مجبوری کی قیمت

Sublimegate Urdu Stories

میرا نام ممتاز ہے اور میں خوبیوں میں بھی ممتاز ہوں۔ یہ میں نہیں ، لوگ کہتے ہیں، پھر بھی بد نصیب ہوں کہ ایک ہاتھ سے معذور ہوں اور زندگی کی گاڑی تو دو ہاتھوں سے چلتی ہے، لیکن مجھے عمر بھر ایک ہاتھ سے کھینچتی ہے۔ میں پیدائشی معذور نہ تھی۔ میرے ہاتھ پاؤں سلامت تھے، مگر قسمت نے مکمل انسان سے معذور اور ادھورا بنا دیا۔ شاید آپ کو اندازہ ہو کہ ایک معذور انسان کے کیا احساسات اور نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں۔ اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتی ہے۔ لوگوں کی نظریں جب معذور آدمی کو جذب ترجم سے دیکھتی ہیں، تو کیا بتاؤں ! دل پر کیا گزرتی ہے۔ شکر کرتی ہوں کہ مجھے اچھا جیون ساتھی ملا، ورنہ خدا جانے، میرا کیا حشر ہوتا؟ میں کیسے معذور کی گئی، آپ کو بتاتی ہوں۔

یہ ان دنوں کی بات ہے ، جب میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی اور ہم ایک چھوٹے سے شہر میں رہا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھ میری چچازاد بہن باجی عذرا بھی رہتی تھیں کیونکہ ان کے امی ابو ایک ایکسڈنٹ میں فوت ہو گئے تھے، تب سے ابو باجی کو اپنے گھر لے آئے تھے۔ جب چپ چی فوت ہوئے ، عذرا با جی تیرہ چودہ برس کی تھیں اور آٹھویں جماعت میں پڑھا کرتی تھیں۔ وہ کافی خوبصورت تھیں کیونکہ ہمارا سارا ہی خاندان خوبصورت ہے۔ میں اور عذرا باجی اکٹھے اسکول جاتی تھیں۔ جب باجی نویں جماعت اور میں چھپٹی میں آئی تو ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے باجی کی زندگی میں دُکھ بھر دیئے۔ وہ تو پہلے ہی سکھی نہ تھیں، اسکول سے آکر گھر کا سارا کام کرتی تھیں جبکہ امی کم ہی کام کو ہاتھ لگاتی تھیں۔ میں تو بچی تھی، میرا دھیان کھیل میں لگارہتا تھا۔ میں ان دنوں نا سمجھ تھی۔

 شام کو روزانہ سہیلیوں کے ساتھ گلی میں کھیلنے نکل جاتی۔ امی ابو منع بھی کرتے، کہتے ۔ اب تم بڑی ہو گئی ہو، باہر مت جایا کرو، مگر میں نہ مانتی ۔ ہماری گلی کی لڑکیاں شام کو باہر کھیلتیں، سڑک پر لکیریں بنا کر ہم پالا کھیلتے ، جو گروپ جیت جاتا وہ پالا مار لیتا۔ کبھی کبھی گلی کے لڑکے بھی ہمارا کھیل دیکھنے کوڑک جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک دن علیم نے مجھے خط دیا اور کہا کہ یہ اپنی باجی عذرا کو دے دینا۔ اس نے ہوم ورک منگوایا تھا۔ یاد رہے کہ علیم کی ایک کزن بھی ہمارے ساتھ پڑھتی تھی، جو باجی کی کلاس فیلو تھی۔ 

میں یہی سمجھی کہ باجی نے کچھ شائستہ سے منگوایا ہو گا۔ علیم اور شائستہ ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ دراصل وہ اپنے چچا کے گھر پڑھنے کے لئے آیا ہوا تھا۔ بہر حال خط میں نے باجی عذرا کو دیا، جسے پڑھ کر ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس وقت وہ کچن میں چائے بنارہی تھیں۔ خط پڑھ کر انہوں نے چولہے میں ڈال دیا اور میرے سامنے کا غذ کا وہ پرزہ جل کر راکھ ہو گیا۔ خدا جانے علیم نے اس میں کیا لکھا تھا۔ باجی نے کہا۔ دیکھ نھی ! اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرنا، ورنہ تایا تائی مجھ سے برا سلوک کریں گے اور اسکول سے بھی نکال لیں گے۔ میں ان سے بہت پیار کرتی تھی کیونکہ وہ بھی میرا بہت خیال رکھتی تھیں، لہذا مجھے بھی ان کی خیریت مطلوب تھی، سو میں نے اس بات کا ذکر واقعی کسی سے نہ کیا۔

جب میں اور باجی عذرا اسکول جارہی ہو تیں، تو علیم کبھی کبھی ہمارا پیچھا کرتا، لیکن باجی مڑ کر نہ دیکھتیں اور نہ وہ اس سے رستے میں بات کرتیں، البتہ مجھے تاکید کرتیں کہ کسی بات کا ذکر گھر میں کسی سے نہ کروں ، ورنہ وہ اسکول سے نکال لی جائیں گی۔ ان کو پڑھنے کا بہت شوق تھتا اور وہ کسی صورت تعلیم کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ ادھر ان کو یہ خوف تھا کہ ان کی پڑھائی میں رکاوٹ نہ آجائے، ادھر علیم تھا کہ باز نہیں آتا تھا۔ جب بھی مجھے گلی میں اکیلے دیکھتا، کاغذ کا پرزہ مجھ کو تھمادیتا۔ عذرا باجی نے کبھی اس کے خط کا جواب نہ دیا، مگر علیم نے بھی ہمت نہ ہاری۔ وہ ایسے ہی مجھے خط دیتا رہا۔ یہ سلسلہ چھ ماہ چلاتا کہ آخر ایک دن ابو نے اسے خط دیتے دیکھ لیا۔ 

وہ تو بھاگ نکلا، لیکن ابو نے مجھے پکڑ لیا اور میرے ہاتھ خط چھین لیا۔ خط پڑھتے ہی ان کا چہرہ  غصے سےلال ہو گیا اور آنکھوں میں خون اتر آیا۔ گھر آتے ہی وہ عذرا باجی کے کمرے میں گئے اور ان کو برابھلا کہنے لگے ۔ باجی رونے لگیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ تایا جی! میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے کبھی اس لڑکے سے بات تک نہیں کی اور نہ کبھی اس کے خط کا جواب دیا ہے۔ تو پھر ہمیں کیوں نہیں بتایا ؟ ابو گرج رہے تھے اور عزرا باجی روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ اس لئے کہ آپ مجھے کہیں پڑھنے سے نہ روک لیں۔ تایا جی ! خدا کے لئے مجھے تعلیم سے نہ روکیے گا۔ وہ اپنے ناکردہ قصور کے لئے معافیاں مانگتی رہ گئیں ، مگر ابو نے ان پر ترس نہ کھایا اور انگلے دن سے انہیں اسکول سے اٹھا لیا۔ 

مجھے بھی سختی سے تاکید کی کہ اب گھر سے قدم مت نکالنا، اگر ایسا کیا تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔ انہوں نے مجھے بھی ایک زور دار تھپڑ رسید کیا اور باجی کی تو اچھی خاصی پٹائی کی۔ میں اپنے تھپڑ کا دکھ بھول چکی تھی کیونکہ عذرا باجی کی پٹائی نے میرا کلیجہ دہلا دیا تھا۔ مجھے پتا بھت باجی کا صرف اتنا قصور تھا کہ وہ خط لے کر پڑھتیں اور چولہے میں جلا دیتیں۔ اس کے سوا ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ میٹرک کے امتحان میں صرف پندرہ دن رہتے تھے۔ باجی ہاتھ جوڑتی رہ گئیں کہ مجھے میٹرک کے پیپرز تو دے لینے دیجئے، مگر ابو نے ایک نہ مانی اور وہ گھر بیٹھ گئیں۔ میٹرک کا امتحان بھی نہ دے سکیں۔ باجی کا انجام، مجھے سبق سکھانے کو کافی تھا۔ تبھی ابو نے مرکان فروخت کرنے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک دو سر امکان ملے ، ہم وادی کے گھر میں رہتے ہیں۔ وہ فوری طور پر یہ محلہ چھوڑ دینا چاہتے تھے۔ مکان چھوڑنے کی وجہ سے میری سہیلیاں بھی چھوٹ گئیں۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ جب سامان جبار ہات، علیم نے دیکھا اور موقع ملتے ہی مجھ سے سوال کیا کہ تم لوگ یہاں سے جار ہے ہو ؟ کیوں جارہے ہو ؟ میں نے کوئی جواب نہ دیا اور منہ پھیر کر چلی آئی۔ نہیں بتایا کہ ہم محلہ چھوڑ رہے ہیں، یوں ہم دادی کے گھر آگئے۔

ایک دن جب ابو گاؤں گئے ہوئے تھے، میں پرانے محلے میں، اپنی سہیلی کے گھر گئی۔ وہاں مجھے علیم ملا۔ میں نے اُسے بتا دیا کہ ہم دادی کے گھر رہتے ہیں اور باجی عذرا بہت دکھی ہیں۔ آپ کی وجہ سے سب نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے۔ میں نے اسے دادی کے گھر کا پتا بھی بتا دیا، تب اس نے تاسف کا اظہار کرنے کے بجائے کہا کہ اب اس کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ تمہاری کزن بزدل ہے اور میری منگنی اپنی کزن کے ساتھ ہو چکی ہے۔ ویسے بھی تم لوگ دھو کے باز ہو، بغیر بتائے چلی گئیں اور میں نے اپنی منگنی خود اپنی مرضی سے کی ہے، یہ بات تم اپنی باجی عذرا کو بتا دینا۔ وہ تو میرے خط کا جواب تک نہ دیتی تھی۔ 

خدا جانے کیا سمجھتی تھی خود کو ؟ علیم کی بات سن کر میں حیران رہ گئی اور میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مجھے اس بات کا بہت دکھ ہوا کہ اس لڑکے کی وجہ سے ہمارا گھر بکا، باجی پر قیامت ٹوٹی ، وہ تعلیم سے محروم کر دی گئیں اور اس کو اپنی غلطی کا احساس تک نہیں ہے۔ اس کی باتوں سے بہت غمزدہ ہو گئی۔ عذرا باجی کا حال یہ تھا کہ وہ کھاتی تھیں ، نہ پیتی تھیں کیونکہ ان کو ناکردہ گناہ کی سزا ملی تھی اور تعلیم کے چھوٹ جانے کا بہت دکھ بھتا۔ خاندان والے بھی ان سے نفرت کرنے لگے تھے۔ باجی شروع سے ہی حساس تھیں، ہر بات کو دل پر لے لیتی تھیں۔ ماں باپ ناگہانی حادثے میں چھن گئے تھے۔ 

ایسی لڑکی کے غم کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں، جو پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتی ہو ، اپنے پیروں پر کھڑی ہو نا چاہتی ہو اور اچانک ہی اس سے اس کی منزل چھین لی جائے۔ ابو نے میرا گھر سے نکلنا بند کر دیا تھا۔ میں بھائی کے ہمراہ اسکول آتی جاتی تھی اور باقی وقت گھر میں قید ہو گئی تھی۔ میں جو ہوا کی طرح گھومتی پھرتی تھی ، اب تنہائی میں بیٹھ کر عذرا باجی کے بارے سوچتی تھی کہ ان کا کیا قصور تھا؟ وہ اب پاگلوں جیسی لگتی تھیں، تنہائی میں اپنے آپ سے باتیں کرتی تھیں۔ کوئی ان کا دوست نہ تھا، جس کو وہ اپنا دکھ بتا تیں۔ ایک میں ہی تھی، جو اُن کا دکھ سمجھتی تھی باقی کسی کو ان سے ہمدردی نہ تھی۔ 

والد صاحب تو اتنے سخت دل تھے کہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے کبھی عذرا باجی سے بات تک نہ کی۔ امی البتہ نرمی سے بات کر لیتی تھیں، تو والد صاحب ان سے بھی کہتے کہ اس لڑکی سے بات نہ کرو، جس نے میرے خاندان کی عزت کا خیال نہیں کیا، ورنہ میں تم کو بھی گھر سے نکال دوں گا۔ خدا کا شکر کہ ابو نے میرے پڑھنے پر پابندی نہ لگائی تھی۔ میں ایف اے میں تھی۔ ایک دن کالج سے آکر میں نے ٹی وی لگالیا۔ ابو کو یہ بالکل پسند نہ تھا کہ ہم ٹی وی پر انڈین فلمیں یا ڈرامے وغیرہ دیکھیں۔ وہ خود اور خبریں اور سنجیدہ پروگرام دیکھتے تھے۔ ان دنوں انڈیا کے چینل آیا کرتے تھے۔ بہر حال ابو اسی وقت آگئے اور مجھ کوئی وی کے آگے بیٹھا دیکھ کر برا بھلا کہنے لگے کہ تم ایسی آوارہ ہو گئی ہو ، ٹی وی پر ناچ گانے دیکھ رہی ہو۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں نے رونا شروع کر دیا اور سوچنے لگی کہ کوئی باپ ایسانہ ہو گا، جو اپنی اولاد سے ایسا سلوک کرے ، جو ابو ہمارے ساتھ کرتے تھے۔ اگر ماں نہ ہو تیں، تو پیچ کہتی ہوں کہ ہم ابو کی سختیوں کو جھیل نہ پاتے، مر ہی جاتے۔
پہلے تو وہ یہ کہتے تھے کہ میری بچیاں اگر نہ پڑھ سکیں تو میری زندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ بعد میں وہ ہماری پڑھائی کے بھی خلاف ہو گئے۔ میں ان کی نفسیات سمجھ نہ سکتی تھی کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر بھی اتنی سختی کیوں کرتے ہیں۔ میری ماں محبور تھیں۔ وہ ابو کی ہر بات مانتی تھیں، والد صاحب پھر بھی لڑائی کے بہانے ڈھونڈتے تھے۔ ایک بار عید سے چند دن پہلے میں اپنی خالہ کے پاس گئی۔ ہفتہ کی اجازت لے کر گئی تھی مگر میں ابو کے ڈر سے تین دن بعد ہی گھر لوٹ آئی، کہیں اس بات کو بہانہ بنا کر امی کی پٹائی نہ کر دیں۔ خالہ مجھے بہت پیار کرتی تھیں، ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ 

دو ہفتے گزرے تھے کہ حالہ مجھے لینے آگئیں۔ ابو ، امی پر خفا ہونے لگے کہ ان کا بیٹا جوان ہے اور تم ان کے گھر بیٹی کو رہنے کے لئے بھیج دیتی ہو ۔ کیا زمانے کا کچھ اعتبار ہے اور مجھے تو اپنی اولاد کا اعتبار نہیں، تم زمانے کو کیا کہو گی۔ باپ کے منہ سے ایسی باتیں سن کر میرا کلیجہ چھلنی ہو گیا اور میں رونے لگی۔ ان کی ایسی باتیں مجھ سے ہر گز برداشت نہ ہوتی تھیں۔ خالہ منہ لٹکا کر واپس چلی گئیں اور میں نے ابا کی باتیں دل پر لے لیں صدمے سے بیمار ہو گئی۔ میں سوچتی تھی کہ ابو کیوں مجھے ایسی ویسی لڑکی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ میں ایسی لڑکی نہ تھی۔ مجھے اپنے باپ کی عزت ہر شے سے بڑھ کر عزیز تھی۔ اب یہ قسمت تھی کہ مجھے اپنا خالہ زاد شہزاد بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ مجھے پسند تھا اور میں اسے پسند تھی ، مگر میں نے اپنے جذبا ت کو دل میں دبا لیا تھا۔ 
کبھی کسی سے اظہار نہ کیا۔ اُدھر ابو کی باتوں کی وجہ سے خالہ نے ہمارے گھر آنا جانا بند کر دیا اور اپنے بیٹے کو بھی منع کر دیا کہ ادھرمت جانا۔ ایک بار ہمیں مامو زاد بھائی کی شادی کا کارڈ ملا۔ قریبی رشتہ بھتا، اس لئے جانا ضروری تھا۔ بارات میں جانے کو سب تیار ہو گئے۔ امی ابو بھی جارہے تھے، مگر میرا دل نہ چاہتا تھا کہ جاؤں۔ اندیشہ بھتا کہ وہاں بھی ابو مجھ پر سختی کریں گے بلکہ سب کے سامنے ڈانٹ دیں گے، تو میری کیا عزت رہ جائے گی۔ بہر حال امی کے اصرار پر میں چلی گئی اور وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ ماریہ، میری ماموں زاد بہن ، اس کا پرس گر گیا تو شہزاد نے اٹھا لیا۔ ماری نے مجھ سے کہا کہ میرا پرس لا دو۔ شہزاد اکیلا کھڑا تھا۔ اس نے مجھے پرس دیا، تبھی میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ حالانکہ میں اسے بہت پسند کرتی تھی پھر بھی مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے دُکھی ہو کر کہا۔ شہزاد زیادہ چالاک نہ بنو، میرا ہاتھ چھوڑ دو۔ میں پرس لے کر بھائی، دیکھا تو آگے ابو کھڑے تھے اور ہمیں دیکھ رہے تھے۔ ساتھ ماں بھی تھیں، وہ حیرت سے مجھے تک رہی تھیں۔

اس وقت ابو نے غصہ پی لیا، لیکن جب بارات واپس آئی تو ابو اسی وقت ہمیں لے کر گھر آگئے اور گھر آکر انہوں نے مجھے بہت برا بھلا کہا، ساتھ ہی میرا ہاتھ جلتے ہوئے چولہے پر رکھ دیا۔ وہ میرا ہاتھ چھوڑ ہی نہ رہے تھے اور میں تکلیف سے چینے جارہی تھی۔ آخر امی نے آکر ان کے ہاتھ سے میری کلائی کو چھڑوایا، اس وقت تک میری انگلیاں جل گئی تھیں۔ اس ظلم کی نشانی آج بھی موجود ہے۔ میرا ہاتھ جلا ہوا ہے اور انگلیاں سکڑ کر جڑ گئی ہیں، جس کی وجہ سے میں ایک ہاتھ سے معذور ہوں اور کام نہیں کر سکتی۔ یہ ہے اس باپ کی کہانی، جس نے اپنی عزت کی حفاظت کی، لیکن اولاد کو بے پناہ دکھ سے دو چار کر دیا۔ سوچتی ہوں، کاش وہ یہی کام نرمی سے لیتے۔ بے شک ہمیں برائی سے روکتے، مگر غصے نہیں بلکہ نرم رویئے سے ، تو آج میں ان سے نفرت نہ کرتی۔ 
بی اے کے بعد معذور ہونے کی وجہ سے ملازمت نہ مل سکی۔ ہماری پڑوسن نیک دل عورت ہیں۔ انہوں نے میرے معذور ہونے کے باوجود، میرا رشتہ لیا اور اپنے بیٹے سے میری شادی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ معذور ہے تو کیا ہوا؟ یہ عزت دار لوگ ہیں اور ہمیں عزت دار لوگ ہی چاہئیں۔ خدا کا شکر ہے، میری ساس، سسر اور شوہر اچھے ہیں۔ انہوں نے کبھی مجھے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ میرا ایک ہاتھ ناکارہ ہے۔ میں اپنے گھر میں خوشی اور سکون سے رہتی ہوں۔ میرے شوہر کو سب پتا ہے کہ کیوں ابا نے میرا ہاتھ جلایا تھا، مگر وہ کچھ نہیں کہتے۔ میرا ایک بیٹا ہے اور شوہر کی سچی محبت ہی میرے صبر کا پھل ہے۔ میرے والدین بھی اس بات پر خوش ہیں کہ میں اپنے گھر میں سکون سے ہوں۔ 

عذرا باجی کی شادی اپنے رشتہ داروں میں ہوئی، لیکن وہ اتنی سکھی نہیں ہیں کیونکہ ان کی شوہر کی عادتیں ٹھیک نہیں۔ بس گزارہ ہو رہا ہے۔ والدین سے التجب کروں گی کہ وہ بچیوں پر کڑی نظر ضرور رکھیں ، مگر اتنی زیادہ سختی نہ کریں کہ ان کو معذور ہی کر دیں۔ اگر جسمانی نہیں تو ذہنی طور پر ضرور لڑکیاں والد کی سخت مزاجی کے باعث معذور ہو سکتی ہیں، جس کا ان کو عمر بھر نقصان بھرنا پڑتا ہے۔