ایک عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سوال کرنے کے لیے حاضر ہوئی، وہاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا موجود تھی۔
اس نے سوال کرنے سے پہلے کہا کہ
ان اللہ لایستحیی من الحق۔ “اللہ تعالی حق بات سے نہیں شرماتا"
پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ!
عورت اگر خواب میں وہ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے اور اپنے جسم پر وہ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو وہ کیا کرے ؟
یہ سن کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
اے ام سلیم تم نے عورتوں کو رسوا کردیا ،تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔
مطلب یہ کہ ایسا سوال کرنا تو بڑے عیب کی بات ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا :بلکہ تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔
اے ام سلیم جب عورت اس طرح دیکھے تو اس کو غسل کرنا چاہئے۔
جی ہاں! پوچھنا عیب کی بات نہیں بلکہ نہ پوچھنا اور جہالت کی زندگی گذارنا عیب کی بات ہے۔
جانتے ہیں وہ خاتون کون تھی جس نے بغیر کسی جھجھک کے یہ سوال پوچھا تھا؟
وہ ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا۔
جنکے قدموں کی آہٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں سنی تھی، جو شجاعت وبہادری کی ایسی پیکر تھیں کہ غازیوں کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگوں میں شرکت کرتیں تھیں۔
جو ایثار وقربانی کا ایسا نمونہ تھیں کہ چراغ گل کرکے مہمان رسول کی ضیافت کرتی ہیں اور گھر بھر بھوکے سو جاتی ہیں ۔
جن کی زندگی میں تربیت اولاد کا سبق ہے، ایمان وعقیدے پر جماؤ کا درس ہے، شوہر کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم ہے، اور قضا وقدر پر اعتماد کا پیغام ہے۔
آئیے ہم ان کی پاکیزہ زندگی کی ایک جھلک آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں:
ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر اسلام قبول کرلیا تھا۔ مدینہ کی رہنے والی تھیں، شوہر مالک بن نضر تھا جو کاروبار کے لیے باہر گیا تھا ۔
شوہر آیا تو ام سلیم نے اسے اپنے اسلام کے بارے میں بتایا اور اسلام کی دعوت بھی دی۔
اس نے کہا کہ تم بددین ہو گئی ہو، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: میں بد دین نہیں ہوئی بلکہ حق کی پہچان حاصل کی ہوں۔
اس نے قبول اسلام سے صاف انکار کردیا اور سختی سے پیش آنے لگا، ایک دن گھر میں داخل ہوا تو دیکھتا ہے کہ ام سلیم اپنے بیٹے انس رضی اللہ عنہ کو کلمہ شہادت کی تلقین کر رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر مالک نے کہا: تم میرے بیٹے کو بھی خراب کرنا چاہتی ہو۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو خراب نہیں بلکہ اچھا بنا رہی ہوں، میرا بیٹا بھی حق پر جما رہے گا۔
(الطبقات الكبرى 8/425)
یہ ہے دین کی عظمت کا احساس، چاہے کچھ ہوجائے، ازدواجی رشتہ ٹوٹ جائے وہ گوارا ہے لیکن دین کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے یہ گوارا نہیں۔ بہرکیف جب مالک بن نضر کا ام سلیم رضی اللہ عنہا پر کوئی بس نہ چل سکا تو وہ گھر سے نکل کر ملک شام کی طرف رخت سفر باندھا، ابھی راستے میں تھا کہ کسی دشمن نے اسے قتل کردیا۔
(الاستيعاب 1 / 630)
ادھر ام سلیم رضی اللہ عنہا اسلام پر جمی ہوئی ہیں۔ اپنے بچے کی صحیح تربیت کر رہی ہیں کیونکہ ماں کی گود بچے کے لیے پہلا مدرسہ ہوتا ہے، بچپن کی تربیت کا اثر ہمیشہ رہتا ہے، ماں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچے کو دین سکھائے اور بچپن سے ہی اسکے ذہن ودماغ میں اسلامی شعور بٹھانے کی کوشش کرے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لآئے تو سب نے دین کے لیے آپ کی خدمت میں کچھ نہ کچھ پیش کیا، اس آئیڈیل خاتون نے سوچا کہ میں کیا کرسکتی ہوں اپنے دین کے لیے؟
بالآخر اپنے بیٹے انس رضی اللہ عنہ کو آپ کی خدمت میں لے گئیں اور کہا کہ میرا بیٹا انس آج سے آپ کا خادم ہے، اس طرح انہوں نے آپ کی خدمت کے لیے انس کو وقف کردیا تاکہ انہیں نیک صحبت ملے، آپ کے اخلاق حمیدہ کا اس میں عکس آئے، اور آپ کے ارشادات و فرمودات کو ازبر کرسکے۔
چنانچہ انس رضی اللہ عنہ خود کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی، اس پیچ آپ نے کبھی نہیں کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور ایسا کیوں نہ کیا۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا ابھی بیوگی کے دنوں سے گذر رہی تھیں، مدینہ کے ایک متمول آدمی ابوطلحہ جنہوں نے اب تک اسلام قبول نہیں کیا تھا، ایک دن ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں شادی کا پیغام دیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بڑی ہوشیاری سے ابوطلحہ کو جواب دیا: ابوطلحہ! آپ جیسے آدمی کو رد نہیں کیا جا سکتا، لیکن بات یہ ہے کہ آپ کافر ہیں اور میں مسلمان ہوں، اس لیے میں آپ سے شادی نہیں کرسکتی۔ ابوطلحہ نے کہا: میں تجھے مہر بھی دوں گا۔ پوچھا: کیا دیں گے؟۔ ابوطلحہ نے کہا: سونے بھی دوں گا اور چاندی بھی دوں گا۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے سونے کی تمنا ہے اور نہ چاندی کی خواہش ہے۔ ہاں اگر آپ نے اسلام قبول کرلیا تو یہی میرا مہر ہوگا۔ اس کے علاوہ مجھے کچھ مطلوب نہیں۔
مطلب یہ کہ انکار شادی کرنے سے نہیں ہے، بلکہ انکار اس بات سے ہے کہ آپ مسلمان نہیں ہیں! اگر آپ اسلام قبول کرلیں تو مجھے آپ سے شادی کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
آج ہماری لڑکیاں غیرمسلموں کے ساتھ بھاگ کر شادیاں رچا لیتی ہیں ۔۔
آخرکیوں ؟ دین پر صحیح تربیت نہ ہونے اور اسلام کی عظمت کو نہ جاننے کی وجہ سے۔
لیکن اس نیک دل خاتون کو دیکھیے جو ایک کافر سے شادی کرنے سے انکار ہی نہیں کرتی بلکہ باضابطہ ابو طلحہ کو سمجھاتی ہے کہ
ابوطلحہ آپ اسی بت کی عبادت کرتے ہیں جسے فلاں قبیلے کا حبشی غلام بناتا ہے، اس میں آگ لگا دی جائے تو جل کر خاکستر ہوجائے، اس میں کوئی نفع اور نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں پھر بھی آپ اسکی پوجا کرتے ہیں۔
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچا اور غور کیا۔ بالآخر ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیے اور اسلام قبول کرلیا، اس طرح ام سلیم رضی اللہ عنہا سے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی شادی ہوگئی۔ یہ اسلام کی پہلی شادی تھی جس میں مہر اسلام قبول کرنا طے کیا گیا تھا۔
(الطبقات الكبرى 8/427)
یہاں پر سبق ہے ایسی خواتین کے لیے جن کے شوہر دین سے دور ہیں، نماز روزے کی پابندی نہیں کرتے وہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا کردار نبھائیں، اور ان کی سدھار کی ہرممکنہ کوشش کریں۔ اسی طرح ام سلیم رضی اللہ عنہا نے شادی کے لیے مال ودولت کی شرط نہیں رکھی، یہ شرط نہیں رکھی کہ ہونے والا شوہر برسرروزگار اور خوشحال ہو بلکہ صرف یہ شرط رکھی کہ دیندار بن جائے اور یہی معیار ہر لڑکی کا ہونا چاہیے۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ پرسکون ازدواجی زندگی گذار رہی تھیں، چند مہینوں کے بعد امید کی کلیاں کھلیں اور ان کے گھر میں ایک لڑکے کی ولادت ہوئی جس کا نام انہوں نے ابوعمیر رکھا تھا ۔
بسا اوقات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر جاتے تو ابوعمیر سے دل لگی بھی کرتے تھے۔ اتفاق سے وہ بیمار ہوگئے۔ ماں باپ نے دیکھ ریکھ میں کوئی کمی نہ کی، لیکن بیماری بڑھتی گئی۔
ادھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا معمول بن گیا تھا کہ فجر کی نماز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کرتے اور زوال سے پہلے آتے تو کھانا کھاتے، قیلولہ کرتے پھر ظہر کی نماز کے بعد جاتے تھے تو آپ کے پاس سے عشاء کے بعد ہی لوٹتے تھے۔
ایک دن جبکہ ابوطلحہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ابوعمیر کی طبیعت بیحد خراب ہوئی یہاں تک کہ جان بر نہ ہوسکے اور ان کی وفات ہوگئی۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے گھر کے سارے افراد کو رونے دھونے سے منع کردیا، اور پڑوس میں سب سے کہہ دیا کہ دیکھو! کوئی ابوطلحہ کو بچے کی موت کی خبر نہ دے، میں خود انہیں بتاؤں گی۔
ادھر بچے کو ڈھانک کر گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا، پھر انہوں نے ابو طلحہ کے لیے کھانا تیار کیا، رات میں ابوطلحہ کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر آئے تھے۔
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے گھر میں داخل ہوتے ہی بچے کا حال دریافت کیا تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: هو أسكن ما كان “وہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے”۔
شوہر نے سمجھا کہ بچہ شاید ٹھیک ہوگیا اور سو رہا ہے۔ حالانکہ ام سلیم نے توریہ استعمال کیا تھا، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے سب کو کھانا پیش کیا، جب کھانا کھا چکے تو لوگ نکل گیے۔ ادھر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کپڑے بدلا، بناؤ سنگھار کیا، خوشبو لگائی اور شوہر کے پاس آئیں، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو خوشبو محسوس ہوئی تو جسمانی تعلق قائم کرلیا۔
ذرا غور کریں! ام سلیم رضی اللہ عنہا ایک عورت ہے، جس کے پاس وہی دل تھا جو آج کی عورت کے پاس ہوتا ہے، جس میں بچے کی محبت ہوتی ہے، اور بچہ اللہ کو پیارا ہوچکا ہے، لیکن اللہ کے فیصلے پر ایسا پختہ یقین ہے کہ صبر کی چٹان بنی ہوئی ہیں ۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ جب رات کا ایک حصہ گذر جاتا ہے اور ابوطلحہ پرسکون ہوجاتے ہیں تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے موت کی خبر دینے کے لیے نہایت سنہرا اسلوب اختیار کیا،
کہا کہ دیکھیے نا آج عجیب ماجرا ہوا، فلاں آدمی نے فلاں آدمی کا سامان مستعار لیا تھا، آج سامان والے آئے اپنا سامان مانگنے کے لیے تو انہوں نے دینے سے انکار کردیا۔
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں انہیں انکار کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے۔ یہ دراصل ام سلیم رضی اللہ عنہا کی تمہید تھی،
اب ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: تو پھر آپ کا بچہ بھی آپ کے پاس اللہ کی امانت تھا، آج اس نے اپنی امانت واپس کرلی ہے۔ چلیے اور بچے کی تجہیز وتکفین کا انتطام کیجیے۔
یہ سننا تھا کہ غصہ ہوگیے کہا کہ تم نے معاملے کو راز میں رکھا یہاں تک کہ جسمانی تعلق قائم کرلیا اور جنابت کی حالت ہوگئی تو اب بتا رہی ہے۔
بہرکیف انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا اور پہنچے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، آپ کے پیچھے نماز فجر ادا کی اور آپ کو سارا قصہ سنایا تو آپ نے فرمایا: بارك الله لكما في ليلتكما۔ اللہ تعالی تمہاری اس رات میں برکت عطا فرمائے۔
چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنہا حمل سے ہوگئیں اور جب بچے کی ولادت ہوئی تو سب سے پہلے اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، چنانچہ آپ نے اسک ی تحنیک کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
(البخاري :5153 ، ومسلم 2144)
یہاں پر ام سلیم رضی اللہ عنہا کی حکمت عملی اور دانائی پہ غور کیجیے کہ شوہر کے حق کا کیسا پاس ولحاظ رکھ رہی ہیں، اور پھر موت کی اطلاع دینے کے لیے کیسا سنہرا طرزعمل اختیار کررہی ہیں ۔
آج کی عورت ہوتی تو شوہر کے گھر میں داخل ہوتے ہی چیخنے چلانے لگتیں، لعنت ملامت کرتیں کہ ایسے غائب ہوجاتے ہو کہ گھر کے لوگ مر بھی جائیں تو تمہیں کوئی پرواہ نہیں،
لیکن ام سلیم رضی اللہ عنہا نے مردہ گھر میں ہونے کے باوجود بھی شوہر کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور موت کی خبر دینے کے لیے نہایت عمدہ تمہید باندھی ۔۔۔
0 تبصرے