نماز کی برکت سے زندگی بدل گئی
عارفہ نے کئی دنوں سے اپنی دوست سدرہ سے کہہ رکھا تھا مجھے کوئی کام والی ماسی چاہیے با وجود کوشش کے بھی مجھے نہیں مل رہی تم ہی کوئی قابل اعتماد ماسی تلاش کرنے میں میری مدد کرو بڑے دنوں کے بعد سدرہ نے عارفہ کو فون پر بتایا میں نے تمہارے لیے ماسی کا بندوبستی کر لیا جس پر تم آنکھیں بند کر کے بھروسہ کر سکتی ہو ہمارے خاندانی جان پہچان کے لوگ ہیں مجھے جیسے ہی پتا چلا انہیں کام کی ضرورت ہے میں نے انہیں تمہارے بارے میں بتا دیا شام تک تمہارے گھر آجائے گی باقی معاملات تم خود طئے کر لینا سدرہ کی بات کے مطابق وہ شام کوعارفہ کے گھر پہنچ گئی عارفہ شام کے کھانے کے لیے چاول چن رہی تھی دروازے کے کھلنے کی آواز آئی ساتھ ہی ایک باوقار خاتون اندر داخل ہوئی اسلام علیکم باجی مجھے سدرہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے وعلیکم السلام ارے ہاں ہاں آجائیں مجھے آپ کا ہی انتظار تھا عارفہ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے انہیں اپنےساتھ چارپائی پر بٹھا دیا کیا نام ہے آپ کا عارفہ نے اس سے نام پوچھا جی میرا نام سدوری ہے سدوری نے جواب دیا کیا خیال ہے گھر کا کام سنبھال لوگی جی جی باجی آپ فکر ناں کریں سدوری نے عارفہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی عارفہ اسے کام سمجھاتی گئی سدوری ہاں میں ہاں ملاتی رہی سچی بات تو یہ تھی اس با وقار اور پر نور چہرے والی عورت سدوری نے عارفہ کو پہلی نظر میں ہی بہت متاثر کیا تھا عارفہ کی بچی چھوٹی تھی اسی وجہ سے کام والی ماسی کی ضرورت تھی سدوری نے جیسے ہی عارفہ کے گھر کا کام سنبھالا عارفہ مطمئن ہو گئی سدوری بہت نفاست سے کام کرتی اور اتنی ایمانداری اور توجہ سے عارفہ کے گھر کو سنبھالا ہوا تھا جیسے وہ اسی گھر کی فرد ہو عارفہ کا سدوری پر اعتبار دن بدن بڑھتا گیا سدرہ نے اسکی جتنی تعریف کی تھی سدوری اس سے کہیں زیادہ اچھی ثابت ہوئی وہ اپنے کام سے کام رکھتی عارفہ سے بھی زیادہ فری نہ ہوتی عارفہ کو جو بات سدوری کی سب سے زیادہ پسند تھی وہ تھی نماز کی پابندی جیسے ہی اذان ہوتی سدوری سارے کام چھوڑ کر مصلے پر کھڑی ہو جاتی عارفہ خود نماز کے معاملے میں بہت سست تھی سب سے بڑا بہانا یہی تھا بچی چھوٹی ہے عارفہ نے سدوری کے چہرے کے نور کا راز جان لیا تھا سدوری کے پر رونق چمکتے ہوئے چہرے کا راز نماز کی پابندی تھی عارفہ کا ضمیر اتنا جاگ چکا تھا وہ جب بھی سدوری کو مصلے پر کھڑا دیکھتی خود کو کوسنے لگتی
یہ اسی نماز کی عقیدت تھی عارفہ سدوری کا بہت احترام کرتی سدوری نے عارفہ کو کبھی بھی تنگ نہیں کیا اتوار کا دن تھا سدوری کچھ پریشان سی دکھائی دی عارفہ نے اس کے چہرے کی ویرانی کو دیکھتے ہوئے کہا کیا بات ہے سدوری آپ بہت پریشان دکھائی دیتی ہیں سدوری کے برتن اٹھاتے ہوئے ہاتھ رک گئے وہ وہیں بیٹھ گئی باجی میرے بیٹے کو بہت تیز بخار تھا ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی اسی لیے آپ کو پریشان دکھائی دے رہی ہوں عارفہ اس پر ناراض ہوتے ہوئے بولی آپ کے بیٹے کو بخار تھا تو آپ کو چھٹی کرنی چاہیے تھی سدوری مسکراتے ہوئے بولی معمولی بخار تھا اللّٰہ کا شکر ہے اب وہ ٹھیک ہے آپ کے کتنے بچے ہیں عارفہ اپنے موڈ میں تھی بیٹا اور بیٹی ماشاءاللہ سے بیٹی شادی شدہ ہے آپ کا بیٹا کیا کرتا ہے کچھ نہیں کیا مطلب وہ کماتا نہیں عارفہ کو سدوری کی آنکھوں کی خاموش پریشانی نظر نہیں آئی وہ چل پھر نہیں سکتا معذور ہے بس نماز قرآن پڑہ کر گھر بیٹھا ہےعارفہ کے دل پر ایک گھونسا لگا وہ نماز اور قرآن پاک پڑھتا ہے سدوری نے بیٹے کے بارے میں بتایا وہ شروع سے ہی چل پھر نہیں سکتا وہ بہت چھوٹا تھا میں اسے مدرسے میں قرآن پاک کی تعلیم کے لیے چھوڑ آتی اور ایک مقرر ٹائم پر اسے مدرسے سے لے آتی اسی طرح خدا کا شکر ہے اس نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرلی وہ پانچوں وقت نماز کے لیے مسجد جاتا ہے وہ چل نہیں سکتا خود کو گھسیٹ گھسیٹ کر مسجد میں نماز کے لیے جاتا ہے اسے نماز کے بغیر مزا نہیں آتا عارفہ سے اس سے زیادہ سنا نہیں گیا سدوری برتن اٹھا کر چلی گئی عارفہ زاروقطار رو نے لگی اے میرے اللّٰہ مجھے معاف کردے میری نافرمانیوں کو معاف کردے سدوری کا بیٹا معذور ہوتے ہوئے بھی تیری شکر گزاری کے لیے تیری بارگاہ میں حاضری لگاتا ہے اور میں نادان جسے تونے صحت کے ساتھ ہر نعمت ادا کی سدوری کے بیٹے سے بھی گئی گزری نکلی جو تجھے بھلا دیا تیری نعمتوں کو بھلادیا اللّٰہ اکبر کی سدا فضا میں بلند ہوئی عارفہ آٹھ کھڑی ہوئی وضو کر کے مصلے پر کھڑی ہو گئی اس عہد کے ساتھ اب وہ انشاللہ نماز کبھی نہیں چھوڑے گی وہ روتی جا رہی تھی معافیاں مانگتی جاتی عارفہ کو مصلے پر کھڑا دیکھ کر سدوری کو بہت سکون مل رہا تھا
0 کمنٹس:
ایک تبصرہ شائع کریں