عشق کا عین - علیم الحق حقی - قسط نمبر4

 Urdu Novel PDF

اندر بچے تو شائد سو گئے تھے لیکن قاسم کی بیوی نہیں سوئی تھی- اسی کی بدولت ان لوگوں کو چائے ملتی رہی-
پھر اچانک عاقل کو خیال آیا- "اب بس کریں استاد- میرا خیال ہے وقت ہو گیا ہے-" قاسم اور نثار نے آسمان کی طرف دیکھا- وہاں ابھی رات کا اندھیرا تھا- "ہاں وقت ہو گیا ہے-" نثار نے سر ہلاتے ہوئے کہا-

"تم لوگ ہاتھ منہ دھو لو- پھر چلتے ہین-" قاسم نے کہا-
پندرہ منٹ بعد وہ سب باہر بکل آئے- باہر لگتا تھا، پوری کائنات سو رہی ہے- وہ سنسان سڑک پر بے فکری سے دندناتے ہوئے چلتے رہے- الہیٰ بخش نثار کے ساتھ قدم ملا کر چلنے لگا- قاسم سب سے آگے تھا- اس کے ساتھ زرداد چل رہا تھا-
"نثار بھائی1" اچانک الہیٰ بخش نے سرگوشی میں کہا- "اب تم لوگ چاچا قاسم کو سبزی فروٹ دلاؤ گے نا؟"

نثار نے سر گھما کر اسے دیکھا "ہاں بخشے!" اس نے آہستہ سے جواب دیا-
الہیٰ بخش نے جیب سے تیس روپے نکال کر ہاتھ میں رکھ لئے تھے- وہ اس نے نثار کی طرف بڑھائے- "میں بھی تمہارے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہوں نثار بھائی"
نثار نے اس کے ہاتھ کو دیکھا لیکن پیسے لینے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا "اس کی ضرورت نہیں بخشے- ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ پیسے ہیں- ہم سب بہت عرصے سے اس موقع کے لئے رقم بچا رہے تھے-"
'یہ بات نہیں نثار بھائی! میں تمہارے ساتھ شریک ہونا چاہتا ہوں- قاسم چاچا سے میرا بھی تعلق ہے-"

"نہیں بخشے ضرورت ہوتی تو میں ضرور لے لیتا-"
"تم میرا دل توڑ رہے ہو- صرف اس لئے کہ میں تم میں سے نہیں ہوں-" الہیٰ بخش نے دل گرفتگی سے کہا-
"یہ بات نہیں بخشے-' نثار نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا- "پر تو بھی تو مزدور ہے اور مزدور کا ہاتھ عام طور پر تنگ ہی رہتا ہے-"
"یہ تو وہی پیسے ہیں جو مجھے صرف تمہارے ساتھ ہونے کی وجہ سے ملے ہیں- ان پر تو میرا حق ہی نہیں تھا- تم لوگوں نے زبردستی مجھے دے دیئے- اب تم انہیں قبول نہ کر کے مجھے احساس دلا رہے ہو کہ میں بد رنگ ہوں-"
"تو پاگل ہو گیا ہے- دیکھ بھائی تو بھی مزدور ہے اور ہم بھی- یہ بڑا رشتہ ہوتا ہے- ہمارے دکھ سکھ ایک سے ہیں- مگر میری جان، یہ معاملہ برادری کا ۔۔۔۔۔۔ " نثار کہتے کہتے رکا "برادری کا بھی نہیں، ٹولی کا معاملہ ہے یہ-"
"ٹھیک ہے نثار بھائی" الہیٰ بخش نے اداس لہجے میں کہا "آئندہ میں اپنی حد میں رہوں گا-"

نثار چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا دیا- "لا، پیسے دے اور اب منہ مت لٹکا-" اس نے الہیٰ بخش سے نوٹ لے کر گنے- وہ تیس روپے تھے، نثار جانتا تھا ککہ گزشتہ روز کی مزدوری میں حصہ بائیس روپے بنا تھا- یعنی آٹھ روپے الہیٰ بخش نے اپنی جیب سے ملائے تھے جبکہ پچھلے روز اس نے کام بھی نہیں کیا- پورا دن بلکہ اب تک انہی لوگوں کے ساتھ لگا رہا تھا-
نثار کا دل دکھنے لگا لیکن اب وہ الہیٰ بخش سے حجت بھی نہیں کر سکتا تھا- اس نے خاموشی سے پیسے جیب میں رکھ لئے-
وہ سب سبزی منڈی کی طرف چلتے رہے-

منڈی دیکھ کر الہیٰ بخش حیران رہ گیا- وہاں ایسی گہما گہمی، ایسا ہجوم تھا جیسے دن نکل چکا ہو- قاسم اپنے تھوڑے تھوڑے کر کے بچائے ہوئے پیسے لایا تھا اور اسی حساب سے مال خریدنا چاہتا تھا- نثار نے جو اسے پھلوں کی کئی پیٹیاں سبزی کے علاوہ دلائیں تو وہ حٰران رہ گیا- اس کی آنکھیں پھر بھیگ گئیں "اس سب کی ضرورت نہیں تھی یارو! وہ ٹھیلا ہی بہت تھا" وہ بڑبڑایا-
"بے کار باتیں مت کرو استاد!" رحیمو بولا-
واپسی کے سفر میں وہ لدے پھندے تھے اور بہت خوش تھے، جیسے وہ سب ہی کوئی نیا کام شروع کر رہے ہوں- گھر پہنچ کر انہیں نے ٹھیلا لدوانے میں قاسم کی مدد کی- سب بہت خوش تھے- ہر شخص بساط بھر مشورے دے رہا تھا- سبزیاں اور پھل لگ گئے تو ٹھیلا اور خوبصورت لگنے لگا-

اس دوران سورج نکل آیا تھا- قاسم نے انہیں ناشتہ کرایا- سب نے ڈٹ کر چائے میں پاپے بھگو کر کھائے- پھر چلنے کا وقت آگیا- قاسم کو ٹھیلا لے کر نکلنا تھا- اس کی نئی زندگی کا آغاز ہو رہا تھا-
"استاد، ہمیں اجازت دو-" نثار نے کہا- " ہم اب چلتے ہیں- تم بھی بسم اللہ کرو- اللہ تمہیں کامیاب کرے-"
قاسم ممنونیت بھری بھیگی آنکھوں سے ایک ایک کو تکتا رہا- اس کے ہونٹ لرز رہے تھے، اسے احساس تھا کہ شکریہ بہت چھوٹا لفظ ہے- عباس نے بھرے ہوئے ٹھیلے کو ہلکے سے دھکیلا
"واہ استاد! یہ تو پھول ہو رہا ہے، تمہارے تو مزے آ گئے-" اس نے شوخ لہجے میں کہا- اس پر سب کھلکھلا کر ہنس دیئے-
----------------------------------٭---------------------------------------
وہ دن اور رات الہیٰ بخش کبھی نہیں بھولا، جو اس نے مزدوروں کے ساتھ گزارا تھا- اس نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا- زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا- سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے ایک دوسرے کے لئے ان کی محبت دیکھی تھی-
محبت! ۔۔۔۔۔۔ بس اسی بات پر وہ جھنجلانے لگتا- کیا مصیبت ہے- جس چیز سے بھاگ کر وہ کراچی آیا ہے- وہ یہاں بھی موجود ہے- اسے یاد آیا، ایک بار اس کے باپ نے کہا تھا- "محبت تو سبھی کرتے ہیں بیٹے ۔۔۔ اور جو لوگ خود سے نہیں کرتے، انہیں محبت کرنی پڑ جاتی ہے- اچھا یہی ہے کہ محبت کی عادت ڈال لے- اس سے اللہ بھی خوش رہتا ہے اور اپنا آپ بھی- اور جو آدمی محبت کرنا نہیں چاہتا، وہ بہت نقصان میں رہتا ہے- جب وہ محبت پر مجبور ہوتا ہے تو بہت بے بس ہوتا ہے- بہت تکالیف اٹھاتا ہے وہ، مزدوروں نے اس پر ثابت کر دیا تھا کہ وہ سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں- شاید وہ محبت ان کی ضرورت تھی- ان کا روزگار، ان کے مفادات، ان کے دکھ سکھ جو مشترک تھے- پھر بھی وہ تھی تو محبت ہی، ورنہ انہیں قاسم کے لئے اتنا کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس سے کوئی غرض نہیں تھی- پھر انہوں نے یہ سب کچھ کیوں کیا - محبت! ۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ محبت ہی تھی- الہیٰ بخش کو اعتراف کرنا پڑا-

قاسم کے سبزی فروٹ کے لئے پیسے تو اس نے بھی ملائے تھے- تو کیا یہ محبت تھی- ہر گز نہیں- انسیت- نہیں یہ بھی نہیں- تو پھر کیوں؟ بہت غور کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ اس کی خودداری، اس کی انا کا معاملہ تھا- اسے مزدوری کئے بغیر اجرت دی گئی تھی- جو اصرار کی وجہ سے اسے لینی پڑی تھی- وہ اس کے سوا اور کیا کر سکتا تھا کہ کسی بھی بہانے سے اس میں مزید اپنی رقم ملا کر انہیں لوٹا دے اور بہانہ موجود تھا-

الہیٰ بخش کو مایوسی ہوئی، کیا وہ محبت کی اہلیت ہی نہیں رکھتا- اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ کبھی اس نے کسی سے محبت کی ہو- لیکن نہیں- اسے تو شاید ماں باپ سے بھی محبت نہیں- کراچی آنے کے بعد اس نے ابا کو صرف ایک خط لکھا تھا اور گھر کے لوگ اسے کبھی یاد بھی نہیں آتے تھے- وہ یہاں خوش تھا-
اس دن کے بعد سے محبت الہیٰ بخش کے سر پر سوار ہو گئی- صبح سویرے اپنے ٹھکانے پر آ کر بیٹھتا تو گرد و پیش کی ویرانی اور تنہائی میں وہ محبت اور عشق کے بارے میں سوچتا رہتا- اسے باپ کی باتیں یاد آتیں- گرد و پیش میں زدگی بیدار ہوتی تو وہ چونکتا اور اس بات پر غور کرتا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی محبت کے بارے میں کیوں سوچتا رہتا ہے- اس سے بہتر ہے کہ وہ محبت ہی کر لے-
در حقیقت وہ خوفزدہ تھا- باپ کی بات کے حوالے سے اسے خوف آتا تھا- کیا محبت نہ کرنے کی سزا میں اسے ایسی محبت ہو گی جو اسے مجبور و بے بس کر کے رکھ دے گی - وہ یہ سوچتا اور لرز جاتا- وہ عشق اور محبت سے گھبرا کر ہی تو گھر چھوڑ کر بھاگا تھا-

لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسے پردیس میں محبت ہو گی،جس کے سامنے وہ بے بس ہو جائے گا اور یہ محبت کے خلاف مزاحمت کا رد عمل ہو گا-
وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اب وہ وقت آ پہنچا ہے!
--------------------------------------٭--------------------------------------
ملنگ نے ٹھیک ہی کہا تھا- الہیٰ بخش اسے بھول گیا تھا لیکن پھر ایک روز کالج کا پروفیسر آگیا- اور اس نے اسے ملنگ کی یاد دلا دی-

صبح سویرے آ کر سنسان فٹ پاتھ پر بیٹھنے والا الہیٰ بخش جو زندگی کے بارے میں سوچا کرتا تھا، اس صبح مضطرب تھا- اور اس کی سمجھ میں اضطراب کی وجہ بھی نہیں آ رہی تھی- وہ اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلتا رہا- گردو پیش میں زندگی سوئی ہوئی تھی- کہیں کوئی بھی نہیں تھا-
ٹہلتے ہوئے واپس آنے کے لئے پلٹا تو وہ سکی سے ٹکرا گیا- پیوند لگا سفید کرتا پاجامہ پہنے ہوئے وہ شخص پہلی نظر میں اسے بھکاری لگا- اس کے بال بہت بڑھے ہوئے تھے- کندھوں تک آ رہے تھے- بڑی بڑی سرخ آنکھیں تھیں- سب سے بڑی بات یہ کہ اس کی عمر کا اندازہ لگانا نا ممکن تھا، بلکہ وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ بوڑھا ہے یا نوجوان- جوان ہے یا ادھیڑ عمر- ایک پل میں اسے اس کی آنکھوں سے خوف آنے لگا-
"دیکھ کے چل-" اس شخص نے اسے ڈانٹا "آدمی کو اپنی راہ کا تو پتا ہونا چاہئے کہ چل کہاں رہا ہے"-
الہیٰ بخش نے سمجھ لیا کہ وہ شخص بھکاری نہیں ہے- "معاف کیجیئے بابا جی" اس نے معذرت کی-

"بھگوڑوں کو معافی نہیں ملتی اندھے-" اس شخص نے گرج کر کہا "بھاگنا تھا تو آنکھیں بھی کھلی رکھی ہوتیں- بھاگتے بھاگتے بیچ بازار میں آ بیٹھا- یہاں تو کوئی بھی جھولی میں وہ چیز ڈال دے گا، جس سے تو بھاگ رہا ہے-"
الہیٰ بخش سہم گیا- کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا تھا کہ بات ٹھیک ہے- "پر میں تو بھگوڑا نہیں ہوں بابا-" اس نے ڈرتے ڈرتے کہا-
"بھاگتے بھاگتے پردیس آ گیا پھر بھی کہتا ہے، بھگوڑا نہیں ہوں-"
اب الہیٰ بخش کی سمجھ میں بات پوری طرح آنے لگی- وہ کوئی مجذوب تھا- "یہاں میں محفوظ ہوں باباجی-"
"جن کے پیروں میں بھنور باندھ دیئے گئے ہوں، وہ ڈوبنے سے نہیں بچتے- تجھے بھی ڈوبنا ہے- ڈوب کر رہےے گا-"
"پھر میں کیا کروں بابا؟" الہیٰ بخش نے بے بسی سے پوچھا-
"دیکھا کر کہ قدموں کے نیچے کون سا راستہ ہے-" مجذوب نے نرم لہجے میں کہا- "دیکھے گا تو منہ کے بل نہیں گرے گا- راستہ بدلنے کا تجھے اختیار نہیں- نظر نیچی رکھنے میں عافیت ہے- نظر اٹھانا مت- اٹھا لے تو خاموشی سے ڈوب جانا- شکایت نہ کرنا-" مجذوب اپنے راستے پر چل دیا- مگر دو قدم بڑھنے کے بعد پلٹا- "بس نظر جھکائے رکھ" اس نے کہا- "لیکن یہ تجھ سے ہو گا نہیں"-
اب الہیٰ بخش جیسے سحر زدہ ہو چکا تھا- اس نے پوچھا "آپ کون ہیں بابا؟"
"عاشق ہوں، پروفیسر ہوں، ایکٹر ہوں، تجھے کیا-" مجذوب نے کچھ ایسی کیفیت میں کہا کہ ہر لفظ کی ضرب الہیٰ بخش کو اپنے دل پر پڑتی ہوئی محسوس ہوئی- خواہ مخواہ ۔۔۔۔۔۔ بے بات اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- "تو اپنی دیکھ!" مجذوب اپنی کہے جا رہا تھا- "اور سوچ کہ تیری فکر اوروں کو کیوں ہے1 پچھلے کو بھول گیا نا!"

الہیٰ بخش مجذوب کو جاتے دیکھتا رہا- وہ سوچ رہا تھا، یہ کون تھا ۔۔۔۔۔ اور وہ ملنگ ایبٹ آباد والا ۔۔۔۔ مجھ سے ان کا کیا تعلق ہے- یہ سوال ایبٹ آباد میں بھی اسے الجھاتا تھا- پھر وہ یہ سوچ کر پر سکون ہو جاتا تھا کہ وہ ابا کی باتیں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، اس لئے سزا کے طور پر زیادہ پیچیدہ باتیں کرنے والا اس پر تھوپ دیا گیا-
مگر کہاں سے؟ کس نے تھوپا ہے؟ اس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا-
-----------------------------------٭-----------------------------------
الہیٰ بخش کو پہلی نظر میں عشق ہوا تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں- اس کا خمیر ہی عشق کی مٹی سے اٹھا تھا لیکن یہ عشق کہاں، کس جگہ، کس انداز میں ہوا، اس پر مزید حیرت کی جا سکتی ہے-
الہیٰ بخش کو ایک بڑا کام ملا تھا جو اس نے چار دن میں نمٹایا تھا، اجرت کے علاوہ انعام بھی ملا تھا لہذا جیب بھری تھی- وہ بے فکروں کی طرح مست بیٹھا تھا- صبح سے کام نہیں ملا تو اس کی اسے پروا بھی نہیں تھی- اس روز وہ کام کرنا چاہتا بھی نہیں تھا، البتہ کام مل جاتا تو وہ انکار بھی نہ کرتا- یہ مزدوری کے اصول کی بات ہے، ورنہ دل تو اس کا یہی چاہا تھا کہ اس روز گھر بیٹھ کر آرام کرے، چار دن کی تھکن اتارے لیکن اپنے کام میں نوکری سے زیادہ پابندی کرنا پڑتی ہے- الہیٰ بخش جانتا تھا کہ یہ آزادی کی قیمت ہے، اس لئے وہ معمول کے مطابق اپنا محنت کا شو کیس لگائے بیٹھا تھا-

شام ہو گئی تھی- طارق روڈ کی رونق اپنے شباب پر تھی- الہیٰ بخش کو یہ وقت بہت اچھا لگتا تھا- عام طور پر وہ اسی رونق کی خاطر دیر تک رکا رہتا تھا- کسی دن تھکن بہت زیادہ مجبور کرتی تو شام کو جلدی گھر چلا جاتا، ورنہ رات کا کھانا کھا کر ہی جاتا-
وہ اپنے معمول کے مطابق نظریں جھکائے بیٹھا تھا- نظریں وہ کم ہی اٹھاتا تھا- اچانک اسی جگہ جہاں اس کی نظریں جمی تھیں- ایک شاپنگ بیگ گرا اور اس طرح گرا کہ اس کی تمام چیزیں بکھر گئیں- کچھ کپڑے تھے، کچھ بال پن اور کچھ ایسی چیزیں جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں- ساتھ ہی ایک سریلی آواز سنائی دی "او مائی گاڈ"

الہیٰ بخش نے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔۔ اور دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا- وہ بےحد حسین لڑکی تھی- عمر اٹھارہ انیس کے لگ بھگ ہو گی- اس کا چہرہ کندن کی طرح دمکتا ہوا تھا- آنکھیں کٹوروں سی تھیں- نقوش ایسے تھے جیسے بڑی نزاکت اور نفاست سے تراشے گئے ہوں- بالائی ہونٹ کے اوپر پسینے کے قطرے یوں چمک رہے تھے جیسے صبح کے وقت گلاب پر شبنم، اور جسم جیسے سانچے میں تیار کیا گیا تھا- لڑکی کے ہونٹ یوں کھلے ہوئے تھے جیسے وہ ابھی تک پکار رہی ہو ۔۔۔۔ او مائی گاڈ!

الہیٰ بخش ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا- اسے اس لڑکی کے سوا کچھ بھی یاد نہیں تھا- اسے یہ احساس بھی نہیں تھا کہ وہ رنگ کے ڈبے اور برش لگائے ایک فٹ پاتھ پر بیٹھا ہے- وہ زمان و مکاں سے ماورا ہو گیا تھا-
"اب دیکھ کیا رہی ہو، اٹھاؤ نا"
اس آواز نے الہیٰ بخش کو چونکا دیا- پہلی بار اسے احساس ہوا کہ لڑکی کے ساتھ کوئی اور بھی ہے، وہ ایک معمر خاتون تھیں- ان کے چہرے اور آنکھوں میں برہمی تھی- الہیٰ بخش کو احساس ہو گیا کہ وہ جس طرح لڑکی کو دیکھ رہا تھا، وہ لڑکی کی ماں نے دیکھ لیا ہے اور ظاہر ہے، اسے یہ بات اچھی نہیں لگی ہے-
الہیٰ بخش نے نظریں جھکا لیں- اب اس کے سامنے لڑکی کیبکھری ہوئی چیزیں تھیں- وہ شرمسار تھا کہ اس نے ایسی معییوب حرکت کی-
"ابھی سمیٹتی ہوں ممی" اس نے لڑکی کی سریلی آواز سنی-

اگلے ہی لمحے لڑکی جھکتے ہوئے خود اس کی نظروں کے فوکس میں آئی اور یوں آئی کہ اس کے دل کی دنیا زیروزبر ہو گئی- لڑکی کا آنچل ڈھلک گیا تھا- جیسے دہکتے ہوئے لفظوں کی کوئی کتاب کھل گئی تھی- وہ نظارہ الہیٰ بخش کے لئے بالکل نیا تھا- وہ اسے اچھا بھی نہیں لگا لیکن دل چاہا تھا کہ دیکھتا ہی رہے- اسے اپنے کانوں کی لویں انگارا ہوتی اور چہرہ تمتماتا ہوا محسوس ہوا- تپش سے گھبرا کر اس سے نظریں اٹھائیں تو سامنے لڑکی کی ماں شرر بار نگاہیں تھیں- وہ گھبرا کر سامنے دیکھنے لگا- اس لمحے اسے اپنا آپ بہت چھوٹا، بہت حقیر محسوس ہو رہا تھا-
جانے کب تک وہ یونہی سامنے دیکھتا رہا- اس کا دل چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے- نظریں ہٹیں تو اسے پتا چلا کہ وہ دونوں جانے کب کی جا چکی ہیں- اس نے اطمینان کی سانس لی اور نظریں جھکا دیں-
لیکن اس کا اطمینان وقتی ثابت ہوا- اس کی جھکی ہوئی نظروں کے سامنے لڑکی کا چہرہ ابھر آیا، اور وہ جیسے تصور نہیں، جیتا جاگتا، سانس لیتا چہرہ تھا کہ وہ بڑھائے اور چھو لے- اس نے سر جھٹکا تو لڑکی کی ماں کی شرر بار نگاہیں سامنے آ گئیں- اس نے گھبرا کر سر گھمایا تو وہ نظارہ سامنے آ گیا جس کی تپش وہ اب تک محسوس کر رہا تھا، اس نے اسے جھٹکنے کے لئے پلکیں جھپکیں تو لڑکی کا چہرہ سامنے تھا-

اب تو ان تینوں جھلکیوں کی آنکھ مچولی شروع ہو گئی - پھر ان میں سے شرر بار نگاہوں والی جھلک جیسے کسی خودکار طریقے سے خارج ہو گئی اور کچھ دیر بعد صرف لڑکی کا چہرہ رہ گیا جو نظروں کے سامنے سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھا-
وہ اسی طرح بیٹھا رہا- پھر اس نے ایک راہ گیر سے وقت پوچھا- سن کر اسے یقین نہیں آیا کہ سوا آٹھ بج چکے ہیں لیکن یہ سچ تھا کہ رات ہو چکی تھی- الہیٰ بخش کو حیرت اس پر بھی تھی کہ اسے اب تک بھوک نہیں لگی- عام طور پو وہ آٹھ بجے کھانے سے فارغ ہو جاتا تھا اور یہ بات تو بالکل ہی نا قابل یقین تھی کہ اس نے اتنا وقت یونہی بیٹھے بیٹھے صرف وہ چہرہ دیکھتے گزار دیا ہے- ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، اس کے تصور میں تو کبھی ابا اور اماں کے چہرے بھی نہیں آئے تھے-
بہرحال وہ اٹھ گیا- یہ بات ابھی اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ اسے محبت ہو گئی ہے-

بھوک نہیں تھی پھر بھی وہ ہوٹل چلا گیا- بھوک ہو نہ ہو، کھانا کھانا ضروری ہے، آدھی رات کو گھر میں بھوک لگی تو بڑا مسئلہ بن جائے گا- یہ سوچ کر وہ کھانا زہر مار کرنے کی کوشش کرتا رہا- لیکن چند لقموں سے زیادہ اس سے کھایا نہیں گیا- یہ بھی غیر معمولی بات تھی، ورنہ بھوک اسے ہمیشہ بہت اچھی لگتی تھی اور وہ کھانا بھی طبعیت سے کھاتا تھا- پھر یہ بے رغبتی کیوں- جبکہ اس کی کوئی ظاہری وجہ بھی نہیں تھی- پورا دن اس نے معمول کے مطابق گزارا تھا- دوپہر کا کھانا ہمیشہ کی طرح ساڑھے بارہ بجے کھاتا تھا- ہر روز اسے شام سات بجے بھوک لگنے لگی تھی اور آٹھ بجے وہ رات کا کھانا کھا لیتا تھا-

اسی الجھن میں وہ گھر پہنچ گیا- اسے احساس تھا کہ اس کی زندگی میں کوئی بن بلایا انقلاب آ چکا ہے- گھر میں رہنے والے ساتھیوں سے بھی اس نے اس روز کوئی گپ شپ نہیں کی- ان کے ساتھ تاش کے لئے بھی نہیں بیٹھا- بہانہ اس نے یہ کیا کہ تھکن کی وجہ سے نیند جلدی آ رہی ہے لیکن درحقیقت اس کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان بھی نہیں تھا وہاں تو بس ایک چہرہ جم کر بیٹھ گیا تھا-
وہ آنکھیں بند کئے لیٹا اس چہرے کو تکتا رہا-
اسے نیند بھی ہمیشہ بہت اچھی آتی تھی- گہری اور پر سکون نیند- ابا جب بھی اسے جگانے کو کوشش کرتے تو جھنجلا جاتے "یہ لڑکا کیسا بے خبر سوتا ہے" وہ اماں سے کہتے "کوئی آ کر اسے کاٹ بھی ڈالے تو اسے پتا نہیں چلے گا-"
"کیسی باتیں کرتے ہو!" اماں خفا ہو کر کہتیں "سوچ سمجھ کر منہ سے الفاظ نکالا کرو-"
"تو یہ اٹھتا کیوں ہیں-"

"بچپن ہی سے مدہوش سوتا ہے یہ تو-" اماں کہتیں- "اور یہ تو ایسا وقت پر سونے اور اٹھنے والا ہے کہ کانٹوں پر لیٹ کر بھی سو جائے-"
اور اب وہ مدہوش سونے والا، اپنے وقت پر کانٹوں پر بھی سو جانے والا الہیٰ بخش وقت گزر جانے کے بعد بھی جاگ رہا تھا- تاش کی محفل کب کی اٹھ چکی تھی- سب لوگ کب کے سو چکے تھے- رات کا مخصوص سکوت طاری تھا اور وہ کروٹیں بدلے جا رہا تھا- آنکھیں بند کرتا تو وہ چہرہ سامنے آ جاتا آنکھیں کھولتا تو بے چینی ہونے لگتی- وہ جھنجلاتا اپنے بال نوچنے کو، سر پیٹنے کو جی چاہتا- بس آنکھیں بند کرنے سے دل کو سکون ملتا تھا اور آنکھیں بند کرتے ہی وہ چہرہ! وقت بہت آہستہ آہستہ گزرتا رہا- رات کی سانسیں اکھڑتی گئیں- وہ مضحمل ہوئی گئی لیکن الہیٰ بخش کو نیند نہیں آئی- وہ آنکھیں کھولتا تو جلتا کڑھتا اور جھنجلاتا آنکھیں بند کرتا تو وہ چہرہ اسے پر سکون کر دیتا مگر پھر بے بسی کا احساس ستانے لگتا- اپنی خوشی سے جاگنے کی اور بات ہے لیکن یوں وہ کبھی نہیں جاگا تھا-
"یہ کیسی بے بسی ہے؟" وہ بڑبڑایا-
اسی لمحے فجر کی اذان شروع ہو گئی- یہ اس کے معمول کے مطابق اٹھنے کا وقت تھا لیکن وہ اٹھا نہیں "یہ کیسی بے بسی ہے" اس نے دہرایا-
"اللہ بہت بڑا ہے" موذن پکار رہا تھا-
"یہ کیسی بے بسی ہے؟" الہیٰ بخش بڑبڑا رہا تھا-
'میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں- میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں-"
"میں سو کیوں نہیں سکتا- یہ کیسی بے بسی ہے؟"
"آؤ نماز کی طرف ۔ ۔ ۔ آؤ بھلائی کی طرف"
"یہ سب کیا ہے- میں اتنا بے بس کیوں ہو گیا ہوں؟"
"نماز نیند سے بہتر ہے"
"یہ کیسی بے بسی ہے؟"

موزن نے آخری بار اللہ کی کبریائی کا اور اس کے سوا کسی معبود کے نہ ہونے کا اعلان کیا- اس کے ساتھ ہی سکوت طاری ہو گیا جیسے پوری کائنات ساکت ہو گئی ہو- چند لمحوں کے اس سکوت نے الہیٰ بخش کو اس کے سوال کا جواب دے دیا- اس کے کانوں میں ابا کی آواز گونجی- "جو لوگ خود سے محبت نہیں کرتے، انہیں محبت کرنی پڑجاتی ہے- جو آدمی محبت کرنا نہیں چاہتا، وہ بہت نقصان میں رہتا ہے- جب وہ محبت ہر مجبور ہوتا ہے تو بہت بے بس ہوتا ہے، بہت دکھ اٹھاتا ہے وہ"
"تو یہ بے بسی اسی لئے ہے!" الہیٰ بخش نے خود سے کہا- اس لمحے اسے پوری طرح ادراک ہو گیا کہ اسے محبت ہو گئی ہے- محبت پہلی نظر میں اور ایک ایسی لڑکی سے جس کا وہ کسی طرح ہمسر نہیں ہے- وہ دولت مند گھرانے کی فیشن ایبل لڑکی تھی جبکہ وہ ایک دیہاتی مزدور تھا- اس نے سمجھ لیا کہ اسے باپ کی بات نہ ماننے کی، محبت کے سامنے سر تسلیم سر خم نہ کرنے کی سزا محبت ہی کی شکل میں دی گئی ہے- اب وہ بے بس اور مجبور رہے گا- نہ اپنی مرضی سے کھا سکے گا نہ اپنی مرضی سے سو سکے گا-

اچانک ہی اسے طمانیت کا احساس ہونے لگا- اس نے سوچا یہ تو بس چند روز کی سزا ہے- اب وہ لڑکی کہاں مل سکے گی- وہ تو شاید زندگی میں کبھینظر بھی نہ آئے- چند روز بعد وہ سب کچھ بھول جائے گا- بلکہ ممکن ہے، آج ہی ۔۔۔۔۔ ! لیکن کوئی نا معلوم حس اسے بتا رہی تھی کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں-
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا- بیت الخلا سے آنے کے بعد ٹنکی کے سامنے ہاتھ دھونے بیٹھا تو اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ وضو کر رہا ہے- احساس ہوا تو پہلے اسے حیرت ہوئی اور پھر پچھتاوا سر میں ڈنک مارنے لگا- وہ تو ہمیشہ اسی وقت جاگتا رہا ہے-پھر کیوں اسے نماز کا خیال نہیں آیا-
اس نے دروازہ کھولا اور باہر نکل آیا- اس کے قدم مسجد کی طرف اٹھ رہے تھے- محبت اسے نماز کی طرف لے جا رہی تھی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن سست روی سے گزرتے رہے- الہیٰ بخش ہر روز اپنی امید کو آنے والی کل کے سپرد کر دیتا- اس کی دلیل معقول تھی- جسے اب کبھی ملنا نہیں تھا، دل کب تک اس کی محبت میں گرفتار رہ سکتا ہے- کب تک آنکھیں اس ایک جھلک کے عکس کو بچا سکیں گی- مگر معاملہ برعکس تھا- محبت کی دیوانگی ہر روز فزوں تر ہوئی جا رہی تھی- عکس آنکھوں میں گہرا ہوتا جا رہا تھا- دو مہینے اسی طرح گزر گئے تو الہیٰ بخش نے حقیقت کو تسلیم کر لیا- اس نے مان لیا کہ بات اگرچہ آگے بڑھنے والی نہیں لیکن یہ روگ عمر بھر کا معلوم ہوتا ہے

عشق کا عین - پارٹ 5

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for kids, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu incest stories, desi yum stories in urdu font, stories in urdu font

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے