میں نے کتنی کرب ناک راتیں نیند سے محروم گزاری ہیں- آدمی اچھا ہو اور خود کو بدترین ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہو تو وہ کیسے کرب سے دوچار ہو سکتا ہے- پھر اس کا نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلا رہا تھا- میری صحت تباہ ہونے لگی-
پھر وہ واقعہ پیش آ گیا جب امی نے تم پر چوری کا الزام لگایا- اس روز میرے غم و غصے کی کوئی حد نہیں تھی- لیکن میں چھوٹی تھی- امی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی- میں جانتی تھی کہ تم کتنے سچے اور خود دار آدمی ہو- مجھے یقین تھا کہ تم ملازمت چھوڑ دو گے- لیکن پھر مجھے اندازہ ہوا کہ تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے- میں نے سمجھ لیا کہ تم یونہی مجھ سے بے لوث محبت کرتے ، میری خدمت کرتے پوری زندگی گزار سکتے ، یعنی ضائع کر سکتے ہو- اور اتنا اچھا آدمی ایسے انجام کا مستحق نہیں ہوتا- پھر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ امی اب روز کسی نہ کسی بہانے تمہیں ذلیل کریں گی اور تم میری محبت کی خاطر اسے سہہ لو گے- سہتے سہتے عزت نفس سے محروم ہو جاؤ گے- تمہاری خوبصورت روح کچلی جائے گی، یہ مجھے گوارا نہیں تھا- میں تمہیں ویسا ہی خوبصورت پھلتا پھولتا اور کامیاب انسان دیکھنا چاہتی تھی- میں نے فیصلہ کیا کہ اب تمہارے جانے کا وقت آ گیا ہے- وہ بہت تکلیف دہ فیصلہ تھا اور وہ نتیجہ حاصل کرنے کا جو طریقہ میں نے اپنایا، وہ اور زیادہ اذیت ناک تھا- اس روز میں نے خود کو تمہارے آگے بالکل گرا لیا- خود کو ذلیل کر لیا میں نے- مگر مجھے طمانیت یہ تھی کہ اب تم مجھ سے محبت ترک کر دو گے- گھر جاؤ گے، شادی کرو گے اور اچھی زندگی گزارو گے- اپنی اولاد کی تربیت اچھی طرح کرو گے-
میری اس حرکت نے تمہیں جانے پر مجبور کر دیا- تم جا رہے تھے تو میں تمہیں کھڑکی سے دیکھ رہی تھی- میری آنکھیں برس رہی تھیں لیکن دل میں اذیت میں لپٹی ایک خوشی تھی کہ میں تمہارے کام آئی- میں نے محبت کا حق ادا کر دیا.
میری اس حرکت نے تمہیں جانے پر مجبور کر دیا- تم جا رہے تھے تو میں تمہیں کھڑکی سے دیکھ رہی تھی- میری آنکھیں برس رہی تھیں لیکن دل میں اذیت میں لپٹی ایک خوشی تھی کہ میں تمہارے کام آئی- میں نے محبت کا حق ادا کر دیا-----
صبح پاپا اور امی کو پتا چلا کہ تم چلے گئے ہو- پاپا نے کہا ---- کیوں- میں نے تو اس سے معافی مانگی تھی اور اس نے کہا ہی نہیں تھا کہ وہ جا رہا ہے- وہ ایسے بغیر بتائے جانے والا تو نہیں- پاپا کی بات ٹھیک تھی- وجہ میں جانتی تھی لیکن بتا نہیں سکتی تھی- میں نے امی سے کہا پورا گھر چیک کر لیں، کہیں وہ کچھ چرا کر تو نہیں لے گیا- امی نے کچھ نہیں- وہ شرمندہ ہو کر رہ گئیں-
پاپا کو تم سے کتنی انسیت تھی اس کا تم اندازہ نہیں کر سکتے- میرے لئے کبھی کوئی ڈرائیور نہیں رکھا گیا- بلکہ پاپا نے میری وہ کار ہی فروخت کر دی- تماہرے اس کوارٹر میں کبھی کوئی نہیں رہا-
میں اگلے ہی روز تمہارے کوارٹر میں گئی- مجھے امید تھی کہ نفرت کہ وجہ سے تم میری دی ہوئی چیزیں چھوڑ گئے ہو گے- لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا ------ سوائے ایک پرانی قمیض کے- مجھے مایوسی ہوئی لیکن میں نے سوچا، میں نے حرکتیں ہی ایسی کی ہیں کہ تھوڑے دنوں میں تم مجھے بھلا کر نئی زندگی شروع کر دو گے- تمہاری پرانی قمیض میں اپنے ساتھ لے آئی کہ اس میں تمہاری خوشبو بسی تھی- وہ قمیض آج بھی میرے پاس موجود ہے- وقت گزرتا گیا- تعلیم مکمل کر کے میں نے پاپا کے کاروبار میں دلچسپی لی- سب کچھ سنبھالنے لگی- پھر یکے بعد دیگرے پاپا اور مجھے چھوڑ گئے- اظہر شادی کر کے علیحدہ ہو گیا- میں اکیلی رہ گئی، لیکن میں بہت خوش تھی-
میں اکثر تمہارے کوارٹر میں چلی جاتی- کبھی کبھی گھنٹوں وہاں بیٹھی رہتی- ملازمہ ہر روز کوارٹر کی صفائی کرتی تھی- شام کو وہاں روشنی کر دی جاتی- وہاں میں نے کبھی اندھیرا نہیں رہنے دیا- اس کوارٹر کو میں نے کبھی غیر آباد نہیں رہنے دیا-
میں خوش تھی کہ تم شہری بدکردار اور آوارہ سادی کو بھول گئے ہو گے- مگر پھر میری غلط فہمی دور ہو گئی- ایک رات میری آنکھ کھلی اور مجھے احساس ہوا کہ تم مجھے یاد کر رہے ہو- میں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں- اس کے بعد ہر رات پچھلے پہر یہی ہونے لگا- میری آنکھ کھلتی اور میں تمہارے کوارٹر میں چلی جاتی- تم سے باتیں کرتے کرتے وہیں سو جاتی-
اب سے کوئی تین ساڑھے تین سال پہلے مجھے صاف لگا کہ یہ ناتا ٹوٹ گیا ہے- پھر مجھے کبھی تمہاری یاد نہیں آئی- مجھے کبھی کسی نے نہیں جگایا- وہ بڑی محرومی تھی لیکن نجانے کیوں مجھے یہ اطمینان تھا کہ تم مجھ سے خفا نہیں ہو- تب میں مطالعے کی طرف راغب ہو گئی- یوں ایک دن بڑا مسئلہ حل ہو گیا- تمہیں یاد ہے، پہلی بارش کے وہ شعر ہماری سمجھ میں نہیں آئے تھے------
میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا
میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے
بار امانت سر پہ لیا تھا
سوچتے سوچتے یہ تو میری سمجھ میں آ گیا کہ انسان کی پیشانی میں اسم اللہ کا نور رکھا گیا ہے- سجدہ اسی کو کرایا گیا تھا- دوسرا شعر عجیب طرح سے سمجھ میں آیا-
میں جن حالات سے گزری تھی، ان میں آدمی جبر اور قدر کے فلسلفے میں الجھ ہی جاتا ہے- میں سوچتی کیا میں چاہتی تو تم سے شادی کر سکتی تھی- کیا یہ میرے اختیار میں تھا- تمہاری محبت تو مجھے زبردستی سونپی گئی تھی- میں نے بالااردہ تو تم سے محبت نہیں کی تھی- میں سوچتی کیا میں مجبور نہیں ہوں- یا مجھے اختیار ہے- اگر میں محض مجبور ہوں تو پھر سزا کیسی اور جزا کیوں- اس سلسلے میں، میں مطالعہ کرتی رہی- ایک دن مولانا ابو الا سے مودودی کی کتاب جبر و قدر پڑھ رہی تھی کہ ٹھٹک گئی- لکھا تھا ----- انسان کی عظمت اس میں بھی ہے کہ اس نے اللہ کی ایک عظیم امانت کا بوجھ اٹھایا ----
شاہ فرید پڑھتے پڑھتے رک گئے- ان کے کانوں میں الہیٰ بخش کی آواز گونجی ---- االہ جی نے پکارا ---- ہے کوئی جو میری ایک امانت کا بوجھ اٹھائے- یہ سن کر سمندر کی سانسیں ٹوٹنے لگیں- پہاڑ ہیبت سے لرزنے لگی- پوری کائنات پر لرزہ طاری ہو گیا------
شاہ صاحب حیرت سے خط پڑھتے گئے- لفظوں کا فرق تھا- خط میں بھی وہی کچھ لکھا تھا جو الہی بخش نے کہا تھا- وہ دوبارہ خط پڑھتے چلے گئے-
یوں میں سمجھ میں ناصر کاظمی کا وہ شعر آگیا- یقین ہے کہ تم بھی سمجھ چکے ہو گے- پھر بھی یہ سب لکھ دیا ہے کہ تم سے تعلق کی وجہ سے ضروری تھا- یہی ایک چیز تو تم سے شئیر کر سکتی ہوں---
اب میں اپنی غرج بھی بیان کر دوں جس نے یہ خط لکھوایا ہے- میرے نزدیک تم بہت بڑے انسان تھے---- بڑے مقام والے پھر بھی میں نے ہمیشہ تمہارے لئے دعا کرتی رہی کہ اللہ تمہیں بڑا مرتبہ عطا فرمائے----- آخرت میں بڑا مقام- مجھے اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا اور ایسا ہوا تو تم جنت میں جاؤ گے- جنت میں تم اپنی مرضی کا ساتھی بھی مانگ سکتے ہو- میری التجا ہے کہ اس موقع پر تم رب کریم سے مجھے طلب کر لینا----- اپنی سادی کو-
یقین کرو، اس خوائش کی وجہ سے ہی میں نے شادی نہیں کی کہ کہیں اور پابند ہو جاؤں گی- دنیا میں اونچ نیچ ہے- تفریق ہے، اس لئے ہم نہیں مل سکے- تو وہاں تو مل سکتے ہیں جہاں یہ جھگڑے نہیں ہوں گے، نہ کوئی شہری ہو گا نہ کوئی دیہاتی- میں نے شادی نہیں کی- سو اب تم اللہ کے حضور مجھے طلب کر سکتے ہو-
میں شہری عورت ہوں- وفا کا دعوی ہے نہ حیا کا- لیکن اللہ کی پاکی کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ مجھے کبھی کسی مرد نے چھوا تک نہیں- اس لمس کےس وا میرے جسم پر کوئی داغ نہیں جو اس آخری رات تم سے لپٹنے کا نتیجہہے- اللہ نیتوں کا حال جانتا ہے- وہ بھی میں نے خوائش کے تحت نہیں کیا تھا- صرف تمہیں بھگانا مقصود تھا اور اس پر بھی اللہ سے توبہ کرتی رہی ہوں اور یقین ہے کہ میری توبہ قبول کر لی گئی ہے- میں بے داغ ہوں الہیٰ بخش!
اب میں اس دنیا میں نہیں، مجھے امید ہے کہ تم میری آخری خوائش وقت آنے پر ضرور پوری کرو گے- میں تو اب بس تمہارا انتظار کروں گی- میری ہر غلطی کو معاف کر دینا-
فی امان اللہ
فقط
تمہاری اور صرف تمہاری سادی!
---------------------٭--------------------
شاہ صاحب شل ہو رہے تھے- ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے- ان کی سمجھ میں سب کچھ آگیا تھا---- وہ بھی جو انہوں نے نہیں دیکھا تھا اور جو وہ نہیں جانتے تھے- دیر تک وہ ساکت بیٹھے رہے- آنکھوں سے آنسو بہتے رہے-
پھر انہوں نے لرزتے ہاتھوں سے وہ خط مدثر کی طرف بڑھا دیا "یہ بھی پڑھ لو بالکو، تمہارا باپ تمہیں اپنی زندگی دکھانا چاہتا تھا- اللہ نے اس کی یہ خوائش بھی پوری کر دی"
تینوں لڑکے خط پڑھنے لگے-
بانڈہ بٹنگ کے جلاہے عاشق الہیٰ بخش کی کہانی اختتا م کو پہنچ گئی تھی-
----------------------٭-----------------------
لیکن نہیں- الہیٰ بخش کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی!
لیکن نہیں- الہیٰ بخش کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی!
الہیٰ بخش کی وفات کو دو ماہ ہوئے ہوں گے کہ حاجی نیاز محمد، شاہ فرید سے ملنے ان کے گھر آئے- انہوں نے اس بار حج کی سعادت حاصل کی تھی- انہوں نے شاہ فرید کو کھجور اور آب زم زم کا تحفہ پیش کیا اور ایک تسبیح بھی دی-
دونوں باتیں کرتے رہے پھر حاجی نیاز محمد نے کہا "سنا ہے الہیٰ بخش فوت ہو گیا"
"ہاں بھئی موت تو سب کے لئے ہے- اللہ جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے- بہت نیک آدمی تھا" شاہ صاحب بولے-
"اس کے ہاں دعا کرنے چلیں گے"
"ضرور کیوں نہیں"
"دراصل اس کی ایک امانت ہے میرے پاس" حاجی صاحب نے وضاحت کی-"حج سے واپسی پر مجھے کراچی میں رکنا پڑ گیا تھا- یہاں آنے میں دیر ہو گئی"
دونوں بانڈہ بٹنگ کے لئے نکل کھڑے ہوئے-
شام کا وقت تھا- الہیٰ بخش کے تینوں بیٹے گھر میں موجود تھے- دعا ہوئی، پھر حاجی نیاز محمد نے وہ تھیلا کھولا جو ان کے ہاتھ میں تھا- "میرے پاس الہیٰ بخش کی کچھ امانتیں ہیں" انہوں نے کہا "ایک تو الہیٰ بخش کی اپنی ہے اور باقی آپ گھر والوں کے لئے"
لڑکے حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے-
قسط وار کہانیاں |
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے