میرے والد اور تایا پولیس کے محکمے میں تھے۔ ایک بار ڈاکوؤں سے مقابلہ ہواتو دونوں فائرنگ کی زد میں آئے اور جان بر نہ ہو سکے۔ یوں تائی اور امی ایک ساتھ بیوہ ہو گئیں۔ ایک گھر تھا۔ دادا حیات تھے وہ بھی پولیس کے ریٹائر ڈ آفیسر تھے۔ پنشن آتی تھی اور مکان بھی ذاتی تھا، جو دو منزلہ اور کافی بڑا تھا۔ دادا جان نے اوپر کا پورشن کرائے پر اٹھا دیا۔
دادا جان ہی اب ہمارے کفیل تھے۔ کرایہ اور پنشن کے علاوہ کچھ زرعی اراضی بھی تھی، جس کی آمدنی سے وہ ہم سب کی پرورش کر رہے تھے اور ہم سکون سے جی رہے تھے۔ جب تک دادا زندہ رہے، ہم سب اکٹھے ایک چھت تلے محبت، اخلاق و اتفاق سے زندگی بسر کرتے رہے۔ وہ ہماری ضروریات اور اخراجات کو پورا کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ میرے بچے حسن سلوک سے رہیں۔ تبھی میری منگنی بچپن میں تایا زاد طفیل سے کرادی تاکہ ان کے بعد بھی یہ خاندان جڑا رہے۔
ان دنوں میں چھٹی اور طفیل آٹھویں میں پڑھتے تھے۔ ایک روز ہم چھت پر بیٹھے پڑھ رہے تھے ، سردیوں کے دن تھے دھوپ بھی سینک رہے تھے کہ کانوں میں ڈھول اور شہنائیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اٹھ کر دیکھا ہماری گلی سے بارات گزر رہی تھی۔ دلچسپ نظارہ تھا۔ دولہا نے سہر امنہ پر ڈالا ہوا تھا۔ اور وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ آگے آگے باجے تاشے والوں کے ساتھ لڑکے پائوں میں گھنگرو باندھے ناچ رہے تھے اور پیچھے بارات تھی۔ طفیل کی ہنسی نکل گئی۔ اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے؟ سہرے سے منہ چھپا ہوا ہے اوپر سے گھوڑے پر براجمان ہیں، اتنے ہجوم اور ڈھول کی آواز سے اگر گھوڑا بدک جائے تو اوندھے منہ گریں گے یہ دولہا میاں… بعض لوگوں میں رواج ہوتا ہے لیکن تمہیں کیا پرابلم ہے۔
جب تم دولہا بنو تو سہرا نہ باندھنا اور مت بیٹھنا گھوڑے پر ، گاڑی میں بارات لانا۔ گاڑی میں کیوں … بھئی۔ تو کیا پیدل چل کر دلہن کے گھر جائو گے ۔ مجھے بارات لے کر دلہن کے گھر نہیں جانا پڑے گا۔ احمق میری ہونے والی دلہن تو آج بھی میرے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتی ہے۔ میں ہی تو وہ ہوں جو اس کی دلہن بنے گی۔ اچانک مجھے یاد آ گیا تبھی بات بدل دی۔ اچھا تو مت، باندھنا س سہرا… اور مت لا نا بارات، بارات بھی لائوں گا اور سہر ابھی باندھوں گا لیکن گھوڑے پر ہر گز نہ بیٹھوں گا۔ سہر االبتہ ایک شرط پر باندھوں گا۔ اگر تم اپنے ہاتھوں سے مجھے سہرا باند ھوگی… باند ھو گی نا؟ کھائو قسم .. وہ پیچھے پڑ گیا تو میں نے جان چھڑانے کو قسم کھائی کہ اچھا بابا… باندھوں گی۔ وہ وقت آنے دو۔ یادرکھنا یہ بات ورنہ میں سہرا نہ باندھوں گا، اس نے بات کو دہرا کر وعدے کو پکا کروایا۔
وہ تو بچپن تھا گلی سے جاتی بارات کی طرح یہ خوابوں بھرا بچپن بھی گزر گیا اور ہم جوان ہو گئے۔ دادا جان کی زندگی تک ہمارا کنبہ جڑا رہا۔ ان کی وفات کے بعد امی اور تائی میں وہ سلوک نہ رہا اور جائداد کی تقسیم کے مسئلے پر اختلاف رہنے لگا۔ بالآخرامی جان ناراض ہو کر بچوں کے ہمراہ میکے چلی آئیں۔ ہمارے طے شدہ رشتے اسی باعث کھٹائی میں پڑ گئے۔ تاہم طفیل کو مجھ سے محبت تھی، اپنی والدہ کو مجبور کر کے ہمارے گھر لے آیا تا کہ صلح صفائی کی سبیل نکلے اور ہماری شادی ہو سکے۔ تائی نے امی کو منانے کی پوری کوشش کی اور کہا کہ جیسا چاہوں گی میں کروں گی، ہر صورت راضی ہوں، تم بس مان جائو اور ماہرہ کو میری بہو بنادو۔ والدہ نے جواب دیا کہ پہلے جائیداد کا بٹوارہ میری مرضی سے کرنا ہو گا، بعد میں رشتے کی بات چلانا۔ امی چاہتی تھیں کہ وہ دادا کے مکان کا فرنٹ پورشن لیں اور پچھلا حصہ تائی کو دیں، جبکہ تائی کا کہنا تھا کہ درمیان سے آدھا آدھا کریں تا کہ سڑک پر دونوں کے گیٹ علیحدہ علیحدہ بن جائیں۔
امی کا مطالبہ درست نہ تھا۔ تبھی تائی خاموشی سے لوٹ گئیں، تاہم والدہ کے انکار سے ان کو صدمہ ہوا۔ میں نے لاکھ سمجھایا۔ امی جان آپ کا مطالبہ درست نہیں ہے تائی صلح کی آرزومند ہیں۔ وہ آدھا گھر دینے پر راضی ہیں، آپ مان جائیے ، امی نے طفیل کو داماد نہ بنانا تھا۔ اسی وجہ سے اڑی رہیں۔ وہ لوگ مایوس ہو گئے۔ رشتہ ٹوٹنے کا طفیل کو اس قدر صدمہ ہوا کہ اس نے مزید تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ کہتا تھا میں ماہرہ کے لئے کچھ بننا چاہتا تھا ماہرہ نہ مل سکی تو اور محنت کر کے کیا کروں گا۔ حالانکہ وہ بہت لائق طالب علم تھا۔ اس کے ارادے بلند اور جب و ہی نہ مل مستقبل روشن تھا۔ امی کے انکار سے میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے تہیہ کر لیا۔ اب کبھی شادی نہ کروں گی۔ ایف ایس سی کر رہی تھی۔
سارا دھیان پڑھائی پر لگادیا۔ دن رات محنت کرتی تاکہ میرٹ بن جائے اور ڈاکٹر بن سکوں۔اللہ نے شکستہ دل کی سن لی، محنت رنگ لائی اور مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ تائی اور والدہ کا آپس میں ملنا جلنا ختم ہو چکا تھا۔ ایک دوسرے کے گھروں میں آتی جاتی نہ تھیں لیکن تا یا کی بیٹی صہبا سے میری بچپن سے گہری دوستی تھی اور اب تک وہی محبت دل میں جا گزین تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ ہم بچوں کا آپس میں کوئی جھگڑا اور اختلاف نہیں تھا۔ جب موقع ملتا میں صہبا سے ملتی اور خوب باتیں کرتی۔ ہم کبھی پھپھو کے گھر اور کبھی خاندان میں ہونے والی تقریبات میں مل جاتے تھے۔ لیکن طفیل سے شاذ و نادر ہی سامنا ہو پاتا۔ بات کرنے کا موقع نہ ملتا۔ طفیل نے مایوس ہو کر خود کو تنہا کر لیا، میرا بھی تایا ابو کے گھر جانا منع ہو گیا تھا۔ ہم دونوں یتیم تھے، امی کی ہٹ دھرمی نے ہمارے مرجھائے ہوئے دلوں کو اجاڑ ڈالا تھا۔
ایک دن صہبا ہمارے گھر آئی کہنے لگی ۔ ماہر ہ… طفیل دبئی جا رہا ہے ، اسے وہاں ملازمت ملی ہے ،اس نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ امی سے چوری چھپے آئی ہوں پلیز ماہرہ میری بات مان لو۔ طفیل نے کہا ہے کہ ایک بار اس سے مل لو۔ میرا بھی جی چاہتا تھا کہ اس سے ملوں لہٰذا میں پھپھو کے گھر چلی گئی اور وہ بھی مقررہ وقت پر وہاں آگیا۔ یہ میری طفیل سے آخری ملاقات تھی، اس نے وعدہ لیا کہ میں اس کا انتظار کروں گی اور کسی اور سے ہر گز شادی نہ کروں گی، وہ دبئی سے واپس آکر مجھے اپنالے گا۔ وہ چلا گیا، مجھے میڈیکل میں داخلہ مل گیا تھا۔ اب پڑھائی میں مصروف رہتی تھی۔ ہر خیال کو جھٹک کر بس ذہن اسی بات پر لگا تھا کہ ہر صورت ڈاکٹر بن کر دکھائوں گی۔ زندگی کو ناکامیوں، نامرادیوں کے حوالے ہر گز نہ کروں گی۔ قسمت میں طفیل کا ساتھ نہ بھی ہوا تو خلق خدا کی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن بنالوں گی۔ اس دوران کئی رشتے آئے، میں نے انکار کر دیا۔ امی جان کو باور کرا دیا کہ آپ میری شادی کا خیال دل سے نکال دیں، مجھے اپنا مقصد پورا کرنے دیں اور ڈسٹرب نہ کریں۔
ادھر میں نے ایم بی بی ایس مکمل کیا، ادھر دبئی سے طفیل لوٹ کر آگیا۔ اس کی ماں منتظر تھی، اپنی ایک سہیلی کی بیٹی سے رشتہ طے کر دیا۔ طفیل نے لاکھ منع کیا لیکن تائی نے ضد پکڑلی کہ شادی اب اسی لڑکی سے کرنی ہو گی۔ کیونکہ تمہاری چچی جب تک زندہ ہیں وہ ماہرہ کار شتہ نہ دیں گی، ان کی ہٹ دھرمی سے ہم واقف ہیں۔ ناچار بیٹے کو ماں کے آنسوئوں نے جھکا لیا اور طفیل کی شادی مریم سے طے ہو گئی۔ ان دنوں میں ہاسپٹل میں جاب کر رہی تھی۔ ایک روز صہبا آئی، کار ڈ دیا کہ طفیل بھائی کی شادی ہے اور انہوں نے ہی تمہارے پاس بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم نے ان کی سہرا بندھائی کے وقت ضرور آنا ہے ، ورنہ وہ سہرانہ باندھیں گے اور پھر یہ شادی نہ ہو گی۔ یہ سن کر میں عجیب مخمصے میں پڑ گئی، ہر گز تائی اماں کے سامنے جانانہ چاہتی تھی، حالانکہ ان سے کوئی گلہ نہ تھا۔ انکار خود میری ماں نے کیا تھا۔ انہوں نے تو مجھے بہو بنانے کو منتیں کی تھیں لیکن اب اس شادی میں میرا جانا بنتا نہ تھا کہ یہ میرے سابقہ منگیتر کی شادی تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے نے کے بعد میں نے صہبا سے کہا۔اچھا تم فکر مت کرو۔ تمہارا بھائی سہرا ضرور باندھے گا۔ میں پھپھو کے ساتھ آئوں گی ۔ طفیل کی شادی والے دن پھپھو کے گھر چلی گئی اور پھر ان کے ساتھ شادی میں پہنچی۔ سمجھا بجھا کر اپنے دل کو آمادہ کیا تھا کیونکہ چاہتی تھی کہ طفیل کا گھر آباد ہو جائے اور میری محرومیوں کا سایہ اس پر نہ پڑے۔
تایا کا گھر جو پہلے کبھی میرا گھر بھی ہوا کرتا تھا۔ خوشیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف ہنستے مسکراتے چہرے دمک رہے تھے۔ تائی کو مبارک باد کہا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، گلے سے لگا کر بولیں … بیٹی میں تو تمہی کو یہاں لانا چاہتی تھی لیکن تمہاری ماں نے یہ نہ ہونے دیا۔ ان کے یہ الفاظ میرے دل کو لہو لہو کر گئے۔ بڑی مشکل سے آنسوئوں کو ضبط کیا کیونکہ شادی میں تو چہرے کو مسکراہٹ سے سجانا ہی تھا۔ جب طفیل سے سامنا ہوا دل پر قیامت گزر گئی۔ وہ دولہا کے روپ میں سامنے تھا اس کی نظریں مجھ کو کھانے لگیں اور میں ادھر اُدھر منہ چھپانے لگی۔ صہبا سهر الئے کھڑی تھی، طفیل نے مجھ سے سہر امانگا اور میں نے قسم پوری کرنے کو سہرا اٹھا کر اس کو دیا۔ اس نے سر جھکایا اور سہر امجھ سے بند ھوایا۔ وہ مر دانے میں چلا گیا جہاں رسم نکاح کو عزیزو ا قارب جمع تھے لیکن وہ سہرا اندر سے ہی باندھ کر وہاں پہنچا اور پھر نکاح کی تیاریاں ہونے لگیں۔ یوں وہ پل بھر بعد کسی اور کا ہو گیا۔
گھر آئی تو ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔ دامن میں جو تھا آج سب تایا ابو کے در پر ڈال کر آگئی تھی اور اب تہی دست و دامن خالی تھی۔ رات بھر روتی رہی۔ صبح اسپتال نہ جا سکی، امی نے یہ حالت دیکھی تو پوچھا کیا ہوا ہے ماہر ہ… کیا روتی رہی ہو۔ طبیعت تو ٹھیک ہے۔ وہ میرے قریب آئیں تو میں اٹھ کر دور چلی گئی۔ آج میں ان کے قریب نہ جانا چاہتی تھی بلکہ اس واقعہ نے مجھے ہمیشہ کے لئے اپنی ماں سے بہت دور کر دیا تھا۔ طفیل مجھ سے دور ہو گیا اور شادی کے بعد اپنی بیوی کو لے کر دبئی چلا گیا۔ وقت گزرتا رہا، میں اسپیشلائزیشن کے بعد ایک بڑے اسپتال میں تعینات ہو گئی تھی۔ والدہ نے بہت کوشش کی کہ گھر بسالوں لیکن میں نے انکار کیا، کیو نکہ دل گھر بسانے کی امنگ سے خالی ہو چکا تھا۔ جب دل آباد نہ رہا گھر کیونکر آباد کر سکتی تھی۔ امی جان کو اب اپنے کئے پر پچھتاوا تھا کیونکہ جان چکی تھیں۔
امی سے رنج تھا کہ انہوں نے ہی مکان کی خاطر میرے دل کے نگر کو اجاڑا ہے۔ تائی نے ہمارے حصے کی قیمت سے بڑھ کر رقم دے کر سار امکان لے لیا۔ امی نے بھی ان سے منہ مانگی قیمت لی تھی لیکن روپیہ ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا۔ اب وہ خوب جان گئی تھیں کہ میں نے شادی نہ کرنے کی کیوں قسم کھائی ہے۔ طفیل دبئی میں بہت اچھا کمار ہا تھا اور اس کی بیوی عیش کر رہی تھی، جبکہ میں رات دن اپنی جاب میں مصروف رہتی تھی۔ ماں ٹھنڈی آہیں بھر تیں کہ ایسی دولت کس کام کی جب دل کی خوشیاں نہ رہیں۔ اب تو میں ایک روبوٹ تھی، ایک مشین تھی، جیتی جاگتی ارمانوں بھری لڑکی نہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔
شادی کے بعد پانچ سال تک طفیل کی بیوی کی گود ہری نہ ہو سکی، کافی علاج کرایا بالآخر وہ مصنوعی تولیدی عمل سے امید سے ہو گئی۔ لیکن یہ خوشی انہیں راس نہ آئی، بچی کی پیدائش پر ماں اور بچی دونوں ہی داغ مفارقت دے گئیں اور طفیل یہ غم سہنے کو پردیس میں تنہا رہ گیا۔ وہ بہت دلبر داشتہ تھا۔ اس کی بیوی کا آپریشن ہوا تھا جو کامیاب نہ ہو سکا، تبھی طفیل ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے وطن لوٹ آیا۔ اس واقعہ کے چند سال بعد امی کا بھی انتقال ہو گیا اور میں بھری دنیا میں اکیلی رہ گئی۔ دنیا سے مایوس ہو کر میں نے بیمار مریضوں کی خدمت میں خود کو گم کر دیا۔ رات دن اسپتال میں گزرنے لگے۔ امی کے بغیر خالی گھر تو کاٹنے کو دوڑتا تھا، تبھی اسپتال کے اندر ، ڈاکٹر ز ہاسٹل میں رہا کرتی تھی۔
تھک ہار کر کبھی دن میں اور کبھی رات کو بستر پر آکر گر جاتی تھی۔ وقت کراہتے اور آہیں بھرتے مریضوں کے در میان گزرتا رہا، یہاں تک کہ زندگی کی شام ہو گئی۔ دل میں طفیل کی یاد آج بھی ایک تازہ گلاب کی طرح مہکتی تھی لیکن شادی کی خواہش باقی نہ رہی تھی۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی اس کی زندگی اب کیسی گزر رہی ہے اور وہ کہاں ہے، کیوں ہمارے درمیان ایک طویل عرصہ سے رابطہ نہ تھا۔ ایک روز وارڈ میں ایک مریض کے آنے کی خبر ملی، جسے ایمر جنسی میں لایا گیا تھا، اس کی حالت ٹھیک نہ تھی، تبھی اسے آئی سی یو میں منتقل کر دیا تھا۔ میری ڈیوٹی سر جن صاحب نے انتہائی نگہداشت یونٹ میں لگادی۔ جب نئے مریض کو دیکھا ہوش اڑ گئے۔ یہ طفیل تھا جیسے بہت تکلیف تھی، وہ سانس نہ لے سکتا تھا۔ اس حالت میں دیکھ کر لرز گئی، جو بن سکا، کیا اور بہت توجہ سے علاج ہوا۔
اسے ہوش آگیا اور مجھے سامنے دیکھ کر خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات میں ڈوب گیا۔ ہم پندرہ برس بعد ملے تھے ، یہ ملاقات اس کے لئے نئی زندگی کی نوید بن گئی۔ چند دنوں میں ہی وہ ٹھیک ہو گیا۔ اب ہم پھر سے ملنے لگے ، اس نے بتایا کہ اس کی بیوی آپریشن کے بعد جان ہار گئی۔ اب طفیل تنہا رہتا تھا اور اس تنہائی نے اسے دمے کا مریض بنادیا تھا۔ مجھ سے ملنے کے بعد وہ رفتہ رفتہ حیرت انگیز طور پر روبہ صحت ہونے لگا۔ ایک روز اس نے کہا۔ ماہرہ تم ملی ہو تو میری بیماری آدھی رہ گئی ہے ، خدارا اب مجھ سے جدا نہ ہونا۔ ورنہ شاید مایوسی کا اژدھا میری جان ہی لے لے۔
طفیل کو پاکر اس قدر خوش ہوئی کہ اس خوشی کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہی حال ان کا ہے ، ہم بڑھاپے کی سرحد پر بھی خود کو جواں سال محسوس کرتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ شادی صرف جذبات کے بہلانے کے لئے نہیں کی جاتی، سچی رفاقت کے لئے کی جاتی ہے اور اسی کا نام محبت ہے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے