عشق کا عین - علیم الحق حقی - قسط نمبر8

Urdu Novel PDF

Urdu Novels PDF - Urdu Novels Online

قسط وار کہانیاں
عشق کا عین - قسط نمبر8
رائیٹر :علیم الحق حقی


 

الہیٰ بخش کم سخن اور کم آمیز تھا- کام کے وقت میں وہ صرف کام کرتا تھا- یہ نہیں تھا کہ کبھی چائے پینے میں لگ گیا یا کبھی سگریٹ سلگا لی- وہ دوسرے مزدوروں کی طرح گپ شپ میں بھی نہیں لگتا تھا- پھر اس کے کام کی رفتار بھی اپنے ساتھیوں سے زیادہ تھی- اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ دوسروں سے دگنا کام کرتا تھا- اس بنا پر فوجی عزت کرتے تھے- وہ دوےسرے مزدوروں کو لعن طعن کرتے تھے کہ وہ الہیٰ بخش کی طرح کیوں کام نہیں کرتے- کئی بار مزدوروں کو تنبیہہ کی جا چکی تھی کہ انہوں نے اپنی کارکردگی نہیں بڑھائی تو انہیں نکال دیا جائے گا- ظاہر ہے کہ اس پر ساتھ کاریگر اس سے خفا تھے-
ایک دن کھانے کے وقفے میں ساتھیوں نے اسے گھیر لیا- "او الہیٰ بخش تو اتنا کام کیوں کرتا ہے؟" ایک نے کہا-
یہ سوال ہی الہیٰ بخش کی سمجھ سے باہر تھا- اس نے کہا " تو کیا کام نہ کیا کروں"
"کام کر لیکن ہماری طرح- ہم بھ تو کام کرتے ہیں"
"بھائی، تمہاری میری رفتار میں فرق ہے- بس اتنی سی بات ہے"
"تیرے لئے اتنی سی بات ہے" ایک کاریگر بولا "لیکن اس کی وجہ سے ہم پر تو مصیبت آئی رہتی ہے"
"تو میں کیا کروں" الہیٰ بخش نے بے بسی سے کہا-
'اپنی رفتار کو ہمارے برابر لے آ" تیسرے نے مشورہ دیا-
"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟" الہیٰ بخش نے حیرت سے پوچھا-
"او یار، اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی-" پہلے نے جھنجلا کر کہا- تھوڑی تھوڑی دیر میں گپ شپ کر لیا کر کسی سے"
"پیسے مجھے گپ شپ کرنے کے نہیں کام کرنے کے ملتے ہیں"
"ہمیں بھی معلوم ہے- پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا"
"تمہیں نہیں پڑتا ہو گا" الہیٰ بخش نے درشت لہجے میں کہا "میں حلال کی کھانا چاہتا ہوں"
"تو ہم کیا حرام کی کھاتے ہیں" ایک کاریگر آپے سے باہر ہونے لگا
"یہ تو مجھے معلوم نہیں- نہ مجھے اس کی فکر ہے" الہیٰ بخش نے باپ کا سمجھایا ہوا دہرایا " میں صرف اپنی فکر کرتا ہوں"
"دیکھ بھائی مان جا" ایک اور کاریگر نے تحمل سے کہا "تیری وجہ سے ہم ذلیل ہوتے ہیں- ہماری روزی کھوٹی بھی ہو سکتی ہے"
"کیا میں تمہاری وجہ سے اپنی عاقبت خراب کر لوں ؟" الہیٰ بخش نے کرخت لہجے میں کہا "نہیں- یہ نہیں ہو سکتا"
سب کاریگر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے "دیکھ الہیٰ بخش، دریا میں رہ کر مگر مچھ سے دشمنی نہیں لیتے" ایک جوشیلے مزدور نے تنبیہہ کی-
"بات سنو میں انچارج صاحب کو سمجھا دوں گا کہ تمہاری اور میری رفتار میں فرق ہے- اسے مسئلہ نہ بنائییں ورنہ میں کام چھوڑ دوں گا- اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا مجھے میرے باپ نے ہمیشہ رزق حلال کمانے کی تاکید کی ہے"
اس پر سبھی کاریگر بوکھلا گئے- جانتے تھے کہ انچارج سمجھ جائے گا کہ وہ لوگ الہیٰ بخش کو تنگ کر رہے ہیں ۔۔۔۔ اور وہ الہیٰ بخش کو کام بھی نہیں چھوڑنے دے گا- چاہے باقی سب کی چھٹی کرا دے-
"نہیں بھئی۔۔۔۔۔ الہیٰ بخش تجھے بات کرنے کی ضرورت نہیں" پہلے نے کہا-
"اچھا ہوتا کہ تو ہماری بات مان لیتا" ایک اور بولا-
"چلو میں کام ہی چھوڑ دیتا ہوں" الہیٰ بخش نے بے بسی سے کہا- "اللہ رزق دینے والا ہے"
"یہ غلطی بھی نہ کرنا" تیسرا بولا- وہ سبھی جانتے تھے کہ انچارج کو پتا چل جائے گا کہ ان لوگوں نے الہیٰ بخش پر دباؤ ڈالا ہے- پھر ان کا روزگار بھی جائے گا اور وہ بلیک لسٹ بھی ہو جائییں گے- "ٹھیک ہے یار جو جی میں چاہے کر- ہم کچھ نہیں کہتے"
بات آئی گئی ہو گئی- تین چار دن بعد انچارج نے ایک کاریگر کی چھٹی کرا دی-
اسے شکائت تھی کہ وہ پورا کام نہیں کر رہا ہے " تم سب لوگ سدھر جاؤ" اس نے باقی کاریگروں سے کہا۔۔"الٰہی بخش بھی تو کام کرتا ہے۔"
"سر جی آپ مجھے بیچ میں نہ لائیں۔"الٰہی بخش نے انچارج سے بڑی عاجزی سے کہا۔َ"مجھے اللہ نے زیادہ رفتار دی ہے تو اس میں ان لوگوں کا قصور نہیں۔۔یہ اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرتے ہیں اور میں اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرتا ہوں۔۔"
"بات اللہ کی دی ہوئی رفتار کی نہیں" انچارج نے کرخت لہجے یں کہا۔۔"یہ حرام خور ہیں۔۔ جان بوجھ کر کم کام کرتے ہیں۔۔"
"سر جی پھر میں کام چھوڑ دیتا ہوں"
"کام چھوڑ کر تو دیکھ۔۔۔گھر سے اٹھوا لوں گا تجھے"
اگلے روز کاریگر بہت پریشان تھے۔۔ان کا ایک ساتھی نکالا جا چکا تھا۔۔اوروں کی باری بھی آ سکتی تھی۔۔وہ تیز ہاتھ چلانے کی کوشش کر رہے تھے۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں اس کی عادت نہیں تھی۔۔انہوں نے الٰہی بخش سے بات کرنا چھوڑ دیا۔۔ ان کے خیال سے وہ بد رنگ تھا۔۔
ان میں ایک سید کاریگر بھی تھا۔۔ اس کا نام سلمان شاہ تھا۔۔وہ بھی کم آمیز تھا۔۔ کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔اس روز سب کھانے کو نکلے تو سب نے سلمان شاہ کو پکڑ لیا۔۔"دیکھا شاہ جی۔۔ یہ الٰہی بخش کیا کر رہا ہے ہمارے ساتھ۔۔"لال خان نے بات شروع کی۔۔
"کیا ہوا؟ خیر تو ہے؟" سلمان شاہ نے پوچھا۔۔
"کل اصغر کی چھٹی کرا دی اس نے"
"اچھا۔۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔۔"سلمان شاہ گزشتہ روز کام پر نہیں آیا تھا۔۔
"ہوا کیا؟؟"
"وہی شکائت شاہ جی کہ ہم لوگ کام چوری کرتے ہیں۔۔"
تو اس سے الٰہی بخش کا کیا تعلق؟؟"
"سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔۔"لال خان نے کہا۔۔اس وقت وہی سب کی نمائندگی کر رہا تھا۔۔۔"وہی اپنی ایمانداری کا چرچا کرتا رہتا ہے۔۔باقی سب حرام خور ہیں۔۔"
"سب ہوں گے۔میں نہیں ہوں" سلمان شاہ نے اکڑ کر کہا۔۔۔اور یہ سچ تھا۔۔ سلمان شاہ بھی رزقِ حلال کا قائل تھا۔۔
"گستاخی معاف شاہ جی۔۔" شکور بولا "الٰہی بخش کے سامنے تو سب ہی خرام خور ہیں۔۔ہم دن میں ایک دیوار کرتے ہیں۔آپ ڈیڑھ کرتے ہو الٰہی بخش دو دیواریں نمٹا دیتا ہے۔۔"
"تو کیا ہوا۔۔ میں حرام خوری تو نہیں کرتا۔۔ الٰہی بخش کا ہاتھ تیز چلتا ہے۔اس لیئے وہ زیادہ کام کر لیتا ہے۔۔"
"ہاتھ تیز نہیں چلتا شاہ جی۔ وہ ہمیں ذلیل کرانے کے لیئے تیز ہاتھ چلاتا ہے۔۔"لال خان بولا۔۔"ہمارا تو کچھ نہیں۔۔پر شاہ جی آپ تو عزت والے لوگ ہو۔۔الٰہی بخش کو سمجھاؤ نا۔۔"
الٰہی بخش تو صاف کہتا ہے کہ اس کے سوا سب بے ایمان اور حرام خور ہیں۔۔"شکور نے آگ لگانے کی کوشش کی۔۔
سلمان شاہ آگ بگولا ہو گیا۔۔"کس کی مجال ہے کہ میرے بارے میں ایسی بات کہے۔َ"
"زبان سے کہنا ضروری تو نہیں ہوتا با جی۔۔"یار محمد نے کہا۔۔" الٰہی بخش اپنے عمل سے یہی کہہ رہا ہے۔۔"
"اور کسی دن انچارج صاحب بھی کہہ دیں گے۔۔"لال خان بولا۔۔
"اچھا اب بس کر دو" سلمان شاہ غرایا۔۔لیکن اس سے کھانا نہیں کھایا گیا۔۔بے ایمانی اور حرام خوری کا طعنہ اس کے لیئے بہت بڑا تھا۔۔
الٰہی بخش کو ان سب باتوں کا کچھ علم نہیں تھا۔۔وہ اس شام کام سے فارغ ہو کر بازار چلا گیا۔۔بازار مٰں بھی زیادہ دیر نہیں لگی۔۔امید تھی کہ مغرب سے پہلے وہ گھر جائے گا۔۔وہ پھیکی دھوپ میں ناڑی کے کچے رستے پرتیز قدم بڑھاتا چل رہا تھاکہ دائیں جانب کے کھیتوں کی طرف سے اچانک ہی سلمان شاہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔اس کے چہرے پر گھمبیرتا تھی ور ہاتھ میں کلہاڑی۔۔
الٰہی بخش نے چونک کر اسے دیکھ اور احتراماً رک گیا۔۔سلمان شاہ کی وہ بہت عزت کرتا تھا۔۔اس لیئے کہ سلمان شاہ خود بھی بہت محنتی اور ایماندار آدمی تھا۔۔اس میں غرور بھی نہیں تھا۔۔
"سلام علیکم با جی۔۔" الٰہی بخش نے کہا۔۔
"سلمان شاہ نے روکھے لہجے سے سلام کا جواب دیا۔۔پھر بولا۔"تجھ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔۔اس لیئے یہاں تیرے انتظار میں کھڑا ہوں۔۔"
"مجھے گھر سے بلوا لیا ہوتا با جی۔۔" الٰہی بخش بولا۔۔"خیر حکم کریں کیا بات ہے؟"
"پہلے تو ایک بات پوچھنی ہے تجھ سے۔۔یہ بتا۔۔میں تیرے خیال میں بے ایمان،حرام خور ہوں؟کام چوری کرتا ہوں؟؟"
"توبہ با جی توبہ" الٰہی بخش نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔"آپ کی ایمان داری تو مثالی ہے"
سلمان شاہ کچھ نرم پڑ گیا۔۔"تُو چاہتا ہے کہ دوسرے مجھے بے ایمان اور حرام خور سمجھیں؟"
"کیسی بات کرتے ہیں شاہ صاحب۔۔ میں بہت بہت گنہگار ہوں۔۔لیکن ایسے گناہ کرنے والا آدمی نہیں"
"تو پھر تُ مجھ سے زیادہ کام کیوں کرتا ہے؟؟"سلمان شاہ نے کڑے لہجے میں کہا۔۔
"دیکھیں شاہ جی مقررہ وقت میں آپ بھی ایمانداری سے کام کرتے ہیں اور میں بھی۔۔ کم کی مقدار کا اس سے کیا تعلق۔۔"
"الٰہی بخش تُو بس میری بات سمجھنے کی کوشش کر"
"باء جی آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں" الٰہی بخش نے بے حد رسان سے کہا۔۔"دیکھیں دوسرے لوگ آپ سے بھی کم کام کرتے ہیں۔۔اگر وہ آپ سے مطالبہ کریں کہ آپ انہیں بے ایمانی کے الزام سے بچانے کے لیئے اپنی استعداد سے کم کام کریں تو آپ کیا کریں گے؟؟"
"کس کی مجال ہے جو مجھ سے یہ بات کرے۔۔؟"سلمان شاہ کو جلال آ گیا۔۔
"بات مجال کی نہیں ۔۔آپ صرف فرض کر لیں۔۔"
"دیکھ الٰہی بخش اب میں تجھے حکم دے رہا ہوں کہ تُو مجھ سے زیادہ کام نہیں کرے گا۔۔"
"با جی سرکار۔۔ یہ حکم مانوں گا تو میں بے ایمان نہیں ہو جاؤں گا؟؟میرے حلال رزق میں حرام نہیں مل جائے گا؟؟ با جی سرکار۔۔اللہ کا حکم تو سب سے بڑا ہے۔۔"
"میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔۔"سلمان شہ نے گرج کر کہا۔۔"تجھے میری بات ماننا ہو گی ورنہ۔۔"اس نے کلہاڑی بلند کی۔۔
"دیکھیں شاہ جی ۔۔ آپ اپنی ذمہ داری کا بھی خیال کریں۔۔" الٰہی بخش نے عاجزی سے کہا۔۔"میں تو آپ کے سامنے اپنے بچاؤ کے لیئے بھی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔۔اس لیئے کہ میرے باپ نے مجھے یہی سکھایا ہے۔۔۔تو میرا بچاؤ بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔آپ تو آلِ رسول ﷺ ہیں۔۔آپ مجھے بے ایمانی اور حرام خوری کے لیئے کیسے کہہ سکتے ہیں۔"
لیکن مشتعل سلمان شاہ اب کچھ سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔۔۔"میں تیرا لیکچر نہیں سنوں گا الٰہی بخش۔ مجھے ہاں یا نہ میں جواب دے۔۔۔"
"مجھے موت کا خوف نہیں ہے شاہ جی۔۔" اب الٰہی بخش کا لہجہ بھی سخت ہو گیا۔۔"اللہ جانتا ہے میں آپ کو زیادتی سے روکنے کی طاقت بھی رکھتا ہوں،لیکن بزرگوں کی روایت اور لحاظ کا تقاضا ہے کہ میں کچھ نہ کروں۔۔"
"جواب دے ہاں یا نہ؟؟"
"جواب آپ کو معلوم ہے۔۔ میں آپ کی یہ بات نہیں مانوں گا۔۔"
سلمان شاہ کا کلہاڑی والا ہاتھ نیچے آ رہا تھا۔۔
الہیٰ بخش نے سر اٹھا کر اسے دیکھا- ایک لمحے کو اس کے جی میں آئی کہ ہاتھ بڑھا کر کلہاڑی کو پکڑ لے اور وہ ایسا کر بھی سکتا تھا- مگر اس کے اندر ایسی کوئی تحریک نہیں تھی- وہ سر جھکانے لگا- یہی وجہ تھی کہ کلہاڑی اس کے چہرے پہ نہیں لگی- البتہ اس کی پیشانی میں آگ اتر گئی-
سلامن نے فوارے کی شکل میں ابلتے خون کو دیکھا تو اس کا حوصلہ جواب دے گیا- غصہ سرد ہو گیا- اب اس کو صرف یہ خیال تھا کہ وہ بہت خطرناک حرکت کر بیٹھا ہے، اور اس کا انجام نہ جانے کیا ہو گا-
الہیٰ بخش چکراتا ہوا نیچے بیٹھتا گیا-اس کا ایک ہاتھ سختی سے اپنی پیشانی پر جما تھا جیسے خون روکنے کی کوشش کر رہا ہو- مگر خون کہاں رکتا ہے- گاڑھا گاڑھا خون اس کی بھینچی ہوئی انگلیوں کے درمیان سے بھی رس رہا تھا- سلمان شاہ نے جو خون کا فوارہ چوٹتے ہوئے دیکھا تو اس کے اوسان جواب دے گئے- اسے احساس ہوا کہ وہ تو بہت ہی سنگین حرکت کر بیٹھا ہے- اضطراری طور پہ وہ پلٹا اور بھاگ کھڑا ہوا-
جانے وہ چند لمحے تھے یا کئی گھنٹے، بہرحال الہیٰ بخش وہیں پڑا رہا- پھر اسے قدموں کی آہٹیں سنائی دیں- "ارے یہ تو بہت زخمی ہے" کسی نے کہا- الہیٰ بخش کو وہ آواز بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی- کسی نے اسے سہارا دے کر بٹھایا "خون رکنا تو مشکل ہے" اسی آواز نے کہا " چادر کس کر باندھ دیتا ہوں آگے اللہ کی مرضی"
اس کے سر پہ چادر کس کر باندھ دی گئی "بخشے تو چل سکتا ہے؟" اس بار دوسری آواز نے پوچھا-
الہیٰ بخش اثبات میں سر ہلا رہا تھا کہ پہلی آواز نے دوسری کو ڈانٹ دیا- "کیسی باتیں کرتے ہو، اسے اٹھا کے لے جانا پڑے گا"
انہوں نے الہیٰ بخش کو اٹھایا- اسی دوران الہیٰ بخش کو ہوش و حواس اس کا ساتھ چھوڑ گئے- اسے نہیں معلوم کہ وہ اسے کس طرح لے کر گئے- ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھا- "یہ پولیس کیس ہے" ڈاکٹر کہہ رہا تھا- "پہلے تھانے لے جاؤ- رپورٹ درج کراؤ- پھر پٹی ہو گی"
"چاہے اس دوران یہ مر جائے؟" پہلی آواز نے تلخ لہجے میں کہا-
"ہاں چاہے یہ مر جائے- قانون تو قانون ہے"
"عجیب قانون ہے سزا مارنے والے کو ملنی چاہئے- یہاں سزا اسے مل رہی ہے جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے- آپ کے اس قانون سے ظالم کا کیا بگڑے گا- ہاں مظلوم بچ بھی سکتا ہو تو مر جاۓ گا-"
"قانون میں نے نہیں بنایا" ڈاکٹر نے نرم لہجے میں کہا "لیکن میں اس کے خلاف کروں گا تو پھنسوں گا"
"اور یہ مر گیا تو آپ کے ضمیر پر بوجھ نہیں ہو گا "
ڈاکٹر سوچ میں پڑ گیا- اس نے الہیٰ بخش کی پیشانی پہ بندھا ہوا صافہ کھول کر زخم کا معائنہ کیا اور نرم پڑ گیا- خون پہلے ہی بہت ضائع ہو چکا تھا- اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا "ٹھیک ہے میں مریض کی پٹی کرتا ہوں- تم ایک کام کرو- تھانہ یہاں قریب ہی ہے- ایس ایچ او شاہ صاحب میرے دوست ہیں- اس سے جا کر کہو میں نے انہیں بلایا ہے- میرا نام ڈاکٹرجمیل ہے"-
فاضل تھانے چلا گیا- ڈاکٹر الہیٰ بخش کے لئے مصروف ہو گیا-
--------------------------٭-----------------------
چنز گھنٹے بعد الہیٰ بخش تھانے میں ایس ایچ او ابرار شاہ کے سامنے پیش تھا- ڈاکٹر نےکہہ دیا تھا کہ اسے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں- زخم گہرا ضرور ہے- لیکن خطرناک ہر گز نہیں ہے- اس نے بتایا کہ زخم مہلک بھی ثابت ہو سکتا تھا- دماغ پہ بھی اثر پڑ سکتا تھا- بینائی، سماعت یا قوت شامہ بھی ختم ہو سکتی تھی لیکن ایسا ہوا نہیں- البتہ زخم کے معاملے میں احتیاط کرنی ہو گی اور پٹی باقاعدگی سے کرانا ہو گی-
"اب کیسا محسوس کر رہے ہو" ایس ایچ او نے مشفقانہ لہجے میں الہیٰ بخش سے پوچھا-
"ٹھیک ہوں شاہ جی- بس ذرا کمزوری ہے- چکرآتے ہیں" الہیٰ بخش نے جواب دیا-
"ابھی تمہاری دوائیں آ جائیں گی- یہ بتاؤ، بات کر سکتے ہو مجھ سے؟"
"جی شاہ صاحب"
ابرار شاہ نے پیڈ سامنے گھسیٹا اور پینسل سنبھال لی- "تمہیں کس نے مارا ہے"
"سلیمان شاہ نے"
ابرار شاہ چونکا- سلیمان شاہ اس کا دور کا رشتے دار ہوتا تھا- سوال کر کے اس نے اس بات کی تصدیق بھی کر لی- "ہوا کیا تھا؟"
الہیٰ بخش نے پوری تفصیل بتا دی-
ابرار شاہ نے سر کو تفہیمی جنبش دی "تمہیں انساف ملے گا- بے فکر رہو" پھر اس نے آواز لگائی "بہرام خان ۔۔۔۔ تین کانسٹیبل ادھر بھیج دو"
چند لمحے بعد تین کانسٹیبل اس کے سامنے کھڑے تھے- "نوروز۔۔۔ تم تینوں جاؤ اور شاہ کو پکڑ لاؤ- ہتھکڑی لگا کر لانا ہے اسے- کوئی رعایت نہیں کرنی" یہ کہ کر وہ ان تینوں کو پتا سمجھانے لگا- الہیٰ بخش بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا- اسے یقین نہیں تھا کہ اسے انصاف مل سکے گا- سادات کی ویسے ہی اتنی عزت ہے کہ ان پہ کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا- پھر یہاں تو منصف خود بھی سادات ہی میں سے تھا- ایسے میں انصاف کی امید وہ کیا کرتا-
تینوں کانسٹیبل چلے گئے- "تم یہاں بیٹھ سکتے ہو" ابرار شاہ نے کہا- طبعیت زیادہ خراب ہو تو گھر چلے جاؤ"
"میرا رکنا ضروری ہے شاہ جی سرکار؟
"ضروری تو نہیں لیکن رک جاؤ تو میں تمہیں انصاف کا تماشا دکھاؤں گا-"
"میں رکوں گا باجی" الہیٰ بخش نے زخمی لہجے میں کہا- اس کا دل بہت دکھا ہوا تھا- اس نے سلیمان شاہ کو کتنی معقولیت سے بات سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن سلیمان شاہ کو نام و نسب کے گھمنڈ نے اندھا کر دیا تھا- اس نے یہ تک خیال نہیں کیا کہ اس کا حکم اللہ کے حکم سے متصادم ہے اور اللہ کے حکم سے بڑھ کر کوئی حکم نہیں- الہیٰ بخش جانتا تھا کہ اس کی کوئی غلطی نہیں- رائی برابر بھی نہیں- یہ تالی ایک ہاتھ سے بجی ہے- سلیمان شاہ نے زیادتی کی ہے اور اس کی سزا اس کو اس کے سامنے ملنی چاہئے۔۔۔۔۔
اسی لمحے اس کا باپ پیر بخش ہڑبڑایا ہوا ابرار شاہ کے کمرے میں داخل ہوا-"کیا ہوا میرے بیٹے کو؟" وہ الہیٰ بخش کی طرف لپکا " یہ کیسے ہو گیا- مجھے فاضل نے بتایا آ کر-"
الہیٰ بخش پتھر کا بت بنا اسے دیکھتا رہا- اس نے کوئی جواب نہیں دیا-
"زخم گہرا ہے لیکن خطرناک نہیں- خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہارا بیٹا بچ گیا" ابرار شاہ نے کہا-
پیر بخش نے چونک کر اسے دیکھا- اسے سلام کیا- "معاف کرنا مائی باپ- اس کی پریشانی میں آپ کا خیال ہی نہیں رہا" وہ پھر الہیٰ بخش کی طرف مڑا "کس نے مارا ہے تجھے، مجھے بتا- میں خون پی جاؤں گا اس کا"
"نہیں پی سکو گے ابا" الہیٰ بخش نے سرد لہجے میں کہا- "سلیمان شاہ نے میرے سر پہ کلہاڑی ماری ہے"
پیر بخش کے چہرے پہ زلزلے کا تاثر ابھرا۔

پیر بخش کے چہرے پہ زلزلے کا تاثر ابھرا- "تو یہ ۔۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے بیٹے- تجھے غلط فہمی ہوئی ہے"
"ایسا ہی ہوا ہے ابا- مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی- مارنے سے پہلے بہت دیر تک وہ مجھ سے باتیں کرتا رہا تھا"
"بیٹے ۔۔۔ اندھیرے میں تو ٹھیک سے نہیں دیکھ سکا ہو گا" پیر بخش نے ڈوبتے لہجے میں کہا-
"ابا ۔۔۔ اندھیرا نہیں تھا اور میں نے کہا نا کہ اس نے پہلے مجھ سے باتیں کی تھیں "
ییر بخش کا چہرہ ایسا پیلا ہو گیا جیسے کسی نے اس کے جسم ک اسارا خون نچوڑ لیا ہو-
"جاؤ ابا، اب اس کا خون پہ جاؤ- اس نے مجھے بلا وجہ مارا ہے-' الہیٰ بخش نے کہا- ییر بخش نے جیسے سنا ہی نہیں- وہ ابرار شاہ کی طرف مڑا
"مائی باپ، ابھی پرچہ تو نہیں کاٹا ہے آپ نے ؟"
"ابھی تو نہیں کاٹا ہے- کاٹنے والا تھا کہ تم آ گئے"
"اللہ کا شکر ہے" پیر بخش نے دل کی گہرائیوں سے کہا- "شاہ جی یہ پرچہ نہیں کاٹنا- کاٹنا تو اس میں شاہ جی کا نام نہیں درج کرنا"
"یہ کیسے ہو سکتا ہے"
"حملہ آور نا معلوم دکھا دینا۔۔۔"
"لیکن حملہ آور نا معلوم نہیں ہے" الہیٰ بخش نے احتجاج کیا "میں سلیمان شاہ کو جانتا ہوں"
"تو چپ رہ" پیر بخش نے اسے ڈپٹا- پھر وہ ییر بخش کی طرف مڑا- "صاحب جی، خدا کے لئے پرچہ نہ کاٹنا" اس نے التجا کی-
"پرچہ تو کٹے گا بڑے میاں" ابرار شاہ نے کہا "یہ سنگین معاملہ ہے"
پیر بخش تیزی سے اٹھا اور اپنی پگڑی ایس ایچ او کے قدموں میں ڈال دی "صاحب جی، میری عزت کا خیال کریں۔۔۔۔"
ابرار شاہ کے چہرے پہ حیرت تھی "آپ مجرم کو بچانے کی بات کرتے ہیں جبکہ جرم آپ کے سگے بیٹے کے خلاف ہوا ہے"
"کوئی جرم نہیں ہوا صاحب جی، یہ تو گھر کی بات ہے- آقا اور غلام کا معاملہ ہے- آقا غلامکو مارے تو یہ جرم نہیں ہوتا" پیر بخش نے کہا اور گڑگڑانے لگا- "صاحب جی، میری عاقبت بچا لو صاحب جی- حضور صہ کی اولاد کے خلاف مدعی بنوں گا تو قیامت کے دن ان کے پاؤں پکر کر شفاعت کے لئے کیسے کہوں گا صاحب جی، کیا منہ لے کر جاؤں گا صاحب جی۔۔۔۔"
ابرار شاہ سناٹے میں آ گیا- پیر بخش کے لہجے میں ایسی شدت تھی کہ وہ دہل کر رہ گیا تھا- الہیٰ بخش جو خاموشی سے یہ سب کچھ سن رہا تھا، اب چپ نہ رہ سکا- "ابا ۔۔۔ میں مر بھی سکتا تھا- جا کر ڈاکٹر سے پوچھ لو"
"لیکن تو مرا تو نہیں بیٹے، اللہ نے تجھے اسی لئے بچا لیا کہ تجھ پہ اٹھنے والا ہاتھ نبی پاک صہ کی اولاد کا تھا"
"نہیں ابا۔۔۔ نبی پاک صہ کی اولاد پر کسی انسان کا خون معاف نہیں ہے"
پیر بخش دونوں ہاتھوں سے اپنے رخسار پیٹنے لگا- "کفر مت بک- اپنے قد سے بڑی بات اچھی نہیں ہوتی، اور وہ بھی اتنی بڑی بات"
"اچھا بڑے میاں اگر تمہارا بیٹا مر جاتا تو کیا کرتے" ابرار شاہ نے پوچھا
"میں تب بھی کہتا کہپرچہ نہ کاٹیں- میں خون معاف کر دیتا"
"لیکن پرچہ تو کٹے گا بڑے میاں!"
"میں نے اپنی پگڑی آپ کے قدموں میں ڈال دی ہے صاحب جی"
"مگر تمہارا بیٹا پرچہ کٹوانا چاہتا ہے اور میں بھی مجرم کو رعایت دینے کے حق میں نہیں ہوں"
"میں اس کا باپ ہوں صاحب جی" پیر بخش نے افسردگی سے کہا"اس کی بات میری بات سے بڑی نہیں"
"آس کی بات زیادہ بڑی ہے بڑے میاں" ایس ایچ او نے سرد لہجے میں کہا- یہ مدعی ہے تم نہیں- فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے-"
پیر بخش بے بسی کے احساس سے شل ہو کر رہ گیا- "خدا کے لئے صاحب جی"
"دیکھو بڑے میاں، میں بھی سید ہوں-" ابرار شاہ نے کہا- "یہ ملازمت میرے لئے پل صراط ہے- اور میں کسی کو رعایت دینے کا قائل نہیں- پھر یہ تو قانون کا معاملہ ہے- مدعی جو چاہے رپورٹ درج کروا سکتا ہے-"
پیر بخش الہیٰ بخش کی طرف مڑا- "دیکھ بیٹے میں تیرا باپ ہوں یکن اس معاملے میں تیرے پاؤں بھی پڑ سکتا ہوں"
"ابا، بے کار ضد نہ کرو- اسے سزا ملنی ہی چاہئے" الہیٰ بخش بولا
"اب کیا بات منوانے کے لئے اپنی پگ تیرے قدموں میں ڈالنی پڑے گی" الہیٰ بخش نے دلگرفتگی سے کہا "کاش تو مر جاتا- تب تو مدعی میں ہی ہوتا نا- کاش ایسا ہی ہوا ہوتا"
الہیٰ بخش کے جسم میں واضح طور پہ تھرتھری سی دوڑ گئی- "ٹھیک ہے ابا، میں اس کے نام کا پرچہ نہیں کٹواتا"
پیر بخش اس کی طرف بڑھا- "میں تیرا شکر گزار ہوں بیٹے۔۔۔ "اس نے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرنا چاہا لیکن بیٹے نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا- "تو مجھ سے بہت خفا ہے بیٹے اس بات پر" پیر بخش نے افسردگی سے کہا- "لیکن حشر کے دن تو سرخرو ہو گا بیٹے- تب میری بات تیری سمجھ میں آئے گی"
ابرار شاہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپانے کی کوشش کر رہا تھا- "ٹھیک ہے بڑے میاں تم جیت گئے" اس نے کہا "لیکن اس سید زادے کو ایک سبق تو میں نے دے ہی دیا ہے- عزت کا سبق جو صرف بے عزتی سے ملتا ہے- ابھی وہ ہتھکڑیاں لگائے ہوئے یہاں آئے گا اور راستے میں سب اس کا تماشا دیکھیں گے-"
یہ سن کر پیر بخش کا چہرہ فق ہو گیا- "یہ آپ کیا کیا باجی!" اس نے تڑپ کر کہا "ہم گنھگار تو کہیں کے نہیں رہے-" اس نے ملامت آمیز نظروں سے بیٹے کو دیکھا- "سچ ہے کہ اولاد سب سے بڑی آزمائش ہوتی ہے- اولاد آدمی کو جنم رسید بھی کرا دیتی ہے" یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے چلا گیا-
اس کے جانے کے بعد ابرار شاہ نے حیرت سے کہا- "تمہارا باپ اس دنیا کا آدمی تو نہیں لگتا"
"ابا کا خیال ہے کہمیں اس کا بیٹا نہیں- کسی نے بدل دیا تھا مجھے" الہیٰ بخش نے تلخی سے کہا-
پیر بخش ہانپتا کانپتا ناڑی کے کچے راستے پر چلا جا رہا تھا- اسے کچھ ہوش نہیں تھا اسئ لگ رہا تھا کہ کوئی اس کا دل مٹھی میں لے کر بھینچ رہا ہے- اس کے ہونٹوں پر بس ایک دعا تھی- سلیمان شاہ کی رسوائی سے پہلے وہ اس تک پہنچ جائے- اس کا ہتھکڑیوں والا تماشا نہ شروع ہوا ہو-
لیکن دعائیں ایسے کہاں قبول ہوتی ہیں-
اسے دور سے پولیس والوں کے ساتھ سلیمان شاہ آتا دکھائی دیا- ایک پولیس والا آگے چل رہا تھا- دو اس کے دائیں بائیں تھے-
پیر بخش کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا- اس پر لرزہ طاری ہو گیا- اسے لگا کہ سامنے کربلا ہے اور وہ بدعہد کوفی ہے جس نے نبی صہ کے چہیتے نواسے کو پیاس کے صحرا میں دھکیل دیا ہے- اس کے دل میں بس ایک خیال تھا کہ قیامت کے دن وہ کس منہ سے حضور صہ کے حضور پیش ہو گا- آپ صہ پوچھیں گے تو کیا جواب دے گا-
وہ بے تاب ہو کر ایسا دوڑا کہ زندگی میں کبھی نہیں دوڑا تھا- وہ ان کے پاس پہنچ کر رکا اور بے تابانہ سلیمان شاہ کے ہتھکڑی لگے ہاتھ چومنے لگا- "باجی میرے سرکار، آپ کو آپ کے بزرگو کی قسم ہمیں معاف کر دینا"
سلیمان شاہ کا بے تاثر چہرہ پتھر کابنا ہوا معلوم ہو رہا تھا- اسے جیسے گرد و پیش کا ہوش ہی نہیں تھا- توہین اور بے عزتی کے احساس نے اسے شل کر کے رکھ دیا تھا-
"مجھے پتا نہیں تھا شاہ جی، ورنہ یہ سب کچھ نہ ہوتا- وہ میرا بد نصیب بیٹا کچھ نہیں جانتا- اس نے اپنی عاقبت بھی خراب کی اور میری بھی۔۔۔۔"
اچانک سلیمان شاہ جیسے کسی سحر سے آزاد ہو گیا "نہیں چاچا پیر بخش، غلطی میری تھی الہیٰ بخش کی نہیں" اس نے شرمساری سے کہا- "میں سزا کا مستحق ہوں- مجھے سزا ملنی چاہئے- میں نے ظلم کیاہے- میری آنکھوں پر پٹی پڑ گئی تھی"
"نہیں باجی، پٹی تو میرے بیٹے کی عقل پر پڑی تھی"
"او بابا جی ہٹو ایک طرف" آگے چلنے والے نوروز خان نے ڈپٹ کر کہا- "ہمیں تھانے پہنچنا ہے"-
"ہٹتا ہوں- آپ ان کی ہتھکڑیاں تو کھول دو"
"دماغ خراب ہوا ہے" نوروز خان بگڑ گیا- تھانے دار صاحب کا حکم ہے، ہتھکڑیاں تو اب وہی کھول سکتے ہیں- ہٹ جا بابا"
"کیوں گناہ کماتے ہو حوالدار- ان کے ہاتھ کھول دو- یہ بھاگنے والے نہیں- میں ضمانت دیتا ہوں ان کی-"
"لو ضمانت لینے والے کو تو دیکھو ذرا" نوروز خان نے حقارت سے کہا-
"میرا حق ہے یہ-" پیر بخش کا لہجہ بدل گیا- "جس سے ان کا جھگڑا ہوا ہے وہ میرا ہی بیٹا ہے"
نوروز خان کا منہ حیرت سے کھل گیا- - -
نوروز خان کا منہ حیرت سے کھل گیا- وہ ہتھکڑیاں کھول دیتا لیکن جانتا تھا کہ ابرار شاہ کتنا سخت اور اصول پرست آدمی ہے- چنانچہ اس نے نرم لہجے میں کہا "بابا جی، یہ میرے اختیار سے باہر ہے مجھے معافی دو"
"اچھا۔۔۔ چلو ہتھکڑیاں مجھے لگا دو" پیر بخش بولا
"او بابا، جان چھوڑ دو میری- میں مجبور ہوں، تھانے دار تو مجھے جان سے مار دے گا"
"باجی کے ہتھکڑیاں لگی رہیں گی تو میں اپنی جان دے دوں گا" یہ کہہ کر پیر بخش نے زمین سے سر ٹکرانا شروع کر دیا- تینوں کانسٹیبل بوکھلائے ہوئے اسے دیکھتے رہے- سلیمان شاہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس پر تو جیسے جنون طاری ہو گیا تھا- دیکھتے ہی دیکھتے اس کی پیشانی سے خون نکلنے لگا-
"کھول دو یار- اب جو ہو گا دیکھا جائے گا" نوروز خان نے اپنے ساتھیوں سے بے بسی سے کہا- پھر وہ پیر بخش کی طرف مڑا "چل اٹھ جا بابا"
-------------------٭----------------
راضی نامہ ہو چکا تھا- الہیٰ بخش اور اس کا باپ جا چکے تھے- راضی نامہ مکمل طور پر یکطرفہ تھا- ابرار شاہ نے کوشش کی تھی کہ الہیٰ بخش کا دوا دارو کا خرچہ سلیمان شاہ برداشت کرے اور اس کے علاوہ بھی کچھ نقد رقم دے- لیکن پیر بخش نے انکار کر دیا- الہیٰ بخش یہ کہہ کر الگ ہو گیا کہ اس نے معاملہ باپ پہ چھوڑ دیا ہے-
"چچا اب میں جاؤں" سلیمان شاہ نے ابرار شاہ سے پوچھا-
"ذرا بیٹھو مجے تم سے ایک بات کرنی ہے" ابرار شاہ نے کہا-
جب سے سلیمان شاہ تھانے آیا تھا مسلسل کھڑا تھا- ابرار شاہ نے اسے بیٹھنے نہیں دیا تھا- یہی نہیں، اس نے ابرار شاہ کو چچا کہہ کر پکارا تو اسے ڈانٹ سننا پڑی تھی- ابرار شاہ نے ساف کہہ دیا تھا کہ رشتے داری گھر میں ہوتی ہے تھانے میں نہیں- یہاں وہ ایس ایچ او ہے اور وہ ملزم ہے-
سو اب سلیمان شاہ بیٹھتے ہوئے ہچکچا رہا تھا- ابرار شاہ نے کہا " بیٹھ جاؤ سلیمان- اس وقت تم ملزم نہیں ہو، میرے چھوٹے ہو- مجھے تم کو کچھ سمجھانا ہے"
سلیمان شاہ بیٹھ گیا-
"تمہیں اندازہ ہے تم کتنی بڑی مصیبت میں پھنس گئے تھے"
"جی چچا میں جانتا ہوں"
"یہ دفعہ 307 کا کیس تھا اورمیں پرچہ کاٹ دیتا- تمہاری جگہ میرا بیٹا ہوتا تو میں اس کے ساتھ بھی رعایت نہ کرتا"
"جانتا ہوں چچا- اور مجھے آپ پر فخر ہے- میرے دل میں آپ کی عزت اور بڑھ گئی ہے"
"میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں بیٹے کہ یہ لوگ آل رسول صہ ہونے کے ناطے ہمارا احترام کرتے ہین تو یہ ہم پر بھی فرض ہے- ہمیں خود کو محترم بنانا چاہئے- اچھی صفات پیدا کرنی چاہئیں- اور عقیدت مندوں کی عزت مندوں کی عزت بھی کرنی چاہئیے- میں جانتا ہوں تم اچھے کردار کے لڑکے ہو- کوئی برائی نہیں تم میں- پھر بھی ۔۔۔ "
'چچا آپ یقین کریں میں ابتدا ہی سے شرمندہ ہوں- اور میں چاہتا ہوں کہ مجھے اپنے کئے کی سزا ملے"
"جانتے ہو تم سے غلطی کیوں ہوئی"
"چچا میں بے ایمانوں کے اکسائے میں آ گیا تھا"
"اور اس کا سبب یہ ہے کہ تمہیں اپنے نام و نسبت پر غرور ہے- گھمنڈ ہے اور یہ دنیا کی بدترین چیز ہے- اللہ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے- آدمی غرور کس چیز پر کرے جبکہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے- اسی لئے تو سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں- اس کی دی ہوئئ عزت پہ گھمنڈ کرنا چھوڑ دو- اچھے اور مثالی انسان بنو- اس لئے کہ یہ عزت کرنے والے عقیدت مند ہم سے یہی توقع کرتے ہیں- مجھے امید ہے کہ آئندہ تم کبھی اس حیثیت میں یہاں نہیں آؤ گے"
"چچا انشاللہ ایسا ہی ہو گا"
--------------------٭ـ-----------------
یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ جرگہ کس نے بلایا- گاؤں میں سادات کی اکثریت تھی- سارے بڑے اکٹھے ہوئے- مسلئہ وہی تھا، الہیٰ بخش کے ساتھ سلیمان شاہ کی زیادتی-
"میں مانتا ہوں کہ سلیمان نے بہت زیادتی کی ہے" سلیمان شاہ کے باپ عرفا شاہ نے کہا "سلیمان خود بھی بہت شرمندہ ہے"
سب لوگ سلیمان کی طرف متوجہ ہو گئے "یہ سچ ہے بزرگو، مجھے شروع میں ہی احساس ہو گیا تھا- میں تو معافی مانگنے والا تھا لیکن چاچا پیر بخش نے روک دیا"
"چلو یہ بڑی اچھی بات ہے کہ تمہیں غلطی کا احساس ہو گیا" گاؤں کے سب سے بڑے افسر شاہ نے کہا "اور غلطی پر معافی مانگنے میں بڑائی بھی ہے لیکن بیٹا صرف معافی سے کچھ نہیں ہوتا- تلافی بھی ضرور ہے"
"میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا دادا!" سلیمان شاہ نے کہا
"پیر بخش نے پرچہ نہیں کٹنے دیا- ورنہ کچہری کے چکر لگتے- پیسہ الگ خرچ ہوتا، اور ہو سکتا ہے تمہیں سزا بھی ہوجاتی- پھر اس نے تمہیں زبانی معافی تک نہیں مانگنے دی- راضی نامہ ہونے کا صلہ بھی نہیں لیا"
ہاں جی، شاہ صاحب ٹھیک کہتے ہیں" کسی نے تائید کی-
'اور الہیٰ بخش نے یہ سب کچھ تمہارے لئے نہیں کیا" افسر شاہ نے مزید کہا "تم جانتے ہو کہ کس حوالے سے اس نے تمہاری عزت کی ہے- ورنہ تم کیا ہو- اور یہ بھی سن لو کہ اس نے صرف تم پر احسان نہیں کیا- ہم سب پر کیا ہے اور ہمیں اس کا صلہ دینا چاہئے اسے"
"آپ حکم کریں دادا!" سلیمان شاہ نے کہا-

آپ حکم کریں دادا" سلیمان شاہ نے کہا-
"میں چاہتا ہوں کہ تم اسے پچاس روپے دو- پچاس روپے ہم سب اسے اکٹھے کر کے دیں گے- اور جو بھی جس کی توفیق ہو گی وہ اسے دے گا- ہم سب الہیٰ بخش کی عیادت کو جائیں گے اور اسے دیں گے-"
سلیمان شاہ سوچ میں پڑ گیا- پچاس روپے چھوٹی رقم نہیں تھی- پھر بولا "آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اس وقت میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے- مجھے پیسے دس دن بعد ملیں گے"
"میں تمہیں قرض دوں گا- دس دن بعد واپس دے دینا" افسر شاہ نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا- پھر وہ دوسروں کی طرف مڑے- "آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟"
سب متفق تھے- بات طے پا گئی-
پیر بخش کو اطلاع مل گئی کہ سادات کا جرگہ اس کے گھر آ رہا ہے- اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے- اس نے بیوی کو بتایا، بیٹوں سے پاہر چھڑکاؤ کر کے چارپائیاں باہر لگانے کو کہا- اور خود ان کے استقبال کے لئے دوڑ گیا-
جرگہ گاؤں کی حدود میں داخل ہی ہوا تھا کہ پیر بخش وہاں پہنچ گیا- اس نے سب کی دست بوسی کی اور افسر شاہ کے قدموں میں بیٹھ گیا- "سرکار۔۔۔ مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے؟" اس نے لجاجت سے پوچھا-
'تمہیں یہ خیال کیوں آیا پیر بخش؟"
"آپ لوگوں نے کیوں تکلیف کی- مجھے حکم کیا ہوتا میں خود حاضر ہو جاتا"
"لیکن آنا تو ہمیں ہی تھا پیر بخش" افسر شاہ بولے-
"مجھے کیوں گناہگار کیا باجی"
"ہم تمہارے بیٹے کی مزاج پرسی کو آئے ہیں "
"مجھے کہلوایا ہوتا- میں اسے خود آپ کے پاس لے آتا"
"عیادت گھر جا کر کی جاتی ہے پیر بخش- گھر بلوا کر نہیں کی جاتی" افسر شاہ نے نرم لہجے میں کہا "اور یہ نبی کریم صہ کی سنت ہے"
ی سن کر پیر بخش گنگ ہو کر رہ گیا- وہ بڑے احترام سے انہیں گھر لایا- وہاں دوسرے بیٹے الہیٰ بخش کو باہر لے آئے تھے- الہیٰ بخش بھی ان کی پیشوائی کو آگے بڑھا اور دست بوسی چاہی- "الہیٰ بخش تم سکون سے چارپائی پر بیٹھ جاؤ، تم بیمار ہو" افسر شاہ نے نرمی سے کہا
"الہیٰ بخش نے بے بسی سے باپ کی طرف دیکھا اور بولا "آپ کے سامنے میں یہ گستاخی کیسے کر سکتا ہوں"
'یہ ہمارا حکم ہے - ہمارا احترام کرتے ہو تو یہ بھی ماننا پڑے گا"
پیر بخش کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگیں، ادہر الہیٰ بخش مستفسرانہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا- "باجی سرکار اسے اس پر مجبور نہ کریں" وہ گڑگڑایا-
"یہ تو تمہارے احترام کی آزمائش ہے" افسر شاہ نے کہا اور الہیٰ بخش کا ہاتھ تھام کر اسے چارپائی کی طرف لے گئے- "چلو بیٹھو" وہ اس کے بیٹھنے کے بعد اس کے ساتھ ہی چارپائی پر بیٹھے- "اب بتاؤ طبعیت کیسی ہے"
سب نے الہیٰ بخش کی مزاج پرسی کی- پھر اپنی لائی ہوئی چیزیں اسے دیں- ان میں چار مرغیاں، ڈیڈھ درجن انڈے اور کچھ گھی مکھن تھا- پیر بخش نے بہت حجت کی- لیکن وہ چیزیں اسے لینا پڑیں- البتہ پیسوں کے معاملے میں وہ اڑ گیا- "یہ ضد نہ کریں سرکار ورنہ میں جان دے دوں گا" اس نے کہا- پیسے اس نے قبول نہیں کئے- مگر ایک اور سخت مرحلہ اس کا منتظر تھا- سلیماں شاہ نے الہیٰ بخش سے کہا "میں دل کی گہرائیوں سے تم شرمندہ ہوں اور تم سے معافی چاہتا ہوں الہیٰ بخش"
اس وقت پیر بخش کا جی چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے-
باجی لوگوں کے جانے کے بعد پیر بخش نے اس سے کہا "یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے بیٹے ہم بہت گناہگار ہو گئے ہیں-"
"ابا مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔ مرنا میرے اختیار میں تو نہیں تھا-" الہیٰ بخش نے تلخ لہجے میں کہا- اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ یہاں نہیں رہے گا- کراچی چلا جائے گا-
---------------------٭-----------------
"تو یہ ہے اس زخم کی کہانی" شیخ صاحب نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا-
"جی سر، خوامخواہ آپ کا وقت ضائع ہوا-" الہیٰ بخش نے نظریں اٹھا کر دیکھا- وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے-"میں وقت کبھی ضائع نہیں کرتا الہیٰ بخش!' انہوں نے سنجیدگی سے کہا "میرا وقت بہت قیمتی ہے"
"جی سر"
"اچھا، اب تم جا کر آرام کرو- کل صبح نو بجے ٹرائی کے لئے تیار رہنا- پھر پرسوں سے تمہاری ڈیوٹی سعدیہ کے ساتھ ہو گی- گڈ نائٹ"
"گڈ نائٹ" الہیٰ بخش کو عجیب سا لگا- یہ لفظ اس نے پہلی مرتبہ بولا تھا
----------------------٭-----------------
وہ الہیٰ بخش کی زندگی کا یادگار ترین دن تھا- جب وہ پہلی بار سادی کوکالج چھوڑنے گیا-
اس صبح وہ معمول کے مطابق سویرے اٹھا- فجر کی نماز ادا کر کے وہ باغیچے میں آ گیا- وہ بہت حسین صبح تھی ۔۔۔۔ یا اسے حسین لگ رہی تھی- گھاس پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے اسے اپنے اندر روشنی اترتی ہوئی محسوس ہوئی- وہ گہری گہری سانسوں کے ساتھ پھیپھڑوں میں خوشبو سے مہکتی ہوا کو اتارتا رہا-
ساڑھے چھھ بجے وہ اٹھا اور اپنے کوارٹر میں چلا گیا- کپڑے بدل کر، تیار ہو کے وہ باہر آیا تو نئی چمکتی کار کو اور چمکانے میں مصروف ہو گیا- چمکانا کیا، در حقیقت وہ اسے پیار سے سہلا رہا تھا- قسمت کی بات ہے، اسے باقاعدہ چلانے کو یہ پہلی کار ملی تھی ۔۔۔۔ بالکل نئی چمچماتی کار!
اسے بتایا گیا تھا کہ سادی ساڑھے سات بجے آیا کرے گی- لیکن وہ پہلا دن تھا- شاید اس لئے وہ سوا سات بجے ہی آ گئی- شیخ صاحب اور بیگم صاحبہ اس کے ساتھ تھے- "تم تیار ہو؟ شیخ صاحب نے الہیٰ بخش سے پوچھا-
"جی سر جی!"
اس کے لئے یونیفارم کا بھی بندوبست کرو" بیگم صاحبہ نے اسے کڑی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا "ڈرائیور کو ڈرائیور ہی نظرآنا چاہئے"
"سادی چاہے گی تو یہ بھی ہو جاۓ گا" شیخ ساحب بولے-
"نہیں پاپا، اس کی ضرورت نہین" سادی نے کہا "میں تماشا نہین بننا چاہتی"
"آس میں تماشے کی کیا بات ہے" بیگم صاحبہ کامنہ بن گیا "اس سے تو شان کا پتا چلتا ہے"
"مجھے نہیں چاہئے ایسی شان" سادی نے جھنجلا کر کہا-
بیگم صاحبہ اسے نظر انداز کر کے الہیٰ بخش کی طرف متوجہ ہو گئیں- "گاڑی احتیاط سے چلانا- پتا نہیں، تمہین چلانی آتی بھی ہے یا نہیں"
شیخ صاحب کا چہرہ تمتما اٹھا " میں کل ٹرائی لے چکا ہوں- یہ بہت اچھی ڈرائیو کرتا ہے"
"آپ کی ڈرائیو کا مجھے تو اعتبار نہین- پینٹ کرنے والے کو ڈرائیور رکھ لیا"
الہیٰ بخش کا چہرہ تپنے لگا- اسے احساس ہو گیا کہ بغیر کسی وجہ سے بیگم صاحبہ اس سے چڑتی ہیں اور وہ وہاں زیادہ عرصہ کام نہیں کر سکے گا- اس نے دھیرے سے کہا "سر۔۔۔۔ بیگم صاحبہ مجھ سے مطمئن نہیں تو۔۔۔۔"
شیخ صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا- پھر وہ رخسانہ بیگم صاحبہ کی طرف مڑے-
"آپ کو پریشانی کیا ہے"
"کار نئی ہے، آپ بہت بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں"
"میرے لئے پرانی بیٹی، نئی کار سے زیادہ اہم ہے- میں اس معاملے میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا- آپ بے فکر رہیں- میں پوری طرح مطمئن ہوں"
"آپ صرف احسان اتارنے کی خاطر ۔۔۔۔ "
اس بار شیخ صاحب کا تحمل جواب دے گیا "بس رخسانہ بیگم!' انہوں نے بلند آواز میں کہا "آپ میری نرمی سے فائدہ نہ اٹھائیں- اب میں ایک لفظ بھی نہیں سنوں گا"
"جہنم میں جائیں" رخسانہ بیگم نے پاؤں پٹختے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئیں-
شیخ صاحب نے کندھے جھٹکے اور الہیٰ بخش سے بولے "بیگم صاحبہ کی باتوں کی مائنڈ نہ کرنا- میں بھی نہیں کرتا- برداشت تو کرنا پڑتا ہے"
"میں کیا مائنڈ کروں گا سر، بے حیثیت آدمی ہوں"
"شیخ صاحب نے گھڑی میں وقت دیکھا- انہوں نے سعدیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "وقت ہو گیا ۔۔۔ جاؤ بیٹی خدا حافظ"
الہیٰ بخش نے پچھلا دروازہ کھولا اور سادی کے بیٹھنے کے بعد اسے بند کر دیا- پھر وہ گھوم کر اگلے دروازے کی طرف آیا-
"خدا حافظ پاپا" سادی نے کہا-
------------------٭------------------
وہ خوشبو کا پہلا سفر تھا!
الہیٰ بخش گاڑی کو باہر سڑک پہ لے آیا تھا- اس نے بیک ویو مرر میں دیکھا- وہاں سادی نہیں تھی- الہیٰ بخش نے عقب نما آئینے کو درست کر کے ایسی پوزیشن میں لانے کی کوشش بھی نہیں کی کہ اس میں سادی نظر آئے- اس کے لئے اتنا ہی بہت کافی تھا کہ وہ گاڑی میں اس کے ساتھ تھی-
سادی اس کی رہنمائی کر رہی تھی- وہ اس کی ہدایت کے مطابق گاڑی چلا رہا تھا- اس کی خوشبو اس کی روح سے باتیں کر رہی تھی- کوئی بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد سادی نے کالج کے گیٹ کے سامنے گاڑی رکوا دی-
"تم ایک بجے مجھے لینے کے لئے آ جانا" سادی نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا-
"بی بی ایک بات بتائیں گی"
"میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ میں سعدیہ ہوں- تم مجھے سادی کہہ سکتے ہو"
"میں ۔۔۔ نہیں بی بی- یہ مجھ سے نہین ہو گا"
"تو چلو، اپنی بات بھی رکھ لو اور میری بھی- تم مجھے سادی بی بی کہہ لیا کرو"
"یہ ٹھیک ہے سادی بی بی"
"اب پوچھو کیا بات ہے"
"یہ علاقہ کونسا ہے سادی بی بی۔ اس کا نام کیا ہے"
"یہ فرئیر روڈ ہے"
"ٹھیک ہے جی- وہ میں پہلی بار اس طرف آیا ہوں"
"تم فکر نہ کرو-میں تمہیں پورا شہر دکھا دوں گی- اب مین جاؤں؟"
الہیٰ بخش نے حیرت ست اسے دیکھا ۔وہ ایسا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا، لیکن اس بات نے اس کے دل کو خوشی سے بھر دیا۔

عشق کا عین - پارٹ 9

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے