عشق کا عین - علیم الحق حقی - قسط نمبر3

 Urdu Novel PDF

Urdu Novels PDF - Urdu Novels Online

قسط وار کہانیاں
عشق کا عین - قسط نمبر3
رائیٹر :علیم الحق حقی

الہیٰ بخش نے سلام کا جواب دیا- ملنگ نے کہا "آخری بار غریب خانے پر نہیں آئیں گے سرکار؟"
الہیٰ بخش درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گیا- ملنگ اسی طرح کھڑا رہا- "ہاں بابا، میں کراچی جا رہا ہوں" الہیٰ بخش نے کہا-
"سب اوپر سے ہے سرکار" ملنگ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا- "سوہنے رب کی عنایت ہے سرکار، دیکھیں، ایک منزل کے دوراستے ہوتے ہیں- ایک چھوٹا دوسرا لمبا- چھوٹے راستے پر کانٹے ہوتے ہیں، دشواریاں ہوتی ہیں، بڑی کٹھنائیاں آتی ہیں- دوسرا راستہ لمبا پر آسان ہوتا ہے- اس میں سایہ دار درخت ہوتے ہیں، آپ خوش نصیب ہیں- رب نے آپ کا راستہ آسان کر دیا- پر یاد رکھئے گا، منزل وہی ہے، آپ کو سفر مبارک ہو-"
"گھر سے دور جانے کی مبارک باد دے رہے ہو؟" الہیٰ بخش نے شکایت کی-
"نہیں سرکار- یہ ترقی کی مبارکباد ہے- اسکول سے کالج میں جانے کی مبارک باد ہے-"

"تم مجھے بہت یاد آؤ گے بابا-"
"نہیں سرکار- آپ مجھے بھول جائیں گے- میں سکول ماسٹر تھا- میری ڈیوٹی ختم- اب آپ کو کالج کا پروفیسر ملے گا- تعلیم نہیں چھوٹے گی- اب آپ جائیں- الودع سرکار-" ملنگ کا کمال یہ تھا کہ اس کی باتیں سمجھ نہیں نہیں آتی تھیں پھر بھی الہیٰ بخش کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا تھا- اس وقت بھی یہی ہوا- وہ تازہ دم ہوگیا-
الہیٰ بخش باپ کے عشق سے کوفزدہ ہو کر بھاگا تھا لیکن عشق نے کراچی میں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا- کراچی آئے ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ خود عشق میں مبتلا ہو گیا- مگر وہ عشق باپ کے عشق سے بالکل مختلف تھا-

الہیٰ بخش کو کراچی بہت پسند آیا، اس لئے کہ وہاں نام و نسب سے کسی کا کام نہیں چلتا تھا- وہاں آدمی کی شناخت اس کے کام، اس کے ہنر سے ہوتی تھی- زندگی میں پہلی بار اسے یہ خوشگوار احساس ہوا کہ اس کی اپنی بھی ایک شناخت ہے اور وہ اس شناخت سے بالکل مختلف ہے جو اس پر تھوپ دی گئی تھی- کراچی میں وہ جلاہوں کی اولاد ہونے کی وجہ سے جلاہا نہیں رہا تھا- وہ الہیٰ بخش تھا ۔۔۔ رنگ ساز الہیٰ بخش-

کراچی میں اسے دو مقام بہت زیادہ پسند آئے- ایک فیڈرل بی ایریا کے واٹر پمپ کی چورنگی اور دوسرا طارق روڈ پر کیفے لبرٹی کی چورنگی- اس کا بس چلتا تو وہ دونوں مقامات اپنا لیتا لیکن یہ ممکن نہیں تھا- اسے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا- بہت سوچ بچار کے بعد اس نے کیفے لبرٹی کی چورنگی کے حق میں فیصلہ کیا- ایک وجہ یہ تھی کہ وہ بڑے لوگوں کا علاقہ تھا- دوسری یہ کہ وہاں رونق بہت ہوتی تھی- وہ علاقہ اسے بھا گیا-

بعد میں زندگی بھر وہ یہی سوچتا رہا کہ اگر وہ کیفے لبرٹی کے بجائے واٹر پمپ پر بیٹھتا تو اس کی زندگی کتنی مختلف ہوتی- نہ وہ مبتلائے عشق ہوتا اور نہ اس کی زندگی نذر عشق ہوتی- اس کی سمجھ میں یہ بات بھی آ گئی کہ معمولی سے، غیر اہم سے فیصلے زندگی پر کتنے بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں- اس نے یہ بھی سمجھ لیا کہ فیصلے کا اختیار تو آدمی کو ہوتا ہے لیکن فیصلہ اپنی تقدیر کے مطابق ہی کرتا ہے- فیصلہ وہ کرتا ہے لیکن مرضی اوپر والے کی ہوتی ہے-

کراچی میں محنت کے بازار جا بجا لگتے ہیں-ہر علاقے کا اپنا ایک بازار محنت ہے- کیفے لبرٹی کے آگے کی سمت بالکل مقابل جیولرز کی ایک دکان ہے، اس کے سامنے والے فٹ پاتھ پر بھی ایسا ہی ایک بازار ہے- علاقے مین کسی کو کسی بھی نوح کی کسی خدمت کی ضرورت ہو تو وہ اس بازار کا رخ کرتا ہے- اس بازار میں ہر طرح کی محنت انسانی دکانوں میں، انسانی شو کیس میں یوں سجی ہوتی ہے کہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی- بس جاؤ اور خرید لو- فٹ پاتھ پر سجی ہوئی یہ انسانی دکانیں اپنے شو کیس سمیت بمشکل دو فٹ جگہ گھیرتی ہیں- کہییں کوئی بیلچا، کدال یا پھاوڑا نظر آئے تو سمجھ لیں کہ وہاں مزدور دستیاب ہے- پینٹ کے ڈبے پر برش اور رنگوں کارڈ نظر آئے تو وہ رنگ و روغن والا ہے- خالی کنستر پر کوچی رکھی ہو تو جونا کرنے والا ہے- پلمبنگ کے اوزار پلمبر کا پتا دیتے ہیں- کوئی شخص کرنی اور فرش بنانے والا تختہ لئے بیٹھا ہو تو وہ راج مستری ہے اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، بس ایک لمبا سا میلا سا کپڑا کندھے پر ہو تو سمجھ لیں وہ بوجھ ڈھونے والا مزدور ہے- یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کی شناخت اس کے شجرہ نسب سے نہیں اس کے اوزاروں سے، اس کے ہنر سے ہوتی ہے-

الہیٰ بخش کو یہی بات پسند آئی تھی اس نے پینٹ کا ایک خالی ڈبہ، کلر کارڈ اور اپنے برش لئے اور اس فٹ پاتھ پر محنت کا انسانی شو کیس بن گیا- ڈیڑھ دو فٹ جگہ میں وہ بھی سج بن کر بیٹھ گیا- یہ پہلا موقع تھا کہ وہ زندگی سے خوش تھا- جلد ہی زندگی معمولات کی ڈگری پر چل پڑی- ایبٹ آباد سے وہ سات لڑکوں کے ساتھ آیا تھا- ان آٹھوں نے مل کر اعظم بستی میں ایک مکان کرائے پر لے لیا تھا، کرایہ سو روپے تھا- بجلی کا بل ملا کر ہر ایک کو زیادہ سے زیادہ بیس روپے دینے ہوتے تھے- گھر سے وہ لوگ زیادہ پیسے نہیں لائے تھے- انہوں نے چارپائیاں خریدیں- موسم ایسا تھا کہ فی الحال بستر کی ضرورت نہیں تھی، کھانا وہ باہر کھاتے تھے- لہٰذہ برتنوں کاجھمیلا بھی نہیں تھا- زندگی آسانی سے شروع ہو گئی- پھر سب سے اچھی بات یہ تھی کہ سب کو فوراٰ ہی روزگار بھی مل گیا-

الہیٰ بخش کے لئے یہ تجربہ بھی انوکھا تھا کہ وہ پردیس میں تھا- لیکن ایک منٹ کے لئے بھی اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی- یہاں تک کہ وہ فٹ پاتھ پر آ کر بیٹھا تو پہلے ہی دن اسے کام مل گیا- کام بھی ایسا کہ چار دن اسے کام کے سوا کسی بات کا ہوش نہیں رہا- وہ تو اسے بعد میں معلوم ہوا کہ بعض اوقات کئی کئی دن خالی بیٹھے بھی گزر جاتے ہیں- پہلی بار اس نے جس کے ہاں کام کیاتھا وہ اس کے کام سے اتنا خوش ہوا کہ اسے دس روپے انعام بھی دیا- اس آغاز کے بعد کبھی یہ نوبت نہ آئی کہ اس کی جیب خالی رہی ہو- ابتدا میں الہیٰ بخش کو اپنا شہر بہ یاد آیا- وہ ہمیشہ سوچتا کہ ایبٹ آباد جیسا خوبصورت اور سر سبز علاقہ دنیا میں کہیں نہیں ہو گا- ایسے سادہ اور پر امن لوگ کہیں ہو ہی نہیں سکتے- اور ایسا موسم اور آب و ہوا کہیں بھی نہیں ملے گی- بات ٹھیک ہی تھی لیکن اسے اندازہ نہیں ہوا کہ کراچی کس طرح اس کے دل میں گھر کر رہا ہے- وہ تو ایک دن اچانک اسے احساس ہوا کہ اسے کراچی سے محبت ہو گئی ہے- اس نے دل ٹٹولا تو پتا چلا کہ اس محبت نے اس کے دل کی گہرائی میں جڑیں پکڑی ہیں- غور کیا تو ثابت ہوا کہ کراچی اس محبت کا مستحق ہے-

الہیٰ بخش کراچی سے متعلق سوچتا تو اس کا وجود احساس شکر گزاری سے سرشار ہو جاتا- اس کے ذہن میں غریب پرور شہر، برکتوں کا شہر خدا کی رحمتوں کا مرکز جیسے عنوان گونجنے لگتے- کراچی کے لوگ بہت اچھے تھے- فراخ دل، محبت کرنے والے اور پر سکون- الہیٰ بخش ایسے کتنے ہی لوگوں سے مل چکا تھا جو بغیر ٹکٹ کے ریل میں چھپتے چھپاتے سفر کرتے کراچی پہنچے تھے اور ان کی جیبیں خالی تھیں- ان کا کہنا تھا کہ اس ے باوجود انہیں کبھی بھوکا نہیں سونا پڑا تھا- کسی کو ریل سے باہر آتے ہی روزگار مل گیا تھا اور کسی کو شہر پہنچ کر- روزگار کی فراوانی تھی- کھانے پینے کا بھی یہ تھا کہ ایک روپے میں بھی پیٹ کی آگ بجھائی جا سکتی تھی- سونے کا ٹھکانہ میسر نہ ہوتا تو لوگ پارکوں، باغیچوں میں بھی سو لیتے تھے- کھلا آسمان انہیں تحفظ فراہمکرتا تھا- اب ایسے شہر سے کوئی محبت کئے بغیر رہ سکتا ہے؟ یہی وجہ تھی کہ کراچی سے چلے جانے کے بعد بھی کراچی کے مہمان اس شہر سے محبت کرتے تھے، اسے یاد رکھتے تھے- آج بھی دیکھ لیں، ملک کے ہر بڑے چھوٹے شہر میں، بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبوں تکمیں کراچی کے نام کی کوئی دکان، کوئی ہوٹل ضورو ملے گا- جو ایک بار کراچی رہ گیا، اس نے اس شہر کے نام کو اپنی خوش بختی کی علامت ضرور سمجھا-
سو کراچی آتے ہی الہیٰ بخش محبت سے آشنا ہو گیا، ورنہ وہ تو عشق اور محبت سے خوف زدہ تھا-

الہیٰ بخش نے انگریزی زبان کا یہ مقولہ سنا بھی نہیں تھا کہ صبح سویرے رزق کی تلاش میں نکلنے والے پرندے کو کھانے کے لئے سب سے زیادہ کیڑے ملتے ہیں مگر وہ تھا بہت سویرے اٹھنے والا پرندہ اور سویرے اٹھ کر گھر میں وقت ضائع کرنے کا قائل نہیں تھا- گھر میں دل لگانے کا کوئی سامان تھا بھی نہیں، چنانچہ وہ تیار ہو کر باہر نکلتا، ہوٹل میں ناشتہ کرتا، اور محنت کا بازار لگنے سے پہلے ہی بازار پہنچ جاتا- وہاں اس کے لئے طمانیت ہی طمانیت تھی- ڈیڑھ دو فٹ کی جگی اسے ملکیت کااحساس دلاتی تھی- یہ احساس ہوتا کہ وہ صاحب جائیداد ہے- وہ اکیلا اپنے ٹھکانے پر آبیٹھتا- پینٹ کے خالی ڈبے رکھ کر وہ اپنی دکان سجاتا- پھر پاؤں پھیلا کر بیٹھا وہ گرد و پیش کی ویرانی دیکھتا رہتا-
یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں تھی کہ اکیلا زردار خان اسے کمر پر اٹھا کر نیچے اتارے گا ،،،،،،

مزدوروں نے مل کر الماری زردار خان کی کمر پہر رکھ دی- ایک چادر کو بل دے کر الماری کے درمیانی حصے سے گزار کر زردار خان نے اپنے پیٹ پر چادر کو گرہ لگا دی- پھر وہ چل پڑا- تمام مزدوروں کے چہروں پر خوچی سنسنا رہی تھی- ان میں سے دو زردار کے آگے تھے اور باقی اس کے پیچھے چل رہے تھے- کسی کے ہاتھ میں کوئی سامان نہیں تھا- شاید اس لئے کہ انہیں یقین نہیں تھا کہ زردار الماری کو نیچے پہنچا سکے گا- کسی بھی وقت اسے ہنگامی طور پر مدد کی ضرورت پڑسکتی تھی- اور وہ سب اس کے لئے تیار تھے- الہیٰ بخش کو قاسم کی مزدور کی نظر کا قائل ہونا پڑا-

زردار خان کو کسی کی مدد کی ضرورت نہ پڑی- درمیان میں وہ کہیں ایک سانس کے لئے بھی نہیں رکا- الماری اس نے نیچے اتاری اور پیشانی سے پسینہ پونچھنے کے بعد ﷽گیر کسی توقف کے زینوں کی طرف چل دیا- اب مزدوروں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ اعتماد بھی تھا- وہ صحیع معنوں میں کھل اٹھے تھے-
اس کے ساتھ ہی کامکی گہما گہمی شروع ہو گئی- جسموں میں جیسے بجلیاں بھر گئیں- الہیٰ بخش کو اپنی بے مصرفی کا احساس ستا رہا تھا- تمام مزدور خاموشی سے کام میں لگ گئے تھے- کوئی سستی نہیں دکھا رہا تھا- کانچ کے برتنوں والے ڈبوں کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا تھا- وہ شاید قاسم کی ذمہ داری تھی- قاسم ایک کارٹن لے کر چلا گیا تو الہیٰ بخش نے ادھر ادھر دیکھا اور ایک ۔۔۔ نشست والے ایک صوفے کو ہلا جلا کر دیکھا- وہ زیادہ بھاری نہیں تھا- اس نے اسے اٹھا کر کندھے پر رکھا اور چل دیا-

الہیٰ بخش ایک جان دار پہاڑی جوان تھا لیکن صوفے کو اٹھا کر نیچے لے جانے میں اس کی سانس اکھڑ گئی- جسم سے پسینہ جیسے ابل پڑا تھا- پہلی بار اس کی سمجھ میں آیا کہ قاسم ٹھیک کہہ رہا تھا- یہ کام واقعی آدمی کو اندر سے چاٹ لیتا ہو گا-
نیچے قاسم نے اسے صوفے کے ساتھ لڑکھڑاتے دیکھا تو صوفہ اتار نے میں اس کی مدد کی اور بولا "بیٹا، میں تمہیں بوجھ اٹھانے کے لئے تو نہیں لایا ہوں، خبردار جو کسی چیز کو ہاتھ لگایا-"
"لیکن چاچا، خالی رہنا مجھے برا لگ رہا ہے-" الہیٰ بخش نے ہانپتے ہوئے کہا-
"کوئی ضرورت نہیں، تو تو مہمان ہے ہمارا"-
"نہیں چاچا، کچھ نہ کرنے سے اچھا ہے کہ میں چلا جاؤں"
قاسم کچھ دیر سوچتا رہا پھر سر ہلاتے ہوئے بولا "تو ٹھیک ہے، تو میرے ساتھ برتنوں والے ڈبے اتروا دے- یہ نازک کام ہے، احتیاط سے کرنا ہو گا-"
پورا سامان نیچے اتارنے میں دو گھنٹے لگے- پہلے صوفے کے بعد الہیٰ بخش نے کسی بھاری چیز کو ہاتھ نہیں لگایا تھا- وہ جانتا تھا کہ بھاری بوجھ بھی اٹھا سکتا ہے لیکن بھاری سامان ان کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا کسی اور ہی دنیا کا کام لگتا تھا-

سامان کو ٹرک میں لدوانے میں قاسم کی مہارت سامنے آئی- جتنا سامان اس نے ٹرک پر لدوایا، الہیٰ بخش کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ممکن ہے- یہ سردار کا تجربہ تھا کہ کون سی چیز پہلے رکھی جائے اور کون سی چیز بعد میں- ٹرک میں موجود جگہ کو کیسے بہتر سے طور پر استعمال کیا جائے-
وہ ٹرک میں بیٹھ کر ناظم آباد چلے- الہیٰ بخش اس وقت تک بری بری طرح تھک چکا تھا- یعنی وہ بوجھ اٹھانے کا کام نہیں کر سکتا تھا- مزدور تھکے ضرور تھے لیکن ٹرک میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو چھیڑتے ستاتے، تھکن ان کے چہرے سے دھلتی لگ رہی تھی- ایسا نہ ہوتا تو وہ مزدور بھی نہ ہوتے شاید- کیونکہ اب انہیں زیادہ سخت مرحلہ در پیش تھا- انہیں سامان چوتھی منزل پر چڑھانا تھا-
ٹرک کے سفر کے دوران الہیٰ بخش نے جو دیکھا، سیکھا، سمجھا اور جاانا، وہ عمر بھر اس کے ساتھ رہا- یہ بات اس پر واضح ہو گئی کہ طبقاتی تقسیم ایک بہت بڑی حقیقت ہے- کہیں خاندان، برداری اور نام و نسب کی اونچ نیچ ہے تو کہیں حیثیت کا تفاوت ہے- وہاں ایبٹ آباد میں وہ چکر تھا، اور یہاں کراچی میں ایک صاحب طبقہ دس روپے کمانے کے لئے ہر روز ایسا بوجھ ڈھوتا جس سے بوجھ ڈھونے والے جانور بھی گھبرا جائیں اور کچھ عرصے کے بعد وہ خون تھوکتا زندگی کی پھسلنی سے موت کی طرف پھسل جاتا-
یہ سب سوچ کر الہیٰ بخش پر تھر تھری چڑھنے لگی- یہ زندگی ہے- اتنے لوگوں کے لئے اتنی مختلف!

زرداد الماری اس بار بھی بغیر رکے اوپر چوتھی منزل کے فلیٹ تک لے گیا تھا- ایک اچھی بات یہ تھی کہ اس بلڈنگ میں زینے کے موڑ پر سامان اتارنے کے لئے ترکیبیں لڑانی پڑی تھیں- انہیں کام سے فارغ ہوتے ہوتے چھ بج گئے- صاحب بہت خوش تھا- کسی چیز کو معمولی سی خراش بھی نہیں آئی تھی- کوئی برتن نہیں ٹوٹا تھا "آپ سب چیک کر لیں صاحب!" قاسم نے اس سے کہا- "ہمارا کام ختم ہو گیا ہے"
"چیک کرنے کی ضرورت نہیں- میں بہت خوش ہوں تم لوگوں سے-" صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا "میں بھی تمہیں خوش کردوں گا"
تھوڑی دیر بعد چائے اور بسکٹوں اور سموسوں سے ان کی تواضع کی- پھر اس نے دس روپے کے آٹھ نوٹ قاسم کی طرف بڑھائے "یہ ہے تم لوگوں کی مزدوری-" اس نے کہا پھر اس نے سو کا ایک نوٹ دیتے ہوئے کہا "یہ ہے مجھے خوش کرنے کا انعام ۔۔۔۔ تم آٹھوں کے لئے"

وہ صاحب کا شکریہ ادا کر کے، اسے سلام کر کے نیچے آگئے- سب بہت خوش تھے- ان کے حساب سے انہیں ڈھائی دن کی دہاڑی ایک ہی دن میں مل گئی تھی- اچانک رحیمو کو خیال آیا کہ کھانا نہیں کھایا گیا ہے اور بھوک لگ رہی ہے عاقل نے بھی تائید کی-
"نہیں بھئی، یہ کھانے کا تو وقت نہیں-" قاسم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا "اس وقت کھا لو گے تو رات کو میرے گھر پر کیا کھاؤ گے-"
بات معقول تھی- "استاد کھانا کس وقت ملے گا"
"آٹھ بجے تیار ہو گا کھانا، میں کہہ کر آیا ہوں- قاسم نے کہا "چلو کسی ہوٹل میں چلتے ہیں، جسے زیادہ بھوک لگی ہو وہ کچھ بسکٹ سموسے کھا لے"
وہ سب ایک ریسٹورنٹ میں چلے گئے- رحیمو اور عاقل کے سوا کسی نے سموسے نہیں کھائے- قاسم نے مزدوری کی رقم تقسیم کی- اس نے بائیس روپے الہیٰ بخش کی طرف بڑھائے تو وہ حیران رہ گیا- "یہ کیا چاچا؟"
"یہ تمہارا حصہ ہے-"
"لیکن چاچا، میں تو مہمان ہوں- تمہارے ساتھ ایک دن گزارنے کے لئے آیا تھا-" الہیٰ بخش نے احتجاج کیا-
"یہ تو تمہیں لینا پڑے گا- صاحب نے آٹھ آدمیوں کی مزدوری دی ہے-"
"سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔۔ بیکار بات مت کرو-"
قاسم نے اس کی بات کاٹ دی- "تمہارا حصہ لے کر ہم گناہگار بنیں گے کیا"
اس پر سب پیچھے پڑ گئے- یوں الہیٰ بخش کو وہ پیسے لینے ہی پڑے- لیکن اسے بہت شرمندگی ہو رہی تھی-

ہوٹل سے باہر آ کے قاسم نے کہا- "یہ الہیٰ بخش اور زرداد میرے ساتھ جا رہے ہیں- تم لوگ آٹھ بجے تک میرے گھر پہنچ جانا-"
باقی سب لوگ چلے گئے- قاسم الہیٰ بخش اور زرداد کو لے کر بس اسٹاپ کی طرف چل پڑا- اس وقت صدر جانے والی بسوں میں رش نہیں تھا- انہوں نے مزے سے بیٹھ کر سفر کیا- نمائش کے اسٹاپ پر وہ اتر گئے- "میں جیکب لائن میں رہتا ہوں- یہاں سے زیادہ قریب پڑتا ہے میرا گھر-" قاسم نے وضاحت کی-
سڑک پر کوئی پانچ منٹ چلنے کے بعد وہ کچے پکے مکانوں کے علاقے میں پہنچ گئے- اب وہ تنگ گلیوں میں چل رہے تھے جہاں دونوں طرف مکان ہی مکان تھے- زیادہ تر مکان ایسے تھے کہ ان مین ٹاٹ کے پردے ہی دروازے کا کام کرتے تھے- ایسے ہی ایک دروازے پر انہیں ٹھہرا کر قاسم ٹاٹ کا پردہ ہٹا کے اندر چلا گیا- چند لمحوں بعد اس نے انہیں آواز دی-"آجاؤ" وہ پردہ ہٹا کے اندر چلے گئے-
دروازے سے داخل ہوتے ہی چھوٹا سا صحن تھا- صحن کے پار دو کمرے تھے- ایک کچا کمرا تھا اور دوسرا پکا- پکے کمرے کی چھت ٹین کی چادر کی تھی- سائیڈ میں باورچی خانہ اور غسل خانہ تھا- صحن کے اس طرف والے حصے میں بیت الخلا تھا- درمیان میں ایک ٹنکی رکھی تھی-

قاسم نے درمیان میں پڑا پردہ کھینچ کر گویا پردے کا اہتمام کر دیا- اس طرف تین چار چارپائیاں پڑی تھیں- تکئے بھی رکھے تھے- قاسم نے اشارہ کرتے ہوئے کہا "بیٹھ جاؤ اور تھکن ہو رہی ہے تو پاؤں پھیلا لو- یہ تمہارا اپنا گھر ہے-"
الہیٰ بخش اور زرداد بیٹھ گئے- کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، پھر قاسم زرداز کو بوجھ اٹھانے کے رموز سمجھانے لگا- الہیٰ بخش توجہ سے سنتا رہا- وہ سوچ رہا تھا، کون جانے یہ باتیں بھی کام ہی آ جائیں- وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا- وہ لوگ تو اس وقت چونکے جب باہر سے کسی نے قاسم کو آواز دی "استاد"
"لو یہ لوگ بھی آگئے-" قاسم نے کہا پھر دروازے کی طرف منہ کر کے پکارا- "آ جاؤ یارو!"

ٹاٹ کا پردہ اٹھا اور سب سے پہلے مشتاق اندر آیا- وہ کسی چیز کو کھینچ رہا تھا- دوسری طرف سے رحیموں اس چیز کو دھکیل رہا تھا- قاسم اور وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے- اتنی دیر میں وہ لوگ اندر آ گئے تھے-
قاسم، الہیٰ بخش اور زرداد کی آنکھیں پھیل گئیں- وہ لوگ ایک ٹھیلا لائے تھے اور وہ بہت خوبصورت ٹھیلا تھا- ٹھیلے کو دیکھ کر قاسم کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا- وہ آگے بڑھا اور ٹھیلے کو چھو کر دیکھنے لگا، جیسے وہ کوئی غیر حقیقی چیز ہو-
"کیا دیکھ رہے ہو استاد، یہ تمہارا ہی ہے-" نثار نے کہا-
"نئی زندگی مبارک ہو استاد!" رحیمو بولا-
قاسم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- وہ ٹھیلے پر ہاتھ پھیرتا رہا- پھر رندھی ہوئی آواز میں بولا- "میں تم لوگوں کی اس محبت کا شکریہ کیسے ادا کروں ۔۔۔۔ "
"اس کی ضرورت نہیں استاد-" نثار نے اس کی بات کاٹ دی- قاسم کے بعد وہ سب سے سینئر تھا- بس اللہ تمہیں اس ٹھیلے سے بہت رزق دے- یہ دعا قبول ہو گئی تو سمجھو ہمیں محبت کا صلہ مل گیا-"
دوسرے مزدوروں کی آنکھیں بھی چمکنے لگیں-"اتنی محبت کا حق دار تو نہیں تھا یارو-" قاسم منمنایا-
"تم تو اس سے زیادہ محبت کے قابل ہو استاد- پر ہم سب غریب لوگ ہیں-" نثار بولا- "بس اب یہ ڈراما ختم کرو اور کھانا کھلواؤ- عباس نے ماحول کو بدلنے کی کوشش کی لیکن قاسم تو کسی اور ہی دنیا میں کھویا ہوا تھا- وہ ٹھیلے پر یاتھ پھیر رہا تھا لیکن اس کی آنکھیں دیوار کے پار، دور کہیں بہت دور دیکھتی محسوس ہو رہی تھیں- پھر اس نے سحرزدگی کی سی کیفیت میں ٹھیلے کو دھکیل کر آگے بڑھایا اور بے ساختہ آواز لگائی "آلو، بھنڈی، بینگن، توری لے لو، سبزی والا ۔۔۔۔ " اپنی آواز نے خود اسے بھی چونکا دیا- وہ خجالت میں ادھر ادھر دیکھنے لگا- اس کے ہونٹوں پر بے حد معصوم مسکراہٹ تھی-
"لاؤ استاد، ایک سیر آلو بینگن!" عباس نے شوخی سے کہا- "لیکن پکے ہوئے چاہیئں ۔۔۔۔ روٹی کے ساتھ "

قاسم کو احساس ہو گیا کہ ان لوگوں کو بہت بھوک لگ رہی ہوگی-" آج آلو گوشت ملے گا بیٹے" اس نے شرمندگی سے کہا "ارے تم لوگ بیٹھو نا"-
وہ سب بیٹھ گئے- قاسم پردہ ہٹا کر اندر چلا گیا- تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ کی بنی ہوئی دو میزیں اٹھا لایا- وہ اس نے چارپائیوں کے درمیان رکھ دیں- "تم لوگ ہاتھ دھو لو- میں کھانا لا رہا ہوں-"
کھانے میں آلو گوشت اور چنے کی بریانی تھی- وہ سب کھانے پر ٹوٹ پڑے- الہیٰ بخش کو پردے کی اوٹ سے چھانکتی ہوئی آنکھیں نظر آرہی تھیں- وہ ٹھیلے کو دیکھ رہی تھیں اور آوازوں سے ان کو خوشی کا اندازہ ہو رہا تھا- الہیٰ بخش کو اس لمحے ان مزدوروں پر ٹوٹ کر پیار آیا- انہوں نے اس گھرانے کو کتنی بڑی خوشی دی تھی- برتن اٹھانے کے لئے قاسم کا وہ بیٹا آیا جس کا اس نے الہیٰ بخش سے تذکرہ کیا تھا- دیکھنے میں وہ دس سال کا بھی نہیں لگتا تھا- کھانے کے بعد گپ شپ ہوتی رہی- اس دوران ان لوگوں نے چائے پی- پھر قاسم نے ان سے پوچھا "اب کیا ارادہ ہے؟"
"یہ تو ہمیں تم سے پوچھنا ہے استاد-" نثار نے کہا " یہ تو معلوم ہو گیا کہ تم سبزی فروشی کا کام کرو گے-"
"ہاں! تو اب پوچھنا کیا ہے-"
"صبح منڈی جاؤ گے؟"
"ہاں-" قاسم نے اثبات میں سر ہلایا-
"کس وقت جاؤ گے؟"
صبح چار بجے جانا ہو گا-"
"تو پھر استاد ہم بھی یہاں سے ٹلنے والے تو نہیں-" نثار نے کہا- اس پر قاسم نے حیرت سے دیکھا- اور پھر دوسروں کو جن کے سر تائید میں ہل رہے تھے- "ہم تمہارے ساتھ منڈی چلیں گے-" نثار نے مزید کہا- "ہمارا رکنا مسئلہ ہو تو اور بات ہے- ہم چلے جائیں گے اور صبح چار بجے آ جائیں گے"

"ایسی کوئی بات نہیں- بس تم لوگوں کو تکلیف ہو گی-" قاسم نے شرمندگی سے کہا- "آور پھر اس کی ضرورت کیا ہے-"
"ضرورت تو ہے-" مشتاق بولا-
"اور ہم لوگوں کی تکلیف کی فکر مت کرو-" رحیمو نے کہا- "ہم تو رات جگا کریں گے- چار بجے تک تاش کی پارٹی جمے گی یہاں-"
"پر تم لوگوں کو صبح کام پر ۔۔۔۔ "
"صبح اتوار ہے استاد' نثار بولا " یہ بتاؤ تاش کی دو گڈیاں ہیں تمہارے پاس-"
"ہاں، ہیں تو ۔۔۔۔۔۔ لیکن یارو، منڈی چلنے کی ضرورت نہیں"
"تم اس بات کو چھوڑو استاد، تاش لے آؤ-" رحیمو نے فیصلہ کن لہجے میں کہا-
قاسم اندر گیا اور تاش کی دو گڈیاں لے آیا- دو پارٹیوں میں تقسیم ہوئے اور ترپ چال کھیلنے لگے- الہیٰ بخش، قاسم نثار اور رحیمو کے ساتھ تھا- وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا

عشق کا عین - پارٹ 4

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for kids, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu incest stories, desi yum stories in urdu font, stories in urdu font

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے