اک انوکھا دھوکہ ۔ اردو کہانی

Urdu Stories

اک انوکھا دھوکہ ۔ اردو کہانی

میں اور شکر کب سے گھٹیا اور تیسرے درجے کے بار میں بیٹھے مے نوشی سے شغل کر رہے تھے۔ ہماری بد قسمتی ہمیں یہاں لے آئی تھی۔ ہمیں وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔ ہم اس بار میں بیٹھنا تو درکنار اس کے سامنے سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ یہاں کا ماحول نہ صرف تیسرے درجے کا بلکہ پراگندہ بھی تھا۔ تیسرے درجے کے لڑکے لڑکیاں، عور تیں اور ہر عمر کے مرد بھی بار میں موجود تھے۔ مقامی چینل پر جور قص و موسیقی کا بولڈ پر وگرام دکھایا جا رہا تھا وہ نشہ تیز کر رہا تھا۔ بڑا آزادانہ، جذباتی اور فری قسم کا ماحول تھا۔ بار میں جو لڑکیاں تھیں ان کی عمریں سولہ سے بیس کے درمیان تھیں۔ ان میں ایک ویٹرس کملا، جو بیس برس کی تھی، وہ میرے محلے کی بہو تھی۔ اس کا شوہر شرابی تھا۔ میں اس کے پتی کو جانتا تھا اور وہ مجھے جانتی تھی۔ساس، پتی اور نندوں کا کہناتھا کہ پیسہ لائو کہیں سے بھی اور کیسے بھی تمہیں ہر بات کی آزادی اور کھلی چھوٹ ہے۔ وہ اس بار کی سب سے خوب صورت اور پرکشش عورت تھی۔ اس پر سولہ برس کی دوشیزہ کا اس لیے گمان ہوتا تھا وہ چھریرے اور متناسب بدن کی تھی۔ اگر اس کی اولاد نہ ہوتی تو جانے کب کی گھر چھوڑ کر کہیں روپوش ہو جاتی۔ جب کسی دن کسی وجہ سے وہ کم پیسے لاتی تو سب مل کر اس غریب کا بھرتا بنا دیتے تھے۔


یہ کہانی صرف ایک کملا کی نہیں، ہزاروں کملائوں کی تھی۔ اس نے دو ایک مرتبہ میری کوٹھری کا دروازہ بھی رات دس بجے کھٹکھٹایا تھا، لیکن صرف ایک مرتبہ میں نے اس کی مدد کی تھی۔ کملا کو سو روپے کی ضرورت تھی ورنہ اس کا سواگت لاتوں، جوتوں اور تیل چھڑک کر آگے لگانے کی دھمکیوں سے ہوتا۔ بیروزگاری کتنی بری لعنت اور اذیت ہے ۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے۔ ہماری خواہش ہوتی تھی کہ کوئی شکار نہ ہو جائے ، چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ اس شہر کی بلائیں ہر ایک کو نہ صرف لوٹ رہی تھیں بلکہ نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو غلاظت بھرے راستے پر چلنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ ہم یہاں شباب کے لیے نہیں بلکہ شراب سے غم غلط کرنے آئے تھے۔ میں کل کا اخبار لے آیا تھا جو ایک شناسا بک اسٹال والے نے مفت میں دے دیا تھا۔ کل اتوار تھا۔ اتوار کے اخبارات میں ضرورت ہے کے اشتہارات کی بھر مار ہوتی تھی۔ شنکر بھی وہی صفحہ دیکھ رہا تھا۔ دفعتاً بیس برس کی ایک لڑکی اندر آئی، اس میں ہر کسی کو متوجہ کرنے والی جاذبیت بھری تھی۔ وہ گہرے میک آپ میں تھی۔ حالاں کہ اسے اس کی قطعی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس کی نمکین اور روغنی جلد میں بڑا حسن اور نکھار تھا جو کسی میک آپ کا محتاج نہیں ہوتا۔ اس نے ہال کا سرسری سا جائزہ لیا اور ہماری میز کی سمت بڑھی۔ اسے ہم دونوں شاید چربی دار مرغے دکھائی دیئے تھے۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ ہم دونوں ہال کے تمام گاہگوں میں قدرے صاف ستھرے اور خوش پوشاک دکھائی دے رہے تھے۔


اس نے میز کے قریب پہنچ کر دل کش انداز سے مسکرا کے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوب صورتی تھی اور چہرہ دل فریب, کیا میں آپ کی کوئی سیوا کر سکتی ہوں ؟ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔ اس کی آواز بڑی مدھر تھی۔ کیوں نہیں کیوں نہیں میں نے اپنے برابر والی خالی کرسی کی طرف اشارہ کر کے شوخی سے کہا۔ شکریہ ۔ وہ یہ کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئی۔ شریمتی جی ! میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ہم دو آدمی ہیں۔ دیکھ لیں ، سوچ لیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ قدرے شوخی سے بولی۔ میرا کام ہی سیوا کرنا ہے۔ کہنا بہت آسان ہے ۔ میں نے اس کے چہرے پر نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے کہا۔ شنکر مجھے احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔ موقع تو دیں۔ اس کے چہرے پر نکھار سا آگیا۔


ہاتھ کنگن کو آرسی کیا میں نے سنجیدگی برقرار رکھی۔ ہم جو جام نچارہے ہیں اس کا بل چالیس روپے ہے اور ویٹرس کو ٹپ دینے کے لئے ہمارے پاس صرف پانچ روپے ہیں۔ لینچ کے لیے ہماری جیبوں میں دمڑی بھی نہیں ہے۔ آپ ہم دونوں کو کسی بھی ہوٹل میں دو لقے کھلا دیں تو ہم پر بڑا احسان ہو گا۔ آپ کی اس سیوا کو ہم کبھی بھی ۔ کیا..؟ وہ اک جھٹکے سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے کا رنگ ایسا بدلا کہ وہ کسی چڑیل کی مانند دکھائی دینے لگی۔ وہ سرعت سے مڑ کے جانے لگی تو میں نے فورا ہی اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس نے میرا ہاتھ اس بُری طرح جھٹکا جیسے ہاتھ میں کن کھجورا آگیا ہو پھر مجھے غضب ناک نظروں سے گھورتی ہوئی اس میز کی طرف بڑھ گئی جس پر ساٹھ برس کا بوڑھا سا شخص بھونڈی آواز میں گا رہا تھا اور نشے میں دُھت تھا۔ یہ دُنیا تیرے باپ کی نہیں میری بھی نہیں۔ میری پیتنی کی بھی نہیں ۔ ویٹرس بھی ہنس رہی تھیں۔ وہ اس کی میز پر بیٹھ گئی تو اس بوڑھے نے اپنا گانا موقوف کر دیا، پھر توقف کر کے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر دکھائی۔ نوٹوں کی گڈی کے جادو نے اس لڑکی کو رام کر دیا۔ بل ادا کرنے کے بعد وہ دونوں ایک ساتھ ہاتھ میں ہاتھ تھامے ہماری میز کے سامنے سے گزرے تو اس عورت نے مجھے حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور پھبتی کسی بھکاری۔


اس نے غلط نہیں کہا تھا۔ ہم واقعی بھکاریوں سے بھی بدتر تھے ، ایسے بھکاری جنہیں کوئی ایک روپے کی بھیک دینے کو تیار نہ ہوتا، ورنہ کیا مجال تھی کہ یہ بوڑھا اس بلبل کو لے اڑتا اور ہم منہ دیکھتے رہ جاتے۔ میں اور شنکر کچھ دنوں پہلے تک نہ صرف بر سر روزگار تھے بلکہ کسی حد تک امیر کبیر تھے۔ بار اور ہوٹلوں اور شبینہ کلبوں میں بڑی عزت اور پذیرائی ملتی تھی۔ یہ سب اس لیے تھا کہ ہماری جیبیں ہر وقت بھری ہوتی تھیں۔ ہماری آمدنی بھی بہت اچھی تھی، بر سر روزگار تھے۔ پانچوں انگلیاں گھی میں سر کڑاہی میں تھا۔ ہم سپنوں جیسی سُندر زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہم دونوں کا پیشہ قابل تعریف، باعزت اور معزز ہر گز نہیں تھا، کیونکہ ہم دونوں پیشہ ور مجرم تھے۔ کون سا جرم ایسا تھا جس میں ہم ماہر نہ تھے۔ دنیا کی ایک زیر زمین مافیا سے ہمارا تعلق تھا۔ مختلف قسم کی مہمات کے دوران ہماری جیب میں پڑا ریوالور کسی فرشتہ اجل سے کم نہ ہوتا تھا۔ وہ ہماری ہر مشکل آسان کر دیتا تھا۔ عورت ہو ، خطر ناک مجرم ہو، اسمگلر یا کوئی دولت مند یا کوئی مسلح سپاہی ، سبھی سر نگوں ہو جاتے۔ اب یہ ہماری باتیں قصہ پارینہ معلوم ہوتی تھیں۔ کہاں ہم ایئر کنڈیشنڈ لگژری اپارٹمنٹ کے خواب ناک ماحول میں رہتے تھے۔ کہاں اب ہم گھٹیا ترین علاقے کی ایک گھٹیا ترین عمارت میں تنگ و تاریک کوٹھریوں میں رہائش پذیر تھے۔ ان کوٹھریوں میں جتنا سکون اور آرام میسر تھا انہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ قبروں میں پڑے مردے بھی شاید اتنے بے چین نہ ہوتے ہوں گے جتنے ہم تھے۔


ہم روز ہی اخبار میں ضرورت ہے کا اشتہار بلکہ گم شدگی کے اشتہار بھی باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ اگر کسی عورت کے کتے یا بچے یا شوہر کی گم شدگی کا اشتہار نظر آتا ہم اس معرکے کے لیے مستعد ہو جاتے تھے۔ اس کے حصول کا جو معاوضہ ملتا تھا وہ ہماری گزر بسر کا ذریعہ ہوتا۔ سب سے مشکل ترین کام شوہر کی تلاش ہوتی تھی۔ شوہر اپنی شریمتی کے پاس کسی قیمت پر جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ بیس برس کے بعد تو زندان سے رہائی ملی ہے۔ ہم جشن آزادی منارہے ہیں۔ ہم اخبار پڑھتے پڑھتے اک دم چونک گئے۔ ٹی وی سے جو سانگ آئٹم دکھایا جا رہا تھا اسے اک دم روک دیا گیا۔ بریکنگ نیوز کی سلائیڈ آ گئی۔ پھر ٹی وی انائونسر نے نمودار ہو کر ایک سنسنی خیز خبر سُنائی جو ڈاکے سے متعلق تھی۔ ایک شاطر اور دلیر ڈاکو نے ایک عجیب و غریب اور دل چسپ ڈکیتی کی واردات کی تھی۔ اس نے شہر کی اسٹیل اور المونیم انڈسٹریز کے دو کارکنوں کو بے بس کر کے دو کروڑ کی رقم چھین لی تھی۔ انڈسٹریز کے یہ ملازمین جن میں ایک کیشیئر اور دوسرا اکائونٹینٹ تھا، ملازمین کی تنخواہیں اور سپلائرز کو دینے کے لیے رقم لے جارہے تھے۔ ڈاکو نے ایسا کوئی ثبوت نہیں چھوڑا جو اس کی گرفتاری میں پولیس کی مدد کر سکتا۔ وہ جس گاڑی سے فرار ہوا وہ بھی مسروقہ تھی اور وقوعہ کی جگہ سے کوئی تین میل کے فاصلے پر شہر کے بیچوں بیچ دستیاب ہوئی تھی۔ پولیس نے ڈاکو کی نشان دہی کے لیے ایک زبر دست انعام کا اعلان کیا تھا۔ نشان دہی کرنے والے کو مسروقہ رقم کا دس فیصد حصہ دینے کی پیش کش کی گئی تھی۔ پولیس کی اطلاع کے مطابق ڈاکو کا حلیہ یوں تھا۔ درمیانی قد ، دبلا پتلا جسم ، چہرے پر نقاب، نیلی جیکٹ، سفید قمیض اور کالی پتلون ..


اس خبر کو سُنانے کے بعد ٹی وی پر پھر بولڈ اور بے حجابانہ رقص کا پروگرام نشر ہونے لگا۔ ہماری باس کی نظروں میں بڑی وقعت ، عزت اور قدر دانی تھی۔ اسے جب کبھی ہماری خدمات کی ضرورت محسوس ہوتی ، وہ ہماری پسند کی نئی ماڈل کی گاڑی بھیج دیتا تھا۔ پیشگی معاوضے کی خطیر رقم کام کے آغاز سے پہلے ہی ہماری جیبوں کو بھر دیتی تھی۔ ہمارے شب و روز ممبئی شہر کے شبینہ کلبوں اور نگار خانوں میں گزرتے تھے جہاں چوٹی کی ہیروئنیں اور ہیرو بھی آتے تھے ، اس کے علاوہ شوبز کی رنگین تتلیاں ، ابھرتی اداکارائیں اور ٹی وی کی فن کارائیں بھی صرف پیسے کے لیے آتی تھیں۔ ہمیں ان کا قرب حاصل تھا۔ قمار خانوں میں ان دنوں لکشمی ہم پر مہربان رہتی تھی۔ مٹی میں ہاتھ ڈالو تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ پیسہ ہو تو دنیا کی ہر چیز خریدی جاسکتی ہے۔ ہم اس رقم سے خوب فائدہ اٹھاتے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے۔ ہم نے کبھی بھی بھولے سے کل کی کوئی پروا نہیں کی۔ شنکر نے ٹی وی پر بولڈ رقص دیکھتے ہوئے اخبار اُٹھا کر میز پر زور سے پٹخا۔ یہ اس خبر کا ردعمل تھا جو ٹی وی پر نشر ہوئی تھی۔ بار کا مالک کائونٹر سے چیخ کر بولا۔ اسے کہتے ہیں عظیم کارنامہ کاش ! وہ سامنے ہوتا میں اس کے چرن چھو لیتا۔ ہاں واقعی شنکر نے جلے بھنے لہجے میں کہا۔ دبلا پتلا جسم, گدھے کو ایک ہاتھ مارو دو دن تک بستر سے نہ ہلے… اس نے تنہا ہی کیسا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے چلو بھر پانی میں… ایک ہم ہیں کہ کتے تلاش کر کے پیٹ کا ٹرک سرد کرتے ہیں۔ یار ! لعنت ہے ہماری زندگی پر۔

میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے قریب ہو کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔ ” یار شنکر … ! کیوں نہ ہم مسز سادھنا گھوش کے کتے کی تلاش کے بجائے ، جس کی بازیابی پر صرف پانچ سو روپے ملیں گے لہذا، کیوں نہ ہم اس ڈاکو کا سراغ لگانے کی کوشش کریں۔ دو کروڑ کا دس فیصد کم نہیں ہوتا ہے۔ ہم پھر سے کئی دنوں تک شاہانہ زندگی بسر کریں گے۔ شنکر کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ خوش ہو کر میرے ہاتھ چوم لیتا، میری تجویز کی تائید کرتا۔ وہ قنوطی شخص ہے۔اسی دوران ویٹرس جو سولہ برس کی تھی ، خالی گلاس اٹھانے آئی۔ اس کے جانے کے بعد وہ گہرا سانس لے کر مایوسی سے بولا۔ دیکھو شیخ چلی جیسی باتیں نہ کرو… کیا واردات کی تفصیلات سے اندازہ نہیں ہوتا کہ مجرم کس قدر شاطر اور چالاک ہے۔ وہ سپنے میں بھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا بلکہ کہیں ہم اس کا شکار نہ ہو جائیں ؟ بار کے مالک کے کان بہت تیز تھے۔ اس نے ہماری بات سُن لی تھی۔ اس نے چیخ کر کہا۔ ہماری پولیس نری احمق ہے۔ وہ پولیس کے انتظار میں ان کی سیوا کرنے تھوڑی بیٹھا ہو گا۔ اس نے فرار کا منصوبہ پہلے ہی بنالیا ہو گا۔ وہ ہوائی جہاز سے رقم لوٹتے ہی فرار ہو گیا ہوگا اور وہ اکیلا ہر گز نہیں گیا ہوگا۔ جانے کس کی بیوی، بہن، بہو اور بیٹی کو ساتھ لیتا گیا ہو گا تا کہ جشن منا سکے۔ وہ شاید مشروب خاص پی رہا تھا۔ اس نے اپنا پیگ خالی کر کے کہا۔ برا نہ مانو اپنے گھر جا کر دیکھو کہیں تمہارے گھر کی عورت غائب تو نہیں ہے ؟


اتفاق سے ہم دونوں کے مقدر میں کوئی عورت نہیں لکھی اور تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ ٹی وی سے جو خبر نشر ہوئی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ مسروقہ نوٹ بالکل نئے ہیں۔ ان کے نمبر بینک میں محفوظ ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجرم اس صورت میں یہ نوٹ اس شہر میں خرچ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔ شنکر نے سر ہلا کر کہا۔ وہ یقینا کسی دوسرے صوبے میں فرار ہو گیا ہو گا۔ وہ بنگال، آسام .. یا میسور بھی جاسکتا ہے کیونکہ یہاں اتنی بڑی رقم غیر محفوظ ہونے کے علاوہ اس کی جان بھی خطرے میں تھی۔ دفعتاً مجھے اپنے سابق باس کا خیال آیا۔ میں اس کے بارے میں سوچنے لگا جس کے دو روپ تھے۔ اس کا ایک روپ یہ تھا کہ وہ اس ملک کا بہت بڑا صنعتکار تھا، دوسرے وہ زیر زمین دُنیا کا مافیا تھا۔ اس نے جرائم پیشہ افراد کا ایک گروہ بنا رکھا تھا۔ اس معاملے کا سنسنی خیز اور دل چسپ پہلو یہ تھا کہ ایک ڈاکو نے دوسرے ڈاکو کی دولت پر زبردست ڈاکا مارا تھا۔ لوہے کو لوہے نے کاٹا تھا۔ جب ہم اس کے آلہ کار تھے اور اس کا ہر حکم بجالاتے تو وہ دنیا کی ہر آسائش، شباب اور شراب فراہم کرتا تھا۔

شنکر کا اس گروہ سے نکلنا اس کی اپنی لغزش کا نتیجہ تھا مگر میرے اخراج کا سب ایک قتالۂ عالم تھی۔ میں ان دنوں ایک پری پیکر سے محبت کرتا تھا، اس کا نام کانتا تھا۔ میں اس بت طناز پر دل کھول کر خرچ کرتا تھا۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس پر اپنی آمدنی لٹاتا تھا۔ وہ نہ صرف سمجھدار، مہربان، فیاض، بلکہ شاطر بھی تھی۔ میری مت ماری گئی تھی جو میں نے اسے اپنے باس سے ملا دیا تھا کہ وہ میرے انتخاب پر رشک کرے۔ دراصل اسے عالمی مقابلہ حسن میں شریک کرانا چاہتا تھا، کیونکہ اس کے تناسب اس معیار پر پورے اترتے تھے جو مقابلے کے لیے مقرر تھے لیکن میرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ مجھے امید نہیں تھی کہ وہ بے وفا نکلے گی۔ اسے جیسے ہی باس کا قرب نصیب ہوا اس نے مجھے یکسر فراموش کر دیا مگر میں ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھا، اس لیے کہ وہ میرا سپنا تھی اور میں اسے شدت سے چاہتا تھا کہ اس سے بے تعلق نہیں ہو سکتا تھا۔ جب باس نے میری اس جذباتی کیفیت اور دیوانگی کو محسوس کیا تو اس نے مجھے اپنے گروہ سے نکال دیا۔ علیحدہ کرتے وقت اس نے نہایت واشگاف الفاظ میں مجھے تنبیہ کی تھی کہ میں بھولے سے بھی اس کے اور کانتا کے درمیان حائل ہونے کی کوشش نہ کروں۔ اگر کیا، تو یہ ناقابل معافی حماقت ہو گی، پھر میری لاش کا پتا بھی نہیں چلے گا۔


میں اتنا بے وقوف نہ تھا کہ میں اس کی دھمکی پر کان نہ دھرتا… کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ بے رحم ، سفاک اور خطرناک شخص ہے۔ مجھے کانتا کے ساتھ گزرے لمحات گزار کر اسے بھلا دینے کا دُ کھ اس لیے بھی نہیں تھا کہ میں جانتا تھا کہ جیب بھری ہو تو ایک کیا، ایسی دس کانتا مل جاتی ہیں۔ دل کو اور خود کو دلاسا دے کر کتوں اور ناراض شوہروں کی تلاش کے دھندے سے لگ گیا۔ رات کے نو بجے میں اور شنکر بار سے نکلے تو اس وقت طبیعت بڑی بھاری تھی اور بھوک بھی لگ رہی تھی۔ شنکر نے ایک ٹھیلے سے برگر خریدا۔ ہم آدھا آدھا کھاتے ہوئے بوجھل قدموں سے اپنی نرک جیسی کھولیوں کی طرف بڑھے۔ بلڈنگ کی سیڑھیوں کے پاس مالکن ٹھنی نظر آئی جو کچھ کرایے داروں سے الجھی ہوئی تھی۔ میں دبے پائوں اس کی نظروں سے بچ کر نکل جانا چاہتا تھا مگر اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ مسٹر شیکھر … اس کا لہجہ استہزائیہ تھا۔ وہ تیزی سے اس طرف آئی۔ میں نے ندامت سے کہا۔ سوری مس نلنی…! چونکہ مجھے اندیشہ تھا کہ آپ کہیں دوسرے کرایہ داروں کے سامنے کرایہ مانگ کر شرمندہ نہ کریں۔ کافی دنوں سے کوئی گم شدہ کتا، کتیا ملی اور نہ ہی شوہر … اس لیے ابھی آپ کی نظروں سے کترا کے نکل رہا تھا۔ آئی ایم سوری۔

لمحے کے لیے نلنی کی آنکھوں میں ایک چمک سی کوند گئی ، پھر اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور پھر بڑی خوش اخلاقی سے بولی۔ مجھے تمہاری طرف سے اطمینان ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تم ایک ذمے دار شخص ہو۔ جیسے ہی تمہیں پیسے ملیں گے میرا کرایہ ادا کرو گے۔ پھر اسے اچانک یاد آگیا۔ تمہیں کسی نے فون کیا تھا, کس نے ؟ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ نلنی نے تیزی سے اپنی سرمگیں پلکیں جھپکائیں اور شوخی سے بولی۔ کوئی لڑکی تھی۔اس کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ تمہاری کوئی پرانی شناسا ہے۔ اس نے پیغام دیا ہے کہ تم آج ہی اس سے رابطہ کر لو۔ پھر توقف کر کے اپنے پرس سے نوٹ بک نکالی اور اس کی ورق گردانی کرتی ہوئی بولی۔ ایک منٹ … اس کا نمبر دیتی ہوں۔ اس کا نام کیا تھا؟ میں نے بے تابی سے سوال کیا۔ نلنی نے ذہن پر زور دیا اور سوچنے لگی، پھر بولی۔ بڑا سندر نام تھا… اس کا نام کانتا تھا۔ میں اک دم سے چونک پڑا۔ مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا۔ اس نے پرس سے بال پین نکال کر ایک کاغذ پر نمبر لکھ کر اسے پھاڑا، پھر میری طرف بڑھا دیا۔ ہاں… ایک بات مجھے جو یاد آئی، اس نے کہا تھا کہ اگر آج تم کسی وجہ سے فون نہ کر سکو تو پھر اس وقت تک نہ کرنا جب تک خود میں فون نہ کروں۔ پھر وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی اور اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ کیا وہ کوئی مال دار بیوہ ہے ؟ اس قسم کی عورتیں دل کھول کر رقم خرچ کرتی ہیں۔ میں اس کے خلاف ہوں۔ میں محبت سے جیتنے کے حق میں ہوں۔ میرے نزدیک محبت خریدنا غیر شائستگی اور ایک طرح سے سودے بازی ہے۔ تمہیں اتنا ارزاں نہیں بننا چاہیے۔ مجھے دیکھو! کبھی میری آنکھوں میں جھانکو۔

مجھے اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی فرصت کہاں تھی۔ کانتا کے پیغام نے میرے اندر بے چینیاں بھر دی تھیں۔ میں اسے فورا فون کرنا چاہتا تھا۔ جب میں کانتا سے فون پر بات کر کے ریسیور کریڈل پر رکھ رہا تھا تو نلنی کا ہلکا سا قہقہ سُنائی دیا۔ اس کے قہقہے میں جو حسرت اور خفت تھی … وہ بھی میری راہ میں حائل نہ ہو سکی۔ میں کانتا کے فلیٹ کی طرف جا رہا تھا تو میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات جنم لے رہے تھے۔ اس بے وفا نے مجھے آج کیوں یاد کیا تھا۔۔؟ آخر میری کیا ضرورت آن پڑی تھی جب کہ میرے باس نے ایک مہارانی کی طرح رکھا ہوا تھا۔ کیا باس کا دل اس سے بھر گیا یا اس کھلونے سے کھیل کر باس نے اسے اپنی زندگی سے نکال دیا ہے ؟ کیا اس کے دل کے نہاں خانے میں میری سوئی محبت جاگ اٹھی ہے؟ نہیں ایک قلاش شخص سے دُنیا کی بدصورت سے بدصورت عورت محبت کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ کہیں وہ یہ تو نہیں چاہتی کہ باس کو میرے ہاتھوں قتل کروا کے اس کی ساری دولت ، کاروبار اور جائیداد پر قابض ہو جائے… ؟ اس بات کا امکان تھا۔ میں نے اس کے فلیٹ کی اطلاعی گھنٹی بجائی۔ چند لمحوں کے بعد ڈور سے کانتا کے قدموں کی چاپ آتی سُنائی دی پھر اس کی آواز آئی- دروازہ کھلا ہے۔ اندر آکر کھانے کی ٹیبل پر آجائو وہاں تمہارے لیے چکن بروسٹ اور مشروب خاص موجود ہے۔ جب میں اندر گھسا اور اسے متلاشی نظروں سے دیکھا تو اس کی ریشمی آواز کا زیرو بم فضا میں گونجا۔ تم بھوجن کرو، میں تھوڑی دیر میں آرہی ہوں۔

میرا حال بھوک سے برا ہو رہا تھا۔ میں چکن بروسٹ پر کسی گدھ کی طرح ٹوٹ پڑا اور ندیدوں کی طرح شکم سیر ہونے لگا۔ چکن بروسٹ فل تھا۔ خواب گاہ کی تپائی پر مشروب سے بھری بوتل، سوڈا کی بوتل اور گلاس بھی موجود تھا۔ مہینوں بھر بعد تو خوب کھانے کو ملا تھا۔ کانتا کے آنے تک چکن بروسٹ کا نام و نشان تک باقی نہ تھا۔ صرف ہڈیاں بیچی تھیں۔ ان پر گوشت کا ریشہ تک نہ رہا تھا۔ مشروب پیتے ہوئے میں ہلکی ہلکی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا۔ میں اس فلیٹ اور اس کی شاہانہ آرائش کے طلسم میں کھو گیا۔ دریچے کے قریب نرم گدے، مخملیں تکیے اور ریشمی چادر والی مسہری بچھی تھی۔ میں نے اپنے لیے دوسرا جام تیار کیا۔ اس اثنا میں کانتا غسل خانے سے نمودار ہوئی تو اس کے مخملیں شانوں پر ریشمی سیاہ زلفیں بادلوں کی طرح بکھری ہوئی تھیں۔ اس کے بالوں سے سوندھی سوندھی خُوشبو کی مہک پھوٹ رہی تھی۔اس کا پُر شکوہ سراپا غضب ڈھا رہا تھا۔ اس کا حسن پہلے کی طرح دل فریب اور شعلہ جوالا بنا ہوا تھا۔ کانتاجان … ! میں حیران ہوں کہ آج تم نے مجھے کیسے یاد کر لیا؟ کہیں میں سپنا تو نہیں دیکھ رہا… مجھے یقین تھا کہ تم مجھ سے ناراض اور بد گمان نہیں ہو گے اور میری دعوت پر سر کے بل چلے آئو گے ؟ میں فوراً ہی چلا آیا ہوں۔ میرے دل کے کسی کونے میں اب تم سے کوئی شکایت نہیں رہی۔

اس نے اپنی لمبی لمبی سرمگیں پلکیں جھپکائیں اور پیار بھرے لہجے میں بولی تو اس کے چہرے پر ندامت کی سُرخی پھیل گئی۔ میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں … یوں تو میرے پروانوں کی کوئی کمی نہیں، یہ تم بھی اچھی طرح جانتے ہو لیکن تمہارے جیسا مخلص اور قدر دان کوئی نہیں۔ یہ سب بھونرے ہیں، ہوس پرست ہیں۔ مجھے تم پر اندھا اعتماد ہے ،اس لیے میں نے تمہیں کبھی بھی مایوس نہیں کیا۔ مجھے اس سے انکار نہیں کانتا ! تمہارے علم میں میری مالی حالت یقیناً ہو گی۔ میں آج اب ایک بھکاری سے بھی بدتر ہوں۔ مجھے تم سے مالی تعاون درکار نہیں ہے۔ میرے پاس اس قدر پیسہ ہے کہ تم تصور نہیں کر سکتے؟چند لمحوں کے بعد ماضی کی والہانہ اور ناقابل فراموش اور یادگار محبت نے دوبارہ جنم لیا تو اس نے بتایا کہ سابق باس سے متنفر ہو کر اب وہ ہمیشہ کے لیے میری ہے۔ وہ اس بات پر سخت نادم تھی کہ اس نے میرا دل دُکھایا اور میری محبت کو پھول کی طرح پامال کیا۔

وہ میرے ہاتھوں کو آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولی۔ مجھے معاف کر دو میرے پیارے شیکھر …! میں نے اس سے جو محبت کا ناٹک رچایا ہے وہ صرف تمہاری ترقی اور مستقبل کے لیے تھا۔ میں نے تمہارے لیے یہ قربانی دی تھی کیونکہ مجھے ڈر اور اندیشہ تھا کہ ہماری محبت اور قربت سے جل کر وہ بے رحم اور سفاک شخص تمہیں قتل نہ کرا دے لیکن اس نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے پاگل ہیں، اس لیے اس نے تمہیں دھمکی دے کر اپنے گروہ سے نکال دیا۔ میں تم سے جتنا عرصہ جدا رہی، اس دوران مجھ پر کیسی اذیت اور قیامت ٹوٹتی رہی، تم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔ وہ نفرت سے باس کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگی۔ میں اس ذلیل، کمینے اور شیطان سے عبرتناک انتقام لینا چاہتی ہوں۔ میرا بس چلے تو اسے لمحے کے لیے بھی زندہ نہ رہنے دوں۔ پھر بڑے فخر اور تکبر سے کہنے لگی۔ میں نے اپنی انتقامی کارروائی کی پہلی چوٹی سر کر لی ہے … میر اخیال ہے کہ اس کے لیے اتنی ہی سزا کافی ہے۔ میں نے اس کا غرور اور تکبر خاک میں ملا دیا ہے۔ میں کچھ سمجھا نہیں میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ کیا تم نے دو کروڑ کی رقم کی رہزنی کی واردات کی خبر نہیں سنی ؟ جو اس شہر کی سب سے بڑی سنسنی انگیز واردات تھی۔ ہاں۔ میں نے سر ہلایا۔ لیکن تمہارا اس سے کیا تعلق؟

اس نے فخر سے اپنا سینہ ٹھونکا۔ یہ عظیم کارنامہ تمہاری کانتا نے انجام دیا ہے۔ وہ میرے چہرے پر تذبذب اور استعجاب دیکھ کر مزید بولی تو اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی۔ اگرچہ باس سے میرے گہرے مراسم ہیں۔ میں یہ مہم سر کر کے اس کے پاس پہنچی تو وہ غصے سے کسی پاگل کتے کی طرح ہو رہا تھا۔ مجھے اس کامیابی سے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے اس کے منہ پر جوتا دے مارا ہو۔ میں نے اس سے زبردست انتقام لے لیا تھا۔ کیا یہ یہ منصوبہ تمہارے ذہن کی پیداوار تھا۔ مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ صرف منصوبہ ہی نہیں بلکہ اس پر عمل بھی میں نے خود ہی کیا… سادہ سی بات ہے۔ مردانہ لباس، ایک نقاب، ہاتھوں میں دستانے، چرمی ٹوپی، خوف ناک ریوالور ! یہ چیزیں میرے بہت ہی کام آئیں۔ میں تمہاری اس دلیری کی جتنی بھی داد دوں۔ بہت کم ہے۔ میں نے سراہتے ہوئے کہا۔ کسی کے وہم و گمان ہیں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ اتنا دشوار گزار کام انجام دینے والا ڈاکو نہیں ایک جوان اور خُوبرو عورت ہو سکتی ہے … سب سے زیادہ دل چسپ امر یہ ہے کہ میں اب سمجھا کہ ڈاکو کا قد درمیانہ اور جسم چھریرا اور دُبلا پتلا کیوں تھا۔ رقم کہاں ہے ؟ خواب گاہ میں … بستر کے نیچے ۔ کانتا نے بڑے پر سکون لہجے میں بتایا۔ لیکن کانتا! اگر باس کے کانوں میں بھنک پڑ گئی تو وہ تمہارا پر شباب گداز بدن گولیوں سے بھون کر کتوں کو کھلا دے گا۔ میں نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔

اونہہ .. کانتا نے نفرت اور حقارت سے منہ بنایا۔ وہ اتنا عقلمند ہرگز نہیں ہے جتنا تم سمجھتے ہو۔ اس نے اپنی حماقتوں سے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ اس کے گروہ کے کئی لوگ باغی ہو چکے ہیں۔ پولیس بھی اس کی تاک میں ہے۔ پھر کانتا نے گرم جوشی سے میرا ہاتھ تھاما اور مسہری کے پاس لے گئی، جہاں بستر کے نیچے دو کروڑ کی رقم بڑے بڑے نوٹوں کی شکل میں موجود تھی۔ کانتا نے الماری سے ایک تھیلا نکال کر اس میں نوٹوں کی گڈیاں بھر دیں۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اگر یہ رقم دو لاکھ بھی ہوتی تو بڑی ہوتی لیکن یہ دو کروڑ ہیں، انہیں فلیٹ میں رکھنا بڑی بے وقوفی ہے۔ میں نے کہا۔ یہ فضول سی بات ہے۔ میں تو اس وقت یہ سوچ رہی ہوں کہ ہم ہنی مون منانے کہاں جائیں اور بقیہ زندگی کہاں بسر کی جائے؟ یہ بات مت بھولو کہ نوٹوں کے نمبر بینک اور پولیس کے پاس موجود ہیں۔ میں نے اس کی سنسنی خیز بات پر توجہ دیئے بغیر کہا۔ میں جانتی ہوں۔ کانتا کے لہجے میں غضب کا ٹھہرائو اور اعتماد تھا۔ یہ رقم دبئی ، بحرین اور ابو ظہبی میں باآسانی کیش ہو جائے گی۔ وہاں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ گویا تم سدا کے لیے ہندوستان کو خیر باد کہنا چاہتی ہو ؟ صرف میں ہی نہیں، تم بھی میرے پیارے ! میں چاہتی ہوں کہ موقع ملتے ہی کسی اسمگلر کی لانچ سے فی الوقت دبئی چلے جائیں۔ ہمارے پاس پاسپورٹ ہیں … ہم امریکہ اور یورپ میں جاسکتے ہیں۔ ہمارے خلاف قانون کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کب چلنے کا ارادہ ہے …؟ ایک ہفتے بعد تا کہ تمام خطرات ٹل جائیں۔ خطرہ تو اب بھی کچھ نہیں ، لیکن احتیاط لازمی ہے۔ باس بیس دن کے لئے ہیروئن اور اپنی دل نواز محبوبائوں کو لے کر لندن گیا ہوا ہے۔ میں اس کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اس کا فلیٹ بیچ دوں گی۔ دو اداکارائیں اسے اچھی قیمت پر خریدنے کے موڈ میں ہیں، کیونکہ ایسا شان دار لگژری فلیٹ مشکل سے ملتا ہے، لیکن تمہیں ایک کام کرنا ہے۔ وہ کیا…؟ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔ فرماؤ ۔

غور سے سُنو… اس سلسلے میں بھی تم پر شبہ نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ یہ پیشہ تمہیں ترک کئے سات آٹھ مہینے کا عرصہ بیت چکا ہے۔ احتیاطاً اس ملاقات کا ذکر کسی سے بھی نہ کرنا، اگر تمہاری کوئی محبوبہ ہو اور مالکن نلنی سے بھی… تم مجھ سے خود رابطہ نہ کرنا، جب تک میں خود تم سے رابطہ نہ کروں، لہذا تم یہاں آنے کی کوشش بھی نہ کرنا۔ اس دوران میں اپنا پروگرام بنالوں گی۔ لانچ کے مالک کو رقم دے کر کاغذی تیاریاں مکمل کرلوں گی۔ میں ہوائی جہاز سے دبئی پہنچوں گی اور وہیں تمہارا پرتپاک سواگت کروں گی۔ جب میں ایک گھنٹے بعد واپس جانے لگا تو اس نے اپنائیت سے کہا۔ میں تم سے سچی محبت کرتی ہوں شیکھر ! اس میں کوئی تصنع اور کھوٹ نہیں ہے … اس بات کا اندازہ اور احساس اس بات سے کر سکتے ہو کہ میں نے تمہیں حاصل کرنے کے لیے کتنا خطرناک قدم اٹھایا ہے۔ پھر اس نے رقم کا تھیلا میری طرف بڑھایا اور ساتھ ہی ایک پھولا ہوا لفافہ بھی۔ لو ! اس میں وہ رقم ہے جو میں نے باس کی الماری کی تجوری سے نکالی ہے اور لفافے میں چالیس ہزار روپے ہیں۔ تم اس سے نئے کپڑے اور جوتے خرید لو تو اور کسی ہوٹل میں کمرا لے لو، پھر مجھے اطلاع دے دینا تا کہ میں تم سے وہاں ملنے آسکوں۔ میں نے تھیلا ہاتھوں میں تھام کر لفافہ جیب میں ٹھونس لیا۔ یہ رقم میرے مسائل کا حل تھی۔ اس نے مجھ پر سرشاری طاری کر دی تھی۔ اب مجھے کتوں کی تلاش کی مہم سے نجات مل گئی تھی۔ ممبئی شہر میں رات کو بھی دن ہوتا ہے۔ میں نے نصف میل چلنے کے بعد ٹیکسی رُکوائی۔ میں نے اپنی کو ٹھری میں پہنچ کر روشنی نہیں کی۔ کوٹھری میں ایک چارفٹ کی الماری تھی۔ رقم کا تھیلا اس ہیں ٹھونس دیا جو میلے کچیلے کپڑوں کی آغوش میں گم ہو گیا۔ میں نے لفافے میں سے رقم نکالی تو کانتا کے فلیٹ کی ایک ڈپلی کیٹ چابی بھی برآمد ہوئی جو اس نے شاید غلطی سے لفافے میں رکھ دی تھی۔ مجھے اطمینان ہو گیا تھا کہ اس پر کسی کی نظر نہیں پڑسکتی۔ اسے میں نے بڑی حفاظت سے رکھ لیا۔ میری آنکھ کھلی تو دروازے پر کوئی دستک دے رہا تھا۔ شنکر سامنے تھا، وہ اندر آیا تو میں بستر پر دراز ہو گیا۔ وہ معنی خیز لہجے میں بولا۔ رات تمہاری کہیں دعوت تھی ؟ جو صبح کے وقت لوٹے ہو ! تمہیں کس نے بتایا؟

مالکن مس نلنی نے۔ وہ اک دم سے ہنس دیا۔ میں نے دل میں نلنی کو جی بھر کے گالیاں دیں کہ کہیں اس نے کانتا کا نام نہ لے دیا ہو لیکن اس نے بتا دیا تھا۔ ”یار شیکھر! کیا تم نہیں جانتے کہ کانتا کیسی خود غرض عورت ہے …؟ اس نے تمہیں محبت میں کیسا دھوکا دیا… تم اس کا خیال دل سے نکال دو۔ اسے میں تم سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ وہ ڈیڑھ برس میری محبت رہی ہے۔ میں نے بے نیازی سے کہا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ باس کو تمہارے میل جول کی خبر ہو جائے اور مجھے تمہاری لاش بھی نہ ملے۔ یار ! ایساہر گز نہیں ہو گا، تو فکرمند اور پریشان نہ ہو۔ میں نے اسے یقین دلایا۔ اچھا تو تم میرے ساتھ چل کر ناشتا کرو۔ کل رات میں نے ایک شوہر کا سراغ لگایا ہے ، جو ایک فلیٹ میں اپنی سیکرٹری کے ساتھ رہتا ہے اور اس نے خفیہ سول میرج کر رکھی تھی۔ مجھے شریمتی جی نے ایک ہزار کی رقم دی۔ اس کا پتی اور سیکرٹری صاحبہ دونوں اسپتال میں داخل ہیں۔ یار ! میں بہت تھکا ہوا ہوں، سونا چاہتا ہوں۔ ابھی لیٹا تھا کہ نلنی آ دھمکی اور مجھے دیکھ کر حیرت سے بولی۔ میں سمجھی کہ تم رات آئے ہی نہیں…! تم غلط سمجھ رہی ہو ۔ مجھے اس عورت کے پتی نے ملازمت کے لیے بلایا تھا اور دو ماہ کی پیشگی تنخواہ بھی دی … یہ لو۔ میں نے اسے اپنا اور شنکر کا دو ماہ کا کرایہ دے دیا۔ اوہ .. نلنی چہکی۔ مجھے بنانے کی کوشش نہ کرو۔ اس کی آنکھوں میں حسرت اور آن جانا سا پیار تھا، پھر وہ لہجہ بدل کر تشویش سے بولی۔ تھوڑی دیر پہلے پولیس کے دو آدمی تمہیں پوچھتے ہوئے آئے تھے۔ میں نے انہیں ٹر خادیا تھا۔ میں اندر سے کانپ گیا۔ پولیس نے شاید مجھے مشتبہ لوگوں میں شامل کر لیا تھا۔ دو کروڑ کی رقم عذاب بن گئی تھی۔ اس کی حفاظت کرنا آسان نہیں تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک اغوا کی ہوئی لڑکی کو اس کی عزت و آبرو بچانا۔ یہ نہ صرف وبال بلکہ انتہائی اذیت ناک بھی تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں ناشتہ کرنے کے لئے ایک ہوٹل میں چلا آیا۔ میں ہوٹل میں گھس رہا تھا کہ شنکر بھی آگیا۔ میں نے انتہائی پر تکلف ناشتے اور کریم کافی کا آرڈر دیا تو اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ کبھی تمہارے باپ نے بھی کبھی سپنے میں بھی ایسا ناشتا کیا تھا؟ میں نے اس کو بتایا کہ میں نے نہ صرف نلنی کو تمہاری کھولی کا گذشتہ ماہ بلکہ دوماہ کا پیشگی کرایہ بھی ادا کر دیا ہے۔ بار کے مالک کا جو قرض ہم دونوں کے اعصاب پر تین ماہ سے بوجھ بنا ہوا ہے وہ بھی اس کے منہ پر دے ماروں گا۔ اب تمہیں کتوں کی تلاش میں خوار ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔

یار کہیں یہ میری سماعت کا فتور تو نہیں کیا کسی پتنی نے اپنے مال دار بوڑھے شوہر کو بازیاب کرنے کی خوشی میں تمہیں کسی بڑے انعام سے سرفراز کیا ہے ؟ اس وقت چونکہ ہوٹل کی تقریباً ساری میزیں خالی تھیں۔ صرف کونے کی میز پر ایک جوڑا ناشتا کر رہا تھا۔ میں نے شنکر کو اعتماد میں لے کر رات کا فسانہ اور دو کروڑ کی رقم کا قصہ سنایا۔ میں اور شنکر کوئی بات ایک دوسرے سے چھپاتے نہیں تھے۔ یار شیکھر ! اس تھیلے میں رقم نہیں بلکہ بم ہے جو کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔ اس نے خود کو بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے اتنی بڑی رقم تمہارے پاس رکھوا دی ہے۔ کبھی کسی وقت تمہیں چکمہ دے کر ساری رقم لے کر چمپت ہو جائے گی۔ وہ تجھے پہلے بھی ایک بار الو بنا چکی ہے۔ مگر یار ! وہ مجھ سے شدید محبت کرتی ہے۔ میں نے کانتا کا دفاع کیا۔ وہ میرے ساتھ ہرگز فراڈ نہیں کرے گی۔ دیکھ میرے یار ! جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہوتی ہے.. کیا تو یہ بات بھول رہا ہے ؟ جب محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے تو کیوں نہ ہم دو کروڑ کی رقم لے کر دبئی یا سنگاپور چلے جائیں اور وہاں ایک نئی اور خواب ناک زندگی کا آغاز کریں ؟ میں نے کہا۔ یہ رقم کانتا کے باپ کی تو ہے نہیں، ہمارے دُشمن باس کی ہے، جس نے ہمیں بے روزگاری کے دلدل میں دھکیل دیا۔ لیکن میں اس وقت کچھ اور ہی سوچ رہا ہوں میرے یار! شنکر بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا۔ میں جرائم پیشہ زندگی سے تنگ آگیا ہوں، اب محنت مزدوری کی کھانا چاہتا ہوں۔ میں کرمانی کو دیکھتا ہوں تو شرم آتی ہے۔ وہ عمر میں ہم سے دس برس بڑا ہے ، ریلوے اسٹیشن پر قلی ہے۔ اپنی آمدنی سے کتنا خوش اور مطمئن ہے۔ اسے نہ تو پولیس کا دھڑکا رہتا ہے اور نہ ضمیر کی ملامت کا. مزے سے سوتا ہے۔ پولیس ہمیں کسی نہ کسی کیس میں پھنسانے کے چکر میں ہوتی ہے۔ ہم رات کو سکون سے سو نہیں پاتے۔ ابے … کیا یہ ڈائیلاگ کسی فلم کے ہیں؟ میں نے پوچھا۔ ہاں، میری اپنی زندگی کی فلم کے اس نے جواب دیا۔ میں نے سوچ لیا اور فیصلہ بھی کر لیا ہے کہ قلی بن جائوں گا یار ! تم بھی رات کو ذرا ٹھنڈے دل سے سوچنا۔

اسی وقت میں نے دو مشکوک آدمیوں کو ہوٹل سے باہر ٹہلتے ہوئے دیکھا۔ میں اتنی بڑی رقم سے کسی قیمت پر ہاتھ دھونا نہیں چاہتا تھا۔ میں انہیں دھوکا دینا چاہتا تھا۔ شنکر ریلوے اسٹیشن چلا گیا کرمانی سے بات کرنے اور میں اپنی کھولی میں جا پہنچا۔ نلنی سے ایک تھیلا مانگا اور اپنی کوٹھری میں لے آیا۔ اس میں پرانے کپڑے بھرے اور کمرا مقفل کر کے نیچے آیا اور ایک ٹیکسی کر کے اس میں سوار ہو گیا۔ میں نے عقبی آئینے میں دیکھا کہ میرا تعاقب کیا جارہا ہے۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ جتنا تیز دوڑا سکتے ہو دوڑائو … میرے دشمن میری جان لینے کے لیے تعاقب کر رہے ہیں۔ ڈرائیور جوان تھا اور ہوشیار بھی … اس نے تین گھنٹے انہیں پریشان کیا اور جل دیتا رہا۔ آخر کار انہوں نے شکست مان لی۔ ریلوے اسٹیشن پہنچ کر میں کرایہ ادا کر کے عمارت میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ ان بد معاشوں نے ، جو دراصل پولیس کے آدمی تھے اور سادہ لباس میں تھے، مجھے دھر لیا۔ وہ کل تین افراد تھے۔ ان کے چہروں پر سختی اور آنکھوں سے سفاکی جھانک رہی تھی۔ ان میں سے ایک نے میرے ہاتھوں سے تھیلا چھین لیا اور لہرایا۔ میں انسپکٹر شرما ہوں اس نے وہیں کھڑے کھڑے تھیلے کی تلاشی لی اوراس میں پرانے کپڑے دیکھ کراس کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے طیش میں آکر تھیلا میرے منہ پر دے مارا۔ وہ رقم کہاں ہے ؟ کون سی رقم سر ! میں نے انجان بن کر پوچھا۔ جو تم نے تین دن پہلے دن دیہاڑے لوٹی تھی۔ دو کروڑ کی رقم۔ سر یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ وہ رقم میں نے لوٹی تھی ؟ ایک مخبر عورت نے اطلاع دی ہے۔ انسپکٹر صاحب ! آپ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ اتنی بڑی رقم اگر میرے ہاتھ لگتی تو اس وقت میں ہانگ کانگ ، دبئی یا سنگاپور میں ہوتا، اس کال کوٹھری میں نہیں سڑتا رہتا۔ میں تین دن کے لیے پونا جار ہا تھا کہ آپ نے-

اس کے باوجود مجھے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں مجھ سے چھ گھنٹے تک پوچھ گچھ ہوتی رہی ، ہراساں اور تشدد بھی گیا جب وہ میری خاصی خاطر مدارت کر چکے تو میں نے پولیس افسر سے کہا۔ سر ! کیوں نہ آپ ساتھ چل کر میرے گھر کی تلاشی لے لیں ..؟ مجرم اتنا احمق نہیں ہوتا کہ اتنی بڑی رقم اپنے گھر میں رکھے۔ اس نے میرے منہ پر ایک تھپڑ رسید کر کے کہا۔ اگر وہ میرے گھر کی تلاشی لے لیتے تو میں بے موت مارا جاتا، اس لیے کہ رقم گھر پر ہی موجود تھی۔ میں گھر پہنچا تو رات کے دس بج رہے تھے ۔ میں سارا راستہ یہ سوچتا ہوا آیا تھا کہ اسی وقت رقم کانتا کو واپس دے آئوں گا اور اس سے معذرت کرلوں گا، پھر میں بھی قلی بن جائوں گا اور یہ میرا جذباتی فیصلہ نہیں تھا۔ میں رقم کا تھیلا لے کر بلڈنگ کے عقبی راستے سے نکلا اور کانتا کے فلیٹ پر پہنچ کر ڈپلی کیٹ چابی سے دروازہ کھولا , تو اس کی ہنسی کی آواز خواب گاہ میں گونج رہی تھی۔ وہ ہنسی سے دُہری ہو کر کہہ رہی تھی۔ راج پال ! میں نے شیکھر کو خوب بے وقوف بنایا۔ میں کل صبح پولیس کو اطلاع دوں گی کہ رقم اس کی الماری میں ایک تھیلے میں رکھی ہے۔ رقم کا دس فیصد انعام مجھے مل جائے گا۔ میں ایک گھنٹے پہلے ہی رقم والا تھیلا دیکھ کر آچکی ہوں۔ جو تم دس کلو ہیروئن لائے ہو ، ہم اسے لندن لے جائیں گے۔ وہاں شاہانہ فلیٹ خرید کر زندگی گزاریں گے.

 عشق کا قاف (تحریر: اسلم راہی)

میں نے بیڈ روم میں جھانک کر دیکھا۔ وہ دونوں شراب پی رہے تھے۔ راج پال کہہ رہا تھا۔ تم جتنی حسین ہو اتنی ہی ذہین بھی۔ یہ دس کلو ہیروئن وہاں لاکھوں پونڈ کی ہو گی جو ہماری قسمت بدل دے گی۔ ہماری زندگی اور مستقبل بنا دے گی۔ وہ ان جانے سپنے دیکھ رہے تھے۔ میں نے نیچے آ کر پہلے اپنے ایک دوست رندھیر داس کو فون کیا جو ایک کرائم رپورٹر تھا اور پھر انسپکٹر شرما کپور کو اطلاع دی، اس لیے کہ انعام کا معاملہ تھا۔ پولیس نے جس وقت چھاپہ مارا وہ نشے میں دُھت تھے۔ میرا دوست بھی پہنچ چکا تھا۔ وہاں سے نہ صرف رقم کا تھیلا بلکہ ہیروئن بھی برآمد ہو گئی۔ مجھے دو کروڑ کی مسروقہ رقم پر دس فیصد انعام کے علاوہ راج پال اسمگلر کی گرفتاری پر پانچ لاکھ بھی مل گئے۔ وہ اشتہاری مجرم تھا۔ کانتا نے میرے لیے گڑھا کھودا تھا اور خود اس میں جا گری تھی۔ اب وہ دونوں سرکاری مہمان ہیں۔ ان کی زندگی واقعی بدل گئی ہے جبکہ میں اور شنکر ایک ہوٹل چلا رہے ہیں۔ کملا کو اس کے پتی نے طلاق دے دی تھی، کیونکہ اس نے ان جانے راستے پر چلنے سے انکار کر دیا۔ وہ اب میری پتنی ہے۔ اس نے ہوٹل کا کچن سنبھالا ہوا ہے۔ وہ اتنے عمدہ اور ذائقہ دار کھانے پکاتی ہے کہ لوگ انگلیاں چاٹ لیتے ہیں۔ کبھی آپ بھی ہمارے ہاں تشریف لائیں…

آنکھیں بھیگ جاتی ہیں (مکمل اردو کہانی)

خطرناک بچھو اور یہودی کا قصہ

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں