الہیٰ بخش نے اسے حیرت سے دیکھا- وہ اس سے اجازت مانگ رہی تھی یا اس کا مزاق اڑا رہی تھی- لیکن اس کے چہرے پہ کوئی ایسا تاثر نہین تھا- وہ جواب طلب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی- "خدا حافظ سادی بی بی"
"میری چھٹی ایک بجے ہوتی ہے- لیکن کبھی دیر ہونے لگے تمہیں تو تیز ڈرائیو نہ کرنا- میں پانچ دس منٹ انتطار بھی کر سکتی ہوں "
"جی سادی بی بی"
"اچھا۔۔۔ خدا حافظ"
الہیٰ بخش اسے گیٹ کی طرف جاتے دیکھتا رہا- کتنی پیاری لڑکی تھی وہ ۔۔۔۔ کتنی مٹھاس تھی اس کے لہجے میں اور کتنی اپنائیت ۔۔۔ لوگ نوکروں سے ایسے بات تو نہیں کرتے- اسے ذرا بھی غرور نہین ہے- کاش ۔۔۔۔۔۔۔ یہ لڑکی ایبٹ آباد کے کسی غریب گھرانے کی ہوتی- اسے اس کی کتنی فکر تھی کہ تیز ڈرائیونگ کو منع کر رہی تھی- کون جانے، اسے ڈرائیور کی فکر ہے یا اپنی نئی کار کی-
اس کے اندر سے کسی نے کہا- اس سے آگے اس سے سوچا نہین گیا- اس نے خود کو یاد دلایا کہ سادی اس کے لئے نہیں ہے- ہے تو اس حد تک کہ وہ اس کی خوشبو سے باتیں کر سکتا ہے- اس کی قربت پر خوش ہو سکتا ہے- اس سے آگے تو اس خواب دیکھنے کا حق بھی نہین-
وہ اسی راستے سے واپس آ گیا، جس سے سادی اسے لائی تھی-
ٹھیک ایک بجے وہ کالج پہنچ گیا- سادی گاڑی می آ بیٹھی- راستے میں ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی-
اگلا روز ذرا مختلف تھا- سادی ساڑھے سات بجے اکیلی باہر آئی- الہیٰ بخش گاڑی صاف کر رہا تھا "گڈ مارننگ الہیٰ بخش" سادی نے کہا- الہیٰ بخش تھوڑا حیران ہوا- پھر اس نے بھی جواب میں گڈ مارننگ سادی بی بی کہا- اس دن کے بعد یہ معمول میں شامل ہو گیا-
سادی گاڑی میں بیٹھ گئی تو الہیٰ بخش ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا "چلیں سادی بی بی"
اس نے کہا اور بلا ارادہ نظریں اٹھائیں- لیکن آئینے میں سادی کا وکس دیکھ کر وہ ہڑبڑا گیا- سادی اسے ہی دیکھ رہی تھی-
یہ کیا؟ اس نے سوچا- پہلے تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا- عقب نما شیشے کی پوزیشن تو بالکل کل والی تھی- البتہ سادی اس بار دوسرے کونے مین یٹھی تھی- الہیٰ بخش کی نظریں جھک گئیں-
"چلو الہیٰ بخش" سادی نے آہستہ سے کہا-
الہیٰ بخش نے گاڑی سٹارٹ کی اور آگے بڑھا دی-
اس روز الہیٰ بخش نے جب بھی نظریں اٹھا کر عقب نما آئینے میں دیکھا، سادی کو کھڑکی سے باہر ہی دیکھتے پایا- لیکن ہر بار اسے یہ احساس ہوا کہ اس سے پہلے سادی عقب نما ہی میں دیکھ رہی تھی اور اس کی نظریں اٹھتے دیکھ کر اس نے سر گھما لیا ہے-
پھر اچانک سادی نے پوچھا "یہ تم بیک ویو مرر میں کیا دیکھتے ہو"
الہیٰ بخش بوکھلا گیا "ج ۔۔۔۔۔جی ۔۔۔۔۔۔ کک ۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہین"
"پھر بھی کچھ تو ہو گا"
"بس اتفاق سے نظر اٹھ جاتی ہے" الہیٰ بخش نے معذرت خواہانہ لہجے می کہا "ورنہ میں تو اس شیشے کو دیکھتا ہی نہین"
"یہ تو بہت بری بات ہے- پھر تم اچھے ڈرائیور تو نہیں ہو سکتے"
"میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا، سادی بی بی"
"گاڑی میں یہ شیشہ لگا ہت تو اس کا کوئی مقصد، کوئی استعمال بھی تو ہو گا- یہ آرائش کے لئے تو نہیں نا!"
"ہاں جی، اس سے ڈرائیور پیچھے دیکھتا ہے، اس پر نظر رکھتا ہے"
"پر تم تو پیچھے کے ٹریفک پر نظر نہین رکھتے"
"یہ کیسے ممکن ہے سادی بی بی۔ پیچھے کے ٹریفک پر نظر نہ رکھو تو کسی بھی وقت کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے"
"تو جب میں نے پوچھا تھا کہ تم اس شیشے میں کیا دیکھتے ہو تو تم نے کہا تھا کہ کچھ نہیں دیکھتے" سادی نے شوخ لہجے میں کہا-
اس بار الہیٰ بخش بری طرح گڑبڑا گیا- "وہ جی سادی بی بی، میں آپ کی بات سمجھا ہی نہین تھا"
"میں تو یہ کہہ رہی تھی کہ تم اس شیشیے کو بھی دیکھتے رہا کرو- میں نہیں چاہتی کہ کوئی حادثہ ہو"
"آپ بے فکر رہیں سادی بی بی"
"اس روز سادی کو کالج چھوڑ کر کوٹھی واپس آتے ہوئے الہیٰ بخش اسی گفتگو پر سوچتا رہا- اب وہ اس شیشے میں سادی کو دیکھ سکتا تھا- اسے پیچھے کے ٹریفک پہ جو نظر رکھنی تھی-
---------------------٭--------------------
خوشبو کے اس سفر میں دن پر لگا کر اڑتے رہے!
اب وہ خاموشی میں نہیں ہوتا تھا- ان ے درمیان یکطرفہ بے تکلفی اور یکطرفہ گفتگو کا رشتہ قائم ہو گیا تھا- یکطرفہ اس لئے کہ الہیٰ بخش کے پاس کہنے کو کچھ تھا نہ پوچھنے کو- اس کی فطرت میں تجسس تو بہت تھا- لیکن اس نے اس پر قابو پانے کا طریقہ جان لیا تھا- یہ تو اسی وقت ہو گیا تھا، جب باپ اسے عشق کی تلقین کیاکرتا تھا اور وہ مزاحمت کرتا تھا- بات کچھ یوں ہے کہ عشق احترام سکھاتا اور تجسس احترام سے روکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
بات کچھ یوں ہے کہ عشق احترام سکھاتا ہے اور احترام تجسس سے روکتا ہے-
چنانچہ سادی سوال کرتی رہتی تھی اور وہ جواب دیتا تھا- سوالاتا سے اندازہ ہوتا تھا کہ سادی کو اس کے بارے میں تجسس بہت ہے- وہ اس سے اس کے شہر اس کے گاؤں کے بارے میں پوچھتی، ان کے رہن سہن، ان کے رسم و رواج کے بارے میں سوال کرتی- اس کے لئے وہ جیسے پریوں کا دیس تھا- بہت سی باتوں پر اسے یقین نہ آیا- خاص طور پر وہاں کے معاشرے میں عورت کا جو مقام اور کردار تھا وہ اسے اداس کر دیتا- دوسری طرف وہ اس علاقے کے قدرتی حسن کے متعلق سن کر بہت خوش ہوتی-
'ہائے وہ تو سچ مچ خوابوں کی سر زمین ہے-" وہ گہری سانس لے کر کہتی- "کاش ۔۔۔۔۔ میں بھی کسی ایسی جگہ رہ سکتی"
الہیٰ بخش کی سمجھ میں نہ آتا کہ یہ خوابوں کی سر زمین کا کیا مطلب ہے- وہ ایبٹ آباد میں پیدا ہوا تھا- اس نے آنکھیں ہی اس خوبصورتی میں کھولی تھیں- اس کے لئے وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی- اسے تو کراچی زیادہ اچھا لگتا تھا- "وہاں رہنا آسان نہیں ہے سادی بی بی!" اس نے کہا-
"کیا مطلب؟"
"وہاں کی زندگی رومینٹک بہت ہے" الہیٰ بخش نے پچھلے حوالے سے کہا-
"مین اب بھی نہیں سمجھی"
"وہاں روزگار نہیں ہے- اسی لئے تو ہم لوگ یہاں فٹ پاتھ پر بیٹھنے کو اپنے گھر پر ترجیح دیتے ہیں- وہاں کی ہماری زندگی یہاں کی زندگی سے بھی زیادہ رومینٹک ہے"
سادی کو وہ حوالہ یاد آ گیا اور وہ شرمندہ ہو گئی- "تمہیں اس دن بری لگی تھی میری بات"
"نہیں سادی بی بی مجھے تو اچھا لگا تھا- مگر میں نے یہ ضرور سوچا تھا کہ آپ وہ زندگی خود گزاریں، تب بھی وہ آپ کو رومینٹک لگے گی؟"
"بہت مشکل سوال ہے- شاید کسی دن مین تمہیں اس کا جواب دے سکوں" سادی نے کہا اور پھر گفتگو کا رخ بدلا- " اتنا خوبصورت علاقہ ہے تمہارا- اس کی وجہ سے کم از کم بہت بڑی بچت ہوتی ہوگی"
"کیسی بچت سادی بی بی"
"تمہاری شادی ہو گئی تو ہنی مون پر تمہارا زیادہ خرچہ نہیں ہو گا"
"ہنی مون- یہ کیا ہوتا ہے؟"
سادی ہنی مون کے متعلق سمجھانے لگی-
"ہمارے یہاں یہ بھی نہیں ہوتا-" الہیٰ بخش نے اس کی بات سننے کے بعد سادگی سے کہا "ہمارے ہاں تو میاں بیوی ساتھ بھی نہیں بیٹھتے کبھی- خود میں نے ابا اور اماں کی کبھی ایک ساتھ بیٹھے نہیں دیکھا"
سادی بھونچکا رہ گئی "کیوں بھئی؟"
"ہمارے ہاں شرم و لھاظ بہت ہے- کنبے کا کنبہ ساتھ رہتا ہے- لحاظ رکھنا پڑتا ہے- ورنہ لوگ بے شرم کہتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا"
"یہ تو کوئی اچھی بات نہیں" سادی نے کہا " میں نے قرآن پاک میں پڑھا ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں- اس سے قریبی کوئی رشتہ ہو ہی نہیں سکتا"
اس لمحے الہیٰ بخش کو وہ بہت بے شرم لگی- اسے افسوس ہوا، اس کے ذہن میں سادی کا جو تصور تھا وہ بھی مجروح ہوا- لیکن اس نے حوالہ قرآن پاک کا دیا تھا- پھر بھی اس ے دھیرے سے کہا- "اللہ نے شرم و حیا کو بھی اہمیت دی ہے- اس کی بہت تلقین کی ہے- اور پھر تنہائی اور محفل کے الگ الگ آداب ہوتے ہیں"
"میں صرف اس بات پر اعتراض کر رہی ہوں کہ میاں بیوی کا دوسروں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا بے شرمی تو نہیں ہوتا- خیر، یہ تمہارے ہاں کا قاعدہ ہے تو مجھے اس سلسلے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے" یہ کہتے کہتے سادی کے لہجے میں بے رخی آ گئی-
الہیٰ بخش خاموش ہو گیا- اس نے صرف محبت کی تھی- اگر سادی کو پانے کی آرزو کی ہوتی تو کچھ اس سمجھانے کی، کچھ خود سمجھنے کی کوشش بھی کرتا- لیکن ایک تو وہ جانتا تھا کہ وہ زمین پر کھڑا ہے- جبکہ سادی آسمان پر چمکنے والا چاند ہے، جس سے وہ باتیں کر سکتا ہے، جسے وہ دیکھ سکتا ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں سکتا- اسے ہاتھ بڑھا کر چھو نہیں سکتا- دوسرے اسے جس عشق کی گھٹی پلائی گئی تھی، اس میں صلے اور مآل کا کوئی تصور نہیں تھا-
سادی نے اس کی خاموشی کو ناراضی پر محمول کیا- وہ بولی "ناراض ہو گئے ہو کیا؟"
"نہیں سادی بی بی، آپ سے میں کبھی ناراض نہیں ہو سکتا- آپ کچھ بھی کہہ لیں کچھ بھی کر لیں"
"بہت بڑی بات کہہ رہے ہو- کبھی ایسا ہوا تو یاد ضرور دلاؤں گی"
"ایسا کبھی نہیں ہو گا سادی بی بی" الہیٰ بخش نے بڑے اعتماد سے کہا-
"چلو ۔۔۔۔ دیکھیں گے"
ایک اور موقع پر سادی نے اس سے پوچھا "تمہاری بیوی بھی تمہارے ساتھ ایسے ہی رہے گی، جیسا تمہارا قاعدہ ہے؟"
"جی سادی بی بی- آدمی اپنے ہاں کے رواج تو نہیں توڑ سکتا"
سعدیہ کچھ دیر سوچتی رہی "اور جو تمہاری شادی کسی شہری لڑکی سے ہو گئی تو؟"
الہیٰ بخش کی نظریں بے ساختہ اٹھیں- اس نے عقب نما میں دیکھا- سادی پہلے ہی اسے دیکھ رہی تھی- ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملیں- پھر الہیٰ بخش سامنے دیکھنے لگا-
"تم نے جواب نہیں دیا"
"یہ کیسے ہو سکتا ہے سادی بی بی"
"ہو کیوں نہیں سکتا- کہتے ہیں جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں"
"وہ تو ٹھیک ہے پر میرے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا"
"کیوں ۔۔۔ تمہارے ساتھ کیوں نہین ہو سکتا"
"بس میرا دل بتاتا ہے کہ میرے ساتھ ایسا نہین ہو گا" الہیٰ بخش نے پوری سچائی سے کہا- اس کا دل واقعی یہی کہتا تھا-
"اور فرض کرو ایسا ہو گیا- پھر؟"
الہیٰ بخش چند لمحے سوچتا رہا- پھر بولا "تو اس لڑکی کو میرے لئے دیہاتی بننا ہو گا"
"حالنکہ تمہیں اس کی خاطر شہری بن جانا چاہئے" سادی نے کہا "سوچتی ہوں، تم شہری بن کر کیسے لگو گے"
"کیسا بھی نہیں لگوں گا- اس لئے کہ بنوں گا ہی نہیں" الہیٰ بخش نے بریک لگاتے ہوئے کہا- گاڑی کالج کے گیٹ کے سامنے رک گئی-
"اچھا الہیٰ بخش، خدا حافظ- ایک بجے"
"ٹھیک ہے سادی بی بی، خدا حافظ"
------------------٭--------------------
الہیٰ بخش موجودہ وقت کا تقابل اس وقت سے کرتا، جب اس نے سادی کو دیکھا تھا- اس سے ملا نہیں تھا تو اسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ بڑے خسارے میں ہے- اب سادی اس کی نظروں کے سامنے ہوتی تھی، بہت قریب بھی ہوتی تھی- مگر اس سرشاری کی وہ کیفیت نہیں ہوتی تھی جس میں اسے کچھ بھی یاد نہیں رہتا تھا، جس میں بھوک پیاس کا احساس بھی مٹ جاتا تھا- کوئی تکلیف، تکلیف نہیں رہتی تھی- وہ خوش رہتا تھا- خوش اور مست بے خود!
اب اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ قربت محبت کو کم کر دیتی ہے ۔
اب اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ قربت محبت کو کم کر دیتی ہے- محبوب نظروں کے سامنے نہ ہو تو اس کا تصور بڑا ہوتا ہے- اس میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں ہوتی ہیں- اس کی خامیوں کا علم نہیں ہوتا- لہذا اس کا مرتبہ بلند ہی رہتا ہے-
تو کیا سادی کا مرتبہ کم ہو گیا ہے؟ اس نے سوچا اور اس سوال پر دیر تک سوچتا رہا- سادی کا مرتبہ کم نہین ہوا تھا- مگر یہ تھا کہ پہلے وہ عام انسان نہین لگتی تھی- جیسے کوئی خاص ہستی ہو ۔۔۔۔۔ آسمان سے اتری ہوئی- اب وہ ایک لڑکی لگتی تھی، جس پر وہ نکتہ چینی بھی کر سکتا تھا-
الہیٰ بخش خود کو ٹٹولتا رہا- سادی بہت اچھی، بہت پیاری لڑکی تھی- مگر اسے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی کہ وہ بے حجابانہ اس سے گفتگو بھی کر لیتی تھی، جو اس کے خیال میں معیوب تھی- بلکہ شاید وہ اس ہر موضوع پر بات کر سکتی تھی- جبکہ ایسا صرف دوستوں کے درمیان ہو سکتا ہے-
یہ سوچتے ہوئے الہیٰ بخش کو خیال آیا کہ وہ ایک اہم بات نظر انداز کر رہا ہے- یہ اپنی تربیت ، اپنے ماحول اور اپنی سوسائٹی کے رسم و رواج کی بات ہوتی ہے کہ کیا معیوب ہے اور کیا نہیں- اس بنیاد پر کوئی کسی پر بے شرمی کا فتویٰ نہیں لگا سکتا- یوں تو سادی بھی اس پر اعتراض کر سکتی ہے- مثلاٰ یہاں بیت الخلا ہر گھر میں ہوتا ہے- جبکہ گاؤں میں فرع ھاجت کے لئے لوگ باہر جاتے ہیں- شہر کے لوگ اسے بے شرمی قرار دیں گے- ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی کہ اتنی زمین ہوتے ہوئے گھر میں بیت الخلا کی گنجائش کیوں نہیں نکالی جا سکتی ہے-
پھر اسے ایک اور خیال آیا- ہزارے میں نوکروں کے ساتھ ایسا سلوک بھی نہیں ہوتا- اتنی بے تکلفی سے بات کرنا تو دوسری بات ہے، کوئی نوکر کو اپنے پاس بھی نہیں بٹھاتا- نوکروں کو منہ ہی نہیں لگایا جاتا- تو جب یہ بات ہزارے سے متصادم ہونے کے باوجود اسے بری نہیں لگتی تو دوسری باتیں بھی بری نہیں لگنی چاہئیں-
پھر اسے ایک اور خیال آیا- اسے سادی سے محبت ہے- بلکہ عشق ہے- تو عشق انسان کی خوبیوں سے نہین، خود انسان سے ہونا چاہئے- سادی کی بد ترین برائی سے بھی اس کا دل اس کی طرف سے برا نہین ہونا چاہئے- اور اس نے کوئی بالا ارادہ تو عشق نہین کیا- یہ جذبہ تو اس کے دل میں ڈالا گیا ہے- نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے سادی کو کسی قیمت پر برا نہین سمجھنا چاہئے اور پھر کون جانے، یہ کتنے دن کا ساتھ ہے- اسے تو بس سادی کو خوش کرنا چاہئے-
قریب آنے سے ایک نقصان اور ہوا تھا- پہلے وہ آنکھیں موندتا تو وہ اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی تھی- گھنٹوں وہ اس سے باتیں کرتا تھا- باتیں تو وہ اب بھی کرتی تھی اس سے- لیکن اس میں وہ لذت نہین تھی- پہلے وہ کم سوتا تھا- سوتا تھا تو وہ اس کے خواب میں ضرور آتی تھی- اب وہ پہلے کی طرح سوتا تھا- زیادہ تر خوابوں سے محروم نیند صبح سو کر اٹھنے میں بھی وہ لذت نہیں رہی تھی-
الہیٰ بخش اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ محرومی بڑی ہے- پھر اسے خیال آیا کہ وہ نا شکری کر رہا ہے- باپ اسے ہمیشہ یہی تو سمجھایا کرتا تھا کہ شکر گزاری نہ چھوڑو- شکرگزاری ہے تو عشق بھی کر سکتے ہو- وہ دل ہی دلمیں توبہ کرنے لگا- اسے تو وہ ملا تھا جو اس کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا-
اس کے وجود میں شکر گزاری موج در موج امڈنے لگی- اتنے عرصے میں پہلی بار اس نے وہ سرشاری محسوس کی جو مہینوں اس کا معمول رہی تھی-
----------------------------٭-------------------------
اس روز سعدیہ کسی گہری سوچ مین گم تھی- الہیٰ بخش نے کئی بار نظریں اٹھا کر عقب نما شیشے میں دیکھا- لیکن وہ سوچ میں گم رہی- وہ بھی پوری طرح ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا- لیکن اس کا دل پریشان ہو گیا- سادی پریشان تھی- لیکن کیوں ؟
اچانک سعدیہ نے اسے پکارا- "الہیٰ بخش ایک بات پوچھوں- سچ سچ بتاؤ گے؟"
"سادی بی بی ۔۔۔۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا" الہیٰ بخش نے سنجیدگی سے کہا-
"لیکن کبھی جھوٹ نہ بولنے والے بھی جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتے ہیں"
"پتا نہیں، میرے ساتھ تو آج تک ایسا نہین ہوا- خیر آپ پوچھیں"
"تم نے کبھی محبت کی ہے کسی سے؟"
"میں تو نسلی عاشق ہوں سادی بی بی!" الہیٰ بخش نے عقب نما شیشے میں دیکھا- سادی حیران نظر آ رہی تھی- " کیا بات ہے- آپ کو اتنی حیرت کیوں ہوئی؟" اس نے پوچھا-
"مجھے اس جواب کی توقع نہیں تھی- اور وہ بھی ان الفاظ میں"
"جو سچ تھا، ویسے ہی کہہ دیا"
"ذرا وضاحت تو کرو"
"ہماری نسل ہی محبت کرنے والی نسل ہے" الہیٰ بخش نے گہرا سانس لے کر کہا- "ابا بچپن ہی سے مجھے عشق کی تلقین کرتے تھے- لیکن مجھے عشق نہیں ہوا- میں عشق سے لڑتا رہا- مجھے عشق برا لگتا تھا"
سادی اب بھی حیران نظر آ رہی تھی- الہیٰ بخش نے وضاحت کرتے ہوئے اسے اپنے جدی عشق کے بارے میں بتایا-
"پہلے تم نے کہا کہ تم نسلی عاشق ہو- پھر تم نے کہا کہ تن عشق سے لڑتے رہے- یہ تو متضاد بات ہے"
"ہاں سادی بی بی، میں لڑتا رہا- مگر اب عشق میری سمجھ میں آنے لگا ہے- اب میں محبت کرنے لگا ہوں "
"کس سے"
"مجھے ہر انسان سے محبت ہے سادی بی بی، میں نے سمجھ لیا ہے کہ اللہ سے عشق کرنے کی یہی صورت ہے"
"پھر بھی یہ بتاؤ، کس سے محبت کرتے ہو تم"
"میں نے بتایا نا، ہر انسان سے- ماں باپ سے، بہن بھائیوں سے، رشتے داروں سے، آپ کے پاپا سے، کرمو چاچا سے، اظہر سے، آپ کی امی سے ۔۔۔۔۔۔ سب سے سادی بی بی"
"ادھر دیکھو" سادی نے کہا- الہیٰ بخش نے عقب نما شیشے میں دیکھا "تم نے میرا نام نہیں لیا- اس کا مطلب ہے، میں بالکل اچھی نہیں ہوں"
الہیٰ بخش نے نظریں جھکا لیں- "کسی کے منہ پر یہ کہنا جھوٹا جھوٹا لگتا ہے- اس لئے میں نے آپ کا نام نہیں لیا تھا"
"تو تم مجھے اچھا سمجھتے ہو؟ مجھ سے محبت کرتے ہو؟"
"جی سادی بی بی"
سادی شیشے میں اس کے عکس کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی- "ایک بات اور- آدمی ہر کسی سے برابری کی محبت تو نہیں کرتا، کسی سے کم، کسی سے زیادہ ہوتا ہے- یہ بتاؤ میرا کونسا نمبر ہے- مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو تم؟"
"یہ بتانا تو نا ممکن ہے بی بی، محبت آدمی نہ من سیر چھٹانک میں کرتا ہے، نہ گز فٹ انچ میں- سچ یہ ہے کہ میں خدا اور اس کے پیارے رسولﷺ سے عشق کرنا چاہتا ہوں- میں جانتا ہوں کہ انسان تو بس سیڑھیاں ہیں-"
سادی ے دیکھا تھا کہ اس کی محبت کے نام پر الہیٰ بخش کے چہرے پر رنگ دوڑ گیا تھا "یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں" اس نے کہا "اور میں اس محبت کی بات بھی نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔"
"محبت تو بس محبت ہوتی ہے ۔۔۔۔ کسی سے بھی ہو" الہیٰ بخش نے فلسفیانہ انداز میں کہا-
"میں تو پوچھ رہی ہوں کہ تم نے کبھی کسی لڑکی سے بھی محبت کی ۔۔۔۔؟"
"ایک بات کہوں، برا تو نہیں مانیں گی سادی بی بی؟"
"کہو،،،،"
"یہ تو بہت ذاتی نوعیت کی بات ہے- نہ تو کسی سے پوچھتے ہوں، نہ کسی کو بتاتے ہیں- اور آپ مجھ سے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیئں"
"کیوں- کیا حرج ہے اس میں"
"بس یہ اچھی بات نہیں"
"میں تو بس سمجھنا چاہ رہی ہوں کہ محبت کیسی ہوتی ہے- تم نے منع کیا ہے تو آئندہ ایسی بات نہیں کروں گی-"
الہیٰ بخش نے شیشے میں اسے غور سے دیکھا- "برا تو نہیں مانیں آپ؟"
"نہیں، غلط بات پر تم مجھے ٹوک سکتے ہو- یہ حق میں نے تمہیں دیا ہے"
الہیٰ بخش حیرت میں ڈوب گیا-
'گڈ مارننگ الہیٰ بخش"
"گڈ مارننگ سادی بی بی"
اس صبح الہیٰ بخش کو احساس ہوا کہ سادی بہت خوش ہے- اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں- اس کی آواز میں چہکار تھی- وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہیں-
"آج آپ بہت خوش ہیں سادی بی بی؟" الہیٰ بخش نے پوچھا-
"میں ہر صبح بہت خوش ہوتی ہوں"
"لیکن آج ہمیشہ سے زیادہ خوش ہیں"
"ہاں، آج موسم بہار کا پہلا گلاب کھلا ہے"
الہیٰ بخش کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا- اسے یاد ہی نہیں تھا- کب سے اسے گھر یاد نہیں آیا تھا- نہ گھر، نہ اپنے علاقے کے موسم- فٹ پاتھ پر تھا تو ہمیشہ ایبٹ آباد کو یاد کرتا رہتا- اب ۔۔۔۔۔ اب اسے خیال بھی نہیں آیا کہ بہار آ گئی ہے-
"کیا بات ہے، تم اداس ہو گئے"
"بہار نے اداس کر دیا ہے- کاش ۔۔۔۔۔ میں اپنی طرف کی بہار آپ کو دکھا سکتا- ہمارے ہاں بہت بڑے گلاب کھلتے ہیں- ایسے کہ ہاتھوں کے پیالے کو ایک ہی گلاب بھر دے"
"تمہیں گھر یاد آتا ہے تو چھٹی لے کر کچھ دن کے لئے گھر کیوں نہیں چلے جاتے"
"دل ہی نہیں چاہتا جانے کو"
کچھ دیر خاموشی رہی- پھر سادی نے کہا "میری ایک بات مانو گے"
"کیوں نہیں- آپ کہیں تو"
"مجھے ڈر ہے کہ نہیں مانو گےاور شاید برا بھی مان جاؤ گے"
اس پر الہیٰ بخش چوکنا ہو گیا- "میں تو نوکر آدمی ہوں سادی بی بی، پھر ایسی کوئی بات ہے تو مجھ سے کہیں ہی نہیں"
"کہنی بھی ضروری ہے"
"ذرا گاڑی سائیڈ میں روکو" سادی نے فرمائش کی-
الہیٰ بخش نے موقع دیکھ کر گاڑی ایک طرف لگا دی- لیکن وہ اندر ہی اندر پریشان تھا کہ ایسی کون سی بات ہے، جس کے لئے گاڑی رکوائی گئی ہے- "جی سادی بی بی؟" اس نے شیشے میں سادی کے عکس کو دیکھتے ہوئے کہا-
سادی نے اپنے پرس میں سے کچھ نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھائے "یہ لو، اس کے بعد میں تم سے کچھ کہوں گی"
الہیٰ بخش نے بے ساختہ ہاتھ بڑھا کر نوٹ تھام لئے- مگر پھر وہ پر سکون ہو گیا- "یہ کس لئے سادی بی بی"
"میں چاہتی ہوں کہ تم بہت اچھی پینٹ شرٹ، بہت اچھے شوز خریدو- میں چاہتی ہوں کہ کل صبح تم نئے کپڑے پہن کر باہر آؤ"
الہیٰ بخش کے چہرے کی رنگت متغیر ہو گئی- "سادی بی بی، پیسے میرے پاس بھی ہیں- پوری تنخواہ بچ جاتی ہے میری- کوئی خرچ ہے ہی نہیں"
"میں جانتی ہوں لیکن یہ میری خوائش ہے"
"مجھے افسوس ہے سادی بی بی، یہ میں نہیں کر سکتا" الہیٰ بخش نے نوٹ پچھلی سیٹ پر گرا دئیے-
"کیوں نہیں کر سکتے"
"میں نے قمیص پتلون کبھی نہیں پہنی- مجھے عجیب سا لگے گا- تماشا بننے کا احساس ہو گا مجھے- یہ مجھ سے نہیں ہو گا سادی بی بی"
"مان جاؤ نا"
"نہیں مان سکتا سادی بی بی، آپ یہ پیسے رکھ لیں" الہیٰ بخش نے عاجزی سے کہا-
"آتنی سی بات میری نہیں مان سکتے" سادی روہانسی ہو گئی-
"میں مجبور ہوں سادی بی بی" یہ کہہ کر الہیٰ بخش نے گاڑی آگے بڑھا دی-
اس کے بعد پورے راستے خاموشی رپی- کالج آنے پر سادی اتری اور اس نے معمول کے مطابق الہیٰ بخش کو خدا حافظ کہا- لیکن اس کالہجہ بجھا بجھا سا تھا-
واپس آتے ہوئے خود الہیٰ بخش بہت دل گرفتہ تھا- یہ احساس اسے ستا رہا تھا کہ اس نے سادی بی بی کا دل دکھایا ہے- بات اتنی بڑی بھی نہیں تھی- بس وہ ہونق نہیں بننا چاہتا تھا اور وہ یوں بجھ گئی تھی، جیسے اس کے انکار سے اسے دلی تکلیف ہوئی ہو-
اس روز وہ دس منٹ پہلے ہی کالج پہنچ گیا- وہ گاڑی کے باہر کھڑا انتظار کرتا رہا- سادی بی بی آئی تو اس نے اس کے لئے دروازہ کھولا- سادی خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی- الہیٰ بخش نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد عقب نما شیشے میں دیکھا- لیکن سادی کا چہرہ اسے نظر نہیں آیا- بالآخر الہیٰ بخش سے رہا نہیں گیا- "سادی بی بی ناراض ہیں مجھ سے؟" اس نے پوچھا-
"نہیں الہیٰ بخش ناراضی کیسی- ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے"
"میں تو زندگی میں کبھی اپنی مرضی نہیں کر سکا" الہیٰ بخش نے تلخی سے سوچا تا اب اس کے ساتھ کیا اپنی مرضی کرنی، جس سے دل کا، روح کا رشتہ جڑا ہے- اس نے بریک لگاتے ہوئے گاڑی سائیڈ میں روک دی- پھر اس نے پلٹ کر کہا "لائیے ۔۔۔۔۔ آپ کی خوشی کی خاطر میں آپ کی بات مانوں گا"
"یہ تو ذبردستی والی بات ہوئی" سادی نے افسردگی سے کہا "مین تو تمہیں خوش دیکھا چاہتی تھی"
الہیٰ بخش کو شرمندی ہوئی- واقعی، یہی بات ہنسی خوشی مان لینے میں کیا برائی تھی- "سادی بی بی مین شرمندہ ہوں" اس نے دھیرے سے کہا " اور یقین کریں، میں خوشی سے یہ بات مان رہا ہوں"
اسی وقت الہیٰ بخش کی نظر پڑی- روپے پچھلی سیٹ پر وہیں پڑے تھے جہاں اس نے گرائے تھے- سادی نے انہیں چھوا بھی نہین تھا- اور خود اس نے بھی دھیان نہیں دیا تھا- سادی نے پیسے اٹھا کر اسے دئیے- اس نے بغیر گنے جیب میں رکھ لئے-
باقی سفر میں بھی سادی اسی جگہ بیٹھی رہی، الہیٰ بخش کو احساس تھا کہ وہ اب بھی ناراض ہے، لیکن گھر پہنچ کر گاڑی سے اترنے سے پہلے سادی نے کہا-"شکریہ الہیٰ بخش!" الہیٰ بخش کھل اٹھا- اسے لگا کہ اس سے کوئی گناہ سردز ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اور اب اس کا کفارہ قبول کر لیا گیا ہے-
-----------------------٭-----------------------
پینٹ شرٹ کی خریداری الہیٰ بخش کے لئے بڑا مسئلہ تھا- اس کا اسے تجربہ نہیں تھا- سادی کا خیال نہیں ہوتا تو وہ خالی ہاتھ واپس آ جاتا-
اگلی صبح اس کے لئے آزمائش کی صبح تھی- وہ دیر تک گاڑی صاف کرتا رہا- سادی کے آنے سے دس منٹ پہلے وہ اپنے کوارٹر میں گیا اور کپڑے بدل کر یوں باہر نکلا جیسے کہین چوری کر کے آ رہا ہو- اس نے چوروں ہی کی طرح ادھر ادھر دیکھا- اتفاق سے کرمو چاچا بھی موجود نہیں تھا اور سادی آ چکی تھی- یہ پہلا موقع تھا کہ وہ پہلے آئی تھی-
وہ اسے دیکھ کر مسکرائی "اسلام و علیکم الہیٰ بخش!" یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے سلام کیا تھا، کیا یہ کوئی خاص دن ہے" الہیٰ بخش نے سوچا-
"وعلیکم اسلام بی بی" الہیٰ بخش نے اس کے لئے دروازہ کھولا
"سالگرہ مبارک الہیٰ بخش!" سادی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا-
الہیٰ بخش کی سمجھ میں پہلے تو کچھ بھی نہیں آیا اور جب بات سمجھ میں آئی تو اسے زبردست ذہنی جھٹکا لگا- اس نے تاریخ یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کچھ یاد نہ آیا- بالآخر اس نے سادی سے پوچھا "اج کیا تاریخ ہے سادی بی بی؟"
"22 اپریل"
الہیٰ بخش کو حیرت ہوئی- یہ واقعی اس کی سالگرہ کا دن تھا- اسے خود یاد نہیں رہا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہین تھی- وہ جہاں کا تھا، وہاں ان نخروں چونچلوں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی- پھر بھی اسے اچھا لگا کہ سادی نے اسے اتنی اہمیت دی- مگر حیرت اپنی جگہ تھی کہ سادی کو کیسے معلوم ہوا-
اس نے یہ بات سادی سے پوچھ ہی لی-
"تم نے ہی بتائی تھی یہ تاریخ"
"میں نے" الہیٰ بخش نے حیرت سے کہا-
"ہاں، میں تم سے تمہارے متعلق پوچھتی رہتی ہوں- مجھے تو بہت کچھ معلوم ہے تمہارے بارے میں- تمہارا پتا بھی ہے میرے پاس"
الہیٰ بخش کو احساس ہوا کہ وہبہت زیادہ باتیں کرتا رہا ہے- لیکن نہیں ۔۔۔۔ باتیں تو سادی کرتی تھی- بلکہ وہ سوال بہت کرتی تھی ۔۔۔ وہ بس جواب دیتا تھا- اس کا مطلب ہے کہ وہ واقعی اس کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے یعنی ۔۔۔۔ یعنی وہ اس کی پرواہ کرتی ہے-
اس پر الہیٰ بخش نے دل ہی دل میں خود کو ڈپٹ دیا- خوش فہمی پالنے کی اس کے پاس گنجائش نہین تھی- زمین اور اسمان کبھی نہیں ملتے- ہاں، آسمان نوازش کے بادلوں سے زمین کی سیرابی کا سامان ضرور کرتا رہتا ہے-
اس روز دونوں چپ چپ تھے- اپنی اپنی سوچوں میں گم، لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں، وہ خاموشی، خاموشی نہیں لگ ری تھی-
الہیٰ بخش نے گاڑی روکی- سادی نے اترنے سے پہلے اسے خوبصورت پھول دار کاغذ میں لپٹا ہوا ایک پیکٹ دیا- "یہ تمہاری سالگرہ کا تحفہ ہے"
"شکریہ سادی بی بی، لیکن اس کی ضرورت نہیں تھی- آپ نے میری سالگرہ یاد رکھی- ورنہ ہم لوگ خود بھی اپنی سالگرہ یاد نہین رکھتے"
"تحفوں کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے الہیٰ بخش" سادی نے کہا " تحفوں سے محبت بڑھتی ہے"
یہ کہہ کر وہ چلی گئی- الہیٰ بخش اس بات پر غور کرتا رہا- "ٹھیک کہتی ہو سادی بی بی، اس لئے تو اللہ اپنے بندوں کو تحفوں سے نوازتا رہتا ہے- لیکن بندوں کی محبت تو نہیں بڑھتی پھر بھی- کم از کم میرے جیسے بد نصیب بندوں کی"
پہلی بار باپ کی بات کا مفہوم اس کی سمجھ میں آیا تھا-
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے