خونی ریچھ کی کہانی (پہلا حصہ)


خونی ریچھ کی کہانی (پہلا حصہ)

خونی بلا کے ہاتھ اتنے بڑے تھے کہ اس نے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک آدمی کو یوں اٹھا رکھا تھا جیسے وہ کوئی کھلونے ہوں، پھر اس نے اپنے دونوں بازو پھیلائے، اور منہ کھول کر اونچی آواز میں چنگاڑتے ہوئے دونوں آدمیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دے مارا، یہ ٹکراؤ اتنا شدید تھا کہ ان دونوں کے چیخ بھی نا نکلی اور خون کے چھینٹے دور دور تک پھیل گئے۔۔۔ ایسا دہشتناک منظر میں نے کبھی دیکھا تھا نا ہی سنا تھا۔۔۔ میں دبے قدموں پیچھے ہٹنے لگا، لیکن اس درندے نے مجھے دیکھ لیا تھا، مجھے اپنی موت سامنے نظر آنے لگی۔۔۔ اور پھر میں مڑ کر بھاگنے لگا،

یہ کوئی خونی بلا نہیں تھی یہ ریچھ تھا لیکن ریچھ بھی نہیں تھا ریچھ اتنا بڑا تھوڑی ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا کر مار دے۔۔ اس بلا کے ہاتھ اتنے بڑے تھے کہ کسی بھی انسان کا سر پکڑ کر اس کو مروڑ کر مار دینا اس کے لیے معمولی بات تھی۔۔ دونوں آدمیوں کو مار کر وہ بلا میری طرف بڑھنے لگی۔۔ میں اس کا ارادہ جان چکا تھا، وہ میرا گلا چبانا چاہتی تھی اور میں اپنے آپ کو اتنی آسانی سے موت کے منہ میں نہیں دے سکتا تھا اس لیے میں الٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگا، لیکن اس نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور میرے اوپر آن گری۔ مجھے لگا کہ اس بلا کے وزن سے ہی میری جان نکل جائے گی، خوف کی وجہ سے میرا جسم پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔

اور پھر میری آنکھ کھل گئی
میرا جسم سچ مچ پسینے سے بھیگا ہوا تھا، اور خوف کی وجہ سے میرا حلق خشک ہو رہا تھا، میں نے اٹھ کر پانی پیا اور لمبے لمبے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے لگا،
مجھے سنیاسی قبیلے سے واپس آئے ہوئے تقریباً دو ماہ ہو چکے تھے، شروع کا ایک مہینہ تو میں نے قبیلے کے لوگوں بالخصوص کومل کو یاد رکھا تھا پھر آہستہ آہستہ مجھے سب کچھ بھولنے لگا اور میں اپنی زندگی میں مگن ہو گیا، پھر اچانک ایک رات مجھے خواب میں وہ خونی بلا دکھائی دی، جس نے قبیلے میں دو لوگوں کی جان لی تھی، اس خواب کے بعد میرے ذہن میں سب یادیں تازہ ہونے لگیں اور پھر یہ روز کا معمول بن گیا، میں خواب میں اس خونی بلا کو دیکھتا،

 جو بے دردی سے قبیلے والوں کو قتل کر رہی تھی، پھر کئی بار خواب میں مجھے کومل بھی نظر آئی، میں نے ہر بار اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں اداسی اور ویرانی دیکھی تھی، یوں لگتا تھا کہ وہ مجھے بُلا رہی ہے، اس دن جب میں جاگا تو کافی بے چین تھا، میں نے ناشتہ کیا اور گھر سے باہر نکل کر اپنے جانوروں والے باڑے میں آ گیا، گھوڑے نے مجھے دیکھا تو بے چین ہو گیا، میں نے آگے بڑھ کر اس کی کمر تھپتھپائی، تو وہ پر سکون ہو گیا، یہ وہی گھوڑا تھا جو مجھے کومل کے باپ ناشی بابا نے قبیلے سے بھاگنے کے لیے اس وقت دیا تھا جب قبیلے والے رات کے وقت مجھے ویرانے میں باندھ کر چلے گئے تھے، تاکہ خونی بلا مجھے مار دے، اور قبیلے سے نحوست کے سائے ختم ہو جائیں، لیکن کومل اور اس کے باپ کی کوشش سے نا صرف میری جان بچ گئی تھی

 بلکہ میں خیریت سے اپنے گھر واپس بھی پہنچ گیا تھا، لیکن اب دو مہینے گزر جانے کے بعد میں نے سوچ لیا تھا کہ جو بھی ہو جائے مجھے ایک بار واپس وہاں جانا چاہیے، مجھے بار بار خواب میں اس قبیلے کی تباہی نظر آتی تھی جو میرے وہاں سے آنے کے بعد خونی بلا نے مچائی تھی میں اس درندے کے لیے خونی بلا کا لفظ اس لیے استعمال کرتا ہوں کیونکہ سنیاسی قبیلے کے لوگ بھی اس کو خونی بلا ہی کہتے تھے جب تک میں اس کو قریب سے دیکھ اور سمجھ نا لیتا تب تک اسے خونی بلا کہنا ہی مناسب ہو گا، میں گھر سے باہر نکلا اور ناصر کی جانب چلا آیا، وہ صحن میں بیٹھا اپنی بائیک صاف کر رکھا تھا،

 شاید وہ کسی کام سے نکلنے والا تھا، یہاں پر ایک بات بتاتا چلوں کہ یہ وہ بائیک نہیں تھی جس کو ہم نے ریگستان میں ایک درخت کے نیچے زمین میں چھپایا تھا، ریگستان سے جان بچا کر جب ہم تینوں اپنے گھر پہنچ گئے تھے تو ہم نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر اس جگہ پر درخت کے نیچے بائیک ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ بائیک ہمارے جانے سے پہلے کوئی وہاں سے نکال کر لے گیا تھا، شاید مسلسل چلنے والی ہوا کی وجہ سے اس کے اوپر سے ریت ہٹ گئی تھی، بائیک کسی راہگیر یا مقامی آدمی کی نظر میں آئی تو وہ نکال کر اسے ساتھ لے گیا تھا لیکن پھر بھی ہمیں کوئی افسوس نہیں ہوا تھا، ہمارے گھر والوں کا خیال تھا کہ بائیک کے گم ہونے سے شاید ہمارا صدقہ نکل گیا تھا اور اسی وجہ سے ہم تینوں جان بچا کر گھر پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے،

مجھے سامنے دیکھ کر ناصر مسکرانے لگا اور بولا کہ خیر تو ہے آج صبح صبح آن پہنچے ہو، میں نے کہا کہ پہلے چائے پلاؤ پھر بتاتا ہوں، ناصر نے گھر میں چائے کا بول دیا اور مجھے ساتھ لے کر ایک کمرے میں جا بیٹھا اور بولا کہ کیا بات ہے؟ تم کچھ پریشان لگ رہے ہو،
میں نے اسے کہا کہ یار، میں ایک بار اس قبیلے میں واپس جانا چاہتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ وہاں پر کسی کو میری ضرورت ہے، میرا اشارہ کومل اور اس کے گھر والوں کی جانب تھا،

میری بات سن کر ناصر ہنس پڑا اور بولا کہ لگتا ہے تم کو زندہ رہنا پسند نہیں ہے،
ایک بار وہاں سے بچ کر آ گئے ہو تو اب دوبارہ جا کر مرنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا ہاں یار۔۔ جو بھی ہے میں نے تو وہاں پر جانا ہی ہے، اور مجھے امید ہے تم بھی میرے ساتھ چلو گے، لیکن ناصر نا مانا، اس کا کہنا تھا کہ اگر ایڈونچر کا اتنا ہی شوق ہو رہا ہے تو کچھ ہفتے رک جاؤ، ابھی فصل کی بوائی کا موسم ہے، فارغ ہو کر اکٹھے چلیں گے اور میں بھی دیکھوں گا کہ کون سی جگہ تھی جہاں سے واپس آ کر تم دوبارہ وہاں جانے کو بے چین ہو رہے ہو۔۔

میں نے کہا کہ اگر جانا ہے تو ابھی چلو ورنہ میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا، جن لوگوں نے وہاں پر بار بار میری جان بچائی تھی وہ اب مشکل میں ہیں اور میرا جانا ضروری ہے، ورنہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا، ناصر کہنے لگا کہ تم فضول کے خواب دیکھ دیکھ کر وہاں جانے کی ضد کر رہے ہو، کوئی خونی بلا نہیں ہوتی، یہ سب ان لوگوں کا ڈر اور وہم ہے، اگر تم وہاں چلے گئے تو قبیلے والے تم کو لازمی مار دیں گے، چائے پینے کے دوران بھی ہماری بحث و تکرار جاری رہی، اور پھر میں اٹھ کر گھر واپس آ گیا، ان دنوں وسیم کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا، ورنہ وہ لازمی میرے ساتھ چل پڑتا، میں تو تقریباً فارغ ہی تھا، اس لیے میں نے سوچا کہ آج ہی تیاری مکمل کر کے اگلے دن نکل جاؤں گا۔۔۔

وہاں سے گھر آنے کے بعد میں نے خشک راشن (جس میں بھنے ہوئے کالے چنے، کجھوریں، مختلف طرح کے بسکٹ، خشک میوہ جات اور پانی کی چند بوتلیں تھیں ) جمع کیا، اور اپنے سفر کی تیاری کو آخری شکل دینے لگا، میں نے اپنے ساتھ ایک بہترین کلہاڑی بھی رکھی، جس کا دستہ لمبا لیکن وزن میں ہلکا تھا، یہ کلہاڑی ایک ہی وار میں کئی انچ موٹی لکڑی کو با آسانی چیر سکتی تھی، یہ سب کام نمٹانے کے بعد رات کو میں سو گیا، اس رات دوبارہ خواب میں مجھے کومل نظر آئی، آج اس کے چہرے پر اداسی قدرے کم تھی شاید وہ جان گئی تھی کہ میں اس کے قبیلے کی جانب نکلنے والا ہوں۔۔۔ 

یہ میری سوچ تھی، حقیقت کچھ بھی ہو سکتی تھی، اگلی صبح میں تھوڑا جلدی جاگ گیا، فریش ہو کر ناشتہ کیا، گھوڑے کو جس کا نام میں نے شیرو رکھا تھا اس کو پیٹ بھر کر چارہ کھلایا اور پانی پلانے کے بعد ایک گیلن میں پندرہ لیٹر اضافی پانی بھر کر شیرو کی کمر پر باندھ دیا، یہ پانی شیرو کے لیے تھا، میں اس بار ہر طرح کی تیاری کر کے نکلنے والا تھا، مجھے اچھی طرح پتا تھا کہ میں جس ریگستان میں جا رہا ہوں، وہاں قدم قدم پر موت ناچتی ہے، مرنے والوں کی بکھری ہوئی ہڈیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں اور گوشت کے بھوکے گیدڑ ، بھیڑے اور صحرائی لومڑ آپ کی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں۔۔

میں نے اپنے ساتھ آگ جلانے کا سامان بھی رکھا ہوا تھا، لکڑیاں تو ریگستان میں وافر ملتی تھیں لیکن ماچس اور ایک بوتل میں مٹی کا تیل بھر کر میں نے اپنے سامان میں پہلے ہی رکھ لیا تھا، میں جانتا تھا کہ اگر بدقسمتی سے میں راستہ بھٹک گیا تو یہ چیزیں میری جان بچانے کے کام آئیں گی،

گھر والوں کو میں نے یہ بتا کر مطمئن کر دیا تھا کہ دوسرے گاؤں میں ایک دوست کے پاس جا رہا ہوں، وہاں کچھ دن رہوں گا اور اس کے ساتھ مل کر شکار کھیلوں گا پھر واپس آ جاؤں گا، تقریبا دس بجے میں گھر سے نکل آیا، شیرو یعنی میرا گھوڑا اب میرے اشاروں پر چلتا تھا، آدھے گھنٹے بعد ہی میرا گاؤں کافی پیچھے رہ گیا، اب میری آنکھوں کے سامنے میلوں تک پھیلا ہوا ریگستان تھا جس میں بہت سی داستانیں چھپی ہوئی تھیں، میں نے ایک بار شیرو کو روک کر مدد طلب نظروں سے آسمان کی جانب دیکھا اور پھر اسے آگے بڑھا دیا۔۔۔ اب ریت شیرو کے قدموں تلے تھی اور وہ آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔ ایک نئی داستان جنم لینے والی تھی

میری یاداشت میں راستہ کافی حد تک محفوظ تھا، اس لیے مجھے یقین تھا کہ میں بھٹکنے سے بچ جاؤں گا اور آرام کرتے کرتے قبیلے میں پہنچ ہی جاؤں گا، مجھے چلتے چلتے تین گھنٹے ہو چکے تھے، میرا خیال تھا کہ مجھے اب اس جگہ پہنچ جانا چاہیے تھا جہاں پر وہ درخت تھا جس کے نیچے ہم نے بائیک چھپائی تھی۔۔ اور پھر چند منٹ مزید چلنے کے بعد مجھے ایک جگہ دو درخت دکھائی دیے، یہ وہ جگہ تو نہیں تھی جو میں نے سوچ رکھی تھی، وہاں پر تو اکلوتا درخت تھا، پھر بھی میرے لیے آرام کرنے کی یہ اچھی جگہ تھی گرمی کافی بڑھ چکی تھی، شیرو کا رخ میں نے درختوں کی جانب موڑ دیا، جلد ہی میں سایہ دار جگہ پر پہنچ چکا تھا۔ شیرو کو ایک درخت کے نیچے باندھ کر میں نے چادر نکالی اور زمین پر بچھا کر لیٹ گیا۔ جلد ہی مجھے نیند آ گئی۔

شیرو کو ایک درخت کے نیچے باندھ کر میں لیٹ گیا اور جلد ہی مجھے نیند آ گئی، میں کافی دیر سوتا رہا، صحرا میں جتنی گرمی زیادہ ہوتی ہے، سایہ بھی اسی قدر آرام دہ محسوس ہوتا ہے، اس لیے جب میری آنکھ کھلی، سورج ڈھل چکا تھا، میں تین گھنٹے سے زیادہ سویا تھا، گرمی کی شدت بھی کم ہو گئی تھی، اب میں آگے سفر کرنا چاہتا تھا لیکن بھوک نے میرے آگے بڑھنے کے ارادے کو ملتوی کر دیا، میں نے سوچا کہ پہلے کچھ کھا لوں پھر ہی آگے سفر شروع گا، کھانے کے لیے میرے پاس کافی چیزیں تھیں، پہلے تو میں نے بوتل نکال کر پانی پیا، اور پھر تھوڑا سا پانی شیرو کو پلانے کے بعد ایک تھیلے سے کھانے کے لیے کچھ نکالنے لگا تو سامنے ایک ہلتی ہوئی جھاڑی دیکھ کر میرے ہاتھ رک گئے، معلوم نہیں وہاں کیا تھا، جھاڑی کافی زور سے ہلی تھی، پھر میں نے ایک جنگلی خرگوش کو دیکھا، جس کا رنگ بھورا تھا اور جسامت بڑے سائز کی بلی جتنی تھی، جنگلی خرگوش کو دیکھ کر میرے اندر کا چھپا ہوا شکاری بے چین ہو گیا، میں نے سوچا کہ ابھی سورج غروب ہونے میں کافی وقت باقی ہے، اگر جنگلی خرگوش کو پکڑ لوں تو بھون کر کھانے کا مزہ ہی الگ ہو گا، اور پھر آگے چل پڑوں گا،

 یہ سوچ کر میں نے اپنی جیب میں خنجر کو ٹٹول کر محسوس کیا، اور پھر دبے قدموں آگے بڑھنے لگا، لیکن خرگوش میری سوچ سے بھی زیادہ تیز تھا، اس نے مجھے آگے بڑھتا دیکھ لیا تھا، اس لیے وہ جھاڑی سے نکل کر بھاگا اور ساتھ والی جھاڑی میں جا چھپا، اپنی طرف سے وہ اب محفوظ تھا لیکن میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھا، میں آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا اور اب میرے اور جنگلی خرگوش کے درمیان فاصلہ کم ہوتے ہوتے دو میٹر رہ گیا تھا، یہاں سے میں خرگوش کا نشانہ لے سکتا تھا، میں نے جیب سے خنجر نکالا اور نشانہ لینے ہی لگا تھا کہ خرگوش اس جگہ سے نکل کر بھاگ کھڑا ہوا، میں نے بھی اس کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا، اور موقع ملتے ہی میں نے خرگوش کو پیچھے سے خنجر دے مارا، مجھے اپنے نشانے پر پورا یقین تھا، خنجر ہوا میں اچھلا اور سیدھا خرگوش کی کمر میں جا لگا، لیکن اندر گھسنے کی بجائے کھال کو چیرتا ہوا ریت میں جا دھنسا، زخمی خرگوش نے ایک لمبی چھلانگ لگائی، اور قریبی جھاڑیوں میں جا چھپا، میں نے خنجر زمین سے نکالا اور اسے صاف کر کے اپنے لباس میں چھپا لیا، میں جانتا تھا کہ خرگوش زخمی ہو چکا ہے اور جلد ہی میرے قابو آ جائے گا،

 پھر میں نے جھاڑیوں میں اسے تلاش کرنا شروع کر دیا، لیکن وہاں پر خرگوش کی جگہ ایک کالے سانپ کو زخمی حالت میں پڑا دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، سانپ کی کمر پر لمبا سا تازہ زخم کا نشان تھا، بالکل ویسا نشان جیسا خرگوش کی کمر پر لگا تھا، میں ڈر کے مارے چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا، سانپ مسلسل بل کھا رہا تھا اور بار بار پھنکارتا تھا جیسے شدید غصے میں ہو، مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ خرگوش سانپ کیسے بن سکتا ہے،
جیسے جیسے میں سوچتا جا رہا تھا میرا دماغ گھوم رہا تھا اور پھر مجھے کچھ یاد آنے لگا، یہ خرگوش نہیں تھا، یہ سانپ بھی نہیں تھا، یہ کوئی شریر جن تھا، جس نے مجھے تنگ کرنے کے لیے خرگوش کا روپ اختیار کیا تھا لیکن میں نے اس کو خنجر مار کر زخمی کر دیا تھا، میں نے بچپن میں سنا تھا کہ ویران جگہوں پر شریر جنات ہوتے ہیں جو روپ بدل بدل کر راہگیروں کو تنگ کرتے ہیں لیکن ان کو نقصان نہیں پہنچاتے، آج میرا واسطہ بھی ایک شریر جن سے پڑ گیا تھا جس کو میں نے خرگوش سمجھ کر زخمی کر دیا تھا، سفر کے شروع میں ہی، میں بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا، میں دبے قدموں پیچھے ہٹنے کے بعد وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا، میرا رخ اپنے گھوڑے شیرو کی جانب تھا، جلد ہی میں اس کے پاس پہنچ گیا، مشکل سے اپنا سامان سمیٹ کر شیرو پر لادا، اور اوپر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ میری نظر اس جانب اٹھ گئی جہاں پر سانپ کو زخمی حالت میں چھوڑ کر آیا تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سانپ تیزی سے میری جانب رینگتا ہوا آ رہا ہے، اس کی رفتار سے پتا چل رہا تھا کہ وہ جلد سے جلد مجھ تک پہنچنا چاہتا ہے،

 میں چھلانگ لگا کر شیرو پر سوار ہوا اور اسے سانپ کی مخالف سمت میں دوڑا دیا، میرے ذہن پر سانپ نما جن کا خوف اس قدر سوار ہو چکا تھا کہ میں بنا سوچے سمجھے ایک جانب کو نکل پڑا، شیرو بھی خطرے کی بو محسوس کر چکا تھا اس لیے اس کی رفتار خاصی تیز تھی چند منٹوں بعد میں اس جگہ سے کافی دور نکل آیا تھا، اب میں خود کو قدرے محفوظ سمجھ رہا تھا، میں نے شیرو کو ایک جگہ روکا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو سانپ چمکدار رسی کی طرح تیزی سے لپکتا ہوا میرے پیچھے آ رہا تھا، اب تو ڈر کے مارے میری جان ہی نکل گئی، وہ میری جان چھوڑنے کو تیار نہیں تھا، ایک بات جو مجھے پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ اگر سانپ کی رفتار یہی رہی تو وہ جلد ہی مجھ تک پہنچ جائے گا اور اس سے آگے سوچنا میرے لیے دشوار تھا، کیونکہ میں جان گیا تھا کہ یہ سانپ نہیں ہے بلکہ سانپ کے روپ میں کوئی جِن ہے، پھر مجھے ایک خیال سوجھا، 

میں نے فوراً شیرو کی لگامیں کھینچیں اور وہ رک گیا، میں نے اس کا رخ سانپ کی جانب موڑ دیا تھا، جو لمحہ بہ لمحہ قریب آتا جا رہا تھا، شیرو سانپ کو دیکھ کر بے چین ہو رہا تھا، کبھی کبھی وہ اگلی ٹانگیں اٹھاتا اور اچھل کر پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا تھا، اپنی طرف سے وہ سانپ کو کچلنا چاہتا تھا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا، وہ سانپ ہوتا تو شاید شیرو اسے کچل بھی دیتا، پھر میں نے دونوں آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔ اور منہ میں آیت الکرسی کا ورد کرنا شروع کر دیا، بچپن سے ہی میری ماں نے مجھے سکھایا تھا کہ جب کبھی شیطانی مخلوق سے سامنا ہو تو تین بار آیت الکرسی پڑھ پر اپنے چاروں طرف پھونک دیا کرو، شیطانی مخلوق آپ سے دور ہو جائے گی، میں اب یہی کر رہا تھا، میرے دل سے سانپ نما جن کا خوف کم ہو گیا تھا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ تیزی سے میری جانب آ رہا ہے، ابھی میں نے آیت الکرسی تیسری بار مکمل ہی کی تھی کہ اچانک میرے کانوں میں ایک سرگوشی نما آواز آئی، جسے سن کر میں لرز کر رہ گیا۔۔۔

وہ آواز میرے کان کے کافی قریب سے آئی تھی، کوئی کہہ رہا تھا کہ اب تو بچ گئے ہو، لیکن میرے علاقے سے دور نکل جاؤ، ورنہ کل کا سورج دیکھنا تم کو نصیب نہیں ہو گا، پھر وہ آواز غائب ہو گئی، میں نے آنکھیں کھول کر آس پاس دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا، سانپ بھی کسی جگہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، میں نے دل میں شکر ادا کیا کہ ایک بڑی مصیبت سے جان چھوٹ گئی تھی، اب میں جلد از جلد اس علاقے سے دور نکل جانا چاہتا تھا، میں دوبارہ سے اس شیطانی جن کا سامنا کرنا نہیں چاہتا تھا، پھر میں نے شیرو کو اس راستے پر ڈال دیا، جو میرے خیال میں سنیاسی قبیلے کی طرف جاتا تھا، اس وقت سورج غروب ہونے میں تھوڑا وقت ہی بچا تھا، میں جلد از جلد کسی محفوظ جگہ پہنچ جانا چاہتا تھا جہاں پر رات بسر کر سکوں، باقی کا سفر تو اب کل ہی ممکن تھا، مجھے بھوک بھی ستانے لگ پڑی تھی لیکن یہاں رک کر کچھ کھانے کا وقت نہیں تھا،

 میں نے شیرو کو ایک پگڈنڈی پر ڈالا اور ایڑھ لگا دی، وہ اب ہوا سے باتیں کرتا ہوا جا رہا تھا، یہاں تک کہ میں بہت سے موڑ مڑتا ہوا اس علاقے سے کافی دور نکل آیا، اب اندھیرا چھانے لگا تھا، اور مجھے رات گزارنے کے لیے کسی محفوظ مقام کی جلد سے جلد تلاش کرنی تھی پھر مجھے ایک جگہ کسی جانور کے پیروں کے نشانات نظر آئے، میں نے غور سے دیکھا تو وہ نشان گھوڑے کے تھے، مجھے خوشی ہوئی کہ یہاں آس پاس یا تو کوئی آبادی ہے یا پھر راستہ ہے، اسی لیے تو گھوڑے والا مسافر یہاں سے گزرا ہو گا، اچانک ایک جگہ پر مجھے خون کے چند چھینٹے زمین پر گرے ہوئے ملے، میں حیرانی سے ان کو دیکھنے لگا، یہ خون زیادہ پرانا نہیں تھا پوری طرح خشک بھی نہیں ہوا تھا، یہ چھینٹے کچھ دور ایک جھاڑی تک جا رہے تھے، میں چونک گیا، بلکہ خوفزدہ ہو گیا، یہ تو وہی جگہ تھی، سانپ والی جگہ، نہیں ۔۔۔ شیطانی جِن کا علاقہ ۔۔۔۔۔ اوہ میرے خدا یہ کیا ہو رہا تھا، میرا سر چکرانے لگا، میری نظر شیرو کے چہرے کی طرف گئی تو میں پریشان ہو گیا،


خونی ریچھ کی کہانی (قسط نمبر 2)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں