اسکا نام عمرو بن عبدود تھا۔ یہ اگرچہ نوے برس کا خرانٹ بُڈھا تھا۔ مگر ایک ہزار سواروں کے برابر بہادر مانا جاتا تھا اور کٹر مشرک تھا۔ جنگ بدر میں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا۔ اور اس نے یہ قسم کھا رکھی تھی
کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا اور جی بھر کے کھانا نہیں کھاؤنگا۔ جنگ خندق میں یہ آگے بڑھا اور چلا چلا کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا تین مرتبہ اس نے کہا کے کون ہے جو میرے مُقابلے کو آتا ہے؟ تینوں مرتبہ شیر خدا حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اُٹھ کر جواب دیا کہ میں۔ میرے آباؤ أجداد و آل اولاد محّمد ھِشام و ایمان مسکانِ فاطمہ سے کروڑہا کروڑ گنا زیادہ پیارے نبی کریم خاتم النبیین سید المرسلین رحمت اللعالمین جناب رسالت مآب سرور کائنات فخر موجودات شاہ لولاک حضرت مُحمّد مُصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم نے آپ علی کرم اللہ تعالٰی علیہ وجہہ الکریم کو روکنا چاہا۔ اور فرمایا کہ اے علی یہ عُمرو بن عبدود ہے شیرِ خُدا حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے عرض کیا کہ جی ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ عُمرو بن عبدود ہے۔
لیکن میں اس سے لڑوں گا۔ یہ سن کر تاجدارِ نبوت حضرت مُحمّد مُصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی خاص تلوار ذوالفقار اپنے دستِ مبارک سے حیدرٍ کرار حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کے مقدس ہاتھ میں تم ابھی بہت ہی کم عمر ہو میں تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتا۔ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ لیکن میں تمہارا خون بہانا بےحد پسند کرتا ہوں۔
چنانچہ میرے پیارو! عبدود خون کھولا دینے والے یہ گرم گرم جملے سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیا۔ شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ پیدل تھے اور یہ سوار تھا۔ اس پر جو غیرت سوار ہوئی تو گھوڑے سے اُتر پڑا اور اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے۔ اور ننگی تلوار لے کر آگے بڑھا اور حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ پر تلوار کا بھرپور وار کیا۔ شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تلوار کے اس وار کو اپنی ڈھال پر روکا۔
یہ وار اتنا سخت تھا کہ تلوار ڈھال اور عمامہ کو کاٹتی ہوئی پیشانی پر لگی۔ گو بہت گہرا زخم نہیں لگا مگر پھر بھی زندگی بھر یہ طغریٰ آپ کی پیشانی پر یادگار بن کر رہ گیا۔ شیرِ خدا حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے تڑپ کر للکارا کہ اے عُمرو سنبھل جا اب میری باری ہے۔ یہ کہہ کر میرے اسد ﷲ الغالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے ذوالفقار کا ایسا نپا تلا ہاتھ اور اتنا زبردست وار مارا کہ تلوار دشمن کے شانے کو کاٹتی ہوئی کمر سے پار ہو گئی۔
حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے معجزات
مگر اسے احساس تک نہ ہوا کہ یہ ہوا کیا ہے۔ اور بولا اور کوشش کرو۔ میرے پیارو! یہ کہتے ہوئے وہ تھوڑا
پیچھے ہوا تو دو ٹوٹے ہوا اور تلملا کر زمین پر گرا۔ اور دم زدن میں مر کر فی النار ہو گیا۔ اور میدان کار زار زبان حال سے پکار اٹھا کہ
شاہِ مرداں شیرِ یزداں قوتِ پروردگار
ضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا اور منہ پھیر کر چل دیئے۔ حضرت عُمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ۔ اے علی! (کرم اللہ وجہہ) آپ نے عُمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں اتار لی۔ سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی زرہ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اے عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ذوالفقار کی مار سے وہ اس طرح بےقرار ہو کر زمین پر گرا کہ اس کی شرمگاہ کھل گئی اس لئے حیاء کی وجہ سے میں نے منہ پھیر لیا۔
0 تبصرے