آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر2)

Urdu Novels PDF

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر2)

ارمن ندی بالکل خشک پڑی تھی۔ میں نے اس میں گھس کر ٹارچ کی مدد سے ادھر ادھر دیکھا۔شیر کے پنجوں کے تازہ نشانات ندی میں گزرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے آنے سے کچھ دیر بیشتر درندہ ندی پار کر کے کنارے پر گیا ہے۔

”سرکار، وہ پانایتی کی پہاڑی پر گیا ہوگا۔“بیرا نے کہا۔”مجھے اچھی طرح معلوم ہے،وہ وہیں آرام کرتا ہے۔“

پانایتی کا ٹیلا ندی سے کوئی ایک میل دور تھا۔ ہم پنجوں کے نشانات دیکھتےہوئے اس طرف چل پڑے۔راہ میں بانس کے درختوں کا ایک گھنا جھنڈ پڑتا تھا۔ جب ہم اس میں سے گزررہے تھے تو ہاتھی کے ہانپنے کی آواز سنائی دی۔ہاتھی یہ آواز خوراک ہضم کرتے وقت نکالتا ہے ا ور اگر اس حالت میں اسے چھیڑا جائے یا تنگ کیا جائے تو غضب ناک ہو کر حملہ کر دیتا ہے۔ہم نے وہ راستہ ترک کیا اور ایک لمبا چکر کاٹ کر پانایتی کے جنگل تک پہنچ گئے۔جنگل کے اس حصے میں درخت کم، جھاڑیوں اور بڑے بڑے پتھر زیادہ تھے،اونچے اونچے ٹیلوں کے اندر کہیں غار بنے ہوئے دکھائی دیے۔زمین چونکہ خشک اور سخت تھی، اس لیے پنجوں کے نشان موجود نہ تھے یا ہمیں نظر نہ آئے۔

”شیر انہی غاروں میں سے کسی میں رہتا ہے۔“بیرا نے بتایا۔

”لیکن شیر کا ہونا ضروری نہیں۔“میں نے کہا۔

”سورج غروب ہوجانے کے بعد درندے شکار کی تلاش میں نکل جاتے ہیں اور ابھی ابھی ہم نے اس کے پنجوں کے نشان ندی میں دیکھے ہیں۔“

”سرکار،یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ندی والا شیر کوئی اور ہو۔“پیرا نے کہا اور میں چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔میں نے ادھر ادھر دیکھا۔بائیں ہاتھ پچیس تیس فٹ دور ایک ٹنڈ منڈ درخت نظر آیا جس پر چڑھنا کچھ مشکل نہ تھا۔ بیرا میرے حکم کا منتظر کھڑا تھا۔میں نے درخت پر چڑھ کر ٹارچ کی روشنی چاروں طرف پھینکی کوئی جانور نظر نہ آیا۔جنگل کے اس حصے میں ہو کا عالم تھا۔ میں نے درخت سے اتر کر ٹارچ بیرا کو دی اور کہا۔

”جاﺅ شیر کا کھوج لگا کر مجھے خبر دو۔“

بیرا نے کانپتے ہاتھوں سے ٹارچ پکڑی اور اس انداز سے غاروں کی طرف چلا جیسے پھانسی کے تختے پر چڑھ رہا ہو۔کچھ دور چل کر وہ رکا اور مڑ کر مجھ سے کہنے لگا۔

”جناب، آپ بھی میرے ساتھ ساتھ آجائیں۔شیر اگر قریب ہوا تو مجھے پھاڑ کھائے گا۔“

”بکواس بند کرو۔“ میں نے گرج کر کہا۔”تم اب تک چھوٹے چھوٹے ہرن ہی مارتے رہے ہو، اب ذرا شیر کا بھی سامنا کرو۔تمہاری بندوق اسی شرط پر واپس ملے گی۔“

مرتا کیا نہ کرتا، بے چارہ لڑ کھڑاتے قدموں سے آگے بڑھا۔ میں اس کی حالت کا اندازہ کرکے دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میں اس کے تعاقب میں چل دیا۔ ابھی چند قدم ہی گیا تھا کہ سامنے سے شیر کے غرانے کی آواز اور پھر بیرا پجاری کی لمبی چیخ سن کر میرے ہوش اڑ گئے۔ میں نے جیب سے دوسری ٹارچ نکال کر روشن کی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ بیرا وحشیوں کی طرح اندھا دھند بھاگتا اور گرتا پڑتا میری طرف لپکا چلا آرہا ہے۔ وہ میرے قریب آکر دھم سے زمین پر گر گیا اور بری طرح ہانپنے لگا۔ میں چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اس کا جسم پسینے میں تر تھا۔ کہا:

”سر....سرکار....شیر بھی یہیں ہے۔“اس نے کہا۔”وہ سامنے بڑے ٹیلے پر کچھ کھارہا ہے۔“

”چلو، مجھے دکھاﺅ،“میں نے اسے ہاتھ پکڑ کے اٹھایا۔”گھبراﺅ مت بیرا، جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں شیر کچھ نقصان نہ پہنچائے گا۔“

ہم ٹارچ کی روشن میں ڈبے پاﺅں آگے بڑھنے لگے۔ٹارچ بیرا کے پاس تھی۔میں نے دیکھا اس کا ہاتھ کپکپا رہا ہے۔بہت سے چٹانی پتھر پھلانگنے کے بعد ایک جگہ رکا اور چپکے سے بولا۔

”سرکار، آپ نے شیر کی بوپائی۔“

میں نے دو تین دفعہ نتھنے سکوڑے،اپنی قوت شامہ ذرا تیز کی مگر شیر کی بو محسوس نہ ہوئی۔ میں نے نفی میں سر ہلا کر بیرا کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ چند قدم چل کر وہ پھر رک گیا اور کہنے لگا۔

”اب سونگھیے، یقیناً شیر کی بوناک میں آئے گی۔“

چند لمحے بعد میں نے محسوس کیا۔واقعی شیر کے جسم کی بدبو فضا میں پھیلی ہوئی ہے۔شیر کی موجودگی کا علم اس کے غرانے کی آواز سن کر ہو چکا تھا۔ اب صرف یہ پتا لگانا تھا کہ وہ ہے کدھر۔بیرا نے ایک اونچی چٹان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”اس کے پیچھے ہے۔“

میں نے بیرا کو ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ جانے کی ہدایت کی اور خودٹارچ لے کر آگے بڑھا۔ شیر یقیناً اسی چٹان کے عقب میں بیٹھا تھا کیونکہ میں اس کے سانس لینے کی آواز بخوبی سن رہا تھا۔ تھوڑا سا چکر کاٹ کر میں چٹان کے اوپر پہنچ گیا اور رائفل کی نالی پر فٹ کی ہوئی ٹارچ سے ادھر ادھر روشنی پھینکی۔ یکایاک ایک گوشے میں شیر کی چمکتی ہوئی زرد آنکھیں نظر آئیں۔وہ غراتا ہوا کھڑا ہو گیا۔ میں نے اس کی کھوپڑی کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ گولی شیر کی آنکھوں کے عین درمیان لگی اور وہ منہ کے بل پتھروں پر گر گیا۔ میں نے ایک فائر اور کیا۔ چند لمحوں تک اس کا جسم تڑپتا اور تھر تھر اتا رہا۔ گردن اور کھوپڑی خون میں لت پت ہو گئی۔ میں حیران تھا کہ اس نے مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کی۔حالانکہ میرا اور اس کا درمیان فاصلہ آٹھ فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ وہ چاہتا تو ایک ہی جست میں مجھے دبوچ سکتا تھا۔ لاش کو قریب سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ وہ عمر رسیدہ تھا اور اب اس کے قویٰ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ جوان شیر کی طرح یک لخت جست کرکے مجھ پر آن پڑتا۔

مرا ہوا شیر دیکھ کر بیرا کی جان میں جان آئی۔ ہم دونوں خوش خوش بنگلے کی طرف لوٹے راستے میں بیرا نے کہا۔

”سرکار، اب وعدے کے مطابق میری بندوق واپس کر دیجئے۔“

”بھئی بات یہ ہے کہ مجھے اس شکار میں قطعاً لطف نہیں آیا۔“میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔”مجھے ایسا درندہ چاہیے جو تمہاری طرح چالاک، مکار اور دھوکے باز ہو اور وہ مجھے جنگل میں کئی کئی دن ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دے اور جس کی دھن میں میری راتیں مچانوں میں جاگ جاگ کر گزریں۔“

بیرا یہ سن کر چپ ہو گیا اور اس نے تمام راستے دوبارہ بندوق کا مطالبہ نہ کیا۔ اگلے روز چند مزدوروں کے ہمراہ بیرا جنگل سے شیر کی لاش اٹھا لایا۔سر سے لے کر دم تک اس کی لمبائی ساڑھے نوفٹ اور جسم کے مقابلے میں کھوپڑی خاصی بڑی تھی۔

میں نے اس قصے سے پہلے دریائے تلوادی ،اس کے نواحی پہاڑوں اور وادی کا ذکر کیا ہے۔یہ علاقہ نارتھ فارسٹ ڈویژن کے نہایت گنجان، خطرناک اور دشوار گزار علاقوں میں سے ہے۔میں نے جس مقام پر بیرا کو پکڑا تھا وہاں سے یہ دریا اور اسی نام کی وادی تقریباً گیارہ مل دور ہے۔درندوں ا ور دوسرے چھوٹے بڑے جانوروں کے علاوہ یہاں حشرات الارض خصوصاً سرخ اور پیلی مکڑیوں کی کثرت ہے۔اس لیے مقامی باشندے تلوادی کے علاقے کو ’’مکڑیوں کی بستی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ان مکڑیوں کی لمبائی نو دس انچ تک ہوتی ہے اور ان کے بیضوی جالے بیس بیس فٹ چوڑے دیکھے گئے ہیں۔نہایت زہریلی ،تندخواور نڈر مکڑیاں ہیں۔آدمی کو کاٹ لیں اور اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو چند گھنٹوں کے اندر اندر موت واقع ہو جاتی ہے۔یہ مکڑیاں آگ اور روشنی سے بہت ڈرتی ہیں۔

لوگ اس علاقے میں جانے کی جرأت ہی نہیں کرتے۔ اگر کسی وجہ سے جانا پڑے تو ہاتھوں میں لمبی لمبی مشعلیں اٹھا لیتے ہیں۔کیونکہ مکڑیاں جابجا ملتی ہیں۔مقامی باشندوں کے خوف کھانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مکڑیاں آدم خور ہیں۔بعض اوقات اکیلے آدمی کو جنگل میں گھیر کر کاٹ لیتی ہیں۔جب وہ مر جاتا ہے یا درد کی شدت سے بے ہوش ہو جاتا ہے تو اسے نوچ نوچ کر ہڑپ کر جاتی ہیں۔ایک مرتبہ میں نے اس علاقے سے گزرتے ہوئے ایسا ہی لرزہ خیز منظر دیکھا تھا۔ کسی آدمی کی بڑی ہوئی لاش پر بے شمار سرخ اور پیلی مکڑیاں ایک دوسرے کی جانی دشمن ہونے کے باوجود شکار کا گوشت مل جل کر کھاتی ہیں۔اگر ایسا موقع نہ ہو اور کوئی سرخ مکڑی پیلی مکڑی کے جالے میں چلی جائے تو جالے کی مالکہ فوراً اس کا حملہ کر دیتی ہے۔اپنا شکار مار ڈالنے کے بعد یہ مکڑیاں پہلے اس کا خون چوستی ہیں اور گوشت بعد میں کھاتی ہیں۔

اس وادی کے ایک کنارے پر گوٹھی رین نام کی ایک خوبصورت پہاڑی ہے۔دریائے چنار اس پہاڑی کے نیچے سے گزرتا ہے۔یہاں ایک بستی آباد ہے جسے کمپی کاری کہتے ہیں۔کمپی کاری کے نواحی جنگل میں ہاتھیوں کی حکومت ہے۔مجھے یاد ہے چند سال پیشتر یہاں ایک مست ہاتھی نے خاصا ادھم مچایا تھا۔ اس نے نہ صرف پوری بستی تہس نہس کر دی بلکہ سات آدمی بھی مار ڈالے تھے۔ میں نے اس ہاتھی کو کیسے مارا، اس کی داستان پھر کبھی سناؤں گا۔ اس وقت تو وادی کے خونخوار ریچھوں اور مندا چی پالم کے آدم خور شیر کا ذکر کرتا ہوں جو میری شکاری زندگی کے ناقابل فراموش تجربات میں سرفہرست ہے۔

تلوادی دراصل بانس کے درختوں کا گھنا جنگل ہے۔بعض مقامات پر بات سات آٹھ آٹھ فٹ اونچی گھاس بھی اگی ہوئی ہے جس کے ریشے ریزربلیڈ کی مانند تیز ہیں۔معمولی کپڑوں کا ذکر ہی کیا، چمڑے کا لباس بھی ان ریشوں سے رگڑ کھا کر چھلنی ہو جائے۔البتہ چکنے بال اور لباس پر یہ گھاس اثر نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ شیر اور چیتے بلکہ جنگلی بھینسے بھی اس گھاس کے اندر اطمینان سے گھس جاتے ہیں اور انہیں کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ ان جانوروں کے علاوہ تلوادی جنگل ریچھوں،جنگل سوروں،سانبھروں بھونکنے والے ہرنوں اور ہاتھیوں کے لیے شہرت رکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو شکاری اس جنگل میں آکر زندہ سلامت گھر لوٹ گیا وہ بڑا خوش نصیب ہے۔

بیرا پجاری کو معلوم نہ تھا کہ میں اس جنگل کے چپے چپے سے واقف ہوں۔وہ مجھے ان بیوقوف اور اناڑی شکاریوں میں شمار کرتا تھا جو شیخی میں آن کر جنگل میں گھس جاتے ہیں اور کسی نہ کسی درندے کے ہاتھوں جان کھو بیٹھتے ہیں۔دراصل بیرا کو بندوق ہاتھ سے نکل جانے کا بڑا رنج تھا۔ پہلے تو اس نے منت سماجت سے مجھے رام کرنا چاہا لیکن میرے انکار اور ڈانٹ ڈپٹ سے ڈر گیا۔ اس کا خیال تھا کہ بڈھا شیر مار کر خوش ہو جاؤں گا مگر اس کی یہ توقع بھی پوری نہ ہوئی۔جھنجھلا کر اس نے مجھ سے انتقام لینے کی ٹھانی اور سوچا اس مردود کو تلوادی کا راستہ دکھایا جائے تاکہ اس بہانے اس کا قصہ تمام ہو جائے۔میں ہندو پجاریوں کی فطرت سے بخوبی آگاہ ہوں کیونکہ عمر عزیز کا نصف سے زیادہ حصہ انہی کے درمیان کاٹا ہے۔

مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔اس قوم کی فطرت میں دھوکا،فریب ،مکاری اور وعدہ خلاف کے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔نازک سے نازک موقعوں پر ساتھ چھوڑ دینا اور دغا دینا ان کا شیوہ ہے۔ابتداء میں میرے ہندو ملازموں اور راہبر شکاریوں نے مجھے دھوکے دیئے اور مجھے موت کے منہ میں چھوڑ کر بھاگتے رہے۔چنانچہ ان کی فطرت سے آگاہ ہو کر میں نے ہندو ملزم رکھنے چھوڑ دیے اور آئندہ طے کیا کہ اگر ان کی معیت میں جنگل کے اندر جانا پڑے تو خود پیچھے رہوں گا اور انہیں آگے بڑھایا کروں گا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 3)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں