بازی ہار دی ہم نے (افسانہ)

Urdu Afsanay


افسانہ: بازی ہار دی ہم نے
تحریر: طہٰ مبارک

بھیگے اسٹیشن کے ویران بینچ پر رات کے اس پہر نم آنکھیں ، بوجھل دل لیے کھوئی کھوئی سی وہ بیٹھی تھی ۔ بارش کب کی رک چکی تھی لیکن لینے آنے والا ابھی تک نہیں آیا تھا اور نہ ہی دل منتظر تھا کہ کچھ لمحے اس فضا میں وہ تنہا گزارنا چاہتی تھی اُن لمحات کے ساتھ جو گزر کر بھی ٹھہر گئے تھے ۔ کتنی جلدی وہ لمحے آئے ، ٹھہرے اور پھر زندگی اور ذات اتھل پتھل کرتے ہوئے چلے گئے ۔

حاصل ، لاحاصل کی دوڑ میں اس کے ہاتھ کچھ نا آیا تھا ۔ محبتوں کی نذر ہوئے چند دن ناسور بن گئے تھے جو اندر ہی اندر کاٹ رہے تھے ، بھسم کر رہے تھے ۔ ہر لمحہ تکلیف دہ تھا اور ہر یاد اذیت ناک ۔
پلو مروڑتے ہوئے وہ یادوں کی اس گھٹری سے جو وہ ساتھ لیے پھر رہی تھی ایک ، ایک یاد نکال کر سامنے رکھنے لگی کہ آج فرصت بھی تھی اور گزرے دنوں کو کریدنے کا دل بھی تھا ۔

"کتنی بار کہا ہے تم سے نہ آیا کرو یہاں ۔"
"اور کتنی بار میں نے بھی کہا ہے تم سے کہ میں آتا نہیں دل خود بخود کھینچتا ہے یہاں ، قدم خود بخود اٹھتے ہیں اس دہلیز کی طرف ۔"
"محبت کرنے لگے ہو ؟"
سوال اچانک اور غیر متوقع تھا ۔
نہیں تو ! نہیں تو !
گھبرائے لہجے میں لفظ ادا ہوئے تو ایک قہقہہ فضاؤں کی نذر ہوا ۔
"کرنا بھی نہیں ورنہ بہت پچھتاؤ گے ۔"
ایک منظر نظروں کے سامنے آ کر ہٹا تو ساتھ ہی دوسرا منظر سامنے آیا ۔
" مجھے معلوم ہے میں کیا کہہ رہا ہوں اور مجھے تمھاری ذات ، حیثیت اور تمھارے ادھورے پن کا بھی پتہ ہے لیکن دل میری اپنی نہیں سن رہا ہے تو تمھاری کیا سنے گا ۔
محبت کی نہیں جاتی ، یہ ہو جاتی ہے چندا اور میں کیا کروں کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے ۔"
محبت کا اقرار کتنی آسانی سے اس نے کر لیا تھا اور کیسے خود اس کا دل اس کی جانب بڑھنے لگا تھا معلوم ہی نا ہو سکا لیکن اس معاشرے میں اس کے جذبات کی کوئی قدر نہیں تھی ۔ وہ محبت کے لیے تھی ہی نہیں اور نا اسے محبت کی اجازت تھی اور جن چند دنوں کے لیے وہ یہ بات بھول بیٹھی تھی اب وہی دن وبالِ جان بنے ہوئے تھے ۔
"میں تمھارے در پر بھیک مانگنے آئی ہوں ۔ مجھے میرا بیٹا واپس کر دو ۔ بہت مجبور ہو کر تمھارے پاس آئی ہوں ۔ میرا بیٹا میرے پاس ہو کر بھی میرے پاس نہیں ہے ۔ وہ اپنا دل تمھاری اس دہلیز پر چھوڑ بیٹھا ہے اسی کی بھیک مانگنے آئی ہوں ۔ دیکھو میری پھیلی جھولی کو خالی نہ لوٹانا تمھیں تمھاری ماں کا واسطہ ۔"
لفظ یاد آئے تو پلکوں کے پار نمی جمع ہونے لگی ۔
"میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں بلکہ ، بلکہ یہ لو اپنی چادر تمھارے قدموں میں ڈالتی ہوں بس مجھے میرا بیٹا لوٹا دو ۔"

روتے رلاتے بیٹا مانگتے وہ چلی تو گئی تھیں لیکن وہ رات اس پر بہت بھاری گزری تھی ، بچپن کی اس رات سے بھی زیادہ بھاری جس رات باپ نے گھر کی دہلیز سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر کیا تھا اور ماں کے آنسو اور ترلے بھی اسے نہ بچا پائے تھے اور لفظ ویسے ہی چبھے تھے جیسے باپ کے لفظ چبھے تھے " آج تم ہمارے لیے اور ہم تمھارے لیے مر گئے ہیں ۔"

گھٹنوں پر سر دھرے اس رات بہت روئی تھی اور آج بھی پلکوں کی باڑ توڑ کر آنسو ڈھلک گیا تھا ۔
"تم نے تو آج ساہیوال جانا تھا ، گئے کیوں نہیں ؟"
ایک اور یاد ذہن کے دریچے پر ابھری تھی ۔
"دل ہی نہیں کیا اس شہر کو اتنے دنوں کے لیے چھوڑنے کو ۔"
اور آج وہ خود اس شہر کو رات کی تاریکی میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ آئی تھی ۔ دل کا بوجھ اور بھی بڑھ گیا تھا ۔
کچھ فیصلے مشکل ضرور ہوا کرتے ہیں لیکن لینے پڑتے ہیں ۔ اپنے خوابوں سے دستبردار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار انسان اس دوراہے پہ آ پہنچتا ہے جہاں دوسروں کے لیے اپنی خوشیاں بھینٹ چڑھانی پڑ جاتی ہے ۔ ماں کی التجاء اور پھیلی ہوئی چادر کو رد کرنا اس کے بس میں تھا نہیں تھا کہ اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون تاحال سرخ ہی تھا ۔
پلکوں پر جمع ہوتے ہوئے آنسوؤں کو انگلی کے پورے سے ہٹایا تو ایک اور یاد ، ایک اور منظر سامنے تھا ۔
"لوگ آتے ، جاتے ہیں اور بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ ہماری کون سی صبح ، کون سی شام کسی بات ، کسی طعنے کے بغیر گزرتی ہے لیکن کسی کے لیے اپنا در ، اپنا رزق نہیں چھوڑا جاتا ۔ تم جاؤ گی تو میرا کیا ہو گا ؟"
"تم بھی سمجھ لینا کہ میں مر گئی ہوں جیسے میرا باپ سمجھا تھا ۔"
"نا پگلی ایسے تو نا کہہ ۔ جانا ہے جا ، چلی جا کلیجہ کیوں نکالتی ہے ۔"
وہ تڑپ کر بولی تھی ۔
"اور اُس کا کیا ہو گا ؟"

کچھ لمحوں کی خاموشی پھر بےچین لفظوں سے ٹوٹی تھی ۔
"آئے گا کچھ دن پلکوں کی منڈیر پر آنسو اور آنکھوں میں رت جگوں کا اثر لیے ۔ کچھ دن تڑپے گا ، سسکے گا لیکن پھر وقت مرہم بن جائے گا ۔ شاید اس معاشرے کی ریت بھی سمجھ جائے کہ ہم جیسوں پر تھوکا تو جا سکتا ہے ہم سے محبت نہیں کی جا سکتی ۔ سنبھل جائے گا گرو ، سنبھل جائے گا ۔
وہ بولی تو لفظ لفظ شکستہ تھا ۔

"محبت کے ڈسے سنبھلتے نہیں بکھرتے ہیں میری چندا ۔"
لفظ چابک کی طرح لگے تو روتے ہوئے وہ گرو کے ساتھ لگ گئی ۔
"جب ہمیں ادھورا پیدا کرنا تھا تو ہمارے سینے میں دل کیوں رکھا گرو ۔ ہم خواجہ سرا محبت کیوں نہیں کر سکتے ؟"
آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر بہہ پڑے تھے اور دل کے زخم مزید گہرے ہوئے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زہے نصیب زہے نصیب ۔ ہماری نگری میں تو پری اُتر آئی ہے ۔"
آنے والے کے جملے اسے واپس اسٹیشن کے بینچ پر لے آئے تھے ۔
نئے شہر میں آئے ہوئے دو ہفتے گزرنے کو تھے لیکن نا موسم راس آ رہا تھا نا شہر ۔ جسم یہاں تھا لیکن دل تو دور کسی کی دہلیز پر پڑا ہوا تھا اور جدائی کا زخم یوں رس رہا تھا کہ ہر منظر اپنا رنگ کھو بیٹھا تھا ۔ ایک خالی پن زندگی میں در آیا تھا جسے کوئی شے دور نہیں کر پا رہی تھی ۔ شہر نیا تھا لیکن یادیں پرانی تھیں جو کسی لمحے بھی اس کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھیں ۔ دل کا سودا کر کے اس نے بہت خسارے والا سودا کیا تھا ۔

"جس راستے پر تو چل پڑی ہے اس میں کانٹے ہی کانٹے ہیں ، تکلیف ہی تکلیف ہے ۔ ہم محبت کرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئیں چندا اور نا یہ معاشرہ ہمیں محبت کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ اتنے خواب نا سجاؤ ان پلکوں پر کہ کل ٹوٹیں تو تم بھی ٹوٹ جاؤ ۔ محبت کا زہر نس نس میں اتر کر اندر سے بھسم کر دیتا ہے پگلی ، سنبھل جا ۔ ہم محبت کے لیے نہیں ، دور رہ اس روگ سے ۔"

ایک شام آئینے کے سامنے اسے سجتا دیکھ کر ایک سہیلی نے اسے کہا تھا ۔ تب لفظ زہر لگے تھے لیکن آج ایک ایک لفظ سچ دکھائی دے رہا تھا ۔
اور یہ حال صرف اس کا نہیں تھا بلکہ سینکڑوں میل دور پچھلے شہر کے لوگ بھی اداس اور بےچین تھے ۔ محبت کا زہر ادھر بھی نس نس میں اترا ہوا تھا اور اثر آنکھوں سے جھلک رہا تھا ۔زندگی کی ساری رعنائیاں محبت چاٹ گئی تھی ۔
ایک جوان کی جوانی اور دل محبت کی بھینٹ چڑھ گئے تھے ۔
محبت بھی عجیب شے ہے یہ کی نہیں جاتی ، ہو جاتی ہے ۔ نسل ، ذات ، برادری کو دیکھے بغیر ، سود و زیاں ، نفع نقصان کی جمع تفریق کیے بغیر اور پھر جب ہارتی ہے تو کہیں کا نہیں چھوڑتی ، زندہ لاش بنا دیتی ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی پھر پاس کچھ نہیں رہتا ۔ دل مر جائے تو ہر رونق ، رعنائی ختم ہو جاتی ہے اور یہی حال ان دونوں کا تھا ۔
بجھی بجھی سی ہے دل کی دنیا
نہ اس سے ملتے نہ ایسا ہوتا
"جی گرو آپ نے بلایا ہے ۔"

"ہاں تجھے بتانا تھا کہ شام کو تیار رہنا ایک شادی پر جانا ہے ۔"
"گرو آج اگر رخصت مل جاتی تو آپ کی مہربانی ہوتی ، طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔"
"ہائے صدقے ان نخروں کے ۔ مولا خوش رکھے کتنے دن ہو گئے ہیں آئے ہوئے لیکن طبیعت ہے کہ ٹھیک ہی نہیں ہو رہی ۔"

ہاتھ پر ہاتھ مار کر جو تالی بجی تو اس کا دل اور بھی بجھ گیا ۔ وہ خاموشی سے کھڑی ہو گئی کہ اب جانا تو طے تھا ۔
"اور سن ذرا اچھے سے تیار ہو کر جانا ۔ چوہدری ذرا نخرے والا ہے ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کتنے دن ہو گئے ہیں گئے ہوئے ۔ ایک دو بار کے علاوہ کال ہی نہیں کی تو نے ۔"
وہ نکل ہی رہی تھی کہ پچھلے شہر کے گرو کی کال آئی ۔ جس کے قدموں میں زندگی بیتی تھی اس کی آواز سنی تو بےاختیار دل بھر آیا ۔ بڑی مشکل سے آنسو روک لیے تھے ۔
"کیا کروں گرو اب کسی چیز میں دل ہی نہیں لگتا ۔ نہ کسی سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے ۔
اندر بس ایک ہی موسم ٹھہر گیا ہے درد کا موسم ، غم کا موسم ۔"
"اللہ خیر کرے ۔ ایسے نہیں کہتے میری چندا ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ وقت لگے گا لیکن زخم بھر جائے گا ، دل لگ جائے گا ۔"
"چھوڑو یہ سب باتیں گرو ، بتا وہ کیسا ہے ؟ گئی تھی اس گلی ؟ آیا تھا وہ نظر ؟ "
"کیسا ہو گا محبت کا ہارا ہوا ۔ کچھ دن سے نہیں آیا تھا تو کل گئی تھی اس کے محلے ۔ اس کے اڑے ہوئے رنگ ، کمزور جسم اور بخار میں تپتے وجود نے رات بھر سونے نہ دیا ۔ مولا دشمنوں کو بھی اس محبت سے دور رکھے ۔"
اور کچھ سننے کی ہمت ہی نا تھی تو کال کاٹ دی ۔ سارا راستہ سر گھٹنوں میں دیے وہ ماضی کریدتی رہی ۔ اذیت اور تکلیف بڑھتی رہی اور اس اذیت میں اضافہ چوہدری صاحب کے ان لفظوں نے کیا جو گاڑی سے اترتے ہی اس کے کانوں میں پڑے ۔
"فضلو دیکھ وہ ہیجڑے پہنچے کہ نہیں ؟"
لفظ کیسے کاٹتے ہی کوئی آج اس سے پوچھتا ۔ ہر آتے جاتے کی غلیظ نظر اور آوازوں کا ان پر کسنا اندر ہی اندر اسے تڑپا رہے تھے ۔ اس سے زیادہ بےوقعت چیز شاید ہی کوئی اس وقت زمین پر تھی ۔
جیسے ہی رات گہری ہونے لگی ، محفل جمنے لگی تھی ۔ موسیقی بجنے لگی تھی اور جسم تھرکنے لگے تھے لیکن اس کا نہ دل لگ رہا تھا نہ من ۔ دل تو ویسے ہی پاس نہ تھا آج دماغ بھی غائب تھا ۔ ذہن بار بار الجھ رہا تھا ۔
"ہم کون ہیں ، کیا ہیں ۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے ہم پیدا ہی کیوں ہوئیں ۔ نا ہم مرد نا ہم عورتیں صرف "گوشت" جسے غلیظ معاشرے کے غلیظ لوگ انسان ہی نہیں سمجھتے ۔ غازے مَلے چہروں کے نیچے دل بھی ہوتے ہیں جو اکثر ویران ہوتے ہیں ۔"
چھوٹے چوہدری اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے خاص مشروب کے گھونٹ پر گھونٹ پینے لگے تھے ۔ جام سے جام ٹکرا رہے تھے ۔
"ہمارا درد درد نہیں ہوتا ہماری تکلیف تکلیف نہیں ہوتی ۔ ہماری مجلسیں کبھی ہماری ترجمان نہیں ہو سکتی ۔ چہروں کی مسکراہٹیں ہماری عیاری ہوتی ہیں ۔ کوئی ہماری تنہائیوں میں جھانکے تو اسے آہوں اور سسکیوں کے سوا کچھ نہ ملے گا لیکن جھانکے گا کون اور کیوں کہ یہاں انسانوں کی صورت میں بھیڑیے رہتے ہیں جنھیں احساسات سے نہیں جسم سے غرض ہوتی ہے ۔"
" یار چوہدری یہ تو کن لوگوں کو بلا لایا ہے ۔
نشے میں ڈوبتے ایک دوست کی لڑکھڑائی آواز سنائی دیتی ہے ۔
"اس سے تو اچھا ہمارے محلے کی مصلیاں ناچ لیتی ہیں ۔"
ایک اور آواز سنائی دی تھی ۔
"لگتا ہے پیسے بچانے کی ، کی ہے بڑے چوہدری صاحب نے۔"
زوردار قہقہہ چھوٹے چوہدری صاحب کے مزاج پر بہت بھاری پڑا تھا ۔
"ہمارا بچپن روند دیا جاتا ہے ۔ ہم بچپن دیکھ ہی کہاں پاتے ہیں کہ ہمارے اپنے ہمیں ہماری دہلیزوں سے نکال کر کسی اڈے تک پہنچا آتے ہیں ۔ انھیں کیا معلوم کہ اڈوں کے در و دیواروں کے پیچھے کتنی کربناک راتیں اور کتنے آنسوؤں میں ڈوبے دن ہوتے ہیں ۔ ہمیں تو ہماری مائیں تک بچا نہیں پاتیں ".
"کیا کر رہی ہے تو ۔ صحیح سے ناچ نا ۔ دھیان کدھر ہے تمھارا ۔ خود بھی مرے گی ہمیں بھی مروائے گی ۔"
سہیلی نے ٹوکتے ہوئے سرگوشی کی تھی ۔
"چوہدری صاحب اس سے اچھا مجرا تو نمبردار نے کیا تھا ۔"
نشے میں ڈوبے چوہدری صاحب کی انا پر ہر ضرب بھاری پڑ رہی تھی ۔ ان کی انا انھیں مجبور کرنے لگی تھی ۔
"ان بےحس لوگوں کو کیا معلوم کہ قدرت نے کتنے حسین رنگ بھر کے ہمیں تخلیق کیا ہے ۔ ہم زندگی جینے کے لیے آتی ہیں لیکن گزار کر چلی جاتی ہیں ۔ ہم ادھورے لوگ ادھورے ہی رہ جاتے ہیں اور ادھورے ہی رخصت ہو جاتے ہیں ۔ پل پل مرتے "ہم" ایک دن مر ہی جاتے ہیں ۔"
ٹھاہ ، ٹھاہ ، ٹھاہ کی آواز کے ساتھ ہی ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔ ساز اور سازندے خاموش ہوئے تو کٹے ہوئے شہتیر کی طرح اس کا وجود زمین پر آ گرا ۔ سر میں اترنے والی گولیاں اسے پل پل کی تکلیف سے آزاد کر گئی ۔
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا

رنگ محل کے بے زبان جانور (افسانہ)



urdu afsanay, romantic urdu afsanay, urdu-afsanay, short urdu afsanay, mukhtasar urdu afsanay, afsanay urdu adab, urdu afsanay pdf, urdu afsanay list, urdu afsanay read online
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں