منصور کو ساتھ والے گاؤں کے زمیندار کی بیٹی پسند آ گئی۔ وہ اپنے باپ کی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی۔ منصور نے والد سے کہا کہ وہ فوزیہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ باپ راضی ہو گیا۔ وہ زمیندار اشرف کے پاس گیا، جو بااخلاق شخص تھا۔ اس کی بیوی جوانی میں فوت ہو گئی تھی اور اس نے بچی کی خاطر دوسری شادی نہیں کی تھی۔ اب یہ بچی جوان ہو گئی تھی۔ اشرف زمیندار کی نورِ نظر، فوزیہ، گاؤں کی خوبصورت لڑکی تھی۔ کھلتی ہوئی رنگت، گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ، سرخ و قد۔ اس کے قہقہے گاؤں کی پگڈنڈیوں پر اس طرح بکھرے ہوئے تھے جیسے ہوا پھولوں کی خوشبو فضاؤں میں بکھیر دیتی ہے۔ اس حور شمائل میں کسی خوبی کی کمی نہ تھی۔ وہ جب ہنستی تو لگتا کہ جیسے سفید موتیوں سے بھرے سیپ کا منہ کھل گیا ہو۔ وہ اگر حور شمائل تھی تو منصور بھی حسن میں کسی سے کم نہ تھا۔ اس کے ساتھ وہ محنتی اور خوش گفتار بھی تھا۔ اس کے گھرانے کے لوگ تعظیم کیا کرتے تھے۔ منصور کا باپ علاقے میں باعزت شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ تبھی ملک رحمت، بغیر اونچ نیچ کا خیال کیے، لڑکی کے والد کے پاس سوالی بن کر چلا گیا۔ اس نے اشرف زمیندار سے بیٹے کے رشتے کی بات کی تو وہ خاموش ہو گیا۔
ملک صاحب نے خاموشی کی وجہ پوچھی، تب وہ گویا ہوا کہ میں مجبور ہوں، برادری سے مشورہ کیے بغیر آپ کو کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ مجھے وقت چاہیے تاکہ اپنے بھائیوں سے بات کر سکوں۔ زمیندار اشرف نے اپنی برادری کو بلایا۔ انہوں نے کہا کہ رحمت زمیندار لاکھ اچھا سہی، مگر ہم اپنی لڑکی کا رشتہ کیسے روایت سے ہٹ کر دے دیں؟ ہاں، اگر وہ لڑکی کے بدلے اپنی لڑکی کا رشتہ ہمیں دے تو پھر بات ہو سکتی ہے۔ بھائیوں کے مطالبے کو لے کر اشرف نے ملک رحمت سے ملاقات کی۔ کہا کہ میری برادری اس صورت میں راضی ہو سکتی ہے اگر آپ اپنی لڑکی کا رشتہ بدلے میں ہمیں دیں۔ آپ کسی لڑکے کے لئے بدلے میں رشتہ لینا چاہتے ہیں؟ ملک نے سوال کیا۔ ہمارے یہاں ایسا کوئی لڑکا تو موجود نہیں ہے اور میری ایک ہی لڑکی ہے، جس کو آپ بہو بنانا چاہتے ہیں، سو یہ شرط برادری کی اس صورت میں پوری ہو سکتی ہے کہ میں فوزیہ کو آپ کی بہو بنانا منظور کر لوں اور آپ اپنی لڑکی میرے عقد میں دے دیں۔ دوسری صورت میں ہماری طرف سے انکار سمجھیں۔
رحمت کو اشرف کی بات ناگوار گزری، تاہم وہ مصلحتاً خاموش ہو گیا کیونکہ اس کو بیٹے کی خوشی ہر حال میں مقدم تھی۔ اس نے گھر آ کر بیٹے کو لڑکی والوں کی شرط سے آگاہ کر دیا۔ منصور نے برا ماننے کی بجائے باپ سے کہا: بابا جان! آپ نے عذرا آپی کی شادی بھی تو کرنی ہے، اس کی عمر کافی ہو چکی ہے۔ اس کو زمیندار کے نکاح میں دینے میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی۔ اس طرح اگر اشرف کی اولاد بھی ہوئی تو اس کی ساری ملکیت ہمارے ہی پاس آ جائے گی۔ آپ اس معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ آپا مجھ سے دس برس بڑی ہے اور اشرف اس سے پندرہ برس ہی بڑا ہو گا، جبکہ اشرف نہ تو بدتمیز ہے اور نہ عیاش آدمی ہے۔ اس کی شرافت تو سارے گاؤں میں مسلم ہے۔ عمر کا فرق تو ہے لیکن آپ کو آپا کے لئے شرافت والا جوڑ ہی دیکھنا چاہیے۔ کچھ دن غور کرنے کے بعد ملک رحمت راضی ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ منصور صحیح کہتا ہے، کب تک بیٹی کو بٹھائے رکھوں گا جبکہ اب تو عذرا کی شادی کی عمر بھی نکلتی جا رہی ہے۔
رحمت کو اشرف کی بات ناگوار گزری، تاہم وہ مصلحتاً خاموش ہو گیا کیونکہ اس کو بیٹے کی خوشی ہر حال میں مقدم تھی۔ اس نے گھر آ کر بیٹے کو لڑکی والوں کی شرط سے آگاہ کر دیا۔ منصور نے برا ماننے کی بجائے باپ سے کہا: بابا جان! آپ نے عذرا آپی کی شادی بھی تو کرنی ہے، اس کی عمر کافی ہو چکی ہے۔ اس کو زمیندار کے نکاح میں دینے میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی۔ اس طرح اگر اشرف کی اولاد بھی ہوئی تو اس کی ساری ملکیت ہمارے ہی پاس آ جائے گی۔ آپ اس معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ آپا مجھ سے دس برس بڑی ہے اور اشرف اس سے پندرہ برس ہی بڑا ہو گا، جبکہ اشرف نہ تو بدتمیز ہے اور نہ عیاش آدمی ہے۔ اس کی شرافت تو سارے گاؤں میں مسلم ہے۔ عمر کا فرق تو ہے لیکن آپ کو آپا کے لئے شرافت والا جوڑ ہی دیکھنا چاہیے۔ کچھ دن غور کرنے کے بعد ملک رحمت راضی ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ منصور صحیح کہتا ہے، کب تک بیٹی کو بٹھائے رکھوں گا جبکہ اب تو عذرا کی شادی کی عمر بھی نکلتی جا رہی ہے۔
اس نے اشرف کو عندیہ دے دیا کہ مجھے تمہاری شرط منظور ہے۔ میں اپنی دختر کو آپ کے عقد میں دینے کے لیے تیار ہوں۔ جب اس بات کا علم عذرا کے ماموں کو ہوا، تو وہ پریشان ہو گیا کیونکہ عذرا اس کے بڑے لڑکے کی منگیتر رہ چکی تھی، مگر اس کے بیٹے نے شہر جا کر اپنی مرضی سے شادی کر لی تھی۔ وہ بہنوئی کے پاس آیا اور کہا کہ تم عذرا کی شادی کسی اور سے نہیں کر سکتے، یہ میرے لڑکے کے نام ہو چکی ہے اور اس کے نام ہی رہے گی۔ اشرف کو صاف جواب دے دو۔کیسی بات کرتے ہو قاسم! جب تمہارے لڑکے نے خود میری لڑکی کو رد کر کے کہیں اور شادی کر لی ہے، تو پھر اس کے ساتھ منگنی کا استحقاق کہاں باقی رہ جاتا ہے؟ کیا اب میں اس کی کہیں اور شادی نہیں کر سکتا؟ کیا عمر بھر اسے اپنے در پر بٹھائے رکھوں گا، اس وجہ سے کہ بچپن میں اس کی منگنی تمہارے بیٹے سے ہو گئی تھی؟ یہ تو سراسر ظلم ہے۔قاسم نے جواب دیا کہ تم جانتے ہو کہ ہمارے یہاں مرد اور جگہ شادی کر لیتے ہیں، مگر وہ اپنی منگیتر سے دستبردار پھر بھی نہیں ہوتے۔
مرد دوسری شادی کرتے ہیں اور عذرا میرے مزمل کی دوسری بیوی ہو گی۔ میں ابھی جا کر برادری کو اکٹھا کرتا ہوں، اگر انہوں نے اس بات سے اختلاف کیا تو پھر تمہارا اختیار ہے کہ جو چاہے کرو۔ ماموں کی باتیں سن کر منصور سخت پریشان ہوا، کیونکہ اس کا باپ ادھر اشرف کو ہاں کہہ آیا تھا اور ادھر ماموں نے اڑچن ڈال دی۔ اب اگر یہ لوگ عذرا کا رشتہ اشرف کو دینے سے پیچھے ہٹتے ہیں، تو لازم تھا کہ ادھر سے بھی انکار ہی سننے کو ملتا۔ تب تو منصور کی جان پر بن جاتی۔ اس نے باپ کو ایک بار پھر سمجھایا کہ بابا جان! ماموں کو من مانی کرنے دو۔ اگر وہ عذرا کو مزمل سے بیاہتے ہیں اور بیٹے کی دوسری شادی کرتے ہیں تو اس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ منگنی تو موجود ہے، ہم نے اسے بھی بیاہنا ہے۔ عذرا کی بجائے سلمی کو اشرف کے عقد میں دے دو۔ اس طرح تمہاری دونوں لڑکیاں اپنے گھر کی ہو جائیں گی اور فوزیہ کا رشتہ ہمیں مل جائے گا۔
منصور بیٹے! پہلی بات تو ٹھیک تھی اور تمہاری تجویز میرے دل کو لگی، لیکن اس بار یہ رشتہ مناسب نہیں رہے گا۔ سلمیٰ بہت چھوٹی ہے۔ اشرف اس سے تیس بتیس برس بڑا ہو گا۔ میں اپنی بیٹی پر یہ ظلم نہیں کر سکتا۔بابا جان! ہم بھی ماموں سے مخالفت مول نہیں لے سکتے۔ ایک تو ہمارے خاندان کا وہ سب سے خوشحال آدمی ہے۔ اس کا برادری پر زور چلتا ہے، اوپر سے وہ ہم سے دشمنی پال لے گا تو ہمیں بے وقعت ہونا پڑے گا۔ وہ میری شادی کبھی اشرف کی بیٹی سے نہ ہونے دے گا۔بیٹے کی منت سماجت سے رحمت کا دل پگھل گیا۔ بیٹیاں بھی اپنی ہوتی ہیں، مگر گاؤں والوں کی نظروں میں بیٹوں کی ہی حیثیت ہوتی ہے۔ لڑکیاں اپنے بھائیوں پر قربان ہونے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ یہ کوئی نئی یا انہونی بات تو نہیں تھی جو منصور کہہ رہا تھا۔
منصور بیٹے! پہلی بات تو ٹھیک تھی اور تمہاری تجویز میرے دل کو لگی، لیکن اس بار یہ رشتہ مناسب نہیں رہے گا۔ سلمیٰ بہت چھوٹی ہے۔ اشرف اس سے تیس بتیس برس بڑا ہو گا۔ میں اپنی بیٹی پر یہ ظلم نہیں کر سکتا۔بابا جان! ہم بھی ماموں سے مخالفت مول نہیں لے سکتے۔ ایک تو ہمارے خاندان کا وہ سب سے خوشحال آدمی ہے۔ اس کا برادری پر زور چلتا ہے، اوپر سے وہ ہم سے دشمنی پال لے گا تو ہمیں بے وقعت ہونا پڑے گا۔ وہ میری شادی کبھی اشرف کی بیٹی سے نہ ہونے دے گا۔بیٹے کی منت سماجت سے رحمت کا دل پگھل گیا۔ بیٹیاں بھی اپنی ہوتی ہیں، مگر گاؤں والوں کی نظروں میں بیٹوں کی ہی حیثیت ہوتی ہے۔ لڑکیاں اپنے بھائیوں پر قربان ہونے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ یہ کوئی نئی یا انہونی بات تو نہیں تھی جو منصور کہہ رہا تھا۔
کچھ کشمکش کے بعد رحمت نے سلمی کو اشرف کے عقد میں دینا قبول کر لیا کیونکہ اشرف بھی تو زمیندار تھا اور دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر نہیں لیا جا سکتا۔ سلمی، باپ اور بھائی کے اس فیصلے سے بے خبر، سارا دن کھیتوں میں بھاگتی پھرتی تھی۔ اس کے ابھی ہنسنے، کھیلنے کے دن تھے۔ ابھی تو وہ گڑیوں کے گھر بناتی اور ان کی شادیاں کرتی تھی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ بہت جلد ..اسے بھی گڑیا بنا کر اس گھر سے رخصت کر دیا جائے گا، وہ بھی ایک عمر رسیدہ شخص کی دلہن بنا کر…! ایک دن سلمیٰ کا دیور اس کے پاس آیا اور کہنے لگا:بھابھی، بھائی نے زمین تمہاری دلجوئی کی خاطر تمہارے نام کی تھی، شاید انہیں ہم پر اعتماد نہ تھا۔ اب تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ زمین واپس کر دو کیونکہ ویسے بھی ہمارا مشترکہ کھاتہ ہے۔ جب تک تم ہمیں مختار نامہ نہیں دو گی، ہم اراضی کے معاملات نہیں دیکھ سکیں گے۔
یہ زمین فی الحال تمہارے کسی کام کی نہیں ہے۔ نہ تو تم اس پر فصل اگا سکتی ہو اور نہ ہی معاملاتِ اراضی خود دیکھ سکتی ہو۔ تم کون سا خود ہل چلا سکتی ہو؟ سلمیٰ خاموش رہی۔ اس نے سوچا کہ پہلے منصور بھائی سے مشورہ کر لوں، پھر ان لوگوں کو جواب دوں۔ کچھ ہی دن بعد منصور آیا اور بہن کے پاس بیٹھ گیا۔ پہلے تو تھوڑی دیر ہمدردی کی، پھر اصل موضوع پر آ گیا۔ کہنے لگا:یہ زمین جو تمہیں ملی ہے، وہ دراصل میری بیوی کے حصے کی تھی۔ وہ بھی تو اشرف کی اولاد ہے۔ اشرف نے اس کے حصے کی زمین اسے لکھ کر دی ہی نہیں۔ اگر چچا جان نہ دیں، میں کہاں مقدمے لڑتا پھروں؟ بہتر یہی ہے کہ تم اپنے حصے میں سے آدھی زمین مجھے لکھ دو۔بھائی کی بات سن کر سلمیٰ حیران رہ گئی کہ آخر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ سب کیوں اتنے لالچی ہو گئے ہیں؟ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ زمین کسی کو نہیں دے گی بلکہ اپنا اور اپنی بیٹی کا تحفظ کرے گی۔ جب بھائی نے دیکھا کہ بہن مطالبہ نہیں مان رہی، تو وہ اس کے دیوروں کے ساتھ مل گیا۔
دوسرے دن، جب سب لوگ ہال کمرے میں بیٹھ کر یہ میٹنگ کر رہے تھے کہ سلمیٰ کی زمین کیسے واپس لی جائے، دیورانی نے ساری باتیں سن لیں۔ وہ نیک دل عورت تھی اور خوف خدا رکھتی تھی۔ اس نے سلمیٰ کو خبردار کیا:دیکھو، اگر تم نے زمین انہیں نہ دی تو یہ تمہیں مار ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تمہارا اپنا بھائی بھی ان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ انہوں نے منصوبہ بنایا ہے کہ تمہیں مار کر تمہاری لاش کو غائب کر دیں گے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ ان دیوروں سے زیادہ اس کا بھائی سفاک ثابت ہوا۔ اس نے کہا کہ سلمیٰ کو مار کر لاش ندی میں بہا دیتے ہیں اور سب کو بتا دیں گے کہ وہ کسی کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔دیور بولے کہ مارنے سے بہتر ہے کہ اس پر بد چلنی کا الزام لگا کر اسے دور دراز علاقے میں بیچ دیا جائے۔ بچی تو ہماری ہے، سائرہ کو ہم رکھ لیں گے۔ پھر سب ایک زبان ہو گئے کہ قتل میں پیچیدگیاں ہیں، ممکن ہے پولیس کو سراغ مل جائے۔دیورانی سلمیٰ سے کہنے لگی: دیکھو، تمہاری زندگی زمین سے زیادہ قیمتی ہے اور تمہاری بچی کو زمین کی نہیں، اس وقت تمہاری ضرورت ہے۔
دوسرے دن، جب سب لوگ ہال کمرے میں بیٹھ کر یہ میٹنگ کر رہے تھے کہ سلمیٰ کی زمین کیسے واپس لی جائے، دیورانی نے ساری باتیں سن لیں۔ وہ نیک دل عورت تھی اور خوف خدا رکھتی تھی۔ اس نے سلمیٰ کو خبردار کیا:دیکھو، اگر تم نے زمین انہیں نہ دی تو یہ تمہیں مار ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تمہارا اپنا بھائی بھی ان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ انہوں نے منصوبہ بنایا ہے کہ تمہیں مار کر تمہاری لاش کو غائب کر دیں گے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ ان دیوروں سے زیادہ اس کا بھائی سفاک ثابت ہوا۔ اس نے کہا کہ سلمیٰ کو مار کر لاش ندی میں بہا دیتے ہیں اور سب کو بتا دیں گے کہ وہ کسی کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔دیور بولے کہ مارنے سے بہتر ہے کہ اس پر بد چلنی کا الزام لگا کر اسے دور دراز علاقے میں بیچ دیا جائے۔ بچی تو ہماری ہے، سائرہ کو ہم رکھ لیں گے۔ پھر سب ایک زبان ہو گئے کہ قتل میں پیچیدگیاں ہیں، ممکن ہے پولیس کو سراغ مل جائے۔دیورانی سلمیٰ سے کہنے لگی: دیکھو، تمہاری زندگی زمین سے زیادہ قیمتی ہے اور تمہاری بچی کو زمین کی نہیں، اس وقت تمہاری ضرورت ہے۔
اگر یہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے تو کیا ہو گا؟یہ سن کر سلمیٰ ڈر گئی۔ دوسرے دن اس نے بھائی اور دیوروں کے نام دس دس بیگھے زمین لکھ دی جو ان کا شرعی حق تھا۔ باقی زمین کے بارے میں کہا کہ یہ میری بچی سائرہ کی ہے، وہ نابالغ ہے۔ جب وہ اٹھارہ برس کی ہو جائے گی تو اس کے نام کر دوں گی۔ یہ میرے شوہر کی امانت ہے جو اس نے میرے پاس رکھی تھی، میں کسی اور کے حوالے نہیں کروں گی۔ انہی دنوں یامین بیرون ملک سے گاؤں لوٹ آیا۔ جب اسے سلمیٰ کے بیوہ ہونے کا پتہ چلا تو تعزیت کے لیے اس کے پاس گیا۔ سلمیٰ نے اسے ساری صورتحال بتائی۔ یامین، جو کافی دولت کما کر لایا تھا، نے اسے تسلی دی کہ حوصلہ رکھو، میں جلد کسی وکیل سے مشورہ کرتا ہوں، دیکھتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں۔ابھی سلمیٰ اس واقعے کو بھولنے کی کوشش ہی کر رہی تھی کہ اس کا جیٹھ بھی آ گیا۔
اس نے کہا کہ جب تم نے ان تینوں کو زمین لکھ دی ہے تو باقی زمین مجھے ملنی چاہئے کیونکہ میں بڑا بھائی ہوں۔ میں ہی تمہارا اور تمہاری بیٹی کا سرپرست ہوں۔ تم عورت ہو، تم کیا کرو گی؟ میری بیوی وفات پا چکی ہے، تم مجھ سے نکاح کر لو تاکہ میں تمہیں اور تمہاری بیٹی کو تحفظ دے سکوں۔جیٹھ کی بات سن کر سلمیٰ صدمے میں آ گئی۔ وہ نہ زمین دینا چاہتی تھی اور نہ نکاح کرنا چاہتی تھی۔یامین آیا تو سلمیٰ نے اسے ساری بات بتائی۔ وہ کہنے لگا کہ نکاح کرنا ہے تو مجھ سے کر لو۔ جیٹھ تو تمہارے مرحوم شوہر سے بھی بڑا ہے اور تمہاری عمر ابھی صرف تیس بتیس سال ہے۔ میں تمہارا ہم عمر ہوں۔ یہ بوڑھا تمہیں کیا تحفظ دے گا؟سلمیٰ کو بھی سہارا چاہئے تھا، اس نے کہا: ٹھیک ہے، میں راضی ہوں۔یامین نے کہا: پھر میں نکاح کا بندوبست کرتا ہوں، لیکن میرے سسرال والے ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ یہ نکاح پہلے خفیہ ہوگا، بعد میں میں معاملات سنبھال لوں گا۔
خالہ کے بیٹے کی شادی تھی، سلمیٰ شادی میں شرکت کے لیے میکے گئی۔ اس نے اپنی ماں کو ساری بات بتائی اور اس کے ساتھ دینے کی درخواست کی۔ ماں راضی ہو گئی اور اس نے یامین کے والد، یعنی اپنے بھائی کو بھی راضی کر لیا۔ اس طرح سلمیٰ کا نکاح یامین سے ماں اور ماموں کی موجودگی میں خاموشی سے کروا دیا گیا۔بہت رازداری کے باوجود گاؤں میں یہ خبر کسی طرح نکل گئی کہ سلمیٰ کا نکاح یامین سے ہو چکا ہے۔ یہ خبر جب جیٹھ اور دیوروں تک پہنچی تو وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ انہوں نے سلمیٰ کے والد کو بلایا اور کہا کہ تمہاری بیٹی نے نکاح کر لیا ہے اور یہ ہماری بے عزتی ہے۔ اب تمہیں سائرہ اور اس کی زمین ہمارے حوالے کرنا ہو گی کیونکہ وہ اب ہماری بھابھی نہیں رہی اور اس گھر میں قدم بھی نہیں رکھ سکتی۔
حیرت تو یہ تھی کہ اس مخالفت میں خود منصور پیش پیش تھا، جس کی خوشی پوری کرنے کے لیے باپ نے بیٹی کو قربان کیا تھا۔ وہ اب پچھتا رہا تھا کہ سلمیٰ کی زندگی برباد کی اور اب یہ لوگ اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ اس نے سلمیٰ کو سمجھایا کہ تم زمین واپس دے کر زندگی بچا لو، ورنہ وہ تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔ سلمیٰ نے کہا کہ میں نہ تو بیٹی ان کو دوں گی اور نہ زمین۔ یہ میری بیٹی کی ہے، اسی کو دوں گی۔ جو میرا حصہ تھا، اس سے بھی زیادہ انہیں واپس کر چکی ہوں۔ اب اگر وہ جان لینا چاہتے ہیں تو لے لیں۔ باپ، بیٹی کی ضد دیکھ کر لوٹ گیا۔ کہا کہ پھر میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑتا ہوں۔ اگر تمہاری طرف داری کی تو وہ اپنی بیٹی لے جائیں گے اور منصور کا گھر اُجڑ جائے گا۔
حیرت تو یہ تھی کہ اس مخالفت میں خود منصور پیش پیش تھا، جس کی خوشی پوری کرنے کے لیے باپ نے بیٹی کو قربان کیا تھا۔ وہ اب پچھتا رہا تھا کہ سلمیٰ کی زندگی برباد کی اور اب یہ لوگ اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ اس نے سلمیٰ کو سمجھایا کہ تم زمین واپس دے کر زندگی بچا لو، ورنہ وہ تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔ سلمیٰ نے کہا کہ میں نہ تو بیٹی ان کو دوں گی اور نہ زمین۔ یہ میری بیٹی کی ہے، اسی کو دوں گی۔ جو میرا حصہ تھا، اس سے بھی زیادہ انہیں واپس کر چکی ہوں۔ اب اگر وہ جان لینا چاہتے ہیں تو لے لیں۔ باپ، بیٹی کی ضد دیکھ کر لوٹ گیا۔ کہا کہ پھر میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑتا ہوں۔ اگر تمہاری طرف داری کی تو وہ اپنی بیٹی لے جائیں گے اور منصور کا گھر اُجڑ جائے گا۔
میں پوتے پوتیوں کو ماں سے جدائی کا دُکھ نہیں دے سکتا۔ایک رات سلمیٰ کو دیورانی نے جگایا اور کہا کہ اب تو یہاں کس لیے رو رہی ہے؟ بچی میرے سپرد کر اور اس گھر سے چلی جا۔ وہ آج رات تیرے قتل کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔ بچی تو یوں بھی تیرے بن رہ جائے گی۔ وعدہ کرتی ہوں کہ ماں بن کر اس کی دیکھ بھال کروں گی۔ اس نے سلمیٰ کو کھیتوں میں چھپانے کا انتظام کر دیا۔ سردی میں رات بھر زندگی بچانے کے لیے وہ کھیتوں میں چھپی رہی۔ دور سے آتی کتوں کی خوفناک آوازیں اور خوف بھرا اندھیرا تھا، اور وہ دیورانی کے ڈرانے پر زندگی بچانے کو سردی میں ٹھٹھر رہی تھی کہ اس سے کچھ فاصلے پر آتی قدموں کی چاپ سنی۔ لگتا تھا موت بھوکے گدھ کی طرح دبے قدموں اس کو کھوجتی پھر رہی ہے۔ یہ موت کی آہٹ نہیں تھی، بلکہ اس کے بھائی اور دیور تھے، جو اسے کھیتوں میں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ رات دو، ڈھائی بجے تک یہ لوگ اسے ڈھونڈتے رہے۔
جب تھک گئے تو گھر جا کر سو گئے۔ تب صبح طلوع ہونے سے قریب، اس کی دیورانی نے اپنے پرانے بوڑھے ملازم چراغ دین کو بھیج کر اسے اس جگہ سے نکالا، جہاں وہ چھپائی گئی تھی۔ انہوں نے اسے شہر لا کر دارالامان میں چھوڑ دیا۔ سائرہ، دیورانی کے پاس تھی، تبھی سلمیٰ کو بیٹی کی طرف سے اطمینان تھا کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ جب وہ گھر سے غائب ہوئی تو منصور نے یامین پر پرچہ کٹوا دیا کہ وہ اس کی بہن کو لے کر غائب ہو گیا ہے۔ مگر اس کے دیوروں نے کھوج نکال لیا کہ سلمیٰ دارالامان میں ہے۔ وہ وہاں اس سے ملنے پہنچ گئے مگر سلمیٰ نے ملنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے عملے کو کچھ دے دلا کر سلمیٰ سے ملاقات کی اور ایک بار پھر پیشکش کی کہ وہ اگر جیٹھ سے شادی کر لے تو اسے پھر سے عزت دیں گے اور زمین بھی واپس نہ لیں گے۔ سلمیٰ نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کو بتایا کہ وہ اب یامین کی منکوحہ ہے، لہٰذا جیٹھ سے شادی نہیں کر سکتی۔ البتہ زمین حکومت کی تحویل میں دے سکتی ہے تاکہ جب اس کی بیٹی بالغ ہو جائے تو اس کی وراثت اسے مل جائے۔
اب تو دیوروں کا غصہ دیدنی تھا۔ بہرحال سر توڑ کوشش کے باوجود ان کا بس نہیں چلا کہ وہ سلمیٰ کو دارالامان سے لے آتے۔ کیس عدالت تک پہنچ گیا۔ عدالت نے سلمیٰ کے بیانات سننے کے بعد اس کے حق میں فیصلہ دیا اور اسے یامین کے ساتھ جانے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق مل گیا۔ عدالت نے اسے اس کے شوہر یامین کے حوالے کر دیا اور بچی کو بھی اس کی تحویل میں دینے کا حکم صادر کر دیا، کیونکہ وہ ابھی ماں کے ساتھ رہ سکتی تھی۔ سلمیٰ اور یامین، بچی کے ہمراہ کسی دور کے شہر جا بسے تاکہ ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائیں، جو ان کی جان لینے کے درپے تھے، اور وقت گزرنے سے ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔
سات برس گزر گئے۔ یامین کے ساتھ سلمیٰ اپنی خوشی سے زندگی جی رہی تھی۔ ایک روز اسے اپنے والد کی وفات کی خبر ملی تو وہ نہ رہ سکی اور باپ کے جنازے کے وقت وہاں یامین کے ہمراہ چلی گئی۔ اس کا خیال تھا کہ اب تو اس کے دیوروں نے اس بات کو بھلا کر ناراضی ختم کر دی ہوگی۔ باپ کے گھر میں ایک منصور ہی اس کا مخالف رہ گیا تھا۔ وہ تو سگا بھائی تھا، بھلا اس سے اسے جان کا کیا خطرہ تھا؟ موت کے گھر میں سبھی رونے پیٹنے میں لگے تھے۔جنازہ دفنا کر مرد گھروں کو لوٹ آئے۔ رات کو ماں نے بیٹی کو کہا کہ سلمیٰ اب اس وقت تمہارا دوسرے گاؤں جانا درست نہیں۔ بہتر ہے کہ یامین سے کہو کہ یہیں سو جائے۔ تم لوگ صبح چلے جانا۔ یامین نے سلمیٰ سے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں۔ یہ پرانی دشمنی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تمہارے دیوروں اور بھائی کے دل میں غصہ آگ کی مانند ابھی تک وقت کی راکھ میں سلگ رہا ہے۔ ہمارا اسی وقت نکل جانا ٹھیک ہے۔سلمیٰ ماں کے اصرار پر مجبور تھی۔ اس نے کہا کہ صبح سورج نکلنے سے پہلے نکل چلیں گے۔ تم اپنے چچا کے گھر سو جاؤ اور جب جانا ہو مجھے لینے آ جانا۔
سات برس گزر گئے۔ یامین کے ساتھ سلمیٰ اپنی خوشی سے زندگی جی رہی تھی۔ ایک روز اسے اپنے والد کی وفات کی خبر ملی تو وہ نہ رہ سکی اور باپ کے جنازے کے وقت وہاں یامین کے ہمراہ چلی گئی۔ اس کا خیال تھا کہ اب تو اس کے دیوروں نے اس بات کو بھلا کر ناراضی ختم کر دی ہوگی۔ باپ کے گھر میں ایک منصور ہی اس کا مخالف رہ گیا تھا۔ وہ تو سگا بھائی تھا، بھلا اس سے اسے جان کا کیا خطرہ تھا؟ موت کے گھر میں سبھی رونے پیٹنے میں لگے تھے۔جنازہ دفنا کر مرد گھروں کو لوٹ آئے۔ رات کو ماں نے بیٹی کو کہا کہ سلمیٰ اب اس وقت تمہارا دوسرے گاؤں جانا درست نہیں۔ بہتر ہے کہ یامین سے کہو کہ یہیں سو جائے۔ تم لوگ صبح چلے جانا۔ یامین نے سلمیٰ سے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں۔ یہ پرانی دشمنی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تمہارے دیوروں اور بھائی کے دل میں غصہ آگ کی مانند ابھی تک وقت کی راکھ میں سلگ رہا ہے۔ ہمارا اسی وقت نکل جانا ٹھیک ہے۔سلمیٰ ماں کے اصرار پر مجبور تھی۔ اس نے کہا کہ صبح سورج نکلنے سے پہلے نکل چلیں گے۔ تم اپنے چچا کے گھر سو جاؤ اور جب جانا ہو مجھے لینے آ جانا۔
صبح کاذب کے وقت یامین اپنے رشتے دار کے گھر سے آ گیا اور سلمیٰ کو چلنے کو کہا۔ وہ آنکھیں ملتی اس کی موٹر بائیک پر بیٹھ گئی۔ منہ تک نہ دھویا۔ ابھی وہ آدھے راستے میں تھے کہ تعاقب میں آنے والے دشمن نے آ لیا اور فائرنگ کی بوچھاڑ کر کے دونوں کو چھلنی کر دیا۔ یہ قاتل سلمیٰ کے دیور نہ تھے، بلکہ اس کا اپنا سگا بھائی منصور تھا، جس کی خاطر وہ بڑے زمیندار سے بیاہی گئی اور اس کی زندگی برباد ہوئی۔ سچ ہے کہ زمین اور زر کے پیارے نہیں ہوتے اور اس کے لالچ میں تو بھائی بھی اکثر بہنوں کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ بہنوں کی جان کے محافظ بھائی نے ان کی جان لے ہی لی۔ اشرف کے بھائیوں نے جب اپنی بہن فوزیہ کو وراثت کی زمین میں سے حصہ نہ دیا تو منصور نے اس کا بدلہ اپنی بہن کی جان لے کر لیا۔ خود اس کی ماں نے تھانے میں گواہی دی کہ سلمیٰ اور یامین کے گھر سے نکلنے کے بعد اس کا بیٹا منصور بندوق لے کر ان کے پیچھے گیا۔ میں نے بہت روکا مگر وہ نہیں رکا۔ کہا کہ آج تو میں سلمیٰ کو اس کی ہٹ دھرمی کا مزہ چکھا کر رہوں گا۔
منصور گرفتار ہو گیا۔ اس نے اقرار کر لیا کہ زمین واپس نہ کرنے پر اس کے دل میں بہن کے لیے غصہ تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا، اس نے یامین سے اپنی مرضی سے شادی کر کے اس غصے کو اور بڑھا دیا۔ تبھی سے وہ موقع کی تلاش میں تھا۔ باپ کی وفات والے دن اسے موقع مل گیا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ آج اپنے اندر کے انتقام کو ٹھنڈا کر کے دم لے گا۔ منصور کو عمر قید ہو گئی، مگر سلمیٰ اور یامین تو جان سے گئے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے