عشق کا عین - علیم الحق حقی - قسط نمبر15

 Urdu Novel PDF


الہیٰ بخش انگلیوں پر گننے لگا "ستایئس سال ہو گئے سرکار ستائیس سال پہلے آخری بار یہ کام کیا-" اس کا لہجہ خواب ناک ہو گیا ۔"بس پھر برش سے ناتا ٹوٹ گیا لیکن اب آخری بار آپ کا کام کرنا چاہتا ہوں"
"لیکن کیوں؟"
"باجی، اللہ نے مجھ بے ہنر کو یہ ہنر دیا تھا- اس سے میں نے ایک عمر حلال کی روٹی کمائی- دنیا سنواری، پھر یہ کام چھوڑ دیا- اب اس سے آخرت کا کام کرنا چاہتا ہوں- آپ کے گھر میں محبت سے بہت اچھا رنگ کروں گا- کیا پتا آپ کی دعا سے میری محبت سے خوش ہو کر اللہ جی مجھ گناہگار کو بھی جنت میں ایک گوشہ دے دیں"۔
"لیکن الہیٰ بخش ۔۔۔"
"خدا کے لئے مجھے مایوس نہ کرنا باجی" الہیٰ بخش نے پھر ان کے پاؤں پکڑ لئے-
"اچھا ٹھیک ہے الہیٰ بخش" شاہ صاحب نے اپنے پاؤں سمیٹتے ہوئے کہا "میں تمہاری خوشی ضرور پوری کروں گا"
شاہ فرید کی ہچکچاہٹ بے سبب نہیں تھی- ان دنوں ان کا ہاتھ تنگ تھا، اسی لئے انہوں نے رنگ و روغن کا کام موخر کر دیا تھا-
"چلیں بازار- میں آپ کو رنگ بھی رعایت پر دلاؤں گا"
"آج نہیں الہیٰ بخش کل صبح چلیں گے" شاہ صاحب نے اسے ٹال دیا- "ابھی تم آرام سے بیٹھو"
--------------------٭---------------------
اگلی صبح نو بجے شاہ فرید اپنی بانڈی میں روزمرہ کے کام نمٹا رہے تھے کہ الہیٰ بخش نازل ہو گیا- دست بوسی کے بعد وہ بولا "باجی چلیں"
"کہاں؟"
"رنگ روغن کا سامان لینے بازار"
"ابھی تو بازار کھلا بھی نہیں ہو گا" شاہ فرید بولے "تم سکون سے بیٹھو، چائےپیو، پھر بازار بھی چلیں گے"
الہیٰ بخش وہیں زمین پر بیٹھ گیا- تھوڑی دیر بعد شاہ صاحب کا منجھلا بیٹا اعجاز حسین چائے لے آیا- وہ چائے پیتا رہا-
شاہ صاحب نے کچھ پیسوں کابند و بست کر لیا تھا- عام حالات میں وہ ابھی رنگ نہ کراتے لیکن دیوانے کے آگے ہار گئے تھے- ساڑھے دس بجے کے قریب انہوں نے الہیٰ بخش سے کہا "آؤ بازار چلیں"
دونوں بازار چلے گئے- الہیٰ بخش انہیں ایک دکان پر لے گیا- وہاں اس نے ضرورت کی تمام چیزٰیں خریدیں اور اس کے بعد جو بھاؤ تاؤ شروع کیا تو دکان دار بھی پریشان ہو گیا-
"دیکھو بابا، اتنے کا تو یہ مجھے بھی نہیں پڑتا" دکان دار نے احتجاج کیا " اپنا نفع تو میں چھوڑ سکتا ہوں، نقصان میں مال دینے لگا تو چل لی میری دکان"
"ہر جگہ منافع نہیں دیکھتے بالکے" الہیٰ بخش نے دبدبے سے کہا "ساری زندگی منافع لیا ہے، آج نقصان میں بھی دے کر دیکھ- جانتا نہیں یہ کس کے گھر کا کام ہے" اس نے شاہ فرید کی طرف اشارہ کیا "مجھے دیکھ میں اپنے منافع میں تجھے شریک کر رہا ہوں- کچھ آخرت کا سامان بھی کر لے"
شاہ صاحب کا شرمندگی سے برا حال تھا0- وہ بولے "نہیں الہیٰ بخش، ایسی رعایت نہیں چاہیئے مجھے- میں پوری قیمت ادا کروں گا"
"باجی، کسی کی آخرت کے منافع کا معاملہ ہو تو مرضی کے خلاف بھی کر لیا کریں" الہیٰ بخش نے شاہ صاحب سے کہا اور پھر دکاندار سے بولا "بول ---- کیا کہتا ہے؟"
دکاندار نے ایک پل اس کی آنکھوں میں دیکھا اور موم ہو گیا- الہیٰ بخش نے اسی دن سے کام شروع کر دیا-
شاہ صاحب پریشان تھے- جانتے تھے کہ الہی بخش جوڑوں کے درد کا مریض ہے- پھر اس کی عمر بھی کم نہیں تھی- صحت کی خرابی ویسے بھی عمر کو بڑھا دیتی ہے اور مکان ان کا ماشاللہ بہت بڑا تھا اور دو منزلہ بھی- کام بہت تھا لیکن الہیٰ بخش کو یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کام میں کسی کو شریک کرے- سو وہ پریشان ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے-
اب الہیٰ بخش کے کام کی وہ رفتار بھی نہیں تھئی- پھر بھی وہ بڑی لگن اور محبت سے کام کر رہا تھا- ایک دیوار پوری کرنے کے بعد وہ دیر تک کھڑا اسے ناقدانہ نظروں سے دیکھتا رہتا- اس مصور کی طرح جس نے کوئی شاہکار تخلیق کرنے کا ارادہ کر لیا ہو- پھر وہ دوبارہ اسی دیوار پر کام شروع کر دیتا-
شاہ صاحب نے گھر میں کہہ دیا تھا کہ الہیٰ بخش کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھنا ہے- انہوں نے بیٹوں کو بھی ہدایت کر دی تھی کہ وہ الہیٰ بخش کا خاص خیال رکھتے-
شاہ صاحب کے بیٹوں کے لئے الہیٰ بخش عجوبے سے کم نہیں تھا- شاہ صاحب کے چار بیٹے تھے- سب سے چھوٹا دلدار حسین تو بہت چھوٹا تھا- تین بیٹے سجاد حسین ، اعجاز حسین اور تصور حسین سمجھدار تھے- تصور کو پیار سے گل پیر کہا جاتا تھا- تینوں لڑکوں کو قوالی سے بڑی دلچسپی تھی- شاہ صاحب کی مرضی کے خلاف وہ ڈیک لے آئے تھے- جب بھی موقع ملتا، وہ قوالی کا کوئی کیسٹ لگا دیتے-
کام کی رفتار میں یہ ایک چیز بھی مانع تھی کہ کسی قوالی میں حضورﷺ کا اسم مبارک آ جاتا تو بیٹھا ہوا لہیٰ بخش کھڑا ہو جاتا اور ہاتھ سینے پر باندھ کر نظریں زمین پر جما دیتا- اسے ہوش ہی نہ رہتا – یہاں تک کہ گل پیر اسے ہلاتے ہوئے کہتا " بابا ---- قوالی ختم ہو گئی ہے"
یہ بات قوالی کی حد تک نہیں تھی- گفتگو میں بھی کوئی حضورﷺ کا اسم مبارک زبان پر لاتا تو الہیٰ بخش احترام میں غلاموں کی طرح کھڑا ہو جاتا اور کھو جاتا- ایسی عقیدت اور احترام لڑکوں نے کہیں نہیں دیکھا تھا- الہیٰ بخش خود ان کی اتنی عزت کرتا، جیسے وہ اس کے بزرگ ہوں-
فرید شاہ صاحب کا معمول تھا کہ ہر روز الہیٰ بخش سے اس کی ضرورت کئی کئی بار پوچھا کرتے- الہیٰ بخش ہر بار یہی کہتا کہ اسے بس ان کی دعاؤں کی ضرورت ہے "مجھے کچھ نہیں چاہیئے باجی، آپ بار بار کیوں پوچھتے ہیں؟"
"یہ میرا فرض ہے- تم میرے لئے کام کر رہے ہو- مجھے ہر طرح سے تمہارا خیال رکھنا ہو گا لیکن تم کبھی مانگتے نہیں"
"مجھے جو چاہئے، وہ مل رہا ہے- اور کیا مانگوں؟"ا لہیٰ بخش کہتا
شاہ فرید کے بیٹے الہیٰ بخش سے بہت مانوس ہو گئے تھے- کبھی موڈ میں ہوتا تو الہیٰ بخش ایسی دانش کی باتیں کرتا کہ وہ حیران رہ جاتے- نبی کریمﷺ کے احترام کا مظاہرہ بھی ان کے لئے بہت خوش کن تھا- مجموعی طور پر عمر کے فرق کے باوجود اس کی صحبت میں خوش رہتے-
کام اپنی مخصوص رفتار سے چل رہا تھا لیکن اس بات کا اعتراف سب کو تھا کہ الہیٰ بخش غیر معمولی طور پر اچھا کام کر رہا ہے-
ایک دن شاہ فرید معمول کے مطابق الہیٰ بخش کے پاس آئے- شام کا وقت تھا، الہیٰ بخش گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا "کیسے ہو الہیٰ بخش؟"
"اللہ کا شکر ہے باجی، بس جوڑوں کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے" الہیٰ بخش نے کہا ، پھر بولا "اجازت ہو تو کل کام سے چھٹی کر لوں سرکار؟"
"اجازت کی ضرورت نہیں – الہیٰ بخش تم میرے نوکر نہیں ہو" شاہ صاحب نے کہا "تم جب چاہو چھٹی کر سکتے ہو"
"پر میں تو اجازت لوں گا باجی- میں کل سول ہسپتال جاؤں گا"
"نہیں وہاں جانے کی ضرورت نہیں- وہاں کوئی پروا نہیں کرتا مریض کی- ناڑی سے ادھت ڈاکٹر ظہیر ہے- تم کل سجاد حسین کے ساتھ اس کے پاس چلے جانا"
"باجی سرکار، میں آپ کا پیسا نہیں خرچ کرانا چاہتا"
"ایسی کوئی بات نہیں- فیس وہ زیادہ نہیں لیتا- تم اپنی جیب سے دے دینا"
"اس پر الہیٰ بخش رضامند ہو گیا- شاہ صاحب اسی شام ڈاکٹر ظہیر کے پاس چلے گئے- وہ ان کے معتقدین میں سے تھا- شاہ صاحب اجا کر اسے سمجھا آئے-
اگلے روز الہیٰ بخش سجاد حسین کے ساتھ ڈاکٹر ظہیر کے پاس چلاگیا- ڈاکٹر نے بڑی توجہ سے اسے دیکھا- تمام دوائیں اپنے پاس سے دیںاور پھر سجاد حسین سے بولا- "چھوٹے شاہ جی، اسے آرامکی ضرورت ہے کم از کم ایک ہفتہ اسے بستر پر لٹائیں چلنے بھی نہ دیں"
"فیس کیا دوں ڈاکٹر صاحب؟" الہیٰ بخش نے پوچھا
"اب آل رسولﷺ سے کیا فیس لوں گا- اللہ اوپر ہی کچھ نواز دے تو اچھا ہے" ڈاکٹر نے کہا-
الہیٰ بخش بہت خوش ہوا- اس نے کہا "آپ بہت اچھے ہیں ڈاکٹر صاحب، ہر مسلمان کو ایسے ہی ہونا چاہئیے"
الہیٰ بخش کو اس دوا سے بہت فائدہ ہوا – بڑی وجہیہ تھی کہ ڈاکٹر پر اس کا اعتقاد ہو گیا تھا-
اسی شام شاہ فرید پھر ڈاکٹر کے پاس گئے- ڈاکٹر واقعتاٰ کچھ لینا نہیں چاہتا تھا لیکن شاہ صاحب نے بالاصرار اسے پوری فیس اور دواؤں کے پیسے دئے اور تاکید کی کہ الہیٰ بخش کو اس بات کا علم نہیں ہونا چاہئے-
الہیٰ بخش نےبمشکل ایک دن ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کیا مگر دوسرے ہی دن آیا اور کام میں مصروف ہو گیا- شاہ صاحب نے دیکھا تو بہت خفا ہوئے "تمہیں ڈاکٹر نے منع کیا تھا"
انہوں نے پہلی بار الہیٰ بخش سے سخت لہجے میں بات کی "تم کیوں خود کو تکلیف میں ڈالتے اور مجھے گناہگار کرتے ہو"
"یقین کریں باجی سرکار، مجھ سے قسم لے لیں، بستر پر لیٹنے سے زیادہ آرام مجھے آپ کے کام میں ملتا ہے" الہیٰ بخش نے لجاجت سے کہا-
شاہ صاحب نے بہت سمجھایا مگر دیوانے سے انہیں ہارنا پڑتا تھا------
ایک دن شاہ فرید بانڈی میں بھینس کے لئے چارہ بنا رہے تھے- اچانک الہیٰ بخش ان کے پاس آیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا-
"کیا بات ہے الہیٰ بخش؟ شاہ صاحب نے پوچھا
"وہ باجی سرکار، کل چاند کی گیارھویں تاریخ ہے-"
شاہ صاحب مسکرائے- "مجھے معلوم ہے کل تمہارے مرید آئیں گے- تم چھٹی کرو گے- یہی بات ہے نا- میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں، تم اپنی مرضی کے مالک ہو، آزاد آدمی ہو"
"یہ بات نہیں سرکار"
"تو پھر کیا بات ہے؟"
"وہ سرکار ----- بات یہ ہے سرکار ۔۔۔۔۔ "الہیٰ بخش سے بات نہیں کی جا رہی تھی- شاہ صاحب نے نظریں اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا- اس کی ہچکچاہٹ ان کی سمجھ میں نہیں آئی-
"کیا بات ہے الہیٰ بخش؟"
الہیٰ بخش نے دونوں ہاتھ جوڑ لئے "چھوٹا منہ بڑی بات ہے سرکار، ڈرتا ہوں، آپ گستاخی نہ سمجھیں"
شاہ صاحب نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر کھول لئے "بولو الہی بخش تم مجھے جانتے ہو- میں تم پر کبھی غصہ نہیں کروں گا"
"سرکار میں چاہتا ہوں کہ کل آپ کھانا میرے ساتھ کھائیں"
ایک لمحے کو شاہ فرید کی رنگت متغیر ہوگئی- پھر انہوں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا "ٹھیک ہے الہیٰ بخش ---- میں آؤں گا"
----------------------٭-----------------
اگلے روز شاہ فرید نے وعدہ جلدی سے نبھانے کا فیصلہ کر لیا- وجہ یہ تھی کہ وہ لنگر کا کھانا نہیں کھا سکتے تھے- روایات کی پاس داری بھی تو ان کی طبعیت میں تھی اور وہ الہیٰ بخش کو انکار بھی نہیں کر سکتے تھے-
وہ پہنچے تو الہیٰ بخش کو اپنے ہاتھوں سے مرغ ذبح کرتے پایا- وہ انہیں دیکھ کر ہڑبڑا گیا"اتنی جلدی آ گئے سرکار؟" اس نے جلدی جلدی خون میں لتھڑے ہوئے دونوں ہاتھ دھوئے اور ہاتھوں کو کپڑے سے صاف کر کے ان کے ہاتھ چومے-
شاہ صاحب نے محسوس کیا کہ وہ انہیں ہمیشہ سے بھی زیادہ تعظیم دے رہا ہے- انہیں احساس نہیں تھا کہ اس کے مرید انہیں حیرت سے دیکھ رہے ہیں "ہاں الہیٰ بخش میں نے وعدہ پورا کر دیا ہے لیکن میں زیادہ دیر رکوں گا نہیں"
"آئیں تو ----- میں آپ کو جلدی نہیں جانے دوں گا" الہیٰ بخش انہیں اس گھنے درخت کے نیچے لے گیا جہاں اس کی گدی تھی "آپ یہاں تشریف رکھیں سرکار"
"نہیں یہاں نہیں بیٹھوں گا میں ۔۔۔ یہ تمہارا مقام ہے" شاہ صاحب نے کہا-
"میرا مقام تو آپ کے قدموں میں ہے باجی، آپ کو قسم ہے دنیا کے بادشاہ کی بیٹھ جائیں"
"یہ مناسب نہیں الہیٰ بخش"
لیکن الہیٰ بخش کی ضد کے سامنے انہیں ہتھیار ڈالنے پڑے- وہ بیٹھے تو الہیٰ بخش نے ان کے پاؤں دبانے شروع کر دئیے- اپنے مرشد کو جو شاۃ صاحب کے پاؤں دباتے دیکھا تو الہیٰ بخش کے کچھ مرید بھی اس سعادت میں شامل ہونے لگے- مگر الہیٰ بخش نے انہیں ڈپٹ دیا- "یہاں صرف میں باجی کے پاؤں دبا سکتا ہوں، کوئی اور نہیں"
تھوڑی دیر بعد الہیٰ بخش نے ان سے اجازت چاہی "سرکار، مجھے کھانا پکانا ہے"
شاہ صاحب کو حیرت ہوئی- الہیٰ بخش کے مرید پہلے ہی کھانا پکانے میں مصروف تھے- بہرحال انہوں نے کچھ نہیں کہا- بعد میں الہیٰ بخش پھر ان کے قدموں میں آبیٹھا "باجی میرے سرکار، آپ کے لئے دسترخوان بچھا دوں؟"
"الہیٰ بخش مجھے بھوک نہیں ہے" شاہ صاحب نے کہا-
الہیٰ بخش ان کے پاؤں دبانے لگا- پندرہ منٹ بعد اس کا ایک مرید اس کے پاس آیا "لنگر تیار ہے بابا"
"ٹھیک ہے تم جاؤ- میں آؤاز دے لوں گا"
دس منٹ گزر گئے تو شاہ صاحب نے الہیٰ بخش سے کہا " لنگر کیوں نہیں شروع کراتے الہیٰ بخش"
"سرکار، آپ بسم اللہ کریں گے تو اس کے بعد ہی لنگر شروع کروں گا"
"الہیٰ بخش، میں تو یہ کھانا نہیں کھا سکتا"
الہیٰ بخش اپنے دونوں ہرخسار پیٹنے لگا "یہ آپ نے کیسے سوچا سرکار کہ میں اتنا گستاخ ہو سکتا ہوں" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا "میں نے علیحدہ سے اور خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے لئے کھانا پکایا ہے- وہ مرغ میں آپ ہی کے لئے ذبح کر رہا تھا سرکار"
شاہ فرید کو اس پر بہت پیار آیا- وہ پہلے ہی جانتے تھے اور اب پوری طرح سمجھ گئے کہ الہیٰ بخش کس طرح کا آدمی ہے- اپنے مریدوں کے سامنے کوئی کسی اور کو اپنی گدی پر بٹھا کر اس کے پاؤں دبا سکتا ہے! کسی کے لئے کھانے کا ایسا اہتمام کر سکتا ہے!
رخصت ہوتے وقت شاہ فرید نے الہیٰ بخش سے پوچھا "تم نے ایسا کیوں کیا الہیٰ بخش؟"
بات وضاحت طلب تھی لیکن الہیٰ بخش سمجھ گیا کہ کیاکہہ رہے ہیں "آپ کی ذات سے دو فائدے ااٹھا رہا ہوں باجی، ایک تو عاقبت سنوار رہا ہوں- دوسرے آپ جانتے ہیں کہ مرید ہاتھ چومیں تو مجھ جیسے کمزور ااور چھوٹے آدمی کا نفس تو دنبہ بن جاتاہے- میں نفس کے اس موٹے دنبے کو پنپنے نہیں دینا چاہتا- باجی ---- ایک شعر سناؤں"
"سناؤ الہیٰ بخش"
"سادہ سا شعر ہے باجی، شاعر کہتا ہے؛
اسیر اب تک ہوں میں اپنی انا کا
مجھے تو اپنے رستے میں بچھا لے"
شاہ فرید کے ہونٹوں پر ستائشی مسکراہٹ ابھری-
"باجی اب جس گیارہویں کو آپ نہیں آئیں گے، یہاں لنگر نہیں ہو گا"
"ایسی شرط نہ لگاؤ الہیٰ بخش"
الہیٰ بخش رخسار پیٹنے لگا "شرط نہیں میرے سرکار، یہ دل کی آواز ہے"
-----------------------٭-------------------
شاہ فرید کے مکان کا رنگ و روغن کا کام مکمل ہو گیا لیکن جو تعلق قائم ہو گیا تھا، وہ الہیٰ بخش کی زندگی میں نہیں ٹوٹا- ہر اسلامی ماہ کی دس تاریخ کو الہیٰ بخش شاہ صاحب کے پاس آتا- سلام اور دست بوسی کرتا، پھر کہتا "باجی ۔۔۔۔۔"
"مجھے یاد ہے الہیٰ بخش کل گیارہ تاریخ ہے" شاہ صاحب اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہہ دیتے "میں یہ تاریخ کبھی نہیں بھولوں گا- تم ہر ماہ کیوں تکلیف کرتے ہو"
"تکلیف نہیں باجی، یہ تو میرا فرض ہے"
شاہ صاحب جاتے اور شریک ہو تے- سب کچھ اسی طرح ہوتا جیسے پہلی بار ہوا تھا- اب شاہ صاحب کے بیٹے بھی ضد کر کے ان کے ساتھ آ جاتے تھے- انہیں الہیٰ بخش سے بڑی انسیت تھی- وہ وہاں جا کر بہت خوش ہوتے تھے-
انہی معمولات میں تین سال گزر گئے- ان تین برسوں میں الہیٰ بخش کی صحت اور خراب ہو گئی- اس کے سوا کچھ بھی نہیں بدلا-
الہیٰ بخش کے دل میں حج بیت اللہ اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کی خوائش شدید سے شدید تر ہوتی گئی تھی- لیکن اس نے اس سلسلے میں کبھی بیٹوں سے فرمائش بھی نہیں کی تھی- پھر اللہ نے بیٹوں ہی کے دل میں ڈال دی- اسی سال انہوں نے مل کر اسے تیس ہزار روپے دئیے کہ وہ حج کر آئے-
اس سال الہیٰ بخش بہت خوش تھا- اس کی آرزو پوری ہونے والی تھی- وہ دن گن رہا تھا۔
ایک دن وہ پہاڑی پر اپنے پسندیدہ درخت کے نیچے کسی سوچ میں کھویا ہوا تھا کہ ایک شخص اس کے پاس چلا آیا "بابا ----- پانی والے با با ---" اس نے کئی بار پکارا
الہیٰ بخش نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا- اسے ایک نظر میں اندازہ ہو گیا کہ آنے والا بڑا ضرورت مند ہے- اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، جنہیں وہ پینے کی کوشش کر رہا تھا- اس کا جسم رہ رہ کر لرز رہا تھا- ہونٹ بھی کپکپا رہے تھے0
الہیی بخش اسے غور سے دیکھتا رہا- آنے والا جوان تھا- اس کی عمر تیس سے زیادہ نہیں تھی-
'کیا بات ہے بالکے"
"میرے لئے دعا کرو بابا"
"مسئلہ کیا ہے؟"
"بابا---- میرا بیٹا ہے چار سال کا- ہمیں جان سے بھی پیارا ہے- وہ کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہے- مجھے تو بیماری کا نام بھی معلوم نہیں---- ڈاکٹر کہتا ہے آپریشن پر پچیس ہزار کا خرچہ ہو گا تو وہ انشاللہ ٹھیک ہو جائے گا، ورنہ ---- و" وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا-
"تو پھر"
جوان آدمی روتے روتے رکا- "میرے لئے دعا کرو بابا، میں تو مشکل سے سو روپے روز کماتا ہوں- گھر کا خرچ بھی پورا نہیں پڑتا- زمیں یا ایسی کوئی چیز بھی میرے پاس نہیں جسے بیچ کر پچیس ہزار کر لوں- میں کیا کروں بابا- اللہ جی سے دعا کرو- وہ مجھے پچیس ہزار دے دے- میرے بیٹے کو بچا لے"
الہیٰ بخش کو اس پر بے ساختہ پیار آیا- اس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا- اس نے چار سال کے بچے کا تصور کیا، جو دھیرے دھیرے موت کی سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا- اللہ کا حکم ہواور پچیس ہزار مل جائیں تو وہ بچہ جوان ہو گا، اس کی شادی ہو گی، اس کے بچے ہوں گے ۔۔۔۔۔
"بابا میرے لئے یہ اکلوتا بیٹا ہی سب کچھ ہے- یہ پیدا ہوا تھا تو ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا کہ اب ہمارے ہاں اولاد نہیں ہو گی کبھی- بابا میری نسل اسی سے چلنی ہے" جوان آدمی پھر رونے لگا-
یا اللہ---- اس بچے کو درازیء عمر عطا فرما- الہیٰ بخش کے دل سے آواز اٹھی- اسی لمحے اس کے ذہن میں آندھیاں چلنے لگیں- پچیس ہزار روپے، آپریشن، بچے کی زندگی، یہ لفظ اسی کے ذہن میں گردش کر رہے تھے- پھر ایک اور لفظ تھرکنے لگا ------ حج ------ حج-------حج-----!
فیصلہ بہت مشکل تھا- ایک طرف آگے جانے والی زندگی تھی اور دوسری طرف موت کی طرف بڑھتی ہوئی زندگی کی سب سے بڑی اور آخری آرزو- ایک اپنے لئے تھی اور دوسری کسی اور کے لئے- اسے اپنے باپ کے الفاظ یاد آئے- اللہ سے عشق کے لئے اس کے بندوں سے عشق ---- اور عشق میں حساب کتاب تو نہیں ہوتا اور حساب کتاب میں بھی ننھا پودا گرنے والے دیمک زدہ بوڑھے درخت سے بھاری ہوتا ہے-
مشکل سے سہی الہیٰ بخش فیصلے پر پہنچ گیا- اس نے سرد آہ بھرت ہوئے جوان آدمی سے کہا " مت رو بالکے، اللہ بہتر کرے گا- لیکن پہلے تجھے میری ایک بات ماننی ہو گی"
جوان آدمی اسے پر امید نظروں سے دیکھ رہا تھا-
"تو یہاں درخت کے نیچے لیٹ کر سونے کی کوشش کر- سو گیا تو انشااللہ تیرا مسئلہ حل ہو جائے گا- یہ نہ پوچھنا کہ کیسے حل ہو گا"
جوان آدمی لیٹ گیا- پریشانی میں نیند رات کو بھی نہیں آتی- لیکن اس سے الہیٰ بخش نے بات ہی ایسی کہی تھی کہ وہ پانچ منٹ کے اندر اندر سو گیا- الہیٰ بخش اٹھا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا- واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں وہ تیس ہزار روپے تھے جو اس نے حج کے لئے رکھے تھے-
اس نے جوان آدمی کو جگایا نہیں- وہ سو کر اٹھا تو الہیٰ بخش نے کہا "بالکے انشااللہ تیرا مسئلہ حل ہو گا- میری ہدایت پر عمل کر- کھڑا ہو اور بسم اللہ پڑھ کر سامنے کی طرف چل – ہر درخت کی جڑ دیکھتا رہ- انشااللہ سات درخت پورے ہونے سے پہلے تیرا مسئلہ حل ہو جائے گا"
جوان آدمی اٹھ کھڑا ہوا-
"لیکن یاد رکھ، اس واقعے کا کبھی کسی سے ذکر نہ کرنا اور نہ کسی کو بتانا کہ مجھ سے ملاتھا-"
جوان آدمی بسم اللہ پڑھ کر آگے چل دیا- اسے یقین نہیں تھا کہ اسے کچھ ملے گا- مگر وہ قطار کے ہر درخت کی جڑ کو غور سے دیکھتا رہا- بلکہ وہ جھک کر ٹٹولتا بھی تھا- پانچویں درخت پر پہنچ کر ٹٹولنے کی ضرورت نہیں رہی- کپڑے کی وہ پوٹلی دور ہی سے نظر آ رہی تھی- اس نے بسم اللہ پڑھ کر بے تابانہ پوٹلی اٹھائی اور اسے کھول کر دیکھا- اس میں نوٹ ہی نوٹ تھے-
تیس ہزار روپے!
"جا بالکے، بیٹے کا علاج کرا- اللہ اسے زندگی سے- اب اس کے صحت مند ہونے تک یہاں نہ آنا" الہیٰ بخش نے پکار کر کہا-
جوان آدمی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا- وہ تیز قدموں سے پہاڑی اترنے لگا-
------------------------------٭------------------------
وقت سست رفتاری سے گزرتا رہا- الہیٰ بخش کی صحت خراب تر ہوتی گئی- لیکن معمولات جاری رہے- شاہ فرید سے اس کی عقیدت میں اضافہ ہوتا گیا- حج کے دن قریب آ رہے تھے-
ایک دب مبشر نے کہا "ابا تم نے حج کا کیا کیا ؟"
الہیٰ بخش سر جھکائے بیٹھا رہا-
"ابا کیا بات ہے خیر تو ہے"
"بیٹے تو سمجھ لے کہ میرا حج ہو گیا- اللہ قبول کرنے والا ہے" الہیٰ بخش نے دبے دبے لہجے ہوئے میں کہا-
"میں سمجھا نہیں ابا"
"پیسے خرچ ہو گئے بیٹے"
"کوئی بات نہیں ابا" مبشر بلا توقف کہا "اگلے سال سہی ابا، پیسوں کی فکر نہ کرو"
الہیٰ بخش کا دل شکر سے معمور ہو گیا- اللہ نے کیسی سعادت مند اولاد دی ہے اسے- اس کا خیال تھا کہ بیٹا اس پر برسے گا- تیس ہزار روپے کوئی چھوٹی رقم تو نہیں ہوتی- بیٹا پوچھے گا کہ کیا کیا اس رقم کا، "دیکھ بیٹے اللہ نے زندگی دی تو اگلے سال سہی کون جانے" اس نے آ ہ بھر کے کہا-
'اللہ تمہیں ہمارے سر پر سلامت رکھے ابا، دل چھوٹا نہ کرو" مبشر نے اسے تسلی دی-
"ایک بات بتا بیٹے" الہیٰ بخش نے کہا "تو ناراض تو نہیں مجھ سے"
"کیسی باتیں کرتے ہو ابا؟"
"تو نے پوچھا ہی نہیں کہ میں نے وہ رقم کہاں خرچ کر دی"
"ابا پہلی بات یہ ہے کہ تمہارے پیسے تھے- تمہارا اختیار تھا، جہاں چاہتے خرچ کرتے- دوسری بات یہ کہ مجھے معلوم ہے کوئی بڑی، بہت بڑی ضرورت ہو گی، ورنہ تم حج کے پیسے خرچ کرنے والے تو نہیں ہو- ابا مجھے تم سے ویسے ہی کچھ پوچھنے کا حق نہیں ہے"
"اللہ تجھے خوش رکھے بیٹے، میرے سارے بیٹے اللہ کی مہربانی سے اتنے اچھے ہیں- اللہ اجر دینے والا ہے"
الہیٰ بخش نے کسی کو نہیں بتایا کہ اس نے پیسے کہاں خرچ کئے ہیں-------
ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہونے سے چند روز پہلے ہی سے الہیٰ بخش کی طبعیت بگڑنے لگی- وہ اس حد تک بیمار ہوا کہ بستر سے لگ گیا- اسے خیال آیا کہ اس حال میں تو وہ حج کر بھی نہیں سکتا تھا- اس نے اندر ایک طمانیت پھیل گئی- جو ہوا تھا، اسی میں بہتری تھی- اللہ بہترین رہنمائی فرماتا ہے-
حاجرہ دن رات اس کی دیکھ بھال میں لگی رہی- بیٹے بھی خدمت کر رہے تھے- لیکن الہیٰ بخش جانتا تھا کہ اس کی حالت مسلسل بگڑ رہی ہے- اس نے کسی کو یہ بات نہیں بتائی- بقر عید سے دو دن پہلے یہ حال ہو گیا کہ وہ بغیر سہارے کے چل نہیں سکتا تھا-
عید کے دن الہیٰ بخش بہت مضطرب تھا- اصرار کر کے وہ نماز پڑھنے گیا- اس نے بیٹھ کر نماز ادا کی- گھر پہنچا تو وہ بے حد نڈھال تھا- کچھ دیر وہ لیٹا رہا پھر اچانک وہ اٹھ بیٹھا- اسے خیال ہی ایسا آیا تھا-
وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ مزمل نے اسے تھام لیا- "کیا کام ہے ابا، مجھ سے کہو"
"کام ایسا ہے بیٹے کہ خود ہی کرنا ہے" الہیٰ بخش کہتے کہتے ہانپ گیا- "مجھے شاہ صاحب سے ملنے جانا ہے بیٹے ---- ڈیرے دی ونڈ"
"وہ تو بہت دور ہے ابا، میں انہیں بلا لاتا ہوں"
الہیٰ بخش کا ہاتھ اٹھا لیکن اس نے خود کو روک لیا "نہیں بیٹے، میں گستاخی نہیں کر سکتا- تو نے ایسا سوچا کیسے"
"ابا تمہاری حالت ایسی ہے"
"میں جا سکتا ہوں اور جاؤں گا- تو مجھے لے چل بیٹے" الہیٰ بخش گڑ گڑانے لگا-
مزمل نے سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھا- عمر بھر اطاعت کرنے والی حاجرہ نے اثبات میں سر ہلایا- وہ انکار کیسے کر سکتی تھی-
"ٹھیک ہے ابا میں گاڑی لے آتا ہوں"
"بیٹے مجھے پیدل جانا ہے"
بادل ناخواستہ مزمل اسے سہارا دے کر باہر لے آیا- الہیٰ بخش کو ہر چند قدم کے بعد رکنا پڑتا تھا- ہر بار وہ رکتا تو بیٹے کے چہرے کو غور سے دیکھتا لیکن سعادت مند بیٹے کے پیشانی پر کوئی شکن اور چہرے پر تکدار کا کوئی سایہ نظر نہیں آیا-
دھوپ چڑھ رہی تھی- انہوں نے آدھے سے کچھ زیادہ فاصلہ طے کیا ہو گا کہ سامنے سے فرید شاہ آتے نظر آئے- وہ الہیٰ بخش اور مزمل سے عید ملے-
"آپ کہاں جا رہے ہیں باجی سرکار؟" الہیٰ بخش نے ہاپبتے ہوئے کہا-
"تمہاری ہی طرف جا رہا تھا الہیٰ بخش- پتا چلا تھا تم بیمار ہو"
الہیٰ بخش کا جسم لرزنے لگا- "مجھے گناہگار کر رہے تھے باجی" اس کے لہجے میں شکایت تھی-
"کیسی باتیں کرتے ہو- اس حال میں تم میرے پاس آ کر تم مجھے گناہگار کر رہے تھے- کیا میں تم سے ملنے نہیں آ سکتا"
"میری زندگی میں تو یہ ممکن نہیں سرکار"
"اب کیا ارادہ ہے"
"آپ کے ساتھ آپ کے گھر چلوں گا باجی"
شاہ فرید نےمحبت سے اس کا ہاتھ تھام لیا "بہت ضد کرتے ہو- چلو، میں تمہیں لے کر چلوں گا"
الہیٰ بخش اچانک تن کر سیدھا ہو گیا اور جیسے جسم میں نئی روح دوڑ گئی ہو "آپ میرا ہاتھ تھام کر مجھے سہارا دے رہے ہیں باجی"
"ہاں یہ میرا حق بھی ہے اور میرا فرض بھی"
الہیٰ بخش مزمل کی طرف مڑا "بیٹے تو گھر چلا جا- اب مجھے تیرے سہارے کی ضرورت نہیں" اس کے لہجے میں توانائی تھی "دو گھنٹے بعد تو مجھے لینے آ جانا"
"اس کی ضرورت نہیں" شاہ فرید نے کہا "میں الہیٰ بخش کو خود لے آؤں گا"
مزمل نہ چاہتے ہوئے بھی واپس چلا گیا- شاہ فرید، الہیٰ بخش کو سہارا دے کر اپنے گھر تک لائے- انہوں نے پلنگ پر بٹھایا اور تواضع کی لیکن ان کے اصرار کے ابوجود الہیٰ بخش لیٹنے کے لئے تیار نہیں ہوا-
"باجی کل گیارہ تاریخ ہے"
"مجھے یاد ہے الہیٰ بخش-ہمیشہ یاد رہتا ہے" شاہ فرید نے ہمیشہ کی طرح کہا-
"پھر بھی باجی، میرا تو فرض ہے کہ دعوت دینے آؤں"
"ایک بات بتاؤں الہیٰ بخش" شاہ صاحب نے کہا "مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے"
الہیٰ بخش نے گہری سانس لی- "زندگی کام آ گئی سرکار، موت آسان ہو گئی" اس نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا- دیر تک روتا رہا- ہچکیاں بندھ گئیں "میں اس قابل نہیں تھا باجی سرکار، بس اللہ کیدین ہے- اس کا کرم ہے- اب مجھے زندگی سے کچھ نہیں چاہیئے"
سجاد حسین نے اسے پانی لا کر دیا- پانی پی کر اس کی طبعیت ذرا سنبھلی- وہ دیر تک شاہ صاحب کی اتیں سنتا رہا- خود وہ بہت کم بولا اور اس نے ایک سیکنڈ کے لئے بھی پیٹھ نہیں لگائی- شام ہوئی تو شاہ صاحب نے کہا "الہیٰ بخش اب کہو تو میں تمہیں گھر لے چلوں"
الہیٰ بخش اٹھ گیا- رخصت ہوتے وقت اس نے شاہ صاحب کے بیٹوں کے ہاتھ بڑی بے تابی سے چومے- باہر نکلتے ہوئے اس نے دیوار کو بڑی محبت سے چھوا- اس کے ہونٹ یوں ہلے جیسے دیوار سے کچھ کہہ رہا ہو- دیوار پر رنگ اس کا تھا-
باہر نکلا تو وہ جھکا اور اس نے دروازے کی چوکھٹ کو چھوا- اس کے ہونٹ پھر ہلے ----- راستے میں اس نے شاۃ صاحب سے کہا "ایک بات میں بھی کہوں باجی"
"کہو الہیٰ بخش"
"اب شاید میں یہاں کبھی نہ آؤں- اصل میں، میں آپ کو آخری سلام کرنے آیا تھا-"
"اللہ تمہیں بہت عمر دے الہیٰ بخش، ایسی باتیں نہیں سوچتے"
الہیٰ بخش نے کچھ نہیں کہا- اپنے گھر پہنچ کر اس نے کہا "باجی میرے گھر میں نہیں آئیں گے؟"
"کیوں نہیں"
الہیٰ بخش کی آواز توانا ہو گئی- وہ چیخ چیخ کر بیٹوں اور حاجرہ کو ہدایات دیتا رہا کہ وہ شاہ صاحب کی تواضع کریں- شاہ صاحب نے بھی اس روز تعرض نہیں کیا- ان کے جانے کے بعد الہیٰ بخش اچانک نڈھال ہو گیا- رات ہوتے ہوتے اس کی طبعیت بہت بگڑ گئی- بیٹے ڈاکٹر کو بلانے پر مصر تھے لیکن اس نے انہیں روک دیا- "کل تک میں ٹھیک نہ ہوا تو ڈاکٹر کو بلالینا" اس نے کہا "اب تم لوگ میرے پاس بیٹھو"
حاجرہ اس کے پاؤں دبانے لگی- مبشر سر سہلا رہا تھا اور مدثر مزمل اس کے ہاتھ سہلا رہے تھے-
"دیکھو کوئی قیامت تک نہیں جیتا- کوئی ساری عمر اپنوں کے ساتھ نہیں رہتا" اس نے کہا- "میری باتیں غور سے سنو ---- اور یاد رکھنا"
حاجرہ چپکے چپکے رونے لگی-
"دیکھو لوگ مجھے پہاڑی پر دفن کرنا چاہیں گے، ایسا نہ ہونے دینا- مجھے گاؤں کے قبرستان میں دفن کرنا" وہ بیوی اور بیٹوں کی کیفیت سے بے نیاز کہتا رہا- "میرا پیغام سب کو دے دینا کہ میری قبر پر صرف فاتحہ پڑھیں- اسے مزار نہ بنائیں- شرک نہ کریں، میں کسی قابل نہیں تھا، صرف دل آزاری سے بچنے کے لئے جھوٹا پیر بن گیا تھا- اور میرے بیٹو، یہلنگر کا سلسلہ بھی بند کر دینا- اور تم ---- تمہیں جو میں ہمیشہ سمجھاتا رہا ہوں وہی کرنا، لوگوں کی عزت، لوگوں سے محبت، سادات کا احترام، اور ہاں میرے ہر معاملے میں باجی سے مورہ کرنا—تم سب بھی میری کوہتاہیاں معاف کر دینا اور دوسروں سے بھی کہنا کہ میں نے سب سے معافی مانگی ہے- مجھے معاف کر دیں- میری مغفرت کے لئے دعا کرتے رہنا اور دوسروں سے بھی کرانا-"
وہ کہتے کہتے چپ ہو گیا- دیر تک چپ رہا- مبشر نے دیکھا وہ سو گیا- اس نے اشارے سے دوسروں کو بتایا- تینوں بھائی دبے قدموں وہاں سے ہٹ آئے- صرف حاجرہ اس کے پاؤں دباتی رہی- پاؤں دباتے دباتے وہ خود بھی سو گئی-
صبح وہ جاگی تو الہیٰ بخش اس وقت بھی سو رہا تھا- اس نے اٹھ کر اس کا چہرہ دیکھا- وہ بہت پر سکون اور صحت مند لگ رہا تھا- اس کے ہونٹوں پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ تھی، جیسے کوئی بہت حسین خواب دیکھ رہا ہو-
حاجرہ کو احساس ہوا کہ وہ بے حس و حرکت ہے- اس نے اس کی پیشانی کو چھو کر دیکھا- وہ برف سے ٹھنڈی ہو رہی تھی- پنچھی پنجرہ توڑ کر اڑ چکا تھا-
وہ ذی الحجہ کی گیارہ تاریخ تھی لیکن اس روز لنگ نہیں ہوا- مرید آئے تو اسی لئے تھے لیکن اس روز انہیں بس مرشد کو کندھا دینا تھا- جنازے میں ایک ایسا جوان شخص بھی تھا جو رو رہا تھا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ---- "بابا ----- پانی والے بابابا ----- میرا بچہ ٹھیک ہو گیا ہے بابا!"
بانڈہ بٹنگ کے جلاہے الہیٰ بخش کی کہانی ختم ہو چکی تھی ------ الہیٰ بخش کی کہانی، جس کا خمیر ہی عشق سے اٹھا تھا!
----------------------٭-------------------
لیکن الہیٰ بخش کی کہانی اب بھی ختم نہیں ہوئی تھی!

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے