دولت کا چسکا

Sublimegate Urdu Stories

میری منگنی عادل سے ہونے پر سبھی گھر والے خوش تھے۔ وہ بہت لائق طالب علم تھا، بی ایس سی میں فرسٹ پوزیشن لایا تھا۔ والد صاحب کا خیال تھا کہ انتالا ئق جو ان جس کمپنی یوں بھی جائے گا ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ والد صاحب نے منگنی کے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ شادی تبھی ہو گی جب تم بر سر روز گار ہو جاؤ گے۔ اس نے نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ کئی محکموں میں درخواستیں دیں، انٹرویوز بھی دیئے مگر ملازمت نہ ملی۔ ہر جگہ رشوت اور سفارش کا معاملہ تھا۔ والد صاحب اگرچہ خوش حال اور بڑے جنرل اسٹور کے مالک تھے، 
لیکن وہ بھی کوئی تگڑی سفارش نہ ڈھونڈ پائے۔ 

وہ چونکہ خود کم تعلیم یافتہ تھے، لہٰذا ان کی آرزو تھی کہ داماد پڑھا لکھا ہو ، لیکن میرے سادہ دل باپ اور چچا کو علم نہیں تھا کہ یہاں تو نوکریاں بکتی ہیں۔ اب عادل کی آنکھیں بھی گھلیں ، جو پوزیشن لا کر اعلیٰ ملازمت کا حصول بڑا آسان سمجھتا تھا۔ بہر حال، تنگ آ کر اس نے ایک معمولی نوکری پکڑ لی، مگر تنخواہ تھوڑی تھی لہٰذا اسے بھی چھوڑ دیا اور مقابلے کے امتحان کی تیاری کا ارادہ کر لیا۔ ادھر والد ہ ہر وقت چاچی کے کان کھاتی رہتی تھیں کہ نجانے تمہارے بیٹے کو کب نوکری ملے گی ؟ آخر ہم کب تک اپنی بیٹی کو بٹھائے رکھیں گے ۔ اماں کی مسلسل اس قسم کی باتوں سے چاچی پریشان ہو گئیں۔ 

والد نے سوچا کہ عادل کو نوکری نہیں ملتی تو ہیں اس کو کوئی کاروبار کرا دیتا ہوں۔ بیٹی کو جہیز تو دینا ہے ، وہی پیسہ نقد دیئے دیتا ہوں تا کہ لڑکا کاروبار کرلے۔ انہوں نے عادل سے بات کی۔ اس کو مجھ سے محبت تھی، میں بھی اس کو بہت چاہتی تھی ، مگر میرے والدین نے اس مسئلے کو پیچیدہ بنادیا تھا، جس کی وجہ سے ہم دونوں ہی پریشان تھے ، تاہم عادل نے یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کر دیا کہ مجھے کاروبار کا تجربہ نہیں ہے۔ اگر کامیاب نہ ہوا تو پیسہ بھی ضائع ہو جائے گا اور آپ کا غصہ برداشت کرنا پڑے گا۔ آپ مجھے اپنے کاروبار میں شامل کر لیں یا پھر میں مقابلے کی امتحان کی تیاری کرتا ہوں۔ 

انہی دنوں عادل کے ایک دوست نے کہا کہ میرے چچا کے ایک واقف کار کو ایک نوجوان کی ضرورت ہے ، جو اُن کا کاروبار دیکھ سکے۔ وہ اچھی تنخواہ دینے پر تیار ہیں۔ تم اگر راضی ہو تو میں اپنے چچا سے کہوں؟ یوں دوست کے چچا کی معرفت اس کی ملاقات سیٹھ امین سے ہوئی۔ اس نے عادل سے مالی حالات پوچھے اور اندازہ کر لیا کہ یہ بہت ضرورت مند ہے۔ اس نے عادل کو اچھی تنخواہ پر ملازم رکھ لیا اور کہا کہ دو چار دن میں کام کی نوعیت کو سمجھ لو گے۔ اس کے والدین نے بھی کہا کہ اب اس ملازمت کو مت گنوانا اور مقابلے کے امتحان کی تیاری کا بعد میں سو چنا۔

اب وہ باقاعدگی سے سیٹھ امین کے آفس جانے لگا۔ شروع میں انہوں نے اسے اپنے گاڑیوں کے شوروم لگا دیا کہ تمہاری ڈیوٹی ان گاڑیوں کی دیکھ بھال اور ان کی صفائی کا خیال رکھنا ہے۔ میں تمہیں کچھ دن پرکھنا چاہتا ہوں، اس کے بعد کاروبار کی ذمہ داریاں سونپوں گا۔ کچھ دنوں بعد سیٹھ نے اسے اپنے گیراج میں بھیج دیا اور کہا کہ یہاں جو لڑکا تھا، جب چھٹی سے واپس آئے گا تب تک تمہیں گاڑیوں کی دھلائی کرنی ہے۔ عادل کچھ حیران ہوا، لیکن خاموش رہا۔ اس نے سوچا کہ سیٹھ نے تنخواہ میں کمی نہیں کی ہے تو کوئی بات نہیں، چند دن گیراج میں ہی سہی۔ سیٹھ کو خوش رکھنا ضروری ہے۔ اس نے اپنی شادی کے لئے رقم اکٹھی کرنی تھی، پھر آگے بہن کی بھی شادی کرنی تھی۔

 اس کا رشتہ بھی طے تھا، لہٰذا اس ڈیوٹی میں اہانت محسوس کرنے کے بجائے تندہی اور دیانت داری سے اپنے فرائض ادا کرنے میں لگ گیا۔اس کے ساتھ دو اور نوجوان بھی کام کرتے تھے، لیکن ان کی ظاہری حالت دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ ان کا پہناوا اور رہن سہن، ان کو امیر ظاہر کرتا تھا۔ وہ بھی یہی کام کرتے تھے، مگر اکثر غائب بھی ہو جاتے تھے۔ عادل کو لگتا تھا کہ وہ اس کو پرکھنے کی خاطر یہاں آتے ہیں۔ وہ عادل سے کوئی سوال نہ کرتے، بس رسمی سی گفتگو ان کے درمیان ہوتی تھی۔ ایک روز عادل کام پر آیا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ اس نے حیرت سے ادھر اُدھر دے کر دیکھا۔ گیراج تو کھلا ہوا تھا، مگر کوئی شخص موجود نہ تھا۔ گیراج میں مالک کا دفتر بھی تھا، وہاں بھی کوئی موجود نہ تھا۔ وہ باہر آنے کو تھا کہ کھٹکے کی آواز آئی اور وہ یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا کہ فرش کا ایک ٹکڑا آہستہ آہستہ سرک رہا تھا۔ 
وہ فوراً وہاں رکھی میز کے پیچھے چھپ گیا کیونکہ وہ خوفزدہ ہو گیا تھا۔ فرش میں راستہ بن جانے کے بعد وہی دونوں لڑکے باری باری باہر آئے اور کوئی بیٹن دبایا تو وہ ٹکڑا پھر سے برابر ہو گیا۔ ان کو علم نہ تھا کہ کوئی میز کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ اس دن پہلی بار عادل کو پتہ چلا کہ گیراج کے نیچے بھی ایک کمرہ ہے۔ اسے شک گزرا کہ یہ لوگ شاید کچھ غلط کام بھی کرتے ہیں، کیونکہ جب وہ بیسمنٹ سے باہر آئے تھے تب انہوں نے قالین بچھا کر اس جگہ کو چھپا دیا تھا۔ جب وہ گیٹ کے پاس گئے تو ایک نے دوسرے سے کہا، کتنی بار تم سے کہا ہے کہ دروازہ بند کر دیا کرو۔ تم پھر لا پروائی کر جاتے ہو۔ کسی دن سیٹھ کو پتہ چل گیا تو تمہاری خیر نہیں۔ پھر دونوں گیراج میں آئے۔ ایک چائے لینے کے لئے باہر نکل گیا اور دوسرا ایک گاڑی کی ڈکی کھول کر اس پر جھک گیا۔ تنہا عادل جلدی سے دوسری گاڑی کے پیچھے بیٹھ گیا، جیسے اس کے پہیےصاف کر رہا ہو۔تم کب آئے؟ وہاں موجود نوجوان نے ڈکی سے سر نکال کر پوچھا۔ بس ابھی ابھی۔ یہ کہہ کر عادل نے اپنے حواس درست کیے اور کام میں محو ہو گیا۔ اگلے روز وہ دونوں نہیں آئے تھے۔ کام ختم کرنے کے بعد عادل کے دل میں تجسس نے ہلچل مچا دی۔ اس نے سوچا کہ دیکھوں تو، قالین کے نیچے کیا ہے۔ قالین ہٹانے پر وہاں ایک بٹن نظر آیا۔ اس نے بٹن دبایا تو پھٹہ ہٹ گیا اور نیچے جانے کا راستہ کھلتا گیا۔

 نیچے سیڑھیاں تھیں۔ وہ نیچے اتر گیا، لیکن سیڑھیاں اترتے ہی اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ پیچھے سے اس کے سر پر زبردست ضرب لگائی گئی۔ اسے کوئی ہوش نہ رہا اور جب ہوش آیا تو اس نے خود کو اسپتال میں پایا، جہاں اس کے گھر والے، میں اور میرے والد موجود تھے۔ ہم سب ہی پریشان تھے۔ عادل کے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں، ایک بازو اور ٹانگ زخمی تھی، تبھی نرس آ کر بولی کہ ڈاکٹر صاحب آ رہے ہیں، آپ سب باہر چلے جائیں۔ ہمارے جانے کے بعد ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے پیچھے ہی گیراج میں کام کرنے والا نوجوان فراز بھی تھا۔ عادل کو ہوش آ چکا تھا، وہ فراز کو دیکھ کر حیران ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد فراز اس سے بولا، کچھ دیر بعد پولیس والے بیان لینے آئیں گے اور پوچھیں گے کہ تمہیں کس نے زخمی کیا ہے؟ باس نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ تم بیان میں کہو گے کہ تم تنخواہ لے کر گھر آرہے تھے کہ راستے میں دو افراد نے تم پر حملہ کر دیا اور تمہارا بٹوہ اور روپے چھین کر فرار ہو گئے۔میں یہ بیان نہیں دے سکتا، یہ جھوٹ ہے، عادل نے کہا۔ تم اپنا ہی نقصان کرو گے کیونکہ پولیس نے اگر گیراج کی تلاشی لی، تو بھی دفتر اور اس کے نیچے کمرے سے کچھ نہیں ملے گا۔ وہاں دو ہی دفتر ہیں: اوپر باس کا اور نیچے میٹنگ کا۔ پولیس تو ہمیں نہیں پکڑ سکے گی، مگر ہم تمہاری بہن کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ پھر اس کا کیا حشر ہو گا، اس لئے خاموشی بہتر ہے۔ تمہارے علاج کا معاوضہ تو کمپنی دے ہی دے گی۔
 یہ کہہ کر وہ چلا گیا، جبکہ عادل سوچ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اسے اپنی بے بسی پر رونا آرہا تھا کیونکہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ جتنے دن وہ اسپتال میں رہے گا، یہ درندے اس کے خلاف ضرور کچھ نہ کچھ کریں گے۔ تبھی ضمیر کی آواز دبا کر اس نے فراز کا بتایا ہوا بیان پولیس کو دیا۔ تقریباً میں روز بعد اسپتال سے گھر آیا۔ میں چچا کے گھر رہنے چلی گئی تاکہ اس کی بہن اور امی کے ساتھ مل کر اس کی تیمارداری کر سکوں۔ میں نے پندرہ دن تک نہ صرف اس کی خدمت کی بلکہ ان کے مالی حالات کے پیش نظر چپکے سے چچا کو بھی کچھ رقم دی تاکہ علاج معالجے میں دقت محسوس نہ کریں۔

عادل جب صحت یاب ہو گیا، تو فراز نے اس کو پیغام پہنچایا کہ سیٹھ اس کو یاد فرما رہے ہیں۔ وہ ان کے دفتر گیا۔ انہوں نے خوش دلی سے اسے بیٹھنے کو کہا، تب وہ بولا، سیٹھ صاحب میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق پولیس کو غلط بیان دیا جبکہ مجھ پر ناحق تشدد کیا گیا تھا۔ آپ نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کرانے والوں کو بچا لیا۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ شکر کرو تم بچ گئے، ورنہ تم نے بھی تو غلط کام کیا تھا۔ تمہیں ہماری جاسوسی کرنے کی سزا ملی۔ تمہارا بھلا ان باتوں سے کیا واسطہ تھا؟ اپنے کام سے کام رکھنا تھا! گودام کے محافظوں کو میرا حکم ہے کہ جو شخص بھی بلا اجازت اندر آنے کی کوشش کرے، اسے شوٹ کر دو۔ اور تم نے بھی چوروں کی طرح وہاں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔

 مجھے معلوم ہے کہ تم چوری کی نیت سے نیچے نہیں اترے تھے، اس لئے انہوں نے تمہیں شوٹ نہیں کیا۔ اب بھی تم خود کو بے قصور کہتے ہو؟ بہرحال اپنی زبان بند ہی رکھنا، ورنہ تمہارے ساتھ اس سے بھی برا ہو سکتا ہے۔ یہ دھمکی نہیں، ہمارے کاروبار کے اصول ہیں، ان کی پابندی یہاں ہر ملازم کو لازمی کرنا ہوتی ہے۔ ابھی میں نے تم سے معاہدے پر دستخط نہیں کرائے ہیں کیونکہ میں تم کو پرکھنا چاہتا تھا۔ اگر تم میرے خلاف بیان دیتے تو تب بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے، لیکن اب تم کو مالا مال کر دوں گا۔سر مجھے اس طرح مالا مال نہیں ہونا۔ مجھے عزت پیاری ہے۔فضول باتیں مت کرو۔ اپنی اور اپنے گھر والوں کی حالت سدھارو، اپنی زندگی بناؤ۔ یہ تعلیم کسی کام نہیں آئے گی۔ ہمارے ساتھ کام کرو، تمہاری زندگی بن جائے گی۔مجھے سوچنے دیجیے۔ عادل نے غیر جذباتی لہجے میں کہا۔ٹھیک ہے، سوچ لو، مگر زیادہ وقت مت لینا۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارا ارادہ بدل جائے۔ اب جاؤ۔ بے شک دو تین ماہ نوکری تلاش کر لو، نہ ملے تو یہاں آجانا، میں تم کو رکھ لوں گا۔ عادل کے دماغ پر اس واقعہ کا گہرا اثر ہوا۔ کچھ دن اس نے نوکری تلاش کی مگر دن بدن گھر کے حالات خراب ہو رہے تھے۔ بہن کے سسرال والے رخصتی کا تقاضہ کر رہے تھے ، ادھر میرے امی ابو پریشان تھے کہ یہ لوگ کب مجھے بیاہنے آئیں گے۔ 
یہ ساری پریشانیاں مالی بوجھ کی وجہ سے تھیں اور ان مسائل کا حل کرنے والا اکیلا عادل تھا۔ جب وہ ہر طرف سے مایوس ہو چکا تو ایک دن چلتے چلتے اسی گیراج میں داخل ہو گیا۔ سیٹھ دفتر میں موجود تھا۔ وہ عادل کو دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ آدھ گھنٹے بعد عادل جب دفتر سے نکلا تو وہ بدل چکا تھا۔ وہ ہونہار نوجوان جو بھی معاشرے کا پڑھا لکھا فرد ہونے پر فخر کرتا تھا، ہمت اور حوصلے سے ستاروں پر کمند ڈالنے کے خواب دیکھتا تھا ، اب ہمت ہار چکا تھا۔ حالات نے اس کی کمر توڑ دی تھی۔ وہ دوبارہ گیراج میں کام کرنے لگا، مگر اس کا اصل کام رات کو شروع ہوتا تھا۔ سیٹھ کے ناجائز کمائی کے سامان اور مختلف بنڈلوں کو گیراج کی بیسمنٹ میں اور پھر دوسری جگہ مال پہنچانا ہو۔ اس میں منشیات کا دھندہ بھی شامل تھا۔ انہوں نے عادل کو ڈرائیونگ سکھا دی تھی۔ جب سیٹھ بیرون ملک چلا جاتا تو فراز اور گلاب خان اپنے کچھ شغل کرتے ، بعد میں عادل بھی ان کے ساتھ شامل ہونے لگا۔

 رات کے وقت یہ تینوں کسی گھر کی قسمت خراب کرنے نکل جاتے اور لوٹا ہوا مال آپس میں بانٹ لیتے۔ اس واردات کی خبر سیٹھ کو دے دی جاتی ، وہ اگر چاہتا تو کچھ حصہ لے لیتا۔ یہ واردات پر منحصر تھا کیونکہ پکڑے جانے کی صورت میں ان کو چھڑانے کی ذمہ داری بھی اسی پر تھی۔ جب ماحول خراب ہو، کام خراب ہوں، تو دل بھی بدل جاتا ہے۔ عادل کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہی لڑکا، جو کبھی کسی غیر لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا، اپنے ساتھیوں کی دیکھا دیکھی ، اب کسی کی عزت کی طرف ہاتھ بڑھانے میں بھی جھجھک محسوس نہیں کرتا تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ مجھ سے بھی ملنا چھوڑ دیا تھا۔ مجھے تب پتا لگا کہ اسے دولت کا نشہ چڑھتا جارہا تھا، اس کی رگوں میں دوڑتا خون بدلتا جا رہا تھا۔ اس کے پاس اپنے برے اعمال کے کئی جواز تھے کہ اس معاشرے میں میرٹ کی کوئی قدر نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ تایا تائی نے ایسی شرطیں رکھ دیں کہ ان کو پورا کرنے کے لئے مجھے آگ کے الاؤ میں کودنا پڑ گیا۔
 اگر وہ شادی کے لئے اتنی شرطیں نہیں رکھتے ، تو آج وہ آباد ہو چکا ہوتا۔ میں نے اسے کئی بار سمجھایا کہ دولت سیدھے راستے پر چل کر بھی مل جاتی ہے ، بس ذرا صبر کرنا پڑتا ہے۔ میری باتوں سے وہ برگشتہ ہو گیا اور ہمارے گھر آنا بند کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ میں ایسے شخص سے نفرت کروں گی جو غلط راستوں کا راہی ہو۔ ویسے بھی اب اسے بے ضمیری سے کمائی دولت کا چسکا پڑ چکا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک گھر کی دیوار پھاندی۔ گھر میں صرف چار افراد تھے ، جو سور ہے تھے۔ ان میں دو بوڑھے والدین، ایک نوجوان لڑکا اور ایک سولہ سترہ برس کی لڑکی تھی۔ انہوں نے چاروں کو بیدار کر کے نقدی اور زیورات طلب کئے اور لڑکے اور بوڑھے کو باندھ دیا۔ گھر میں بجو قیمتی اثاثہ تھا، بوڑھی عورت نے ان کو دے دیا، تب جاتے جاتے فراز نے کہا۔ عادل یہ لڑکی بہت خوبصورت ہے ، اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس کو ہاتھ مت لگانا یہ میری بہن ہے۔ بندھے ہوئے نوجوان نے غصے سے کہا، مگر وہ بے بس تھا۔ اگر ہم تم کو آزاد کر دیں تو تم ہمارا کیا بگاڑ لو گے ؟ میں تمہاری جان لے لوں گا یا اپنی دے دوں گا۔ 

یہ دونوں کام تم نہیں کر سکتے ، ہاں اگر تم ابھی وہ جملہ مکمل بھی نہ کر پایا تھا کہ لڑکی نے کہا۔ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں، میرے بھائی کو کچھ مت کہنا۔ بوڑھی بھی التجا کرنے لگی کہ ایک ہفتے بعد میری بیٹی کی شادی ہے ، ہم کو برباد نہ کرو۔ میں نے اپنی بیٹی کا سب قیمتی سامان اور زیور بھی دے دیئے ہیں۔ میرے بچوں کو کچھ مت کہنا۔ تب عادل نے نوجوان لڑکے کی کنپٹی سے پستول ہٹا لیا اور زیور بھی دے دیے لڑکی سے بولا۔ اگر تم میرے گال پر بوسہ دے دو، تو میں تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ لڑکی ، جس کے آنسو بہہ رہے تھے ، بولی۔ میں آپ کے سر پر بوسہ دے دیتی ہوں، آپ کو اپنا بھائی سمجھ کر ، مگر میرے بھائی کو کچھ مت کہنا۔ اس نے کچھ اس لہجے میں کہا کہ عادل کے ہاتھ میں پکڑا ہوا پستول لرز گیا۔ اسے لگا جیسے اس کی بہن سامنے بیٹھی اس سے التجا کر رہی ہے۔ اس لڑکی کے بھیا کہنے کا انداز بالکل بانو جیسا تھا۔ عادل کی نظروں میں اتری ہوئی غلاظت کسی اور رنگ میں بدل گئی۔ یہ اس معصوم لڑکی کے لہجے کی پاکیزگی کا اثر تھا کہ وہ جانور سے اچانک انسان بن گیا اور ساتھیوں سے بولا۔ روپیہ پیسہ نقدی زیور سب کچھ لوٹ لیا ہم نے ، چلو اب نکلو یہاں سے۔
خدا جس لمحے چاہے کسی بھٹکے ہوئے انسان کو سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ آج اسے بھی اس لڑکی نے سیدھی راہ دکھادی تھی۔ اس کی نظروں میں اپنی بہن کا چہرہ گھوم گیا تھا۔ بہن کی شادی بھی ایک ہفتہ کے بعد ہونا تھی۔ اس کا بھی جہیز اس نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بنایا تھا بھی تو وہ انسان سے درندہ بن گیا تھا۔ اپنے ساتھیوں کی بری نیت کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ لوٹا ہوا سامان بھی واپس کر دیتا۔ گھر آ کر وہ یوں ڑھے گیا، جیسے کسی نے اس کے منہ پر طمانچہ مار کر اس کا قبلہ درست کر دیا ہو۔ رات کا بقیہ حصہ اس کی آنکھوں میں کانچ کے ذروں کی طرح چھتے ہوئے بیت گیا۔ 

کچھ دنوں کی سوچ بچار کے بعد وہ خود تھانے پیش ہو کر سلطانی گواہ بن گیا، جس کی وجہ سے اس کی سزا میں تخفیف ہو گئی، مگر سزا تو ہو گئی۔ اس نے مجھے جیل سے پیغام بھیجوایا کہ میرا انتظار کرنا۔ میں جلد جیل سے رہا ہو جاؤں گا، پھر ہم شادی کریں گے ، مگر والد نے میری شادی کسی اور سے کر دی۔ عادل کی زندگی ان نوجوانوں کے لئے سبق ہے، جو بیروزگاری یا وقتی پریشانیوں کے دباؤ سے گھبرا کر جرائم کی دنیا میں چلے جاتے ہیں اور پھر ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ پھر اس سے باہر نہیں آ سکتے۔

  (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ