عشق کا عین - علیم الحق حقی - قسط نمبر7

Urdu Novel PDF

شیخ مظہر علی رات دس بجے گھر پہنچے۔شام کو انہوں نے گھر فون کر کے بتا دیا تھا کہ ایک اہم میٹنگ کی وجہ سے واپسی میں دیر ہو جائے گی۔۔کھانے پر انکا انتظار نہیں کیا جائے۔ وہ پہنچے تو سادی انہیں جاگتی ملی۔۔ س نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ "پاپا آپ تو جلدی آ گئے"
"کیا بات ہے بیٹی،واپس چلا جاؤں، تمہیں میرا آنا اچھا نہیں لگا" شیخ صاحب نے صوفے پر بیٹھ کے پاؤں پھیلاتے ہوئے کہا۔۔
"آپ جانتے ہیں پاپا کہ یہ بات نہیں۔۔"ٹھنک کر بولی۔۔۔"آپ نے کہا تھا کہ دیر سے گھر آئیں گے ہم نے کھانا کھا لیا ہے۔۔ انی دیر تو ہم انتظار کر سکتے تھے۔۔ ساتھ ہی کھا لیتے کھنا۔ صرف دس ہی تو بجے ہیں۔۔۔"
شیخ صاحب مشفقانہ انداز میں مسکرائے۔۔"مجھے اور دیر بھی ہو سکتی تھی۔ یہ تو اتفاق ہے کہ میں جلدی آیا"۔۔
"کھانا لگاؤں آپ کے لیئے۔۔"
"بھوک نہیں ہے، البتہ کافی پلوا دو۔۔"
سادی اٹھ کر گئی اور ملازمہ جمیلہ کو کافی کے لیئے کہہ آئی۔۔وہ پھر باپ کے پاس آ بیٹھی۔۔"تمہاری ممی کہاں 
ہیں؟" شیخ صاحب نے پوچھا۔۔
 
"اوپر اپنے بیڈ روم میں،سر میں درد ہو رہا تھا۔۔ نید کی گولیاں لے لی ہیں۔۔"
"سر کے درد کا علاج نیند کی دوا لے کر سو جانا تو نہیں۔۔"شیخ صاحب نے کہا۔ "مگر وہ بات کہاں سنتی ہیں"
سادی کو انکے لہجے کی بے بسی پر دکھ ہونے لگا۔۔ اس نے تو بچپن سے ہی ماں باپ کو لڑتے جھگڑتے دیکھا تھا۔۔ امی کے مزاج میں سرکشی بہت تھی۔۔ وہ پاپا کی کوئی بات نہیں مانتی تھیں۔۔ پاپا میں بھی برداشت کا مادہ نہیں تھا۔۔ شکر تھا کہ مار پیٹ کی نوبت نہیں آتی لیکن امی اور پاپا میں کئی کئی دنوں تک بات چیت بند رہتی۔۔پھر اظہر کی پیدائش کے بعد پاپا بہت متحمل مزاج ہو گئے اور امی اور چڑچڑی اور بد دماغ ہو گئی تھیں۔۔ شائد اس لیئے کہ پاپا اب ان سے لڑتے بھی نہیں تھے۔۔۔
"اظہر کہاں ہے؟ " شیخ صاحب نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔۔ جمیلہ چند لمحے پہلے کافی کی پیالی ان 
کے سامنے رکھ گئی تھی۔۔
 
سادی نے انکی بات سنی ہی نہیں وہ اپنی سوچون میں گھری ہوئی تھی۔۔
"بیٹی اظہر کہاں ہے؟؟" شیخ صاحب نے دھرایا۔۔۔انہیں حٰرت ہو رہی تھی۔ اظہر ہر حال میں انکا انتظار کرتا تھا چاہے رات کے بارہ بج جائیں۔۔
"اظہر۔۔"سادی نے چونک کر سر اٹھایا۔۔"وہ سو رہا ہے پاپا۔۔ ڈاکٹر نے اسے ٹرینکولائیزر دیا تھا،،"
اب چونکنے کی باری شیخ صاحب کی تھی۔۔۔" کیوں بھئی کیا ہوا اسے؟؟" انہوں نے پر تشویش لہجے میں پوچھا۔۔
"تو کیا می نے آپ کو نہیں بتایا؟"
"کیا نہیں بتایا؟" شیخ صاحب سنبھل کر بیٹھ گئے۔۔
سادی کو اس بار امی کے رویے پر شدید غصہ آیا۔۔۔اسکا خیال تھا کہ امی نے پاپا کو فون پر حادثے کے متعلق بتا دیا ہو گا۔۔اسے تو حیرت ہوئی تھی کہ پاپا فوراً ہی دوڑے کیوں نہیں آئے۔۔پھر اس نے سوچا کہ شائد اس لیئے کہ اظہر کو خراش بھی نہیں آئی تھی۔۔
"پاپا اظہر آج ایک جان لیوا حادثے میں جان جان بچا ہے۔۔"شیخ صحب اچھل کر کھڑے ہو گئے۔۔وہ زینوں کی طرف لپکے مگر سادی انہیں پکار لیا۔۔ "پریشانی کی کوئی بات نہیں پاپا۔اسے خراش بھی نہیں آئی ہے۔۔ اس وقت وہ 
بے خبر سو رہا ہو گ۔ صبح دیکھ لیجیئے گا اسے۔۔
"تم سچ کہہ رہی ہو نا؟" شیخ صاحب کے لہجے میں التجا تھی۔۔
"ہاں پاپا آپ آرام سے بیٹھ کر کافی پیئں۔۔اظہر کو معمولی سی چوٹ بھی آئی ہوتی تو میں اتنے سکون سے بیٹحی ملتی آپ کو؟" سادی کے لہجے میں شکائت تھی۔۔
بات درست تھی۔۔ شیخ صاحب نے حجالت سے بیٹی کو دیکھا۔۔ وہ اپنی جگہ واپس آ بیٹھے۔۔"ہوا کیا تھا؟" انہیں نے پوچھا۔۔ کافی کی پیالی کو وہ بھول ہی گئے تھے۔۔
"تفصیل تو مجھے نہیں معلوم پاپا۔۔کرمو چاچا بتا سکتے ہیں۔ مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ ایک اجنبی انکو بچاتے ہوئے زخمی ہو گیا تھا۔۔ اس کو بھی معمعولیچوٹیں آئیں۔۔"
"اسے بھی تمہاری ممی نے کچھ احسان کر کے نکال دیا ہو گا۔۔" شیخ صاحب کے لہجے میں تلخی تھی۔۔
"ارادہ تو یہی تھا انکا لیکن میں نے انہیں روک دیا۔۔ وہ کرو چاچا کے کوارٹر میں ہے۔۔"
"تم بہت پیاری بیٹی ہو میری۔۔ "شیخ صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔ میں ذرا اسے دیکھ آؤں۔۔
"پاپا میں جمیلہ کو بھیج کر انہیں یہیں بلوا لیتی ہوں۔۔"
 
"نہیں سادی بیٹی مجھے خود جانا چاہیئے۔۔" یہ کہہ کر شیخ صاحب باہر چلے گئے۔۔سادی پھر اپنی سوچوں میں گُم ہو گئی۔۔ امی اور پاپا کتنے مختلف ہیں ایک دوسرے سے۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔دو افراد جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گذارنی ہوتی ہے وہ خوفناک حد تک ایک دوسرے کے برعکس کیوں ہوتے ہیں،اسے شادی سے خوف آتا تھا،اسے یقین تھا کہ اس کے ساتھ بھی یہی ہو گا۔۔
ادھر ہلکی سی دستک پر کرم دین نے دروازہ کھولا تو شیخ صاحب کو دیکھ کر حیاران رہ گیا،۔
"صاحب جی آپ۔ مجھے بلوا لیا ہوتا۔۔ "
"میں اس سے ملنے آیا ہوں" شیخ صاحب نے کہا اور اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے سوئے ہوئے الٰہی بخش کو غور سے دیکھا۔۔وہ بہت خوش رو جوان تھا۔ پتلا ناک نقشہ۔۔ کشادہ پیشانی۔۔اور پیشانی پر بہت ہی گہرے زخم کا نشان۔انہیں حیرت ہوئی کہ وہ نشن بد نما نہیں لگ رہا تھا۔۔ بلکہ لگتا تھا کہ وہ اس کے وجود کا ایک حصہ ہے۔"ارے یہ تو سو رہا ہے۔" انہوں نے دھیمی آواز میں کہا۔
"جی صاحب جی۔۔"
"تم ذرا میرے ساتھ آؤ کرمو۔۔"
 
کرم دین دروازہ بھیڑ کر انکے پیچھے نکل آیا۔۔ وہ اسے باغیچے میں لے گئے۔ وہاں گارڈن چئیرز پڑی تھیں ۔۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔۔ "بیٹھو کرمو۔۔"کرمو نیچے گھاس پر بیٹھ گیا۔۔"اب مجھے سب کچھ بتاؤ"
کرم دین نے بتایا کہ کس طرح وہ اظہر کے ساتھ سڑک پار کر رہا تھا کہ وہ گاڑی اس طرف آئی۔۔آواز سے اندازہ ہو گیا تھا کہ گاڑی کی رفتار خطرناک ہے۔۔"گاڑی مڑتے ہوئے اپنی گھر والی سائڈ پر تھی صاحب جی۔ رفتار بہت تیز تھی ور فاصلہ کم۔۔ ہم اس وقت سڑک کے بیچ میں تھے۔۔اظہر بابا ڈر کر پلٹے کے دوسری طرف واپس چلے جائیں۔۔ میں بھی انکے ساتھ پلٹا۔۔ اتنی دیر میں گاڑی نے رُخ بدل لیا دوسری سائیڈ پر۔۔صاحب جی ہم دونوں ڈر کے مارے کھڑے کے کھڑے رہ گئے ۔۔ہل بھی نہیں سکے اور گاڑی تیزی سے ہماری طرف آ رہی تھی۔۔کھڑے رہنے میں تو پھر شائد بچت ہو جاتی مگر اظہر بابا آگے کی طرف جانے والے تھے اور میں انہیں روک نہیں سکت تھا،،بس صاحب اتنے میں یہ الٰہی بخش فرشتہ بن کر آیا۔اس نے جھپٹ کر ہم دونوں کو دجکا دیا۔۔ ہم گر گئے۔۔یہ گاڑی کی لپیٹ میں آ گیا۔۔ وہ تو شکر ہے کہ ڈرائیور نے عین وقت پر گاڑی کو دوسری طرف گھما دیا۔۔ ورنہ یہ کچلا جاتا صاحب جی۔۔پھر بھی یہ بے ہوش ہو گیا ۔۔ میں نوکروں سے اٹھوا کر اسے کوارٹر میں لے آیا۔۔ ڈاکٹر سے دکھوایا۔۔ وہ بولتا ہے معمولی چوٹیں ہیں کل تک ٹھیک ہو جائے گا۔۔"
شیخ مظہر علی کے جسم میں واضح تھرتھراہٹ نظر آئی۔۔"اور وہ گاڑی؟"
"وہ نہیں رکی صاحب۔۔ میرا خیال ہے بریک فیل ہو گئے تھے اس کے۔۔۔"
 
شیخ صاحب تصور میں کرم دین کا بیان کیا ہوا منظر دیکھ رہے تھے۔۔"واقعی اللہ نے بڑا کرم کیا۔ اس لڑکے کے لیئے کچھ کرنا چاہیئے۔۔" ان کا انداز خودکلامی کا سا تھا۔۔۔
"صاحب جی بعد میں پتا چلا کہ ایبٹ آباد کا ہی ہے۔۔ اس کے باپ کو میں جانتا ہوں برسوں سے۔۔"
"ہممم۔۔۔"شیخ صاحب نے پرخیال لہجے میں کہا۔۔ "تو پھر کیا ہونا چاہیے۔۔؟"
"صاحب جی آُ ایک ڈرائیور رکھنے کو کہہ رہے تھے۔۔"کرم دین نے یاد دلایا۔۔
شیخ صاحب نے سعدیہ سے اس کے لیئے کار خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔۔ لیکن وہ کم از کم فی الحال یہ نہیں چاہتے تھے کہ سعدیہ ڈرائیو کرے اس لیئے ڈرائیور کی ضرورت تھی۔۔ڈرائیور رکھے بغیر وہ کار نہیں خریدنا چاہتے تھے۔۔اور یہ انکی فطرت تھی کہ اعتبار بہت دیکھ پرکھ کر کرتے تھے۔۔ اور جب کرتے تو اندھا اعتماد کرتے تھے۔۔۔
"تمہارا مطلب ہے کہ یہ لڑکا ڈرائیونغ جانتا ہے؟"
"ہزارے میں تو بچپن میں ہی ڈرائیونگ آ جاتی ہے صاحب۔۔۔"کرم دین نے فخریہ لہجے میں کہا۔۔
شیخ صاحب چند لمہے سوچتے رہے۔۔"نہیں ابھی یہ مناسب نہیں۔۔" انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔ "یہ بتاؤ یہ کام کیا کرتا ہے؟"
"رنگ و روغن کا کافی اچھا کاریگر ہے صاحب"
 
"اور تم اسے ڈرائیر بنانا چاہتے ہو۔۔" شیخ صاحب کے لہجے میں ملامت تھی۔۔"خیر اسے جانے نہ دینا۔۔ ہر چرح سے اسکا خیال رکھنا۔۔کل ڈاکٹر کو بھی بلا لانا اگر وہ ٹھیک ہو گیا ہو تو کل شام اسے میرے پاس لے آنا۔۔میں جلدی گھر آؤں گا۔۔دیکھیں گے کچھ۔"شیخ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔۔"اب تم آرام کرو
اگلی صبح ناشتے کی میز پر شیخ صاحب ننھے اظہر سے ملے- انہوں نے اظہر سے بھی حاثے کی روداد سنی- "بس پاپا گاڑی ہم پر چڑھنے والی تھی کہ انہوں نے ہمیں دھکا دے دیا"
اظہر نے جو نقشہ کھینچا وہ اور خوفناک تھا-
شیخ صاحب نے ملامت بھری نظروں سے بیوی کو دیکھا "اور آپ نے مجھے فون پر یہ بتانا ضروری بھی نہیں سمجھا"
"کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی- کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا-" رخسانہ بیگم نے بے پروائی سے کہا-
"جب تک کوئی مر نہ جائے، آپ کے خیا میں حادثہ سنگین نہیں ہوتا!" شیخ صاحب نے سرد لہجے میں کہا "یہ تو بڑی خطرناک بات ہے ۔۔۔۔ اللہ کو ناراض کرنے والی"
"ارے یہ لوگ بڑھا چڑھا کر سنا رہے ہیں"
"چلئے ٹھیک ہے-" شیخ صاحب نے کہا- پھر چند لمحے کے توقف کے بعد بولے "میں بہت دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ اس گھر کو رنگ و روغن کی ضرورت ہے"
"صاف کیوں نہیں کہتے کہ اب فٹ پاتھ پر بیٹھنے والے اس رنگ ساز کا احسان چکائیں گے!" رخسانہ بیگم نے تڑ سے کہا-
 
"تو احسان ماننا کوئی بری بات ہے؟"
"احسان کیسا! ٹھیک ٹھاک ہے وہ، ماتھے پر ذرا سی خراش آئی ہے بس"
"پھر وہی بات، وہ مر جاتا، اپاہج ہو جاتا تب آپ اس کا احسان مانتیں!" شیخ صاحب نے گہری سانس لے کر کہا "یہ بھی سن لیجئے کہ یہ کوئی احسان کا صلہ نہیں ہو گا- وہ کام کرے گا اور اجرت لے گا- احسان تو عمر بھر نہیں اتارا جا سکتا یہ سب چھوٹے پن کی باتیں ہیں"
"کرتے رہیں جو جی میں آئے- مجھے بتانے کی ضرورت نہیں- میرے خیال میں چھوٹے لوگوں کو ذرا سی بات پر سر پر بٹھا لینا چھوٹا پن ہے، جسے آپ بڑائی سمجھتے ہیں" رخسانہ بیگم نے پاؤں پٹختے ہوئے کہا اور ناشتے کی میز سے اٹھ گئیں-
شیخ صاحب نے بات کو بڑھانا مناسب نہیں سمجھا- جانتے تھے کہ اس سے تلخی کے سوا حاصل کچھ نہیں ہو گا-
-----------------------------٭-------------------------
 
ناشتے کے بعد کرم دین ڈاکٹر کو بلا لایا- ڈاکٹر نے اچھی طرح معائنہ کر کے کہا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں- دن میں تین بار مرہم لگایا جائے- پیشانی کا زخم دو تین دن میں ٹھیک ہو جائے گا-
"چاچا، اب میں چلتا ہوں" ڈاکٹر کے جانے کے بعد الہیٰ بخش نے کہا-
"نہ بیٹے! صاحب جی سے ملے بغیر تو نہیں جا سکتا- وہ تو کل رات ہی تجھ سے ملنے آئے تھے- تو سو رہا تھا، تجھے دیکھا اور چلے گئے"
الہیٰ بخش کے دل میں ان دیکھے شیخ صاحب کی قدرو منزلت کا جذبہ پیدا ہوا "اچھا۔۔۔۔۔ تو مجھے جگا لیاہوتا"
"انہوں نے جگانے نہیں دیا- آج شام وہ تجھ سے ملیں گے"
"ٹھیک ہے چاچا، پر ابھی مجھے باہر جانا ہے" الہیٰ بخش نے کہا "ایک گھنٹے میں واپس آ جاؤں گا"
کرم دین نے بے اعتباری سے اسے دیکھا " دیکھ تو ملے بغیر چلا گیا تو میری بڑی بے عزتی ہو گی"
"ارے چاچا، تم میرے لئے ابا جیسے ہو- میں تمہاری بے عزتی کرا سکتا ہوں ؟" الہیٰ بخش نے مسکراتے ہوئے کہا- "وہ جن لوگو کے ساتھ میں رہ رہا ہوں، کل سے میرے لئے پریشان ہو رہے ہوں گے- انہیں جا کر بتا تو آؤں کہ میری فکر نہ کریں- میں خیریت سے ہوں"
 
"تو چلا جا، پر دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھانا ہے" کرم دین نے کہا-
الہیٰ بخش کو نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ رہنے والے کہا کہا کام کرتے ہیں- اس نے سوچا، جا کر نثار کو بتا دے گا- کرامت اس کے پاس آتا رہتا ہے- نثار اسے بتا دے گا- وہ فٹ پاتھ پر پہنچا تو پتا چلا کہ اسی کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں- سب پریشان تھے- کرامت بھی آیا ہوا تھا- اب اسے خیال آیا کہ وہ تو گزشتہ دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے نکلا تھا اور اس کے بعد واپس ہی نہیں گیا- وہ لوگ تو کل سے اس کے لئے پریشان تھے- اسے ڈھونڈتے بھی پھرتے تھے- پھر نثار نے اس کے برش اور پینٹ کے خالی ڈبے سامنے پان والے کی دکان پر رکھ دیئے تھے- وہ سب الہیٰ بخش و گھیر کر بیٹھ گئے- الہیٰ بخش نے انہیں ماجرا سنایا- کرامت مطمئن ہو کر چلا گیا-
"بات تو جب ہے کہ تجھے اس بنگلے میں نوکری مل جائے" نثار نے کہا-
 
"کیسی باتیں کرتے ہو نثار بھائی" الہیٰ بخش بولا " میں یہ فٹ پاتھ نہیں چھوڑنا چاہتا"
"بےوفوف نہین تو، ابے یہ بھی کوئی زندگی ہے- پگار کی بات ہی اور ہے- ایک تاریخ کو لگی بندھی رقم ہاتھ میں- یہاں کیا ہے- ایک دن کام مل گیا تو چار دن چھٹی اور ایک دن فاقہ"
"نہیں نثار بھائی، یہ فٹ پاتھ کی زندگی بڑی رومینٹک ہے" الہیٰ بخش نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا " کسی کو یہ زندگی بڑی رومینٹک لگتی ہے"
"نثار کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا- " تو کتابیں بہت پڑھنے لگا ہے" اس نے الہیٰ بخش کو آنکھیں نکالیں-
وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے- پھر الہیٰ بخش بنگلے کی طرف چل دیا- وہاں کرم دین باغیچے میں کیاریا ٹھیک کر رہا تھا- اس نے اسے اپنے پاس ہی بلا لیا- "بتا آیا اپنے ساتھیوں کو"
"ہاں چاچا"
"مجھے لگتا ہے کہ اب تو اس گھر سے نہیں جائے گا-"
"کیا بات کرتے ہو چاچا"
"میرا اندازہ تو یہی ہے بیٹے"
 
اتنے میں سادی گیٹ سے اندر آئی- وہ کالج سے واپس آئی تھی اور کالج کی سفید یونیفارم میں بہت پیاری لگ رہی تھی- انہیں بیٹھا دیکھ کر وہ ان کی طرف چلی آئی "کیسے ہو الہیٰ بخش" اس نے پوچھا " تکلیف بڑھی تو نہیں؟"
الہیٰ بخش کو احساس ہوا کہ وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے- اس نے گھبرا کر نظریں جھکا لیں "میں بالکل ٹھیک ہوں بی بی، ابھی باہر بھی گیا تھا"
"بہت اچھی بات ہے، مجھے تمہاری بڑی فکر تھی-" سادی نے سادگی سے کہا- پھر بولی "میرا نام سعدیہ ہے- سب سادی کہتے ہیں مجھے"
'مجھے معلوم ہے بی بی" الہیٰ بخش نے کہا- اسے اپنا دل ڈھول کی طرح بجتا محسوس پو رہا تھا- جس کی آواز سب کو سنائی دے رہی ہو- کیسی بات تھی یہ! وہ کہہ رہی تھی کہ اسے اس کی فکر ہے! وہ اسے دعوت دے رہی تھی کہ وہ سعدیہ یا سادی کہہ کر اسے پکارے- 'اے ۔۔۔ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں' اس نے اپنے دل کو ٹوکا-
 
"تو پھر ایسے ہی پکارا کرو مجھے"
الہیٰ بخش کہنا چاہتا تھا کہ وہ تو ایک ایسا پنچھی ہے جو سفر کے دوران تھک کر پل دو پل کے لئے اس شاخ پر بیٹھ گیا ہے اور اب اسے اڑ جانا ہے- یہاں یہ مسئلہ ہی کب ہے کہ اسے کیسے پکارا جائے لیکن اس نے کہا کچھ نہیں-
سادی کچھ اور کہنا چاہتی تھی کہ صدر دروازے سے امی نے اسے آواز دی-
"سعدیہ کالج سے آگئی ہو تم"
"جی امی، ابھی آئی ہوں" سادی نے کہا اور الہیٰ بخش سے مزید کچھ کہے بغیر اس طرف چلی گئی-
"سادی بی بی بہت اچھی ہیں" کرم دین نے کہا-
الہیٰ بخش نے اس پر بھی کچھ نہیں کہا- وہ یہ سوچ رہا تھا کہ کیا کرم دین کے اس جملے کو ہزار گناہ بہتر بنانے والے لفظ بھی وضع کئے گئے ہیں- کیا یہ بیان کیا جا ساکتا ہے کہ سادی بی بی کتنی اچھی ہیں!

اس روز شیخ صاحب ساڑھے پانچ بجے گھر آ گئے- باتھ روم سے آ کے لباس تبدیل کر کے اور چائے پینے کت بعد تازہ دم ہو کے انہوں نے کہا " کرمو اس الہیٰ بخش کو میرے پاس لے آؤ" انہوں نے کہا- "ہاں ۔۔۔۔ تم اسے یہاں چھوڑ کے چلے جانا"
"جی بہتر صاحب جی"
شیخ صاحب اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے- تھوڑی دیر بعد کرمو الہیٰ بخش کو وہاں لے آیا - شیخ صاحب نے اٹھ کر بڑے تپاک سے الہیٰ بخش سے مصافحہ کیا "آؤ بیٹے یہاں بیٹھو میرے پاس' انہوں نے صوفے کی طرف اشارہ کیا-
کرم دین نے پوچھا "میں جاؤں صاحب"
"ہاں تم جاؤ" شیخ صاحب نے کہا اور پھر الہیٰ بخش کی طرف متوجہ ہوئے "تم بیٹھے نہیں ابھی تک"
الہیٰ بخش نے ججھکتے ہوئے کہا "میں یہیں ٹھیک ہوں صاحب" وہ کمرے کی آرائش سے مرعوب ہو گیا تھا- ایسی آرائش تو اس فلیٹ کی بھی نہیں تھی جہاں وہ اس دن مزدوروں کی ٹولی کے ساتھ گیا تھا، جبکہ وہ بھی مرعوب کر دینے والی تھی-
 
"نہیں بھئی بیٹھ جاؤ آرام سے" شیخ صاحب نے زور دے کر کہا "دیکھو، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر اللہ کسی کے وسیلے سے احسان کرتا ہے تو اس وسیلے کا احترام بھی ضروری ہے- اصل میں وہ احترام بھی اللہ ہی کے لئے ہے- تم بیٹھ جاؤ- مجھے تم سے ملکر خوشی ہو رہی ہے- اللہ نے تمہارے ذریعے میرے بیٹے اور کرمو کو نئی زندگی بخشی ہے- جواب میں، میں کچھ بھی نہیں کر سکتا- تمہیں تھوڑی دیر عزت تو دے سکتا ہوں-" انہوں نے تھوڑی دیر پر خاص زور دیا-
الہیٰ بخش کی ججھک دور ہو گئی- اسے شیخ صاحب اچھے لگے- وہ مختلف انداز میں بات کر رہے تھے- انہوں نے رسماٰ بھی اس کے احسان پر زور دے کر اسے شرمندہ نہیں کیا تھا- وہ ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا- بیٹھ کیا گیا، دھنس گیا کہئے اور جتنی تیزی سے وہ دھنسا تھا وہ ڈر گیا لیکن پھر اسے آرام کا احساس ہونے لگا-
"یہ بتاؤ، کیا پیو گے- چائے یا شربت" شیخ صاحب نے پوچھا-
"کچھ ۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں صاحب جی" الہیٰ بخش نے گڑبڑا کر کہا-
"دیکھو الہیٰ بخش، تم بات سمجھ نہیں رہے ہو" شیخ صاحب نے ناصحانہ انداز میں کہا "تم اس وقت میرے مہمان کی حیثیت سے یہاں بیٹھے ہو اور مہمان میزبان سے برتر ہوتا ہے- تم جہاں کے ہو وہاں تو مہمان نوازی ہمارے ہاں سے بڑھ کر کی جاتی ہے اور یہ اللہ کاحکم بھی ہے- یہ ذہن میں رکھو کہ تم میرے مہمان ہو ملازم نہیں ہو" اس بار انہوں نے ملازم پر بطور خاص زور دیا- "اب بولو، کیا پیو گے"
"چائے پی لوں گا صاحب جی"
 
شیخ صاحب نے جمیلہ کو آواز د کر چائے لانے کو کہا- پھر الہیٰ بخش سے بولے " یہ ساحب جی کیا ہوتا ہے- میرا نام شیخ مظہر علی ہے- صاحب تو بس میرے گھر کے ملازم ہی کہتے ہیں مجھے"
الہیٰ بخش کے کانوں میں سادی کی آواز گونجی ۔۔۔۔ 'میرا نام سعدیہ ہے- سب لوگ سادی کہتے ہیں مجھے'
جمیلہ چائے لے آئی- الہیٰ بخش جلدازجلد پیالی خالی کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا-
"اب تم کیسے ہو" شیخ صاحب نے پوچھا-
"جی۔۔۔' سادی کے تصور میں الجھے ہوئے الہیٰ بخش کی سمجھ میں پہلے تو بات ہی نہیں آئی پھر اس نے کہا "اب مین بالکل ٹھیک ہوں اور اب میں جانا چاہتا ہوں"
"میں تو چاہتا تھا کہ تم ہمیں چند روز میزبانی کا موقع دو- لیکن ذبردستی اچھی چیز نہیں ہوتی- ہو سکتا ہے تمہارے کام کا حرج ہو رہا ہو- ٹھیک ہے، تم آج ہی چلے جانا لیکن پہلے کچھ دیر اپنے بارے میں مجھ سے باتیں کرو-"
 
الہیٰ بخش یک لخت پر سکون ہو گیا- شیخ صاحب عجیب آدمی تھے- رسمی باتوں کا سرسری تذکرہ کرتے تھے- ان کے ساتھ بیٹھ کر بندھے ہونے کا احساس نہیں ہو رہا تھا- شیخ صاحب اس سے اس کے بارے میں پوچھتے رہے- اس کے ماں باپ، گھر بار، تعلیم، کام ۔۔۔۔ انہوں نے سبھی کچھ پوچھ ڈالا-
تھوڑی دیر بعد الہیٰ بخش نے کہان "سر ۔۔۔۔ اب مجھے اجازت دیجیئے"
"ہاں ۔۔۔۔ ٹھیک ہے" شیخ صاحب نے اٹھ کر اس سے گرم جوشی سے مصافحہ کیا
'دیکھو میاں، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے تو تمہیں فرشتہء رحمت بنا کر بھیجا ہے لیکن میں ہر وقت احسان کی رٹ لگائے رکھنے کا قائل نہیں- ہاں، ایک بات پوری سچائی سے کہہ رہا ہوں- اس گھر کو ہمیشہ اپنا ہی گھر سمجھنا- جب ملنے کو جی چاہے،چلے آنا- کبھی کسی وقت، کل یا اس سے بیس سال بعد، میں تمہارے کسی کام آ سکوں تو اپنا بزرگ سمجھ کر بلاتکلف میرے پاس چلے آنا- میں انشاللہ تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا-"
الہیٰ بخش کو اپنا دل پگھلتا ہوا محسوس ہوا- کیسے اچھے آدمی ہیں یہ شیخ صاحب احسان احسان کر کے اسے شرمندہ بھی نہیں کیا اور اتنا کچھ کہہ بھی دیا- انہیں عزت دینا اور عزت کرانا آتا ہے- "شکریہ سر، میں یاد رکھوں گا"
 
الہیٰ بخش دروازے پر پہنچا تھا کہ شیخ صاحب کی آواز پر اس کے قدم ٹھٹھک گئے "الہیٰ بخش، ذرا سنو تو"
اس نے پلٹ کر سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا "جی سر؟"
"یہاں آؤ، پانچ منٹ اور بیٹھو"
الہیٰ بخش جا کر صوفے پر بیٹھ گیا-
"بھئی ۔۔۔۔ معاف کرنا- میں نے تمہاری بات توجہ سے نہیں سنی- تم پینٹر ہو نا"
الہیٰ بخش نے اثبات میں سر ہلایا- "جی س"
'جو کچھ میں نے تم سے کہا، وہ اپنی جگہ- میں اپنی بات مکمل کر چکا ہوں- مجھے اچانک ایک خیال آیا ہے کہ ایک کاروباری بات تم سے کر لی جائے"
 
"کاروباری بات اور مجھ سے" الہیٰ بخش نے حیرت سے سوچا-
"میں کچھ مہینے سے سوچ رہا ہوں کہ پورے گھر کو دوبارہ پینٹ کرانا ہے-" شیخ صاحب کہہ رہے تھے "اب تم نعمت کی طرح آ گئے ہو تو کیوں نہ تم سے کچھ فائدہ ہی اٹھا لوں" الہیٰ بخش، شیخ صاحب کے فہم و فراست کا قائل ہو گیا- اصولاٰ اسے کہنا چاہئے تھا کہ جو کچھ میں نے کیا، وہ خدا می مرضی کے تحت سرزد ہوا- انہیں احسان سمجھ کر اس کا صلہ دینے کی ضرورت نہیں- لیکن اس کے سامنے وہ شخص بیٹھا تھا جس نے ابتدا میں ہی کہہ دیا تھا کہ احسان اللہ کا ہے البتی وسیلے کے حیثیت سے اس کا احترام کیا جا رہا ہے اور ا وہ کہہ رہا تھا کہ وہ پینٹر ہے تو اس سے فائدہ ہی کیوں نہ اٹھا لے- ایسے شخص سے ایسی بات کیسے کی جا سکتی ہے!
ذرا اس ڈرائنگ روم کی دیواریں دیکھو اور انصاف سے کہو کہ موجود پینٹ کیا اس کے شایان شان ہے- رنگ و روغن ہونے کے بعد یہ کیسا لگے گا؟" شیخ صاحب نے جیسے اس کے خیالات پڑھ لئے- ایک بار پھر انہوں نے فہم و فراست کا ثبوت دیا تھا-
الہیٰ بخش نے ڈرائنگ روم کی دیواروں کا جائزہ لیا- شیخ صاحب کی شرط تھی کہ اسے جواب انصاف سے دینا ہے- وہ ٹال نہیں سکتا تھا، چنانچہ اس نے انصاف سے کہا "آپ درست فرماتے ہیں سر، دیواروں کو واقعی تازہ پینٹ کی ضرورت ہے-"
 
"تو چلو میں تمہیں پورا گھر دکھا دوں"
الہیٰ بخش نے گھر دیکھا- سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے سادی کا کمرہ بھی دیکھ لیا- کمرے کی سادگی اور خوبصورتی نے اسے بہت بہت متاثر کیا- اس نے بڑی چاہت سے کمرے کا چپہ چپہ دیکھا، جیسے وہ زیارت کے قابل کوئی متبرک مقام ہو-
شیخ صاحب اسے پھر نیچے لے آئے "اب اپنی اجرت بتاؤ" وہ بولے، الہیٰ بخش ہچکچایا تو انہوں نے کہا- "دیکھو یہ کاروباری بات ہے، ہمارے تعلقات الگ ہیں" انہوں نے تعلقات پہ زور دیتے ہوئے کہا "اس میں نہ شرماؤ، نہ میں تمہیں اجرت زیادہ دوں گا نہ کم- جو بنتی ہے وہ لو گے؟"
"آپ ٹھیکے پر دیں گے یا دہاڑی پہ کرائیں گے؟" الہی بخش، رنگ ساز الہیٰ بخش بن گیا-
"دہاڑی پر" شیخ صاحب نے بلاجھجک کہا-
دہاڑی پچیس روپے روز ہو گی- میٹریل آپ کاہو گا"
شیخ صاحب نے کچھ نوٹ نکال کر اسے دیئے "یہ ہزار روپے ہیں- پینٹ اور دوسری چیزیں تمہی لاؤ گے- آخر میں حساب دے دینا اور ضرورت پڑے تو بیگم صاحبہ سے لینا"
"کلر آپ پسند کر لیں سر، میں کارڈ لا کر دکھاتا ہوں آپ کو"
 
"اس کی ضرورت نہیں- مجھے رنگوں کی تمیز نہیں، تم خود رنگ پسند کر لینا میں اسے رنگ کرنے والے کی ذمہ داری سمجھتا ہوں- پچھلی بار بھی میں نے یہ کام پینٹر کے سپرد کیا تھا لیکن اس نے مجھے مایوس کیا- امید ہے تم مجھے خوش کر دو گے"
'ذمےداری بہت بڑی ہے سر، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کو خوش کر دوں گا-" الہیٰ بخش نے اعتماد سے کہا-
"بس تو جاؤ اور کل سے کام شروع کرو"
الہیٰ بخش جانے لگا تو شیخ صاحب نے اسے آواز دی- "سنو اگر کوئی حرج نہ سمجھو تو مجھے اپنی پیشانی کے اس زخم کے بارے میں بتاؤ"
الہیٰ بخش سوچ میں پڑ گیا- کیا بتائے اس زخم کے بارے میں- اسے تمغہء دیانت کہے ہا نشان عشق- "آپ کا کام پورا کرنے کے بعد بتاؤں گا سر" کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا "بشرطیکہ آپ اس وقت بھ جاننا چاہیں"
"ٹھیک ہے الہیٰ بخش - میں انتظار کر لوں گا"
 
بارہ دن بعد پورا بنگلہ یوں جگمگا رہا تھا جیسے ابھی تعمیر ہوا ہو- الہیٰ بخش نے اپنے رنگوں کے انتخاب سے ثابت کر دیا تھا کہ رنگ ساز بھی فنکار ہوتے ہیں- شیخ صاحب بہت خوش تھے- الہیٰ بخش نے ان کی آزمائش پر پورا اترا تھا- اس نے ان کے اندازے کی تائید کر دی تھی-
شیخ صاحب میں انسان کو ایک نظر میں پہچان لینے کی قدرتی صلاحیت تھی- لیکن انہوں نے اس پہلی نظر کے فیصلے پر کبھی اعتبار نہیں کیا تھا- اعتبار وہ آزمائش کے بغیر کبھی نہیں کرتے تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ الہیٰ بخش آزمائش سے گزرنے کے دوران ہی قابل اعتبار ثابت ہو گیا تھا-
بظاہر شیخ صاحب نے کرم دین ی تجویز مسترد کر دی تھی کہ الہیٰ بخش کو ڈرائیور رکھ لیا جائے- لیکن درحقیقت انہوں نے اسے الہیٰ بخش کی آزمائش سے مشروط کر دیا تھا- بنگلے کا رنگ و روغن کا ٹھیکہ ہی اس کی آزمائش تھا-
 
الہیٰ بخش اپنا کام شروع کر چکا تھا- ایک دن شیخ صاحب نے اپنے ایک دوست سے جو قریب ہی رہتے تھے، اس سلسلے میں بات کی، "یار وکیل صاحب یہاں اچھا رنگ و روغن کرنے والے ہی نہیں ملتے" انہوں نے کہا-
یہ وہی وکیل صاحب تھے جن کے ہاں الہیٰ بخش دو بار کام کر چکا تھا "بات تو سچ ہے شیخ صاحب- لیکن مجھے قسمت سے بہت اچھا کاریگر مل گیا تھا- وہ کیفے لبرٹی کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھتا ہے- الہیٰ بخش نام ہے اس کا"
شیخ صاب نے اپنے تاثرات کو چھپانے کی برپور کوشش کی "بھائی قسمت سے اچھا کاریگر مل جائے تو ویسے کھال کھینچ لیتا ہے ۔۔۔۔۔ دہاڑی پہ کام کرواؤ تو کاملمبا کر دیتے ہیں- ٹھیکے پر دو تو حساب گھپلا کر دیتے ہیں"
"الہیٰ بخش کا یہی تو کمال ہے" وکیل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا "اتنا ایمان دار آدمی میں نے کہیں نہیں دیکھا- ٹھیکے پر کامکرنے والامزدور جتنا کام ڈیڈھ دن میں کرتا ہے، الہیٰ بخش ایک دن کی دہاڑی میں کرتا ہے"
"یقین نہیں آتا"
 
"میں خود دو بار اس سے کام کروا چکا ہوں"
اس کے بعد شیخ صاحب نے خود مشاہدہ کیا- الہیٰ بخش صبح نو بجے کام شروع کرتا تھا- چھ بجے وہ کام روک دیتا تھا- یہ معمول کے مطابق تھا لیکن اسے کے کام کی رفتار بہت تیز تھی اور اس کے کام میں غیر معمولی بلکہ فنکارانہ صفائی تھی-
بارہویں دن وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے- الہیٰ بخش، صاحب کو حساب دیے رہا تھا "پینٹ کے ڈبے کی یہ قیمت تو نہیں " شیخ صاحب نے اعتراض کیا!
الہیٰ بخش کے چہرے کی رنگت متغیر ہو گئی- "اس سے کم قیمت میں مجھے تو نہیں مل سکتا سر"
شیخ صاحب اعتماد سے مسکرائے- انہوں نے اپنا وم ورک بہت اچھی طرح کیا تھا "میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں" انہوں نے کہا- "میری معلومات کے مطابق ڈبہ ایک سو دس روپے کا ملتا ہے- تم نے اٹھانوے روپے کا کیسے لے لیا"
اب کے الہیٰ بخش بھی مسکرایا- "دکان والے مجھے جانتے ہیں- میں ہمیشہ وہیں سے لیتا ہوں- وہ مجھے کنسیشن دیتے ہیں"
 
شیخ صاحب بہت خوش ہوئے- عام طور پر کاریگر زیادہ رقم کی رسید بناتے تھے اور پیسہ بچاتے تھے- انہوں نے حساب لگایا تو پتا چلا کہ الہیٰ بخش نے ان کو کم از کم ڈیڈھ سو روپے کی بچت کرائی ہے- انہوں نے اسے اس کی اجرت دی- سو روپے انعام کے طور پر دئیے پھر بولے "دیکھو الہیٰ بخش میں بزنس مین ہوں- نقصان کا سودا کبھی نہیں کرتا- ایماندار آدمی کو اپنا بنانے کی کوشش کرتا ہوں، اس لئے کہ اس میں بھی میرا ہی فائدہ ہے- میری بات غور سے سنو- میں چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے کام کرو"
الہیٰ بخش ہنسنے لگا "رنگ و روغن کا کام کرنیوالے کو آپ ملازم رکھ کے آپ کو کیا فائدہ ہو گا سر"
"میں تمہیں اس حیثیت میں ملازمت کی پیشکش تو نہیں کر رہا ہوں-تمہین ڈرائیونگ آتی ہے ؟"
"جی سر"
"تو بس میں تمہیں ڈرائیور رکھنا چاہتا ہوں" شیخ صاحب نے کہا- سعدیہ کے لئے گاڑی انہوں دو دن پہلے ہی خرید لی تھی-
"مجھ پر تو یہ احسان ہو گا سر"
 
"مگر فائدہ زیادہ مجھے ہو گا- خیر ۔۔۔۔ میں تمہیں نو سو روپے تنخواہ دون گا- رہنے کے لئے کوارٹر، کھانا گھر سے ہی ملے گا- تم صرف سعدیہ کی گاڑی ڈرائیو کرو گے- بولو منظور ہے؟"
الہیٰ بخش کیا بولتا- وہ تو گنگ ہو کے رہ گیا تھا- وہ اور سادی کی گاڑی! وہ اسے ہر جگہ لے جایا اور لیا کرے گا! اتنی قربت ۔۔۔۔ اتنا بڑا اعزاز! یہ تو اس کے خواب و خیال مین بھی نہیں تھا- یہ قسمت میرے ساتھ کھیل رہی ہے- کہاں پہنچا دیا ہے مجھے- اور کہاں تک لے جایا جائے گا- مگر پھر اسے خیال آیا کہ وہ نا شکرا پن کر رہا ہے- اسے تو اس ک توقع سے بہت زیادہ مل رہا ہے ۔۔۔۔
اس کی خاموشی سے شیخ صاحب نے یہ نتیجہ لگایا کہ اسے تنخواہ پر اعتراض ہے "دیکھو میاں، پچیس روپے روز کے حساب سے تمہیں مہینہ بھر بھی کام ملے تو ساڑھے سات سو روپے ملیں گے- میں تمہیں نو سو روپے دے رہا ہوں- اس سے زیادہ نہین دے سکتا"
 
"آپ غلط سمجھ رہے ہیں سر، یہ تنخواہ تو میری سوچ سے بھی زیادہ ہے"
"بس تو پھر ٹھیک ہے- کل مجھے ٹرائی دے دو اور کام شروع کر دو"
"تھینک یو سر"
"جاؤ کرمو تمہیں تمہارا کوارٹر دکھا دے گا- وہاں ضرورت کی ہر چیز موجود ہے"
الہیٰ بخش اٹھنے لگا تو شیخ صاحب نے کہا "ذرا ٹھہرو، تمہیں یاد ہے تم نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا"
"سر ۔۔۔ مجھے یاد نہیں"
"میں یاد دلاتا ہوں- وہ وعدہ تمہاری پیشانی کے زخم کے متعلق تھا"
"آوہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔" الہیٰ بخش ہچکچایا-
"بتانا نہیں چاہتے تو میں زور نہیں دوں گا"
"نہیں سر ایسی بات نہیں- میں ایسا وعدہ کبھی نہیں کرتا جو پورا نہ کر سکوں- مگر آپ کا وقت ضائع ہو گا-
"تم سناؤ"
"یہ ایمانداری کا صلہ ہے یا عشق کا حاصل، آپ خود ہی سن کر فیصلہ کر لیجئے گا-" الہیٰ بخش نے کہا اور کچھ سوچنے لگا- اس کی آنکھیں کہیں دور دیکھتی محسوس ہو رہی تھیں- وہ برسوں پیچھے چلا گیا تھا- اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہنا شروع کیا ۔۔۔۔۔
-------------------------٭---------------------------
 
ان دنوں الہیٰ بخش فوجیوں کی بیرکس میں رنگ و روغن کا کام رہا تھا- اس کے علاوہ بھی کئی کاریگر تھے- وہ سبھی اس سے شاکی تھے- جبکہ فوجی خوش رہتے تھے- ان کے نزدیک وہ مثالی مزدور تھا- اس متصاد رویے کی وجہ مشترک تھی-
الہیٰ بخش کم سخن اور کم آمیز تھا- کام کے وقت میں وہ صرف کام کرتا تھا- یہ نہیں تھا کہ کبھی چائے پینے میں لگ گیا یا کبھی سگریٹ سلگا لی- وہ دوسرے مزدوروں کی طرح گپ شپ میں بھی نہیں لگتا تھا- پھر اس کے کام کی رفتار بھی اپنے ساتھیوں سے زیادہ تھی- اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ دوسروں سے دگنا کام کرتا تھا- اس بنا پر فوجی عزت کرتے تھے- وہ دوسرے مزدوروں کو لعن طعن کرتے تھے کہ وہ الہیٰ بخش کی طرح کیوں کام نہیں کرتے- کئی بار مزدوروں کو تنبیہہ کی جا چکی تھی کہ انہوں نے اپنی کارکردگی نہیں بڑھائی تو انہیں نکال دیا جائے گا- ظاہر ہے کہ اس پر ساتھ کاریگر اس سے خفا تھے-
ایک دن کھانے کے وقفے میں ساتھیوں نے اسے گھیر لیا- "او الہیٰ بخش تو اتنا کام کیوں کرتا ہے؟" ایک نے کہا-
یہ سوال ہی الہیٰ بخش کی سمجھ سے باہر تھا- اس نے کہا " تو کیا کام نہ کیا کروں"
"کام کر لیکن ہماری طرح- ہم بھ تو کام کرتے ہیں"
 
"بھائی، تمہاری میری رفتار میں فرق ہے- بس اتنی سی بات ہے"
"تیرے لئے اتنی سی بات ہے" ایک کاریگر بولا "لیکن اس کی وجہ سے ہم پر تو مصیبت آئی رہتی ہے"
"تو میں کیا کروں" الہیٰ بخش نے بے بسی سے کہا-
'اپنی رفتار کو ہمارے برابر لے آ" تیسرے نے مشورہ دیا-
"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟" الہیٰ بخش نے حیرت سے پوچھا-
"او یار، اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی-" پہلے نے جھنجلا کر کہا- تھوڑی تھوڑی دیر میں گپ شپ کر لیا کر کسی سے"
"پیسے مجھے گپ شپ کرنے کے نہیں کام کرنے کے ملتے ہیں"
"ہمیں بھی معلوم ہے- پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا"
ان دنوں الہیٰ بخش فوجیوں کی بیرکس میں رنگ و روغن کا کام رہا تھا- اس کے علاوہ بھی کئی کاریگر تھے- وہ سبھی اس سے شاکی تھے- جبکہ فوجی خوش رہتے تھے- ان کے نزدیک وہ مثالی مزدور تھا- اس متصاد رویے کی وجہ مشترک تھی-

عشق کا عین - پارٹ 8

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے