حاجی صاحب نے زم زم کی پانچ شیشیاں، کجھوریں، تین ٹوپیاں، پانچ تسبیحیں اور ایک جاہ نماز دی- "یہ زم زم کی ایک شیشی ایک تسبیح آپ پانچوں کے لئے ہے، میرا مطلب ہے تم تینوں کے اور تمہاری والدہ اور ہمشیرہ کےلئے- ٹوپی ایک ایک تم تینوں کے لئے ہے اور جاہ نماز تمہاری ماں کے لئے ہے- الہیٰ بخش نے یہی کہا تھا مجھ سے"
مدثر نے تمام چیزیں لے لیں- "جزاک اللہ فی الدین حاجی صاحب!"
حاجی صاحب نے پھر تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور اس بار ایک بڑا رومال اور دعاؤن کی ایک چھوٹی سی کتاب نکالی- "اور یہ ہیں الہیٰ بخش کی امانتیں"
"یہ ابا نے کب دیں آپ کو؟"
"حج کےبعد' حاجی نیاز محمد نے کہا- "روضہ رسول ﷺ کے سامنے اس سے ملاقات ہوئی- میں نے اس سے خیریت پوچھی- وہ کہنے لگا ---- طبعیت ٹھیک نہیں ہے نیاز محمد- میں نے اس سے پوچھا ----- یہ تمہارے ہاتھ میں کہا ہے الہیٰ بخش ، اس نے دکھایا، دعاؤں کی یہ کتاب اس رومال میں لُپٹی ہوئی تھی- میں نے کہا، یہ مجھے دے دو، اس نے یہ دونوں چیزیں مجھے دے دیں- پھر بولا ----- نیاز محمد میرا ایک کام کرو گے- اس نے مجھ سے یہ تمام چیزیں گھر لانے کی فرمائش کی- تم لوگوں کے نام لے کر کہا کہ کس کے لئے کیا کیا لے جانا ہے- میں نے کہایہ سب تو تم خود بھی لے جا سکتے ہو الہیٰ بخش تو وہ اداسی سے کہنے لگا- نہیں میں بہت بیمار ہوں- خود ہی پہنچ جاؤں تو بڑی بات ہے- تم بس میرا یہ کام کر دو- میں نے وعدہ کر لیا اور اللہ کی عنایت سے پورا بھی کر دیا- اب یہ الہیٰ بخش کی امانتیں بھی لے لو بیٹے-------"
شاہ فرید کی اپنی کیفیت عجیب تھی ---- وہ الہیٰ بخش کے بیٹوں کی طرف کیا دھیان دیتے-
حاجی نیاز محمد کا ہاتھ بڑھا ہوا تھا- لیکن کتاب اور رومال لینے کے لئے کوئی ہاتھ نہیں بڑھا- الہیٰ بخش کے تینوں بیٹوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے-
"یہ لے لو نا بیٹے!" حاجی صاحب نے کہا-
"چاچا، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے-" مدثر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا "ابا حج پر جا ہی نہیں سکے تھے"
حاجی نیاز محمد ہکا بکا رہ گئے-
"کیسی باتیں کر رہے ہو، میں خود ملا ہوں اس سے"
"کوئی اور ہو گا چاچا، شکل ملتی ہو گی" مزمل بولا
"ہاں چاچا، حج کے پیسے تو ابا نے پہلے ہی خرچ کر دئیے تھے- نہ خرچ کئے ہوتے تب بھی ابا کی حالت ایسی نہیں تھی کہ حج کر سکتے-" مبشر نے تائید کی-
"اور بقر عید کی اگلی صبح ابا کا انتقال ہو گیا تھا" مدثر نے کہا-
"اور عید کے دن ابا جی باجی سے ملنے گئے تھے-" مزمل نے شاہ فرید کی طرف اشارہ کیا-
حاجی نیاز محمد نے تائید طلب نظروں سے شاہ فرید کو دیکھا- انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا- "یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں نیاز محمد"
"کچھ بھی ہو، مجھے یقین ہے وہ الہیٰ بخش ہی تھا" نیاز محمد نے کہا "تم یہ رومال دیکھو- یہ الہیٰ بخش کا نہیں ہے کیا؟"
مدثر نے رومال لے کر اسے کھولا- وہ الہیٰ بخش کا پسندیدہ رومال تھا- رنگین رومال، جس پر روضہ مبارک کی شبیہہ بنی تھی- الہیٰ بخش اس رومال کو سر پر لپیٹے رہتا تھا- گزشتہ کئی روز سے یہ رومال نظر نہیں آ رہا تھا- لیکن مدث کو یاد تھا کہ الہیٰ بخش نے عید کی نماز یہی رومال سر پر باندھ کر ادا کی تھی-
"بھائی ذرا دکھاؤ تو" مزمل نے ہاتھ بڑھایا "یہ تو ابا کا ہی رومال معلوم ہوتا ہے"
"مجھ پر شک کرتے ہو- کیا میں جھوٹ بولوں گا" حاجی نیاز محمد بگڑ گیا-
"غصہ نہ کرو نیاز محمد" شاہ فرید نے ان کا کندھا تھپکا- "لڑکوں کا قصور نہیں- بات ہی ایسی ہے"
اب مبشر رومال کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا- پھر اس نے کہا- "یہ دیکھو- یہ ابا ہی کا رومال ہے"
ان سب نے دیکھا- رومال کے کنارے پر ننھے ننھے حروف میں الہیٰ بخش کا نام لکھا تھا- رومال ایک بار لانڈری میں دیا گیا تھا- وہاں سے آیا تو یہ نام لکھا ہوا تھا- اب وہ سب گنگ تھے- ان کے سامنے ایک ایسی حقیقت تھی جو ان کی عقل سے ماورا تھی-
دیر تک خاموشی رہی- حاجی نیاز محمد کے تصور میں وہ منظر چل رہا تھا، جب انہوں نے الہیٰ بخش کو روضہ مبارک کے سامنے دیکھا تھا-
'یہ کیسے ممکن ہے" مزمل بڑبڑایا-
"یہ سب کیا ہے باجی؟" مدثر شاہ فرید کی طرف مڑا-
"یہ اللہ کی باتیں ہیں بالکو، وہ جانے" شاہ فرید نے کہا- "ہر بات سمجھنے کے لئے نہیں ہوتی- بعض باتیں ماننی پڑتی ہیں، پھر خود سمجھ میں آ جاتی ہیں"
"وہ تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔۔۔۔"
"میں تم لوگوں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں" شاہ فرید نے کہا " اور تم سے بھی نیاز محمد ----" وہ نیاز محمد کی طرف مڑے "میں چاہتا ہوں کہ یہ بات بس ہم لوگوں کے درمیا ن رہے- اس کا کبھی کسی سے تذکرہ نہ کرنا"
"کیوں باجی؟"
"دو نقصان ہیں اس کے- کچھ لوگ تو اسے جھوٹ سمجھیں گے- مذاق اڑائیں گے اور کیوں کہ یہ سچ ہے اس لئے وہ نقصان میں رہیں گے----- دوسرے جو لوگ اسے سچ مان لیں گے، وہ الہیٰ بخش کی قبر پوجنا شروع کر دیں گے-"
"سچ کہتے ہیں آپ" حاجی نیاز محمد بولے-
"آور تم جانتے ہو کہ یہ تمہارے ابا کو پسند نہیں تھا" شاہ صاحب نے لڑکوں سے کہا "ورنہ وہ پہاڑی پر دفن ہونے کی مخالفت نہ کرتا"
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں باجی" مدثر نے کہا-
"بس اس کو بھول جاؤ- اب ہم چلتے ہیں"
لڑکوں نے انہیں احترام سے رخصت کیا اور ان کے جاتے ہی گھر میں اس رومال کو تلاش کرتے رہے لیکن وہ رومال انہیں کیسے ملتا! وہ رومال حاجی نیاز محمد انہیں دے کر گئے تھے اور جو بیٹھک میں میز پر رکھا تھا، ، وہ رومال انہیں گھر میں کیسے ملتا!
وہ تینوں گھر سے نکلے اور باپ کی قبر کی طرف چل دئیے-
ڈیرے دی ونڈی گاؤں کے محلے سادات آبادی میں واقع فرید حسین شاہ کے مکان کے اوپری حصے میں آج بھی الہیٰ بخش کا کیا ہوا وہی رنگ چمک رہا ہے ----- الہیٰ بخش کا رنگ!
ختم شد
قسط وار کہانیاں |
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے