شام
ہوئی اور روز کی طرح بازار آوازوں سے بھر گیا- سینڈلوں کی کھٹ کھٹ، قدموں
کی چاپیں اور ضد کرتے ہوئے بچوں کی آوازیں لیکن اس روز یہ سب کچھ اسے بالکل
اچھا نہیں لگا بلکہ وہ جھنجھلا گیا- اس کے تصور میں خلل پڑ رہا تھا- وہ
ڈسٹرب ہو رہا تھا- اسے خیال ہی نہ آیا کہ اسی رونق کہ وجہ سے ہمیشہ وہ دیر
تک یہاں بیٹھا رہتا تھا- یہ رونق اسے اچھی لگتی تھی اور اب وہی رونق اسے
ابتری معلوم ہو رہی تھی- وہ آوازیں جو اسے زندگی سے بھرپور لگتی تھیں، اب
بے معنی شور وغل لگ رہی تھیں، جن سے سماعت مجروح ہوئی جا رہی تھی-
اس کا جی چاہا کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے اور چیخ کر کہے ۔۔۔۔ بند کرو یہ شور و غل، مگر اسے احساس ہو گیا کہ وہ فٹ پاتھ پر اپنی خلوت گاہ سجائے بیٹھا ہے- یہاں تو یہی کچھ ہو گا- خلوت تو بس اپنے گھر میں بند کمرے میں ہی مل سکتی ہے-
اس کا جی چاہا کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے اور چیخ کر کہے ۔۔۔۔ بند کرو یہ شور و غل، مگر اسے احساس ہو گیا کہ وہ فٹ پاتھ پر اپنی خلوت گاہ سجائے بیٹھا ہے- یہاں تو یہی کچھ ہو گا- خلوت تو بس اپنے گھر میں بند کمرے میں ہی مل سکتی ہے-
یہ خیال آتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا- اسے اب رونق کی نہیں تنہائی کی ضرورت تھی- آدمی باہر کی دنیا میں رونق اس وقت تلاش کرتا ہے، جب اس کے اندر ویرانی ہو، رونق کا نام و نشان نہ ہو- اندر کی دنیا آباد ہو جائے تو پھر باہر رونق بری لگتی ہے- اندر کی محفلوں میں شرکت کرنے کے لئے، اندر کی دنیا کی سیر کرنے کے لئے تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے- اس کے دل کا ویرانہ تو اب جنت بن گیا تھا- اسے رونق سے کیا!
وہ پہلا موقع تھا کہ وہ اتنی جلدی گھر چلا گیا تھا- گھر میں کوئی بھی نہیں تھا- وہ اپنی محفل سجا کر بیٹھ گیا- مگر شام ہوئی، سورج ڈوبا، رزق کی تلاش میں نکلنے والے انسانی پرندے اپنے ٹھکانے پر آئے تو اسے احساس ہوا کہ یہ بھی گھر نہیں ہے- تنہائی یہاں بھی نہیں ہے ۔۔۔ تو تنہائی ہوتی کہاں ہے؟
"بخشے تو کب آیا؟" کوئی پوچھ رہا تھا- اس لئے پوچھ رہا تھا کہ عام طور پر وہ سب سے آخر مین گھر آیا کرتا تھا-
"کیا بات ہے بخشو، جلدی آ گیا- طبعیت تو ٹھیک ہے؟" کسی اور نے پر تشویش لہجے میں پوچھا-
"بس کچھ ایسا ہی ہے- سر میں درد ہے-" الہیٰ بخش نے کہا-
اس پر دوا کے سلسلے مین مشورے ملنے لگے- الہیٰ بخش خاموشی چاہتا تھا لیکن اس کی سمجھ میں آ گیا کہ یہ ممکن نہیں- سمجھوتا اسے ہی کرنا پڑے گا- اسے اپنے لئے وقت تبھی ملے گا، جب وہ لوگ سو جائیں گے- اس سے پہلے وہ جتنا جھنجھلائے گا، جتنا چڑچڑاپن کرے گا، بات اتنی ہی خراب ہو گی- اس کا رویہ خلاف معمول ہو گا تو ساتھیوں کے ذہنوں میں سوالات کلبلائیں گے- وہ تجسس کریں گے اور یہ اچھا نہیں ہو گا-
"یارو میں کھانا کھا کر آتا ہوں، پھر تاش کھیلیں گے-" اس نے کہا اور گھر سے نکل آیا- کھانا کھا کر وہ واپس آیا اور تاش کھیلنے بیٹھا گیا- اس نے پتے اٹھائے- اینٹ کی بیگم پر سادی کا چہرہ تھا- "ذرا رک جاؤ سادی بیگم" اس نے خاموشی کی زبان میں اس سے کہا- "یہ سو جائیں تو ہم تم خوب باتیں کریں گے"-
اس رات اسے بھری محفل میں تنہا ہونے کا ہنر بھی آ گیا- تصور میں سادی تھی اور وہ تاش کھیل رہا تھا- کبھی کبھی غلط پتا چلنے پر اسے ٹوکا بھی گیا مگر سر درد کا بہانہ آڑے آ گیا- اس نے سوچا، چند دنوں میں اسی طرح کھیلنے کی مشق بھی ہو جائے گی-
اور جب سب سو گئے تو سادی کے ساتھ جاگتا رہا- وہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور وہ اسے تکے جا رہا تھا-
"اے تمہیں بولنا نہیں آتا کیا- منہ میں زبان نہیں ہے؟" وہ بولی-
"منہ میں زبان بھی ہے اور بولنا بھی آتا ہے-" اس نے جواب دیا "لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ تم سے کیا بات کروں؟"
"جیسے دوسروں سے بات کرتے ہو، ویسے ہی مجھ سے بھی کرو-"
"تم دوسروں سے بہت مختلف ہو- تمہارا مقام، تمہارا مرتبہ اور ہے-"
وہ سر جھکا کر بیٹھ گئی اور وہ اسے تکتا رہا- نجانے کب، کتنی دیر بعد اسے نیند آئی- آنکھ کھلی، گھر دھوپ سے بھرا ہوا تھا- وہ پہلا موقع تھا کہ وہ سورج نکلنے سے پہلے نہیں جاگا تھا- اسے کوئی اتنی پرواہ بھی نہیں تھی- کام پر تو وہ دیر سے ہی جاتا تھا- ہاں فٹ پاتھ کی تنہائی سے وہ ضرور محروم ہو گیا تھا، پھر اچانک اسے خلش ستانے لگی- اس کی فجر کی نماز ہو گئی تھی- اس کی تو کوئی تلافی نہیں تھی اورسر میں عجیب سا بھاری پن تھا-
وہ دن ایک مختلف انداز میں شروع ہو رہا تھا- نئے معمولات بن رہے تھے جنہیں عرصے تک چلنا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نثار
نے کن اکھیوں سے الہیٰ بخش کو دیکھا، جو سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم
تھا- نثار اس میں آنے والی نئی تبدیلیوں کو دیکھ رہا تھا اور حیران تھا- یہ
معما اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا- اس نے الہیٰ بخش کو پہلے دن سے دیکھا
تھا- اس میں تبدیلیاں ایسے آرہی تھیں جیسے وہ بہت تیزی کے ساتھ مختلف
ادوار سے گزر رہا ہو-
نثار نے زندگی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گزاری تھی- سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گزرنے والی زندگی ایک بہت بڑی تعلیم ہوتی ہے- ایم اے کی ڈگری بھی آدمی کو اتنا عقلمند اور مردم شناس نہیں بناتی، جتنا سڑکیں بنا دیتی ہیں- فٹ پاتھ پر بیٹھ کر آدمی نہت کچھ دیکھتا ہے اور دیکھتے دیکھتے سمجھنے لگتا ہے- خوشی ہو یا غم اس کے ہر روپ سے وہ واقف ہو جاتا ہے- کچھ تو خود پر گزرتی ہے اور کچھ مشاہدہ سکھا دیتا ہے-
نثار بھی بہت سمجھدار آدمی تھا- وہ حساس بھی تھا، اس لئے فٹ پاتھ پر بیٹھنے والے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں بھی اس کا مشاہدہ بہت بہتر تھا- اس نے الہیٰ بخش کو پہلے دن دیکھا تو اس کا تاثر تھا کہ وہ بہت برخودار قسم کا آدمی ہے- اسے وہ ایک ایسا شخص لگا جو بے وقعتی کے احساس تلے دبا جا رہا ہو- اس ے سوچا، شاید گھر میں اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہو گی- ماں باپ دوسرے بیٹے بیٹیوں کے مقابلے میں اسے بے وقعت سمجھتے ہوں گے- بہن بھائی دیگر بہن بھائیوں کو اس پر فوقیت دیتے ہوں گے- اسی لئے اس کے اندر احساس کمتری کی حد کو پہنچا ہوا انکسار ہے- پھر الہیٰ بخش خوددار بھی تھا لیکن دوسروں کی عزت کرنا بھی جانتا تھا- یہ بات تو نثار سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ الہیٰ بخش کو صرف عشق کرنا سکھایا گیا تھا ۔۔۔۔ بلکہ سکھانے کی کوشش کی گئی تھی- وہ عشق کرنا تو نہیں سیکھ سکا تھا کہ یہ سیکھنے والی چیز ہی نہیں یہ تو ہو جاتی ہے اور ہو جائے تو آدمی کو سارے آداب خود بخود ہی آ جاتے ہیں- ہاں، اس کوشش کے نتیجے میں الہیٰ بخش کو عزت کرنا ضرور آگیا تھا اور وہ ہر شخص کی عزت کرتا تھا، بغیر تفریق کے-
نثار نے زندگی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گزاری تھی- سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گزرنے والی زندگی ایک بہت بڑی تعلیم ہوتی ہے- ایم اے کی ڈگری بھی آدمی کو اتنا عقلمند اور مردم شناس نہیں بناتی، جتنا سڑکیں بنا دیتی ہیں- فٹ پاتھ پر بیٹھ کر آدمی نہت کچھ دیکھتا ہے اور دیکھتے دیکھتے سمجھنے لگتا ہے- خوشی ہو یا غم اس کے ہر روپ سے وہ واقف ہو جاتا ہے- کچھ تو خود پر گزرتی ہے اور کچھ مشاہدہ سکھا دیتا ہے-
نثار بھی بہت سمجھدار آدمی تھا- وہ حساس بھی تھا، اس لئے فٹ پاتھ پر بیٹھنے والے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں بھی اس کا مشاہدہ بہت بہتر تھا- اس نے الہیٰ بخش کو پہلے دن دیکھا تو اس کا تاثر تھا کہ وہ بہت برخودار قسم کا آدمی ہے- اسے وہ ایک ایسا شخص لگا جو بے وقعتی کے احساس تلے دبا جا رہا ہو- اس ے سوچا، شاید گھر میں اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہو گی- ماں باپ دوسرے بیٹے بیٹیوں کے مقابلے میں اسے بے وقعت سمجھتے ہوں گے- بہن بھائی دیگر بہن بھائیوں کو اس پر فوقیت دیتے ہوں گے- اسی لئے اس کے اندر احساس کمتری کی حد کو پہنچا ہوا انکسار ہے- پھر الہیٰ بخش خوددار بھی تھا لیکن دوسروں کی عزت کرنا بھی جانتا تھا- یہ بات تو نثار سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ الہیٰ بخش کو صرف عشق کرنا سکھایا گیا تھا ۔۔۔۔ بلکہ سکھانے کی کوشش کی گئی تھی- وہ عشق کرنا تو نہیں سیکھ سکا تھا کہ یہ سیکھنے والی چیز ہی نہیں یہ تو ہو جاتی ہے اور ہو جائے تو آدمی کو سارے آداب خود بخود ہی آ جاتے ہیں- ہاں، اس کوشش کے نتیجے میں الہیٰ بخش کو عزت کرنا ضرور آگیا تھا اور وہ ہر شخص کی عزت کرتا تھا، بغیر تفریق کے-
جس دن استاد قاسم کو رخصت کیا جا رہا تھا، الہیٰ بخش پورے دن پوری رات ان لوگوں کے ساتھ رہا تھا- اس روز نثار نے اسے بہت غور سے اور بہت قریب سے دیکھا تھا- استاد قاسم نے مزدوری میں الہیٰ بخش کا حصہ لگایا تھا- نثار جانتا تھا کہ اس پر کسی بھی ساتھی کو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن الہیٰ بخش کو وہ پیش کش بری ۔۔۔۔ بہت بری لگی تھی- اس کے نزدیک اس اس کا حق نہیں تھا، اس لئے کہ اس نے سامان نہیں ڈھویا تھا- وہ رقم لینا اس کی خودداری کی توہین تھی- وہ تو فٹ پاتھ کا ساتھی ہونے ناطے ان کے ساتھ چلا آیا تھا، اس لئے بھی کہ قاسم کا وہ بہت احترام کرتا تھا بھپ بھی نہ چاہتے ہوئے وہ رقم قبول کر لی- یہ صرف عزت کی بات تھی- نثار نے خود کو الہیٰ بخش کی جگی رکھ کر سوچھا تھا تو بات اس کی سمجھ میں آئی تھی- الہیٰ بخش کے نزدیک وہ رقم لینا اس کی اپنی بے عزتی تھی تو استاد قاسم کے اصرار کے باوجود رقم کو قبول نہ کرنا، نہ صرف قاسم کی بلکہ پوری ٹولی کی بے عزتی تھی- اس لئے اس نے اپنی بے عزتی گوارا کر کے وہ رقم لے لی تھی لیکن موقع ملتے ہی اس نے اپنی عزت بحال کر لی تھی- وہ رقم اس نے اپنے پاس سے اضافعہ کر کے لوٹا دی تھی- نثار ہی کو تو دی تھی اور کتنا اصرار کیا تھا اس کے لئے اور اس طرح کہ کسی اور کو پتا بھی نہیں چلا تھا- یہ الگ بات کہ نثار نے سب کو بتا دیا تھا- یوں ٹولی کے مزدور الہیٰ بخش کی اور عزت کرنے لگے تھے-
لیکن نثار کو ایک خلش رہی تھی- کون جانے، الہیٰ بخش نے اپنی جیب میں کچھ بھی نہ چھوڑا ہو- سب کچھ استاد قاسم کے لئے دے دیا ہو- الہیٰ بخش جیسے آدمی سے یہ بعید بھی نہیں تھا- نثار کو ایک اور منظر بھی یاد تھا- جب وہ لوگ ٹھیلا لے کر استاد قاسم کے گھر پہنچے تو قاسم کی بچیاں بھی ٹھیلا دیکھنے لے لئے بے تاب ہو کر پردے کے پاس آگئی تھیں- اس وقت الہیٰ بخش کے سوا ہر مزدور کی نظریں پردے کی طرف اٹھی تھیں، چاہے ایسا ایک پل کے لئے ہوا ہو، نثار کو وہ بات بری نہیں لگی تھی- سب کا ردعمل فطری تھا مگر اس میں میلا پن نہیں تھا لیکن الہیٰ بخش نظریں جھکا کر بیٹھا رہا تھا-
اور الہیٰ بخش تو طارق روڈ کے فٹ پاتھ پر سرسراتے رنگین آنچلوں، لچکتے جسموں اور ہلکورے لیتی خوشبوؤں کے درمیان بھی نظریں جھکا کر بیٹھا رہتا تھا-
پھر اس میں تبدیلی آئی!
ایک اور تبدیلی آئی تھی اب کوئی کام ملتا تو وہ پہلے سے زیادہ عاجزی اور انکساری سے بات کرتا ملاً کوئی آیا اور کہا کہ گھر میں رنگ و روغن کرانا ہے۔۔درمیان میں تو وہ جرح کرنے لگا تھا۔۔مزدوری ریٹ سے زیادہ مانگتا۔۔کوشش کرتا کہ گاہک اسے چھوڑ جائے،کوئی اور کاریگر دیکھ لے۔۔اب وہ کہتا" کر دیں گے صاحب جی"
"کیا لو گے؟"
"وہی دیہاڑی صاحب جی 25 روپے روز"
"نہیں بھائی دیہاڑی کے چکر میں تم لوگ کام لمبا کر دیتے ہو۔میں بہت بھگت چکا ہوں"
" تو پھر صاحب جی؟"
"تم چل کے گھر دیکھ لو پھر ٹیھیکے کی بات کر لیں گے"
اس کی کوئی ضرورت نہیں صاحب جی۔آپ میرے ساتھ نا انصافی تھوڑی کرو گے،،جو جی چاہے دے دینا۔۔"
یہ تقریباً پندرہ دن پہلے کی بات تھی اور نثار جانتا تھا کہ اس کے بعد سے اب تک الٰہی بخش کو کوئی کام نہیں ملا ہے۔۔دیہاڑی والے مزدوروں کے ساتھ یہ نرم گرم چلتا رہتا ہے۔۔لیکن توازن قائم رہتا ہے۔۔کام کے دو تین اچھے دن بیکاری کے چار چھے دنوں کی تلافی کر دیتے ہیں۔۔ مگر نثار جانتا تھا کہ۔۔ الٰہی بخش کی بیکاری لمبے عرصے سے چل رہی ہے۔۔ آخری کام بھی اسے دو ہفتے پہلے ملا تھا۔۔
ایک خیال نے نثار کو چونکا دیا۔وہ اٹھا اور الٰہی بخش کے پاس چلا گیا۔اس کے برابر میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے اس نے اسے پکارا۔۔لیکن الٰہی بخش اپنے آپ میں گُم رہا۔۔نثار نے اسے پھر پکارا،،وہ اسے جھنجھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔اتنی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے کسی شخص کو چونکانا کبھی نہیں چاہیئے۔۔بالآخر چوتھی پانچویں آقاز پر الٰہی بخش کی محویت ٹوٹی۔۔اس نے سر اٹھایا۔۔اسکی نظریں نثار سے ملیں۔
اسکی آنکھوں میں دیکھا تو نثار سچ مچ دھل کر رہ گیا۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی
کے اس نئے اور مختلف دور میں الٰہی بخش بہت خوش تھا۔۔فاقہ مستی کا تجربہ
اسے پہلی بار ہوا تھا۔۔ ایک تصور تھا جو اسے ہر لمحہ سرشار رکھتا تھا۔۔اسے
کوئی پریشانی،کوئی دکھ نہیں تھا۔۔اس کے پاس خوشی تھی،۔وہ ہر حال میں خوش
تھا۔۔۔
وہ خود بدل گیا تھا۔ زندگی بدل گئی تھی۔۔دن رات بدل گئے تھے۔۔معمولات بدل گئے تھے۔۔تنہائی تنہائی نہیں تھی اورمحفل ،محفل نہیں تھی۔۔ اسے کچھ بھی برا نہیں لگتا تھا۔۔کوئی اس سے بات کرتا تو اسے اچھا لگتا۔۔اکتاہٹ اس کے مزاج سے خارج ہو گئی تھی۔۔وہ رات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تاش کھیلتا۔۔خوب چہکتا۔،ہنستا بولتا۔رات کو سب سو جاتے تو وہ دیر تک جاگتا،،البتہ دیر تک سونے کی برائی پر اس نے چند ہی دن میں قابو پا لیا تھا۔۔۔ نیند پوری ہو ہی نہیں سکتی تھی مگر اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔اتوار کو چھٹی ہوتی اور وہ جی بھر کے سوتا۔۔
اسے حیرت ہوتی تھی،پہلے اس کی دوکمزوریاں تھیں۔ وہ نیند کا بہت پکا اور بھوک کا بہت کچا تھا۔۔ مگر اب یہ کمزوریاں دور ہو چکی تھی۔۔اسے عشق کی طاقت کو تسلیم کرنا پڑا۔۔اس نے سمجھ لیا کہ عشق انسان کی ہر کمزوری دور کر کے اسے عجیب طاقت بخشتا ہے۔۔عشق فاقہ مستی سکھاتا ہے۔۔ہر حال میں خوش رہنا سکھاتا ہے۔۔اور وہ بہت خوش تھا۔۔
وہ خود بدل گیا تھا۔ زندگی بدل گئی تھی۔۔دن رات بدل گئے تھے۔۔معمولات بدل گئے تھے۔۔تنہائی تنہائی نہیں تھی اورمحفل ،محفل نہیں تھی۔۔ اسے کچھ بھی برا نہیں لگتا تھا۔۔کوئی اس سے بات کرتا تو اسے اچھا لگتا۔۔اکتاہٹ اس کے مزاج سے خارج ہو گئی تھی۔۔وہ رات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تاش کھیلتا۔۔خوب چہکتا۔،ہنستا بولتا۔رات کو سب سو جاتے تو وہ دیر تک جاگتا،،البتہ دیر تک سونے کی برائی پر اس نے چند ہی دن میں قابو پا لیا تھا۔۔۔ نیند پوری ہو ہی نہیں سکتی تھی مگر اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔اتوار کو چھٹی ہوتی اور وہ جی بھر کے سوتا۔۔
اسے حیرت ہوتی تھی،پہلے اس کی دوکمزوریاں تھیں۔ وہ نیند کا بہت پکا اور بھوک کا بہت کچا تھا۔۔ مگر اب یہ کمزوریاں دور ہو چکی تھی۔۔اسے عشق کی طاقت کو تسلیم کرنا پڑا۔۔اس نے سمجھ لیا کہ عشق انسان کی ہر کمزوری دور کر کے اسے عجیب طاقت بخشتا ہے۔۔عشق فاقہ مستی سکھاتا ہے۔۔ہر حال میں خوش رہنا سکھاتا ہے۔۔اور وہ بہت خوش تھا۔۔
ہر روز نیند پوری کیئے بغیر وہ معمول کے مطابق اٹھتا اور فجر کی نماز ادا کرتا۔۔اس کے بعد عام دنوں میں وہ کام پر چلا جاتا اور اتوار کا دن ہوتا تو وہ کام پر چلا جاتا۔۔ صبح سویرے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر وہ سوئے ہوئے گرد و پیش سے ہمیشہ کی طرح محظوظ ہوتا۔۔پھر چہل پہل شروع ہوتی اور وہ کام ملنے کا انتظار کرتا رہتا۔۔
ایک نیا معمول اس کی زندگی میں شامل ہوا تھا۔۔ہمیشہ کی طرح وہ اب بھی سوا بارہ بجے کھانے کے لییئے اٹھتا،ڈیڑھ بجے وہ واپس آتا۔۔۔اسے یاد نہیں ہوتا تھا کہ اس وقفے میں اس نے اس بنگلے کے کتنے چکر لگائے ہیں جس میں سادی رہتی ہے۔۔کتنی بار وہ جاتے ہوئے اور آتے ہوئے وہ اس بنگلے کے سامنے سے گذرا تھا۔۔دو ایک بار اس نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔۔اتنا کافی تھا کہ اس کی طرف جاتے ہوئے اس کے قدموں کی کیفیت رقص کی سی ہوتی ہے۔۔اس کی آنکھوں میں سادی کا چہرہ ہوتا ہے اور اس کا دل ایسے دھڑکتا ہے جیسے کوئی نغمہ سنا رہا ہو۔۔اتنی خوبصورت کیفیت کا سبب معلوم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔اس تمام عرصے میں اس نے سادی کو ایک بار بھی نہیں دیکھا۔۔وہ نہیں جانتا تھا کہ بنگلے کے سامنے سے گذرتے ہوئے اگر اسے سادی نظر آگئی تو کیا ہوگا۔۔وہ کیا کرے گا۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ اب اسے سادی کو دیکھنے کی آرزو بھی نہیں تھی۔۔کم از کم وہ تو یہی سمجھتا تھا۔۔جس کی تصویر ہر وقت نگاہوں میں بسی رہتی ہو اسکی جسجتو کیا معانی۔یہی وجہ ہے کہ وہ اب پھر سر جھکا کر بیٹھتا تھا۔۔اسکی آنکھیں اب رنگین رنگوں کو نہیں ٹٹولتی تھیں۔۔ بلکہ اب اسے سادی کی مانوس آواز اپنے قریب کہیں سے سنائی دے جاتی تو بھی وہ نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتا۔۔شائد وہ سیر چشم ہو گیا تھا۔۔
ایک اور نیا معمول بھی بنا تھا۔۔کام نہ ملنے کی صورت میں۔اب وہ شام سے پہلے ہی گھر چلا جاتا تھا۔۔۔طارق روڈ کی رونقوں میں اب اس کا دل نہیں لگتا تھا۔۔گھر کی تنہائی اس سے بدرجہا بہتر تھی۔۔اسے مطالعے کا شوق ہو گیا تھا۔۔عام طور پر وہ ڈائجسٹ پڑھتا تھا۔۔ کبھی کوئی اچھا ناول مل جاتا تو وہ بھی پڑھتا۔۔ اسے محسوس ہوتا کہ اس کی دنیا وسیع ہوتی جا رہی ہے۔۔اس کا ذہن بھی دنیا کی طرح ہوتا جا رہا تھا۔۔ جو موجود تھا لیکن دریافت کیئے جانے کا منتظر تھا۔۔
اس وقت بھی وہ سادی کے تصور میں کھویا ہوا تھا اسے پکارے جانے کا موہوم سا احساس ہوا۔۔مگر یوں جیسے فریبِ سماعت ہو۔۔ پکار بڑھتی گئی۔۔آواز کا حجم بھی بڑھتا گیا۔ تو اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔اسے حیرت ہوئی ،،نثار اس کے پہلو میں بیٹھ اسے آوازیں دے رہا تھا۔۔
"کیا بات ہے نثار بھائی اس نے سادگی سے کہا؟"
نثار کچھ دیر جواب میں کچھ نہ کہہ سکا۔۔ وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔۔ الٰہی بخش نے اچانک جو نظریں اٹاھئیں تو اس کی آنکھوں میں اسے نقاہت نظر آئی۔۔اس کے بدتریں خدشات کی تصدیق ہو گئی۔۔اسے افسوس ہوا کہ اس نے پہلے یہ خیال کیوں نہیں کیا۔۔۔اسے احساسِ جرم ستانے لگا آنکھوں میں اسے نے وہ نقاہت تو اس نے بہت دیکھی تھی۔۔۔۔۔ اپنے گھر میں بھی اور اپنی آنکھوں میں بھی۔۔ خاصی کوشش کر کے نثار نے خود کو سنبھالا۔۔سوال یہ تھا کہ بات کیسے کی جائے۔۔الٰہی بخش کی خودداری سے وہ خوب واقف تھا۔۔ معاملہ بہت نازک تھا۔۔
"تجھ سے بات کرنے کو دل چاہ رہا تھا بخشے" نثار نے کہا۔۔ اس نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کن سوچوں میں گم رہتا ہے "پر لگتا ہے میں مخل ہو رہا ہوں"
" ارے نہیں نثار ایسی کوئی بات نہیں"
اس دوران نثار بہت تیزی سے کوئی ترکیب سوچنے کی کوشش کر رہاا تھا۔۔اس نے مزید مہلت حاصل کرنے کے لیئے ایک اور سوال اٹھایا "آج کل تو بہت جلدی گھر چلا جاتا ہے"
"ہاں نثار بھائی"
"گھر میں کیا دل لگتا ہو گا۔۔"
"پڑھنے میں دل لگنے لگا ہے نثار بھائی۔۔یہ دیکھو۔" الٰہی بخش نے اپنے تھیلے میں سے ڈائجسٹ نکال کر دکھایا۔۔"اچھی بات ہے" نثار نے سر ہلا کر کہا۔۔پھر بولا"یار بخشو آج میں کھانا تیرے ساتھ کھاؤں گا" یہ کہتے ہوئے وہ اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔۔
الٰہی بخش کا چہرہ فق ہو گیا۔۔ تاہم اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔۔"ابھی تو بڑا وقت پڑا ہے نثار بھائی۔۔"
الٰہی بخش کے چہرے کے تاثر نے نثار کے اندازے کی پکی تصدیق کر دی تھی۔۔مگر پوری بات کرنے کے لیئے بت آگے بڑھانا ضروری تھا۔۔" ایک بات کہنی ہے تجھ سے" اس نے کہا" تو سوچے گا کہ میں بہت بے شرم آدمی ہوں۔۔لیکن یار بخشو آدمی جسے اپنا سمجھتا ہے اس سے تو بات کر سکتا ہے اس میں تو شرم کی بات نہیں۔میں تجھے چھوٹے بھائی کی طرح سمجھتا ہوں۔۔ تجھ پر تو حق ہے میرا۔۔نظریں جھکا کر ہی سہی تجھ سے تو سوال ڈال سکتا ہوں میں۔۔"نثار کے لہجے میں عاجزی اور بے بسی محسوس کر کے الٰہی بخش موم ہو گیا۔۔" تم مجھ سے ہر بات کر سکتے ہو نثار بھائی" اس نے کہا۔۔
"میرے تمہارے درمیان تعلق ہی ایسا ہے۔۔ میں بھی تمہیں بڑا بھائی سمجھتا ہوں۔۔ہم ایک دوسرے کے سامنے کبھی شرمندہ نہٰں ہو سکتے۔۔
"بات یہ ہے بخشے کہ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔۔ تیرے سوا میں کسی سے سوال نہیں کر سکتا اور میرا خیال ہے کہ ضرورت کے وقت تجھے بھی میرے سوا کوئی نظر نہٰں آنا چاہیئے"
الٰہی بخش کو چکر تو پہلے ہی سے آ رہے تھے۔۔ یہ سن کر ایسا لگا ہ جیسے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اسے تو فاقہ مستی میں احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ کتنے سخت وقت سے گذر رہا ہے۔۔سترہ دن سے اسے کام نہیں ملا تھا۔۔ اور اس سے پہلے وہ خود کام سے بچت رہتا تھا۔۔اس کے نتیجے میں جو پس انداز کیا تھا وہ بھی بیٹھے بیٹھے کھا لیا تھا۔۔سترہ دن پہلے جو پیسے ملے تھے وہ اس نے گھر کے پاس جو ہوٹل تھا وہاں دے دیئے تھے۔ اس ہوٹل میں وہ ناشتہ کرتا تھا اور اب تو باقاعدگی سے رات کا کھانا بھی کھاتا تھا۔۔ ہوٹل والے کو پیسے دینے کے بعد اس کے پاس بس اتنے پیسے بچے تھے کہ دوپہر کے کھانے اور کرئے کا خرچہ تین دن چل سک تھا۔ اسے امید تھی کہ اس دوران اسے کام مل جائے گا۔۔اور معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔۔ لیکن اس کے بعد سے اب تک کام نہیں ملا تھا۔۔
الٰہی بخش کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ کتنے دن سے وہ پیدل آ اور جا رہا تھا۔ اس کے بعد سے اب اس کے منہ میں کھیل بھی اڑ کر نہیں گئی تھی۔۔ وجہ یہ تھی کہ پرسوں رات کھانے میں ادھار لکھوانے گیا تو ہوٹل کےمالک نے پوچھ لیا کہ کیا اسے کام اب تک نہیں ملا ہے۔۔ حالنکہ کہ ہوٹل والے کا لہجہ خراب نہیں تھا۔۔۔اور انداز دوستانہ اور ہمدردانہ تھا، پھر بھی الٰہی بخش کو سُبکی کا احساس ہونے لگا۔ناشتہ تو وہ ویسے بھی نہیں کرتا تھا ۔اگلے روز وہ رات کا کھانا کھانے بھی نہیں گیا۔۔اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ ادھار چکائے بغیر وہاں نہیں جائے گا۔۔
اور اب نثار کہہ رہا تھا کہ اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ آج وہ کھانا اس کے ساتھ ہی کھائے گا۔اس کے ساتھ ۔۔۔! س بات کو تو کوئی امکان ہی نہیں کہ آج وہ کھانا کھائے گا،،گیارہ بج چکے تھے وار کام ابھی تک نہیں ملا تھا۔۔اور نثار نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کسی اور سے مدد نہیں مانگ سکتا۔۔وہ اسے چھوٹے
بھائی کی طرح سجھتا ہے۔۔
یہ خیال کر کے الہیٰ بخش کے حلق می جیسے نمکین پانی کا کوئی چشمہ پھوٹا- پل بھر میں اس پانی کو اسکی آنکھوں کی طرف لپکنا اور جاری ہو جانا تھا- اس نے بہت تیزی سے اس کے آگے ضبط کا بندھن باندھا- پھر بھی آنکھیں نم تو ہو ہی گئی تھیں- یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ وہ چھلکیں نہیں-
"تو خاموش کیوں ہو گیا بخشے؟" نثار نے اسے چونکا دیا-
"کچھ نہیں نثار بھائی-" الہیٰ بخش نے کہا "اللہ مالک ہے- کچھ نہ کچھ ہو جائے گا- انشاللہ ہم کھانا ساتھ ہی کھائیں گے-" اس لمحے اس کی زبان کو چھوئے بغیر دل سے دعا نکلی کہ کام مل جائے-
"مجھے تو صاف جواب دے نا" نثار نے اصرار کیا-
"جواب نہ مانگو استاد تو اچھا ہے" الہیٰ بخش نے آہ بھر کے کہا- اس احساس نے اس کا حفاظتی حصار توڑ دیا کہ نثار کو مدد کی ضرورت ہے اور اس کی مدد نہیں کر سکتا- "میری جیب تو نہ جانے کتنے دن سے خالی ہے- مگر فکر نہ کرو، اللہ مالک ہے"
"تو اتنے دن سے کام کیسے چلا رہا ہے تو؟"
کبھی کچھ نہ بتانے والے الہیٰ بخش نے صرف شرمندگی میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے نثار کو اپنا پورا حال سنا دیا-
نثار کی شرمندگی کی کوئی حد نہیں تھی ۔۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں خود کو برا بھلا کہتا رہا- ایک فٹ پاتھ پر ساتھ بیٹھ کر بھی وہ اس سے اتنا بے خبر تھا- جبکہ اسے معلوم تھا کہ اتنے دن سے اسے کام نہیں ملا ہے- " تو نے تو غیریت کی حد کر دی بخشے" س نے خفگی سے کہا " مجھے کیوں نہیں بتایا؟"
'میرا خیال ہے کہ فٹ پاتھ پر سبھی کا ایک جیسا حال ہوتا ہے" الہیٰ بخش نے سادگی سے کہا-
"پھر بھی لوگ ایک دوسرے کے کام آتے رہتے ہیں-" نثار شرندہ بھی تھا اور خفا بھی ۔۔۔۔ الہیٰ بخش سے بھی اور اپنے آپ سے بھی- "تجھے مجھ کو بتانا تو چاہئے تھا"
"لیکن نثار بھائی یہ تو ۔۔۔"
'تو نہیں سمجھتا، پڑوسی بھوکا رہے تو پڑوسی سے اللہ جواب طلب کرتا ہے- وعدہ کر، آئندہ ایسی بات چھپائے گا نہیں- کوئی ایک آدمی تو ہر ایک کے لئے ایسا ہوتا ہے جس سے دل کی بات کی جا سکتی ہے- ےو مجھے اپنا بڑا بھائی سمجھا کر"
الہیٰ بخش حیرت سے سوچتا رہا کہ یہ نثار اتنا شرمندہ کیوں ہو رہا ہے- شرمندہ تو اسے ہونا چاہئے تھا-
ادھر نثار سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے- پیسے تو اس کی جیب میں اس وقت بھی تھے اور وہ الہیٰ بخش کو دے سکتا تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں تھا ۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے ضرورت مند بن کر بات نہ کی ہوتی تو الہیٰ بخش کبھی سچ نہ اگلتا- اب وہ اسے یوں پیسے نہیں دے سکتا تھا- آئندہ کے لئے بات خراب ہو جاتی- نثار جانتا تھا کہ الہیٰ بخش کی طرح اکیلا ہونا کتنی خوفناک بات ہے- آدمی دکھ سے یا بھوک سے سسک سسک کر مر جائے لیکن کسی طرح اظہار کرے- وہ الہیٰ بخش کے دکھ اور مصائب بانٹنا چاہتا تھا-
"لیکن نثار بھائی، تم تو مجھ سے زیادہ پریشان ہو، تم تو بال بچوں والے ہو" الہیٰ بخش کہہ رہا تھا-
نثار نے چونک کر اسے دیکھا "تو فکر نہ کر- مجھے اپنے لئے بھی کچھ پیسوں کا بند و بست کرنا ہے- تیرے لئے بھی کر لوں گا- تو بیٹھ، میں ابھی آتا ہوں"
یہ کہہ کر نثار اپنی بات کا بھر رکھنے یعنی پیسوں کا بند و بست کرنے چلا گیا- پانچ منٹ بعد وہ آیا تو الہیٰ بخش اپنی جگہ موجود نہیں تھا- نثار نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا- اسے الہیٰ بخش اپنی طرف آتا دکھائی دیا- اس کے بائیں ہاتھ میں وہ تھیلا تھا جس میں وہ اپنے برش وغیرہ رکھتا تھا- اس کے ساتھ ایک خوش لباس آدمی بھی تھا-
الہیٰ بخش نثار کے پاس آ کر رکا "نثار بھائی- مجھے کام مل گیا ہے- اب میں چلتا ہوں- کل ملاقات ہو گی-" اس نے چہک کر کہا اور نثار سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا- ہاتھ ملانے کے دوران اس کے ہاتھ سے کوئی کاغذ کی چیز نثار کے ہاتھ میں منتقل ہو گئی- پھر الہیٰ بخش تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا-
نثار نے حیرت سے اپنے ہاتھ کو دیکھا- وہ دس کا نوٹ تھا جو الہیٰ بخش بہت خاموشی سے اسے تھما گیا تھا- چند لمحے تو نثار سناٹے کی سی کیفیت میں ساکت کھڑا رہا، پھر اس نے الہیٰ بخش کو پکارنے کے لئے ہونٹ کھولے مگر ایک احساس نے اسے روک دیا- کسی کو مدد مانگنا سکھانے کے لئے ضروری ہے کہ اس سے مدد لی جائے- نثار نے دس کا وہ نوٹ جیب میں رکھ لیا- یہ نوٹ وہ اگلے روز واپس بھی کر سکتا تھا اور یہ جتا سکتا تھا کہ بھائی کو بھائی سے مدد لینے میں عار نہیں ہونی چاہئے-
ادھر تیز قدم بڑھاتے ہوئے الہیٰ بخش بہت خوش تھا- رزق دینے والے نے اس کی شرم رکھ لی تھی- اس نے کسی سے مدد نہیں مانگی تھی لیکن نثار کے سامنے اعتراف کرنے بعد وہ نثار سے کچھ لینے سے منع نہیں کر سکتا تھا اور وہ کچھ لینا بھی نہیں چاہتا تھا- اللہ نے اس کے دل سے نکلی ہوئی دعا سن لی تھی- نثار کے جاتے ہی وکیل صاحب آ گئے تھے- وکیل صاحب نے ایکبار پہلے بھی اس سے کام کرایا تھا اور اس سے بہت متاثر ہوئے تھے- قریب ہی وکیل صاحب کا بہت بڑا دو منزلہ مکان تھا- پہلی بار انہوں نے اپنی تین دکانوں میں رنگ کرایا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ اگلی بار وہ اسے پورے بنگلے کا یکام دیں گے-
وکیل صاحب نے اس سے کام کی بات کی تو اس نے کہا-" وکیل صاحب، ایک بات کہوں، برا تو نہیں مانیں گے؟"
وکیل صاحب چونکے- انہوں نے سوچا شاید یہ زیادہ مزدوری کی بات کرے گا- پھر بھی انہوں نے کہا- "بولو، کیا بات ہے"
"صاحب جی، مجھے پندرہ روپے پیشگی دے سکتے ہیں-"
وکیل صاحب نے جیب سے بیس روپے نکال کر اسے دے دیئے- یوں عزت رہ گئی-
سو اب الہیٰ بخش کا رواں رواں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا- شکر گزاری کے بعد توبہ کا وقت آیا- الہیٰ بخش کی سمجھ میں آیا کہ پچھلے دنوں اس نے کام ٹھکرا ٹھکرا کے بہت نا شکرا پن کیا ہے- ورنہ اس پر یہ وقت ہی نہیں آتا اور اللہ نے تو اس نا شکرے پن کے باوجود اس کی حاجت روائی فرمائی ہے-
بےشک، وہ بڑا رحم والا، نہایت مہربان ہے اور اب تو سب تعریفیں اس کے لئے ہین-
-----------------------------٭-----------------------
وکیل
صاحب کا کام دس دن میں ختم ہوا اور الہیٰ بخش کے سارے دلدر دور ہو گئے-
ہوٹل کا حساب چکتا ہو گیا اور جیب بھاری ہو گئی مگر اسے ایک بڑا سبق مل
گیا- اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کام کو کبھی نہیں ٹھکرائے گا-
لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے بارے میں اوپر کچھ اور فیصلہ ہو چکا ہے-
اس روز وہ معمول کے مطابق سوا بارہ بجے اٹھا- کھانا کھا کر وہ سادی کے گھر کی طرف چل دیا جہاں وہ گزشتہ دس دن سے نہیں جا سکا تھا- شاید اسی لئے اس روز اس کے قدموں میں دھمال کی سی کیفیت تھی-
شیخ مظہر علی کے بنگلے سامنے سے گزرے ہوئے اسے خیال آیا کہ اگر کبھی اس بنگلے کا گیٹ اس کے لئے کھل جائے تو کیا ہو- اس نے فوراٰ ہی اس فضول خیال کو ذہن کے کسی نہاں خانے میں دھکیل دیا- نہ کبھی ایسا ہونا تھا اور نہ ہی اسے ایسی کوئی خوائش تھی-
معمول کے مطابق وہ اس موڑ تک گیا جہاں سڑک زاویہ قائمہ بناتے ہوئے دونوں جانب مڑ جاتی تھی- وہاں سے وہ واپسی کے لئے پلٹا ۔۔۔۔ وہ پلٹا تو ہمیشہ کی طرح شیخ صاحب کے بنگلے کے سامنے والے فٹ پاتھ پر تھا- یعنی اس کے اور بنگلے کے درمیان سڑک حائل تھی-
لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے بارے میں اوپر کچھ اور فیصلہ ہو چکا ہے-
اس روز وہ معمول کے مطابق سوا بارہ بجے اٹھا- کھانا کھا کر وہ سادی کے گھر کی طرف چل دیا جہاں وہ گزشتہ دس دن سے نہیں جا سکا تھا- شاید اسی لئے اس روز اس کے قدموں میں دھمال کی سی کیفیت تھی-
شیخ مظہر علی کے بنگلے سامنے سے گزرے ہوئے اسے خیال آیا کہ اگر کبھی اس بنگلے کا گیٹ اس کے لئے کھل جائے تو کیا ہو- اس نے فوراٰ ہی اس فضول خیال کو ذہن کے کسی نہاں خانے میں دھکیل دیا- نہ کبھی ایسا ہونا تھا اور نہ ہی اسے ایسی کوئی خوائش تھی-
معمول کے مطابق وہ اس موڑ تک گیا جہاں سڑک زاویہ قائمہ بناتے ہوئے دونوں جانب مڑ جاتی تھی- وہاں سے وہ واپسی کے لئے پلٹا ۔۔۔۔ وہ پلٹا تو ہمیشہ کی طرح شیخ صاحب کے بنگلے کے سامنے والے فٹ پاتھ پر تھا- یعنی اس کے اور بنگلے کے درمیان سڑک حائل تھی-
وہ کوئی بیس گز چلا ہوگا- وہاں آئس کریم اور ٹھنڈی بوتلوں کی ایک چھوٹی سی دکان تھی- وہ وہاں سے گزر رہا تھا- اسی وقت پانچ چھ سال کا ایک لڑکا ایک بڈھے شخص کے ساتھ سڑک پار کرنے کے ارادے سے فٹ پاتھ سے سڑک پر اترا- بچے نے بڈھے کی انگلی تو نہیں تھامی ہوئی تھی لیکن انداز بتاتا تھا کہ دونوں ساتھ ہیں-
اسی لمحے موڑ کی طرف سے کسی گاڑی کے ٹائر سڑک سے رگڑنے اور چرچرانے کی آواز سنائی دی- کچھ چرچراہٹ بریکوں کی وجہ سے بھی تھی-
الہیٰ بخش نے پلٹ کر دیکھا- ایک سرخ رنگ کی کار موڑ مڑ کر اسی سڑک پر آ رہی تھی- گاڑیاں نوے درجے کے موڑ ایسی رفتار سے نہیں کاٹتیں- یہ ایک غیر معمولی بات تھی- موڑ کاٹتے ہوئے گاڑی سڑک کی دوسری سایئڈ تک پہنچ گئی تھی اور اب وہ یوں سنبھل رہی تھی، جیسے کوئی شرابی گرنے کے بعد اٹھ کر لڑکھڑاتے ہوئے سنبھلتا ہے- اس کی رفتار اب بھی بہت زیادہ تھی-
الہیٰ بخش کی نظریں سڑک کی طرف اٹھیں- بڈھا اور بچہ اس وقت سڑک کے عین وسط میں تھے- انہوں نے گاڑی کی آواز بھی سن لی تھی اور بے قابو گاڑی کی طرف متوجہ تھے- پھر ناہوں نے سڑک پار کرنے کے بجائے واپس آنے کا فیصلہ کرلیا تھا، اس لئے کہ گاڑی رانگ سائیڈ پر آتی دکھائی دے رہی تھی- وہ پلٹے اور اسی طرف لپکے جہاں الہیٰ بخش کھڑ تھا-
ادھر گاڑی سنبھل کر اب درست سائیڈ کی طرف آ رہی تھی!
الہیٰ بخش کو صورت حال کی سنگینی کا احساس ہو گیا تھا- گاڑی کی جو رفتار تھی، اس سے ان تک پہنچنے میں گاڑی کو ایک سیکنڈ کا وقت بھی نہ لگتا- ان دونوں کے پاس نہ اب پلٹنے کی مہلت تھی اور نہ وہ گاڑی سے بچ کر ادھر آ سکتے تھے-
فیصلہ کرنے کی مہلت بھی نہیں تھی- گاڑی اسی رفتار کے سے جھپٹی چلی آ رہی تھی- ان دونوں نے بھی دیکھ لیا تھا اور اب خوف سے اپنی جگہ جم کت رہ گئے تھے- الہیٰ بخش نے تیزی سے جست لگائی- اس کے دونوں ہاتھ آگے کی طرف پھیلے ہوئے تھے- اسے صرف احساس ہوا کہ گاڑی بالکل اس کے سر پر آ پہنچی ہے- آخری کوشش کے طور پر اس نے ہاتھ پھیلا کر دھکیلے اس کے ہاتھ دو جسموں سے ٹکڑائے- ساتھ ہی گاڑی اس کئ جسم سے ٹکرائی- اس نے خود کو فضا میں اڑتا محسوس کیا- سڑک پر گرنے تک وہ اپنے حواس میں تھا مگر پھر اسے کسی بات کا ہوش نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔
آنکھ کھلی تو وہ جنت میں تھا!
اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا- وہ لیٹا ہوا تھا- سادی روئی سے اس کی پیشانی صاف کر رہی تھی- اچانک اسے احساس ہوا کہ اس کی پیشانی پر زخم ہے جس سے خون رس رہا ہے، لیکن یہ احساس فوراٰ ہی معدوم ہو گیا- خوشی تکیف سے زیادہ بڑی تھی- پھر بھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ک وہ کہاں ہے اور یہاں تک کیسے پہنچا ہے- اتنا اسے یاد تھا کہ اس نے ایک بڈھے اور بچے کو بے قابو کار سے بچانے کی کوشش کی تی اور خود گاڑی کی لپیٹ میں آ گیا تھا-
"تم بہت من مانی کرتی ہو سعدیہ-' کسی نے کہا "ڈاکٹر آنے والا ہے- وہ دیکھ لے گا- تم خوامخواہ ڈاکٹری دکھا رہی ہو-"
الہیٰ بخش نے سر گھما کر دیکھا اور اس خاتون کو بھی پہچان لیا- اس نے پہلی بار سادی کو دیکھا تو یہی اس کے ساتھ تھی- وہ یقیناٰ اس کی ماں تھی- پھر اسے ایک اور خیال آیا- سادی کا نام سعدیہ ہے- پیارا نام ہے سعدیہ ۔۔۔۔۔ لیکن سعدی کتنا اچھا لگتا ہے-
"آپ بھی کمال کرتی ہیں امی" سادی نے کہا- "ڈاکٹر کے انتظار میں یونہی چھوڑ دیا جائے- کم از کم زخم کی صفائی تو کی ہی جا سکتی ہے-"
"اچھا بھئی ۔۔۔۔۔ جو جی چاہے کرو"
الہیٰ بخش لیٹے لیٹے یہ سوچنے کیکوشش کر رہا تھا کہ وہ کس حد تک زخمی ہے- اس نے ہاتھ ہلائے- ٹانگوں کو حرکت دی- گھٹنوں کے نیچے کچھ تکلیف ہو رہی تھی- اس کے علاوہ سر اور پیشانی بھی دکھ رہے تھے- اور کہیں کوئی تکلیف نہیں تھی- یہ حیرت انگیز بات تھی کیونکہ وہ گاڑی کے عین سامنے تھا- اصولاٰ گاڑی کو اس کے اوپر سے گزرجانا چاہئے تھا- ایک ہی بات سمجھ میں آئی تھی کہ آخری ثانیئے میں ڈرائیور گاڑی کو اس سے دور کاٹنے میں کامیاب ہو گیا ہو گا- وہ گاڑی کی سائیڈ سے ٹکرایا ہو گا، اس لئے وہ فضا میں اچھلا تھا اور سر کے بل گرا تھا- یعنی خدا نے کرم کیا تھا- بہت سستے میں جان چھوٹ گئی تھی-
جان چھوٹ گئی تھی اور انعام کتنا بڑا تھا! یہ طے تھا کہ اس وقت وہ سادی کے گھر میں ہے جس کے گیٹ سے گزرنے کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا-
"لو ڈاکٹر بھی آ گیا، اب ہٹ جاؤ" سادی کی ماں کی آواز نے اسے چونکا دیا-
وہی بڈھا شخص ڈاکٹر کا بیگ اٹھائے ہوئے تھا جسے اس نے دھکیلا تھا، اس کے پیچھے ڈاکٹر تھا- سادی اٹھ کر کھڑی ہو گئی- اب الہیٰ بخش نے دیکھا کہ وہ پلنگ کی سائیڈ میں ایک کرسی پر بیٹھی تھی- "بیٹھئے ڈاکٹر صاحب" اس نےمترنم آواز میں کہا-
ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ تکلیف کہاں کہاں ہو رہی ہے- پھر اس نے اسے چیک کیا- "تشویش کی کوئی بات نہیں بیگم صاحبہ" اس نے سادی کی ماں سےکہا "معمولی چوٹیں ہیں، البتہ سر کی اندرونی چوٹ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے- میں دوائیں لکھ رہا ہوں منگوا لیں- مریض کو آرام کی ضرورت ہے- ہاں اسے قے ہو یا متلی کی شکایت کرے تو مجھے فوراٰ بلوا لیجئے گا-" بیگم صاحبہ نے ڈاکٹر کو فیس دی، ڈاکٹر چلا گیا- بیگم صاحبہ نے ڈاکٹر کا لکھا ہوا نسخہ بڈھے شخص کو دیا "جاؤ کرمو چاچا، یہ دوائیں لے آؤ"
کرمو کے جانے کے بعد وہ الہیٰ بخش کی طرف مڑیں- "تو الہیٰ بخش ہے تمہارا نام"
"جی۔۔۔۔"
"رہتے کہاں ہو؟"
"اعظم بستی میں "
"یہ کہاں ہے؟" انہوں نے پوچھا، پھر بے نیازی سے کہا "خیر ۔۔۔۔ ہو گی کہیں- یہ بتاؤ ماں باپ کے ساتھ رہتے ہو"
"جی نہیں، وہ سب تو ایبٹ آباد میں رہتے ہیں- میں یہاں اکیلا رہتا ہوں"
"یہ اور بھی اچھا ہے کیونکہ تمہیں کل تک تو یہاں رہنا ہو گا- ماں باب ہوتے تو اور پریشانی ہوتی-"
الہیٰ بخش کو ان کا لہجہ اور انداز اچھا نہیں لگا لیکن اسے اس کی کوئی پروا نہیں تھی-
"تم کرتے کیا ہو؟" اس بار سوال سادی نے کیا تھا-
"رنگ و روغن کا کام کرتا ہوں" اس نے سادی کے چہرے پہ نظریں جماتے ہوئے کہاـ "یہاں قریب ہی فٹ پاتھ پر بیٹھتا ہوں ۔۔۔۔۔ کیفے لبرٹی کے سامنے"
سادی کی آنکھیں ایک پل کو چمکیں "ہاؤ ویری رومینٹک" اس نے سنسنی آمیز لہجے میں کہا-
"ٹھیک کہتی ہیں آپ، زندگی ہے ہی بہت رومانوی چیز-" الہیٰ بخش نے سادگی سے کہا-
سادی کی آنکھیں پھیل گئیں "پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہو!"
"جی نہیں، میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑ کے زندگی کی رومانویت کھوجنے کے لئے نکل کھڑا ہوا تھا-"
بیگم صاحبہ کی پیشانی کی شکنیں گہری ہوگئیں "اب چلو بھی سادی!" انہوں نے ترش لہجے میں کہا "ہر ایک سے باتیں کرنے کھڑی ہو جاتی ہو"
سادی بیگم صاحب کے ساتھ چل دی- دروازے پر پہنچنے کے بعد اس نے پلٹ کر الہیٰ بخش کو دیکھا- اس کی نگاہوں میں معذرت تھی- بیگم صاحبہ اس وقت تک باہر نکل چکی تھیں-
"سنو الہیٰ بخش، کرمو چاچا تمہارا خیال رکھے گا ۔۔۔۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا، اگر متلی محسوس ہو تو فوراٰ کرمو چاچا کو بتا دینا، یہ بہت ضروری ہے-"
وہ دونوں چلی گئیں- الہیٰ بخش نے آنکھیں موند لیں- سادی واپس آ گئی- اس نے آنکھیں کھول دیں "یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ" اس نے خود کلامی کی-
"عشق کی تربیت دی جا رہی ہے تمہیں" اس کے اندر سے کسی نے کہا-
"یہ کیسا عشق ہے کہ میں کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا"
"عشق میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی"
اس نے پھر آنکھیں موند لیں- سادی پھر آ گئی- اس نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ دیا- نہ جانے کیسے ۔۔۔۔۔ لیکن زندگی میں پہلی بار وہ دن میں ہی سو گیا-
--------------------٭---------------------
اس
بار اس کی آنکھ کھلی تو کرمو چاچا اس کے پاس بیٹھے تھے- ان سے بات ہوئی تو
اسے اندازہ ہوا کہ وہ درحقیقت اتفاقات کا اسیر ایک ایسا شخص ہے جسی کوئی
انجانی قوت کسی خاص سمت میں لئے جا رہی ہے-
یہ بات کھلنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ بڈھا کرم دین بھی ایبٹ آباد کا رہنے والا ہے- "تو ایبٹ آباد میں کہاں رہتا ہے بیٹے؟"
"بانڈہ بٹنگ میں چاچا، اور تم؟"
"میں شیخا بانڈی کا ہوں-" کرم دین کا لہجہ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا- 'باپ کا تیرے کیا نام ہے؟"
"پیر بخش"
پتا چلا کہ کرم دین اس کے باپ کو بہت اچھی طرح جانتا ہے- برسوں ۔۔۔ برسوں پہلے دونوں ایک ہی سکول میں پڑھے تھے- دیر تک کرم دین پیر بخش کے بارے میں معلوم کرتا اور اپنے اور اس کے لڑکپن کی باتیں کرتا رہا- پھر اس نے بڑی شفقت سے کہا- "تو تو ویسے ہی میرے لئے بیٹے کی طرح ہے- میری جان بچا کر تو تو سگے بیٹے سے زیادہ عزیز ہو گیا ہے-"
"کیسی باتیں کرتے ہو چاچا" الہیٰ بخش نے شرمساری سے کہا-
"اور وہ بچہ جو میرے ساتھ تھا نا، وہ اس کا گھر اکلوتا بیٹا ہے ۔۔۔۔ بہت لاڈلا- دو ہی بچے ہیں ان لوگوں کے- سادی بیبی اور اظہر بیٹا"
"بچے کو چوٹ تو نہیں آئی؟"
یہ بات کھلنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ بڈھا کرم دین بھی ایبٹ آباد کا رہنے والا ہے- "تو ایبٹ آباد میں کہاں رہتا ہے بیٹے؟"
"بانڈہ بٹنگ میں چاچا، اور تم؟"
"میں شیخا بانڈی کا ہوں-" کرم دین کا لہجہ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا- 'باپ کا تیرے کیا نام ہے؟"
"پیر بخش"
پتا چلا کہ کرم دین اس کے باپ کو بہت اچھی طرح جانتا ہے- برسوں ۔۔۔ برسوں پہلے دونوں ایک ہی سکول میں پڑھے تھے- دیر تک کرم دین پیر بخش کے بارے میں معلوم کرتا اور اپنے اور اس کے لڑکپن کی باتیں کرتا رہا- پھر اس نے بڑی شفقت سے کہا- "تو تو ویسے ہی میرے لئے بیٹے کی طرح ہے- میری جان بچا کر تو تو سگے بیٹے سے زیادہ عزیز ہو گیا ہے-"
"کیسی باتیں کرتے ہو چاچا" الہیٰ بخش نے شرمساری سے کہا-
"اور وہ بچہ جو میرے ساتھ تھا نا، وہ اس کا گھر اکلوتا بیٹا ہے ۔۔۔۔ بہت لاڈلا- دو ہی بچے ہیں ان لوگوں کے- سادی بیبی اور اظہر بیٹا"
"بچے کو چوٹ تو نہیں آئی؟"
"خراش بھی نہیں آئی- وہ تو اللہ نے تجھے رحمت کا فرشتہ بنا کر بھیج دیا، ورنہ میرے اور اس کے بچنے کا سوال ہی نہیں تھا-" کرم دین کہتے کہتے رکا، پھر بولا- "یہ اظہر بابا بڑی منتوں مرادوں کا بچہ ہے- تجھے اندازہ ہی نہیں کہ تو نے ان لوگوں پر کتنا برا احسان کیا ہے-"
"احسان کرنے والی تو اللہکی ذات ہے چاچا-" الہیٰ بخش نے سخت لہجے میں اس کی بات کاٹ دی-
"ٹھیک ہے لیکن عزت تو وسیلے کی بھی ہوتی ہے- یہ بہت اچھے لوگ ہیں- کسی کا احسان کبھی نہیں بھولتے-"
"پر بیگم صاحبہ تو ایسے بات کر رہی تھیں، جیسے میں کوئی مصیبت یا بوجھ ہوں- اگر مجھے ۔۔۔۔ "الہیٰ بخش نے بر وقت خود کو روک لیا- یہ حقیقت تھی کہ اگر اس گھر میں سادی نہ ہوتی تو فوراٰ ہی وہاں سے نکل جتا-
"بس بیگم صاحبہ ایسی ہی ہیں-" کرم دین نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا "کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہم جیسے انکی نظروں میں انسان ہی نہیں- پر صاحب بہت اچھے ہیں اور بچے بھی- بڑی عزت دیتے ہیں- بیگم صاحبہ کو شاید پیسے کا غرور ہے- سب نوکروں سے ایسے ہی بات کرتی ہیں"
"پر میں نوکر تو نہیں ہو ان کا"
"چھوڑو ان کی بات- صاحب آئیں تو دیکھنا- اب تو یہ دوا کھا لے-"
الہیٰ بخش نے پانی کے ساتھ گولی نگل لی "تو یہ ہے ان کا بنگلہ" وہ بڑبرایا-
"بنگلہ کہاں پگلے، یہ تو میرا کوارٹر ہے- ایک حصے میں نوکروں کے لئے کوارٹر بنوا دیئے ہیں- بنگلہ تو بہت بڑا ہے-کل دیکھنا-"
الہیٰ بخش نے ادھر ادھر دیکھا "میں یہاں سوؤں گا تو تم کیا کرو گے؟" اس نے پوچھا "چارپائی تو یہاں ایک ہی ہے"
"تو اس کی فکر نہ کر"
"چاچا ۔۔۔ میں گھر ہی نہ چلا جاؤں- اب تو میں بالکل ٹھیک ہوں"
"بے کار کی باتیں نہ کر- صاحب سے ملے بغیر تو نہیں جا سکتا- چلا گیا تو صاحب بہت خفا ہو گا مجھ سے- یہ بات نہ ہوتی تو بیگم صاحبہ نے ہی چلتا کر دیا ہوتا تجھے-"
الہیٰ بخش یہ سن کر مسکرایا "تو یہ بات ہے!"
"میں نے کہا نا کہ صاحب بہت اچھا آدمی ہے"
دیر تک وہ اس گھر کی، کراچی اور ایبٹ آباد کی باتیں کرتے رہے- پھر کرمو کھانا لے آیا- دونوں نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا- کھانے کے دوران الہیٰ بخش نے پوچھا "تم یہاں کیا کرتے ہو چاچا"
"میں مالی ہوں اور باہر سے سودا سلف بھی لاتا ہوں- پورے پندرہ سال سے ہوں یہاں- صاحب بہت اعتبار کرتے ہیں مجھ پر- مجھے نوکری چھوڑ کر جانے ہی نہیں دیتے- وہاں میرے بیٹے اب اپنے پاؤن پہ کھڑے ہیں- وہ مجھے بلاتے ہیں کہ اب مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں- پر صاحب مجھے نہیں چھوڑتے- سال دو سال میں کچھ دن بچوں کے ساتھ گزار آتا ہوں-"
کھانے کے بعد الہیٰ بخش نے دوا لی اور تھوڑی دیر بعد ہی اسے نیند آ گئی-
Urdu
stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu
Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu
stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu
horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text,
Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories,
Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories,
Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories,
Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے