پرانے زمانے کی کہانیاں
سلائی مشین
شاہدہ اور سعیدہ سے میرا دودہ شریک رشتہ تھا جب تک اماں زندہ رہیں وہ ھمارے گھر آتی رہیں اماں ان سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتیں اماں کے جاتے ہی ہمارا بھی ان سے آنے جانے کا رشتہ منقطع ہو گیا یہ دو بہنیں ایک بھائی تھا ماں باپ کا انتقال بہت پہلے ہو چکا تھا ان کا گھر کافی دور تھا میں کبھی گئی نہیں بس اتنا معلوم تھا نند بھابھی والے جھگڑے سے بیزار ہو کر بھائی نے درمیان سے دیوار اٹھادی تھی بھائی گھروں کے تعمیرات کی مزدوری کرتا شاہدہ اور سعیدہ کی عمر پانچ سال کے فرق سے پینتیس اور چالیس سال تھی غربت کی وجہ سے دونوں بہنوں کا رشتہ نہ ہو سکا ایسے مسائل دیکھ کر غربت کبھی عیب تو کبھی ناسور لگتی ہے
مجھے معلوم ہوا شاہدہ کی طبیعت خراب ہے میں اس کی عیادت کو چلی آئی گھر کیا تھا ایک بوسیدہ لکڑی کے پرانے دروازے سے اندر داخل ہوکر صحن کے ٹوٹے ہوئے فرش سے کمرے کے اندر داخل ہوئی دیکھا کمرے کا فرش بھی ٹوٹا ہوا اسکے درودیوار چھت بھی اپنے کمزور ہونے کی داستان سنا رہے تھے شاہدہ اور سعیدہ مجھے دیکھ کر خوش بھی ہوئیں اور لا تعلق رہنے کا شکوہ بھی کر دیا میں بہت نادم تھی شاہدہ بہت کمزور ہو گئی تھیں پرانے اور صاف ستھرے لباس سے نفاست پسندی دکھ رہی تھی باہر رسی پر ایک پرانا لباس دھوکر سکھانے کے لئے رسی پر ٹنگا ہوا تھا اس پر بھی ہاتھ کے ٹانکے سے پیوند لگے تھے
دونوں بہنیں مجھ سے لپٹ کر ایسے روئیں جیسے میں ان کی سگی بہن ہوں میں بہت شرمندہ تھی میں نے اپنا حق ادا نہیں کیا اتنی گرمی میں وہ رات کو ایک نیچے والا پنکھا چلاتی بتیاں بند رکھتیں مزدور بھائی پر بوجھ نہ ہوہر معاملے میں حالات کے مطابق چلنے کی کوشش کرتیں باجی جو پرانے کپڑے آپ دیتی ہیں ہم وہی پہنتی ہیں اپنے غم سناتے سناتے سعیدہ نے بتایا وہ سلائی جانتی ہے پر اس کے پاس سلائی مشین نہیں اسے ایک خدا ترس غریب عورت نے یہ ہنر دیا تھا
سعیدہ نے جیسے ہی یہ بات کی ذہن میں ایک دھماکا ہوا سعیدہ میں نے کچھ دن پہلے ایک نئی سلائی مشین منگوائی ہے وہ میں تمہیں دیتی ہوں کپڑے بھی سینے کے لیے پہلے میں تمہیں دیتی ہوں تاکہ تم اپنے ہنر سے فایدہ اٹھا سکو اور کسی کے آگے ہاتھ بھی نہ پھیلانا پڑےمیں نے بس کپڑوں کی جو سلائی کھل جاتی ہے اسے سینے کے کے لیے منگوائی تھی میں تمہیں آج ہی بھیج دیتی ہوں گھر آکر سب سے پہلے میں نے اسے اپنے کپڑے اور سلائی مشین بھیج دی۔
0 کمنٹس:
ایک تبصرہ شائع کریں