عشق کا عین - علیم الحق حقی - قسط نمبر5

Urdu Novel PDF

Urdu Novels PDF - Urdu Novels Online

قسط وار کہانیاں
عشق کا عین - قسط نمبر5
رائیٹر :علیم الحق حقی


اسے احساس تھا کہ وہ خود بدل گیا ہے۔ اس کے معمولات بدل گئے ہیں۔ سب کچھ بے ترتیب ہو گیا تھا۔بھوک لگتی تو وہ کھانا کھا لیتا۔نہ لگتی تو نہ کھاتا۔نیند آتی تھی مگر پہلے کی طرح نہیں۔۔اب وہ بے سدھ ہو کر نہیں سوتا تھا۔وہ خوش مزاج بھی نہیں رہا تھا۔۔ بہت کم آمیز ہو گیا تھا وہ۔۔۔کسی سے بات کرنے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔۔ گھر کے ساتھی بھی اس سے شاکی رہنے لگے تھے۔۔مزدورں کی ٹولی نے بھی اس میں تبدیلی محسوس کر لی تھی۔۔۔
اس لڑکی کی دید کو دو ماہ ہوئے تو الٰہی بخش نے شکست تسلیم کر لی۔۔ مزید ایک ماہ گذرا تو اس میں اور تبدیلی آئی۔۔تسلیم کے بعد سپردگی کا مرحلہ آیا۔۔اس نے خود کو اس محبت کے سپرد کر دیا۔جو خود اسے ناقابلِ یقین حماقت لگتی تھی۔اس کے ساتھ ہی اسکی تنک مزاجی رخصت ہو گئی۔وہ آدم بیزار نہیں رہا۔مزاج میں بلا کی نرمی اور حلیمی آ گئی۔ اسکا لہجہ نرم اور آواز شیریں ہو گئی۔۔اس کی متحمل مزاجی بھی بڑھ گئی تھی۔۔کم گو اور کم آمیز وہ اب بھی تھا مگر کوئی مخاطب ہوتا تو وہ بڑی توجہ سے بات سنتا اور بے حد رسان سے جواب دیتا۔ اسکی آنکھوں کی چمک بھی بڑھ گئی تھی۔۔اس سے آنکھ ملا کر بات کرنا بھی اب آسان نہیں رہا تھا۔۔ یہ الگ بات کہ وہ 
 
عموماً نظریں اٹھا کر بات ہی نہیں کرتا تھا۔۔
سب سے زیادہ مزدورں کی ٹولی اس کی تبدیلیوں پہ حیران تھی۔وہی اسے سب سے قریب سے دیکھ بھی رہے تھے۔نظریں جھکا کر بازار کی رونق سے لطف اندوز ہونے والا الٰہی بخش اب نظریں اٹھا کر اس رونق کو دیکھتا بلکہ ٹٹولتا تھا۔ وہ دور و نزدیک ہر چہرے کو غور سے دیکھتا ،جیسے اسے کسی خاص چہرے کی ،کسی خاص شخص کی تلاش ہو۔۔ اگر اس کی نگاہوں میں معصومیت نہ ہوتی تو وہ یہی سمجھتے کہ طارق روڈ نے اسے خراب کر دیا ہے۔۔پہلے تو وہ عورتوں کو نظر اٹھا کر دیکھتا ہی نہیں تھا۔،حالانکہ دل میں گدگدی کرتے ہوئےگذرنے والی خوشبو اور چھو کر غزرنے والی لباس کی سرسراہٹوں کے سامنے مدافعت کرنا آسان نہیں ہوتا۔۔ اب وہ عورتوں ،لڑکیوں کو خاص طور پہ دیکھتا مگراس نظروں میں معصومیت اور ایک بے نام سے تجسس کے سوا کچھ نہ ہوتا۔دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ کام میں اس کی دلچسپی کم ہوئی ہے۔ کام آتا تو زایادہ مزدوری طلب کرتا اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ کام سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔پہلے وہ اٹھ کر ادھر اُدھر گھومتا اور 
باتیں کرتا تھا مگر اب وہ بس اپنی جگہ پر بیٹھا خریداری کے لیئے آنے والوں کو تکتا رہتا۔۔
مزدور بہت پریشان تھے۔نثار نے تو کہہ دیا تھا کہ ساری علامات عشق کی ہیں۔۔ ضرور اپنے محلے میں اسے کسی سے عشق ہو گیا ہے۔دوسروں کے دل کو بھی یہ بات لگتی تھی مگر ایک بار الٰہی بخش کے ساتھ رہنے والا کرامت اس سے ملنے آیا تو مسئلہ اور پیچیدہ ہو گیا، نثار نے کرامت سے بھی یہی بات کہی تھی۔۔
" نہیں جی یہ تو ہو ہی نہین سکتا" کرامت نے شدت سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا " وہاں تو صرف سونے کے لیئے جاتا ہے رات دو بجے کے قریب گھر پہنچتا ہے اور فوراً ہی سونے کے لیے لیٹ جاتا ہے۔ صبح سات بجے ہی یہاں آنے کے لیئے گھر سے نکل پڑتا ہے۔۔ اس نے تو کبھی کسی پڑوسی کی صورت ہی نہیں دیکھی۔کسی پڑوسن سے عشق کیا کرے گا۔۔ "
نثار کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔وہ تو اسی ایک امکان پر تکیہ کیئے بیٹھا تھا ۔۔۔وہ اس طرح رد ہوا تو اس کی عقل ہی جواب دے گئی۔۔چند لمحے بعد اس نے سنبھل کر کہا۔"تو پھر؟ ہم لوگوں کا خیال ہے کہ یہیں پر کوئی چکر چلا ہے۔" کرامت نے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔۔
"یہاں" نثار نے انکھیں پھیلاتے ہوئے کہا " یہ تو پیارے بھائی جادو نگری ہے۔۔یہاں کوئی عشق نہیں کر سکتا۔ یہ تو ریتیلا میدان ہے جہاں پھول نہیں کھل سکتے۔ پھول آتے ہیں جادو سے یہ باغ بن جاتا ہے۔ پھول چلے جاتے ہیں تو پھر میدان اور ریت۔یہاں عشق کیسے ہو سکتا ہے"
"تم لوگ کام پر کس وقت آتے ہو؟" کرامت نے پوچھا۔۔
"ساڑھے نو بجے۔ زیادہ جلدی آ گئے تو نو بجے۔لیکن یہ بخشا سات بجے گھر سے نکلتا ہے ساڑھے سات بجے یہاں آ جاتا ہو گا۔۔"
"اُس وقت یہاں الو بول رہے ہوتے ہیں۔۔" مشتاق بولا۔۔
"تو یہ بخشا یہاں اتنی دیر کیا کرتا ہے؟" کرامت نے سوال اٹھایا۔۔"میرا تو خیال ہے ایسے ہی وقت میں یہاں کوئی چکر چلا لیا ہے اس نے"
" مگر یہاں تو کوئی ہوتا ہی نہیں"اچھو نے کہا۔۔۔
"ارے یہاں فلیٹ بھی تو ہیں" کرامت نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔۔
"لیکن پورے دن تو اسے کس فلیٹ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے تو نہیں دیکھا۔" عباس بولا۔۔
" ایسی کوئی بات ہوتی تو نظر میں ضرور آتی"
" یہ بخشو ہے بہت گہرا آدمی۔۔ راز چھپانا اسے آتا ہے" نثار نے گہرا سانس لے کر کہا۔۔"خیر میں خود دیکھ لوں گا کسی دن۔۔۔"
محفل برخاست ہو گئی۔۔کرامت پھر کسی دن آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الٰہی بخش کو اندازہ نہیں تھا کہ لوگ اس کے بارے میں پریشان ہو رہے ہیں۔ اسے پتا کیا چلتا وہ تو سرشاری کی عجیب ہی کیفیت میں تھا۔،۔ اسے دوسروں کو دیکھنے اور سمجھنے کا ہوش ہی کہاں تھا۔۔ یہ کیا کم تھا کہ اس نے ایک بہت اہم بات سمجھ لی تھی کہ اسے پہلی نظر میں عشق ہو گیا ہے۔۔
اب تو اس کے دل میں ابا کی بات کا خوف بھی نہیں تھا۔۔ یہ خیال ہی دل سے نکل گیا تھا کہ یہ محبت سزا ہے۔ وہ سوچتا اگر یہ سزا ہے تو اتنی سخت سزا بھی نہیں ہے۔اس میں تو عجیب مستی ،بے خودی ہے۔اپنا آپ اچھا لگنے لگا ہے۔۔ ہاں کبھی کبھی ایک لمحے کے لیئے ایک خلش ستاتی ہے۔۔کاش وہ اُس لڑکی کو پھر دیکھ سکے۔۔ مگر وہ فوراً ہی اس خلش کو جھٹک دیتا۔۔اس نے خود سے بہت طویل بحث کی تھی اور اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس لڑکی کو دوبارہ دیکھنا ، اس کے بارے میں جاننا اس کے لیئے بہتر نہیں۔۔ سادی سی حقیقت یہ تھی کہ محبت اپنی جگہ لیکن وہ لڑکی اس کے لیئے نہیں ہے۔۔وہ حیثیت اور مرتبے میں اس سے بہت اوپر ہے۔وہ مختلف ماحول کی لڑکی ہے۔ اس سے بہتر تو شائد اس کے ملازم ہوں گے۔۔
سو الٰہی بخش مطمئن تھا کہ اسے اس لڑکی کو دوبارہ دیکھنے کی کوئی خواہش نہیں۔ اسے احساس بھی نہیں تھا کہ غیر شعوری طور پر وہ اس کی جستجو کر رہا ہے۔۔ "خود کو سمجھنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے" بعض اوقات تو آدمی کو برسوں پتا نہیں چلتا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔۔اس نے تھوڑاسا غور کر لیا ہوتا تو بات اسکی سمجھ میں بھی ا جاتی۔۔۔مگر اسے تو خیال ہی نہیں آیا کہ وہ اب نظریں جھکا کر نہیں بیٹھتا بلکہ نظروں سے چہروں کے ہجوم کو کھنگالتا رہتا ہے۔۔
اپنی کسی بھی تبدیلی کا احساس انسان کو خود نہ ہو تو دوسرے احساس دلا دیتے ہیں۔۔اس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
الٰہی بخش کو یہ احساس بھی نہیں تھا کہ وہ ایک گھر میں ساتھ رہنے والوں کے لیئے اور مزدوروں کی ٹولی کے لیئے کیسا پیچیدہ معمہ بن گیا ہے۔۔
کوئی دو ہفتے بعد کرامت پھر آیا۔۔ اس روز الٰہی بخش کو کام مل گیا تھا۔۔ وہ موجود نہیں تھا " کیا رہا استاد۔۔ میری بات درست نکلی نا" کرامت ے نثار سے پوچھا۔۔" نہیں ایسا نہیں ہے" نثار نے کہا۔۔" میں نے تین دن ساڑھے سات بجے صبح یہاں آ کر دیکھا ہے وہ کچھ بھی نہیں کرتا سر جھکائے بیٹھا رہتا ہے۔ میں نے اسے ایک منٹ کے لیئے بھی یہاں سے اٹھتے نہٰں دیکھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ وقت وہ کیسے گذار لیتا ہے۔۔ مجھے تولگ رہا تھا کہ میں پاگل ہو جاؤں گا"
" تو پھر؟" کرامت نے مایوسی سے کہا۔۔" اور کیا بات ہو سکتی ہے؟"
"بات تو یہی ہے لیکن یہ چکر کہاں چلا ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا"
"میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ گھر کی طرف تو یہ ممکن ہے ایسا سوچنا بھی نہیں"
"اور یہاں بھی یہ ممکن نہیں " نثار نے کہا " ٹھیک ہے اب میں خود اس سے بات کروں گا۔۔"
"لیکن اس سے اگلوانا آسان نہیں ہو گا استاد" کرامت بولا " ہم سب ہر طرح سے کوشش کر رہے ہیں"
" میں کچھ اگلواؤں گا نہیں" نثار نے کہا "میں صرف اسے یہ احساس دلوؤں گا کہ بہت لوگوں یہ بات معلوم ہے کہ اس کا کوئی چکر ہے۔بس پھر اسکی نظریں ہی کسی دن پورا بھید کھول دیں گی۔۔وہ زبان سے تو نہیں نظروں سے بات بتا دے گا"
"واہ استاد،ترکیب تو زور دار ہے" کرامت نے ستائشی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
تین دن بعد نثار، الٰہی بخش کے پاس آ بیٹھا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔۔ قدموں کی چاپ سن کر الٰہی بخش نے سر اٹھایا اور سامنے سے گذرنے والی لڑکیوں کے چہروں کو غور سے دیکھنے لگا۔۔
نثار نے کچھ دیر اسے اِس کا موقع دیا پھر چانک بولا "تُو نے جواب نہیں دیا میری بات کا"
الٰہی بخش نے چونک کر اسے دیکھا۔ "کونسی بات نثار بھائی؟"
"تُو تو میری بات سن ہی نہیں رہا تھا۔ " نثار نے خفگی سے کہا۔۔
"معاف کرنا نثار بھایئ۔۔آج کل میرے ساتھ یہی ہوتا ہے۔۔ دھیان بٹ جاتا ہے ادھر اُدھر۔"
"ایسا کیوں ہوتا ہے بخشے ؟ پہلے تو نہیں ہوتا تھا۔۔؟"
"پتا نہیں نثار بھائی۔۔ مجھے خود معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔"
"معلوم نہیں ہے یا بتانا نہیں چاہتا؟" نثارنے کہا۔۔
"ایسی کیا بات ہو سکتی ہے کہ میں چھپاؤں"
"ہوتی ہیں۔۔ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں" نثار نے مربیانہ انداز میں کہا۔۔"جس عمر تُو ہے اس میں ایسی باتیں ہوتی ہیں"
الٰہی بخش اپنے چہرے کی تمتماہٹ پر قابو نہ پا سکا۔۔وہ تمتماہٹ نثار نے بھی دیکھ لی تھی۔۔"میرے ساتھ ایسی کوئی بات نہیں نثار بھائی"
"اچھا ایک بات بتاؤ۔۔یہ تم گذرنے والوں اتنے غور سے کیوں دیکھتے ہو۔۔" نثار نے اچانک حملہ کیا۔۔۔
الٰہی بخش ہل کر رہ گیا ۔۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ لوگ اسے اتنے غور سے دیکھتے ہیں۔۔۔"یہاں بیٹھ کر کوئی اور کیا دیکھ سکتا ہے نثار بھائی۔۔"اس نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔۔
"لیکن پہلے تو لوگوں کو ایسے نہیں دیکھتے تھے"
"مجھے تو خیال نہیں۔۔"
اور خاص طور پر عورتوں اور لڑکیوں کو۔۔" نثار نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔۔
اس بار تو الٰہی بخش کے وجود میں بھونچال آ گیا۔۔" نن۔۔نہیں۔نن نہیں تو نثار بھائی۔۔"
"کسی کو تلاش کرتا ہے تُو؟" اس بار نثار نے مشفقانہ لہجے میں پوچھا۔۔۔
الٰہی بخش کا جی چاہا کہ وہ اعتراف کر لے۔۔وہ بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا جو اب تو وہ تنہا اٹھائے ہوئے تھا لیکن اس صورت میں اسے پوری بات بتانی پڑتی۔۔اور وہ سب کچھ اب خود اسے مضحکہ خیز لگ رہا تھا۔۔۔
وہ نثار کو بتاتا،نثار دوسروں کو بتاتا۔۔ پھر اس کا مذاق اڑاتا۔۔چنانچہ اس نے زبردستی کی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔۔" یہ تمہارا وہم ہے استاد۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔۔"
نثار خاموش ہو گیا۔۔زیادہ دباؤ ڈالنا مناسب نہیں تھا اس نے الٰہی بخش کے چہرے کے بدلے ہوئے تاثرات دیکھ لیئے تھے۔۔۔پہلی بار کے لیئے اتنا ہی کافی تھا۔۔۔
------------------------------------------------
الٰہی بخش اب پھر مضطرب اور بےچین تھا۔۔
اس کی خوش فہمی دور کر دی گئی تھی۔ وہ تو اپنے تئیں ایک بے ضرر محبت میں مست تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ اسے اس چہرے کی جستجو نہیں۔۔ اس لیئے کہ وہ مل بھی گئی تو کیا ہو گا۔۔ یوں محبت کرنے میں تو کوئی نقصان نہیں تھا۔۔ نہ ہی احساسِ کمتری کا کوئی سوال تھا۔۔ لیکن اب صورتِ حال مختلف تھی۔ یہ اس کے لیئے ایک انکشاف تھا کہ وہ اپنے اڈے پر بیٹھے بیٹھے اسے تلاش کرتا رہا ہے۔۔ لیکن یہ حقیقت اس کے شعور سے اتنا نزدیک تھی کہ اسے تسلیم کرنےکے سوا کوئی چارا نہیں تھا۔۔ وہ خود سے بحث بھی نہیں کر سکا۔اسے تو یہ خیال آیا کہ وہ اس بات سے واقف تھا لیکن اسے خود سے بھی چھپاتا رہا تھا۔۔ اب اس حقیقت کے حوالے سے اسے کچھ سوالات کا سامنا کرنا تھا۔۔ سوال یہ تھا کہ وہ اس لڑکی کو کیوں تلاش کرنا چاہتا ہے؟؟خود کو بہت ٹٹولنے کے بعد بھی اسے اس سوال کا تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔۔
کیا وہ اس لڑکی سے محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے؟؟ اس سوال کا واضح جواب نفی میں تھا۔۔۔۔
بس یونہی وہ جاننا چاہتا تھا کہ جس کی محبت میں وہ بلاوجہ گرفتار کر دیا گیا ہے وہ ہے کون؟؟اس کے سوا کوئی بات نہیں۔۔
اس جواب سے الٰہی بخش کو مطمئن ہو جانا چاہیئے تھا لیکن اس نے لاشعور کی کرشمہ کاری ابھی ابھی دیکھی تھی اور اس کے بعد خود پر بھی اعتبار نہیں کر سکتا تھا۔۔

کیا وہ اس لڑکی سے محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے؟؟ اس سوال کا واضح جواب نفی میں تھا۔۔۔۔
بس یونہی وہ جاننا چاہتا تھا کہ جس کی محبت میں وہ بلاوجہ گرفتار کر دیا گیا ہے وہ ہے کون؟؟اس کے سوا کوئی بات نہیں۔۔
اس جواب سے الٰہی بخش کو مطمئن ہو جانا چاہیئے تھا لیکن اس نے لاشعور کی کرشمہ کاری ابھی ابھی دیکھی تھی اور اس کے بعد خود پر بھی اعتبار نہیں کر سکتا تھا۔۔
وہ کئی دن اس سوچ میں الجھا رہا لیکن اطمینان بخش جواب نہ مل سکا۔۔ اس کی بے اعتباری اپنی جگہ رہی۔۔ پھر دھندلی دھندلی سی ایک بات اس کی سمجھ میں آئی وہ یہ کہ جو محبت وہ کر رہا ہے وہ کئی سزا تو نہ ہوئی۔۔محبت کے کچھ دکھ بھی ہوتے ہوں گے۔۔وہ محسوس کر سکتا تھا کہ اس کے لیئے دکھوں کا سامان ہو رہا ہے۔۔ اور وہ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔وہ اس ناگہانی سے نہیں بچ سکا تھا تو آگے بھی نہیں بچ سکے گا۔۔اس بات کی جزئیات س کی سمجھ میں نہیں آئیں اسی لیئے وہ اسے دھندلی سی بات سمجھ رہا تھا اور وہ دھندلی سی بات بھی اسکا دماغ نہیں سمجھ سکا تھا البتہ دل نے وہ بات سمجھ لی تھی۔۔۔۔
ردِ عمل کے طور پہ وہ جھنجلا گیا۔۔اسے احساس ہونے لگا کہ وہ تقدیر ہاتھوں میں کھلونا بن گیا ہے۔ اب دکھ ملنے ہیں تو دکھ ہی سہی۔۔اس نے خود کلامی کی۔۔"میں کیوں خواہ مخواہ پریشان ہوں۔۔ ٹھیک ہے میں یہیں بیٹھے بیٹھے چہروں کے ہجوم میں ڈھونڈوں گا۔۔ میرا کیا جاتا ہے۔۔کیا پریشانی ہے۔ایسے کوئی ملتا ہے بھلا۔۔ ہوووووں۔۔دیکھا جائے گا۔۔یہاں کوئی بچہ کھو جائے کسی ک تو ڈھونڈتے پھرو۔کس کس کی مدد لو تب کہیں ملتا ہے،،چلو بھئی دیکھتے رہو بیٹھ کے۔۔"
خود سے اس مکالمے کے بعد وہ بے فکر ہو گیا۔ اس بار چہروں کے ہجوم کو ٹٹولنے کا شغل غیر شعوری نہیں تھا لیکن اسے یقین تھا کہ وہ اسے نظر نہیں آئے گی،، اس نے یہ نہیں سوچا کہ اتفاقات پے در پے بھی ہوتے ہیں۔۔۔
اب وہ اس چہرے کو تلاش کرتا تھا۔۔ وہ لڑکیوں کو بہت غور سے دیکھتا تھا اس یقین کے ساتھ کہ وہ اس چہرے کو پہچان بھی نہیں سکے گا۔۔۔عجیب بات تھی اسے ہر چہرے پر اُس چہرے کا گماں ہوتا ہے۔۔ہر حسیں چہرہ اسے وہی چہرہ لگتا تھا۔۔ اسے حیرت ہوئی لیکن پھر اسکی سمجھ میں وجہ بھی آ گئی وہ دید بہت پرانی تھی اس نے اسے اہنی یاداشت کے صفحے پر،اپنے تصور کی لوح پر اتار لیا تھا۔۔پھر شائد یوں ہوا ہو گا کہ وقت گذرنے کے ساتھ اصل خدوخال مٹتے گئے ہوں گے اور تصور متبادل خد و خال فراہم کرتا رہا ہو گا۔۔اس کے تصور میں چہرہ تو اب بھی محفوظ تھا۔۔مگر شائد یہ وہ چہرہ نہیں تھا جسے اس نے دیکھا اور چاہا تھا۔۔ یہ تو کوئی تصوراتی چہرہ تھا۔۔بلکہ شائد کوئی خاکہ تھا۔۔۔۔۔خال و خد سے محروم خاکہ۔۔جس میں وہ ہر اُس چہرے کے نقوش بھر دیتا جو اسے حسین لگتا۔۔۔اسی لیئے تو ہر حسین چہرہ اس کا چہرہ لگتا تھا۔۔
الٰہی بخش یہ سوچ کر خوش ہوتا کہ اس لڑکی کے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ تو جیسے دل میں محبت ڈالنے ولے سے کوئی جنگ لڑ رہا تھا۔ اور جیتنے والا تھا۔ محبت کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن جسجتجو تو دیوانگی ہے۔۔ اور دیوانگی بہت نقصان دہ ہوتی ہے۔۔۔
لیکن ایک دن وہی چہرہ اسے سچ میں نظر آ گیا۔،۔،
یہ پہلی نظر کے تقریباٰ آٹھ ماہ بعد کی بات ہے- اس نے نظر اٹھائی اور اس کی سانسیں رکنے لگیں- دل کی تال میں سے تین چار دھڑکنیں ت یقنیناٰ غائب ہو گئی ہوں گی- وہ چند فٹ آگے اس کے سامنے کھڑی تھی- اس کے ساتھ اس کی ہم عمر ایک اور لڑکی بھی تھی-
اس بار معاملہ بالکل مختلف تھا- پہلے وہ کسی بھی حسین لڑکی کو دیکھتا تو سوچتا کہ یہ وہی ہے لیکن فوراٰ ہی اسے خیال آتا کہ اس کا تصور اس کے ساتھ بے ایمانی کر رہا ہے- اسے یقین ہو جاتا کہ یہ وہ نہیں ہے مگر اندر کوئی طاقت بحث کرتی کہ یہ وہی ہے- یعنی ایسے موقعوں پر اس کے اندر دو مختلف یقین ہوتے تھے- وہ ان کے درمیان ڈولتا رہتا- فیصلہ کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہوتا لیکن وہ ڈھلمل یقیین ہونا بجائے خود ایک فیصلہ تھا- نفی کا فیصلہ!
پھر وہ یہ سوچ کر خوش ہوتا کہ وہ سامنے بھی آ گئی تو وہ اسے پہچان نہیں سکے گا- اس خیال سے دل میں جو مایوسی کی لہر اٹھتی ، اسے اس نے کبھی اہمیت نہیں دی تھی، اس وقت وہ یہ کیسے سمجھ سکتا تھا کہ کبھی کبھی شک اور عدم یقین، یقین سے زیادہ اہم ہوتا ہے- مگر اس بار اسے دیکھتے ہی اس کا دل سینے میں ناچنے لگا تھا- یہ وہی تھی- وہی آنکھیں، وہی پیشانی، وہی رخسار، وہی ہونٹ اور وہی بال! اس بار اس کے وجود میں اس دوسرے یقین کا ۔۔۔۔ یعنی شک کا شائبہ بھی نہیں تھا- وہ جان گیا تھا ۔۔۔ اسے معلوم تھا کہ یہ وہی ہے!
کیوں ۔۔۔۔ ایسا کیوں- تو کیا اس کا عکس دل پر مرتسم ہونے کے بجائے اس کے وجود کی کسی نا معلوم اور چھپی ہوئی گہرائی میں نقش ہوا تھا- خود سے بھی پوشیدہ ! اور اس پر نظر پڑتے ہی وہ اس کی آنکھوں میں ابھر آیا تھا تا کہ دل موازنہ کر کے مطمئن ہو جائے- وہ سانسیں روکے اسے دیکھتا رہا، جیسے وہ رنگوں کی بنی ہوئی کوئی گڑیا ہے جو سانسوں کی گرمی سے فضا میں تحلیل ہو جائے گی- اس کے ذہن میں نہ کوئی خوف تھا، نہ مقام و مرتبے کے فرق کا تصور-
اگلے ہی لمحے اس کے یقین کی تصدیق ہو گئی، حالانکہ تصدیق کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی-
لڑکی نے اپنی ساتھی سے کہا "میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نائلہ- شام کو کو آنا شاپنگ کے لئے- اتنی گرمی میں ٹھیک سے کوئی چیزبھی پسند نہیں کر سکو گی-"
یہ وہ آواز تھی جو دو سو سےزائد دنوں سے اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی- اس آواز کو بھی وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا-
"ٹھیک ہے سادی!" دوسری لڑکی نے گہری سانس لے کر کہا-
سادی ۔۔۔۔ الہیٰ بخش نے سوچا ۔۔۔۔ سادی! یہ کیا نام ہوا بھلا- پھر بھی یہ نام اسے اچھا لگا- اس کی طرح مختلف اور اونچا-
اسی لمحے لڑکی نے اس کی طرف دیکھا- دونوں کی نظریں ملیں، دونوں کا تاثر بے حد مختلف تھا- ایک طرف وارفتگی اور محبت تھی تو دوسری طرف کچھ بھی نہیں تھا- جیسے لڑکی کسی درخت کو، دیوار کو، کسی بے جان چیز کو دیکھ رہی ہو-
وہ محض ایک پل کی بات تھی- لڑکی پلٹی اور اپنی سہیلی کے ساتھ چل دی لیکن وہ مختصر سا پل اپنے اندر بہت بڑا پل تھا- وہ پل الہیٰ بخش کو اداس کر گیا- اس نے ہر چیز کا، ہر بات کا تعین کر دیا تھا-اس کی حیثیت بھی اسے یاد دلا دی تھی- لیکن وہ اداسی بھی ایک خوشی میں لپٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔ جیسے اس نے اسے پالیا ہو-
وہ محویت سے اسے دوسری لڑکی کے ہمراہ جاتے ہوئے دیکھتا رہا، پھر اچانک اسے کیا ہوا، یہ اسے خود بھی پتا نہیں چلا- اس نے ادھر ادھر دیکھا- مزدوروں کی ٹولی میں کوئی بھی موجود نہیں تھا- صبح ہی وہ کسی کام پر چلے گئے تھے- جو لوگ تھے، ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا-
اس نے اطمینان کی سانس لی اور اٹھ کر چل دیا- اس کے قدم خود کار انداز میں اٹھ رہے تھے- دیر تک اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کر رہا ہے- اسے بس یہ احساس تھا کہ وہ چل رہا ہے-
خاصی دور جا کر بات اس کی سمجھ میں آئی اور جب سمجھ میں آئی تو اس کے پورے جسم سے پسینہ پھوٹ نکلا- وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ زندگی میں کبھی بھی وہ کسی لڑکی کا تعاقب کرے گا-
لیکن ایسا ہو رہا تھا، وہ ایسا کر رہا تھا! اور وہ اپنے فٹ پاتھ سے کافی آگے آ چکا تھا-
اس بات کا احساس ہوتے ہی وہ چور بن کے رہ گیا- اسے لگتا تھا کہ ہر شخص، ہر دکاندار اور ہر راہگیر اسے چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے- سب کو معلوم ہے کہ وہ لڑکی کا تعاقب کر رہا ہے- وہ جانتا تھا کہ اس بات پر لوگوں کے ہاتھوں مرمت شروع ہونے میں دو سیکنڈ بھی نہیں لگیں گے مگر اس کے قدم کوشش اور خوائش کے باوجود نہیں رکے- اس نے چاہا کہ پلٹے اور اپنے ٹھیے کی طرف واپس چلا جائے لیکن اسے خود پر ذرا بھی اختیار نہیں تھا- اس وقت اس کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھوں میں تھی- وہ اندر ہی اندر خوف سے لرزتا رہا- اس کے قدم بڑھتے رہے-
دونوں لڑکیان بائیں سمت مڑ گئیں- آگے قطار سے بنگلے تھے- تیسرے یا چوتھے بنگلے کے گیٹ پر وہ دونوں رک گئیں- الہیٰ بخش ان سے تھوڑا ہی پیچھے تھا- وہ رکتا تو یہ نا مناسب بات ہوتی- اس نے اپنی رفتار بہت کم ۔۔۔۔۔ برائے نام کر لی-
"نائلہ آو نا میرے ساتھ" نے اپنی سہیلی سے کہا-
"نہیں سادی، میں اب چلوں گی"
"شام کو آؤ گی شاپنگ کے لئ؟"
"نہیں سادی، شام کو مجھے امی کے ساتھ جانا ہے- اسی لئے تو خریداری کرنا چاہ رہی تھی-"
"تو پھر شاپنگ ہی کر لیتیں"
"چلو کوئی بات نہیں- پھر سہی، اللہ حافظ"
 
خدا حافظ نائلہ"ـ
سادی گیٹ کی طرف چل دی- دوسری لڑکی نائلہ آگے بڑھ گئی- اتنی دیر میں الہیٰ بخش فاصلہ برابر کر کے ان سے آگے نکل گیا تھا- گیٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے خوف کے باوجود سرسری انداز میں گیٹ کی طرف دیکھا تھا- گیٹ کی سائیڈ میں نام کی تختی لگی تھی- ۔۔۔۔ شیخ مظہر علی- نام کے نیچے بگلے کا نمبر اور علاقے کا نام لکھا تھا-
اسی لمحے الہیٰ بخش کا دل اتنے زور سے ۔۔۔۔۔ اور اس انداز میں دھڑکا کہ اسے پہلے کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا تھا- وہ خوشی بھی ایسی تھی کہ اسے یاد نہیں تھا کہ کبھی وہ ایسے خوش ہوا ہو- لگتا تھا، کوئی بہت بڑا خزانہ مل گیا ہے اسے- کوئی ایسی انوکھی نعمت جو کبھی کسی کو نہیں ملتی- وہ جیسے گدا سے بادشاہ بن گیا تھا- سرشاری کی اس کیفیت میں وہ بہت دھیرے دھیرے آگے کی طرف چلتا رہا- اسے یہ احساس بھی نہیں تھا کہ وہ دوسری لڑکی نائلہ اس کے پیچھے آ رہی ہے یا وہ بھی کسی بنگلے میں چلی گئی ہے- حالانکہ اس کی وجہ سے وہ آگے بڑھ رہا تھا، ورنہ اس کا مقصد تو پورا ہو ہی چکا تھا-
 
آگے سڑک مڑ رہی تھی- اب اسے خیال آیا کہ کیا وہ دن بھر یونہی چلتا رہے گا- اس نے ڈرتے ڈرتے پلٹ کر دیکھا- پیچھے کوئی بھی نہیں تھا- سڑک سنسان تھی- دوسری لڑکی نہ جانے کب اپنے گھر میں چلی گئی تھی- اسے اس کا گھر جاننے میں کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں- اس نے ایک بار دائیں بائیں دیکھا اور پھر پلٹ کر واپس چل دیا- شیخ مظہر علی کے بنگلے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کے قدم رکے، گیٹ بند تھا، وہ چند قدم گیٹ کی طرف بڑھا مگر فوراٰ ہی گھبرا کر پیچھے ہٹ آیا- اس کے بعد وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا دیا-
وہ اپنی جگی جا بیٹھا- وہاں کسی نے اس کی غیر موجودگی کو محسوس نہیں کیا تھا- پھر بھی وہ خاصی دیر چور سا بنا بیٹھا رہا- اس کے بعد اسے یقین ہو گیا کہ کسی کو کچھ پتا نہیں چلا ہے- وہ اپنی جگہ بیٹھا تصور میں کھویا رہا- 
 
اس بار اسے تصور میں دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور تھا- وہ جیتی جاگتی تصویر تھی کہ ہاتھ بڑھاؤ اور چھو لو- اور وہ پیارا سا ۔۔۔ خوبصورت مگر عجیب سا نام۔۔۔۔۔ سادی! اور وہ بنگلہ جہاں وہ رہتی ہے- وہ بنگلہ کتنا بڑا ہو گا، یہ وہ تصور نہیں کر سکا- کتنا ہی بڑا ہو، اس سے وہ مرعوب تو نہیں ہو سکتا تھا- اس نے ایبٹ آباد میں زمین بہت دیکھی تھی، جو ایک آدمی کی ملکیت ہوتی تھی، آدمی چلتے چلتے تھک جائے لیکن زمین ختم نہ ہو-
اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ کھانے کا وقت گزر چکا ہے- اسے بھوک ہی نہیں لگی- دھوپ کی دم توڑتی گرمی نے وقت گزرنے کااحساس دلایا تو اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا- شام کی چہل پہل شروع ہونے کا وقت قریب ہی آ رہا تھا- مزدوروں کی ٹولی واپس نہیں آئی تھی- یہ یقینی تھا کہاب وہ کل ہی آئیں گے- کامنمٹا کر وہ گھر ہی چلے جائیں گے-
اس نے سر جھکایا اور پھر سے سادی کے تصور میں گم ہو گیا-

عشق کا عین - پارٹ 6

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے