خاموشی کا عذاب - 2

urdu font stories

میری ممانی، جن کا گھر وہاں قریب میں تھا، ان کو خالہ کلثوم کے حالات کا کچھ نہ کچھ اندازہ تھا، تاہم جھگڑے کے ڈر سے انہوں نے چپ سادھ رکھی تھی۔ انہوں نے کسی کو کچھ نہ بتایا اور خالہ نے بھی ظلم سہہ کر بھی سسرال والوں کے عیبوں سے پردہ نہ اٹھایا کہ بن ماں باپ کے تھیں۔ ایک روز خالو کے دوست کی بیوی اُن کے گھر حالات معلوم کرنے آئی۔ اس کا شوہر بھی نصیر الدین کے ساتھ مسقط میں کام کرتا تھا۔ اس نے جب خالہ کی ایسی حالت دیکھی شوہر کو لکھ دیا کہ نصیر الدین بھائی کی بیوی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ وہ تو بے چاری لاغر اور قریب المرگ لگتی ہے۔ تم اپنے دوست کو کہو پاکستان آکر بیوی کی خیر خبر لے۔ نجانے کیا معاملہ ہے کہ بچاری حیرت و حسرت کی تصویر بن چکی ہے۔ دوست نے خالو کو کہا کہ تم فوراً گھر جاؤ اور جا کر بیوی کے احوال پتا کرو، اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے۔
 
وہ مسقط سے آگئے مگر گھر والوں نے ایسے ان کو گھیرا کہ وہ ان کی باتوں میں آ گئے اور بیوی کو ہی غلط سمجھا، تاہم انہوں نے بیوی سے کوئی باز پرس کی اور نہ سختی، وہ بغیر ثبوت ان کو سزا نہیں دینا چاہتے تھے۔ نندیں مگر باز نہ آئیں۔ کہتیں، کلثوم تم سبز قدم ہو۔ ایک تو بانجھ ہو اوپر سے شوہر کو برسر روزگار نہیں دیکھ سکیں۔ خدا جانے بھائی نصیر کے دوست کی بیوی کےذریعہ کیا پیغام بھیجا کہ ہمارے بھائی کو تمہاری وجہ سے اچھی بھلی نوکری چھوڑ کر آنا پڑ گیا۔ اب روپیہ نہ ہو گا تو اتنے بڑے کنبہ کا گزارا کیسے ہو گا ؟ اگر تمہارے اعمال اچھے ہوتے ، تو وہ ایسانہ کرتے۔ خالہ کلثوم کے ساس سر نہ تھے ، وہ نندوں میں گھری ہوئی تھیں۔ نصیر الدین پریشان تھے کہ گھر والے اس کی بیوی کو بد چلن لکھتے تھے ، جبکہ یہاں تو ایسی کوئی بات نظر نہ آئی تو سزا کس بات کی دوں ؟ اگر وہ بد چلن ہے، تو آخر کس کے ساتھ ؟ جبکہ وہ تو گھر سے قدم نہ نہیں نکالتی ہے۔ 
 
اس کی گواہی سارے محلے والے دیتے تھے کہ تمہاری بیوی جیسی نیک چلن، فرشتہ صفت کوئی اور عورت مشکل سے ہی ہم نے دیکھی ہے۔ یہ تو کبھی میکے بھی نہیں جاتی ہے۔ جب یہ وار نا کام ہوا تو نندوں نے ایک اور ترکیب سوچی۔ کسی طرح خالو کی الماری چابیاں چرا کر اور بنوا لیں۔ ذکیہ نے یہ کام اپنے بڑے بھائی کے بیٹے منور سے کروایا اور جب ایک رات کو سب سور ہے تھے تو انہوں نے الماری کی تجوری کھول کر تمام روپیہ اور سونا نکال لیا کر چابیاں کنویں میں پھینک دی۔ صبح جب وہ بیدار ہوئے اور اپنے سرہانے سے چابیوں کا کچھ نکالا اور تجوری کھولی، کیونکہ کاروبار کے لئے رقم دینی تھی، مگر رقم وہاں موجود نہیں تھی اور سونے کے بسکٹ بھی غائب تھے ، جو وہ مسقط سے لایا کرتےتھے۔
اُن کا دماغ چکرا گیا۔ سب سے پہلے بیوی سے پوچھا کیونکہ چابیوں کا ان کو معلوم تھا، کہاں رکھتے تھے۔ اُدھر نندوں نے مشہور کر دیا کہ کل شام بھابھی کے بھائی آئے تھے ۔ اتفاق سے ہم نے دیکھ لیا کہ بھابی اُن کے بریف کیس میں رقم رکھ رہی تھیں رقم انہوں نے ہی چرائی ہے۔ اتنے بڑے الزام پر خالہ چپ نہ رہ سکیں اور انہوں نے بالآخر زبان کھولی کہ میرے بھائی کل شام آئے ضرور تھے ، مگر وہ رقم لینے نہیں بلکہ مجھے کچھ رقم دینے آئے تھے تا کہ جب میری نندیں مجھے بھوکا ر کھیں ، تو میں خود کچھ خرید کر کھا سکوں، البتہ تجویری سے انہوں نے منور کے ذریعے رقم پار کی ہے، کیونکہ رات منور بھی یہاں آکر رہا تھا۔
 
 آخر اس کا یہاں رہنے کا کیا مقصد تھا؟ شوہر نے پھر بھی یہی کہا۔ کلثوم دیکھو ! رقم واپس کر دو، ورنہ مار کر کنویں میں پھینک دوں گا ۔ صرف تمہیں ہی معلوم ہے کہ میں چابیاں کہاں رکھتا ہوں۔ میری بہنوں کو اس بارے میں پتا نہیں تھا، تو وہ کیسے رقم چرا سکتی ہیں ؟ تب خالہ کے خون نے جوش مارا۔ وہ کہنے لگیں۔ خبر دار ، جواب مجھے کسی نے دھونس دی یا ہاتھ اٹھایا۔ میں بھی سب کو بتا دوں گی کہ مجھ پر کتنا ظلم ہو تا رہا ہے۔ ایک وقت کا کھانا بھی پورا نہیں دیتے تھے ، خود رقم چرا کر مجھ پر الزام لگاتے ہیں۔ میں اتنی بھی لاوارث نہیں ہوں کہ میرے بھائی مجھے دو وقت کا کھانا بھی نہ دے سکیں۔ بس یہی الفاظ ہی ان کی موت کا سبب بنے۔

کلثوم خالہ کی زبانی یہ الفاظ سن کر نصیر الدین آپے سے باہر ہو گئے اور بیوی کو بے تحاشہ مارنے لگے کہ ایک تو میری عمر بھر کی کمائی چرا کر بھائی کو دے دی اوپر سے زبان چلاتی ہے۔ بجائے خالہ کلثوم کو چھڑانے کے، خالو کے بھائی اور بھتیجے منور بھی انہیں پیٹنے لگے۔ خدا جانے کس چیز سے مارتے رہے کہ ان کے جگر اور گردے پر شدید چوٹ آ گئی اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ جب ان کے لاغر بدن سے روح پرواز کر گئی، تو گھر ، تو گھبرائے کہ یہ کیا ہو گیا؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو اپنا جرم چھپانے کے لئے ، انہوں نے خالہ کے جسد خاکی کو کنویں میں پھینک دیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ کسی نے ان کو یہ کام کرتے نہیں دیکھا، لیکن خدا کی کرنی کہ لاش لے جاتے اور کنویں میں پھینکتے ہماری ممانی نے دیکھ لیا۔
 نصیر الدین خالو کے بھائی نے مسجد میں یہ اعلان کروا دیا کہ کلثوم نے خود کشی کر لی ہے، لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہو گیا کہ ان کی موت کنویں میں ڈوبنے کی وجہ سے نہیں بلکہ شدید تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اب تو نصیر الدین اور ان کے بہن بھائیوں کے ہوش اڑ گئے۔ ہم سب دعا کر رہے تھے کہ خدا کرے، یہ سب اپنے کئے کی سزا بھگتیں اور اسی طرح ظلم کا مزہ چکھیں جیسے انہوں نے ہماری خالہ پر کیا تھا۔ 
 
آخر کار پولیس نے ان سب کو گرفتار کر لیا اور رقم و سونا بھی ان سے برآمد ہو گیا، جس کی وجہ سے خالہ کا قتل ہوا تھا۔ میں تو یہی کہوں گی کہ سسرال میں اگر لڑکیوں پر ظلم ہو تو وہ ہر گز اپنے والدین یا بہن بھائیوں سے نہ چھپائیں۔ ان کو بتا ئیں بلکہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں، ورنہ یہ نہ ہو کہ ظالم کا ظلم موت کی حد تک 
بڑھ جائے۔