اسپتال کے پارکنگ ایریا میں سارجنٹ اسکاٹ نے اپنی گاڑی پارک کی اور ایمرجنسی انٹری پوائنٹ کی جانب بڑھ گیا۔ اس کا ماتحت مائیکل بھی اس کے ساتھ تھا۔سارجنٹ اسکاٹ کو آج اسپتال کے ایک ڈاکٹر کی جانب سے کال موصول ہوئی تھی۔ ڈاکٹر کے مطابق اسپتال میں دو خواتین کی لاشیں لائی گئی تھیں۔ ایک کا نام مارگریٹ جبکہ دوسری کا نام فیری تھا۔ مارگریٹ اپنا چھوٹا سا بزنس چلاتی تھی اور فیری اس کے ہاں ملازمت کرتی تھی۔ آج ان کے آفس میں ایک چھوٹی سی دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کھانے کے ساتھ وائن کا بندوبست بھی کیا گیا۔ جیسے ہی ان دونوں خواتین نے وائن پی چند لمحوں بعد ان کی حالت بگڑ گئی۔
ڈاکٹر نے سارجنٹ اسکاٹ کو یہ بھی بتایا تھا کہ اسپتال پہنچنے سے پہلے دونوں خواتین کی موت واقع ہو چکی تھی۔ ان کے ساتھ دفتری عملے کے جو دو افراد آئے تھے ان کا خیال تھا کہ شاید ان خواتین کو فوڈ پوائزننگ ہوئی ہے کیونکہ وائن تو دفتر کے تمام عملے نے بھی پی تھی لیکن کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ مزید یہ کہ وائن سب کو علیحدہ علیحدہ پیش نہیں کی گئی تھی بلکہ ایک بڑے واٹر کولر میں ڈال کر ٹیبل پر رکھی گئی تھی اور سبھی نے اسی کولر سے گلاس بھر کر پیا تھا-ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ کوئی مرثر کا کیس نہیں لگتا، تاہم اس نے پولیس کو اطلاع دینا ضروری سمجھا کیونکہ مردہ خواتین کی رنگت دیکھ کر ایسا گمان ہو رہا تھا جیسے ان کی موت کسی زہر کے باعث ہوئی ہو۔ اصل صورتحال پوسٹ مارٹم کے بعد ہی واضح ہوسکتی تھی۔سارجنٹ اسکاٹ کو اطلاع دینے والے ڈاکٹر کا نام ڈاکٹر انتھونی تھا۔ سارجنٹ انہیں اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ اس شہر کے چند قابل ترین ڈاکٹروں میں شمار ہوتے تھے۔ اس لیے اگر انہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ خواتین کو زہر دیا گیا ہے تو ان جیسے سینئر ڈاکٹر کے خیال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔
سارجنٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ ان افراد سے بھی ملاقات کرے گا جو لاشوں کو اسپتال لائے تھے تاکہ ان سے مزید سوالات کر کے یہ طے کیا جا سکے کہ خواتین کی موت حادثاتی تھی یا کسی نے انہیں جان بوجھ کر قتل کیا تھا۔ سارجنٹ اس بات سے واقف تھا کہ فوڈ پوائزننگ سے عام طور پر موت واقع نہیں ہوتی، البتہ بعض نایاب کیسز ضرور اس کے مشاہدے میں آئے تھے۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ کیا یہ دونوں خواتین واقعی فوڈ پوائزننگ کا شکار ہوئیں یا پس پردہ کوئی اور کھیل کھیلا گیا تھا۔ڈاکٹر انتھونی کے آفس میں وہ پہلے بھی آتا رہا تھا اس لیے وہاں تک پہنچنے کے لیے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے ماتحت کے ہمراہ آفس کی کرسیوں پر بیٹھا تھا اور ڈاکٹر انتھونی اس کے سامنے موجود تھے۔ڈاکٹر انتھونی نے کہا کہ انہوں نے صرف شک کی بنیاد پر فون کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ڈیڈ باڈیز کا پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی اصل صورتحال واضح ہوگی تاہم یہ اسی وقت ممکن ہے جب کیس کو پولیس کیس قرار دیا جائے۔سارجنٹ اسکاٹ نے پوچھا کہ انہیں کس بنیاد پر شک ہوا کہ دونوں خواتین کو زہر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے یہ واقعی فوڈ پوائزننگ کا معاملہ ہو۔ڈاکٹر نے وضاحت کی کہ فوڈ پوائزننگ میں اس طرح اچانک اور فوری موت کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ ایمبولینس کے ہمراہ آنے والے افراد نے بتایا تھا کہ سب نے اکٹھے کھانا کھایا اور وائن بھی ایک ہی واٹر کولر سے پی تھی۔ اگر کھانا یا وائن زہریلی ہوتی تو دوسروں پر بھی اثر ہوتا مگر کسی اور کو کچھ نہیں ہوا۔ اسی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ دونوں خواتین کی موت مشکوک ہے۔ مزید یہ کہ سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ دونوں کی موت ایک ہی وقت پر ہوئی۔
فوڈ پوائزننگ کے اثرات ہر انسان پر مختلف انداز میں ظاہر ہوتے ہیں، اس لیے ایک ہی وقت پر دونوں کا مرنا غیر معمولی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ انہوں نے اپنی رائے دے دی ہے، اب فیصلہ پولیس کے ہاتھ میں ہے۔میں ان دونوں افراد سے ملنا چاہتا ہوں۔ بہتر ہے کہ آپ ان کو دفتر میں ہی بلا لیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا ہے جتنا دکھائی دے رہا ہے۔ سارجنٹ اسکاٹ نے کہا تو ڈاکٹر انتھونی نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے ٹیبل پر ركها انثر کام اٹھایا اور کسی کو ہدایات دینے لگے۔کچھ ہی دیر میں سارجنٹ اسکاٹ کے سامنے وہ دونوں افراد موجود تھے۔ ڈاکٹر انتھونی ان کو اپنے آفس میں بلانے کے بعد خود وارڈ کے راؤنڈ پر نکل گئے تھے۔ سارجنٹ اپنے ماتحت مائیکل کے ہمراہ ان دونوں افراد سے پوچھ گچھ کا آغاز کر چکا تھا ۔ اُس کا خیال تھا کہ دونوں افراد کی عمریں پچاس کے آس پاس ہی ہوں گی۔ ایک نے اپنا نام رابرٹ جبکہ دوسرے نے جانسن بتایا۔ وہ دونوں مس مارگریٹ کے آفس میں تقریباً دس برس سے ملازمت کرتے تھے۔ اُن کے مطابق مس مارگریٹ کی عمر پچاس برس کے قریب تھی، تاہم وہ غیر شادی شده تھی اور اپنے گھر میں اپنی بہن مارسیلا کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے دونوں ٹانگوں سے معذور ہونے کی وجہ سے اس کی دیکھ بھال کی تمام ذمہ داری مس مارگریٹ پر تھی مارسیلا، مس مارگریٹ سے ایک دو برس چھوٹی تھی اور وہ بھی غیر شادی شدہ تھی۔
انہوں نے فون پر مارسیلا کو مس مارگریٹ کی موت کی اطلاع کر دی تھی جو کچھ دیر میں وہاں پہنچنے والی تھی۔مگر مس مارسيلا تو معذور ہیں وہ یہاں کیسے آئیں گی؟ سارجنٹ اسکات نے سوال کیا۔مارسيلا کہیں آنے جانے کے لیے اپنے علاقے کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کی خدمات حاصل کر لیتی ہے جو اسے اٹھا کر ٹیکسی میں سوار کروا دیتا ہے اور کار کی ڈکی میں اس کی وہیل چیئر بھی ایڈجسٹ کر لیتا ہے۔ وہ کہیں آئےجانے کے لیے یہی طریقہ اختیار کرتی ہے۔ رابرٹ نے جواب دیا۔ مسٹر رابرٹ عام طور پر شراب یا وائن کو اس طرح واٹر کولر میں رکھ کر پیش کرنا خاصا اچھوتا خیال ہے کیونکہ کسی بھی فنکشن میں شراب باقاعدهویٹر کے ذریعے سرو کی جاتی ہے۔ سارجنٹ اسکاٹ نے سوال کیا۔ آپ کی بات درست ہے مگر مس مارگریٹ کا بہت چھوٹا سا امپورٹ کا بزنسہے۔ ہم باہر سے مال منگواتے ہیں اور پھر کچھ منافع پر اپنے شہر کی مارکیٹوں میں سپلائی کر دیتے ہیں۔ کبھي كبھى ہمیں جب زياده منافع بوجاتا تها تو مس مارگریٹ اس قسم کی پارٹی کے انعقاد کا اعلان کر دیتی تھیں۔ ہمارا عملہ کل پندرہ افراد پر مشتمل ہے اس لیے وائن سرو کرنے کے لیے ویٹر کےتکلفات میں نہیں پڑا جاتا۔ ہم سب خود ہی سارا انتظام کرتے ہیں۔
یوں کہہ لیں کہ ایک چھوٹی سی خوشی ہوتی ہے جو ہم سب مل کر بانٹ لیتے تھے۔ رابرٹ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔سارجنٹ اسکاٹ نے پوچھا کہ مرنے والی دوسری خاتون کا پس منظر کیا ہے۔ اس کے ساتھ والی کرسی پر اس کا ماتحت مائیکل خاموشی سے بیٹھا تھا۔ اس نے گفتگو میں مداخلت کی کوشش نہیں کی تھی۔ مائیکل کا شمار ویسے تو پولیس کے ذہین سراغ رساں افسروں میں ہوتا تھا لیکن یہ اس کی عادت تھی کہ جب سارجنٹ اسکاٹ کسی کیس کی تفتیش کرتا تو وہ عام طور پر خاموشی سے گفتگو سنتا رہتا تھا۔رابرٹ نے جواب دیا کہ دوسری خاتون کا نام فیری ہے مگر آفس میں سب انہیں مسز جارڈن کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ وہ شادی شدہ تھیں اور ان کے چار بچے ہیں۔ ان کی فیملی کو بھی ان کی موت کی اطلاع دی جا چکی ہے۔یہ جواب سن کر سارجنٹ اسکاٹ نے ہلکی سی سانس لی۔ وہ چند لمحوں تک خاموش رہا اور پھر بولا کہ مسٹر رابرٹ، ہمیں شک ہے کہ کھانے یا شراب میں کچھ ملایا گیا تھا جس کی وجہ سے دونوں خواتین کی موت ہوئی ہے۔جانسن نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ کھانے کے ساتھ وائن تو ہم سب نے بھی پی ہے۔ سب نے اپنے اپنے گلاس اور کھانے کے برتن خود ہی اٹھائے تھے۔ اگر مس مارگریٹ اور مسز جارڈن کے گلاسوں میں زہر ہوتا تو یہ اسی وقت ممکن تھا جب ان دونوں نے اپنے گلاس علیحدہ رکھے ہوتے، مگر ایسا نہیں تھا۔ ہم سب برسوں سے اسی طرح کی پارٹی ایک ساتھ انجوائے کر رہے ہیں۔
سارجنٹ اسکاٹ نے سوال کیا کہ کیا آج آفس میں کوئی ایسا شخص آیا تھا جس کا تعلق عملے سے نہ ہو۔جانسن نے جواب دیا کہ کاروبار کے سلسلے میں تو ہمارے دفتر میں روزانہ کئی لوگ آتے ہیں مگر آج چونکہ چھٹی کا دن تھا اس لیے ہم صرف پارٹی کے لیے آفس میں جمع ہوئے تھے۔ دفتری عملے کے سوا کوئی باہر سے نہیں آیا۔سارجنٹ اسکاٹ نے پھر پوچھا کہ کیا مس مارگریٹ یا مسز جارڈن کی کسی سے دشمنی یا مخالفت تھی۔جانسن نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ نہیں، وہ دونوں بہت نرم مزاج اور مہربان خواتین تھیں۔ دس سال کی سروس کے دوران ہم نے انہیں کبھی کسی سے جھگڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایسی خواتین سے بھلا کسی کو کیا دشمنی ہوسکتی ہےسارجنٹ اسکاٹ نے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ دونوں جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں۔ فی الحال آفس کو سیل کیا جا رہا ہے۔ پولیس ٹیم وہاں جا کر شواہد اکٹھے کرے گی۔ کل تک ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ مل جائے گی، اس کے بعد ہی اس کیس میں مزید پیش رفت ہوسکے گی۔ آپ باقی عملے کو بھی اس بارے میں مطلع کردیں۔ آج تو وہ سب پولیس کے آنے تک موجود رہیں کیونکہ ان سے پوچھ گچھ ہوگی، لیکن کل سے وہاں سکیورٹی گارڈ کے سوا کوئی نہ ہو اور کسی چیز کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔میرا مطلب ہے کہ ہر چیز کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ مقتولین کے لواحقین کو بھی آگاہ کر دیا جائے کہ ڈیڈ باڈیز پوسٹ مارٹم کے بعد ہی ان کے حوالے کی جائیں گی۔ سارجنٹ اسکاٹ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔ اسے اٹھتے دیکھ کر مائیکل کے ساتھ رابرٹ اور جانسن بھی کھڑے ہوگئے۔رابرٹ اور جانسن نے یک زبان ہو کر کہا کہ جی بہتر، ہم آپ کی ہدایات پر پورا عمل کریں گے۔ سارجنٹ نے تفہیمی انداز میں سر ہلا دیا۔
سارجنٹ اسکاٹ آج مس مارگریٹ کی معذور بہن مارسیلا سے نہیں مل سکا تھا، تاہم اس نے فیصلہ کیا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ملنے کے بعد وہ اس سے ضرور ملاقات کرے گا۔ مس مارگریٹ کے بارے میں سب سے زیادہ مصدقہ معلومات اسی کی بہن سے مل سکتی تھیں۔ابھی تک وہ خود بھی یہ بات سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اگر دونوں خواتین کی موت حادثاتی نہیں تھی تو پھر کوئی انہیں کیوں قتل کرتا۔ قاتل کو ان کی موت سے آخر کیا فائدہ ہوسکتا تھا۔ اگر یہ قتل کی واردات تھی تو پھر یہ طے تھا کہ یہ قتل کسی مقصد کے حصول کے لیے ہی کیے گئے ہیں۔ قاتل نے اتنے سنگین جرم کا ارتکاب صرف اپنے مفاد کے لیے کیا ہوگا۔ تاہم ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھنے کے بعد ہی اگلا لائحہ عمل طے ہونا تھا۔اگلے دن صبح نو بجے سارجنٹ اسکاٹ آفس پہنچ گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ اسے دوپہر بارہ بجے کے بعد موصول ہوئی۔ یہ ابتدائی رپورٹ تھی جس نے سارجنٹ اسکاٹ کو چونکا دیا۔ اس نے فوراً مائیکل کو آفس میں بلا لیامائیکل جیسے ہی اس کے سامنے بیٹھا، سارجنٹ اسکاٹ نے پوچھا کہ تم نے پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھ لی ہوگی۔مائیکل نے جواب دیا کہ جی سر، میں دیکھ چکا ہوں۔ کل جو وائن اور کھانے کے نمونے لیبارٹری بھجوائے گئے تھے، ان کی رپورٹ بھی ابھی موصول ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کھانے کے تمام نمونے کلیئر ہیں، تاہم وائن میں سانپ کا زہر پایا گیا ہے، بلیک کوبرا کا زہر۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سانپ کا زہر معدے کے راستے انسان کو نہیں مارتا بلکہ یہ صرف اس وقت جان لیوا ثابت ہوتا ہے جب خون میں شامل ہو۔ ایسی صورت میں خون جمنے لگتا ہے اور انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے وائن پینے سے باقی افراد کو کچھ نہیں ہوا۔
مگر یہ دونوں خواتین اس زہر سے ہلاک ہوگئیں کیونکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق وہ دونوں معدے کے السر میں مبتلا تھیں۔ معدے میں زخم ہونے کی وجہ سے زہر براہِ راست خون میں شامل ہوگیا۔ قاتل نے نہایت ہوشیاری سے کام لیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ سب افراد ایک ہی کولر سے وائن پئیں گے، اس لیے کسی کو بھی یہ شک نہیں ہوگا کہ مس مارگریٹ اور مسز جارڈن کی موت زہر کی وجہ سے ہوئی ہے۔ سب یہی سمجھیں گے کہ یہ فوڈ پوائزن کا نتیجہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قاتل بہرحال ان خواتین کے بارے میں یہ بات جانتا تھا کہ وہ دونوں معدے کے السر میں مبتلا ہیں۔ اتنی باریک بات صرف وہی شخص جان سکتا ہے جو ان کے قریب ہو۔ عام طور پر خواتین اپنی بیماریوں کے بارے میں سب کو نہیں بتاتیں۔مائیکل نے سوچتے ہوئے کہا کہ سر یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کا اصل ہدف ان میں سے صرف ایک خاتون ہو اور دوسری اپنی بیماری کے باعث اس زہر کی زد میں آ گئی ہو۔سارجنٹ اسکاٹ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میرا خیال ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد اب یہ تو طے ہوگیا ہے کہ یہ قتل کا کیس ہے۔ اس لیے ہمیں فوراً جائے وقوع پر جا کر ازسرنو تفتیش کا آغاز کرنا چاہیے۔ یہ کہتے ہوئے سارجنٹ اپنی کرسی سے اٹھا اور آفس کے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔انہیں مس مارگریٹ کے آفس پہنچنے میں بیس منٹ لگے۔
گاڑی سڑک کنارے کھڑی کر کے وہ دونوں باہر نکلے اور آفس کی جانب بڑھ گئے۔ مین گیٹ پر تعینات گارڈ انہیں دیکھ کر مستعدی سے کھڑا ہوگیا۔ سارجنٹ تو پہلی بار وہاں آیا تھا مگر مائیکل ایک دن پہلے ہی پولیس ٹیم کے ساتھ آ چکا تھا، اس لیے گارڈ اسے اچھی طرح پہچانتا تھا۔مائیکل نے گارڈ کے قریب جا کر بتایا کہ یہ سارجنٹ اسکاٹ ہیں اور آفس کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ گارڈ نے اثبات میں سر ہلا دیا اور کہا کہ سر، کل آفس کو سیل کر دیا گیا تھا۔ میں نے آپ کی ہدایات کے مطابق دفتر کے عملے کو بھی تفتیش مکمل ہونے تک آنے سے منع کر دیا تھا۔ آفس کے اندرونی ہال کی چابی بھی میرے پاس ہی محفوظ ہے۔کچھ ہی دیر میں وہ آفس کے ہال میں موجود تھے جہاں کل پارٹی منعقد ہوئی تھی، جو مس مارگریٹ اور مسز جارڈن کی زندگی کی آخری پارٹی ثابت ہوئی۔ سارجنٹ نے باریک بینی سے ہال کا جائزہ لیا۔ وہاں درمیانے درجے کا سامان رکھا ہوا تھا۔ میز اور کرسیاں جس ترتیب سے لگی تھیں اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ ہال دفتر کے عملے کے لیے مخصوص تھا۔ سامنے ایک اور کمرے کا دروازہ بھی نظر آ رہا تھا جس کے بارے میں مائیکل نے بتایا کہ یہ مس مارگریٹ کا آفس ہے۔سارجنٹ اسکاٹ میز کے درمیان رکھے واٹر کولر کے پاس گیا اور آس پاس کے سامان کو بغور دیکھنے لگا۔
کولر کے قریب کچھ گلاس رکھے تھے جنہیں دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ یہی گلاس استعمال کر کے وائن پی گئی ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ اس مرڈر میں آفس کے عملے کا ہی کوئی فرد ملوث ہو سکتا ہے جو یہ بات جانتا تھا کہ مس مارگریٹ یا مسز جارڈن یا پھر دونوں معدے کے سرطان میں مبتلا ہیں اور اگر وہ سانپ کے زہر کا استعمال کرے گا تو صرف ان دونوں پر ہی اس کا اثر ہوگا۔ سارجنٹ پر سوچ لہجے میں بولا۔ میرا خیال آپ سے کچھ مختلف ہے۔ یہ کام کسی باہر کے آدمی کا ہے۔ ہاں وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ اس کا ٹارگٹ معدے کے السر میں مبتلا ہے اور اُس پر سانپ کا زہر ضرور اثر کرے گا۔ اب اُس کا ٹارگٹ مس مارگریٹ تھیں، مسز جارڈن پھر دونوں… اس بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ میں نے کل دفتر کے عملے کے افراد سے پوچھ گچھ کی تھی۔ کسی نے بھی دونوں خواتین کے کسی مرض کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ مائیکل نے کہا۔ ہو سکتا ہے انہوں نے اس حوالے سے تم سے بات کرنا غير ضروري سمجها ہو۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے آنے تک ہمیں بھی اس کے متعلق علم نہیں تھا مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اب ہمیں پتا چل چکا ہے کہ یہ مرڈر باقاعدہ پلان کے تحت کیے گئے ہیں اس لیے اب ہمارے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مس مارگریٹ اور مسز جارڈن کے مرض کا کس کس کو علم تھا؟ اور پھر … تم یہ بات کس بنا پر کہہ سکتے ہو کہ یہ کام کسی باہر کے آدمی کا لگتا ہے ؟سارجنٹ اسکاٹادھر ادھر کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔ سر! درصل میں نے کولر میں موجود وائن کے ساتھ ساتھ یہاں موجود وائن کی وہ بوتلیں بھی لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھجوائی تھیں جن میں کچھ مقدار میں وائن موجود تھی اور وہاں سے موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایک بوتل میں سانپ کا زہر پایا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زہر وائن کی بوتلوں میں شامل کیا گیا تھا اور وہیں سے واٹر کولر میں منتقل ہوا۔ اگر یہ کام اندر کے آدمی کا ہوتا تو اس کے لیے یہ آسان کام تھا کہ وہ زہر براہ راست واٹر کولر میں منتقل کر دیتا۔ میرا خیال ہے کہ جب شراب کی یہ بوتلیں یہاں لائی گئی تھیں تو ایک بوتل میں زہر پہلے سے موجود تھا۔
قاتل کے ذہن میں یہ نکتہ بھی موجود تھا کہ وائن کی وجہ سے کسی کو زہر کا ذائقہ بھی محسوس نہیں ہوگا۔ مائیکل نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا۔تمہاری بات میں وزن ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ بوتلیں اس جگہ کس طرح پہنچیں؟ میرے خیال میں اب دفتر کے عملے سے ایک تفصیلی ملاقات مجھے بھی کر لینی چاہیے۔ پہلے باہر موجود سکیورٹی گارڈ کو اندر بلاؤ۔ سارجنٹ اسکاٹ نے کہا تو مائیکل اثبات میں سر ہلاتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ سکیورٹی گارڈ کے ہمراه دوباره نمودار ہوا۔ کیا نام ہے تمہارا؟ اُس نے سکیورٹی گارڈ سے سوال کیا۔جی، میرا نام ڈیوڈ ہے۔ سکیورٹی گارڈ نے سادہ سے لہجے میں جواب دیا۔ڈیوڈ! کیا تم بتا سکتے ہو کہ مس مارگریٹ نے وائن کی وہ بوتلیں کہاں سے حاصل کی تھیں جو پارٹی میں استعمال ہوئیں؟ سارجنٹ اسکاٹ نے گہری نگاہوں سے ڈیوڈ کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ ظاہر ہے انہوں نے کسی شاپ سے ہی خریدی ہوں گی۔ ڈیوڈ نے جواب دیا۔اچھا، یہ تو تم جانتے ہی ہوگے کہ وہ وائن کی بوتلیں کب یہاں لے کر آئی تھیں؟ کیا وہ ان بوتلوں کو اسی دن یہاں لائی تھیں جب پارٹی تھی یا ایک دو دن پہلے ہی بوتلیں یہاں لائی گئی تھیں؟ اور کیا کسی بوتل کی سیل پہلے سے کھلی ہوئی تھی؟ سارجنٹ اسکاٹ نے نرم لہجے میں سوال کیا۔بوتلیں تو وہ کل پارٹی سے کچھ دیر قبل ہی لے کر آئی تھیں کیونکہ میں نے ہی بوتلیں گاڑی سے نکال کر اندر رکھی تھیں۔ جہاں تک سیل بند ہونے کا تعلق ہے، تو میں نے غور نہیں کیا۔ ویسے مس مارگریٹ کو شراب پینے کی عادت تھی۔ ممکن ہے انہوں نے یہاں لانے سے پہلے بھی کسی بوتل سے وائن پی ہو۔ بوتلوں سے کولر میں وائن مس مارگریٹ نے خود ہی انڈیلی تھی اور شاید تھوڑا سا پانی بھی مکس کیا تھا۔ یہ کل تین بوتلیں تھیں۔ ڈیوڈ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ٹھیک ہے، تم باہر جا سکتے ہو۔ سارجنٹ اسکاٹ نے حلق سے ایک طویل سانس خارج کرتے ہوئے کہا تو ڈیوڈ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ہال سے باہر نکل گیا۔
یہ کیس تو کسی طرح سلجھ ہی نہیں رہا۔ ابھی تک ہمیں یہی معلوم نہیں ہوا کہ مس مارگریٹ نے شراب کی بوتلیں کہاں سے حاصل کی تھیں، قاتل کی گرفتاری تو بعد کی بات ہے۔ سارجنٹ اسکاٹ الجھے ہوئے لہجے میں بولا۔سر! میرے خیال میں ہم نے ابھی تک تفتیش میں درست سمت کا ہی تعین نہیں کیا۔ مائیکل سنجیدہ لہجے میں بولا تو سارجنٹ اسکاٹ چونک پڑا۔کیا مطلب؟ اُس نے حیرت بھرے لہجے میں استفسار کیا۔سر! اگر ہم یہ کھوجنے لگ جائیں کہ مس مارگریٹ نے شراب کی بوتلیں کہاں سے خریدی تھیں، تو اس شہر میں تو ہزاروں ایسی دکانیں ہیں جہاں یہ بوتلیں فروخت ہوتی ہیں۔ میں نے بوتلوں کو اچھی طرح چیک کیا ہے۔ ان پر کسی دکان کا کوئی اسٹیکر چسپاں نہیں ہے جس سے ہمیں اندازہ ہو کہ یہ بوتلیں کہاں سے حاصل کی گئی ہیں۔اور پھر میرا نہیں خیال کہ کسی دکاندار نے مس مارگریٹ کو کوئی ایسی بوتل فروخت کی ہو گی جس میں زہر موجود ہو۔ یہ تو کسی مشہور کمپنی کی بوتلیں ہیں۔ ان کی سپلائی شہر کی ہر دکان میں ہوتی ہے اور یہ سیل پیک ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں زہر بعد میں شامل کیا گیا ہے۔ہم اگر اس بات کا سراغ لگا لیں کہ زہر کہاں سے حاصل کیا گیا ہے، تو پھر ہم قاتل تک آسانی سے پہنچ جائیں گے۔ شراب تو پورے شہر کے ہر علاقے میں فروخت ہوتی ہے، مگر سانپ کے زہر کی اس طرح سرعام فروخت ممنوع ہے۔پھر شہر میں چند ہی ایسی ڈرگ ڈیلر کمپنیاں ہیں جو دوائیں بنانے والی بڑی کمپنیوں کو اس زہر کی قانونی طریقے سے فروخت کرتی ہیں۔ مگر انفرادی حیثیت میں اس طرح زہر کی فروخت سراسر غیر قانونی ہے۔ ہمیں ان ڈرگ ڈیلرز کو چیک کرنا چاہیے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی نے رقم کے لالچ میں یہ زہر فروخت کیا ہو۔تمہاری بات میں وزن تو ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جس نے بھی یہ غیر قانونی کام کیا ہوگا، وہ پولیس کے سامنے یہ اعتراف کیوں کرے گا؟ سارجنٹ اسکاٹ نے پرخیال لہجے میں کہا۔سر، آپ کی یہ بات درست ہے کہ جو بھی یہ زہر فروخت کرے گا، وہ بھلا ہمارے سامنے اس کا اعتراف کیونکر کرے گا۔ مگر ہم شہر کے چند ایسے ڈرگز ڈیلرز کا انتخاب کر کے اپنی تفتیش کا آغاز کر سکتے ہیں جو پہلے بھی اس طرح کے غیر قانونی زہر یا ممنوعہ ادویات فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار ہو چکے ہیں۔
اس وقت میرے ذہن میں راجر کا نام آ رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں، وہ ہے تو ڈرگ ڈیلر، مگر پیشے کی خاطر ہر کام کر سکتا ہے۔ہاں، مگر اُس کا نام لینے کی کوئی ٹھوس وجہ؟ شہر میں اور بھی ڈرگز ڈیلر ہیں جن کے پاس کوبرا پوائزن فروخت کرنے کا لائسنس موجود ہے۔ سارجنٹ اسکاٹ نے سوالیہ انداز میں کہا۔سر، اس کا نام لینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا ڈرگ اسٹور اس جگہ سے صرف دو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مس مارگریٹ کے دفتر کے آس پاس بیس کلومیٹر تک عام میڈیکل اسٹورز تو ہوں گے، مگر راجر کے اسٹور کے علاوہ کوئی ایسا بڑا ڈرگ اسٹور نہیں ہے جس کے پاس بڑی کمپنیوں کو سانپ کا زہر فروخت کرنے کا باقاعدہ لائسنس ہو۔میں راجر کے ڈرگز اسٹور پر کسی ایسے ملازم کو ٹریس کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو ہمیں کچھ پیسوں کے عوض یہ انفارمیشن دے دے کہ راجر نے کمپنیوں کے علاوہ کسی کو بغیر ریکارڈ کے انفرادی طور پر سانپ کا زہر پچھلے دو تین دنوں کے دوران فروخت کیا ہے یا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر قاتل مس مارگریٹ کے گھر کے قریب بیس کلومیٹر کی رینج کے اندر اندر رہائش پذیر ہے، تو پھر امکان ہے کہ وہ راجر کے ڈرگ اسٹور سے ہی یہ زہر خرید سکتا تھا۔
راجر ممنوعہ ادویات کی فروخت میں پہلے ہی خاصا بدنام ہے، اس لیے کسی ممنوعہ شے کی خریداری کے لیے اُس سے بہتر آدمی قاتل کو نہیں مل سکتا۔ مائیکل نے اس بار پوری تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا۔مائیکل کے دلائل میں وزن تھا۔ سارجنٹ اسکاٹ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ وہ راجر سے بھی اچھی طرح واقف تھا۔ راجر کو ایک دو بار پہلے بھی ممنوعہ ادویات فروخت کرنے کے جرم میں اس نے ہی گرفتار کیا تھا، مگر وہ قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر بچ گیا تھا۔چلو، اس طریقے سے تفتیش کر کے بھی دیکھ لو۔ کبھی کبھی ہوا میں چلایا ہوا تیر بھی نشانے پر لگ جاتا ہے۔ پہلے یہ تو دیکھو کہ اُس کا کوئی ملازم کوئی انفارمیشن دینے کو تیار بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ قاتل نے کسی ڈرگ اسٹور سے زہر خریدا ہو، ممکن ہے وہ سانپ پکڑنے کا ماہر ہو یا اُس نے کسی ماہر کی مدد سے کسی سانپ کو پکڑ کر یہ زہر حاصل کیا ہو۔تم اس سلسلے میں اپنی تفتیش کر لو۔ اب آؤ، ذرا مس مارگریٹ کی بہن مارسیلا سے بھی مل لیں۔ وہ بے چاری پہلے ہی ٹانگوں سے معذور ہے، اوپر سے بہن کی موت کا غم اُسے چین نہیں لینے دیتا ہوگا۔ اُس سے ملاقات میں شاید کوئی کام کی بات معلوم ہو جائے۔ سارجنٹ اسکاٹ نے کہا اور پھر باہر کی جانب بڑھ گیا۔
مس مارگریٹ کا گھر ان کے آفس سے زیادہ دوری پر نہیں تھا۔ مائیکل ایک دن پہلے دفتری عملے سے اس کے گھر کا ایڈریس لے چکا تھا۔سارجنٹ ، مارسیلا سے مارگریٹ کے متعلق معلومات لینے آیا تھا مگر مارسیلا اپنی بہن کی موت کے وجہ سے اتنی غمزدہ تھی کہ وہ اس زیادہ تر سوالات کا جواب ہی نہ دے سکی، بس بچکیاں لے کر روتی رہی۔ سارجنٹ اسکاٹ اس کی ذہنی حالت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ مارگریٹ کے سوا مارسیلا کا کوئی اور بہن بھائی نہیں تھا اس لیے اس کے مارگریٹ سے دلی لگاؤ کی وجہ سمجھ میں آتی تھی۔ سارجنٹ اسکاٹ کو کوئی ایسی بات معلوم نہ ہوسکی جس کی بنا پر قاتل کی گرفتاری میں کوئی مدد مل سکتی تاہم جاتے وقت اس نے مارسیلا سے وعدہ کیا کہ اُس کی بہن کا قاتل جیسے ہی گرفتار ہوگا وہ اُسے یہ خوشخبری سنانے خود آئے گا۔راجر کے ڈرگز اسٹور والا آئیڈیا مائیکل نے دیا تھا، اس لئے اُس نے مائیکل کی ہی ذمہ داری لگائی کہ وہ اس کے ڈرگز اسٹور کے کسی ایسے ملازم کو ٹریس کرے جو اسے یہ معلومات دے سکے کہ پچھلے چند دنوں میں راجر نے انفرادی طور پر کسی کو سانپ کا زہر فروخت کیا تھا یا نہیں… اگرچہ سارجنٹ اسکاٹ کو کامیابی کی امید کم ہی تھی مگر وہ مائیکل کی یہ دلیل نظر انداز نہیں کر سکتا تھا کہ مس مارگریٹ کے آفس کے بیس کلومیٹر تک کی دوری پر صرف ایک راجر کا ہی ڈرگز اسٹور تھا جس کے پاس سانپ کا زہر فروخت کرنے کا لائسنس تھا اور وہ پیسے کی خاطر ہر کام کر سکتا تھا۔
اگر قاتل از خود سانپ پکڑنے کا ماہر نہیں تھا تو پھر زہر کے حصول کے لیے راجر کا ڈرگز اسٹور اُس کے لیے بہترین آپشن تھا تاہم یہ اسی صورت ممکن تھا اگر قاتل کی رہائش بھی اس علاقے میں ہو ورنہ تو وہ شہر کے کسی بھی دوسرے ڈرگز اسٹور سے زہر حاصل کر سکتا تھا۔شام ہوتے ہیں سارجنٹ اسکاٹ گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ اسے یقین تھا کہ کل تک مائیکل بھی راجر کے ڈرگز اسٹور کے بارے میں انفارمیشن حاصل کر لے گا۔ مائیکل کافی عرصے سے اس کی ماتحتی میں کام کر رہا تھا اور سارجنٹ تہہ دل سے اس کی صلاحیتوں کا معترف تھا۔ اُسے یقین تھا کہ مائیکل اس بارے درست اور مصدقہ معلومات حاصل کر لے گا۔ سارجنٹ اسکاٹ نے مائیکل سے کہا تھا کہ کبھی کبھی ہوا میں چھوڑا گیا تیر بھی نشانے پر بیٹھ جاتا ہے اور شاید تیر نشانے پر بیٹھ گیا تھا کیونکہ اگلے دن جب وہ اپنے آفس پہنچا تو مائیکل نے اسے یہ خبر سنائی کہ اس نے معلوم کرلیا ہے کہ راجر کے ڈرگز اسٹور سے پارٹی سے صرف ایک دن پہلے کسی نے سانپ کا زہر منہ مانگی قیمت پر خریدا تھا۔ سارجنٹ اسکات اب مائیکل سے اپنے آفس میں اسی چونکا دینے والی خبر پر گفتگو کر رہا تھا۔ کیا تمہاری معلومات مصدقہ ہیں ..؟ اس نے سوال کیا۔سر! میری معلومات سو فیصد مصدقہ ہیں۔
مائیکل نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔ میں نے کل شام آپ کے آفس سے جانے کے بعد ہی کام کا آغاز کردیا تھا۔ راجر کے ڈرگز اسٹور پر بیس کے قریب افراد ملازم ہیں تاہم میں ان میں سے ٹونی نامی ایک نوجوان سے معقول معاوضہ پر معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تاہم ٹونی یہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے جس نے یہ زہر خریدا ہے کیونکہ راجر نے اُس سے ڈیل اپنے آفس میں کی تھی اور اُس کی آفس کے اندر انٹری بھی پچھلے دروازے سے ہوئی تھی۔یہ بھی تو ممکن ہے کہ ٹونی نے تم سے پیسے بٹورنے کے لیے جھوٹ بول دیا ہو اور پھر تم نے اُس تک رسائی کیسے حاصل کی…؟ اگر یہ بات راجر تک پہنچ گئی کہ کوئی پولیس والا اس کے ڈرگز اسٹور کے ملازمین سے اُس کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا ہے تو وہ چوکنا ہوجائے گا۔سر میں نے اس معاملے میں پوری احتیاط سے کام لیا ہے۔ میں نے ٹونی سے اس کے گھر میں ملاقات کی ہے۔ دراصل میں ٹونی کو پہلے سے جانتا ہوں۔منشیات استعمال کرنے کے جرم میں، میں نے ایک بار اُسے گرفتار کیا تھا۔ ٹونی کے بارے میں مجھے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ پیسے کے معاملے میں اس کی اور راجر کی فطرت بالکل ایک جیسی ہے۔ وہ بھی پیسے کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے اسی لیے میں نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور اس کے گھر جا کر اُس سے معلومات حاصل کرلیں۔ البتہ مجھے اُسے کچھ پیسے بھی دینے پڑے۔اور اس نے پیسوں کی خاطر تم سے جھوٹ بول دیا۔
سارجنٹ اسکاٹ نے لقمہ دیا۔نہیں سر۔ اس نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولا۔ اس بات کی میں گارنٹی دے سکتا ہوں۔ مائیکل نے مضبوط لہجے میں کہا۔اس گارنٹی کی کوئی وجہ بھی تو گی…! سارجنٹ نے سنجیدہ لہجے میں سوال کیا۔سر! میں جب ٹونی سے ملا تو میں نے بس اُس سے یہ سوال کیا کہ پچھلے ایک دو دن میں راجر نے کسی شخص کو کوئی ممنوعہ شے تو فروخت نہیں کی؟ وہ بس اس بارے میں بتا دے اور پیسے لے لے … ٹونی نے جواباً مجھے بتایا کہ راجر نے کوبرا سانپ کا زہر کسی شخص کو فروخت کیا ہے اور اس فروخت کا کوئی اندراج یا ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ زہر صرف دوائیں بنانے والی مخصوص کمپنیوں کو فروخت کیا جاتا ہے اور خاصی بڑی مقدار میں فروخت کیا جاتا ہے، اس لیے جب اُس کے ایک ساتھی نے اسے بتایا کہ آج انتہائی قلیل مقدار میں یہ زہر کسی کو فروخت کیا گیا ہے تو وہ اُسی وقت سمجھ گیا کہ زہر کسی کو غیر قانونی طور پر فروخت کیا گیا ہے کیونکہ راجر پہلے بھی اس طرح کے کام کرتا رہتا ہے اس لیے اسے اس کی اس حرکت پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ مائیکل نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ ہونہہ … سارجنٹ اسکاٹ نے مائیکل کا جواب سن کر اپنی عادت کے مطابق بنکارا بهراسر میں نے اسے یہ نہیں کہا تھا کہ مجھے سانپ کے زہر کی فروخت کے بارے میں معلومات درکار ہیں۔ میں نے دانستہ ممنوعہ شے کا صیغہ استعمال کیا تھا مگر اس نے خود کوبرا پوائزن کا ذکر کیا … جس کی وجہ سے مجھے یقین ہوگیا کہ وہ سچ بول رہا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ راجر اس بات کا اعتراف کیوں کرے گا کہ اُس نے کسی کو ریکارڈ سے ہٹ کر زہر فروخت کیا ہے۔ سارجنٹ اسکاٹ نے پوچھا۔ میری اس سلسلے میں ٹونی سے بات ہوئی ہے۔ مائیکل اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ اُس کا کہنا ہے کہ چند ماہ پہلے راجر کے اسٹور میں چوری کی واردات ہوئی تھی جس کے بعد اس نے اسٹور کے فرنٹ اور عقبی دروازے پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کروا دیے تھے۔
ٹونی کا کہنا ہے کہ عقبی دروازه صرف ملازمین استعمال کرتے ہیں اس لیے اگر ہم وہ سی سی ٹیوی ریکارڈنگ دیکھ لیں تو ہم اس خریدار کو شناخت کر سکتے ہیں۔ راجر کے اسٹور کی ریکارڈنگ ایک ماہ بعد ڈیلیٹ کر دی جاتی ہے، ابھی ہمارے پاس موقع ہے۔ راجر کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ پولیس اس تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے ریکارڈنگ کو قبل از وقت ڈیلیٹ کروانے کی طرف اس کا ذہن نہیں گیا ہوگا۔ اگر ہم اچانک پولیس فورس کے ساتھ اس کے ڈرگز استور پر ریڈ کریں اور سی سی ٹی وی ریکارڈنگ قبضے میں لے کر دیکھ لیں تو ہم اس خفیہ خریدار کے بارے میں جان سکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں اچانک اور فوری ریڈ کرنا ہوگا۔تو پھر ریڈ کی تیاری کرو۔ ہم ابھی ایکشن میں آئیں گے۔ میں نے کل مارسیلا سے وعدہ کیا تھا کہ میں اُس کی بہن اور مسز جارڈن کے قاتل کی گرفتاری کی خوشخبری دینے خود اُس کے پاس آؤں گا۔ اگر زہر کا خریدار ہمارا مطلوبہ آدمی ہے تو پھر میں مارسیلا کو جلد از جلد یہ خوشخبری سنانا چاہتا ہوں۔ آؤ آج راجر سے بھی نمٹ لیں۔ اس نے ممنوعہ ادویات فروخت کر کے بہت پیسہ کما لیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے سارجنٹ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تو مائیکل نے بھی اسے اٹھتے دیکھ اپنی جگہ چھوڑ دی۔
وه دن سارجنٹ اسکاٹ نے خاصی مصروفیت میں گزارہ اور جب فارغ ہو کر مارسیلا کے گھر پہنچا تو شام کا ملگجی اندھیرا چارسو پھیل چکا تھا۔ سارجنٹ نے اپنی گاڑی مارگریٹ کے گھر کے سامنے پارک کی اور کار سے باہر نکل آیا۔ مائیکل بھی اُس کے ہمراہ تھا۔مارسیلا اُسے گھر کے باہر لان میں ہی دکھائی دے گئی وہ اپنی وہیل چیئر پر موجود تھی۔ انہیں دیکھ کر اس کے چہرے پر ہلکی سی حیرت کے تاثرات عود کر آئے تھے۔ سارجنٹ اسکاٹ اور مائیکل آہستہ آہستہ چلتے اُس کے پاس پہنچ گئے۔مس مارسيلا! کیسی ہیں آپ …؟ سارجنٹ اسکاٹ نے مارسیلا کےقریب جاتے ہی خوش دلی سے کہا۔سارجنٹ خیریت آپ آج پھر آگئے …؟ ابھی کل ہی تو آپ مجھ سے مل کر گئے تھے۔ اُسے اور مائیکل کو دیکھ کر مارسیلا حیرت بھرے لہجے میں بولي.میں نے کہا تھا نا کہ میں مس مارگریٹ کے قاتل کو ٹریس کرتے ہی سب سے پہلے آپ کو یہ خوشخبری سنانے کے لیے آؤں گا …! دیکھ لیں میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ آج میں نے شہر کے ایک بڑے ڈرگز اسٹور پر ریڈ کیا اور مجھے کامیابی بھی مل گئی ہے۔
بالآخر ہم نے قاتل کو ٹریس کر ہی لیا ، جس نے وائن کی بوتلوں میں زہر کی آمیزش کی تھی۔کون ہے وہ قاتل …! مارسیلا نے سارجنٹ کے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔آپ ہی تو ہیں مس مارسيلا سارجنٹ نے جواب دیا۔ آپ نے ہی اپنی بہن اور مسز جارڈن کی جان لی ہے-یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں …! میں ایک معذور عورت ہوں، میں بھلا کسی کی جان کیسے لے سکتی ہوں؟ ایک تو میری بہن اس دنیا میں نہیں رہی دوسرا آپ اُس کے قتل کا الزام بھی میرے سر تھوپ رہے ہیں۔ مارسیلا بھڑکتے ہوئے بولی-آپ ٹانگوں سے معذور ہیں ذہنی معذور تو نہیں … جو کسی کے قتل کیپلاننگ نہ کر سکیں۔ ویسے اب انکار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میں آپ کی اطلاع کے لیے عرض کر دوں کے راجر نام کے جس ڈرگز ڈیلر سے آپ نے منہ مانگی قیمت پر سانپ کا زہر حاصل کیا تھا وہ ہماری سخت باز پرس کے بعد اعترافی بیان بھی دے چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آپ نے فون پر اسے زہر کی منہ مانگی قیمت کی آفر کی تھی۔ پیسوں کے لالچ میں اُس نے آپ کو زیر فراہم کر دیا۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ آپ ٹانگوں سے معذور ہیں۔ جب آپ وہیل چیئر پر اس کے آفس آئیں، تبھی اسے آپ کی معذوری کا علم ہوا۔واپسی پر اس کے ملازمین نے وہیل چیئر سے ٹیکسی میں منتقلی کے لیے ڈرائیور کے ہمراہ آپ کی مدد کی تھی۔كون راجر …! میں کسی راجر کو نہیں جانتی۔
مارسیلا نے پہلے سے بھی زیاده غصیلے لہجے میں کہا۔ہمارے پاس راجر کے ڈرگز اسٹور کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ موجود ہے – مارگریٹ کے آفس کے تمام ملازمین سے بھی ایک تفصیلی ملاقات کی تھی جس میں مجھ پر کچھ نئے انکشافات ہوئے۔ یہ گھر اور آفس مس مارگریٹ نے اپنی محنت سے بنائے تھے، سب کچھ ان کے نام تھا، آپ کے نام کچھ بھی نہیں … مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ مس مارگریٹ جلد ہی شادی کرنے والی تھیں۔ یقیناً یہ بات انہوں نے آپ سے بھی شیئر کی ہوگی۔ آپ کو مارگریٹ کی شادی کی خبر سن کر اپنے مسقبل کی فکر ستانے لگی تھی، اسی لیے آپ نے اُسے مارنے کا فیصلہ کر لیا۔ بہن ہونے کے ناتے اس کی ساری جائداد آپ کے حصے میں ہی آتی۔ آپ اپنا مستقبل محفوظ کرنا چاہتی تھیں، آپ اپنی بہن کے مرض سے بخوبی آگاہ تھیں، اس لیے آپ نے یہ سارا منصوبہ ترتیب دیا۔ہر حال سی سی ٹی وی ریکارڈنگ اور راجر کے اعترافی بیان کے بعد عدالت کے لیے یہ تعین کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ یہ کھیل آپ کا ہی رچایا ہوا تھا۔
آپ کی معذوری کا خیال کرتے ہوئے میں پولیس کی نفری کے ساتھ یہاں نہیں آیا، صرف مائیکل کو ساتھ لایا ہوں۔سارجنٹ اسکات اتنا کہہ کر چند ثانیوں کے لیے خاموش ہوگیا۔مائیکل مس مارسیلا کو باعزت طریقے سے گاڑی میں منتقل کر دو۔ ہتھکڑیاں لگانے کی بھی ضرورت نہیں … سارجنٹ اسکاٹ نے مارسیلا کو خاموش دیکھ کر کہا تو مائیکل اثبات میں سر بلاتے ہوئے مارسیلا کی جانب بڑھ گیا جس کا سر جھکا ہوا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب اُس کا قانون کی گرفت سے بچنا ممکن نہیں ہے۔سارجنٹ اسکاٹ جب بھی کسی ملزم کو گرفتار کرتا تھا اس کے چہرے پر ہمیشہ کامیابی کی چمک اور مسرت کے تاثرات ہوتے تھے مگر آج اس کے چہرے پر ہلکے سے غم کے تاثرات موجود تھے، شاید اس لیے کہ اس بار ملزمہ ایک معذور عورت تھی-
.jpg)