عشق کا عین - علیم الحق حقی - قسط نمبر14

Urdu Novel PDF

رقیہ سولہ برس کی ہوئی تو الہیٰ بخش نے اس کی شادی کر دی- اس بوجھ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ اور ہلکا پھلکا ہو گیا- اس کے بعد اسے ایک کاما ور کرنا تھا- مبشر دکان پر تو بیٹھنے لگا تھا مگر الہیٰ بخش مطمئن نہیں تھا- اسے سب کچھ از سر نو منظم کرنے کی ضرورت کا احساس ہو رہا تھا-
اس روز اس نے تینوں بیٹوں کو جمع کیا "تم بہت اچھے ہو میرے بیٹو- مجھے تم پر فخر ہے" اس نے کہا "آج میں تمہیں جو نصیحت کر رہاہوں، اسے ہمیشہ یاد رکھنا- ایکے میں بڑی طاقت ہے میرے بچو- مل کر رہو گے تو تمہاری طاقت زیادہ ہو گی- الگ ہو جاؤ گے تو کمزور ہو جاؤ گے"
"ہم یہ بات سمجھتے ہیں ابا"
"میں چاہتا ہوں کہ تم کاروبار الگ الگ کرو لیکن ہمیشہ ایک ساتھ رہو- ایک بات یاد رکھو- فساد ہمیشہ عورت سے ہوتا ہے- گھر عورتوں کی وجہ سے توٹتے ہیں مگر عورتیں مردوں کی ذمے داری ہوتی ہیں- بیوی کو اپنی مرضی پر چلانا شوہر کا کام ہے- ایک ساتھ رہنے کے لئے تمہیں اپنی بیویوں کو قابو میں رکھنا ہو گا- نہیں رکھ سکے تو خسارے میں رہو گے- ہار جاؤ گے"
"پر ابا --- الگ کاروبار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟" مدثر نے کہا-
"ہاں ابا، ایک دکان ہم لوگوں کے لئے بہت ہے"
"تم ابھی کی سوچ رہے ہو- میں آگے کی سوچتا ہوں میرے بچو- تمہاری شادیاں ہوں گی- کنبہ بڑھے گا- میں چاہتا ہوں کہ وہ وقت آئے تو کاروبار میں ساجھا نہ ہو"
"پھر ابا، سوچا کیا ہے؟" مبشر نے پوچھا-
"ایک دکان اور ڈالنی ہے بیٹے"
"تب بھی دو بھائیوں کا ساجھا تو ہو گا" مدثر نے اعتراض کیا-
'نہیں بیٹے، میرے ذہن میں نقشہ اور ہے- تو ہمیشہ منڈی جاتا ہے- فروٹ لانا تیری ذمے داری ہے- میں سمجھتا ہوں، تجھے دکان کی ضرورت نہیں- تو مال لا کر دیا کرے گا----- اپنے دونوں بھائیوں کو بھی اور دکان داروں کو بھی- تجھے ایک سوزوکی دلا دوں گا میں- یوں تیری کافی اچھی آمدنی ہو گی- پر یہ بتا تجھے کوئی اعتراض تو نہیں اس میں؟"
"نہیں ابا، آپ ہمارا بھلا ہی سوچو گے نا" مدثر بولا "ویسے بھی میرا دل دکان سے زیادہ باہر کے کاموں میں لگتا ہے"
"یہ دکان مبشر سنبھالے گا، نئی دکان مزمل چلائے گا"
"ٹھیک ہے ابا"
"کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں؟"
"اعتراض کیسا ابا! آپ کا حکم ماننا ہی تو ہماری زندگی ہے" مزمل نے کہا-
"مگر میں وجہ ضرور بتاؤں گا- مبشر کاروبار میں اب آیا ہے- نیا ہے- اس کا تجربہ بھی سب سے کم ہے- اس کے لئے نئی دکان بھاری ہو گی- یہ چلتی ہوئی دکان ہے- اسے یہ بڑی آسانی سے سنبھال لے گا- پھر میں کبھی کبھار اس کا ہاتھ بٹا دوں گا- مزمل چھوٹا سہی مگر دکان کا تجربہ ہے اسے- یہ انشاللہ آسانی سے نئی دکان جما دے گا-"
"آپ کا فیصلہ درست ہے ابا"
ایک مہینے میں اس فیصلے پر عمل درآمد ہو گیا-
----------------٭--------------
زندگی ہموار زمین پر بہنے والی ندی کی طرح پر سکون تھی- سکون ہی سکون، طمانیت ہی طمانیت، نماز بھی قائم تھی اور ---------- رات کو سادی سے باتیں کرنے کا شغل بھی جاری تھا- فرق پڑا تو صرف صحت میں جوڑوں کا درد پچھلے کئی برسوں سے جان کے ساتھ لگا ہوا تھا اور وہ جانتا تھا کہ جان کے ساتھ ہی جائے گا-
سادی اس کے لئے پہلی جیسی محترم نہیں تھی- بلکہ پہلے سے زیادہ محترم تھی- آج وہ جو کچھ بھی تھا، اللہ کے کرم کی وجہ سے تھا اور وسیلہ سادی تھی- اس ملازمت ہی کہ وجہ سے وہ یہ کاروبار کرنے کے قابل ہوا تھا- ورنہ جوڑوں کے درد کے باوجود کہیں کام ڈھونڈتا اور کرتا پھرتا- یہ سکون اور طمانیت نہ ہوتی- یہٰی نہیں، آخری دن بھی سادی نے اس پر احسان کیا تھا- وہ اسے نہ بھگاتی تو وہ عمر بھر اس در پر پڑا رہتا اور ذلت اٹھانے کا عادی ہو جاتا- ساری عمر وہ کڑھتا رہتا، دکھی رہتا اور سادی اتنی قریب بھی نہ ہوتی-
یہ خیال جب بھی آتا وہ سادی کے لئے شکر گزاری میں ڈوب جاتا-
مگر اس روز مزمل کی دکان میں بیٹھے بیٹھے اس کی اچانک عجیب ہی حالت ہو گئی- گزری پوری زندگی اس کی نگاہوں میں پھر گئی، کیا وہ سوچ بھی سکتا تھا کہ کبھی ایسی فراغت کی زندگی گزار سکے گا- اسے ایسی محبت کرنے والی خدمت گزار بیوی ملے گی- ایسی سعادت مند اولاد ملے گی- ایسے حکم ماننے والے بچے! کہتے ہیں نیک اولاد اللہ کا سب سے اچھا تحفہ ہوتی ہے- تو اللہ نے اپنے نا فرمان بندے کو کیسے کیسے نوازا- کیا کیا کچھ عطا کیا اور بندے کو تو شکر کی بھی توفیق نہیں ہوئی-
بیٹھے بیٹھے الہیٰ بخش پر لرزہ طاری ہو گیا- بہت عرصے کے بعد باپ کہی کہی ہوئ باتیں یاد آئیں- باپ کہتا تھا حق یہ ہے کہ شکر ادا کر اور بہتر یہ ہے کہ عشق کر- لیکن وہ تو عشق ہی سے گھبرا کر گھر چھوڑ بھاگا تھا- پھر بھی اللہ نے کیسے قدم قدم پر اسے سہارا دیا- کیسی دستگیری کی اس کی- کیسے اس پر عنایت کی بارش کی- اور وہ ہے کہ اب تک پہلے جیسا ہے- نہ شکر نہ عشق -------
اس کے وجود میں جیسے پشیمانی کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے، چنگھارنے لگا- جسم کا رواں رواں استغفار کرنے لگا- پھر پشیمانی کے سمندر نے آنکھوں کا رخ کیا- اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے-
جانے کتنی دیر آنکھوں ست آنسو بہتے رہے- پھر اچانک اس پر گبھراہٹ طاری ہو گئی- اسے لگ رہا تھا کہ اس کا دل بڑا ہوتا جا رہا ہے ---- مسلسل --- جیسے وہ اس کے جسم سے بھی بڑا ہو گیا ہے- ------ پھیلتا جا رہا ہے ------ دور پوری زمین کی حد تک ----- اوپر آسمان کی حد تک------ اور جیسے دل پوری کائنات پر چھا گیا ہے- یہ بہت خوف زدہ کر دینے والا احساس تھا- وہ ----- اس کا وجود جیسے حقیر ------ بہت حقیر ذرہ ہو گیا تھا اور دل جیسے کائنات کو نگل رہا تھا- اور اس دل کی آواز ---- دھڑکن- ہر دھڑکن جیسے اللہ اللہ پکار رہی تھی------- اور وہ آواز بلند ------- بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی- حتیٰ کہ اس آواز کے سوا کائنات میں کچھ بھی نہیں رہا-
اللہ ---- اللہ ---- اللہ ---- اللہ ------
اچانک ایک اور آواز ابھری- فلک شگاف آواز ----- اللہ ----- اللہ ہو- اسے احساس ہوا کہ وہ آواز اس کے حلق سے نکلی ہے-اس کے وجود میں گونجی ہے اور وہ دھماکے سے پھٹ گیا ہے، اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو گیا ہے------
اچانک ایک اور آواز ابھری- فلک شگاف آواز ----- اللہ ----- اللہ ہو- اسے احساس ہوا کہ وہ آواز اس کے حلق سے نکلی ہے-اس کے وجود میں گونجی ہے اور وہ دھماکے سے پھٹ گیا ہے، اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو گیا ہے------
اس چیخ کے ساتھ ہی وہ پیچھے کی طرف گرا- لیکن اللہ ---- اللہ ہو کا وہ سلسلہ رکا نہیں- اس کے حلق سے مسلسل یہ صدا نکل رہی تھی اور اسے اس پر قابو نہیں تھا- وہ اس کے اختیار میں نہیں تھی-
مزمل نے وہ چیخ سنی تو باپ کی طرف لپکا- اس نے گرے ہوئے باپ کا سر اپنی گود میں رکھا- وہاں اللہ ---- اللہ ہو کے سوا کوئی آواز نہیں تھی- ادھر ادھر کے دکان دار بھی جمع ہو گئے – "کیا ہوا ---- یہ کیا ہوا؟ " کسی نے پوچھا-
'پتا نہیں ابا بیٹھے تھے- بس اچانک یہ کیفیت ہو گئی"مزمل نے بتایا-
کوئی گلاس میں پانی لے آیا اور چھینٹے دینے لگا لیکن الہیٰ بخش کی کیفیت نہیں بدلی- اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ اللہ ----- اللہ ہو پکارے جا رہا تھا- البتہ اس کی آواز بتدریج دھیمی ہوتی جا رہی تھی- پھر وہ نالکل ہی معدوم ہو گئی- الہیٰ بخش بے ہوش ہو چکا تھا-
کچھ دیر بعد ہوش آیا تو اس نے ادھر ادھر دیکھا- اس کی نگاہوں میں اجنبیت تھی- اس نے پھر اللہ ہو کا فلگ شکاف نعرہ لگایا اور اٹھ کر لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر بھاگا- مزمل نے اسے روکنے کی کوشش کی- لیکن الہیٰ بخش نے اسے جھٹک دیا- اس وقت وہ بہت توانا، بہت طاقتور ہو گیا تھا-
شام تک پورے ایبٹ آباد کو معلوم ہو گیا کہ بانڈہ بٹنگ کا الہیٰ بخش دیوانہ ہو گیا ہے-
--------------------٭--------------
شام کو الہیٰ بخش خود ہی گھر آ گیا وہاں سب ہی پریشان تھے- بیٹے اٹھ کر اس کی طرف لپکے اور اسے سہارا دے کر چارپائی تک لائے- "اب کیسی طبعیت ہے ابا؟" مبشر نے پوچھا-
"ٹھیک ہوں بیٹے"
اتنے میں حاجرہ بھی اندر سے چلی آئی "کہاں چلے گئے تھے؟"
"پتا نہیں مگر تھی بڑی خوبصورت جگہ" الہیٰ بخش نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا-
مبشر نے ماں کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ ایسے سوال نہ کرے- "ابا ---- تم لیٹ جاؤ" مبشر نے کہا-
الہیٰ بخش لیٹ گیا- مزمل اس کے پاؤں دبانے لگا "اماں لسی لاؤ ابا کے لئے" مدثر نے کہا-
لیکن الہیٰ بخش نے صرف دو گھونٹ پی کر لسی کا گلاس واپس کر دیا- "کیسا خراب ذائقہ ہے اس کا" وہ بڑبڑایا-
"کیسا محسوس کر رہے ہو ابا؟" مبشر نے پوچھا-
"نیند آ رہی ہے اور ٹانگیں بہت دکھ رہی ہیں"
بیٹے اس کی بات سمجھ سکتے تھے- نہ جانے کہاں کہاں مارا پھرا ہو گا وہ- اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تو ان تینوں کی ٹانگیں بھی دکھ گئی تھیں اور وہ انہیں نہیں ملا تھا- یہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کتنا پیدل چلا ہو گا- جبکہ وہ جوڑوں کا مریض بھی تھا-
"ماں ----- ابا کا بستر ٹھیک کر دو" مدثر نے ماں سے کہا-
الہیٰ بخش بستر پر لیٹتے ہی بے خبر ہو گیا- سوتے ہوئے وہ بہت پر سکون لگ رہا تھا- اس کے چہرے پر روشنی تھی-
اس روز الہیٰ بخش کے گھر میں شام ہی سے رات ہو گئی- بیٹوں کو بھی اس کی تلاش نے تھکا مارا تھا- وہ بھی جلدی سو گئے- ایک حاجرہ تھی، وہ جاگ رہی تھی- اسے تھکن نہیں تھی- لیکن اس کا دل بہت پریشان تھا- بیٹے اسے سب کچھ بتا رہے تھے- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے-
وہ بیٹھی الہیٰ بخش کی ٹانگیں دباتی رہی-
جانے کتنی دیر بعد الہیٰ بخش کسمسایا "بہت گرمی ہے" وہ بڑبڑایا-
"باہر صحن میں بستر بچھا ہے- چلو --- وہاں سو جاؤ"
"صحن میں" الہیٰ بخش نے کہا- پھر اس کا پورا جسم لرزنے لگا- "نہیں---- وہاں تو آسمان ہے- مجھے اس سے ڈر لگتا ہے-"
'آسمان سے ڈر لگتا ہے- آسمان تو ہمیشہ سے ہے" حاجرہ نے دہرایا-
"ہمیشہ سے ہے لیکن اب بہت قریب آ گیا ہے- میرا دل آسمان کو چھونے لگا ہے اب"
حاجرہ کی تشویش بڑھ گئی- وہ تو سمجھ رہی تھی کہ اب وہ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن وہ تو اب بھی دیوانوں کی سی باتی ں کر رہا تھا- "تمہیں ہوا کیا تھا؟" اس نے پوچھا-
چند لمحے خاموشی رہی پھر الہیٰ بخش نے کہا- "کچھ بھی نہیں- یہ میرا دل بڑا ہونے لگا تھا --- ہوتا جا رہا تھا- پھر وہ میرے سینے سے نکل گیا- پوری زمین، پورے آسمان تک پھیل گیا- بلکہ اس بھی آ گے نکل گیا- مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا- پھر مجھے ہوش نہیں رہا- کیا ہوا، مجھے کچھ یاد نہیں" وہ کہتے کہتے رکا- "مجھے اب بھی ڈر لگ رہا ہے حاجرہ"
"وہ وہم تھا تمہارا -ایسا ہو جاتا ہے" حاجرہ نے اسے تسلی دی-
"وہ وہم نہیں تھا حاجرہ" الہیٰ بخش نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کا "لیکن تم نہیں سمجھو گی"
حاجرہ کچھ نہیں بولی- اسے بھی خوف آنے لگا تھا-
"حاجرہ سنو! ذرا یہاں سر رکھو" الہیٰ بخش نے اچانک کہا اور اس کے سر کو اپنے سینے کی طرف کھینچنے لگا-
"نہیں --- سنو تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں ہے"
"بیوقوف عورت تم غلط سمجھ رہی ہو" الہیٰ بخش نے غصے سے کہا- "میں کہہ رہا ہوں، تم میرے دل سے کان لگا کر سنو"
حاجرہ کچھ نہیں سمجھی لیکن وہ بہت سہم گئی تھی- اس نے الہیٰ بخش کے سینے پر سر رکھ دیا- "کیا --- کیا بات ہے"
"کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی؟"
"ہاں --- دھڑکن کی آواز ہے- دل تو دھڑکتا ہے نا"
"کوئی اور آواز نہیں؟" الہیٰ بخش کے لجے میں مایوسی تھی- "میں ہاتھ رکھ کر سنوں تو کچھ اور سنائی دیتا ہے"
"لو ---- ہاتھوں کے بھی کان ہوتے ہیں کیا"
"ہاں ہوتے ہیں- تو تمہیں کوئی اور آواز نہیں ---"
اسی لمحے حاجرہ کا جسم لرزنے لگا- پہلے اس نے وہمسمجھا- مگر پھر اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ جو کچھ سن رہی ہے، حقیقت ہے- الہیٰ بخش کا دل دھڑک رہا تھا-

اسی لمحے حاجرہ کا جسم لرزنے لگا- پہلے اس نے وہمسمجھا- مگر پھر اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ جو کچھ سن رہی ہے، حقیقت ہے- الہیٰ بخش کا دل دھڑک رہا تھا------ لیکن دھک دھک کی بجائے وہاں سے اللہ اللہ کی آواز آ رہی تھی- اس پر لرزہ طاری ہو گیا-
"کیا ہوا ----- کیا ہوا حاجرہ؟" الہیٰ بخش نے پوچھا-
"تمہارے دل سے اللہ اللہ کی آواز آ رہی ہے"
"یہی تو مجھے لگ رہا تھا- میرے ہاتھ نے بھی یہی سنا تھا- تو یہ سچ ہے"
"ہاں جی یہ سچ ہے"
الہیٰ بخش نے حاجرہ کا ہاتھ تھام لیا- "حاجرہ میری بات غور سے سنو، تم نے ٹھیک کہا تھا- یہ سب وہم ہے- نہ میرا دل برا ہوا تھا-----آسمان اور زمین جتنا ---- اور نہ ہی یہ آواز اصل ہے- یہ سب وہم ہے- اور وہم کسی کو نہیں بتاتے-"
"لیکن -----"
"میں تمہیں حکم دے رہا ہوں- یہ بات کسی سے نہیں کہنا ورنہ ----"
"نہیں کہوں گی جی- کبھی تمہارا حکم ٹالا ہے" حاجرہ نے لجاجت سے کہا "پر ایک بات میری بھی مانو گے؟"
"بولو---"
"دیکھو----- اب دکان پر نہ جانا- بچے پریشان ہیں- تمہارے پیچھے بھاگیں گے تو کاروبار چوپٹ ہو جائے گا- ہماری تو گزر چکی- مگر انہیں تو زندگی گزارنی ہے- گھر چلانا ہے- سمجھ رہے ہو نا؟"
الہیٰ بخش نے اثبات میں سر ہلایا- "سمجھ رہا ہوں حاجرہ، تم ٹھیک کہتی ہو- مگر کسی طرح انہیں سمجھانا کہ میں بیمار نہیں ہوں- اب تو صحت مند ہوا ہوں"
حاجرہ کا ہاتھ اب بھی لرز رہا تھا-
"جاؤ ---- اب تم سو جاؤ"
الہیٰ بخش حاجرہ کے جانے کے بعد بھی دیر تک جاگتا رہا- یہ اس کا معمول تھا- ہمیشہ کی طرح اس رات بھی سادی اس کے پاس آئی تو وہ دور سے ہاتھ ہلانے لگا- "نہیں سادی اب واپس چلی جاؤ – اور آج کے بعد کبھی نہ آنا"
"کیوں الہیٰ بخش ---- ناراض ہو گئے ہو کیا؟"
"نہیں سادی، ناراض تو تم سے کبھی نہیں ہو سکتا- تمہارے تو بڑے احسان ہیں مجھ پر- بس اب تم سے رشتہ ٹوٹ گیا- یہیں تک تھا ہمارا ساتھ-"
"بے وفائی کر رہے ہو؟"
"نہیں سادی، بے وفائی کا دور خت م ہو گیا- اب تو وفا کا دور ہے- میں اس کا ہو گیا، جس کا پہلے ہی ہو جانا چاہیئے تھا-"
سادی نے غور اس کی آنکھوں میں دیکھا- پھر آگے بڑھ کر اس کی سینے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا دی- "مبارک ہو الہیٰ بخش، تمہیں منزل مل گئی- میں جاتی ہوں- الودع"
"الودع سادی"
سادی چلی گئی- الہیٰ بخش پھر بھی جاگ رہا تھا- وہ سر گوشی میں دل کی آواز سے آواز ملا رہا تھا- دیوانگی میں بھی اتنا ہوش تھا اسے کہ بچوں کی نیند خراب نہیں ہونی چاہئے-
------------------٭------------------
دن رات بدل گئے تھے- زندگی بدل گئی تھی- الہیٰ بخش اب دکان پر نہیں جاتا تھا- بعض اوقات دن میں کئی کئی بار اس پر دورے پڑتے تھے اور کبھی دورے کے بعد کی کیفیت اس پر کئی کئی دن طاری رہتی اور کبھی ایسا ہوتا کہ کئی کئی دن وہ نارمل رہتا- نارمل ہوتا تو وہ الہیٰ بخش ہوتا- کیفیت میں ہوتا تو کچھ اور لگنے لگتا- ایسے میں زیادہ تر وہ چپ چاپ بیٹھا رہتا- اس کے ہونٹ ہلتے رہتے مگر آواز نہ آتی- کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کیفیت میں اس پر وحشت طاری ہو جاتی- ایسے میں وہ بغیر بتائے گھر سے نکل جاتا- کوئی اسے روک نہیں سکتا تھا- اس میں بلا کی طاقت آ جاتی- وہ کسی کے قابو میں نہ آتا- نہ جانے کہاں کہاں وہ مارا مارا پھرتا ------ اور آخر میں گھر لوٹ آتا- مگر کبھی تو کئی کئی دن گھر سے غائب رہتا- واپس آتا تو وہ تھکن سے چور ہوتا- نڈھال لیٹا رہتا- یہ معلوم نہ ہوتا کہ وہ کہاں رہا ہے-
وہ پہلے بھی نظریں نیچی کر کے بات کرنے کا عادی تھا- مگر اب تو وہ نظریں اٹھاتا ہی نہیں تھا- ایک بار اس نے نظریں اٹھائیں تو حاجرہ کو خوف آنے لگا- اس کی آنکھو کی وہ چمک ----- الامان ----
اس کی آنکھوں کی وہ چمک ----- الامان!
ان سے توانائی پھوٹتی اور مسخر کرتی ہوئی محسوس ہوتی تھی- ان میں اتنی طاقت محسوس ہوتی تھی کہ لگتا تھا کہ وہ پہاڑ کو بھی اٹھا کر ایک طرف رکھ سکتی ہیں- پھر ایک دن حاجرہ کو اندازہ ہو گیا کہ الہیٰ بخش جب کیفیت میں ہوتا ہے تو اسے نظر انداز کرنے میں ہی عافیت ہے- اس سے بات کرنا، اسے چھیڑنا ٹھیک نہیں- دشواری یہ تھی کہ بعض اوقات ظاہری حالت سے یہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ وہ کیفیت میں ہے-
اس روز وہ لنگری میں مسالہ کوٹ رہی تھی- سامنے چارپائی پر الہیٰ بخش بیٹھا تھا- وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا- حاجرہ نے تین چار بار اسے پکارا- پھر جھنجلا کر بولی "سنتے نہیں ہو جی، ذرا دروازہ کھول دو جا کر- کوئی ہے دروازے پر"
اس بار الہیٰ بخش نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور بولا "مجھے تنگ نہ کر- تو لنگری توڑتی رہ"
بات زبان سے ادا ہوئی تھی کہ پکے پتھر کی مظبوط لنگری ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی- حاجرہ نے الہیٰ بخش کو دیکھا- وہ پھر اپنی سوچوں میں گم ہو گیا تھا- ادھر دروازے پر دستک اب بھی ہو رہی تھی- اب مسالہ پیسنا تو ممکن نہیں تھا- وہ دروازہ کھولنے چلی گئی-
حاجرہ نے اس واقعے کو زیادہ اہمیت نہیں دی- ایسا ہوتا ہے کہ پتھر کی لنگری رکھے رکھے بھی ٹوٹ جاتی ہے- مسالہ پیسنا ضروری تھا- وہ مسالہ لے کر پڑوس میں چلی گئی "ہماری لنگری ٹوٹ گئی ہے آج"
اس نے پڑوسن سے کہا-
اس نے بٹا اٹھا کر مسالے پر پہلا رگڑا ہی لگایا تھا کہ یہ لنگری بھی ٹوٹ گئی- اس بار حاجرہ کے رونگٹھے کھڑے ہو گئے- کیا یہ الہیٰ بخش کی بد دعا کا اثر ہے-
آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ اب وہ جو لنگری بھی استعمال کرنا چاہے گی، وہ ٹوٹ جائے گی- اس نے یکے بعد دیگرے پانچ لنگریاں منگوائیں اور پانچوں پہلے ہی رگڑے میں ٹوٹ گئیں-
مدثر جھنجلا گیا- "کیا کرتی ہو اماں لنگری کے ساتھ- جانتی ہو، ٹیکسلا سے لانی پڑتی ہے- میں ہر بار دیکھ کر لنگری لایا ہوں"
"بس بیٹے ایک بار لا دے- اب نہیں ٹوٹے گی انشاللہ-" حاجرہ نے گہری سانس لے کر کہا- وہ سمجھ گئی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے- اس نے خود مسالہ پیسنا چھوڑ دیا- اس کام کے لئے اس نے ایک نوکرانی رکھ لی----- مگر اب وہ پریشان ہو گئی تھی- اس کیفیت میں الہیٰ بخش کو تو کچھ پتا نہیں ہوتا تھا- کوئی بیٹا کچھ کہہ بیٹھے اور خدانخواستہ وہ جواب میں کچھ کہہ دے- وہ ہر وقت بیٹوں کے سمجھانے ٹوکنے لگی- یہ اس کے لئے روگ بن گیا تھا-
-----------------------٭--------------------
ایک دن مسئلہ بھی حل ہو گیا کہ الہیٰ بخش کیفیت میں کہاں جاتا اور کیا کرتا پھرتا ہے!
الہیٰ بخش دو دن سے غائب تھا- اب یہ ایسا معمول بن گیا تھا کہ وہ لوگ پریشان ہی نہیں ہوتے تھے- اس روز وہ دوپہر سے کچھ دیر پہلے دروازے پر دستک ہوئی- حاجرہ کو خیال ہوا کہ الہیٰ بخش آیا ہے- اس نے دروازہ کھولا تو سامنے اجنبی عورت کے ہاتھ میں مٹھائی کا بڑا ڈبہ تھا-
"جی کس سے ملنا ہے؟" حاجرہ نے پوچھا-
"بابا یہیں رہتا ہے؟"
"کون بابا؟" حاجرہ کو حیرت ہوئی-
"پانی والا بابا"
"کون پانی والا بابا، کس کو ڈھونڈ رہی ہو – کوئی نام تو ہو گا اس کا"
"نام کہاں بتاتا ہے وہ کہتا ہے ---- بندہ ہوں خدا کا- ہم تو اسے پانی والا بابا کہتے ہیں- وہ بس پانی مانگ کر پیتا ہے- کہتا ہے ----- اندر آگ جل رہی ہے- بجھتی ہی نہیں- پانی پلا دو"
اس دوران الہیٰ بخش آ گیا- عورت نے کہا " یہی تو ہے پانی والا بابا"
"کیا بات ہے بہن؟" الہیٰ بخش نے پوچھا-
"بابا --- یہ میرا بیٹا واپس آ گیا ہے- میں تیرے لئے مٹھائی لائی ہوں"
"میرے لئے کیوں لائی ہو مٹھائی؟"
"تم نے کہا تھا نا کہ یہ ایک مہینے کے اندر آ جائے گا- اٹھایئسویں دن یہ گھر آ گیا-"
'میرے کہنے سے نہیں اللہ کے حکم سے آیا ہے" الہیٰ بخش نے ترشی سے کہا- "مجھے تمہاری مٹھائی نہیں چاہیئے- جاؤ اللہ کے نام پر غریبوں کو دو- اللہ کا شکر ادا کرو" یہ کہہ کر الہیٰ بخش اندر کمر ے میں چلا گیا-
دونوں عورتیں حاجرہ کی خوشامد کرنے لگیں کہ وہ مٹھائیی رکھ لے "میں کیسے لے لوں" حاجرہ نے کہا "تمہارا بابا جو منع کر رہا ہے"
حاجرہ نے ان سے تفصیل پوچھی تو پتا چلا کہ وہ نواں شہر سے آئی ہیں- الہیٰ بخش کبھی کبھی وہاں جاتا ہے- وہاں کسی کے گھر سے پانی مانگتا ہے اور کئی کئی جگ پانی پی جاتا ہے- کہتا ہے اندر آگ ہی آگ ہے- بجھتی ہی نہیں-
"بابا اسی گھر سے پانی مانگتا ہے، جو کسی مشکل میں ہوں --- بڑی مشکل میں " ادھیڑ عمر کی عورت نے بتایا-
"تمہارا مسئلہ کیا تھا؟" حاجرہ نے پوچھا-
"یہ میرا بیٹا ہے ---- اس کا شوہر ---" بوڑھی عورت نے ادھیڑ عمر عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "وہ بارہ سال پہلے روزگار کے سلسلے میں کراچی گیا تھا- پہلے تو خط لکھتا رہا- پھر ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا- جیتا ہے یا مر گیا ہے- ہم بڑی تنگی میں رہے- اس کے بچے بیت تھے- جیسے تیسے گزارہ ہوتا رہا- بچے بڑے ہوئے تو کچھ سہارا ملا- پھر اس دن بابا آیا، پانی مانگا- میں نے پانی پلایا- یہ دو جگ پانی پی گیا- پھر بولا- ----- بہن تیرا بیٹا ایک مہینے کے اندر اندر آ جائے گا- آٹھائیسویں دن میرا بیٹا آگیا"
وہ اب بھی مٹھائی کے لئے اصرار کر رہی تھیں کہ الہیٰ بخش کمرے سے نکل آیا- "تم گئی نہیں ؟" اس نے پوچھا-
"متھائی لے لو نا بابا"
"میں نے کہا نا ، تمہارا بیٹا اللہ کے حکم سے واپس آیا ہے- اس کا شکر ادا کرو- اپنی حیثیت کے مطابق اس کے نام کی خیرات دو غریبوں کو-"
"حکم اللہ کا تھا بابا پر وسیلہ تو تو تھا"
یہ سن کر الہیٰ بخش آگ بگولا ہو گیا-

"کفر کرتی ہے" وہ دہاڑا "میرے کہنے سے تیرا بیٹا واپس آ گیا – تو مٹھائی لے آئی- میرے کہنے سے یہ واپس چلا گیا تو میرا سر پھاڑ دے گی- ہے نا- جا چلی جا ----" اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا-
حاجرہ ڈر گئی- "خدا کے لئے آپ لوگ چلے جاؤ- یہ مٹھائی غریبوں میں بانٹ دینا"
وہ لوگ چلے گئے-
ان کے بعد بھی اس طرح کے لوگ آتے رہے- کسی کے اولاد ہوئی تھی- کسی کا شوہر ٹھیک ہوگیا تھا- کسی کے گھر میں برکت ہو گئی تھی- سبھی نذرانے لاتے تھے- لیکن الہیٰ بخش نے کبھی کوئی چیز قبول نہیں کی اس طرح خاصی تلخی ہو جاتی تھی-
پھر ایک دن وہی دونوں عورتیں چلی آئیں- اس بار ان کے چہرے ستے ہوئے تھے- الہیٰ بخش گھر میں موجود تھا-
"بابا میرا بیٹا پھر چلا گیا- تم نے مجھے بد دعا کیوں دی تھی" بوڑھی عورت نے کہا-
"میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تمہاری سوچ غلط ہے" الہیٰ بخش نے نرم لہجے میں کہا- "نہ وہ میری دعا سے آیا تھا نہ میری بد دعا سے گیا ہے- سب اللہ کا حکم ہے"
"مجھ پر رحم کرو"
"کفر مت بولو بہن" الہیٰ بخش دونوں ہاتھوں سے اپنے رخسار پیٹنے لگا "تم میرا سر ہی پھاڑ دو- میں نے کہا تھا نا کہ چلا جائے تو میرا سر پھاڑ دینا آکے"
دونوں عورتیں شرمندہ نظر آ رہی تھیں "بابا، ہمارے لئے دعا کرو نا" ادھیڑ عمر عورت گڑگڑائی-
"دیکھو وہ پھر آئے گا" الہیٰ بخش بولا- "مگر اب وہ آتا جاتا رہے گا- وہاں بھی تو اس کے آنے کی دعا کرنے والے موجود ہیں- تم سے زیادہ انہیں اس کی ضرورت ہے"
"لیکن بابا-----"
"بس اب جاؤ" الہیٰ بخش نے تحکمانہ لہجے میں کہا-
اس بار دونوں عورتیں خاموشی سے چلی گئیں-
پھر یہ مشہور ہو گیا کہ پانی والا بابا کچھ نہیں لیتا- بلکہ دینے والوں سے ناراض ہو جاتا ہے- اس کے بعد نذرانوں والے مسئلے سے نجات مل گئی-
---------------------٭---------------------
الہیٰ بخش کی طبعیت میں ٹھہراؤ آتا جا رہا تھا- وہ جو بے خودی اور مدہوشی کی کیفیات اس پر طاری ہوتی تھیں، ان کے درمیانی وقفے بڑھتے اور دورانیئے کم ہوتے جا رہے تھے- جو روشنی اس کے اندر تھی، اچانک ہی اسے ملی تھی اور اس کے ظرف سے زیادہ تھی- مگر اب اتنے عرصے وہ بتدریج اس کا عادی ہو گیا تھا- اس کے نتیجے میں اس کے مزاج میں ٹھہراؤ مٹھاس اور ٹھنڈک آئی تھی- وہ کیفیت اس پر اب بھی طاری ہوتی تھی- بلکہ کئی کئی دن طاری رہتی تھی- لوگ اسے تنگ بھی کرتے تھے- مگر اب اس کی زبان بے قابو نہیں ہوتی تھی- دینے والے نے اس کا ظرف بڑھا دیا تھا- اس کی سمائی بڑھ گئی تھی-
اس کا حلقہ بھی بہت بڑھ گیا تھا- لوگ باقاعدہ اس کے مرید بن گئے تھے اور وہ خاصی تعداد میں تھے- ہر روز دو چار مرید آتے رہتے رھے- الہیٰ بخش کسی سے کچھ لیتا نہیں تھا- دنیاوی معاملات سے اسے غرض نہیں رہی تھی- پھر بھی ایک روز یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ یہ زبردستی کی مہمان داری بیٹوں کے لئے بوجھ بنتی ہے- اس کا ذہن اس مسئلے میں الجھ گیا- بالآخر اسے اس کا حل سوجھ ہی گیا-
گاؤں سے باہر سامنے پہاڑی پر درختوں کا ایک جھنڈ تھا- وہاں چیڑ کا ایک بہت اونچا اور گھنا درخت تھا- اس درخت کے نیچے بیٹھنا اسے بہت اچھا لگتا تھا- عرصہ ہوا کہ وحشت کے عالم میں اس نے ادھر ادھر بھٹکنا چھوڑ دیا تھا- جب بھی ایسا ہوتا وہ اس درخت کے نیچے آ بیٹھتا اور ذرا دیر میں پر سکون ہو جاتا- پھر وہ بہٹھا اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا-
اس نے معمول بنا لیا کہ صبح وہ گاؤں سے نکل جاتا اور اس درخت کے نیچے جا بیٹھتا- حاجرہ سے کہہ دیتا کہ کوئی آئے تو اسے وہیں بھیج دے- پھر اس نے نرمی سے عاجزی سے اپنے مریدوں سے کہا کہ وہ ہر روز یا کسی بھی روز نہ آیا کریں- بلکہ ہر مہینے چاند کی گیارہ تاریخ کو یہاں آیا کریں-
اس کے زبان سے نکلی ہوئی بات پوری ہونے کے کئی واقعات ایسے ہوئے کہ لوگ اس سے ڈرنے لگے تھے- انہوں نے بلا تامل اس کی بات مان لی- پہلے ماہ چاند کی دس تاریخ کو اس نے بیٹوں سے بات کی-
"کل مہمان آئیں گے- میں ان کے لئے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں"
"آپ حکم کریں ابا- ہم بس تعمیل کرنے والے ہیں"
اگلی صبح بیٹوں نے کھانے کے لئے سودا سلف پہاڑی پر پہنچا دیا- الہیٰ بخش نے کھانا پکانا شروع کیا- جلد ہی مرید آنے لگے- انہوں نے یہ ذمہ داری سنبھال لی- الہیٰ بخش اس فکر سے آزاد ہو گیا- وہ لوگوں کے مسئلے سننے لگا-
اس دن کے بعد ہر اسلامی ماہ کی گیارہ تاریخ کو یہ معممول بن گیا- کھانے کا اہتمام لنگر کا روپ دھار گیا- پھر ایک اور تبدیلی آئی- الہیٰ بخش نے حاجت مندوں کو تعویز لکھ کر دینے شروع کر دئیے- تھوڑے ہی عرصے میں شہرت ہو گئی- اللہ نے الہیٰ بخش کے تعویزوں کو خاص تاثیر عطا کی تھی-
بعض لوگ ایسے ہوتے تھے جن کے مسائل ہنگامی نوعیت کے ہوتے تھے- وہ گیارہ تاریخ کا انتظار نہیں کر سکتے تھے، وہ پہاڑی پر پہنچ جاتے تھے- الہیٰ بخش محسوس کرتا کہ معاملہ زیادہ اہم ہے تو وہ اسی وقت تعویز لکھ دیتا- ورنہ گیارہ تاریخ کو آنے کو کہہ دیتا-
پہلے کی نسبت اب اسے زیادہ فرصت میسر تھی- پہاڑی پر بیٹھ کر وہ گھنٹوں دنیا سے بے خبر سوچتا رہتا- ایسی باتیں جو کبھی اس کی سمجھ میں نہیں آئیں تھیں- مگر اب غور کرتے کرتے، اس کے ذہن میں روشنی کا جھماکا سا ہوتا- لگتا کہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہے لیکن وہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا- ---- دوسروں کو سمجھا نہیں سکتا تھا- وہ اٹھ کر مضطربانہ ٹہلنے لگتا-
وہ زور زور سے خود سے باتیں کرتا- کبھی کوئی پتھر اٹھا کر دور اچھال دیتا- ایسے عالم میں جو لوگ اسے دیکھتے دیوانہ ہی سمجھتے- یہ بے بسی اور جھنجھلاہٹ اسے مطالعے کی طرف لے گئی- شاعری کے مجموعے اس کے پاس پہلے ہی سے تھے- مگر اب وہ انہیں مختلف روشنی میں دیکھتا تھا- اس کے بعد مطالعے کی طلب بڑھی تو وہ دینی اور علمی کتب کی طرف راغب ہو گیا- مگر اس کے حصے میں وہی کتابیں آئیں جو عام تھیں، خاص کتابوں تک اس کی رسائی ممکن ہی نہیں تھی-
الہیٰ بخش کو احساس ہوتا تھا کہ اس کے سینے میں کوئی معلم بیٹھا ہے- وہ اسے پڑھاتا، پڑھنے پر اکساتا اور مشکل مسائل سمجھاتا ہے- وہ جو کوئی بھی تھا، بہت اچھا استاد --- بہت اچھا رہنما تھا- اس نے کبھی بھٹکنے نہیں دیا-
ڈیرے دی ونڈ میں فرید حسین شاہ کی بانڈی کے سامنے کچھ سادات اکٹھے تھے- چائے کا دور چل رہا تھا- سامنے ہی شاہ فرید کا پکا مکان تعمیر ہو رہا تھا-
"یہ تم نے اچھا کیا شاہ فرید کہ مکان کی طرف دھیان دیا-" افضل شاہ نے کہا- "ساری زندگی کچے مکان میں گزار دی-"
"میں تو اب بھی نہیں چاہتا تھا" شاہ فرید بولے- "اس فانی دنیا میں مکان پختہ کرنے کا فائدہ- میں اس کچے مکان میں ہی خوش تھا- مگر بچوں کے خیال سے راضی ہو گیا"
"ہاں بھئی ----- زمین دار لوگ ہی پیچھے رہ گئے اس معاملے میں" شاہ نصیر نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا " کام کرنے والوں نے اونچے مکان بنا لئے"
شاہ فرید مختلف مزاج کے تھے- روایات کی پاس داری کرنے والے ------ لیکن بلا کے منکسر المزاج- غرور اور گھمنڈ سے کوسوں دور- وہ بولے "مجھے کسی سے مقابلہ تھوڑا ہی کرنا ہے- ہر انسان اپنی جگہ ٹھیک ہے- کسی کو اللہ نے دیا اور کسی نے پکا مکان بنایا تو میرے تو یہ خوشی کی بات ہے"
"نہیں شاہ فرید، یہ ضروری تھا" انوار شاہ نے کہا- "یہ وقت ایسا ہے کہ نیچ لوگ سر پر چڑھنے لگے ہیں"
شاہ فرید مصلحتاٰ خاموش ہو گئے- ورنہ عام طور پر وہ ایسی باتوں سے اختلاف کرتے تھے- "ہاں جی، یہ تو سچ ہے" افضل شاہ نے تائید کی "وہ پیر بخش جلاہے کے بیٹے الہیٰ بخش کا سنا تم نے؟"
"کون------ وہ بانڈہ بٹنگ والا" فرید شاہ بولے- "آس کا تو برسوں سے نہیں سنا"
"لو ----- سب کو معلوم ہے کہ دیوانہ ہو گیا-" انوار شاہ نے بتایا- "دکان کاروبار بیٹے سنبھالتے ہیں"
"دیوانہ ہونا تو پرانی بات ہو گئی- اب تو وہ پیر بن گیا ہے" افضل شاہ نے طنزیہ لہجے میں کہا-
"ہاں جی، مرید بھی کم نہیں ہیں اس کے" نصیر شاہ نے کہا- "تعویز بھی لکھ کر دیتا ہے- مہینے کی گیارھویں کو نلگر بھی ہوتا ہے"
"اب جلاہے بھی پیر بننے لگے" افضل شاہ بولے-
وحید شاہ خاموشی سے باتیں سن رہے تھے- انہوں نے اب تک لب کشائی نہیں کی تھی- اچانک سامنے کچے راستے پر انہیں الہیٰ بخش سڑک کی طرف جاتا دکھائی دیا- "لو بھئی ----- بڑی عمر ہے اس کی- ہم اسی کی باتیں کر رہے تھے اور وہ آ گیا"
انور شاہ نے الہیٰ بخش کو پکارا " الہیٰ بخش ---- او الہیٰ بخش"
الہیٰ بخش اس وقت کیفیت میں تھا- انور شاہ کی آواز اس کی محویت نہ توڑ سکی-
"دیکھو تو، کیسے نظر انداز کر رہا ہے ہمیں- دماغ چڑھ گیا ہے اس کا پیر بن کے" افضل شاہ نے تبصرہ کیا-
اس پر انور شاہ کو جلال آ گیا- "او الہیٰ بخش سنتا نہیں ہے" انہوں نے گرج کر کہا- "ادھر آ"
اس بار الہیٰ بخش کو احساس ہوا کہ کسی نے اسے پکارا ہے- اس نے ادھر ادھر دیکھا- بانڈی کے سامنے اسے وہ لوگ بیٹھے نظر آئے- "باجی ---- مجھے آواز دی آپ نے؟" اس نے نرم لہجے میں پوچھا-
"ہاں الہیٰ بخش ادھر تو آ"
الہیٰ بخش ان کے قریب چلا گیا اور ہاتھ باندھ کر خادموں کی طرح کھڑا ہو گیا "حکم سرکار"
"تو بہرا ہو گیا ہے الہیٰ بخش یا جان بوجھ کر آواز نہیں سنی تھی؟" انور شاہ نے ترش لہجے میں کہا-
"نہیں باجی، آواز نہیں سنی تھی، ورنہ یہ گستاخی کیسے کرتا" الہیٰ بخش نے عاجزی سے کہا-
"گستاخی کیسی، اب تو تو بھی باجی بن گیا ہے" افضل شاہ نے طنز کیا-
"توبہ سرکار جی، باجی کوئی بن سکتا ہے- وہ تو اللہ پاک پیدا فرماتے ہیں- اللہ کی طرف سے یہ عزت پیدا ہوتے ہی مل جاتی ہے" الہیٰ بخش نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا "میں تو جلاہا پیدا ہوا تھا سرکا"
"پھر بھی پیر تو بن ہی گیا ہے تو" شاہ نصیر بولے-
"میں کہاں کا پیر، پیری تو آپ کے لئے ہے- میں تو خادم ہوں آپ کا"
"اور یہ مرید جو پال رکھے ہیں"
"زبردستی گلے پڑے ہیں پیرو، میں تو بس دل آزاری سے بچنے کے لئے چپ رہتا ہوں- دل نہیں توڑنا چاہتا کسی کا- اللہ جی کا حکم ہے نا شاہ جی سرکار"
"دل میں تو بہت خوش ہوتا ہو گا" وحید شاہ بولے-
"خوش تو میں ہر حال میں رہتا ہوں سرکار، اس عزت کی کبھی آرزو نہیں کی تھی- پر وہ جسے چاہے عزت دے- اس کی مرضی تو حرف آخر ہے" الہیٰ بخش نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا لی-

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے