دوپہر کو وہ سادی کو کالج سے واپس لایا تو بیگم صاحبہ لان کے باہر کھڑی کرمو سے کچھ بات کر رہی تھیں- انہوں نے الہیٰ بخش کو جو اس حلیے میں دیکھا تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں- پھر ان کی پیشانی پر شکنیں ابھی آئیں- "یہ تم ہو الہیٰ بخش- ادھر تو آؤ ذرا" انہوں نے پکارا-
الہیٰ بخش سمجھ گیا کہ عزت افزائی کے فوراٰ بعد بے عزتی کا لمحہ بھی آ گیا ہے- یہ بھی رب کی عنایت ہے کہ سر غرور اٹھنے نہ پائے اور سر میں کوئی سودا جگہ نہ بنائے- وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیگم صاحبہ کی طرف بڑھا-
"یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے الہیٰ بخش؟" بیگم صاحبہ نے کڑے لہجے میں اس سے پوچھا-
"میں سمجھا نہیں بیگم صاحبہ"
"پینٹ شرٹ پہن کر بابو بننے کا شوق کب سے ہو گیا تجھے؟" بیگم صاحبہ نے زہریلے لہجے میں کہا-
"مجھے ایسا کوئی شوق نہیں ۔۔۔۔۔ نہ کبھی ہو گا- لیکن ۔۔۔۔۔۔" الہیٰ بخش کا لہجہ سخت ہونے لگا-
اسی وقت کتابیں ہاتھ میں لئے سادی بھی آ گئی- "کیا بات ہے امی"
"الہیٰ بخش نے سر گھما کر اسے دیکھا- وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی- اس کی نگاہوں میں التجا تھی- الہیٰ بخش موم ہو گیا-
"تمہیں کیا ضرورت ہے بیچ میں بولنے کی-" بیگم صاحبہ سادی پر الٹ پڑیں-
"ضرورت اس لئے ہے کہ میرا ڈرائیور ہے"
"میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس کے لئے وردی ضروری ہے- وردی ہو تو آدمی کو اوقات یاد رہتی ہے- اب تم ہی دیکھو، یہ ڈرائیور لگتا ہے کہین سے؟"
"مجھے اس سے کوئی غرض نہیں امی- وردی کو میں نے ہی منع کیا تھا- مجھے کوئی اعتراض نہیں، جو لباس چاہے،پہنے- بس مجھے تماشا نہیں بننا"
"سادی ۔۔۔۔ سادی ۔۔۔۔۔ تم نہیں جانتیں- کم اوقات آدمی جب اپنی اوقات بھولتا ہے تو سر پر چڑھ کر بیٹھ جاتا ہے-" بیگم صاحبہ کے لہجے میں بے بسی اور جنجھلاہٹ تھی-
"میں اپنی اوقات نہیں بھولا بیگم صاحبہ، نہ کبھی بھولوں گا" الہیٰ بخش نے تحمل سے کہا- "مجھے یاد ہے کہ میں فٹ پاتھ پر بیٹھنے والا پینٹر ہوں- میں کبھی آپ کے سر نہیں چڑھوں گا"
"تو پھر یہ کپڑے کیوں پہنے تو نے- اس لباس میں سادی کی گاڑی کیوں لے کر گیا؟"
"میں کہہ رہی ہوں امی کہ مجھے اس میں کوئی اعتراض نہیں" سادی نے غصیلے لہجے میں کہا "اور الہیٰ بخش صرف مجھے جواب دہ ہے- اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ بے شک اس سلسلے میں پاپا سے بات کر لیں- مجھے کوئی دوسرا ڈرئیور ملے گا تو پھر بھی یہی ہو گا- بات صرف الہیٰ بخش کی نہیں ہے"
"ٹھیک ہے آج اس سلسلے میں بات ہو گی- پھر دیکھوں گی- تم بھی بہت آپے سے باہر ہو رہی ہو" بیگم صاحبہ نے سادی کو لتاڑا "اچھا اب اندر جاؤ پلیز"
سادی پاؤں پٹختی ہوئی اندر چلی گئی- اس کے جانے کے بعد بیگم صاحبہ الہیٰ بخش کی طرف مڑیں- "دیکھو الہیٰ بخش، یہ تمہاری روزی کا معاملہ ہے- میں اس میں کوئی خرابی نہیں کرنا چاہتی- یہ بہت گناہ کا کام ہے- لیکن ۔۔۔۔۔"
"میں بہت عاجزی سے آپ سے ایک عرض کروں" الہیٰ بخش نے ان کی بات کاٹ دی- "سچ یہ ہے کہ میں فٹ پاتھ کی مزدوری میں بہت خوش تھا- اپنی اوقات میں خوش رہنے والا بندہ جو ٹھہرا- اور رزق دینے والا اللہ ہے- اپ اس معاملے میں میرے ساتھ کوئی رعایت نی کریں"
"تو پھر یہاں نوکری کیوں کر رہے ہو- چلے جاؤ فٹ پاتھ پر" بیگم صاحبہ نے ج کر کہا- "میں تمہیں فارغ کر دیتی ہوں"
"بات آپ کی ہیں، صاحب کی ہے- صاحب جی فٹ پاتھ والوں کو عزت دینے والے ہیں- ان سے میں انکار نہیں کر سکتا- آپ ان سے بات کر کے مجھے فارغ کرا دیں- میں ہنسی خوشی چلا جاؤں گا-"
"بہت چالاک ہوتے ہو تم غریب لوگ" بیگم صاحبہ نے زہریلے لہجے میں کہا- "اتنی تنخوا چھوڑ کر ہنسی خوشی چلے جاؤ گے- مگر وہ بیوقوف شیخ صاحب جو مل گئے ہیں تو خوب عیش کرو"
الہیٰ بخش کا چہرہ تمتما اٹھا- "تنخوا کی بات نہیں ہے- میں تین وقت کی روٹی پر بھی یہاں نوکری کر سکتا ہوں- صاحب جی کہہ کر تو دیکھیں"
"نہ وہ کہیں گے نہ تم جاؤ گے"
"چلیں آج میں خود بات کر لیتا ہوں صاحب جی سے کہ مجھے آزاد کر دیں"
بیگم صاحبہ گڑبڑا گئیں- جانتی تھیں کہ اس معاملے میں شیخ صاحب سخت ہو جائیں گے- وہ احسان ماننے والے آدمی تھے- ان کی خبر بھی لے لیں گے- "نہیں اس کی ضرورت نہیں الہیٰ بخش" انہوں نے نرم لہجے میں کہا- "بس اپی اوقات میں رہو- آئندہ ان کپڑوں میں گاڑی نہ چلانا- اب اپنے کوارٹر میں جاؤ"
الہیٰ بخش اپنے کوارٹر میں چلاگیا-
-------------------------٭------------------------
الہیٰ بخش نے وہ پینٹ شرٹ اور جوتے اپنے صندوق مین رکھ دئیے- اس نے عہد کیا کہ اب وہ انہیں کبھی نہیں پہنے گا- ایک لمحے کو اس نے سوچا کہ انہیں جلا دے- لیکن اس نے فوراٰ ہی اس خیال کو رد کر دیا- وہ تو سادی کی عنات کی نشانیاں تھیـ وہ تو سنبھال کر رکھنے والی چیزیں تھیـں-
اسےا س تحفے کے بارے میں بہت تجسس تھا جو سادی نے اسے دیا تھا- اس نے سوچا تھا کہ رات کو سوتے وقت دیکھے گا کہ سادی نے اسے کیادیا ہے، مگر شام تک اس کا ضبط جواب دے گیا- اس نے اپنے کوارٹر کا دروازہ اندر سے بند کیا اور بڑی نزاکت سے پیکٹ کے اوپری کاغز کو کھولنے لگا- اس طرح کہ وہ پھٹے بھی نہیں-
پیکٹ سے ایک کارڈ بھی منسلک تھا- اس پر لکھا تھا ۔۔۔۔۔ الہیٰ بخش کے لئے سالگرہ کی دلی مبارکباد اور نیک خوائشات اور خلوص و محبت کے ساتھ- سادی- الہیٰ بخش نے کارڈ کو ایک طرف رکھ دیا- پھر اس نے پھول دار کاغذ بھی وہیں رکھ دیا-
کاغذ ہٹنے کے بعد اندر سے ایک پیکٹ نکلا- اس نے پیکٹ کو کھولا تو ایک پیکنگ برآمد ہوئی- پیکنگ میں سے ہلکے رنگ کی ایک بہت کوبصورت بوتل نکلی، جس میں زرد رنگ کا کوئی سیال بھرا ہوا تھا- وہ خوشبو تھی ۔۔۔۔۔ انگریزی خوشبو، الہیٰ بخش نے بوتل کے منہ پر لگے ہوئے کور کو ہٹایا- وہ اسپرے تھا-
الہیٰ بخش چند لمحے محبت سے اسے دیکھتا رہا- پھر اس نے بوتل کے ٹاپ کو دبایا- سیال کی پھوار اس پر گری- اس کا پورا کوارٹر مہک گیا- وہ بہت بھینی ۔۔۔۔ اور دلربا خوشبو تھی- الہیٰ بخش نے چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھا- اسے ڈر تھا کہ خوشبو کوارٹر سے باہر نکل جائے گی لیکن وہ اسے روک بھی نہیں سکتا تھا اور بولتی باتیں کرتی وہ خوشبو کسی کے کانوں میں پڑ گئی تو!
یہ کیسا خطرناک تحفی دیا ہے سادی نے-
اسے محاورہ یاد آیا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے- لیکن عشق کو تو اس نے بڑی کامیابی سے چھپا لیا تھا- کسی کوپتا نہیں چل سکاتھا کہ اسے سادی سے عشق ہے- مگر اب وہ پریشان تھا کہ اس خوشبو کو چھپانا، اس کے لئے آسان نہیں تھا-
اس نے بوتل کو کور لگا کر اس کی پیکنگ میں رکھا- اب وہ خوشبو کے تحلیل ہونے کا منتظر تھا- عشق اور عام خوشبو میں یہی فرق ہے- عام خوشبو تو ختم ہو جاتی ہے- لیکن عشق کبھی ختم نہیں ہوتا- اسی لئے وہ بلآخر پکڑا جاتا ہے-
مگر وہ خوشبو کچھ مختلف تھی- الہیٰ بخش کو محسوس ہوا کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ خوشبو تیز ہوتی جا رہی ہے- جب وہ خوشبو پھیلی تو منہ بند کلی کی طرح تھی اور اب جیسے خوشبو کی وہ کلی کھل رہی تھی- جانے پھول بنے گی تو کیا حال ہو گا- الہیٰ بخش نے سوچا-
وہ خوشبو میں گھرا بیٹھا خوشبو کے تحلیل ہونے کا انتظار کرتا رہا- جانے کتنی دیر ہو گئی-
اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ شام ڈھل چکی ہے اور کوارٹر میں اندھیرا ہو گیا ہے- پھر دروازے پر ہونے والی ہلکی سی دستک نے اسے چونکا دیا- وہ اس چور کی طرح گھبرا گیا، جسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ہو- وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس تحفے کو کہاں چھپائے- گھبراہٹ میں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا-
دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی-
الہیٰ بخش نے پھول دار کاغذ، کارڈ اور پیکنگ کو جلدی جلدی بکس میں رکھا- اتنی دیر میں دروازے پر تیسری دستک ہو چکی تھی- بکس بند کر کے وہ اٹھا تو اسے یہ احساس ہوا کہ خوبو کی آواز تو اور تیز ہو گئی ہے- وہ خوشبو کی شیشی تو چھپا سکتا ہے لیکن خوشبو کا گلا تو نہیں گھونٹ سکتا، جو پورے کوارٹر میں پھیلی ہوئی تھی- وہ دروازے پر گیا- چوتھی دستک نسبتاٰ بلند تھی-
"کون ہے؟" اس نے پوچھا-
"دروازہ کھولو، میں ہوں سادی"
الہیٰ بخش کا دماغ بھک سے اڑ گیا- سادی ۔۔۔۔۔۔ اور یہاں ۔۔۔۔۔۔
"دروازہ کھولو میں ہوں سادی"
الہیٰ بخش کا دماغ بھک سے اڑ گیا- سادی ۔۔۔۔۔۔ اور یہاں! وہ پتھر کا بت بن گیا- ساکت و جامد!
"دروازہ کھولو الہیٰ بخش"
الہیٰ بخش نے دروازہ کھول دیا- سادی ہوا کے جھونکے کی طرح اندر آ گئی- "کیا بات ہے- سو رہے تھے" اس نے پوچھا-
"نن۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ جج ۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں"
"کوارٹر میں اندھیرا کر رکھا ہے- لائٹ کیوں نہیں جلائی"
"بس آنکھ لگ گئی تھی"
"سوری میں نے تمہیں ڈسٹرب کیا"
"ارے نہیں- سادی بی بی! آپ بتائیں کہیں چلنا ہے؟"
"نہیں، کہیں جانا نہیں ہے-" سادی نے کہا- "میں تم سے ملنے آئی ہوں- اپنا کوارٹر نہیں دکھاؤ گے؟"
"کیوں نہیں سادی بی بی! یہ آپ لوگوں کا دیا ہوا ہی ہے-' الہیٰ بخش نے کہا-"لیکن پھر بیگم صاحبہ کہیں گی میں اپنی اوقات بھول رہا ہوں"
"میں تم سے امی کی معذرت کرنے آئی ہوں" سادی نے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا- الہیٰ بخش نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کر دی-
"امی نے تمہاری بہت بے عزتی کی- لیکن تم مائنڈ نہ کرو- امی ایسی ہی ہیں- وہ تو پاپا کو بھی نہیں بخشتیں" وہ کہتے کہتے رک گئی- "ارے ۔۔۔۔۔ یہ خوشبو!"
الہیٰ بخش نے چوروں کی طرح نظریں جھکا لیں
"کیسی لگی تمہیں؟"
'نہت اچھی ہے سادی بی بی" الہیی بخش نے کہا- وہ کہنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔ مگر بوتی بہت ہے- لیکن اس نے یہ بات نوک زبان پر روک لی-
"میں دراصل تم سے معافی مانگنے آئی ہوں" سادی نے کہا "میری بات ماننے کیوجہ سے تمہاری بہت بے عزتی ہوئی ہے"
'ایسی باتیں نہ کریں سادی بی بی- آپ نہیں جانتیں میں نے زندگی بھر یہی کچھ دیکھا ہے، یہی کچھ بھگتا ہے- کراچی سے مجھے محبت اسی لئے تو ہے کہ مجھے سب سے زیادہ عزت اور محبت یہاں سے ملی ہے- یہاں آپ جیسے بڑے لوگوں سے بھی برابری کااحساس ملا ہے مجھے، ورنہ ایبٹ آباد میں، میں کیا تھا- جلاہے کی اولاد، جسے سادات کو بھی تعظیم دینی تھی اور خواتین کو بھی- میری تو اپنی نظروں میں بھی کوئی عزت نہیں تھی وہاں- آپ مجھے شرمندہ نہ کریں- میں نے برا نہیں مانا، کراچی میں صرف بیگم صاحبہ کا سلوک ہی ایسا ہے جس سے مجھے گھر یاد آ جاتا ہے"
"پھر بھی میں تم سے شرمندہ ہوں"
"اب ایسی بات نہ کیجئے گا"
سادی اب کمرے کا جائزہ لے رہی تھی- "اپنا کمرہ بہت صاف ستھرا رکھتے ہو تم" اس نے ستائشی لہجے میں کہا- پھر کتابوں کی چھوٹی سی الماری کی طرف بڑھی- "ارے واہ ۔۔۔۔ کتابیں تو اچھی خاصی ہیں تمہارے پاس"
"بس جی، سادی بی بی، یہی ایک شوق ہے میرا"
"اچھا شوق ہے- کتابوں سے دوستی ہو جائے تو آدمی تنہائی میں بھی اکیلا نہیں ہوتا"
"ٹھیک کہتی ہیں آپ"
سادی وہاں کھڑی کتابوں کے عنوان دہراتی رہی۔۔۔۔۔ "سڑک واپس جاتی ہے، شکست، برف کا پھول، ایک وائلن، سمندر کے کنارے، طوفان کی کلیاں، ایک گدھے کی سرگزشت، گدھے کی واپسی، گدھا نیفا میں، درد کی نہر۔۔۔۔۔۔۔ کرشن چندر بہت پسند ہیں تمہیں ؟" اس نے پوچھا
"جی سادی بی بی سب لکھنے والوں سے زیادہ-"
"آور یہ طرف شعری مجموعے ہیں" سادی بہت خوش نظر آ رہی تھی- "سیف الدین کا خم کاکل، ناصر کاظمی کا برگ نے اور دیوان، قتیل شفائی کا گجر، ساحر لدھیانوی کا پرچھائیاں اور گاتا جائے بنجارہ ۔۔۔۔۔۔ حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، واہ بھئی تمہارا ذوق بہت اچھا ہے"
"ذوق کا تو نہیں معلوم سادی بی بی، بس شاعری مجھے بے خود کر دیتی ہے"
"نسلی عاشق جو ٹھرے" سادی نے اس کی بات دہرائی- پھر بولی "شاعروں میں کون زیادہ پسند ہے تمہیں؟"
"پہلے ساحر بہت اچھے لگتے تھے- اب لگتا ہے ناصر کاظمی نے صرف میرے لئے شاعری کی ہے"
نیچے ابن صفی کی کتابیں رکھی تھیں- سادی ے حیرت سے اسے دیکھا "کہاں کرشن چندر، شاعری اور کہاں ابن صفی!"
"کبھی اداس ہوں، دل بوجھل ہو تو ابن صفی کو پڑھ لیتا ہوں- ہر ملال دھل جاتا ہے"
سادی اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو- کیا یہ وہی شخص ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جلاہا الہیٰ بخش، فٹ پاتھ پر بیٹھنے والا پینٹر اور اس کا ڈرائیور- اس وقت الہیٰ بخش کا چہرہ اسے بہت روشن لگ رہا تھا، وہ سوچ رہی تھی کہ ایسے تو پڑھے لکھے، دولت مند خاندانی لوگ بھی نہیں ہوتے-
الہیٰ بخش نے اس کی نظروں کی تپش سے گھبرا کر نظریں جھکا لیں-
سادی کی توجہ ایک کتاب نے کھینچ لی- پہلی بارش- ناصر کاظمی، اس نے کتاب باہر نکالی- کتاب کو دیکھنے کے بعد وہ بولی "کیسی خوبصورت کتاب ہے"
"جی ہاں، صرف خوبصورت چھپی نہیں ہے- شاعری بھی خوبصورت ہے- اب تک مجھے سب سے اچھی یہی کتاب لگی ہے-"
"تم نے پڑھی ہے؟"
"جی ہاں، پڑھی تو ہے لیکن ابھی تک غزل کا پہلا شعر تک نہیں سمجھ سکا ہوں- لگتا ہے، اسے سمجھنے میں پوری زندگی لگے گی-"
سادی کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا- اس نے پہلی غزل نکال لی اور بہ آواز بلند مطلع پڑھا
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلی تیرا نام لکھا تھا
"واہ بہت اچھا شعر ہے- لیکن الہیٰ بخش یہ مشکل تو نہیں کہ اسے سمجھ نہ سکو"
"لفظوں کا معاملہ تو آسان ہے- میں اس شعر کی روح کو سمجھنا چاہتا ہوں"
"مجھے تو یہ شعر بہت سادہ اور آسان لگا ہے"
"تو مجھے سمجھا دیجیئے"
سادی سوچ میں پڑ گئی- پھر بولی "اب سمجھ میں آتا ہے کہ سمجھنے سے زیادہ کسی کو سمجھانا مشکل ہے- ویسے میرا خیال ہے کہ شاعر کا اشارہ اپنے محبوب کی طرف ہے"
"یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں- لیکن میری تسلی نہیں ہوتی- یہ کون سے محبوب کی بات ہو رہی ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا- ویسے سادی بی بی، یہ پہلی بارش مسلسل غزل ہے- یوں کہئیے کہ غزل کا جسم ہے اور روح نظم کی ہے- لہذا الگ سے ایک شور کو سمجھنے کے بجائے ملا کر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے- دیکھیں تو ۔۔۔۔۔۔
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا
میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے
بار امانت سر پہ لیا تھا
تو نے کیوں میرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا
پہلی بارش بھیجنے والے
میں تیرے درشن کا پیاسا تھا
سادی بڑی توجہ سے سن رہی تھی- الہیٰ بخش کی آواز میں ۔۔۔۔۔۔ اس کے لہجے میں نہ جانے کیا تھا کہ سادہ سے وہ اشعار دل میں اترتے جا رہے تھے- ذہن میں ایسے سوال، ایسے اسرار سر اٹھا رہے تھے، جنہیں وہ سمجھ بھی نہیں پا رہی تھی-
اچانک اسے احساس ہوا کہ اس کے سامنے ایک بلکل مختلف الہیٰ بخش کھڑا ہے- وہ اب محض وجیہ و خوبرو دیہاتی نہیں، ایک خوبصورت اور معصوم روح کا مالک ایک عالم بھی تھا، جس کا سینہ علم عشق سے معمور تھا!
"اسم عظیم تو سمجھ میں آتا ہے سادی بی بی!" الہیٰ بخش کھوئے ہوئے لہجے میں کہہ رہا تھا- "لیکن یہ صبر صمیم کیاہوتا ہے اور بار امانت کیاہے؟"
سادی کو محسوس ہا کہ ان سوالوں کے جواب اسے بھی کھوجنے ہیں- "الہیٰ بخش یہ کتاب مجھے دو گے- میں اس کا مطالعہ کرنا چاہتی ہوں"
"کیوں نہیں، لے جائیے" الہیٰ بخش نے بدستور کھوئے ہوئے لہجے میں کہا-
"دو تین دن میں واپس دے دوں گی"
الہیٰ بخش بری طرح چونکا "یہ تو میرے خیال میں اس کتاب کی توہین ہے" وہ بولا "ایک بات کہوں- برا تو نہیں مانیں گی؟"
"کہو، میں برا نہیں مانوں گی"
"یہ کتاب اس وقت نہ لے کر جائیے- میں کل آپ کو یہ کتاب دے دوں گا"
"ٹھیک ہے- اس میں برا ماننے کی تو کوئی بات نہیں-" سادی نے کہا "اچھا الہیٰ بخش، اب میں چلتی ہوں- شب بخیر"
"شب بخیر سادی بی بی"
وہ چلی گئی تو الہیٰ بخش کو اپنا کوارٹر ویران لگنے لگا، جیسے بہار آ کر رخصت ہو گئی ہو-
لیکن خوشبو کی آواز بلند ہو گئی تھی- وہ اپنے شباب پر تھی-
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے