Urdu Novels PDF - Urdu Novels Online
| قسط وار کہانیاں |
للکار - قسط نمبر1
رائیٹر : طاہر جاوید مغل
ثروت
مجھ سے بات کرتے کرتے ایک دم خاموش ہو گئی۔ اس کے خوبصورت چہرے پر سایہ سا
لہرا گیا تھا۔ میں نے اپنا رخ پھیر کر اس کی نظروں کا تعاقب کیا اور چونک
کر رہ گیا۔ وہ چارلڑ کے اسنیک بار میں داخل ہو رہے تھے ۔ لڑکوں میں ان کا
سرغنہ واجد عرف واجی بھی شامل تھا۔ وہی کم ظرف امیر زادوں والا حلیہ، لمبے
چمکیلے بال، گلے میں سونے کا لاکٹ اور کھلے گریبان والی امپورٹڈ شرٹ ۔ وہ
بڑی مستی سے چلتا ہوا ہمارے پاس سے گزرا۔ اس کے ساتھیوں میں سے ایک دراز قد
لڑ کا لوفر سے انڈین گانے کی دھن پر سیٹی بجا رہا تھا۔
اس کا حلیہ بھی واجی سے ملتا جلتا تھا۔ وہ چاروں ہم سے کچھ فاصلے پر ایک میز کے گرد بیٹھ گئے ۔ ثروت نے خشک ہونٹوں پر
زبان پھیر کر کہا ۔ چلو آؤ تابش! چلتے ہیں ۔“ میں نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا۔ نہیں ۔ اس طرح اُٹھنا ٹھیک نہیں ۔ بس یہ جو دو گھونٹ چائے رہ گئی ہے، پی لو۔ پھر اُٹھتے ہیں ۔“
ثروت کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اب اسے چائے میں کوئی دلچسپی رہی ہے اور نہ مجھ سے باتیں کرنے میں ۔ اب یہاں جو بھی وقت گزرے گا ، وہ سخت تکلیف ، میں رہے گی ۔ میں نے کپ اُٹھا کر چائے کی چسکی لی تو مجھے لگا کہ ہاتھ کانپ رہا ہے۔ اس لرزش کو ثروت کی
نگاہ سے چھپانے کے لیے میں نے کپ پھر نیچے رکھ دیا۔
ثروت میری منگیتر تھی ۔ وہ بی ایس سی کر رہی تھی۔ میں ایم ایس سی کے آخری سال میں تھا۔ ہم دونوں لاہور میں رہتے تھے اور رشتے دار بھی تھے ۔ واجد نامی یہ لڑکا جو ابھی اپنی ۔
ٹولی کے ساتھ اسنیک بار میں داخل ہوا، پچھلے کئی ماہ سے ثروت کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ وہ اس
بس اسٹاپ کے گرد چکراتا رہتا جہاں سے ثروت کالج جانے کے لیے سوار ہوتی تھی۔ وہ ثروت کا محلے دار بھی تھا۔ شروع میں تو وہ اخلاق کے دائرے کے اندر ہی رہا، بس ایک دو بار اس نے ثروت کو اپنی ڈبل سائلنسر ہنڈا موٹر سائیکل پر لفٹ دینے کی کوشش کی مگر جب ایک روز اس نے مجھے اور ثروت کو مال روڈ کے شیزان ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا تو وہ کچھ جارحانہ موڈ میں آگیا۔ وہ اب ثروت کے کالج کے متواتر چکر بھی لگا رہا تھا اور شیزان ریسٹورنٹ میں بھی دو بار ہمارے پیچھے آیا۔
ہم نے شیزان میں ملنا چھوڑ دیا۔ پچھلی بار ہم انار کلی کے ایک اسنیک بار میں ملے تھے۔ تب تو خیریت گزری تھی لیکن آج پھر واجد اپنی چنڈال چوکڑی کے ساتھ یہاں آدھمکا تھا۔ ہم جیسے تیسے چائے ختم کر کے اُٹھنا چاہ رہے تھے۔ میں نے بیرے کو بل لانے کا اشارہ کر دیا تھا لیکن وہ ابھی کاؤنٹر پر مصروف تھا۔ واجد نے ہمیں سنانے والے انداز میں زور سے
کہا۔ "یار شکیل ! چائے پینے کے لیے تو یہ کافی سستی جگہ ہے ۔“ شکیل بولا ۔ بھئی جیب میں جتنے پیسے ہوں، ویسی ہی جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے ۔
واجد نے کہا ۔ اتنا سوہنا مکھڑا ایسی جگہ پر ہو تو لگتا ہے کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا ہوا ہے
یا یہ کہہ لو کہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند “ دراز قد لڑکے نے لقمہ دیا۔ اس کا نام قادر تھا۔ واجد میز پر ہلکا ہلکا طبلہ بجانے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ گنگنا بھی رہا تھا ۔ دل توڑنے والے
دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں ... راہوں میں ... ثروت تیزی سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ چلو تابش !‘ اس نے شولڈر بیگ سنبھالتے ہوئے
کہا۔
میرا دل شدت سے دھڑک رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ جی چاہتا تھا کہ ان خبیثوں کے منحوس چہرے نوچ لوں ، حلیے بگاڑ دوں ان لوفروں کے لیکن۔۔۔۔۔۔
اس لیکن سے آگے کئی ایک سوالیہ نشان تھے؟ میں نے خود کو سنبھالا اور کاؤنٹر پر ہی ادائیگی کرتا ہوا بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ ثروت مجھ سے ایک قدم آگے تھی۔
ہمارے عقب میں کورس کی شکل میں آواز لگائی گئی ۔ واک آؤٹ ..... واک آؤٹ “
مجھے اندیشہ تھا کہ شاید یہ لوگ ہمارے پیچھے باہر آئیں گے اور سڑک پر بھی بد تمیزی کریں گے لیکن فوری طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہم اسنیک بار کے عقب میں واقع پارکنگ میں
پہنچے۔ میں اپنی سوزوکی کار کی طرف بڑھا تو پتا چلا کہ اس کے عقب میں دو عدد دیو ہیکل ہنڈا موٹر سائیکلیں پارک ہیں۔ ایک بار پھر رگوں میں لہو سنسنا کر رہ گیا۔ یہ واجی وغیرہ کی ہی شرارت تھی۔ ابھی ہم پارکنگ والے سے بات ہی کر رہے تھے کہ واجی اور اس کے ساتھی بھی وہاں پہنچ گئے ۔
پارک لاٹ والے لڑکے نے واجی سے کہا۔ سرجی! آپ کی موٹر سائیکل ۔ انہوں نے
اپنی گاڑی نکالنی ہے۔“ او ہو ہو ہو ۔ واجی نے چونکنے کی اداکاری کی پھر شائستگی سے بولا ۔ غلطی ہو گئی۔ میں سمجھا تھا کہ یہ کار دو تین گھنٹے یہاں رُکے گی ۔ ابھی لو جی میں ہٹا لیتا ہوں موٹر سائیکل ۔
اس نے جیبیں ٹٹولیں مگر چابی نہیں ملی ۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ وہ دراز قد قادر سے مخاطب ہو کر بولا ۔ کہاں گئی یار! چابی تیرے پاس تو نہیں ہے؟“
میرے پاس تو میری چابی ہے اور بس میرے تالے میں لگتی ہے ۔“ قادر معنی خیز لہجے میں بولا ۔
یعنی تمہارا مطلب ہے کہ کچھ چابیاں ایک سے زیادہ تالوں میں لگتی ہیں ؟“ کیوں نہیں یار! ہوتی ہیں ایسی بھی ۔ یہ چابیاں رنگ برنگے تالوں میں لگتی رہتی ہیں ۔
ان کو ہر جائی چابیاں کہتے ہیں ۔“ واجد عرف واجی نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ کیوں بھرا جی ! تمہارے پاس ہے کوئی
ایسی چابی؟“
کک کیا مطلب؟“ میں نے خود کو بمشکل سنبھالا ۔
شکیل مجھے سمجھانے والے انداز میں بولا ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی شکل وصورت سے لگتا ہے کہ آپ کے پاس رنگ برنگے تالوں میں لگنے والی چابی ہے۔“
یعنی ہر جائی چابی۔ قادر نے لقمہ دیا۔
تم تمیز سے بات کرو اور یہ موٹر سائیکل ، ہٹاؤ ۔ ثروت سٹپٹا کر بولی ۔
چابی کے بغیر کیسے پیچھے ہٹالوں میں صاحبہ ؟ شکیل نے کہا۔
میں نے بھنا کر موٹر سائیکل کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور اسے گھسیٹ کر پیچھے کرنا چاہا۔ نونو۔۔۔۔۔ ڈونٹ ٹچ ۔ واجی نے خطرناک لہجے میں کہا۔
تو پھر اسے پیچھے ہٹاؤ ۔ میری آواز غصے سے کانپ رہی تھی ۔
میں کہہ رہا ہوں ڈونٹ ٹچ اٹ ۔“ وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا اور اس کے ساتھ ہی مجھے دھکا دیا۔ میں لڑکھڑا کر دو تین قدم پیچھے گیا۔ غصے اور گھبراہٹ کی ملی جلی کیفیت نے مجھے سرتا پا ہلا دیا۔ مجھے لگا کہ میرا دل سینہ پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔ بہتر ہوا کہ اس موقعے پر ثروت میرے آگے آگئی ۔ وہ چلاتے ہوئے بولی ۔ نہیں تابش ! ہمیں ان سے جھگڑا نہیں کرنا ۔ وہ مجھے دھکیلتی ہوئی چند قدم اور پیچھے
لے گئی۔
میں سرتا پا لرز رہا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ، ایک بار تو اس خبیث واجی پر ٹوٹ پڑوں ۔ دوسری طرف واجی بپھرا ہوا شیر نظر آ رہا تھا۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ میری کوئی پیش چلنے دے گا۔ بہتر ہوا کہ شکیل اور قادر نے اس کا راستہ روک لیا۔ شکیل ، واجی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بولا ۔ چھوڑو یار سنگل پسلی بندہ ہے۔ ضائع شائع نہ ہو جائے ۔“
پتا نہیں میرے منہ میں کیا آیا اور میں نے کیا کہا۔ بہر طور یہ کوئی متاثر کن الفاظ نہیں تھے۔ میں اپنے چکراتے ہوئے ذہن کو سنبھال کر پیچھے ہٹ آیا۔ واجی کے دوستوں نے دونوں موٹر سائیکلیں پیچھے ہٹا دیں۔ واجی بدستور میری طرف خشمگیں نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
وہ لوگ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر چلے گئے تو ہم بھی گاڑی میں آبیٹھے۔ گھر آ کر میں دیر تک اپنے کمرے میں بند رہا۔ کمرے کے اندر ہی بے قراری سے ٹہلتا رہا اور اپنے آپ کو کوستا ر ہا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ میرے ساتھ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا تھا۔ میں تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں ۔ والدین کا لاڈ پیار مجھ سے بہت زیادہ تھا۔ والد محکمہ آثار قدیمہ میں آفیسر تھے لیکن چونکہ ایمان دار آفیسر تھے اس لیے مشکل سے ہی گزر بسر ہوتی تھی۔ کوئی دو سال پہلے ان کا انتقال ہوا تو اندیشہ تھا کہ ہم معاشی دباؤ میں آ جائیں گے لیکن والد صاحب کی دور اندیشی نے ہمیں سنبھال لیا۔ انہوں نے اچھے وقت میں ایک بڑی سڑک کے کنارے دو کنال زمین لی تھی ۔ کچھ زمین خالی چھوڑ دی تھی ۔ باقی میں گھر تعمیر کیا تھا مگر اس طرح کہ اگر ہم اوپر کی منزل پر شفٹ ہو جاتے تو گراؤنڈ فلور پر دس بارہ دکانیں تعمیر کر کے کرائے پر چڑھائی جا سکتی تھیں ۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ اس کے علاوہ والد
صاحب کی بیمہ پالیسی نے بھی ہمیں فائدہ دیا۔ میں بچپن میں جسمانی لحاظ سے خاصا کمزور واقع ہوا تھا۔ تاہم لڑکپن تک پہنچتے پہنچتے جسم پر تھوڑی بہت بوٹی آگئی۔ اس کے باوجود ہم عصر لڑکوں میں مجھے سنگل پسلی ہی سمجھا جاتا تھا۔ لڑائی بھڑائی میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مگر لڑکپن اور جوانی میں بارہا ایسے مواقع
آئے جب میرے لیے لڑنا ضروری تھا۔ ایسے موقعوں پر اکثر میری ہمت جواب دے جاتی تھی ۔ ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوتی تھی اور دل ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دھڑ کنے لگتا۔ اپنی اس خامی پر قابو پانے کی میں نے بہت کوشش کی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج کل پھر وہی صورت حال در پیش تھی ۔ شومی قسمت ثروت کے محلے کا ہی یہ لڑکا اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ اس کی ہمت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور مجھے لگ رہا تھا کہ وہ آسانی سے پیچھا نہیں
چھوڑے گا۔
اس دن کمرے میں بے قراری سے ٹہلتے ٹہلتے میں نے فیصلہ کر لیا کہ دو تین ماہ کے لیے ثروت سے میل جول بالکل بند رکھوں گا اور ثروت سے بھی کہوں گا کہ وہ بس میں کالج
جانے کے بجائے ناصر بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر چلی جایا کرے۔ ا
پچھلے دو چار سالوں میں مجھے جب بھی کہیں اپنی ناتوانی کے سبب ہزیمت اٹھانا پڑی یا شرمندگی کا سامنا ہوا، میرے اندر ایک خواہش بڑی شدت سے پیدا ہوئی اور وہ یہ کہ میں خود کو جسمانی طور پر مضبوط کروں ۔ کم از کم اتنا تو کر سکوں کہ اپنے جیسے کسی بندے کی زیادتی کا مناسب جواب دے سکوں ۔ ان دنوں مارشل آرٹ کا کافی شور تھا، کرانے کے کلب کھلے ہوئے تھے۔ میں بھی گاہے بگا ہے اردو بازار کے قریب واقع ایک کلب میں جاتا رہا تھا اور ہاتھ پاؤں چلاتا رہا تھا۔ بہر حال میری اس مصروفیت میں مستقل مزاجی کی کمی تھی ۔ عموماً دو چار ماہ تک کلب جانے کے ! بعد میری توجہ ہٹ . جاتی تھی۔ دھیان کسی اور طرف چلا جاتا ؟ دھیان دوبارہ کلب کی طرف تب آتا تھا جب پھر کسی جگہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان دنوں مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ جسمانی فٹنس علیحدہ چیز ہے جبکہ لڑائی بھڑائی والا مزاج
رکھنا دیگر بات ہے۔
اسنیک بار والے واقعے کے بعد میں نے ایک بار پھر شدومد سے مارشل آرٹ کلب
جانا شروع کر دیا۔ ان دنوں ہمارا یہ کلب اردو بازار کے قریب سے تبدیل ہو کر انار کلی کی طرف چلا گیا تھا۔ مدثر عارف صاحب ہمارے استاد تھے۔ وہ بڑی محنت سے ہمیں داؤ پیچ سکھایا کرتے تھے۔ میں چھ سات ہفتے تک باقاعدگی سے گیا لیکن پھر انہی دنوں مجھے ٹائیفائڈ
ہوا اور کلب جانے کا سلسلہ ایک بار پھر منقطع ہو گیا ۔
میں جنوری کی وہ ٹھٹھری ہوئی سہ پہر کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ لبرٹی مارکیٹ سے شاپنگ کر کے گھر واپس آیا تو فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف ثروت کی چھوٹی بہن نصرت تھی ۔ اس نے اشک بار لہجے میں کہا۔ ”
بھائی
جان! باجی کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ انہوں نے بارہ بجے آ جانا تھا۔ اب تین بج گئے ہیں ۔ وہ
کالج میں بھی نہیں ہیں ۔
میں سرتا پا لرز گیا ۔ تو کہاں گئی وہ ؟“
ابو اور ناصر بھائی پولیس اسٹیشن گئے ہیں ۔ کسی نے انہیں خبر دی ہے کہ باجی کو شاید۔۔۔ وہ فقرہ مکمل نہ کر سکی اور ہچکیوں سے رونے لگی۔ اسی دوران میں ثروت کی پھپھو نے ریسیور تھام لیا۔ انہوں نے بھی روتے ہوئے کہا۔ تابش بیٹا ! جلدی سے تھانے جاؤ ۔ پتا چلا ہے کہ گھر کے پاس والی سڑک سے کچھ لوگوں نے ثروت کو زبردستی گاڑی میں ڈالا ہے اور لے گئے ہیں ۔ میری نگاہوں کے سامنے زمین آسمان گھومنے لگے۔ ریسیور پھینک کر میں تیزی سے
گیراج کی طرف بڑھا۔ امی آوازیں ہی دیتی رہ گئیں ۔ کیا ہوا تابش ؟ آکر بتاتا ہوں ۔ میں نے کہا اور لرزتے ہاتھوں سے گاڑی اسٹارٹ کر کے سڑک پر
آگیا۔ میرا دھیان سیدھا واجی اور اس کے یاروں کی طرف جا رہا تھا۔ حالانکہ چند دن پہلے بھی میں نے فون پر ثروت سے پوچھا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ آج کل واجی نظر نہیں آ رہا۔ مجھے اس وقت بھی پوری تسلی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید وہ مجھے پریشانی سے بچانا چاہتی ہے اور آج کے واقعے نے تو میرے بد ترین اندیشوں کو حقیقت کا رنگ دے دیا تھا۔ میں سیدھا تھانے پہنچا۔ ثروت کے والد، خالو عثمان، ان کے دو محلے دار دوست اور ناصر بھائی تھانے میں ہی موجود تھے۔ لگتا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے خالو عثمان اور تھانیدار میں تلخ کلامی
ہوئی ہے۔ کشیدہ کشیدہ سے ماحول میں تھانیدار کچی رپورٹ لکھ رہا تھا۔
خالو عثمان بتا رہے تھے۔ ” یہ دو تین بندے تھے۔ ان میں سے ایک شاید اسٹیشن وین کے اندر ہی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے چہرے مفلر وغیرہ میں چھپا رکھے تھے۔ انہوں نے میری
بچی کو گھسیٹ کروین میں پھینکا ہے۔ یہ دیکھیں۔ موقعے سے اس کی یہ دو کتا بیں ملی ہیں ۔
خالو عثمان نے لرزتے ہاتھوں سے دو کتا بیں تھانیدار کی میز پر رکھیں ۔
بے شک یہ ثروت ہی کی کتابیں تھیں ۔
تھانیدار نے کتابیں بھی اپنی تحویل میں لے لیں۔
نمبر پلیٹ پڑھی ہے کسی نے؟“ تھانیدار نے قدرے نرم لہجے میں پوچھا۔ نہیں پر گاڑی کا رنگ اور میک وغیرہ دو تین بندوں نے دیکھا ہے ۔“
تھانیدار کے پوچھنے پر خالو عثمان کے دوست وہاب صاحب نے تفصیل سے گاڑی کے
بارے میں بتایا۔
تھانیدار کی ہدایت پر ایک اے ایس آئی ، وائرلیس سیٹ پر پٹرولنگ گاڑیوں سے رابطے میں مصروف ہو گیا ۔ خالو عثمان کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں انہیں ہارٹ اٹیک ہی نہ ہو جائے ۔ میں نے ناصر بھائی کو ایک طرف لے جا کر کہا۔ ” مجھے تو لگتا ہے کہ یہ انہی لڑکوں کا کام
ہے۔
کون لڑکے؟“ وہی واجی شکیل اور قادر وغیرہ ۔ میں نے آپ کو ان کے بارے میں بتایا تھا۔“ نہیں تابش!‘ ناصر بھائی نے نفی میں سر ہلایا۔ ” مجھے نہیں لگتا کہ یہ ان کا کام ہے۔ جس وقت یہ معاملہ ہوا ، واجی وغیرہ اپنے گھر کی چھت پر تھے ۔ ویسے بھی لوگوں نے جن تین
بندوں کے بارے میں بتایا ہے، وہ اپنے حلیے سے بڑی عمر کے لگتے تھے ۔“
کہیں ایسا تو نہیں کہ واجی وغیرہ نے کسی دوسرے سے یہ کام کروایا ہو ۔“ میں نے خیال ظاہر کیا۔ کرب کی شدت سے میری آواز ٹوٹ رہی تھی ۔
ابھی کیا کہا جا سکتا ہے؟ ویسے واجی کے والد سراج صاحب تو خود رپورٹ درج کرانے ابو کے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔ یہ جو دائیں طرف کریم کلر کی شلوار قمیص میں ہیں ۔
ناصر بھائی نے ایک صحت مند شخص کی طرف اشارہ کیا۔ پولیس والوں نے قاعدے کی کارروائی کر کے اور ہمیں تسلی تشفی دے کر واپس بھیج دیا۔
میں خالو وغیرہ کے ساتھ ہی ان کے گھر چلا گیا۔ گھر کا ماحول سخت افسردہ تھا۔ ثروت کی دادی سلسل مصلے پر تھیں اور سجدے میں گری ہوئی تھیں۔ خالہ صفیہ کا بھی رو رو کر برا حال تھا۔ وہ کسی بھی امید افزا اطلاع کے لیے ٹیلی فون سے لگی بیٹھی تھیں ۔ محلے کی دو تین عورتیں بھی
موجود تھیں۔ میں نے خالہ صفیہ کو تسلی دی ، وہ میرے گلے سے لگ کر سسکنے لگیں ۔ پتا نہیں کیوں میرا دھیان بار بار واجی اور اس کے ساتھیوں کی طرف ہی جا رہا تھا۔ میں
واجی سے ملنا اور بات کرنا چاہتا تھا لیکن پھر یہ خیال بھی ذہن میں آتا تھا کہ کہیں بگڑا ہوا معاملہ اور نہ بگڑ جائے ۔ صرف شک کی بنیاد پر واجی وغیرہ پر اتنا بڑا الزام نہیں لگایا جاسکتا تھا۔
میں نے فون کر کے والدہ اور چچی کو بھی خالہ صفیہ کے گھر ہی بلا لیا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ خالہ کے پاس رہیں اور دلاسہ دیں۔
وہ رات جس مشکل اور کرب میں گزری، میں ہی جانتا ہوں۔ میں گاڑی لے کر دیوانہ
وار سڑکوں ، ہسپتالوں اور پولیس اسٹیشنوں پر گھومتا رہا۔ میرے کالج کے ایک دوست زبیر خان کے بھائی پولیس افسر تھے۔ زبیر خان سے فون پر بات ہوئی ۔ اس نے کہا کہ آجاؤ ۔ ابھی جا کر
بھائی سے ملتے ہیں اور مشورہ کرتے ہیں۔ صبح کے پانچ بجے تھے۔ ابھی اندھیرا پوری طرح چھٹا نہیں تھا۔ میں خالہ کے گھر سے نکلا اور گاڑی پر زبیر کی طرف روانہ ہوا ۔ ابھی میں دو اندرونی سڑکوں سے نکل کر بڑی سڑک پر مڑنے ہی والا تھا کہ سامنے سے آنے والے ایک رکشے کی وجہ سے رفتار دھیمی کرنا پڑی۔ جگہ تھوڑی تھی اور میں چاہ رہا تھا کہ رکشہ آسانی سے گزر جائے ۔ اچانک میری نگاہ رکشے کے اندر بیٹھی سواری پر پڑی اور میں بھونچکارہ گیا۔ وہ ثروت تھی۔ اس کے سر پر دو پٹہ تھا اور دوپٹے کے پلو نے دو تہائی چہرے کو نقاب کی طرح چھپایا ہوا تھا۔ میں نے ہی ثروت کو نہیں دیکھا، اس نے بھی مجھے دیکھ لیا۔ اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمودار ہوئے ۔ میں نے گاڑی روک لی۔ رکشہ بھی رک گیا۔ میں دروازہ کھول کر جلدی سے ثروت کے پاس گیا۔ وہ رکشے سے اتر
آئی ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دہک رہے تھے۔ صبح کے ان اولین لمحوں میں یہ اندرونی سڑک تقریباً سنسان ہی تھی ۔ ثروت میرے کندھے سے چمٹ گئی اور سسکیوں سے رونے لگی۔
میں نے رکشے والے کو کرایہ دے کر رخصت کیا اور ثروت کو لے کر گاڑی میں آبیٹھا۔ ۔
ثروت ! تم ٹھیک تو ہونا ؟“
ہاں میں ٹھیک ہوں ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔
ایک دو را بگیر تعجب سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ میری گاڑی کا رُخ بڑی سڑک کی طرف
تھا۔ میں نے گاڑی کو اسی رخ پر آگے بڑھایا اور تین چار منٹ ڈرائیو کرنے کے بعد ایک -
چلڈرن پارک کے عقب میں روک دیا۔
میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ثروت آنکھیں بند کیے مسلسل سسک رہی تھی۔ میں نے اس کا کندھا تھپتھپایا اور تسلی بخش لہجے میں کہا۔ ” ثروت ! تم زندہ سلامت ہمارے سامنے ہو اس
سے بڑی اور کوئی بات نہیں۔ باقی سب کچھ بے معنی ہے۔ مجھے بس اتنا بتا دو . وہ کون لوگ تھے جو تمہیں لے کر گئے تھے ۔“
وہ بدستور روتی رہی۔ اس نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
میں نے کہا۔ چلو ٹھیک ہے۔ کچھ نہ بتاؤ ۔ اگر تمہارے ذہن پر بوجھ پڑتا ہے تو خاموش
رہو۔ میرے لیے یہ خوشی ہی کم نہیں ہے کہ میں تمہیں صحیح سالم اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں ۔ خالہ، خالو بہت پریشان ہیں تمہارے لیے۔ ایک ایک سیکنڈ ان پر بھاری گزر رہا ہے۔ چلو گھر
چلتے ہیں ۔“
مجھے لگا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔
کیا بات ہے ثروت ! جو کہنا ہے بلا جھجک کہو ۔“ اس نے آنسو پونچھ لیے اور قدرے حوصلے میں نظر آنے لگی۔ آنسوؤں کے چند گھونٹ بھر کر وہ بولی ۔ " مجھے لے جانے والے واجی اور اس کے دوست تھے ۔“
یہ انکشاف دھما کہ خیز تھا لیکن میرا مطلب ہے ثروت! وہ خود تو موقعے پر موجود نہیں تھے۔ ناصر بھائی نے
بتایا ہے کہ وہ ... میں ہکلا کر رہ گیا۔
ہاں انہوں نے خود کچھ نہیں کیا۔ کسی سے کرایا ہے ۔“
م مجھے سب کچھ تفصیل سے بتاؤ ثروت ! شروع سے بتاؤ کیا ہوا تھا ؟“ اگلے پانچ دس منٹ میں ثروت نے اشک بار لہجے میں اور رُک رُک کر مجھے جو کچھ بتایا ،
اس کا خلاصہ یہ ہے۔
قریباً آٹھ دس روز پہلے ثروت کے بھائی ناصر کو کسی کام سے اسلام آباد جانا پڑا تھا۔ ان دنوں ثروت حسب سابق بس میں کالج گئی ۔ ایک دن بس اسٹاپ پر واجی نے پھر ثروت سے بد تمیزی کی ۔ اس نے دو تین شرمناک جملے کسے جس کے بعد ثروت بھی طیش میں آ
گئی ۔ اس نے اسے بُری طرح ڈانٹا، دھمکایا اور کہا کہ تم گندی نسل سے ہو۔ اس سے پہلے کہ لوگ اکٹھے ہو جاتے ، واجی اپنی ڈبل سائلنسر موٹر سائیکل پر وہاں سے
رفو چکر ہو گیا۔ بہتر تھا کہ ثروت اس واقعے کے بارے میں گھر والوں کو یا پھر مجھے بتا دیتی لیکن یہ سب کچھ پی گئی ۔ اس نے اُمید کی کہ شاید اس واقعے کے بعد واجی کو عقل آجائے گی اور وہ اس معاملے کو مزید خراب نہیں کرے گا۔
مگر یہ سب کچھ خیال خام ثابت ہوا ۔ کل صبح ثروت کو پھر بس میں کالج جانا پڑا۔ شاید واجی اور اس کے ساتھی کسی ایسے ہی موقعے کی تاک میں تھے ۔ جب وہ دو پہر کے وقت کالج
سے واپس آ رہی تھی ، اچانک دو ہٹے کئے افراد نے اسے گھسیٹ کر اسٹیشن وین میں ڈال لیا۔ اس کے منہ پر ایک بد بودار رومال رکھا گیا ۔ ثروت کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس سے بالکل بیگانہ ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو شام ہونے والی تھی ۔ وہ ایک نا معلوم کمرے میں تھی ۔ اس کے
دونوں ہاتھ نائیلون کی رسی سے پشت پر بندھے ہوئے تھے۔ فرش پر ایک فوم پڑا تھا اور کونے
میں الماری رکھی تھی ۔ ثروت کا سر بھاری ہو رہا تھا اور جی متلا رہا تھا۔ اس نے مدد کے لیے
پکارنا شروع کیا اور بند دروازے کو ٹھوکریں ماریں۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور واجی اندر آ گیا۔ اس نے ثروت کو دھکیل کر فوم پر پھینکا اور چاقو نکال کر اسے دھمکایا۔ اس کے ساتھ ہی بولا کہ وہ جتنا مرضی چلا لے، یہاں دور دور تک اس کی آواز سننے والا اور کوئی نہیں۔ ثروت کے ہاتھ رسی کی سخت بندش سے نیلے ہو رہے تھے۔ واجی نے چاقو کی مدد سے رسی کاٹ دی۔ ثروت نے اس کی منت سماجت کی۔ اس سے معافی مانگی۔ اس سے کہا کہ وہ اسے جانے دے۔ واجی نے جواب میں کہا کہ وہ گندی نسل کا ہے اور اس کا تھوڑا بہت ثبوت
دیئے بغیر وہ اسے یہاں سے جانے نہیں دے گا۔ ثروت نے روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ۔ وہ بولا ۔ میں بھی تو ایک
سال سے تمہارے آگے پیچھے پھر رہا ہوں۔ تمہاری منت ترلا کر رہا ہوں لیکن تم ٹس سے مس نہیں ہوتی ہو۔ جس کے ساتھ گل چھرے اڑاتی ہو، اس میں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو ہم میں نہیں ہیں۔ باقی میں نے تمہیں یہاں رکھنا نہیں ہے۔ چھوڑ دینا ہے لیکن
چھوڑنے سے پہلے تھوڑی سی سزا ضرور دینی ہے۔“
ان باتوں کے دوران میں ہی اچانک کہیں آس پاس پولیس گاڑی کا سائرن سنائی دیا۔ واجی کے چہرے پر رنگ سا آ کر گزر گیا۔ وہ تیزی سے باہر نکلا اور نکلتے ہوئے دروازے کو باہر سے لاک کر گیا۔ تاہم وہ ثروت کے ہاتھ دوبارہ نہیں باندھ سکا تھا۔ کسی ساتھ والے کمرے سے اس کی آواز آئی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ پھر وہ سارے افراتفری میں کہیں چلے گئے ۔
ثروت مدد کے لیے زور زور سے چلاتی رہی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں پولیس کی گاڑی اسے ڈھونڈے بغیر آگے نہ نکل جائے ۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ثروت کی مدد کے لیے کوئی نہیں آیا ۔ گاڑی غالباً آگے نکل چکی تھی۔ ثروت کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ لاہور میں ہے یا لاہور سے باہر اور یہ کون سی جگہ ہے۔
جب دروازہ پیٹ پیٹ کر اس کے ہاتھ زخمی ہو گئے اور چلا چلا کر گلا بیٹھ گیا تو اس کو یوں لگنے لگا کہ شاید ارد گرد کوئی موجود نہیں مگر اس کی چھٹی جس کہہ رہی تھی کہ کوئی موجود ہے۔ بس دم سادھے بیٹھا ہے۔ شدید پریشانی اور ہر اس کے باوجود ثروت اپنا دماغ استعمال کرنے لگی تھی ۔ وہ مسلسل سوچ رہی تھی کہ اس کمرے سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔ کمرے کی اکلوتی کھڑکی
سے باہر آہنی گرل لگئی تھی اور کسی اسٹور نما تاریک کمرے کی جھلک نظر آتی تھی ۔ اٹیچ باتھ روم میں بھی ایک چھوٹی کھڑ کی موجود تھی اور وہاں بھی مضبوط آہنی گرل لگی تھی ۔
ثروت نے الماری کھولی ۔ وہاں سے اسے چھوٹے دستے کی ایک ہتھوڑی مل گئی۔ وہ اس ہتھوڑی کے ساتھ کمرے کی کھڑکی کی گرل پر ضربیں لگانے لگی ۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اس آہنی گرل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ تاہم اسے اُمید تھی کہ اگر کوئی باہر موجود ہوا تو اس حرکت کے بعد سامنے ضرور آئے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دروازے کا تالا کھلنے کی آواز آئی ۔ ثروت نے ہمت کی اور دروازے کے بالکل پاس کھڑی ہو گئی۔ ایک شلوار قمیص والا شخص رائفل بدست اندر داخل ہوا۔ ثروت نے اندھا دھند اس کے سر کے پچھلے حصے پر ہتھوڑی کی ضرب لگائی۔ اس ایک ضرب نے ہی جواں سال شخص کو زمین بوس کر دیا۔ یہ کوئی پٹھان چوکیدار تھا۔ ثروت اس کی طرف دیکھے بغیر باہر بھاگی۔ یہ ایک فیکٹری تھی۔ تین چار نا مکمل بسیں یہاں وہاں کھڑی تھیں ۔ ثروت کاٹھ کباڑ کے درمیان بھاگتی گیٹ تک پہنچی اور باہر نکل آئی۔ اسے اندازہ ہوا کہ وہ جی ٹی روڈ پر لاہور کے مضافات میں ہے۔ یہاں سے ایک خدا ترس کار والے نے اسے لفٹ دی اور راوی کے پل تک پہنچا دیا۔ وہاں سے رکشہ پکڑ کر وہ میرے پاس پہنچ گئی۔
میں نے ثروت کی یہ ساری رو دادسنی۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے، وہ اس نے من وعن مجھے بتا دیا ہے۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں مسلسل آنسو رواں رہے۔ جب غنڈوں نے اسے اسٹیشن وین میں ڈالا تو ثروت کے جسم پر کئی خراشیں آئی تھیں۔ اس کی پنڈلیوں سے ابھی تک خون رس رہا تھا۔ اس کی یہ خونی خراشیں دیکھ کر میرا دل ہول گیا۔ میری نگاہوں میں واجد عرف واجی کا منحوس چہرہ گھومنے لگا ۔ جی چاہا کہ میرے پاس پستول ہو اور میں اس کو گولیوں سے چھلنی کر دوں ۔ شدید طیش کے عالم میں مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ بدن لرزتا تھا اور سینے میں دھڑکن کے گولے پھٹتے تھے۔
دماغ بہت کچھ کرنے کو چاہتا تھا مگر جسم ساتھ دینے سے انکار کر دیتا تھا۔ اس وقت بھی کچھ یہی عالم تھا۔ ہمیں گاڑی میں بیٹھے پندرہ بیس منٹ ہو چکے تھے۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کر کے واپس گھر کی طرف موڑ دی۔ دس منٹ بعد ہم گھر کے اندر تھے۔
ثروت کو دیکھ کر گھر میں تہلکہ مچ گیا۔ خالہ صفیہ نے اسے گلے سے لگا کر بھینچ لیا اور تشکر کے آنسوؤں سے بھگونے لگیں۔ باقی اہلِ خانہ بھی شدید حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔ ثروت کو اندر کمرے میں پہنچایا گیا۔ اسے پانی وغیرہ پلایا گیا تا کہ وہ نارمل حالت میں آ سکے۔ کمرے میں ہجوم زیادہ ہو گیا تھا۔ خالو جان کے کہنے پر باقی افراد با ہر نکل آئے۔ صرف
خالہ صفیہ، نصرت ، امی اور چچی وغیرہ وہاں رہ گئیں۔
ڈرائنگ روم میں جاکر میں نے خالو اور ناصر بھائی وغیرہ کو تفصیل بتائی کہ ثروت کے ساتھ کیا ہوا ہے اور وہ کس طرح شاہدرے کے قریب ایک فیکٹری سے بھاگ کر یہاں پہنچی ہے۔ یہ انکشاف سب کے لیے تکلیف دہ تھا کہ یہ اسی محلے کے رہنے والے واجی اور قادر
وغیرہ کا کام ہے۔
ناصر بھائی ایک دم آگ بگولا نظر آنے لگے ۔ انہوں نے کہا۔ ” میں جا رہا ہوں ۔ اس
بد معاش کی طرف .... اسے لاش بنا کر ہی واپس آؤں گا ۔“ وہ پستول لینے کے لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھے۔ ہم سب نے انہیں بمشکل روکا۔ خالو جان نے کہا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری بچی صحیح سلامت واپس آگئی ، اب ہمیں قانون کو
اپنے ہاتھ میں لے کر معاملے کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ ہم جو کریں گے قانون کے مطابق
کریں گے۔ ہم ابھی تھوڑی دیر میں تھانے جاتے ہیں ۔
خالو جان نے ایک دو جگہ فون کیے۔ میں نے بھی اپنے دوست زبیر کو بلا لیا۔ ہم تھانے پہنچے اور متعلقہ تھانیدار اشرف ساہی کو تفصیل کے ساتھ ساری بات بتائی۔ تھانیدار یہ سب کچھ ثروت کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ ثروت کا بیان لینے کے لیے وہ اس وقت ہمارے ساتھ گھر
جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
میں نے کہا۔ جناب ! ابھی وہ شاک کی حالت میں ہے۔ اسے سنبھلنے کے لیے تھوڑا سا وقت دیں۔ اس دوران میں آپ اپنی کارروائی شروع کریں۔“
آپ کی یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ پر مجھے قانون قاعدے کے مطابق چلنا ہے۔ کارروائی مغویہ کے بیان کے بعد ہی شروع ہوگی ۔“
مجبوراً ہمیں تھانیدار اشرف ساہی کو گھر لے جانا پڑا۔ میں اس کے پہنچنے سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی گھر پہنچ گیا اور ثروت کو بیان دینے کے لیے تیار کیا۔
تھانیدار کے آنے کے بعد بھی میں، خالو جان اور ناصر بھائی کمرے میں موجود رہے۔ بات کرتے ہوئے ثروت کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ بہر حال اس نے وہ سب کچھ تھانیدار اشرف کے گوش گزار کر دیا جو دو اڑھائی گھنٹے پہلے مجھے بتایا تھا۔
تھانیدار اشرف ساہی نے پوچھا۔ ” آپ نے واجد عرف واجی کو خود دیکھا ہے مگر اس کے ساتھیوں کے بارے میں آپ کس طرح کہہ سکتی ہیں؟“
میں نے ان کی آوازیں سنی ہیں جی میں قادر اور ایک دوسرے لڑکے شکیل کی
آواز اچھی طرح پہچانتی ہوں ۔“
تنگ تو آپ کو واجی کرتا تھا۔ دوسرے لڑکوں کی آواز یں آپ کیسے پہچانتی ہیں؟“ میں نے کہا۔ جناب! آپ وقت ضائع کرنے والے سوال کر رہے ہیں ۔ وہ دونوں خبیث بھی واجی کے ساتھ ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ سب ایک ٹولی کی شکل میں تھے ۔“ تھانیدارا شرف نے گھور کر مجھے دیکھا ۔ تو جب یہ لوگ ان کو تنگ کرتے تھے آپ آس
پاس ہی ہوتے تھے؟“ میں ایک دم گڑ بڑا یا پھر سنبھل کر بولا ۔ ایک دو بار ایسا ہوا ہے کہ ہم ریسٹورنٹ میں
اکٹھے چائے پینے گئے اور یہ لوگ آدھمکے ۔“ تھانیدار نے اپنے سوالات کا رخ خوامخواہ میری اور ثروت کی طرف موڑ دیا۔ خالو عثمان اسے بمشکل واپس اصل موضوع پر لائے ۔ بیان قلم بند کرنے کے فورا بعد تھانیدار اشرف اپنے عملے کے ساتھ پیدل ہی واجی وغیرہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔ ایک گلی چھوڑ کر یہ ایک دو منزلہ شاندار کوٹھی تھی۔ ہم نے ساتھ جانا چاہا مگر تھانیدار اشرف نے منع کر دیا۔
قریبا ایک گھنٹے بعد پولیس کے اس چھاپے کا نتیجہ سامنے آ گیا اور یہ نتیجہ ہمارے خدشات کے عین مطابق تھا۔ گھر میں فون کی گھنٹی بجی، میں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف
تھانیدار اشرف ساہی خود تھا۔
اس نے خالو عثمان کو بلانے کا کہا۔ میں نے بتایا کہ وہ واش روم میں ہیں۔ تھانیدار اشرف نے کہا ۔ چاروں لڑکے اپنے گھروں سے غائب ہیں۔ ہم انہیں ان کے دوسرے ٹھکانوں پر ڈھونڈ رہے ہیں ۔ شام تک پوزیشن صاف ہو جائے گی جو چوکیدار زخمی ہوا تھا ، اس کا کچھ پتا نہیں چلا ؟“ ۔
ابھی تک نہیں ۔ بہر حال ہم رابطے میں رہیں گے ۔ جیسے ہی کوئی خبر ملی آپ لوگوں تک
پہنچ جائے گی۔“ میں نے فون پر بات ختم کی ہی تھی کہ اندر سے خالہ صفیہ کی آواز آئی۔ وہ مجھے بلا رہی تھیں۔ میں اندر پہنچا۔ امی اور چچی کے علاوہ محلے کی ایک دو عورتیں بھی بیٹھی تھیں۔ خالہ صفیہ
نے پوچھا۔ ”کس کا فون تھا ؟“ پولیس اسٹیشن سے تھا۔ انسپکٹر بتا رہا تھا کہ ہم لڑکوں کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔
خالہ صفیہ نے اشک بار انداز میں کہا۔ " تابش ! مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے۔ یہ اچھے لوگ
نہیں ہیں۔ پیسے والے بھی ؟ ہیں۔ ان سے دشمنی پڑ گئی تو جینا مشکل ہو جائے گا۔
چچی کلثوم نے تنک کر کہا ۔ ہائے ہائے کیسی بات کرتی ہو آپا! اب جس پر ظلم ہوا ہے
وہ بولے بھی نہ۔ پھول سی بچی تھی ہماری "
تھی " کے لفظ چچی نے اس طرح ادا کیے کہ میرے دل پر گھونسہ سا لگا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ، ایک محلے دار عورت بول پڑی ۔ ایسے لوگوں پر تو کتے چھوڑ دینے چاہئیں ۔ زندہ گاڑ دینا چاہیے۔ عورت کے پاس عزت آبرو کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ ہائے
ظالموں کو ذرا ترس نہ آیا۔ چچی نے بڑے تاسف سے ثروت کو سر تا پا دیکھا ۔ بچی کو زخم زخم کر کے رکھ دیا ہے۔ بھلا کیا قصور تھا؟ یہی ناکہ ان بد معاشوں کے منہ لگنا نہیں چاہتی تھی۔ اس جرم کی اتنی بڑی سزا ؟
موت جو گوں نے ساری عمر کا رونا پلے باندھ دیا ہے ۔“
ہمدردی کے اس انداز نے ثروت کو سر جھکا کر سسکنے پر مجبور کر دیا۔
ثروت کی چھوٹی بہن نصرت نے جھلا کر کہا۔ ” چچی! کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ خدا کا
شکر کرنا چاہیے کہ آیا صیح سلامت گھر واپس آگئی ہیں ۔ اللہ نے ہم پر کرم کیا ہے ۔“ اللہ کے کرم سے تو انکار نہیں ہے بیٹی ! پر اپنے دل کو کیسے تسلی دوں؟ اس کی اُجڑی
پجڑی صورت دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔“ میرا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ میں نے دبے دبے طیش سے کہا۔ " چی ! آپ سب لوگ کچھ
دیر کے لیے باہر بیٹھ جائیں ۔ اسے ذرا آرام کرنے دیں ۔“
چچی نے مجھے گھورا۔ میں پاؤں پٹختا ہوا باہر آگیا۔
ان عورتوں کی باتیں میرے سینے میں تیروں کی طرح لگی تھیں ۔ خاص طور سے چچی کی
باتیں ۔ میں چچی کے مزاج کو اچھی طرح جانتا تھا۔ چچی شروع سے ہی میرے اس رشتے کے
خلاف تھیں ۔ وہ میرے لیے اپنی سگی بھتیجی کولانا چاہتی تھیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے در پردہ کوششیں بھی کی تھیں ۔ اب یہ معاملہ ختم ہو چکا تھا مگر وہ بغض ابھی تک چچی کے دل میں موجود
تھا۔ اب انہیں یہ موقع ملا تھا تو وہ اپنے اندر کی عداوت کو چھپا نہیں پارہی تھیں ۔ بظاہر انہوں .
نے ہمدردی کے بول بولے تھے مگر ان بولوں کے پیچھے جو دشمنی تھی ، وہ زہر قاتل کی تاثیر رکھتی تھی۔
نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ امی جان بھی ثروت کی واپسی کے بعد سے
کچھ چپ چپ ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ ایک آدھ دن مزید یہاں رہیں گی اور ثروت کی دلجوئی کریں گی مگر وہ اگلے ہی روز طبیعت خراب ہونے کا کہہ کر گھر واپس چلی گئیں۔ کہنے
والوں نے درست کہا ہے کہ مارنے والوں کے ہاتھ پکڑے جا سکتے ہیں مگر بولنے والوں کی زبانیں نہیں ۔
اگلے ایک دو روز میں مجھے صحیح معنوں میں اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اگر
کسی لڑکی کے ساتھ ثروت جیسی صورت حال پیش آ جائے تو اس پر کیا بیتی ہے۔ خدا
کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ ثروت جیسے گئی ویسے ہی واپس آگئی تھی مگر ارد گرد
کے لوگ یہ بات ماننے کے لیے دل
سے تیار نہیں تھے۔
ثروت کے گھر میں اگلے روز میں نے پھر ایک عورت کو اس طرح کی بات کرتے سنا۔ یہ بھی کوئی محلے دار ہی تھی ۔ شکل سے پڑھی لکھی لگتی تھی اور اپنی طرف سے اظہار ہمدردی کے لیے تشریف لائی تھی۔ اس نے رونی صورت بنا کر ثروت کو گلے سے لگایا اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے کے بعد خالہ صفیہ سے بولی ۔ میں تو کہتی ہوں بہن کہ ظلم سہہ کر چپ رہنا بھی گناہ ہے۔ آپ اس معاملے کی پوری پیروی کریں۔ بچی کا ڈاکٹری معائنہ کرایا ہے
آپ نے؟“ نصرت نے سٹپٹا کر کہا۔ "آنٹی ! ہم کیوں کرائیں ڈاکٹری معائنہ۔ کیوں اپنی بے عزتی کا اشتہار دیواروں پر لگا ئیں؟ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اللہ نے بڑا کرم ہے ہمارے اوپر “
ہاں بیٹی ! یہ تو بڑا کرم ہے کہ یہ زندہ سلامت واپس آگئی ہے مگر ان بد معاشوں نے جو
کیا ہے اس کی سزا تو انہیں ملنی چاہیے نا۔ لڑکی ایک رات گھر سے باہر رہ آئے تو اس بیچاری کے پلے کیا رہ جاتا ہے ۔ ابھی پچھلے سال کی بات ہے، ڈیفنس میں ہماری برادری کی ایک لڑکی تھی۔ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ بیچاری یتیم تھی، پر اس کی ماں پوری ہمت کے
ساتھ ڈٹ گئی۔ کہنے لگی کہ ہمارے ساتھ تو جو ہونا تھا ہو گیا، پر اب ان غنڈوں کو پھانسی تک ضرور پہنچائیں گے۔ پتا نہیں اور کتنوں کا بھلا ہو جائے گا اس سے ۔ اب وہ دونوں غنڈے جیل میں ہیں۔ ان میں سے ایک کو تو سیشن کورٹ سے پھانسی کی سزا ہو چکی ہے ۔“
اس عورت کی گفتگو کے دوران میں ہی نصرت ، ثروت کو لے کر باہر نکل گئی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اس کے چہرے پر شدید جھلاہٹ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
دو روز بعد میں گھر گیا تو امی بجھی بجھی نظر آئیں۔ کیا بات ہے امی ! آپ چپ ہیں؟“ میں نے ناشتے کی میز پر
پوچھا۔ کچھ نہیں بس وہی ثروت کی طرف بار بار دھیان چلا جاتا ہے۔ اچھی بھلی ہنستی کھیلتی لڑکی تھی ۔“
کوئی بات نہیں امی ! پھر اسی طرح ہو جائے گی۔ ابھی تو شاک میں ہے نا ۔
اسی طرح کہاں ہوا جاتا ہے تابش ! جب اس طرح کی بات ہو جائے تو پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے ۔ امی نے طویل آہ بھر کر کہا۔ پھر وہ اُٹھیں اور الماری میں سے ایک دن پہلے کا اخبار نکالا ۔ اخبار والے نے حسب روایت ثروت والی خبر کو خوب مرچ مسالا لگا کر بیان کیا تھا۔ ثروت کی ایک پرانی تصویر بھی موجود تھی جو نہ جانے کہاں سے حاصل کی گئی تھی۔ اس تین کالمی خبر کی سرخیاں پڑھ کر ہی میری رگوں میں انگارے سے بھر گئے ۔ خبر نویس نے خبر کو دلچسپ اور سنسنی خیز بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی۔ خبر کے آخر میں پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ مذکورہ فیکٹری کے ایک کمرے سے امپورٹڈ سگریٹ، انڈین شراب کی دو بوتلیں اور مووی کیمرہ وغیرہ بھی ملا ہے۔ ان شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ چاروں ملزمان مغویہ کی ویڈیو بنانے کا ارادہ رکھتے تھے
اور ممکن ہے کہ یہ ویڈیو بنائی بھی گئی ہو۔ اس قسم کی اور بھی کئی باتیں خبر میں موجود تھیں ۔ میں نے اخبار کو پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا اور ناشتہ کیے بغیر باہر نکل گیا۔ امی بھی
میری کیفیت دیکھ کر گم صم کھڑی رہیں ۔
آج تھانیدار اشرف نے خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ کو مشورے کے لیے تھانے بلایا تھا۔ میں بھی اپنے دوست زبیر خان کو لے کر پہنچ گیا۔ تھانیدار شرف سے کسی اچھی خبر کی توقع نہیں تھی اور ایسا ہی ہوا۔ پتا چلا کہ چاروں ملزمان میں سے ابھی تک کسی کا کھوج نہیں ملا ہے۔ دو تین پولیس پارٹیاں مختلف علاقوں کی طرف روانہ کی گئی تھیں جو نا کام واپس آئی تھیں ۔ آخر میں تھانیدار اشرف نے سگریٹ سلگاتے ہوئے خالوعثمان سے کہا۔ عثمان صاحب ! کل ایک ایم این اے صاحب کا فون آیا ہوا تھا۔ ایم این اے مشاق گورا یا صاحب کا نام تو سنا ہو گا آپ
"نے؟
خالو عثمان نے اثبات میں سر ہلایا اور ان کا پریشان چہرہ کچھ مزید پریشان نظر آنے لگا۔ تھانیدار اشرف نے کہا ۔ ایم این اے صاحب کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ مزید نہ بگڑے۔ وہ مانتے ہیں کہ لڑکوں سے ایک بڑا جرم ہوا ہے۔ اپنی بیوقوفی سے انہوں نے قانون کو پیچھے لگا لیا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بچی صحیح سلامت گھر واپس پہنچ گئی ہے۔ اس صورت حال میں اگر
کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جائے تو دونوں پارٹیوں کے لیے بہتر ہوگا۔ ناصر بھائی نے چیخ کر کہا۔ انسپکٹر صاحب! یہ کوئی زمین کے ٹکڑے کا جھگڑا نہیں جس میں دو پارٹیاں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ یہ اغوا کا سنگین ترین جرم ہے۔ ایم این اے صاحب
اس کا درمیانی راستہ کیا نکالیں گے۔ کیا ہمیں کوئی معاوضہ دیں گے؟ خدا کا خوف کرنا چاہیے انہیں۔ ہماری جو بدنامی ہوئی ہے اور ہم جس اذیت میں ہیں، اس کا مداوا کوئی نہیں ہے۔ اگر کوئی تھوڑا بہت مداوا ہے تو یہی ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف ہو ۔ واجی اور اس کے یاروں کو
ان کے کیے کی پوری سزا ملے۔“ تھانیدار اشرف کا گندمی چہرہ ایک دم سرخ ہوا پھر وہ ذرا تحمل سے بولا ۔ دیکھو برخوردار! مجھے تمہارے دُکھ کا احساس ہے لیکن مصیبت کے وقت عقلمندی اور
حو صلے سے کام نہ لیا جائے تو مصیبت اور بڑھ جاتی ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قانونی کارروائی تو ہو ہی رہی ہے، تم لوگ اپنے سامنے راستے بھی کھلے رکھو۔ تمام راستے بند نہیں کرنے چاہئیں ۔“ میں نے کہا۔ انسپکٹر صاحب ! اس طرح تو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ یہ چاروں لڑکے
کہیں ایم این اے صاحب کے پاس ہی پناہ نہ لیے ہوئے ہوں ۔“ بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔ ناصر بھائی نے فوراً کہا۔ ” اور لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ ایسے میں ہم ایم این اے صاحب سے بات چیت کریں گے تو بیوقوف ہی کہلائیں گے نا۔“
تھانیدار اشرف کا چہرہ ایک بار پھر سرخ ہو گیا ۔ وہ خالو عثمان سے مخاطب ہو کر بولا۔ دیکھو عثمان صاحب ! آپ کے یہ لڑکے ہر بات کو الٹا لے رہے ہیں۔ آپ ان کو سمجھائیں ور نہ معاملہ خراب بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے اس لیے یہ باتیں کہہ رہا ہوں۔ سیٹھ سراج کو پتا ہے کہ ان کے بچے سے جرم ہوا ہے، اس لیے ان کی نظر نیچی ہے لیکن جب ان کو اپنے بچے کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی تو ان کا رویہ بدل جائے گا۔ وہ مثال تو آپ نے بھی سنی ہوگی کہ بلی کو جب اپنے بھاگنے کا کوئی رستہ نظر نہ آئے تو وہ گھیر نے والے کی آنکھوں کی طرف آتی ہے۔ میں خدانخواستہ آپ کو ڈرا نہیں رہا ہوں، صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملے کے ہر پہلو پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں ۔“
میں نے کچھ کہنا چاہا مگر خالو عثمان نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر منع کر دیا۔ یہ بات عیاں ہوتی جا رہی تھی کہ تھانیدار اشرف ساہی مخالف پارٹی کا اثر قبول کر رہا ہے۔ یہ اثر دباؤ
کی شکل میں ہو سکتا تھا اور لالچ کی شکل میں بھی ۔
گھر میں بھی عجیب تناؤ کی سی کیفیت تھی۔ یہ چوتھے یا پانچویں روز کی بات ہے، امی جان نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔ میری چھوٹی بہن فرح کالج گئی ہوئی تھی ۔ مجھ سے چھوٹا
عاطف سویا ہوا تھا۔
امی جان کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ کہنے لگیں ۔ ” تابش بیٹا ! پتا نہیں کیوں مجھے
لگتا ہے کہ ہم تیری خالہ صفیہ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نبھا نہیں سکیں گے ۔“
آپ کسی وعدے کی بات کر رہی ہیں ؟“
امی نے مجھ سے نظریں ملائے بغیر کہا۔ ” دیکھو تابش ! صفیہ رشتے میں میری بہن ہے مگر
میں اسے سگی بہنوں کی طرح ہی سمجھتی ہوں۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں ثروت کو دلہن بنا کر
اس گھر میں لاؤں ۔ میں نے لرز کر کہا۔ ” تو اب کیا ہو گیا ہے امی ! کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟ ثروت اس گھر میں دلہن بن کر آئے گی اور ضرور آئے گی؟“ امی نے نفی میں سر ہلایا ۔ تابش ! تو ابھی بچہ ہے، ان باتوں کو نہیں سمجھتا۔ دیکھ جو کچھ بھی تھا۔ اس کے بعد ہمیں بہت . کچھ سوچنا پڑے گا اور ہم نے کون سا
شامیانے لگا کر منگنی کی انگوٹھی پہنائی تھیں۔ بس ایک منہ زبانی بات ہی تھی نا "
امی ! آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کے منہ میں شاید چچی جان کی زبان آگئی ہے ۔ کیا منہ زبانی بات کوئی بات نہیں ہوتی ؟ زبان پر تو لوگ جانیں دے
دیتے ہیں۔ آپ کو اس طرح ہر گز نہیں سوچنا چاہیے ۔“
میں سوچنے پر مجبور ہو رہی ہوں تابش ! ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم یہ رشتہ چھوڑ دیں۔ اب تو ذرا ٹھنڈے دل سے سوچ ۔ تیری چھوٹی بہن ہے، بھائی ہے۔ ہم نے اگلے ایک دو سالوں میں ان کے رشتے بھی ڈھونڈنے ہیں۔ ہم نے ثروت کا رشتہ کر لیا تو ثروت کے ساتھ ہی بدنامی بھی ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لے گی۔ پھر تیری بہن کے لیے یہاں کوئی رشتہ آئے گا اور نہ تیرے بھائی کو ڈھنگ کا رشتہ ملے گا۔
امی جان ! خدا کے لیے خدا کے لیے یہ دقیانوسی باتیں نہ کریں ۔ ثروت ویسی ہی ہے، جیسی دو ہفتے پہلے تھی۔ وہ پاک اور معصوم ہے۔ اس کے ساتھ کچھ نہیں ہوا ہے امی ! اور اگر خدانخواستہ کچھ ہو بھی جاتا تو اس کو معصوم ہی رہنا تھا۔ میں اسے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا
آپ پلیز ایسی باتیں نہ کریں، میرے دل کو کچھ ہونے لگتا ہے ۔
اسی دوران میں ایک ہمسائی ہمارے گھر میں داخل ہو گئی ۔ وہ بھی غالبا ثروت والے واقعے پر ہمدردی جتانے کے لیے آئی تھی۔ مجھے اور امی کو خاموش ہونا پڑا۔ میں چکرایا ہوا سا اپنے کمرے میں آگیا اور بے جان سا ہو کر بیڈ پر گر گیا۔
یہ سب کیا ہو رہا تھا ؟ امی جان کے رویے میں جو تبدیلی تھی وہی تبدیلی میں چھوٹے بھائی عاطف میں بھی دیکھ رہا تھا۔ ہاں چھوٹی بہن فرح کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ وہ ثروت
سے بڑا پیار کرتی تھی۔ بہر حال، اس سانحے کے بعد سے وہ بھی کچھ چپ چاپ ہو گئی تھی ۔ باقی رہے چچا، چچی اور ان کے بچے سو وہ بھی اس رشتے کے حق میں ہوئے ہی نہیں تھے ۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اس طرح کی باتیں کہیں ثروت کے کانوں تک پہنچ گئیں تو وہ بہت زیادہ اثر لے گی میں اس سے ملوں اور اسے ہر طرح اپنی غیر مشروط اور غیر متزلزل محبت کا یقین دلاؤں ۔ یہ یقین ہی تھا جو اسے دُکھ اور مایوسی کے بھنور
سے اُبھرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ میں ابھی ثروت کی طرف جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ بیرونی دروازے پر بیل ہوئی ۔ چھوٹے بھائی عاطف نے باہر جا کر دیکھا اور مجھے بتایا کہ کچھ لوگ مجھ سے ملنے
آئے ہیں ۔
میں باہر پہنچا تو سات آٹھ معز ز صورتوں والے افراد باہر گلی میں کھڑے تھے۔ میں نے ان سے فردا فردا مصافحہ کیا۔ ایک سفید ریش، بھاری تن و توش والے شخص نے کہا۔
میرا نام حاجی فیروز ہے۔ شاہ عالمی بازار میں سیٹھ سراج میرا ہمسایہ ہے۔ یہ باقی
لوگ بھی بازار کے ہی ہیں ۔ ہم آپ سے ملنے آئے ہیں ۔ طوعاً و کرنا میں نے ان حضرات کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ویسے بات میری سمجھ میں آ
گئی تھی کہ یہ حضرات کس لیے تشریف لائے ہیں ۔ جلد ہی مدعا حاجی فیروز کی زبان پر آگیا۔ انہوں نے کہا۔ جو کچھ ہوا ہے، بہت بُرا ہوا ہے۔ ہم سب بہنوں، بیٹیوں والے ہیں۔ اس دُکھ کو بڑی اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں ۔ لیکن ایک طرح سے اللہ کا شکر بھی ہے کہ بچی صحیح
سلامت گھر واپس آگئی ہے۔“ میں نے کہا ۔ حاجی صاحب! یہ بات ہم پہلے بھی بہت دفعہ سن چکے ہیں۔ آپ نے جو
کہنا ہے صاف صاف لفظوں میں کہیں لیکن اگر آپ یہ بات کہنے کے لیے آئے ہیں ہم سیٹھ : سراج اور اس کے بیٹے سے کسی طرح کی صلح صفائی کر لیں ۔ تو یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے۔
میں اس کے لیے آپ سے بہت بہت معذرت چاہتا ہوں ۔
حاجی فیروز نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ دیکھو بیٹا ! تم عثمان صاحب کے ہونے والے داماد ہو۔ اس گھر میں تمہاری بات سنی بھی جاتی ہے۔ عثمان صاحب اور دیگر گھر والے تو
اس وقت زیادہ صدمے میں ہیں لیکن تم انہیں اس معاملے کی اونچ نیچ سمجھا سکتے ہو ۔ اس طرح کے کیس جب کورٹ کچہری تک پہنچتے ہیں تو پھر جگ ہنسائی اور پریشانی کے بہت سارے موقعے نکلتے ہیں۔ پریس کا تو سب کو پتا ہی ہے، وہ ایسے معاملوں کو کس طرح اچھالتا ہے
پھر عدالت میں جرح کے دوران عورت سے جس طرح کے سوال پوچھے جاتے ھیں وہ بھی ہیں
سب جانتے ہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ "آپ اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہیں جی. لیکن کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ شرمندگی اور جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے اس طرح کی ساری مظلوم لڑکیاں اپنی زبانوں کو تالے لگالیں اور ظلم کرنے والے سینہ تان کر دندناتے پھریں اور پوری آزادی کے ساتھ اپنے لیے نئے
نئے شکار ڈھونڈتے رہیں؟“ حاجی فیروز کے ساتھ آنے والے ایک معزز شخص نے شفقت سے میرے کندھے پر ہاتھ دھرتے ہوئے کہا۔ ” تابش بیٹا ! جرم کی سنگین نوعیت سے تو کسی کو انکار نہیں لیکن سیٹھ سراج کا لڑکا عادی مجرم نہیں ہے۔ وہ بس بُری سوسائٹی کا شکار ہوا ہے۔ اگر اسے ایک بار سدھرنے کا
موقع مل گیا تو وہ سدھر کر دکھا دے گا۔“ سزا بھی تو سدھارنے کے لیے ہی ہوتی ہے چاچا جی! میں نے تلخ لہجے میں کہا۔ سزا تو بہت مل رہی ہے، اسے بھی اور اس کے گھر والوں کو بھی لیکن جس سزا کی تم
بات کر رہے ہو، وہ کسی کو سدھارتی نہیں ہے بیٹا جی! جیل میں سے اچھے بھلے لوگ پکے مجرم بن کر باہر نکلتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ تم لوگ بہت بڑی نیکی کرو گے اگر ان لڑکوں کے لیے دل میں کسی طرح کی نرمی پیدا کر لو گے ۔"
میں نے کہا۔ آپ سب مجھ سے زیادہ بڑے اور سمجھدار ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کے لیے یہ موقع مناسب نہیں ہے۔ ہمارے زخم ہرے ہیں۔ آپ ان پر نمک نہ چھڑکیں تو بہتر ہے۔“
یہ بزرگ دس پندرہ منٹ تک مزید میرے پاس بیٹھے ۔ وہ مجھے اس بات پر قائل کرنے
کی کوشش کرتے رہے کہ میں کم از کم ایک بار اپنے خالو عثمان اور سیٹھ سراج کی ملاقات کا اہتمام کر دوں ۔ بہر حال میں کسی نہ کسی طرح ان لوگوں کو رخصت کرنے میں کامیاب رہا۔ شام کو مجھے پتا چلا کہ یہ مصالحتی کمینی خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ سے بھی ملی ہے۔
تھوڑی محبت اور تھوڑے ڈراوے کے ساتھ انہوں نے خالو عثمان کو کیس کی پیرونی سے ہٹانے
کی کوشش کی ہے۔
یہ بڑی تلخ صورت حال تھی۔ ایک گھرانے کو شدید ترین اذیت سے دوچار کرنے کے بعد اب اس کو دباؤ کا شکار بنایا جار ہا تھا۔ میری رگوں میں خون کھول رہا تھا اور پورے جسم میں زہر بن کر پھیل جاتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ نا انصافی کرنے والوں کی گردنوں تک اپنا ہاتھ
پہنچاؤں اور انہیں گھسیٹ کر چوراہوں میں لے آؤں لیکن ایسا کرنے کے لیے جو فطری ہمت اور توانائی درکار تھی، وہ میرے اندر نہیں تھی ۔ اگلے روز صبح گیارہ بجے کے لگ بھگ میں ثروت سے ملنے خالو کے گھر پہنچا۔ مجھے معلوم تھا کہ خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ گھر میں نہیں ہوں گے ۔ خالہ صفیہ کی اجازت سے میں ثروت کے ساتھ چند باتیں کرلوں گا۔ گم صم خالہ سے علیک سلیک کرنے کے بعد میں ثروت کے کمرے میں پہنچا تو وہ چادر اوڑھے لیٹی ہوئی تھی۔ بیڈ پر سر ہانے کی طرف اس کی ایک خوبصورت تصویر آویزاں تھی ۔ یہ گھر کے پھولوں بھرے لان کا منظر تھا۔ وہ ہاف سلیو قمیص میں تھی اور واٹر پائپ کے ذریعے اپنے چھوٹے بھتیجے پر پانی پھینک رہی تھی ۔ پانی کی پھوار کے پیچھے وہ خود کسی جل پری کی طرح نظر آتی تھی۔ ہوا سے اُڑتے بال، کلیوں جیسے دانت اور رخساروں پر ٹھہرے ہوئے پانی ۔ کے
قطرے، جیسے گلاب پر شبنم کا بسیرا ہو۔ کتنی شوخی اور خوشی سمٹ آئی تھی اس ایک لمحے میں اس - کے اندر ۔ یہ میری پسندیدہ تصویر تھی اسی لیے ثروت نے اپنے بیڈ روم میں لگائی تھی۔
ثروت ! میں نے ہولے سے آواز دی۔
وہ سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے چادر اپنے اوپر سے ہٹائی اور سوجی سوجی سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر تحیر نمودار ہوا اور وہ دو پٹہ سنبھالتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے عقب میں پھولوں بھرے لان والی تصویر تھی ۔ کتنا فرق تھا ان دونوں مناظر میں ۔ ایک میں خوشی کا عروج، ایک میں مایوسی اور غم کی انتہا وہ دنوں میں ہی مہینوں کی
بیمار نظر آنے لگی تھی ۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ میں نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔ کیسی ہو ثروت؟
وہ سسکی اور منہ پھیر کر بولی ۔ اب کوئی کسر رہ گئی ہے۔ جو تم نکالنے آئے ہو۔“ کیوں کیا ہوا ؟“ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ جو کچھ ہوا ہے، تمہیں بھی ضرور پتا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری مرضی بھی اس میں
شامل ہو۔ قسم سے ثروت ! مجھے کچھ پتا نہیں ہے۔ کچھ بھی پتا نہیں ۔
کل تمہاری امی کا فون آیا تھا۔ انہوں نے امی سے پتا نہیں کیا باتیں کی ہیں وہ کل شام
سے رورہی ہیں ۔ نہ کچھ کھایا پیا ہے، نہ کسی سے بات کرتی ہیں ۔“ لیکن پتا تو چلے ثروت ! بات کیا ہوئی ہے؟“
تم انجان بنو تو اور بات ہے۔ ورنہ تمہیں بھی اندازہ ہو گیا ہوگا ؟“ ثروت نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اپنے گھٹنوں پر ماتھا ٹیکا اور چہرہ چھپا کر سسکیوں کے درمیان بولتی چلی گئی ۔ میری طرف سے تم آزاد ہو تابش! میں تم پر کوئی روک نہیں لگاؤں گی ۔ نہ گزرے دن یاد دلا کر تم سے کوئی شکوہ شکایت کروں گی ۔ میری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ تمہاری جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ بس مجھے معاف کر دو۔ میں بد نصیب ہوں۔ خود کو تمہارے لائق نہ رکھ سکی ۔ اب جو سزا مجھے ملنی ہے، وہ میں اچھی طرح جان گئی ہوں اور یہ بھی جان گئی ہوں کہ منت سماجت سے یہ سزا معاف نہیں ہوئی ۔ اس لیے میں قبول کرتی ہوں ، سب کچھ قبول کرتی ہوں ۔ وہ روتی چلی گئی ۔
میرا دل کٹ کر سو ٹکڑے ہو گیا۔ میں ثروت کی حساس طبع کے بارے میں بڑی اچھی طرح جانتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی ۔
میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
ثروت ! تم کسی کی باتوں پر نہ جاؤ ۔ شادی میری اور تمہاری ہونی ہے اور یہ ضرور ہو گی۔ بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ امی جان کو بھی وہی کرنا ہوگا جو میں چاہوں گا۔ میں
سب کچھ سنبھال لوں گا ۔“
میرے لیے کس کس سے لڑو گے؟ کس کس کی زبان بند کرو گے؟ میں تمہاری زندگی کو عذاب میں ڈالنا نہیں چاہتی تابش ! تم وہی کرو جو تمہارے بڑے کہتے ہیں۔ اس کا چہرہ بدستور گھٹنوں پر جھکا رہا۔
ایسا نہیں ہو گا ثروت ! اور نہ ہوتا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے میں
تھوڑا سا وقت ضرور لگے گا۔ بس اس تھوڑے سے وقت کو ہم نے ہمت اور حو صلے سے گزارنا ہے تم دیکھنا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔“
میری طبیعت خراب ہے تابش ! اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ پلیز پلیز " میری آنکھوں میں نمی تھی۔ میں اس کے ہاتھ کو تسلی بخش انداز میں تھپک کر باہر آ گیا۔
خاله صفیہ اور نصرت وغیرہ میں سے کوئی میرے سامنے نہیں آیا اور نہ کوئی بات کی۔ میں نے زندگی میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کسی لڑکی کے ساتھ پیش آنے والا اس طرح کا
واقعہ اس کی اور اس کے وارثوں کی زندگی میں اس طرح کا طوفان مچا سکتا ہے۔ میں بہت پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا۔ امی کچن میں تھیں ۔ میرا چہرہ دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔ کیا ہوا
تابی؟ انہوں نے بے چین کر پوچھا۔
یہ تو آپ بتائیں کہ کیا ہوا ہے؟“
میں سمجھی نہیں؟“
آپ نے کل خالہ صفیہ کو فون کیا ہے۔ اس کے بعد سے ان کا رو رو کر برا حال ہے۔“ امی نے محبت سے میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور مجھے ایک طرف کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا
کہ
تابش ! مجھ سے قسم لے لو جو میں نے کوئی ایسی ویسی بات کہی ہو۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ میں ابھی آنہیں سکتی کیونکہ فرح کے پیپر ہو رہے ہیں۔ اس لیے مصروف ہوں ۔ آپ ذرا خود سوچیں امی ! جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے آپ صرف ایک دفعہ خالہ کے گھر گئی ہیں۔ فون بھی آپ نے بس ایک آدھ بار ہی کیا ہوگا ۔ اگر اب خالہ صفیہ نے آنے کا کہا تھا تو آپ چلی جاتیں مگر آپ نے مصروفیت والی بات کہہ دی اور میں سمجھتا ہوں امی کہ بات سے بھی زیادہ وہ لہجہ اہم ہوتا ہے جس میں بات کہی جاتی ہے۔ آپ خود ہی تو کہا کرتی ہیں کہ
تابش ! کوئی بات نہیں ہوئی ۔ امی نے تیزی سے میرا جملہ کاٹا بس صفیہ محسوس زیادہ کر لیتی ہے۔“
اگر آپ کو پتا ہے کہ وہ زیادہ محسوس کرتی ہیں تو پھر آپ کو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے
تھی۔
ان کی ذہنی حالت آج کل جیسی ہو رہی ہے آپ کو بھی پتا ہے ۔“ امی خاموشی سے سبزی بناتی رہیں۔ ان کے چہرے سے ان کی دلی کیفیت کا اندازہ لگانا
مشکل تھا۔ میں نے طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔ امی ! آپ جو بھی سوچتی ہوں لیکن مجھے امید ہے کہ آپ میری مرضی کا خیال رکھیں گی۔ بچپن سے لے کر آج تک میرے لیے ہر چھوٹی بڑی چیز آپ نے ہی پسند کی ہے۔ ثروت کو بھی آپ نے ہی پسند کیا تھا۔ یہ آپ ہی کا
دکھایا ہوا راستہ ہے جس پر میں چل رہا ہوں ۔“ میں اُٹھا اور اپنے کمرے میں آگیا۔ میرے بیڈ پر اخبار پڑا تھا۔ اس میں پھر سیٹھ سراج
کے مفرور صاحبزادے اور ثروت کے بارے میں ایک مختصر خبر موجود تھی ۔ خبر کے آغاز میں ہی یہ خیال آرائی موجود تھی کہ متاثرہ لڑکی "ث" کی دوستی ماضی میں واجد عرف واجی سے بھی ہے
میرا جی چاہا کہ اس اخبار کو جلا دوں ! اور اس کے ساتھ ہی اس دفتر کو بھی جہاں سے یہ
اخبار شائع ہوا ہے
پتا نہیں کہ کچھ نام نہاد صحافی شرفاء کی شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے اتنے
مستعد کیوں ہوتے ہیں؟ میں سوچنے لگا کہ اگر اس اخبار والے کی اپنی بیٹی یا بہن کے ساتھ
اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہوتا تو کیا پھر بھی وہ اسی طرح کی سرخیاں جماتا ؟ میں نے اخبار پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ امی جان تو ایسا نہیں کر سکتی تھیں ۔ یقینا یہ چچی یا چاچا کا کام ہی تھا جو اتنے اہتمام سے یہ اخبار میرے بیڈ پر رکھا گیا تھا۔
کمرہ بند کر کے میں بے قراری سے ٹہلنے لگا۔ ثروت کی ستی ہوئی صورت بار بار آنکھوں کے سامنے آرہی تھی۔ چند ہی روز میں وہ کملایا ہوا پھول ہو گئی تھی ۔ گزرے ہوئے دو سالوں کا ایک ایک لمحہ میرے تصور میں چمکنے لگا۔ پہلی دفعہ میں نے ثروت کو پورے دھیان سے شادی کی ایک تقریب میں ہی دیکھا تھا۔ اسی تقریب میں امی جان نے بھی اسے خاص نظروں سے دیکھا اور میرے لیے منتخب کر لیا۔ خالہ صفیہ اور پھر خالو عثمان وغیرہ سے بات ہوئی اور دونوں طرف سے ”ہاں“ ہوگئی۔ منگنی کی چھوٹی سی تقریب کا بھی ارادہ تھا مگر وہ بہ وجوہ ٹلتا رہا۔ در اصل دونوں گھرانے ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے تھے کہ اس قسم کے کسی تکلف کی
ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ شروع میں ہمارے درمیان جھجک تھی۔ پھر عید کے موقعے پر میں نے ثروت کو ایک خوبصورت ساعید کارڈ بھیجا۔ ثروت نے بھی فرح کے ذریعے مجھے کارڈ ارسال کیا۔
اس کے بعد کبھی کبھی فون پر ہماری مختصر بات ہونے لگی۔ ثروت عام کا لج گرلز کی طرح ایکسٹرا شوخ نہیں تھی۔ اس کی گفتگو میں ایک طرح کا وقار اور رکھ رکھاؤ تھا۔ اس کا یہی انداز مجھے زیادہ اچھا لگا۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ دانائی اور سمجھ بوجھ رکھتی تھی۔ وہ خداداد ذہانت کی مالک تھی۔ انگلش اور اردو کی بے شمار شاعری اسے زبانی یاد تھی۔
دھیرے دھیرے فون پر ہماری گفتگو بے تکلف ہوتی گئی۔ پھر کبھی کبھی ہم گھر سے باہر بھی ملنے لگے ۔ ہمارا ٹھکانا زیادہ تر شیزان ہوٹل یا شاہراہ قائد اعظم کا ایک آئس کریم بار ہوتا تھا ۔ ثروت ایک دھیمی لیکن مسلسل بارش کی طرح میری ذات میں سرایت کرتی چلی گئی۔ ہم نے سرما کی سنہری دو پہروں ، بہار کی خوشبو دار شاموں اور گرما کی چاندنی راتوں میں ایک ساتھ بہت سے خواب دیکھے۔ کبھی کبھی تو ہم مستقبل میں اس قدر کھو جاتے کہ اپنے گھر کا
ڈیزائن اور اندرونی آرائش کی تفصیلات تک طے کرنے لگتے ۔ یہ جیسے کل ہی کی آوازیں تھیں جو میرے کانوں میں گونج رہی تھیں ۔ ہم ریسٹورنٹ کے پر سکون ماحول میں بیٹھے تھے۔ میں نے کہا ۔ مجھے ٹی وی لاؤنجز وغیرہ میں ذرا سا گہرا رنگ
پسند ہے۔“
اس معاملے میں میری پسند تھوڑی سی مختلف ہے۔ ٹی وی لاؤنج یا کامن روم میں مجھے
ایپل وائٹ بڑا اچھا لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ہلکے سبز پر دے ہوں اور فرنیچر میں بھی اس کلر کا ٹچ ہو۔
لیکن یار! یہ ہلکا رنگ گندا بڑی جلدی ہو جاتا ہے، خاص طور سے ٹی وی لاؤنج میں “ تو بندہ ذرا احتیاط کرلے ۔ وہ چائے کی چسکی لے کر مسکرائی۔ بندہ تو احتیاط کر لیتا ہے اور کرے گا بھی لیکن بچوں کا کیا کیا جائے ۔ یہ تو چند ہفتوں بلکہ دنوں میں گلکاریاں کر دیتے ہیں ۔ میں نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ اس کے چہرے پر شفق کا رنگ لہرا گیا۔ اس نے پریشان نظروں سے دائیں بائیں دیکھا۔ پھر سنبھل کر بولی ۔ بچوں کو سکھایا جائے تو وہ سب کچھ سیکھ جاتے ہیں۔ یہ بڑے ہی
ہوتے ہیں جن کی عقل میں کوئی بات نہیں آتی ۔“
اگر بڑوں سے مراد میں ہوں ، تو میں نے کون سی ایسی بے عقلی کی ہے؟“ کوئی ایک ہو تو بتاؤں ۔ ہر وقت تو ستاتے ہو ۔ وہ ہلکی سی شوخی سے بولی ۔
میرے لہو میں میٹھا میٹھا درد جاگ اُٹھا ۔ اچھا کوئی ایک بے عقلی تو بتاؤ ۔ میں نے
لطف لینے والے انداز میں کہا۔ ایک بے عقلی تو جناب اب بھی فرما رہے ہیں ۔ ہزار دفعہ کہا ہے کہ ریسٹورنٹ میں بولا کرو۔
آہستہ زیادہ آہستہ بولنے سے بھی لوگ شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ لوگوں کا تو کام ہی شک کرنا ہے۔“
یہ اور اس طرح کی بہت سی آوازیں میرے کانوں میں گونجنے لگیں۔ میں کمرے میں
ٹہلتا رہا اور سوچتا رہا۔ وہ پہلے والی ثروت کتنے عرصے میں واپس لوٹے گی اور لوٹے گی بھی یا
نہیں میری رگوں میں اندھیرا سا اُترنے لگا۔ میں جانتا تھا کہ وہ بہت حساس ہے۔ اندر
سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔ اس کے ارد گرد جو سر گوشیاں اُبھر رہی تھیں، وہ اسے مزید توڑ پھوڑ
رہی تھی۔
واجی اور اس کے تینوں دوست ابھی تک لاپتا تھے ۔ ان کالا پتا ہونا بھی ہماری مایوسی میں
اضافہ کر رہا تھا اور اس سے بھی بڑی مایوسی یہ تھی کہ مقامی پولیس کا رویہ حوصلہ شکن تھا۔ تھانیدار
اشرف واضح طور پر ملزم پارٹی کی سائیڈ لے رہا تھا۔ مجھے پتا چلا تھا کہ کل خالو عثمان اپنے
دوست وہاب صاحب کے ساتھ تھانیدار اشرف سے ملنے گئے تو اس کے اے ایس آئی نے
ان سے درشت لہجے میں بات کی اور ڈیڑھ گھنٹہ باہر بٹھائے رکھا۔ بعد میں بتایا کہ اشرف
صاحب ایک ضروری میٹنگ میں چلے گئے ہیں۔
میں رات آخری پہر تک جاگتا رہا اور اپنی ہی سوچوں سے نبرد آزما رہا۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے معاشرے میں کمزور آدمی کو انصاف حاصل کرنے کے لیے برف اور آگ کے سات سمندروں میں سے کیوں گزرنا پڑتا ہے؟ وہ مظلوم و مضروب ہو کر بھی ڈرتا کیوں ہے؟ کیوں ہر دستک پر چونکتا ہے، کیوں ہر فون بیل پر اس کا دل ہولتا ہے؟ عدل کی زنجیر
ہلانے سے پہلے اس کے ناتواں ہاتھ کیوں کا نپ کانپ جاتے ہیں؟ اگلے روز میں ایک دفتر میں نوکری کے لیے انٹرویو دے کر واپس آ رہا تھا۔ گاڑی عاطف لے کر گیا ہوا تھا اس لیے میں پیدل ہی تھا۔ علامہ اقبال ٹاؤن کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا ، ہوٹل ذیشان کے سامنے سے نکلا تو ایک شخص نے آواز دے کر مجھے بلایا ۔ سنو بھائی
جان !
میں نے بائیں طرف دیکھا، ہوٹل کی پارکنگ میں ایک چمچھاتی ہنڈا گاڑی کے قریب اس کا ڈرائیور کھڑا تھا۔ وہ تیزی سے میرے قریب آیا۔ صاحب بلا رہے ہیں ۔“ اس نے
اپنے عقب میں اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
میں نے دیکھا اور چونک گیا۔ یہ سیٹھ سراج تھا۔ یہ سیاہ گاڑی بھی اس کی تھی۔ سیٹھ سراج
سفید لٹھے کی کھڑکھڑاتی شلوار قمیص میں تھا۔ وہ ایک لحیم شحیم شخص تھا تاہم جسم کے مقابلے میں سر کافی چھوٹا تھا۔ گھنگریالے بالوں میں خوب تیل لگا کر رکھتا تھا۔ میری معلومات کے مطابق یہ
شخص چٹا ان پڑھ تھا۔ میں چند لمحے تذبذب میں رہنے کے بعد اس کے پاس پہنچا۔ اس نے مجھ
سے مصافحہ کیا اور بتیسی دکھا کر بولا ۔ ” تمہارا نام تابش ہے نا؟“ جی فرمائیے ۔“ میں نے کہا۔
میں تم سے ملنا چاہتا تھا۔ یہ اچھا اتفاق ہے کہ تم سے ملاقات ہو گئی ۔ وہ گلابی اردو
میں بولا ۔
" کہیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“
یہاں کھڑے کھڑے کیا خدمت ہو سکتی ہے باؤ جی ! تم سے ایک بہت ضروری گل
کرنی تھی۔ اگر تمہارے پاس ٹائم ہے تو آؤ ذرا دو منٹ اندر بیٹھ جاتے ہیں ۔ لیکن میں ذرا جلدی میں تھا۔ دراصل .
یار باؤ! یہ دراصل ، لیکن، چنانچہ اگر مگر سب بیکار کے لفظ ہیں ۔ بس دومنٹ کی بات
ہے۔ چائے کا ایک کپ پیتے ہیں ۔ پھر تم چلے جانا ۔ اس نے اپنا بھاری بھر کم ہاتھ دوستانہ انداز میں میرے کندھے پر رکھ دیا۔ چارونا چار میں سیٹھ سراج کے ساتھ چلتا ہوا ہوٹل کے نیم گرم ڈائننگ ہال میں آ گیا۔ اس ہوٹل کی اندرونی سجاوٹ گاؤں کے انداز کی تھی۔ یہاں جدید کھانوں کے علاوہ دیہات کے سارے پکوان بھی ملتے تھے۔ ہم رنگین پایوں والی نواڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ جی کہیں آپ کو کیا کہنا ہے؟“ میری سنی ان سنی کرتے ہوئے سیٹھ سراج نے بیرے کو بلایا اور کہا۔ بس وہی روز
والا لیکن ڈیل بیرا ادب سے جھک کر واپس چلا گیا۔ سیٹھ سراج ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا۔ میں نے کئی بار چاہا کہ وہ کام کی بات کی طرف آ جائے مگر وہ ٹالتا رہا۔ یہاں تک کہ کھانا آ گیا ۔ کھانا کیا تھا ، سات آٹھ آدمیوں کی خوراک تھی ۔ چھوٹے پائے ، روسٹ مچھلی ، بانڈی گوشت ، کنہ گوشت اور پتا نہیں کون کون سے گوشت ۔ ساتھ میں نمکین لسی سے بھرا ہوا جگ اور تندوری
پر اٹھے وغیرہ ۔
سیٹھ سراج کے بے حد اصرار پر میں نے چند لقمے لیے۔ میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اس بھینسے کا لنچ جلد ختم ہو اور میں اس سے جان چھڑا کر باہر نکل سکوں ۔ کھانے کے بعد نیپکن سے ہاتھ اور ٹھوڑی وغیرہ صاف کرنے کے بعد سراج نے دو طویل ڈکاریں لیں اور اچانک بولا ۔ یار باو تم شکل سے سمجھدار لگتے ہو۔ تم ہی اس معاملے کا کچھ کرو۔ منڈوں سے گھلتی ہوگئی ہے، پر ہر گھلتی کی کوئی مافی تلافی بھی تو ہوتی ہے نا۔ کورٹ کچہری میں جائیں گے تو ساروں کی بدنامی ہو گی اور لڑکی کی زیادہ ہوگی ۔ وہ جیسے عثمان صاحب کی دھی ہے، ویسے ہی
میری بھی دھی ہے۔ ہم اس بات کو اور بڑھانا نہیں چاہندے۔“ بات تو اب بڑھ چکی ہے سیٹھ جی ! جو بد نامی اب ہو رہی ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا
ہونی ہے۔
باقی رہی معافی تلافی والی بات تو اس کا آپ لڑکی کے وارثوں سے پوچھیں ۔“ پر تم اس گھر کے ایک اہم بندے ہو یار بہاؤ ! تم کرنا چاہو تو بہت کچھ کر سکتے ہو۔ اپنے
خالو صاحب کو بہت کچھ سمجھا سکتے ہو۔ بدلے میں تم جو کام مجھ سے لینا چاہو میں حاضر ہوں۔ اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے باؤ یار! وہ وڈے وڈیرے کہتے ہیں نا کہ ایک ہتھ دوسرے ہتھ کو
دھوتا ہے
میرا خون کھول اُٹھا لیکن میں بولا کچھ نہیں ۔ سیٹھ سراج طاقت کے زعم میں مجھے اپنی راہ
پر لانا چاہ رہا تھا۔ اسی دوران میں سیٹھ کے ڈرائیور نے موبائل فون اس کی طرف بڑھایا۔ تہاڑی کال اے جی ۔ ان دنوں موبائل فون کم لوگوں کے پاس تھے۔ سیٹھ سراج نے کال اٹینڈ کی ۔ ڈرائیور اٹین شین حالت میں پاس ہی کھڑا رہا۔ سیٹھ سراج کچھ دیر تک کال سنتا رہا اور ہوں ہوں کرتا رہا۔ آخر میں بولا ۔ ” تم فکر نہ کرو ڈاکٹر صاحبہ! ہمارے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہو سکتا۔
میں ابھی انتظام کرتا ہوں ۔“ فون بند کر کے اس نے ایک اور نمبر ملایا پھر بولا ۔ ایم این اے صاحب سے بات کراؤ۔ چند لمحے بعد ایم این اے مشتاق گورایا سے اس کی بات چیت شروع ہوئی ۔ ” او جی کوئی سفارشی ٹٹو آ گیا ہے گورا یا صاحب ! ڈاکٹرنی کی نوکری پکی ہوگئی تھی۔ اب اسے پیچھے ہٹا
کر اپنی کسی پھوپھی چاچی کو آگے لانا چاہندا اے۔ آپ نے یہ کام نہیں ہونے دینا ہے کسی بھی طرح ٹھیک ہے ہاں جی ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے۔ میں خود جاؤں گا ۔ سلاماں لیکم ۔
گفتگوختم کرنے کے بعد اس نے آدھا گلاس لسی پی اور مونچھیں صاف کر کے بولا ۔ یہ
اپنے گورا یا صاحب بڑے کام کے بندے ہیں۔ اپنے شہر کی ساری نہیں تو آدھی نوکریوں پر ضرور ان کا زور چل جاتا ہے ۔ پھر وہ ذرا چونک کر خاموش ہوا اور بولا ۔ ہاں ... مجھے ایک
دن عثمان صاحب سے پتا چلا تھا کہ تم بھی نوکری شوکری ڈھونڈ رہے ہو؟ میں خاموش رہا۔
وہ بولا ۔ " آج کل گورا یا صاحب کا ہتھ بہت آگے تک جا رہا ہے۔ اگر تم کہو تو میں آج
ہی تمہارے بارے میں ان سے گل کرتا ہوں ۔“ مجھے ایسی سیاسی نوکری نہیں چاہیے جی جو اگلے الیکشن کے بعد چھوڑنی پڑے۔ اب
مجھے اجازت دیں۔ کھانے کے لیے بہت شکریہ۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا۔
یار باؤ ! تم بڑے روکھے بولتے ہو۔“
بس میں ایسا ہی ہوں ۔ دراصل ..
پھر وہی دراصل تمہیں کہا ہے نا یہ دراصل لیکن اگر مگر بولنے والے بندے مجھے زہر لگتے ہیں ۔ سیدھی سیدھی گل کرنی چاہیے ۔“
کیا سیدھی سیدھی گل کروں؟“ تم اس ماملے میں کچھ کر سکتے ہو یا نہیں؟“
جی نہیں ۔
جی بھی اور نہیں بھی۔ تم دوغلی گل کر رہے ہو اور دوغلی گل کرنے والے بندے چنگے نہیں ہوتے ۔ اس نے عجیب لہجے میں کہا۔ اس کی تیل سے چپڑی ہوئی تنگ پیشانی کے نیچے
اس کی آنکھوں میں دو چنگاریاں سی چمکیں ۔
اس سے پہلے کہ میں جواب میں کچھ کہتا، وہ اپنے ڈرائیور سے بولا ۔ ” چلو فتح محمد۔۔۔۔۔ ہیرے کو لمبی ٹپ دیتا ہوا وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ میں دوسرے دروازے سے بغلی
سڑک پر آگیا ۔ :
سات آٹھ روز اسی طرح گزر گئے ۔ صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ سوائے اس کے کہ جو دو افراد ثروت کو سڑک سے اُٹھانے والی کارروائی میں شریک تھے، ان کا پتا چل گیا ۔ بادی النظر میں تو یہی پتا چلتا تھا کہ وہ کرائے کے غنڈے ہیں ۔ انہیں اس کام کے لیے پندرہ ہزار روپے فی بندہ دیا گیا تھا۔ پانچ ہزار پیشگی، دس ہزار کام کے بعد ملا
تھا۔ اس کے علاوہ کچھ انعام وغیرہ بھی تھا۔ ان دونوں افراد کے ساتھ تیسرا بندہ واجی کا یار
قادر لمبا خود تھا۔
اسٹیشن وین بھی واجی وغیرہ نے ہی فراہم کی تھی۔ ان دونوں افراد کی نشان دہی پر پولیس نے واجی کے چوتھے ساتھی ابدال کو پکڑ لیا۔ پولیس نے ابدال کو عدالت میں پیش کر
کے اس کا سات روزہ ریمانڈ لیا تھا لیکن ابھی تک اس سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا تھا یا شاید پولیس نے نیک نیتی سے پوچھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی ۔ ابدال کا مؤقف تھا کہ وہ واجی وغیرہ
کا دوست ضرور رہا ہے لیکن مذکورہ واردات میں اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ وہ اپنے ساتھیوں کے
موجودہ ٹھکانے کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکا۔
ان سات آٹھ روز میں ثروت سے بھی میری ملاقات نہیں ہو سکی ۔ ہمارے اپنے گھر
میں بھی صورت حال کچھ کشیدہ ہی تھی۔ امی اور فرح میرے لیے پریشان رہتی تھیں ۔ ایک روز صبح سویرے گھنٹی بجی۔ نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ یہ فون ثروت کے گھر سے ہے اور وہاں سے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
میرا اندیشه درست نکلا ۔ نصرت نے روتے ہوئے بتایا کہ ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور
وہ ہسپتال میں ہیں ۔
یہ تشویشناک صورت حال تھی۔ خالو عثمان کو انجائنا کی ہلکی پھلکی تکلیف تو پہلے سے تھی۔ ڈاکٹر نے انہیں اینجو گرافی کا مشورہ دیا ہوا تھا جسے وہ مسلسل نظر انداز کر رہے تھے۔
ہم بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے ۔ اس وقت تک خالو عثمان اپنے خالق حقیقی سے مل چکے تھے۔ ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں کہرام مچا ہوا تھا۔ خالہ صفیہ بے ہوش تھیں ۔ نصرت ، ثروت اور ان کی پھوپھی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ دیگر عزیز بھی اشک بار کھڑے تھے۔ ثروت کی پھوپھی جان زینب نے مجھے دیکھا تو روتے ہوئے کہا۔ ” میرے بھائی کو بچی
کا دکھ لے گیا۔ اللہ غارت کرے ان بد معاشوں کو انہوں نے میرے بھائی کی جان لے لی۔ ہم کہاں انصاف مانگیں ۔ کس کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں ۔“
خالو عثمان کی تجہیز و تکفین کے دوران میں سکتے کی سی کیفیت میں رہا۔ خالو عثمان کو فجر
کے وقت دل کی تکلیف شروع ہوئی تھی ۔ وہ پہلے تو ہسپتال جانے سے کتراتے رہے پھر جب درد بڑھ گیا تو انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں پندرہ بیس منٹ کے اندر وہ ختم ہو گئے ۔ میں نے خالہ صفیہ اور ناصر بھائی وغیرہ سے بہت پوچھا کہ کوئی ایسی خاص بات تو نہیں ہوئی تھی جس کا خالو نے اثر لیا ہو ۔ انہیں کوئی ایسی بات معلوم نہیں تھی ۔ مگر میرے دل میں نہ جانے کیوں کھٹکا سا تھا کہ ثروت کے حوالے سے ہی کوئی خاص بات ہوئی ہے جس کا دُکھ انہیں پہنچا
ہے۔ میرا دھیان بار بار تھانیدار اشرف ساہی اور سیٹھ سراج وغیرہ کی طرف ہی جاتا تھا۔
خالو عثمان کی وفات کے بعد خالہ صفیہ بھی بستر سے لگ گئیں۔ انہیں مسلسل بخار ہو رہا تھا۔ یہ بڑی پریشانی کے دن تھے۔ ناصر بھائی بینک میں ملازم تھے۔ اپنی ڈیوٹی میں سے وقت نکالنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ نصرت گھر کا کام کاج سنبھالتی تھی ، ثروت خود بیمار ہونے کے باوجود ماں کی تیمار داری میں لگی رہتی تھی ۔ خالو عثمان ایک پرائیویٹ سروس کرتے تھے۔ اس کے علاوہ چند سال پہلے تک وہ کیمیکلز کی فروخت کا کام بھی کرتے رہے تھے۔ ان کی تنخواہ آنی بند ہوئی تو گھر پر معاشی دباؤ بھی آگیا۔ لیکن ان سارے مصائب سے بڑی وہ مصیبت تھی
جو بدنامی کی صورت میں خالو مرحوم کے گھر پر مسلط ہو گئی تھی۔ ایک دن ناصر بھائی نے مجھ سے کہا۔ ”یار تابش ! کسی وقت تو دل چاہتا ہے کہ یہ گھر
چھوڑ دیں ۔ کہیں اور مکان لے لیں ۔ آپ کا مطلب ہے کہ یہ مکان بیچ دیں؟“
ہاں ایک گا ہک بھی لگ رہا ہے ۔ اچھے پیسے دے دے گا۔ میں اس جگہ سے کچھ الرجک سا ہو گیا ہوں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آتے جاتے سیٹھ سراج یا اس کے گھر کا کوئی اور فرد نظر آ جاتا ہے۔ ان لوگوں کو دیکھتا ہوں تو خون کھول جاتا ہے ۔“ "
سراج کی صورت تو مجھ سے بھی نہیں دیکھی جاتی ۔ خالو کے جنازے پر آیا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا ، قبرستان میں ہی اسے پکڑلوں اور مار مار کر حلیہ بگاڑ دوں۔ میں تو کہتا ہوں یہی بندہ خالو کی موت کا ذمے دار ہے۔ یہ مسلسل انہیں ذہنی اذیت پہنچارہا تھا۔“
اب کس کس پر الزام دھریں۔ ایک طرف وہ ایس ایچ او اشرف ہے۔ وہ صاف طور پر ملزم پارٹی کی سائیڈ لے رہا ہے۔ پھر وہ ایم این اے گورایا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تینوں لڑکوں کو پناہ بھی اسی نے دی ہوئی ہے۔ کسی دن میں گھوم گیا تو پستول لے کر نکل جاؤں گا اور
ایک ایک کو شوٹ کردوں گا ۔“ میں ایک آہ بھر کر رہ گیا۔ شوٹ کرنے اور جان سے مارنے والی باتیں میں بھی کئی دفعہ سوچ چکا تھا لیکن ایسی سوچوں کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور سے ہم جیسے لوگوں کے لیے۔ سوچ اور عمل کے درمیان بے شمار تاویلیں اور مصلحتیں آن کھڑی ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں ناصر بھائی اس معاملے میں مجھ سے بہتر تھے لیکن کوئی بڑا جھگڑا کھڑا کرنے یا کسی کو
شوٹ کرنے کی حد تک وہ بھی نہیں جاسکتے تھے۔ ہم دونوں گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ اندر
سے رونے چلانے کی آوازیں آئیں ۔ ہم بھاگتے ہوئے صحن میں پہنچے منظر دل دوز تھا۔ خالہ صفیہ سیڑھیوں کے قریب بے سدھ پڑی تھیں ۔ ان کا سر ثروت کی گود میں تھا۔
خالہ صفیہ کے سر سے مسلسل خون بہ رہا تھا اور نچلا ہونٹ بری طرح پھٹ گیا تھا۔ ثروت مسلسل چلا رہی تھی۔ امی جی ! آنکھیں کھولیں امی جی
ثروت سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ انہیں کیا ہوا ہے۔ وہ سیڑھیوں سے گری تھیں، قریب ہی ۔
صابن کی ٹکیہ اور چھوٹا تولیہ پڑا ہوا تھا۔
انہیں ہسپتال لے جاؤ ۔ نصرت دل دوز آواز میں بولی ۔ ہم نے خونچکاں خالہ صفیہ کو ہاتھوں میں اُٹھایا اور کسی نہ کسی طرح سوزو کی گاڑی تک پہنچایا ، وہ گہری بے ہوشی میں تھیں ۔ ثروت بھی والدہ کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی۔ میں نے حتی
الامکان تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے انہیں قریبی ہسپتال پہنچایا۔ راستے میں ثروت نے روتے ہوئے بتایا۔ نیچے کا ٹوائلٹ خالی نہیں تھا۔ وہ بخار کی حالت میں اوپر چلی گئیں اور واپس آتے ہوئے گر گئیں۔“
ثریا عظیم ہسپتال والوں نے کہا کہ ان کے سر پر چوٹ لگی ہے، انہیں فورا جنرل ہسپتال لے جاؤ۔ وہاں ان کے سر کا سی ٹی اسکین وغیرہ ہو گا ۔ ہم انہیں لے کر جنرل ہسپتال پہنچے۔
بہت بھاگ دوڑ کر کے سی ٹی اسکین ہوا۔ معلوم ہوا کہ دماغ میں خون کے دو لوتھڑے ہیں جو
زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ آپریشن کی ضرورت ہے۔
اسی روز رات کو خالہ کا آپریشن ہو گیا لیکن وہ ہنوز بے ہوش تھیں ۔ ثروت اور نصرت کا رو رو کر برا حال تھا۔ ابھی باپ کی موت کا صدمہ تازہ تھا کہ یہ آفت ٹوٹ پڑی تھی ۔ خالہ صفیہ کی بے ہوشی طویل ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ہی ہماری پریشانیاں بھی بڑھ رہی تھیں ۔ آخر ایک صبح ڈاکٹر نے یہ منحوس خبر سنائی کہ وہ قومہ میں چلی گئی ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد کے تمام دکھوں اور مسائل سے پیچھا چھڑا کر بے ہوشی کی اوٹ میں اوجھل ہوگئی تھیں ۔ میں ان کا چہرہ دیکھتا تو مجھے لگتا تھا کہ وہ اس عالم بے خبری میں بھی اپنی مصیبت زدہ بیٹی کے لیے دعا گو ہیں ۔ ان کے لبوں کی خفیف لرزش کسی ایسی ہی دعا کی نشان دہی کرتی تھی ۔
ہم بھی دعائیں مانگ رہے تھے۔ ان کی زندگی کے لیے، ان کی واپسی کے لیے ... ایک دن ناصر بھائی نے مجھے زبردستی گھر بھیجا تا کہ میں چند گھنٹے آرام کرلوں اور تازہ دم ہو جاؤں ۔ شام کے وقت میں نے ناصر بھائی کو فون کیا اور پوچھا۔ ” میں کتنے بجے تک پہنچ
جاؤں؟“
دوسری طرف سے چند لمحے خاموشی رہی۔ پھر ناصر بھائی پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے۔ وہ چلی گئیں تابش ! وہ ہمیں چھوڑ گئیں ۔
میں پتھر کا بت بنا بیٹھا رہ گیا۔ تقریبا بارہ دن بے ہوش رہنے کے بعد وہ بھی سفر آخرت پر روانہ ہوگئی تھیں ۔
ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ مصیبت تنہا نہیں آتی
۔ اس گھرانے پر دیکھتے ہی دیکھتے آفتیں ٹوٹ پڑی تھیں ۔ کسی وقت تو میں خود
کو بھی بری طرح ملامت کرنے لگتا۔ میں سوچتا کہ شاید آفتوں کے اس سلسلے کا
سبب میں ہی بنا ہوں ۔ میں نے گھر سے باہر ثروت سے ملنا جلنا شروع کیا۔ میں
اسے ریسٹورنٹ میں بلاتا رہا۔ اس میل جول کی وجہ سے واجی بھی شیر ہوا اور
شدت
سے ثروت کے پیچھے پڑ گیا۔ میں ایک بار پھر ثروت کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی جھیل سی آنکھوں کی چمک لوٹانا چاہتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس کے دُکھ بہت بڑے ہیں مگر میں دُکھوں کا یہ
حصار توڑنا چاہتا تھا۔ دل کرتا تھا، میں اس کے گرد اپنی بانہوں کا حصار بنا دوں۔ وہ میرے سینے میں چہرہ چھپا کر آنکھیں بند کرلے۔ میں اس کی طرف بڑھنے والے ہر رنج والم کا رُخ
موڑ دوں ۔
خالہ صفیہ کے چالیسویں کے موقعے پر قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ امی تو قرآن خوانی کے بعد جلدی ہی واپس چلی گئیں، میں وہیں موجود رہا۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح ثروت سے بات کرنے کا کوئی موقع مل جائے ۔ فون تو وہ اُٹھاتی ہی نہیں تھی۔ پچھلے ایک مہینے میں میں بیسیوں مرتبہ کوشش کر چکا تھا ۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کمرے میں گئی تو میں بھی کچھ دیر بعد اس - کے پیچھے چلا گیا۔ وہ مصلے پر پر بیٹھی تھی اور سلام پھیر کر فارغ ہوئی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ ذرا سا چونک گئی میں نے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ " ثروت ! اگر میرا کوئی گناہ ہے تو ہے مجھے بتا دو۔ میں ہر طرح کا
کفارہ ادا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ کسی کا کوئی گناہ نہیں۔ میں ہی بدنصیب ہوں ۔ جو کچھ ہو رہا ہے میری وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس نے حسب سابق اپنا سر گھٹنوں پر جھکا لیا۔
" ثروت پلیز خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کرو۔ ناصر بھائی بہت پریشان ہیں۔ اگر تم لوگ خود کو نہیں سنبھا لو گے تو وہ بھی بکھر جائیں گے۔“
میرے بس میں کچھ نہیں ۔ اپنی جان لینا حرام ہے، ورنہ شاید ایسا کر لیتی ۔ مایوسی بھی تو حرام ہے۔ کفر ہے۔“
پلیز تابش ! مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ بھول جاؤ کہ کوئی ثروت تمہاری
زندگی میں آئی تھی ۔ اب ہم دونوں کے لیے یہی بہتر ہے۔" لیکن ثروت
پلیز خدا کے لیے خدا رسول کے لیے ، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میری تکلیف کو اور مت بڑھاؤ۔ میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔ میرا خیال دل سے نکال دو
جیسے تمہاری امی کہتی ہیں اور بڑے کہتے ہیں ویسا کر لو۔ وہ گھٹنوں پر سر رکھ کر رونے لگی۔
میں گنگ ہو کر رہ گیا۔ اسی دوران میں نصرت کی آواز سنائی دی۔ وہ آپی آپی
پکارتے ہوئے اوپر آ رہی تھی۔ میں آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس رات میں دیر تک دیوانوں کی طرح لاہور کی سڑکوں پر پھرتا رہا۔ میرے اندر ایک
جوالا مکھی تھا۔ ایک جلتا ہوا لاوا تھا جوہر قابل نفرت شے کو اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا تھا مگر میری جسمانی طاقت اور میری فطرت اس جوالا مکھی کی تاب نہ لا سکتی تھی اور نہ اس سے پھیلنے
والی تباہی کی ۔ اس رات سڑکوں پر گھومتے گھومتے میں نے کئی بارسیٹھ سراج کو قتل کیا۔ کئی بار
ایم این اے گورایا کی جان لی اور کئی بار تھانیدار اشرف کو بدترین انجام سے دو چار کیا۔ میرے جیسے لوگ ایسے حالات کا شکار ہو کر یہی کچھ کیا کرتے ہیں۔ اپنے تصورات کا سہارا لے کر دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کبھی سراب سے بھی پیاس بجھا کرتی ہے؟
اس سے
تو ناتوانیوں کا دُکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ کسی وقت دل چاہتا کہ خود فراموشی کا سہارا لوں۔ خود کو شراب میں یا کسی اور نشے میں غرق کرلوں۔ مجھے پتا ہی نہیں چلے کہ میرے ارد گرد کیا ہو رہا ہے یا پھر ویسے ہی کسی طرف نکل جاؤں۔ کچھ عرصے کے لیے ارد گرد سے ناتہ توڑ لوں ۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل .. بس اس طرح کی لا تعداد سوچیں تھیں جو دماغ کو اتھل پتھل کر رہی تھیں ۔
اسی دوران میں چند روز بعد مجھے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مناسب جاب مل گئی۔ جاب
ملنے سے جہاں خوشی ہوئی وہاں ایک طرح سے دُکھ نے بھی دل کو چیر ڈالا ۔ ثروت کو میری جاب کا بڑا چاؤ تھا۔ وہ کہا کرتی تھی کہ جب تم پہلے دن جاب پر جاؤ گے تو ہم اس موقعے کو سیلیبریٹ کریں گے۔ ریسٹورنٹ میں ہائی ٹی لیں گے اور پھر دریائے راوی میں ڈوبتے
ہوئے سورج کا منظر دیکھیں گے۔
آج میری جاب کا پہلا دن تھا۔ مگر ریسٹورنٹ نہیں تھا، ہائی ٹی بھی نہیں تھی اور راوی میں ڈوبتے ہوئے سورج کا منظر بھی نہیں تھا۔ سب کچھ ایک دھند لکے میں گم ہو گیا تھا۔
اس شام میں اکیلا ہی شیزان ریسٹورنٹ میں جا بیٹھا۔ وہی میز تھی جہاں ہم اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ دائیں طرف ایک گلدان رکھا تھا اور شفاف کھڑکی میں سے سڑک کا منظر دکھائی
دیتا تھا۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی کھڑ کی کی طرف دیکھنے لگا۔ دل میں آس پیدا ہوئی ۔ دل خوش فہم دور دراز کے امکانات کو ذہن میں لانے لگا۔ یقینی بات تھی کہ ناصر بھائی کے ذریعے ثروت کو بھی میری جانب کی خبر ہو چکی ہوگی ۔ شاید اسے یہ بھی پتا ہو کہ آج میری ڈیوٹی کا پہلا دن تھا اور آج اس ریسٹورنٹ کی موسیقی بکھیرتی فضا میں ایک نیم تاریک گوشے میں ہم نے اکٹھے بیٹھنا تھا۔ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامنے تھے اور ایک ساتھ مسکرنا تھا۔
میں سڑک کی طرف دیکھتا رہا۔ دیوانہ دل یہ سوچتا رہا۔ کیا پتا وہ آ جائے ۔ اپنی گلابی
پھولوں والی چادر کو سنبھالتی ہوئی ، اپنے شولڈر بیگ کو بائیں ہاتھ سے تھامے ہوئے متوازن چال چلتی ہوئی ۔ خزاں کے سارے رنگ ایک دم بہار کے رنگوں میں بدل جائیں ۔ میری آنکھیں منتظر ر ہیں لیکن کوئی نہیں آیا۔ کسی کو آنا ہی نہیں تھا۔ جب فاصلے پیدا ہو
جائیں تو ایک گھر میں رہتے ہوئے ملاقات نہیں ہوتی ۔ یہ تو پھر 60 لاکھ کی آبادی والا شہر تھا۔ میں نے اکیلے ہی چائے پی اور سر جھکا کر بیٹھا رہا۔ پانچ دس منٹ اسی طرح گزر گئے ۔ مایوسیوں کی دھند مجھے ڈھانپتی رہی ۔ اچانک قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ ”السلام علیکم کسی نے دلکش آواز میں کہا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا، سامنے آرسہ کھڑی تھی۔ میں حیران رہ گیا۔ آرسہ چچی سلطانہ کی وہی بھتیجی تھی جس کا رشتہ وہ ماضی میں مجھ سے کرنا چاہ رہی تھیں ۔ یہ لوگ پنڈی میں رہتے تھے۔ میں آرسہ کو یہاں دیکھنے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ تم کب آئیں یہاں؟ میں نے پوچھا۔ آج ہی ۔ جناب تو صبح کے گھر سے نکلے ہوئے تھے۔ اس لیے خبر کیسے ہوتی ۔ ابوامی بھی ساتھ آئے ہیں۔ ابو کی چھٹیاں ہیں۔ اب ایک دو ہفتے آپ کے پاس رہیں گے اور آپ کا ناک میں دم کریں گے ۔ وہ چہکی ۔
میرا واقعی ناک میں دم ہونے لگا۔ آرسہ مجھے کبھی اچھی نہیں لگی تھی۔ میں نے اپنی اندرونی کیفیت چھپاتے ہوئے کہا۔ لیکن تم یہاں کیسے پہنچیں؟“
میں فرح کے ساتھ تھوڑی سی شاپنگ کے لیے نکلی تھی ۔ اچانک ہماری نظر آپ کی گاڑی پر پڑ گئی ۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ آپ یہاں بیٹھے ہوں گے ۔“ اس نے بڑے ناز سے
اپنے بالوں کو پیشانی سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ فرح کہاں ہے؟“
وہ سامنے رکشہ میں بیٹھی ہے۔“ اس نے کھڑکی سے باہر اشارہ کیا۔ میں طویل سانس لے کر رہ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں فرح اور آرسہ کو لے کر واپس گھر جا
رہا تھا۔ آرسہ خوبصورت تھی لیکن اس کی خوبصورتی سورج کی طرح تھی۔ چمکیلی، بھڑکیلی اور کبھی کبھی جلاتی ہوئی۔ اس کا رنگ غیر معمولی سفید تھا۔ آنکھیں براؤن، بال شہد رنگ اور جسم منہ
زور ۔ وہ بڑی تیزی سے بولتی تھی ۔
اس کا موازنہ ثروت سے کیا جاتا تو ثروت کی خوبصورتی کو چاندنی سے تشبیہ دی جا سکتی تھی۔ بے شک چاندنی ، دھوپ سے کم روشن ہوتی ہے لیکن اس کا ایک اپنا حسن اور دھیما پن
ہوتا ہے۔ ایک پر وقار ٹھہراو ، ایک ٹھنڈک اور ایک جذب ہو جانے والی صلاحیت
۔ اس لیے
ارسہ مجھے کبھی اچھی نہیں لگی تھی اور اس کی یہ بے موقع آمد تو اور بھی بُری لگی۔
وہ پورے گھر میں دندنانے لگی۔ بلا وجہ میرے کمرے میں بھی آجاتی تھی۔ خاص طور پر وہ آج کل والدہ کے ارد گرد بہت گھوم رہی تھی ۔ ایک دن میں دفتر سے لوٹا تو میرا پورا کمرہ بڑی اچھی طرح سنورا سنبھالا ہوا تھا۔ آرسہ میرے ہی بیڈ پر اوندھی لیٹی انگلش میوزک پر ہولے ہولے پاؤں ہلا رہی تھی۔ اس نے ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔ میری چاپ پر اس نے پلٹ کر دیکھا ۔ ” یہ کیا ہے آرسہ؟ میں نے ناگواری کا اظہار
کیا۔
ہ تمہارا کمرہ ہے ڈئیر۔۔۔ اور یہ میں ہوں۔ وہ بستر پر نیم دراز ہو کر بولی ۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا آرسہ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
تمہارا مطلب میرے لباس سے ہے؟“ اس کے چہرے پر رنگ سالہرایا پھر وہ ڈھیٹ بن کر مسکرائی ۔ پتا نہیں اس فقرے سے
میرا مطلب تمہاری ہر چیز سے ہے۔“
تمہارا کیا مطلب ہے؟“ میں سٹپٹایا ہوا ہاتھ روم میں گھس گیا۔ یونہی منہ پر پانی کے چھینٹے مارکر باہر لگا تو وہ جا
چکی تھی۔
امی کمرے میں داخل ہوئیں ۔ یہ تو کیا بول رہا تھا آرسہ سے؟“
وہ میرے کمرے میں کیوں آجاتی ہے؟“ میں نے ہی کہا تھا اسے کہ ذرا تیرا کمرہ دیکھ لے ۔ امی نے کہا۔
میں نے دروازہ بند کرتے ہوئے امی کو اپنے سامنے کرسی پر بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گیا۔ امی ! مجھے صاف صاف بتائیں آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ کیوں باسی کڑی میں ابال دے رہی ہیں؟ میں اتنا انجان نہیں ہوں ۔ میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں ۔
تابی ! تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟ وہ تو چند دن کے لیے یہاں آئی ہے پھر چلی جائے گی۔ تمہیں پتا ہی ہے کہ اس کی طبیعت ذرا شوخ ہے۔ اگر اس نے۔۔۔
مجھے ایسی شوخیاں نہیں چاہئیں امی ! میں نے تیزی سے ان کی بات کائی۔
پلیز اسے کہہ دیں کہ میرے کمرے میں نہ آیا کرے۔ میں اس کے منہ لگنا نہیں چاہتا ۔ اچھا آہستہ بولو۔ کوئی سن لے گا۔ میں سمجھا دوں گی اسے لیکن آرسہ کے ابوامی
کے پاس تو دو چار منٹ بیٹھ جایا کرو ۔ وہ کیا کہیں گے کہ اچھے مہمان آئے ہیں ۔ ان کے لیے چچی چاچا کافی ہیں۔ میرے اپنے بہت سے مسئلے ہیں۔ کام کا بوجھ اتنا
زیادہ ہے کہ کئی دن سے خالہ صفیہ کے گھر بھی نہیں جاسکا۔ ان کا فون بھی نہیں ملتا ہے ۔“ فون تو میں نے بھی ایک دن کیا تھا۔ بس بیل ہوتی رہی ۔“ لیکن امی ! کیا اگر فون نہیں ملے گا تو ہم ان کا اتا پتا ہی نہیں لیں گے؟ ہنستا بستا گھر تھا، دیران ہو گیا ہے۔ وہ تینوں بالکل بے سہارا ہو گئے ہیں۔ ہمیں تو ہر گھڑی ان کی خبر رکھنی چاہیے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ ایک دن فون کیا تھا ۔ ایک دم امی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ چپ سی ہو گئیں ۔ پھر بولیں ۔ چلو ٹھیک ہے۔ کل ان کی طرف جائیں گے ۔ فرح کو بھی لے جائیں گے ۔“ صرف جانے سے کچھ نہیں ہو گا امی ! پہلے ہم سب اپنا ذہن صاف کر لیں۔ یہ بات اچھی طرح اپنے دماغ میں بٹھا لیں کہ ہمیں ان حالات میں ان لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑنا۔ ان
کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو نبھانا ہے۔ ثروت وہی ہے جو آج سے چند ماہ پہلے تھی اور اگر خدانخواستہ اس واقعے میں اس کے ساتھ کچھ ہو بھی جاتا تو میرے لیے میری آواز بھرا
گئی اور میں فقرہ مکمل نہ کر سکا۔
امی نے کہا۔ "اچھا تو دل چھوٹا نہ کر ۔ ہم کل چلیں گے ان کی طرف ۔“
لیکن مجھے اس طرح نہیں جانا جس طرح ہم پہلے جاتے رہے ہیں۔ ہم ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے انہیں مزید گہرا کر کے آ جاتے ہیں۔ جو کچھ اس بچاری کے ساتھ ہوا ہے، وہ خدانخواستہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو کیا ہم اسے دھتکار پھٹکار کر ایک طرف رکھ دیں گے؟ اس کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں گے؟ میرے سینے میں تپش تھی۔
میں بولتا چلا گیا۔
اس روز میرے اور امی کے درمیان آدھ پون گھنٹہ بات ہوئی۔ پتا نہیں کہ میں انہیں کس حد تک قائل کر سکا مگر اتنا ضرور ہوا کہ وہ ثروت کے ہاں خوش دلی سے جانے اور ان سے
رابطہ برقرار رکھنے پر آمادہ ہو گئیں ۔
اگلے روز گھر سے نکلنے سے پہلے فرح نے پھر ثروت کے گھر فون کیا۔ حسب سابق بیل ہوتی رہی لیکن کال ریسیو نہیں کی گئی ۔ ہم روانہ ہوئے ۔ راستے سے ہم نے آئس کریم اور
فروٹ وغیرہ لیا۔
ثروت کے گھر پہنچ کر دیر تک بیل دیتے رہے پھر گیٹ کھٹکھٹایا لیکن اندر سے کوئی برآمد نہیں ہوا۔ ساتھ والے پڑوسی نے دروازہ کھولا ۔ مجھے پہچان کر علیک سلیک کی پھر بتایا کہ ناصر صاحب اور ان کی فیملی تو یہاں سے جاچکے ہیں۔
اس کا حلیہ بھی واجی سے ملتا جلتا تھا۔ وہ چاروں ہم سے کچھ فاصلے پر ایک میز کے گرد بیٹھ گئے ۔ ثروت نے خشک ہونٹوں پر
زبان پھیر کر کہا ۔ چلو آؤ تابش! چلتے ہیں ۔“ میں نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا۔ نہیں ۔ اس طرح اُٹھنا ٹھیک نہیں ۔ بس یہ جو دو گھونٹ چائے رہ گئی ہے، پی لو۔ پھر اُٹھتے ہیں ۔“
ثروت کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اب اسے چائے میں کوئی دلچسپی رہی ہے اور نہ مجھ سے باتیں کرنے میں ۔ اب یہاں جو بھی وقت گزرے گا ، وہ سخت تکلیف ، میں رہے گی ۔ میں نے کپ اُٹھا کر چائے کی چسکی لی تو مجھے لگا کہ ہاتھ کانپ رہا ہے۔ اس لرزش کو ثروت کی
نگاہ سے چھپانے کے لیے میں نے کپ پھر نیچے رکھ دیا۔
ثروت میری منگیتر تھی ۔ وہ بی ایس سی کر رہی تھی۔ میں ایم ایس سی کے آخری سال میں تھا۔ ہم دونوں لاہور میں رہتے تھے اور رشتے دار بھی تھے ۔ واجد نامی یہ لڑکا جو ابھی اپنی ۔
ٹولی کے ساتھ اسنیک بار میں داخل ہوا، پچھلے کئی ماہ سے ثروت کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ وہ اس
بس اسٹاپ کے گرد چکراتا رہتا جہاں سے ثروت کالج جانے کے لیے سوار ہوتی تھی۔ وہ ثروت کا محلے دار بھی تھا۔ شروع میں تو وہ اخلاق کے دائرے کے اندر ہی رہا، بس ایک دو بار اس نے ثروت کو اپنی ڈبل سائلنسر ہنڈا موٹر سائیکل پر لفٹ دینے کی کوشش کی مگر جب ایک روز اس نے مجھے اور ثروت کو مال روڈ کے شیزان ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا تو وہ کچھ جارحانہ موڈ میں آگیا۔ وہ اب ثروت کے کالج کے متواتر چکر بھی لگا رہا تھا اور شیزان ریسٹورنٹ میں بھی دو بار ہمارے پیچھے آیا۔
ہم نے شیزان میں ملنا چھوڑ دیا۔ پچھلی بار ہم انار کلی کے ایک اسنیک بار میں ملے تھے۔ تب تو خیریت گزری تھی لیکن آج پھر واجد اپنی چنڈال چوکڑی کے ساتھ یہاں آدھمکا تھا۔ ہم جیسے تیسے چائے ختم کر کے اُٹھنا چاہ رہے تھے۔ میں نے بیرے کو بل لانے کا اشارہ کر دیا تھا لیکن وہ ابھی کاؤنٹر پر مصروف تھا۔ واجد نے ہمیں سنانے والے انداز میں زور سے
کہا۔ "یار شکیل ! چائے پینے کے لیے تو یہ کافی سستی جگہ ہے ۔“ شکیل بولا ۔ بھئی جیب میں جتنے پیسے ہوں، ویسی ہی جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے ۔
واجد نے کہا ۔ اتنا سوہنا مکھڑا ایسی جگہ پر ہو تو لگتا ہے کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا ہوا ہے
یا یہ کہہ لو کہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند “ دراز قد لڑکے نے لقمہ دیا۔ اس کا نام قادر تھا۔ واجد میز پر ہلکا ہلکا طبلہ بجانے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ گنگنا بھی رہا تھا ۔ دل توڑنے والے
دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں ... راہوں میں ... ثروت تیزی سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ چلو تابش !‘ اس نے شولڈر بیگ سنبھالتے ہوئے
کہا۔
میرا دل شدت سے دھڑک رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ جی چاہتا تھا کہ ان خبیثوں کے منحوس چہرے نوچ لوں ، حلیے بگاڑ دوں ان لوفروں کے لیکن۔۔۔۔۔۔
اس لیکن سے آگے کئی ایک سوالیہ نشان تھے؟ میں نے خود کو سنبھالا اور کاؤنٹر پر ہی ادائیگی کرتا ہوا بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ ثروت مجھ سے ایک قدم آگے تھی۔
ہمارے عقب میں کورس کی شکل میں آواز لگائی گئی ۔ واک آؤٹ ..... واک آؤٹ “
مجھے اندیشہ تھا کہ شاید یہ لوگ ہمارے پیچھے باہر آئیں گے اور سڑک پر بھی بد تمیزی کریں گے لیکن فوری طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہم اسنیک بار کے عقب میں واقع پارکنگ میں
پہنچے۔ میں اپنی سوزوکی کار کی طرف بڑھا تو پتا چلا کہ اس کے عقب میں دو عدد دیو ہیکل ہنڈا موٹر سائیکلیں پارک ہیں۔ ایک بار پھر رگوں میں لہو سنسنا کر رہ گیا۔ یہ واجی وغیرہ کی ہی شرارت تھی۔ ابھی ہم پارکنگ والے سے بات ہی کر رہے تھے کہ واجی اور اس کے ساتھی بھی وہاں پہنچ گئے ۔
پارک لاٹ والے لڑکے نے واجی سے کہا۔ سرجی! آپ کی موٹر سائیکل ۔ انہوں نے
اپنی گاڑی نکالنی ہے۔“ او ہو ہو ہو ۔ واجی نے چونکنے کی اداکاری کی پھر شائستگی سے بولا ۔ غلطی ہو گئی۔ میں سمجھا تھا کہ یہ کار دو تین گھنٹے یہاں رُکے گی ۔ ابھی لو جی میں ہٹا لیتا ہوں موٹر سائیکل ۔
اس نے جیبیں ٹٹولیں مگر چابی نہیں ملی ۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ وہ دراز قد قادر سے مخاطب ہو کر بولا ۔ کہاں گئی یار! چابی تیرے پاس تو نہیں ہے؟“
میرے پاس تو میری چابی ہے اور بس میرے تالے میں لگتی ہے ۔“ قادر معنی خیز لہجے میں بولا ۔
یعنی تمہارا مطلب ہے کہ کچھ چابیاں ایک سے زیادہ تالوں میں لگتی ہیں ؟“ کیوں نہیں یار! ہوتی ہیں ایسی بھی ۔ یہ چابیاں رنگ برنگے تالوں میں لگتی رہتی ہیں ۔
ان کو ہر جائی چابیاں کہتے ہیں ۔“ واجد عرف واجی نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ کیوں بھرا جی ! تمہارے پاس ہے کوئی
ایسی چابی؟“
کک کیا مطلب؟“ میں نے خود کو بمشکل سنبھالا ۔
شکیل مجھے سمجھانے والے انداز میں بولا ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی شکل وصورت سے لگتا ہے کہ آپ کے پاس رنگ برنگے تالوں میں لگنے والی چابی ہے۔“
یعنی ہر جائی چابی۔ قادر نے لقمہ دیا۔
تم تمیز سے بات کرو اور یہ موٹر سائیکل ، ہٹاؤ ۔ ثروت سٹپٹا کر بولی ۔
چابی کے بغیر کیسے پیچھے ہٹالوں میں صاحبہ ؟ شکیل نے کہا۔
میں نے بھنا کر موٹر سائیکل کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور اسے گھسیٹ کر پیچھے کرنا چاہا۔ نونو۔۔۔۔۔ ڈونٹ ٹچ ۔ واجی نے خطرناک لہجے میں کہا۔
تو پھر اسے پیچھے ہٹاؤ ۔ میری آواز غصے سے کانپ رہی تھی ۔
میں کہہ رہا ہوں ڈونٹ ٹچ اٹ ۔“ وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا اور اس کے ساتھ ہی مجھے دھکا دیا۔ میں لڑکھڑا کر دو تین قدم پیچھے گیا۔ غصے اور گھبراہٹ کی ملی جلی کیفیت نے مجھے سرتا پا ہلا دیا۔ مجھے لگا کہ میرا دل سینہ پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔ بہتر ہوا کہ اس موقعے پر ثروت میرے آگے آگئی ۔ وہ چلاتے ہوئے بولی ۔ نہیں تابش ! ہمیں ان سے جھگڑا نہیں کرنا ۔ وہ مجھے دھکیلتی ہوئی چند قدم اور پیچھے
لے گئی۔
میں سرتا پا لرز رہا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ، ایک بار تو اس خبیث واجی پر ٹوٹ پڑوں ۔ دوسری طرف واجی بپھرا ہوا شیر نظر آ رہا تھا۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ میری کوئی پیش چلنے دے گا۔ بہتر ہوا کہ شکیل اور قادر نے اس کا راستہ روک لیا۔ شکیل ، واجی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بولا ۔ چھوڑو یار سنگل پسلی بندہ ہے۔ ضائع شائع نہ ہو جائے ۔“
پتا نہیں میرے منہ میں کیا آیا اور میں نے کیا کہا۔ بہر طور یہ کوئی متاثر کن الفاظ نہیں تھے۔ میں اپنے چکراتے ہوئے ذہن کو سنبھال کر پیچھے ہٹ آیا۔ واجی کے دوستوں نے دونوں موٹر سائیکلیں پیچھے ہٹا دیں۔ واجی بدستور میری طرف خشمگیں نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
وہ لوگ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر چلے گئے تو ہم بھی گاڑی میں آبیٹھے۔ گھر آ کر میں دیر تک اپنے کمرے میں بند رہا۔ کمرے کے اندر ہی بے قراری سے ٹہلتا رہا اور اپنے آپ کو کوستا ر ہا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ میرے ساتھ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا تھا۔ میں تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں ۔ والدین کا لاڈ پیار مجھ سے بہت زیادہ تھا۔ والد محکمہ آثار قدیمہ میں آفیسر تھے لیکن چونکہ ایمان دار آفیسر تھے اس لیے مشکل سے ہی گزر بسر ہوتی تھی۔ کوئی دو سال پہلے ان کا انتقال ہوا تو اندیشہ تھا کہ ہم معاشی دباؤ میں آ جائیں گے لیکن والد صاحب کی دور اندیشی نے ہمیں سنبھال لیا۔ انہوں نے اچھے وقت میں ایک بڑی سڑک کے کنارے دو کنال زمین لی تھی ۔ کچھ زمین خالی چھوڑ دی تھی ۔ باقی میں گھر تعمیر کیا تھا مگر اس طرح کہ اگر ہم اوپر کی منزل پر شفٹ ہو جاتے تو گراؤنڈ فلور پر دس بارہ دکانیں تعمیر کر کے کرائے پر چڑھائی جا سکتی تھیں ۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ اس کے علاوہ والد
صاحب کی بیمہ پالیسی نے بھی ہمیں فائدہ دیا۔ میں بچپن میں جسمانی لحاظ سے خاصا کمزور واقع ہوا تھا۔ تاہم لڑکپن تک پہنچتے پہنچتے جسم پر تھوڑی بہت بوٹی آگئی۔ اس کے باوجود ہم عصر لڑکوں میں مجھے سنگل پسلی ہی سمجھا جاتا تھا۔ لڑائی بھڑائی میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مگر لڑکپن اور جوانی میں بارہا ایسے مواقع
آئے جب میرے لیے لڑنا ضروری تھا۔ ایسے موقعوں پر اکثر میری ہمت جواب دے جاتی تھی ۔ ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوتی تھی اور دل ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دھڑ کنے لگتا۔ اپنی اس خامی پر قابو پانے کی میں نے بہت کوشش کی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج کل پھر وہی صورت حال در پیش تھی ۔ شومی قسمت ثروت کے محلے کا ہی یہ لڑکا اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ اس کی ہمت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور مجھے لگ رہا تھا کہ وہ آسانی سے پیچھا نہیں
چھوڑے گا۔
اس دن کمرے میں بے قراری سے ٹہلتے ٹہلتے میں نے فیصلہ کر لیا کہ دو تین ماہ کے لیے ثروت سے میل جول بالکل بند رکھوں گا اور ثروت سے بھی کہوں گا کہ وہ بس میں کالج
جانے کے بجائے ناصر بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر چلی جایا کرے۔ ا
پچھلے دو چار سالوں میں مجھے جب بھی کہیں اپنی ناتوانی کے سبب ہزیمت اٹھانا پڑی یا شرمندگی کا سامنا ہوا، میرے اندر ایک خواہش بڑی شدت سے پیدا ہوئی اور وہ یہ کہ میں خود کو جسمانی طور پر مضبوط کروں ۔ کم از کم اتنا تو کر سکوں کہ اپنے جیسے کسی بندے کی زیادتی کا مناسب جواب دے سکوں ۔ ان دنوں مارشل آرٹ کا کافی شور تھا، کرانے کے کلب کھلے ہوئے تھے۔ میں بھی گاہے بگا ہے اردو بازار کے قریب واقع ایک کلب میں جاتا رہا تھا اور ہاتھ پاؤں چلاتا رہا تھا۔ بہر حال میری اس مصروفیت میں مستقل مزاجی کی کمی تھی ۔ عموماً دو چار ماہ تک کلب جانے کے ! بعد میری توجہ ہٹ . جاتی تھی۔ دھیان کسی اور طرف چلا جاتا ؟ دھیان دوبارہ کلب کی طرف تب آتا تھا جب پھر کسی جگہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان دنوں مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ جسمانی فٹنس علیحدہ چیز ہے جبکہ لڑائی بھڑائی والا مزاج
رکھنا دیگر بات ہے۔
اسنیک بار والے واقعے کے بعد میں نے ایک بار پھر شدومد سے مارشل آرٹ کلب
جانا شروع کر دیا۔ ان دنوں ہمارا یہ کلب اردو بازار کے قریب سے تبدیل ہو کر انار کلی کی طرف چلا گیا تھا۔ مدثر عارف صاحب ہمارے استاد تھے۔ وہ بڑی محنت سے ہمیں داؤ پیچ سکھایا کرتے تھے۔ میں چھ سات ہفتے تک باقاعدگی سے گیا لیکن پھر انہی دنوں مجھے ٹائیفائڈ
ہوا اور کلب جانے کا سلسلہ ایک بار پھر منقطع ہو گیا ۔
میں جنوری کی وہ ٹھٹھری ہوئی سہ پہر کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ لبرٹی مارکیٹ سے شاپنگ کر کے گھر واپس آیا تو فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف ثروت کی چھوٹی بہن نصرت تھی ۔ اس نے اشک بار لہجے میں کہا۔ ”
بھائی
جان! باجی کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ انہوں نے بارہ بجے آ جانا تھا۔ اب تین بج گئے ہیں ۔ وہ
کالج میں بھی نہیں ہیں ۔
میں سرتا پا لرز گیا ۔ تو کہاں گئی وہ ؟“
ابو اور ناصر بھائی پولیس اسٹیشن گئے ہیں ۔ کسی نے انہیں خبر دی ہے کہ باجی کو شاید۔۔۔ وہ فقرہ مکمل نہ کر سکی اور ہچکیوں سے رونے لگی۔ اسی دوران میں ثروت کی پھپھو نے ریسیور تھام لیا۔ انہوں نے بھی روتے ہوئے کہا۔ تابش بیٹا ! جلدی سے تھانے جاؤ ۔ پتا چلا ہے کہ گھر کے پاس والی سڑک سے کچھ لوگوں نے ثروت کو زبردستی گاڑی میں ڈالا ہے اور لے گئے ہیں ۔ میری نگاہوں کے سامنے زمین آسمان گھومنے لگے۔ ریسیور پھینک کر میں تیزی سے
گیراج کی طرف بڑھا۔ امی آوازیں ہی دیتی رہ گئیں ۔ کیا ہوا تابش ؟ آکر بتاتا ہوں ۔ میں نے کہا اور لرزتے ہاتھوں سے گاڑی اسٹارٹ کر کے سڑک پر
آگیا۔ میرا دھیان سیدھا واجی اور اس کے یاروں کی طرف جا رہا تھا۔ حالانکہ چند دن پہلے بھی میں نے فون پر ثروت سے پوچھا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ آج کل واجی نظر نہیں آ رہا۔ مجھے اس وقت بھی پوری تسلی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید وہ مجھے پریشانی سے بچانا چاہتی ہے اور آج کے واقعے نے تو میرے بد ترین اندیشوں کو حقیقت کا رنگ دے دیا تھا۔ میں سیدھا تھانے پہنچا۔ ثروت کے والد، خالو عثمان، ان کے دو محلے دار دوست اور ناصر بھائی تھانے میں ہی موجود تھے۔ لگتا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے خالو عثمان اور تھانیدار میں تلخ کلامی
ہوئی ہے۔ کشیدہ کشیدہ سے ماحول میں تھانیدار کچی رپورٹ لکھ رہا تھا۔
خالو عثمان بتا رہے تھے۔ ” یہ دو تین بندے تھے۔ ان میں سے ایک شاید اسٹیشن وین کے اندر ہی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے چہرے مفلر وغیرہ میں چھپا رکھے تھے۔ انہوں نے میری
بچی کو گھسیٹ کروین میں پھینکا ہے۔ یہ دیکھیں۔ موقعے سے اس کی یہ دو کتا بیں ملی ہیں ۔
خالو عثمان نے لرزتے ہاتھوں سے دو کتا بیں تھانیدار کی میز پر رکھیں ۔
بے شک یہ ثروت ہی کی کتابیں تھیں ۔
تھانیدار نے کتابیں بھی اپنی تحویل میں لے لیں۔
نمبر پلیٹ پڑھی ہے کسی نے؟“ تھانیدار نے قدرے نرم لہجے میں پوچھا۔ نہیں پر گاڑی کا رنگ اور میک وغیرہ دو تین بندوں نے دیکھا ہے ۔“
تھانیدار کے پوچھنے پر خالو عثمان کے دوست وہاب صاحب نے تفصیل سے گاڑی کے
بارے میں بتایا۔
تھانیدار کی ہدایت پر ایک اے ایس آئی ، وائرلیس سیٹ پر پٹرولنگ گاڑیوں سے رابطے میں مصروف ہو گیا ۔ خالو عثمان کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں انہیں ہارٹ اٹیک ہی نہ ہو جائے ۔ میں نے ناصر بھائی کو ایک طرف لے جا کر کہا۔ ” مجھے تو لگتا ہے کہ یہ انہی لڑکوں کا کام
ہے۔
کون لڑکے؟“ وہی واجی شکیل اور قادر وغیرہ ۔ میں نے آپ کو ان کے بارے میں بتایا تھا۔“ نہیں تابش!‘ ناصر بھائی نے نفی میں سر ہلایا۔ ” مجھے نہیں لگتا کہ یہ ان کا کام ہے۔ جس وقت یہ معاملہ ہوا ، واجی وغیرہ اپنے گھر کی چھت پر تھے ۔ ویسے بھی لوگوں نے جن تین
بندوں کے بارے میں بتایا ہے، وہ اپنے حلیے سے بڑی عمر کے لگتے تھے ۔“
کہیں ایسا تو نہیں کہ واجی وغیرہ نے کسی دوسرے سے یہ کام کروایا ہو ۔“ میں نے خیال ظاہر کیا۔ کرب کی شدت سے میری آواز ٹوٹ رہی تھی ۔
ابھی کیا کہا جا سکتا ہے؟ ویسے واجی کے والد سراج صاحب تو خود رپورٹ درج کرانے ابو کے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔ یہ جو دائیں طرف کریم کلر کی شلوار قمیص میں ہیں ۔
ناصر بھائی نے ایک صحت مند شخص کی طرف اشارہ کیا۔ پولیس والوں نے قاعدے کی کارروائی کر کے اور ہمیں تسلی تشفی دے کر واپس بھیج دیا۔
میں خالو وغیرہ کے ساتھ ہی ان کے گھر چلا گیا۔ گھر کا ماحول سخت افسردہ تھا۔ ثروت کی دادی سلسل مصلے پر تھیں اور سجدے میں گری ہوئی تھیں۔ خالہ صفیہ کا بھی رو رو کر برا حال تھا۔ وہ کسی بھی امید افزا اطلاع کے لیے ٹیلی فون سے لگی بیٹھی تھیں ۔ محلے کی دو تین عورتیں بھی
موجود تھیں۔ میں نے خالہ صفیہ کو تسلی دی ، وہ میرے گلے سے لگ کر سسکنے لگیں ۔ پتا نہیں کیوں میرا دھیان بار بار واجی اور اس کے ساتھیوں کی طرف ہی جا رہا تھا۔ میں
واجی سے ملنا اور بات کرنا چاہتا تھا لیکن پھر یہ خیال بھی ذہن میں آتا تھا کہ کہیں بگڑا ہوا معاملہ اور نہ بگڑ جائے ۔ صرف شک کی بنیاد پر واجی وغیرہ پر اتنا بڑا الزام نہیں لگایا جاسکتا تھا۔
میں نے فون کر کے والدہ اور چچی کو بھی خالہ صفیہ کے گھر ہی بلا لیا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ خالہ کے پاس رہیں اور دلاسہ دیں۔
وہ رات جس مشکل اور کرب میں گزری، میں ہی جانتا ہوں۔ میں گاڑی لے کر دیوانہ
وار سڑکوں ، ہسپتالوں اور پولیس اسٹیشنوں پر گھومتا رہا۔ میرے کالج کے ایک دوست زبیر خان کے بھائی پولیس افسر تھے۔ زبیر خان سے فون پر بات ہوئی ۔ اس نے کہا کہ آجاؤ ۔ ابھی جا کر
بھائی سے ملتے ہیں اور مشورہ کرتے ہیں۔ صبح کے پانچ بجے تھے۔ ابھی اندھیرا پوری طرح چھٹا نہیں تھا۔ میں خالہ کے گھر سے نکلا اور گاڑی پر زبیر کی طرف روانہ ہوا ۔ ابھی میں دو اندرونی سڑکوں سے نکل کر بڑی سڑک پر مڑنے ہی والا تھا کہ سامنے سے آنے والے ایک رکشے کی وجہ سے رفتار دھیمی کرنا پڑی۔ جگہ تھوڑی تھی اور میں چاہ رہا تھا کہ رکشہ آسانی سے گزر جائے ۔ اچانک میری نگاہ رکشے کے اندر بیٹھی سواری پر پڑی اور میں بھونچکارہ گیا۔ وہ ثروت تھی۔ اس کے سر پر دو پٹہ تھا اور دوپٹے کے پلو نے دو تہائی چہرے کو نقاب کی طرح چھپایا ہوا تھا۔ میں نے ہی ثروت کو نہیں دیکھا، اس نے بھی مجھے دیکھ لیا۔ اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمودار ہوئے ۔ میں نے گاڑی روک لی۔ رکشہ بھی رک گیا۔ میں دروازہ کھول کر جلدی سے ثروت کے پاس گیا۔ وہ رکشے سے اتر
آئی ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دہک رہے تھے۔ صبح کے ان اولین لمحوں میں یہ اندرونی سڑک تقریباً سنسان ہی تھی ۔ ثروت میرے کندھے سے چمٹ گئی اور سسکیوں سے رونے لگی۔
میں نے رکشے والے کو کرایہ دے کر رخصت کیا اور ثروت کو لے کر گاڑی میں آبیٹھا۔ ۔
ثروت ! تم ٹھیک تو ہونا ؟“
ہاں میں ٹھیک ہوں ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔
ایک دو را بگیر تعجب سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ میری گاڑی کا رُخ بڑی سڑک کی طرف
تھا۔ میں نے گاڑی کو اسی رخ پر آگے بڑھایا اور تین چار منٹ ڈرائیو کرنے کے بعد ایک -
چلڈرن پارک کے عقب میں روک دیا۔
میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ثروت آنکھیں بند کیے مسلسل سسک رہی تھی۔ میں نے اس کا کندھا تھپتھپایا اور تسلی بخش لہجے میں کہا۔ ” ثروت ! تم زندہ سلامت ہمارے سامنے ہو اس
سے بڑی اور کوئی بات نہیں۔ باقی سب کچھ بے معنی ہے۔ مجھے بس اتنا بتا دو . وہ کون لوگ تھے جو تمہیں لے کر گئے تھے ۔“
وہ بدستور روتی رہی۔ اس نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
میں نے کہا۔ چلو ٹھیک ہے۔ کچھ نہ بتاؤ ۔ اگر تمہارے ذہن پر بوجھ پڑتا ہے تو خاموش
رہو۔ میرے لیے یہ خوشی ہی کم نہیں ہے کہ میں تمہیں صحیح سالم اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں ۔ خالہ، خالو بہت پریشان ہیں تمہارے لیے۔ ایک ایک سیکنڈ ان پر بھاری گزر رہا ہے۔ چلو گھر
چلتے ہیں ۔“
مجھے لگا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔
کیا بات ہے ثروت ! جو کہنا ہے بلا جھجک کہو ۔“ اس نے آنسو پونچھ لیے اور قدرے حوصلے میں نظر آنے لگی۔ آنسوؤں کے چند گھونٹ بھر کر وہ بولی ۔ " مجھے لے جانے والے واجی اور اس کے دوست تھے ۔“
یہ انکشاف دھما کہ خیز تھا لیکن میرا مطلب ہے ثروت! وہ خود تو موقعے پر موجود نہیں تھے۔ ناصر بھائی نے
بتایا ہے کہ وہ ... میں ہکلا کر رہ گیا۔
ہاں انہوں نے خود کچھ نہیں کیا۔ کسی سے کرایا ہے ۔“
م مجھے سب کچھ تفصیل سے بتاؤ ثروت ! شروع سے بتاؤ کیا ہوا تھا ؟“ اگلے پانچ دس منٹ میں ثروت نے اشک بار لہجے میں اور رُک رُک کر مجھے جو کچھ بتایا ،
اس کا خلاصہ یہ ہے۔
قریباً آٹھ دس روز پہلے ثروت کے بھائی ناصر کو کسی کام سے اسلام آباد جانا پڑا تھا۔ ان دنوں ثروت حسب سابق بس میں کالج گئی ۔ ایک دن بس اسٹاپ پر واجی نے پھر ثروت سے بد تمیزی کی ۔ اس نے دو تین شرمناک جملے کسے جس کے بعد ثروت بھی طیش میں آ
گئی ۔ اس نے اسے بُری طرح ڈانٹا، دھمکایا اور کہا کہ تم گندی نسل سے ہو۔ اس سے پہلے کہ لوگ اکٹھے ہو جاتے ، واجی اپنی ڈبل سائلنسر موٹر سائیکل پر وہاں سے
رفو چکر ہو گیا۔ بہتر تھا کہ ثروت اس واقعے کے بارے میں گھر والوں کو یا پھر مجھے بتا دیتی لیکن یہ سب کچھ پی گئی ۔ اس نے اُمید کی کہ شاید اس واقعے کے بعد واجی کو عقل آجائے گی اور وہ اس معاملے کو مزید خراب نہیں کرے گا۔
مگر یہ سب کچھ خیال خام ثابت ہوا ۔ کل صبح ثروت کو پھر بس میں کالج جانا پڑا۔ شاید واجی اور اس کے ساتھی کسی ایسے ہی موقعے کی تاک میں تھے ۔ جب وہ دو پہر کے وقت کالج
سے واپس آ رہی تھی ، اچانک دو ہٹے کئے افراد نے اسے گھسیٹ کر اسٹیشن وین میں ڈال لیا۔ اس کے منہ پر ایک بد بودار رومال رکھا گیا ۔ ثروت کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس سے بالکل بیگانہ ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو شام ہونے والی تھی ۔ وہ ایک نا معلوم کمرے میں تھی ۔ اس کے
دونوں ہاتھ نائیلون کی رسی سے پشت پر بندھے ہوئے تھے۔ فرش پر ایک فوم پڑا تھا اور کونے
میں الماری رکھی تھی ۔ ثروت کا سر بھاری ہو رہا تھا اور جی متلا رہا تھا۔ اس نے مدد کے لیے
پکارنا شروع کیا اور بند دروازے کو ٹھوکریں ماریں۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور واجی اندر آ گیا۔ اس نے ثروت کو دھکیل کر فوم پر پھینکا اور چاقو نکال کر اسے دھمکایا۔ اس کے ساتھ ہی بولا کہ وہ جتنا مرضی چلا لے، یہاں دور دور تک اس کی آواز سننے والا اور کوئی نہیں۔ ثروت کے ہاتھ رسی کی سخت بندش سے نیلے ہو رہے تھے۔ واجی نے چاقو کی مدد سے رسی کاٹ دی۔ ثروت نے اس کی منت سماجت کی۔ اس سے معافی مانگی۔ اس سے کہا کہ وہ اسے جانے دے۔ واجی نے جواب میں کہا کہ وہ گندی نسل کا ہے اور اس کا تھوڑا بہت ثبوت
دیئے بغیر وہ اسے یہاں سے جانے نہیں دے گا۔ ثروت نے روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ۔ وہ بولا ۔ میں بھی تو ایک
سال سے تمہارے آگے پیچھے پھر رہا ہوں۔ تمہاری منت ترلا کر رہا ہوں لیکن تم ٹس سے مس نہیں ہوتی ہو۔ جس کے ساتھ گل چھرے اڑاتی ہو، اس میں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو ہم میں نہیں ہیں۔ باقی میں نے تمہیں یہاں رکھنا نہیں ہے۔ چھوڑ دینا ہے لیکن
چھوڑنے سے پہلے تھوڑی سی سزا ضرور دینی ہے۔“
ان باتوں کے دوران میں ہی اچانک کہیں آس پاس پولیس گاڑی کا سائرن سنائی دیا۔ واجی کے چہرے پر رنگ سا آ کر گزر گیا۔ وہ تیزی سے باہر نکلا اور نکلتے ہوئے دروازے کو باہر سے لاک کر گیا۔ تاہم وہ ثروت کے ہاتھ دوبارہ نہیں باندھ سکا تھا۔ کسی ساتھ والے کمرے سے اس کی آواز آئی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ پھر وہ سارے افراتفری میں کہیں چلے گئے ۔
ثروت مدد کے لیے زور زور سے چلاتی رہی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں پولیس کی گاڑی اسے ڈھونڈے بغیر آگے نہ نکل جائے ۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ثروت کی مدد کے لیے کوئی نہیں آیا ۔ گاڑی غالباً آگے نکل چکی تھی۔ ثروت کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ لاہور میں ہے یا لاہور سے باہر اور یہ کون سی جگہ ہے۔
جب دروازہ پیٹ پیٹ کر اس کے ہاتھ زخمی ہو گئے اور چلا چلا کر گلا بیٹھ گیا تو اس کو یوں لگنے لگا کہ شاید ارد گرد کوئی موجود نہیں مگر اس کی چھٹی جس کہہ رہی تھی کہ کوئی موجود ہے۔ بس دم سادھے بیٹھا ہے۔ شدید پریشانی اور ہر اس کے باوجود ثروت اپنا دماغ استعمال کرنے لگی تھی ۔ وہ مسلسل سوچ رہی تھی کہ اس کمرے سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔ کمرے کی اکلوتی کھڑکی
سے باہر آہنی گرل لگئی تھی اور کسی اسٹور نما تاریک کمرے کی جھلک نظر آتی تھی ۔ اٹیچ باتھ روم میں بھی ایک چھوٹی کھڑ کی موجود تھی اور وہاں بھی مضبوط آہنی گرل لگی تھی ۔
ثروت نے الماری کھولی ۔ وہاں سے اسے چھوٹے دستے کی ایک ہتھوڑی مل گئی۔ وہ اس ہتھوڑی کے ساتھ کمرے کی کھڑکی کی گرل پر ضربیں لگانے لگی ۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اس آہنی گرل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ تاہم اسے اُمید تھی کہ اگر کوئی باہر موجود ہوا تو اس حرکت کے بعد سامنے ضرور آئے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دروازے کا تالا کھلنے کی آواز آئی ۔ ثروت نے ہمت کی اور دروازے کے بالکل پاس کھڑی ہو گئی۔ ایک شلوار قمیص والا شخص رائفل بدست اندر داخل ہوا۔ ثروت نے اندھا دھند اس کے سر کے پچھلے حصے پر ہتھوڑی کی ضرب لگائی۔ اس ایک ضرب نے ہی جواں سال شخص کو زمین بوس کر دیا۔ یہ کوئی پٹھان چوکیدار تھا۔ ثروت اس کی طرف دیکھے بغیر باہر بھاگی۔ یہ ایک فیکٹری تھی۔ تین چار نا مکمل بسیں یہاں وہاں کھڑی تھیں ۔ ثروت کاٹھ کباڑ کے درمیان بھاگتی گیٹ تک پہنچی اور باہر نکل آئی۔ اسے اندازہ ہوا کہ وہ جی ٹی روڈ پر لاہور کے مضافات میں ہے۔ یہاں سے ایک خدا ترس کار والے نے اسے لفٹ دی اور راوی کے پل تک پہنچا دیا۔ وہاں سے رکشہ پکڑ کر وہ میرے پاس پہنچ گئی۔
میں نے ثروت کی یہ ساری رو دادسنی۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے، وہ اس نے من وعن مجھے بتا دیا ہے۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں مسلسل آنسو رواں رہے۔ جب غنڈوں نے اسے اسٹیشن وین میں ڈالا تو ثروت کے جسم پر کئی خراشیں آئی تھیں۔ اس کی پنڈلیوں سے ابھی تک خون رس رہا تھا۔ اس کی یہ خونی خراشیں دیکھ کر میرا دل ہول گیا۔ میری نگاہوں میں واجد عرف واجی کا منحوس چہرہ گھومنے لگا ۔ جی چاہا کہ میرے پاس پستول ہو اور میں اس کو گولیوں سے چھلنی کر دوں ۔ شدید طیش کے عالم میں مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ بدن لرزتا تھا اور سینے میں دھڑکن کے گولے پھٹتے تھے۔
دماغ بہت کچھ کرنے کو چاہتا تھا مگر جسم ساتھ دینے سے انکار کر دیتا تھا۔ اس وقت بھی کچھ یہی عالم تھا۔ ہمیں گاڑی میں بیٹھے پندرہ بیس منٹ ہو چکے تھے۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کر کے واپس گھر کی طرف موڑ دی۔ دس منٹ بعد ہم گھر کے اندر تھے۔
ثروت کو دیکھ کر گھر میں تہلکہ مچ گیا۔ خالہ صفیہ نے اسے گلے سے لگا کر بھینچ لیا اور تشکر کے آنسوؤں سے بھگونے لگیں۔ باقی اہلِ خانہ بھی شدید حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔ ثروت کو اندر کمرے میں پہنچایا گیا۔ اسے پانی وغیرہ پلایا گیا تا کہ وہ نارمل حالت میں آ سکے۔ کمرے میں ہجوم زیادہ ہو گیا تھا۔ خالو جان کے کہنے پر باقی افراد با ہر نکل آئے۔ صرف
خالہ صفیہ، نصرت ، امی اور چچی وغیرہ وہاں رہ گئیں۔
ڈرائنگ روم میں جاکر میں نے خالو اور ناصر بھائی وغیرہ کو تفصیل بتائی کہ ثروت کے ساتھ کیا ہوا ہے اور وہ کس طرح شاہدرے کے قریب ایک فیکٹری سے بھاگ کر یہاں پہنچی ہے۔ یہ انکشاف سب کے لیے تکلیف دہ تھا کہ یہ اسی محلے کے رہنے والے واجی اور قادر
وغیرہ کا کام ہے۔
ناصر بھائی ایک دم آگ بگولا نظر آنے لگے ۔ انہوں نے کہا۔ ” میں جا رہا ہوں ۔ اس
بد معاش کی طرف .... اسے لاش بنا کر ہی واپس آؤں گا ۔“ وہ پستول لینے کے لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھے۔ ہم سب نے انہیں بمشکل روکا۔ خالو جان نے کہا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری بچی صحیح سلامت واپس آگئی ، اب ہمیں قانون کو
اپنے ہاتھ میں لے کر معاملے کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ ہم جو کریں گے قانون کے مطابق
کریں گے۔ ہم ابھی تھوڑی دیر میں تھانے جاتے ہیں ۔
خالو جان نے ایک دو جگہ فون کیے۔ میں نے بھی اپنے دوست زبیر کو بلا لیا۔ ہم تھانے پہنچے اور متعلقہ تھانیدار اشرف ساہی کو تفصیل کے ساتھ ساری بات بتائی۔ تھانیدار یہ سب کچھ ثروت کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ ثروت کا بیان لینے کے لیے وہ اس وقت ہمارے ساتھ گھر
جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
میں نے کہا۔ جناب ! ابھی وہ شاک کی حالت میں ہے۔ اسے سنبھلنے کے لیے تھوڑا سا وقت دیں۔ اس دوران میں آپ اپنی کارروائی شروع کریں۔“
آپ کی یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ پر مجھے قانون قاعدے کے مطابق چلنا ہے۔ کارروائی مغویہ کے بیان کے بعد ہی شروع ہوگی ۔“
مجبوراً ہمیں تھانیدار اشرف ساہی کو گھر لے جانا پڑا۔ میں اس کے پہنچنے سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی گھر پہنچ گیا اور ثروت کو بیان دینے کے لیے تیار کیا۔
تھانیدار کے آنے کے بعد بھی میں، خالو جان اور ناصر بھائی کمرے میں موجود رہے۔ بات کرتے ہوئے ثروت کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ بہر حال اس نے وہ سب کچھ تھانیدار اشرف کے گوش گزار کر دیا جو دو اڑھائی گھنٹے پہلے مجھے بتایا تھا۔
تھانیدار اشرف ساہی نے پوچھا۔ ” آپ نے واجد عرف واجی کو خود دیکھا ہے مگر اس کے ساتھیوں کے بارے میں آپ کس طرح کہہ سکتی ہیں؟“
میں نے ان کی آوازیں سنی ہیں جی میں قادر اور ایک دوسرے لڑکے شکیل کی
آواز اچھی طرح پہچانتی ہوں ۔“
تنگ تو آپ کو واجی کرتا تھا۔ دوسرے لڑکوں کی آواز یں آپ کیسے پہچانتی ہیں؟“ میں نے کہا۔ جناب! آپ وقت ضائع کرنے والے سوال کر رہے ہیں ۔ وہ دونوں خبیث بھی واجی کے ساتھ ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ سب ایک ٹولی کی شکل میں تھے ۔“ تھانیدارا شرف نے گھور کر مجھے دیکھا ۔ تو جب یہ لوگ ان کو تنگ کرتے تھے آپ آس
پاس ہی ہوتے تھے؟“ میں ایک دم گڑ بڑا یا پھر سنبھل کر بولا ۔ ایک دو بار ایسا ہوا ہے کہ ہم ریسٹورنٹ میں
اکٹھے چائے پینے گئے اور یہ لوگ آدھمکے ۔“ تھانیدار نے اپنے سوالات کا رخ خوامخواہ میری اور ثروت کی طرف موڑ دیا۔ خالو عثمان اسے بمشکل واپس اصل موضوع پر لائے ۔ بیان قلم بند کرنے کے فورا بعد تھانیدار اشرف اپنے عملے کے ساتھ پیدل ہی واجی وغیرہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔ ایک گلی چھوڑ کر یہ ایک دو منزلہ شاندار کوٹھی تھی۔ ہم نے ساتھ جانا چاہا مگر تھانیدار اشرف نے منع کر دیا۔
قریبا ایک گھنٹے بعد پولیس کے اس چھاپے کا نتیجہ سامنے آ گیا اور یہ نتیجہ ہمارے خدشات کے عین مطابق تھا۔ گھر میں فون کی گھنٹی بجی، میں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف
تھانیدار اشرف ساہی خود تھا۔
اس نے خالو عثمان کو بلانے کا کہا۔ میں نے بتایا کہ وہ واش روم میں ہیں۔ تھانیدار اشرف نے کہا ۔ چاروں لڑکے اپنے گھروں سے غائب ہیں۔ ہم انہیں ان کے دوسرے ٹھکانوں پر ڈھونڈ رہے ہیں ۔ شام تک پوزیشن صاف ہو جائے گی جو چوکیدار زخمی ہوا تھا ، اس کا کچھ پتا نہیں چلا ؟“ ۔
ابھی تک نہیں ۔ بہر حال ہم رابطے میں رہیں گے ۔ جیسے ہی کوئی خبر ملی آپ لوگوں تک
پہنچ جائے گی۔“ میں نے فون پر بات ختم کی ہی تھی کہ اندر سے خالہ صفیہ کی آواز آئی۔ وہ مجھے بلا رہی تھیں۔ میں اندر پہنچا۔ امی اور چچی کے علاوہ محلے کی ایک دو عورتیں بھی بیٹھی تھیں۔ خالہ صفیہ
نے پوچھا۔ ”کس کا فون تھا ؟“ پولیس اسٹیشن سے تھا۔ انسپکٹر بتا رہا تھا کہ ہم لڑکوں کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔
خالہ صفیہ نے اشک بار انداز میں کہا۔ " تابش ! مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے۔ یہ اچھے لوگ
نہیں ہیں۔ پیسے والے بھی ؟ ہیں۔ ان سے دشمنی پڑ گئی تو جینا مشکل ہو جائے گا۔
چچی کلثوم نے تنک کر کہا ۔ ہائے ہائے کیسی بات کرتی ہو آپا! اب جس پر ظلم ہوا ہے
وہ بولے بھی نہ۔ پھول سی بچی تھی ہماری "
تھی " کے لفظ چچی نے اس طرح ادا کیے کہ میرے دل پر گھونسہ سا لگا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ، ایک محلے دار عورت بول پڑی ۔ ایسے لوگوں پر تو کتے چھوڑ دینے چاہئیں ۔ زندہ گاڑ دینا چاہیے۔ عورت کے پاس عزت آبرو کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ ہائے
ظالموں کو ذرا ترس نہ آیا۔ چچی نے بڑے تاسف سے ثروت کو سر تا پا دیکھا ۔ بچی کو زخم زخم کر کے رکھ دیا ہے۔ بھلا کیا قصور تھا؟ یہی ناکہ ان بد معاشوں کے منہ لگنا نہیں چاہتی تھی۔ اس جرم کی اتنی بڑی سزا ؟
موت جو گوں نے ساری عمر کا رونا پلے باندھ دیا ہے ۔“
ہمدردی کے اس انداز نے ثروت کو سر جھکا کر سسکنے پر مجبور کر دیا۔
ثروت کی چھوٹی بہن نصرت نے جھلا کر کہا۔ ” چچی! کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ خدا کا
شکر کرنا چاہیے کہ آیا صیح سلامت گھر واپس آگئی ہیں ۔ اللہ نے ہم پر کرم کیا ہے ۔“ اللہ کے کرم سے تو انکار نہیں ہے بیٹی ! پر اپنے دل کو کیسے تسلی دوں؟ اس کی اُجڑی
پجڑی صورت دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔“ میرا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ میں نے دبے دبے طیش سے کہا۔ " چی ! آپ سب لوگ کچھ
دیر کے لیے باہر بیٹھ جائیں ۔ اسے ذرا آرام کرنے دیں ۔“
چچی نے مجھے گھورا۔ میں پاؤں پٹختا ہوا باہر آگیا۔
ان عورتوں کی باتیں میرے سینے میں تیروں کی طرح لگی تھیں ۔ خاص طور سے چچی کی
باتیں ۔ میں چچی کے مزاج کو اچھی طرح جانتا تھا۔ چچی شروع سے ہی میرے اس رشتے کے
خلاف تھیں ۔ وہ میرے لیے اپنی سگی بھتیجی کولانا چاہتی تھیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے در پردہ کوششیں بھی کی تھیں ۔ اب یہ معاملہ ختم ہو چکا تھا مگر وہ بغض ابھی تک چچی کے دل میں موجود
تھا۔ اب انہیں یہ موقع ملا تھا تو وہ اپنے اندر کی عداوت کو چھپا نہیں پارہی تھیں ۔ بظاہر انہوں .
نے ہمدردی کے بول بولے تھے مگر ان بولوں کے پیچھے جو دشمنی تھی ، وہ زہر قاتل کی تاثیر رکھتی تھی۔
نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ امی جان بھی ثروت کی واپسی کے بعد سے
کچھ چپ چپ ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ ایک آدھ دن مزید یہاں رہیں گی اور ثروت کی دلجوئی کریں گی مگر وہ اگلے ہی روز طبیعت خراب ہونے کا کہہ کر گھر واپس چلی گئیں۔ کہنے
والوں نے درست کہا ہے کہ مارنے والوں کے ہاتھ پکڑے جا سکتے ہیں مگر بولنے والوں کی زبانیں نہیں ۔
اگلے ایک دو روز میں مجھے صحیح معنوں میں اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اگر
کسی لڑکی کے ساتھ ثروت جیسی صورت حال پیش آ جائے تو اس پر کیا بیتی ہے۔ خدا
کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ ثروت جیسے گئی ویسے ہی واپس آگئی تھی مگر ارد گرد
کے لوگ یہ بات ماننے کے لیے دلسے تیار نہیں تھے۔
ثروت کے گھر میں اگلے روز میں نے پھر ایک عورت کو اس طرح کی بات کرتے سنا۔ یہ بھی کوئی محلے دار ہی تھی ۔ شکل سے پڑھی لکھی لگتی تھی اور اپنی طرف سے اظہار ہمدردی کے لیے تشریف لائی تھی۔ اس نے رونی صورت بنا کر ثروت کو گلے سے لگایا اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے کے بعد خالہ صفیہ سے بولی ۔ میں تو کہتی ہوں بہن کہ ظلم سہہ کر چپ رہنا بھی گناہ ہے۔ آپ اس معاملے کی پوری پیروی کریں۔ بچی کا ڈاکٹری معائنہ کرایا ہے
آپ نے؟“ نصرت نے سٹپٹا کر کہا۔ "آنٹی ! ہم کیوں کرائیں ڈاکٹری معائنہ۔ کیوں اپنی بے عزتی کا اشتہار دیواروں پر لگا ئیں؟ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اللہ نے بڑا کرم ہے ہمارے اوپر “
ہاں بیٹی ! یہ تو بڑا کرم ہے کہ یہ زندہ سلامت واپس آگئی ہے مگر ان بد معاشوں نے جو
کیا ہے اس کی سزا تو انہیں ملنی چاہیے نا۔ لڑکی ایک رات گھر سے باہر رہ آئے تو اس بیچاری کے پلے کیا رہ جاتا ہے ۔ ابھی پچھلے سال کی بات ہے، ڈیفنس میں ہماری برادری کی ایک لڑکی تھی۔ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ بیچاری یتیم تھی، پر اس کی ماں پوری ہمت کے
ساتھ ڈٹ گئی۔ کہنے لگی کہ ہمارے ساتھ تو جو ہونا تھا ہو گیا، پر اب ان غنڈوں کو پھانسی تک ضرور پہنچائیں گے۔ پتا نہیں اور کتنوں کا بھلا ہو جائے گا اس سے ۔ اب وہ دونوں غنڈے جیل میں ہیں۔ ان میں سے ایک کو تو سیشن کورٹ سے پھانسی کی سزا ہو چکی ہے ۔“
اس عورت کی گفتگو کے دوران میں ہی نصرت ، ثروت کو لے کر باہر نکل گئی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اس کے چہرے پر شدید جھلاہٹ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
دو روز بعد میں گھر گیا تو امی بجھی بجھی نظر آئیں۔ کیا بات ہے امی ! آپ چپ ہیں؟“ میں نے ناشتے کی میز پر
پوچھا۔ کچھ نہیں بس وہی ثروت کی طرف بار بار دھیان چلا جاتا ہے۔ اچھی بھلی ہنستی کھیلتی لڑکی تھی ۔“
کوئی بات نہیں امی ! پھر اسی طرح ہو جائے گی۔ ابھی تو شاک میں ہے نا ۔
اسی طرح کہاں ہوا جاتا ہے تابش ! جب اس طرح کی بات ہو جائے تو پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے ۔ امی نے طویل آہ بھر کر کہا۔ پھر وہ اُٹھیں اور الماری میں سے ایک دن پہلے کا اخبار نکالا ۔ اخبار والے نے حسب روایت ثروت والی خبر کو خوب مرچ مسالا لگا کر بیان کیا تھا۔ ثروت کی ایک پرانی تصویر بھی موجود تھی جو نہ جانے کہاں سے حاصل کی گئی تھی۔ اس تین کالمی خبر کی سرخیاں پڑھ کر ہی میری رگوں میں انگارے سے بھر گئے ۔ خبر نویس نے خبر کو دلچسپ اور سنسنی خیز بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی۔ خبر کے آخر میں پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ مذکورہ فیکٹری کے ایک کمرے سے امپورٹڈ سگریٹ، انڈین شراب کی دو بوتلیں اور مووی کیمرہ وغیرہ بھی ملا ہے۔ ان شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ چاروں ملزمان مغویہ کی ویڈیو بنانے کا ارادہ رکھتے تھے
اور ممکن ہے کہ یہ ویڈیو بنائی بھی گئی ہو۔ اس قسم کی اور بھی کئی باتیں خبر میں موجود تھیں ۔ میں نے اخبار کو پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا اور ناشتہ کیے بغیر باہر نکل گیا۔ امی بھی
میری کیفیت دیکھ کر گم صم کھڑی رہیں ۔
آج تھانیدار اشرف نے خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ کو مشورے کے لیے تھانے بلایا تھا۔ میں بھی اپنے دوست زبیر خان کو لے کر پہنچ گیا۔ تھانیدار شرف سے کسی اچھی خبر کی توقع نہیں تھی اور ایسا ہی ہوا۔ پتا چلا کہ چاروں ملزمان میں سے ابھی تک کسی کا کھوج نہیں ملا ہے۔ دو تین پولیس پارٹیاں مختلف علاقوں کی طرف روانہ کی گئی تھیں جو نا کام واپس آئی تھیں ۔ آخر میں تھانیدار اشرف نے سگریٹ سلگاتے ہوئے خالوعثمان سے کہا۔ عثمان صاحب ! کل ایک ایم این اے صاحب کا فون آیا ہوا تھا۔ ایم این اے مشاق گورا یا صاحب کا نام تو سنا ہو گا آپ
"نے؟
خالو عثمان نے اثبات میں سر ہلایا اور ان کا پریشان چہرہ کچھ مزید پریشان نظر آنے لگا۔ تھانیدار اشرف نے کہا ۔ ایم این اے صاحب کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ مزید نہ بگڑے۔ وہ مانتے ہیں کہ لڑکوں سے ایک بڑا جرم ہوا ہے۔ اپنی بیوقوفی سے انہوں نے قانون کو پیچھے لگا لیا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بچی صحیح سلامت گھر واپس پہنچ گئی ہے۔ اس صورت حال میں اگر
کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جائے تو دونوں پارٹیوں کے لیے بہتر ہوگا۔ ناصر بھائی نے چیخ کر کہا۔ انسپکٹر صاحب! یہ کوئی زمین کے ٹکڑے کا جھگڑا نہیں جس میں دو پارٹیاں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ یہ اغوا کا سنگین ترین جرم ہے۔ ایم این اے صاحب
اس کا درمیانی راستہ کیا نکالیں گے۔ کیا ہمیں کوئی معاوضہ دیں گے؟ خدا کا خوف کرنا چاہیے انہیں۔ ہماری جو بدنامی ہوئی ہے اور ہم جس اذیت میں ہیں، اس کا مداوا کوئی نہیں ہے۔ اگر کوئی تھوڑا بہت مداوا ہے تو یہی ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف ہو ۔ واجی اور اس کے یاروں کو
ان کے کیے کی پوری سزا ملے۔“ تھانیدار اشرف کا گندمی چہرہ ایک دم سرخ ہوا پھر وہ ذرا تحمل سے بولا ۔ دیکھو برخوردار! مجھے تمہارے دُکھ کا احساس ہے لیکن مصیبت کے وقت عقلمندی اور
حو صلے سے کام نہ لیا جائے تو مصیبت اور بڑھ جاتی ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قانونی کارروائی تو ہو ہی رہی ہے، تم لوگ اپنے سامنے راستے بھی کھلے رکھو۔ تمام راستے بند نہیں کرنے چاہئیں ۔“ میں نے کہا۔ انسپکٹر صاحب ! اس طرح تو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ یہ چاروں لڑکے
کہیں ایم این اے صاحب کے پاس ہی پناہ نہ لیے ہوئے ہوں ۔“ بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔ ناصر بھائی نے فوراً کہا۔ ” اور لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ ایسے میں ہم ایم این اے صاحب سے بات چیت کریں گے تو بیوقوف ہی کہلائیں گے نا۔“
تھانیدار اشرف کا چہرہ ایک بار پھر سرخ ہو گیا ۔ وہ خالو عثمان سے مخاطب ہو کر بولا۔ دیکھو عثمان صاحب ! آپ کے یہ لڑکے ہر بات کو الٹا لے رہے ہیں۔ آپ ان کو سمجھائیں ور نہ معاملہ خراب بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے اس لیے یہ باتیں کہہ رہا ہوں۔ سیٹھ سراج کو پتا ہے کہ ان کے بچے سے جرم ہوا ہے، اس لیے ان کی نظر نیچی ہے لیکن جب ان کو اپنے بچے کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی تو ان کا رویہ بدل جائے گا۔ وہ مثال تو آپ نے بھی سنی ہوگی کہ بلی کو جب اپنے بھاگنے کا کوئی رستہ نظر نہ آئے تو وہ گھیر نے والے کی آنکھوں کی طرف آتی ہے۔ میں خدانخواستہ آپ کو ڈرا نہیں رہا ہوں، صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملے کے ہر پہلو پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں ۔“
میں نے کچھ کہنا چاہا مگر خالو عثمان نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر منع کر دیا۔ یہ بات عیاں ہوتی جا رہی تھی کہ تھانیدار اشرف ساہی مخالف پارٹی کا اثر قبول کر رہا ہے۔ یہ اثر دباؤ
کی شکل میں ہو سکتا تھا اور لالچ کی شکل میں بھی ۔
گھر میں بھی عجیب تناؤ کی سی کیفیت تھی۔ یہ چوتھے یا پانچویں روز کی بات ہے، امی جان نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔ میری چھوٹی بہن فرح کالج گئی ہوئی تھی ۔ مجھ سے چھوٹا
عاطف سویا ہوا تھا۔
امی جان کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ کہنے لگیں ۔ ” تابش بیٹا ! پتا نہیں کیوں مجھے
لگتا ہے کہ ہم تیری خالہ صفیہ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نبھا نہیں سکیں گے ۔“
آپ کسی وعدے کی بات کر رہی ہیں ؟“
امی نے مجھ سے نظریں ملائے بغیر کہا۔ ” دیکھو تابش ! صفیہ رشتے میں میری بہن ہے مگر
میں اسے سگی بہنوں کی طرح ہی سمجھتی ہوں۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں ثروت کو دلہن بنا کر
اس گھر میں لاؤں ۔ میں نے لرز کر کہا۔ ” تو اب کیا ہو گیا ہے امی ! کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟ ثروت اس گھر میں دلہن بن کر آئے گی اور ضرور آئے گی؟“ امی نے نفی میں سر ہلایا ۔ تابش ! تو ابھی بچہ ہے، ان باتوں کو نہیں سمجھتا۔ دیکھ جو کچھ بھی تھا۔ اس کے بعد ہمیں بہت . کچھ سوچنا پڑے گا اور ہم نے کون سا
شامیانے لگا کر منگنی کی انگوٹھی پہنائی تھیں۔ بس ایک منہ زبانی بات ہی تھی نا "
امی ! آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کے منہ میں شاید چچی جان کی زبان آگئی ہے ۔ کیا منہ زبانی بات کوئی بات نہیں ہوتی ؟ زبان پر تو لوگ جانیں دے
دیتے ہیں۔ آپ کو اس طرح ہر گز نہیں سوچنا چاہیے ۔“
میں سوچنے پر مجبور ہو رہی ہوں تابش ! ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم یہ رشتہ چھوڑ دیں۔ اب تو ذرا ٹھنڈے دل سے سوچ ۔ تیری چھوٹی بہن ہے، بھائی ہے۔ ہم نے اگلے ایک دو سالوں میں ان کے رشتے بھی ڈھونڈنے ہیں۔ ہم نے ثروت کا رشتہ کر لیا تو ثروت کے ساتھ ہی بدنامی بھی ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لے گی۔ پھر تیری بہن کے لیے یہاں کوئی رشتہ آئے گا اور نہ تیرے بھائی کو ڈھنگ کا رشتہ ملے گا۔
امی جان ! خدا کے لیے خدا کے لیے یہ دقیانوسی باتیں نہ کریں ۔ ثروت ویسی ہی ہے، جیسی دو ہفتے پہلے تھی۔ وہ پاک اور معصوم ہے۔ اس کے ساتھ کچھ نہیں ہوا ہے امی ! اور اگر خدانخواستہ کچھ ہو بھی جاتا تو اس کو معصوم ہی رہنا تھا۔ میں اسے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا
آپ پلیز ایسی باتیں نہ کریں، میرے دل کو کچھ ہونے لگتا ہے ۔
اسی دوران میں ایک ہمسائی ہمارے گھر میں داخل ہو گئی ۔ وہ بھی غالبا ثروت والے واقعے پر ہمدردی جتانے کے لیے آئی تھی۔ مجھے اور امی کو خاموش ہونا پڑا۔ میں چکرایا ہوا سا اپنے کمرے میں آگیا اور بے جان سا ہو کر بیڈ پر گر گیا۔
یہ سب کیا ہو رہا تھا ؟ امی جان کے رویے میں جو تبدیلی تھی وہی تبدیلی میں چھوٹے بھائی عاطف میں بھی دیکھ رہا تھا۔ ہاں چھوٹی بہن فرح کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ وہ ثروت
سے بڑا پیار کرتی تھی۔ بہر حال، اس سانحے کے بعد سے وہ بھی کچھ چپ چاپ ہو گئی تھی ۔ باقی رہے چچا، چچی اور ان کے بچے سو وہ بھی اس رشتے کے حق میں ہوئے ہی نہیں تھے ۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اس طرح کی باتیں کہیں ثروت کے کانوں تک پہنچ گئیں تو وہ بہت زیادہ اثر لے گی میں اس سے ملوں اور اسے ہر طرح اپنی غیر مشروط اور غیر متزلزل محبت کا یقین دلاؤں ۔ یہ یقین ہی تھا جو اسے دُکھ اور مایوسی کے بھنور
سے اُبھرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ میں ابھی ثروت کی طرف جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ بیرونی دروازے پر بیل ہوئی ۔ چھوٹے بھائی عاطف نے باہر جا کر دیکھا اور مجھے بتایا کہ کچھ لوگ مجھ سے ملنے
آئے ہیں ۔
میں باہر پہنچا تو سات آٹھ معز ز صورتوں والے افراد باہر گلی میں کھڑے تھے۔ میں نے ان سے فردا فردا مصافحہ کیا۔ ایک سفید ریش، بھاری تن و توش والے شخص نے کہا۔
میرا نام حاجی فیروز ہے۔ شاہ عالمی بازار میں سیٹھ سراج میرا ہمسایہ ہے۔ یہ باقی
لوگ بھی بازار کے ہی ہیں ۔ ہم آپ سے ملنے آئے ہیں ۔ طوعاً و کرنا میں نے ان حضرات کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ویسے بات میری سمجھ میں آ
گئی تھی کہ یہ حضرات کس لیے تشریف لائے ہیں ۔ جلد ہی مدعا حاجی فیروز کی زبان پر آگیا۔ انہوں نے کہا۔ جو کچھ ہوا ہے، بہت بُرا ہوا ہے۔ ہم سب بہنوں، بیٹیوں والے ہیں۔ اس دُکھ کو بڑی اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں ۔ لیکن ایک طرح سے اللہ کا شکر بھی ہے کہ بچی صحیح
سلامت گھر واپس آگئی ہے۔“ میں نے کہا ۔ حاجی صاحب! یہ بات ہم پہلے بھی بہت دفعہ سن چکے ہیں۔ آپ نے جو
کہنا ہے صاف صاف لفظوں میں کہیں لیکن اگر آپ یہ بات کہنے کے لیے آئے ہیں ہم سیٹھ : سراج اور اس کے بیٹے سے کسی طرح کی صلح صفائی کر لیں ۔ تو یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے۔
میں اس کے لیے آپ سے بہت بہت معذرت چاہتا ہوں ۔
حاجی فیروز نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ دیکھو بیٹا ! تم عثمان صاحب کے ہونے والے داماد ہو۔ اس گھر میں تمہاری بات سنی بھی جاتی ہے۔ عثمان صاحب اور دیگر گھر والے تو
اس وقت زیادہ صدمے میں ہیں لیکن تم انہیں اس معاملے کی اونچ نیچ سمجھا سکتے ہو ۔ اس طرح کے کیس جب کورٹ کچہری تک پہنچتے ہیں تو پھر جگ ہنسائی اور پریشانی کے بہت سارے موقعے نکلتے ہیں۔ پریس کا تو سب کو پتا ہی ہے، وہ ایسے معاملوں کو کس طرح اچھالتا ہے
پھر عدالت میں جرح کے دوران عورت سے جس طرح کے سوال پوچھے جاتے ھیں وہ بھی ہیں
سب جانتے ہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ "آپ اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہیں جی. لیکن کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ شرمندگی اور جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے اس طرح کی ساری مظلوم لڑکیاں اپنی زبانوں کو تالے لگالیں اور ظلم کرنے والے سینہ تان کر دندناتے پھریں اور پوری آزادی کے ساتھ اپنے لیے نئے
نئے شکار ڈھونڈتے رہیں؟“ حاجی فیروز کے ساتھ آنے والے ایک معزز شخص نے شفقت سے میرے کندھے پر ہاتھ دھرتے ہوئے کہا۔ ” تابش بیٹا ! جرم کی سنگین نوعیت سے تو کسی کو انکار نہیں لیکن سیٹھ سراج کا لڑکا عادی مجرم نہیں ہے۔ وہ بس بُری سوسائٹی کا شکار ہوا ہے۔ اگر اسے ایک بار سدھرنے کا
موقع مل گیا تو وہ سدھر کر دکھا دے گا۔“ سزا بھی تو سدھارنے کے لیے ہی ہوتی ہے چاچا جی! میں نے تلخ لہجے میں کہا۔ سزا تو بہت مل رہی ہے، اسے بھی اور اس کے گھر والوں کو بھی لیکن جس سزا کی تم
بات کر رہے ہو، وہ کسی کو سدھارتی نہیں ہے بیٹا جی! جیل میں سے اچھے بھلے لوگ پکے مجرم بن کر باہر نکلتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ تم لوگ بہت بڑی نیکی کرو گے اگر ان لڑکوں کے لیے دل میں کسی طرح کی نرمی پیدا کر لو گے ۔"
میں نے کہا۔ آپ سب مجھ سے زیادہ بڑے اور سمجھدار ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کے لیے یہ موقع مناسب نہیں ہے۔ ہمارے زخم ہرے ہیں۔ آپ ان پر نمک نہ چھڑکیں تو بہتر ہے۔“
یہ بزرگ دس پندرہ منٹ تک مزید میرے پاس بیٹھے ۔ وہ مجھے اس بات پر قائل کرنے
کی کوشش کرتے رہے کہ میں کم از کم ایک بار اپنے خالو عثمان اور سیٹھ سراج کی ملاقات کا اہتمام کر دوں ۔ بہر حال میں کسی نہ کسی طرح ان لوگوں کو رخصت کرنے میں کامیاب رہا۔ شام کو مجھے پتا چلا کہ یہ مصالحتی کمینی خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ سے بھی ملی ہے۔
تھوڑی محبت اور تھوڑے ڈراوے کے ساتھ انہوں نے خالو عثمان کو کیس کی پیرونی سے ہٹانے
کی کوشش کی ہے۔
یہ بڑی تلخ صورت حال تھی۔ ایک گھرانے کو شدید ترین اذیت سے دوچار کرنے کے بعد اب اس کو دباؤ کا شکار بنایا جار ہا تھا۔ میری رگوں میں خون کھول رہا تھا اور پورے جسم میں زہر بن کر پھیل جاتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ نا انصافی کرنے والوں کی گردنوں تک اپنا ہاتھ
پہنچاؤں اور انہیں گھسیٹ کر چوراہوں میں لے آؤں لیکن ایسا کرنے کے لیے جو فطری ہمت اور توانائی درکار تھی، وہ میرے اندر نہیں تھی ۔ اگلے روز صبح گیارہ بجے کے لگ بھگ میں ثروت سے ملنے خالو کے گھر پہنچا۔ مجھے معلوم تھا کہ خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ گھر میں نہیں ہوں گے ۔ خالہ صفیہ کی اجازت سے میں ثروت کے ساتھ چند باتیں کرلوں گا۔ گم صم خالہ سے علیک سلیک کرنے کے بعد میں ثروت کے کمرے میں پہنچا تو وہ چادر اوڑھے لیٹی ہوئی تھی۔ بیڈ پر سر ہانے کی طرف اس کی ایک خوبصورت تصویر آویزاں تھی ۔ یہ گھر کے پھولوں بھرے لان کا منظر تھا۔ وہ ہاف سلیو قمیص میں تھی اور واٹر پائپ کے ذریعے اپنے چھوٹے بھتیجے پر پانی پھینک رہی تھی ۔ پانی کی پھوار کے پیچھے وہ خود کسی جل پری کی طرح نظر آتی تھی۔ ہوا سے اُڑتے بال، کلیوں جیسے دانت اور رخساروں پر ٹھہرے ہوئے پانی ۔ کے
قطرے، جیسے گلاب پر شبنم کا بسیرا ہو۔ کتنی شوخی اور خوشی سمٹ آئی تھی اس ایک لمحے میں اس - کے اندر ۔ یہ میری پسندیدہ تصویر تھی اسی لیے ثروت نے اپنے بیڈ روم میں لگائی تھی۔
ثروت ! میں نے ہولے سے آواز دی۔
وہ سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے چادر اپنے اوپر سے ہٹائی اور سوجی سوجی سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر تحیر نمودار ہوا اور وہ دو پٹہ سنبھالتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے عقب میں پھولوں بھرے لان والی تصویر تھی ۔ کتنا فرق تھا ان دونوں مناظر میں ۔ ایک میں خوشی کا عروج، ایک میں مایوسی اور غم کی انتہا وہ دنوں میں ہی مہینوں کی
بیمار نظر آنے لگی تھی ۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ میں نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔ کیسی ہو ثروت؟
وہ سسکی اور منہ پھیر کر بولی ۔ اب کوئی کسر رہ گئی ہے۔ جو تم نکالنے آئے ہو۔“ کیوں کیا ہوا ؟“ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ جو کچھ ہوا ہے، تمہیں بھی ضرور پتا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری مرضی بھی اس میں
شامل ہو۔ قسم سے ثروت ! مجھے کچھ پتا نہیں ہے۔ کچھ بھی پتا نہیں ۔
کل تمہاری امی کا فون آیا تھا۔ انہوں نے امی سے پتا نہیں کیا باتیں کی ہیں وہ کل شام
سے رورہی ہیں ۔ نہ کچھ کھایا پیا ہے، نہ کسی سے بات کرتی ہیں ۔“ لیکن پتا تو چلے ثروت ! بات کیا ہوئی ہے؟“
تم انجان بنو تو اور بات ہے۔ ورنہ تمہیں بھی اندازہ ہو گیا ہوگا ؟“ ثروت نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اپنے گھٹنوں پر ماتھا ٹیکا اور چہرہ چھپا کر سسکیوں کے درمیان بولتی چلی گئی ۔ میری طرف سے تم آزاد ہو تابش! میں تم پر کوئی روک نہیں لگاؤں گی ۔ نہ گزرے دن یاد دلا کر تم سے کوئی شکوہ شکایت کروں گی ۔ میری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ تمہاری جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ بس مجھے معاف کر دو۔ میں بد نصیب ہوں۔ خود کو تمہارے لائق نہ رکھ سکی ۔ اب جو سزا مجھے ملنی ہے، وہ میں اچھی طرح جان گئی ہوں اور یہ بھی جان گئی ہوں کہ منت سماجت سے یہ سزا معاف نہیں ہوئی ۔ اس لیے میں قبول کرتی ہوں ، سب کچھ قبول کرتی ہوں ۔ وہ روتی چلی گئی ۔
میرا دل کٹ کر سو ٹکڑے ہو گیا۔ میں ثروت کی حساس طبع کے بارے میں بڑی اچھی طرح جانتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی ۔
میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
ثروت ! تم کسی کی باتوں پر نہ جاؤ ۔ شادی میری اور تمہاری ہونی ہے اور یہ ضرور ہو گی۔ بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ امی جان کو بھی وہی کرنا ہوگا جو میں چاہوں گا۔ میں
سب کچھ سنبھال لوں گا ۔“
میرے لیے کس کس سے لڑو گے؟ کس کس کی زبان بند کرو گے؟ میں تمہاری زندگی کو عذاب میں ڈالنا نہیں چاہتی تابش ! تم وہی کرو جو تمہارے بڑے کہتے ہیں۔ اس کا چہرہ بدستور گھٹنوں پر جھکا رہا۔
ایسا نہیں ہو گا ثروت ! اور نہ ہوتا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے میں
تھوڑا سا وقت ضرور لگے گا۔ بس اس تھوڑے سے وقت کو ہم نے ہمت اور حو صلے سے گزارنا ہے تم دیکھنا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔“
میری طبیعت خراب ہے تابش ! اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ پلیز پلیز " میری آنکھوں میں نمی تھی۔ میں اس کے ہاتھ کو تسلی بخش انداز میں تھپک کر باہر آ گیا۔
خاله صفیہ اور نصرت وغیرہ میں سے کوئی میرے سامنے نہیں آیا اور نہ کوئی بات کی۔ میں نے زندگی میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کسی لڑکی کے ساتھ پیش آنے والا اس طرح کا
واقعہ اس کی اور اس کے وارثوں کی زندگی میں اس طرح کا طوفان مچا سکتا ہے۔ میں بہت پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا۔ امی کچن میں تھیں ۔ میرا چہرہ دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔ کیا ہوا
تابی؟ انہوں نے بے چین کر پوچھا۔
یہ تو آپ بتائیں کہ کیا ہوا ہے؟“
میں سمجھی نہیں؟“
آپ نے کل خالہ صفیہ کو فون کیا ہے۔ اس کے بعد سے ان کا رو رو کر برا حال ہے۔“ امی نے محبت سے میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور مجھے ایک طرف کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا
کہ
تابش ! مجھ سے قسم لے لو جو میں نے کوئی ایسی ویسی بات کہی ہو۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ میں ابھی آنہیں سکتی کیونکہ فرح کے پیپر ہو رہے ہیں۔ اس لیے مصروف ہوں ۔ آپ ذرا خود سوچیں امی ! جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے آپ صرف ایک دفعہ خالہ کے گھر گئی ہیں۔ فون بھی آپ نے بس ایک آدھ بار ہی کیا ہوگا ۔ اگر اب خالہ صفیہ نے آنے کا کہا تھا تو آپ چلی جاتیں مگر آپ نے مصروفیت والی بات کہہ دی اور میں سمجھتا ہوں امی کہ بات سے بھی زیادہ وہ لہجہ اہم ہوتا ہے جس میں بات کہی جاتی ہے۔ آپ خود ہی تو کہا کرتی ہیں کہ
تابش ! کوئی بات نہیں ہوئی ۔ امی نے تیزی سے میرا جملہ کاٹا بس صفیہ محسوس زیادہ کر لیتی ہے۔“
اگر آپ کو پتا ہے کہ وہ زیادہ محسوس کرتی ہیں تو پھر آپ کو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے
تھی۔
ان کی ذہنی حالت آج کل جیسی ہو رہی ہے آپ کو بھی پتا ہے ۔“ امی خاموشی سے سبزی بناتی رہیں۔ ان کے چہرے سے ان کی دلی کیفیت کا اندازہ لگانا
مشکل تھا۔ میں نے طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔ امی ! آپ جو بھی سوچتی ہوں لیکن مجھے امید ہے کہ آپ میری مرضی کا خیال رکھیں گی۔ بچپن سے لے کر آج تک میرے لیے ہر چھوٹی بڑی چیز آپ نے ہی پسند کی ہے۔ ثروت کو بھی آپ نے ہی پسند کیا تھا۔ یہ آپ ہی کا
دکھایا ہوا راستہ ہے جس پر میں چل رہا ہوں ۔“ میں اُٹھا اور اپنے کمرے میں آگیا۔ میرے بیڈ پر اخبار پڑا تھا۔ اس میں پھر سیٹھ سراج
کے مفرور صاحبزادے اور ثروت کے بارے میں ایک مختصر خبر موجود تھی ۔ خبر کے آغاز میں ہی یہ خیال آرائی موجود تھی کہ متاثرہ لڑکی "ث" کی دوستی ماضی میں واجد عرف واجی سے بھی ہے
میرا جی چاہا کہ اس اخبار کو جلا دوں ! اور اس کے ساتھ ہی اس دفتر کو بھی جہاں سے یہ
اخبار شائع ہوا ہے
پتا نہیں کہ کچھ نام نہاد صحافی شرفاء کی شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے اتنے
مستعد کیوں ہوتے ہیں؟ میں سوچنے لگا کہ اگر اس اخبار والے کی اپنی بیٹی یا بہن کے ساتھ
اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہوتا تو کیا پھر بھی وہ اسی طرح کی سرخیاں جماتا ؟ میں نے اخبار پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ امی جان تو ایسا نہیں کر سکتی تھیں ۔ یقینا یہ چچی یا چاچا کا کام ہی تھا جو اتنے اہتمام سے یہ اخبار میرے بیڈ پر رکھا گیا تھا۔
کمرہ بند کر کے میں بے قراری سے ٹہلنے لگا۔ ثروت کی ستی ہوئی صورت بار بار آنکھوں کے سامنے آرہی تھی۔ چند ہی روز میں وہ کملایا ہوا پھول ہو گئی تھی ۔ گزرے ہوئے دو سالوں کا ایک ایک لمحہ میرے تصور میں چمکنے لگا۔ پہلی دفعہ میں نے ثروت کو پورے دھیان سے شادی کی ایک تقریب میں ہی دیکھا تھا۔ اسی تقریب میں امی جان نے بھی اسے خاص نظروں سے دیکھا اور میرے لیے منتخب کر لیا۔ خالہ صفیہ اور پھر خالو عثمان وغیرہ سے بات ہوئی اور دونوں طرف سے ”ہاں“ ہوگئی۔ منگنی کی چھوٹی سی تقریب کا بھی ارادہ تھا مگر وہ بہ وجوہ ٹلتا رہا۔ در اصل دونوں گھرانے ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے تھے کہ اس قسم کے کسی تکلف کی
ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ شروع میں ہمارے درمیان جھجک تھی۔ پھر عید کے موقعے پر میں نے ثروت کو ایک خوبصورت ساعید کارڈ بھیجا۔ ثروت نے بھی فرح کے ذریعے مجھے کارڈ ارسال کیا۔
اس کے بعد کبھی کبھی فون پر ہماری مختصر بات ہونے لگی۔ ثروت عام کا لج گرلز کی طرح ایکسٹرا شوخ نہیں تھی۔ اس کی گفتگو میں ایک طرح کا وقار اور رکھ رکھاؤ تھا۔ اس کا یہی انداز مجھے زیادہ اچھا لگا۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ دانائی اور سمجھ بوجھ رکھتی تھی۔ وہ خداداد ذہانت کی مالک تھی۔ انگلش اور اردو کی بے شمار شاعری اسے زبانی یاد تھی۔
دھیرے دھیرے فون پر ہماری گفتگو بے تکلف ہوتی گئی۔ پھر کبھی کبھی ہم گھر سے باہر بھی ملنے لگے ۔ ہمارا ٹھکانا زیادہ تر شیزان ہوٹل یا شاہراہ قائد اعظم کا ایک آئس کریم بار ہوتا تھا ۔ ثروت ایک دھیمی لیکن مسلسل بارش کی طرح میری ذات میں سرایت کرتی چلی گئی۔ ہم نے سرما کی سنہری دو پہروں ، بہار کی خوشبو دار شاموں اور گرما کی چاندنی راتوں میں ایک ساتھ بہت سے خواب دیکھے۔ کبھی کبھی تو ہم مستقبل میں اس قدر کھو جاتے کہ اپنے گھر کا
ڈیزائن اور اندرونی آرائش کی تفصیلات تک طے کرنے لگتے ۔ یہ جیسے کل ہی کی آوازیں تھیں جو میرے کانوں میں گونج رہی تھیں ۔ ہم ریسٹورنٹ کے پر سکون ماحول میں بیٹھے تھے۔ میں نے کہا ۔ مجھے ٹی وی لاؤنجز وغیرہ میں ذرا سا گہرا رنگ
پسند ہے۔“
اس معاملے میں میری پسند تھوڑی سی مختلف ہے۔ ٹی وی لاؤنج یا کامن روم میں مجھے
ایپل وائٹ بڑا اچھا لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ہلکے سبز پر دے ہوں اور فرنیچر میں بھی اس کلر کا ٹچ ہو۔
لیکن یار! یہ ہلکا رنگ گندا بڑی جلدی ہو جاتا ہے، خاص طور سے ٹی وی لاؤنج میں “ تو بندہ ذرا احتیاط کرلے ۔ وہ چائے کی چسکی لے کر مسکرائی۔ بندہ تو احتیاط کر لیتا ہے اور کرے گا بھی لیکن بچوں کا کیا کیا جائے ۔ یہ تو چند ہفتوں بلکہ دنوں میں گلکاریاں کر دیتے ہیں ۔ میں نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ اس کے چہرے پر شفق کا رنگ لہرا گیا۔ اس نے پریشان نظروں سے دائیں بائیں دیکھا۔ پھر سنبھل کر بولی ۔ بچوں کو سکھایا جائے تو وہ سب کچھ سیکھ جاتے ہیں۔ یہ بڑے ہی
ہوتے ہیں جن کی عقل میں کوئی بات نہیں آتی ۔“
اگر بڑوں سے مراد میں ہوں ، تو میں نے کون سی ایسی بے عقلی کی ہے؟“ کوئی ایک ہو تو بتاؤں ۔ ہر وقت تو ستاتے ہو ۔ وہ ہلکی سی شوخی سے بولی ۔
میرے لہو میں میٹھا میٹھا درد جاگ اُٹھا ۔ اچھا کوئی ایک بے عقلی تو بتاؤ ۔ میں نے
لطف لینے والے انداز میں کہا۔ ایک بے عقلی تو جناب اب بھی فرما رہے ہیں ۔ ہزار دفعہ کہا ہے کہ ریسٹورنٹ میں بولا کرو۔
آہستہ زیادہ آہستہ بولنے سے بھی لوگ شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ لوگوں کا تو کام ہی شک کرنا ہے۔“
یہ اور اس طرح کی بہت سی آوازیں میرے کانوں میں گونجنے لگیں۔ میں کمرے میں
ٹہلتا رہا اور سوچتا رہا۔ وہ پہلے والی ثروت کتنے عرصے میں واپس لوٹے گی اور لوٹے گی بھی یا
نہیں میری رگوں میں اندھیرا سا اُترنے لگا۔ میں جانتا تھا کہ وہ بہت حساس ہے۔ اندر
سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔ اس کے ارد گرد جو سر گوشیاں اُبھر رہی تھیں، وہ اسے مزید توڑ پھوڑ
رہی تھی۔
واجی اور اس کے تینوں دوست ابھی تک لاپتا تھے ۔ ان کالا پتا ہونا بھی ہماری مایوسی میں
اضافہ کر رہا تھا اور اس سے بھی بڑی مایوسی یہ تھی کہ مقامی پولیس کا رویہ حوصلہ شکن تھا۔ تھانیدار
اشرف واضح طور پر ملزم پارٹی کی سائیڈ لے رہا تھا۔ مجھے پتا چلا تھا کہ کل خالو عثمان اپنے
دوست وہاب صاحب کے ساتھ تھانیدار اشرف سے ملنے گئے تو اس کے اے ایس آئی نے
ان سے درشت لہجے میں بات کی اور ڈیڑھ گھنٹہ باہر بٹھائے رکھا۔ بعد میں بتایا کہ اشرف
صاحب ایک ضروری میٹنگ میں چلے گئے ہیں۔
میں رات آخری پہر تک جاگتا رہا اور اپنی ہی سوچوں سے نبرد آزما رہا۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے معاشرے میں کمزور آدمی کو انصاف حاصل کرنے کے لیے برف اور آگ کے سات سمندروں میں سے کیوں گزرنا پڑتا ہے؟ وہ مظلوم و مضروب ہو کر بھی ڈرتا کیوں ہے؟ کیوں ہر دستک پر چونکتا ہے، کیوں ہر فون بیل پر اس کا دل ہولتا ہے؟ عدل کی زنجیر
ہلانے سے پہلے اس کے ناتواں ہاتھ کیوں کا نپ کانپ جاتے ہیں؟ اگلے روز میں ایک دفتر میں نوکری کے لیے انٹرویو دے کر واپس آ رہا تھا۔ گاڑی عاطف لے کر گیا ہوا تھا اس لیے میں پیدل ہی تھا۔ علامہ اقبال ٹاؤن کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا ، ہوٹل ذیشان کے سامنے سے نکلا تو ایک شخص نے آواز دے کر مجھے بلایا ۔ سنو بھائی
جان !
میں نے بائیں طرف دیکھا، ہوٹل کی پارکنگ میں ایک چمچھاتی ہنڈا گاڑی کے قریب اس کا ڈرائیور کھڑا تھا۔ وہ تیزی سے میرے قریب آیا۔ صاحب بلا رہے ہیں ۔“ اس نے
اپنے عقب میں اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
میں نے دیکھا اور چونک گیا۔ یہ سیٹھ سراج تھا۔ یہ سیاہ گاڑی بھی اس کی تھی۔ سیٹھ سراج
سفید لٹھے کی کھڑکھڑاتی شلوار قمیص میں تھا۔ وہ ایک لحیم شحیم شخص تھا تاہم جسم کے مقابلے میں سر کافی چھوٹا تھا۔ گھنگریالے بالوں میں خوب تیل لگا کر رکھتا تھا۔ میری معلومات کے مطابق یہ
شخص چٹا ان پڑھ تھا۔ میں چند لمحے تذبذب میں رہنے کے بعد اس کے پاس پہنچا۔ اس نے مجھ
سے مصافحہ کیا اور بتیسی دکھا کر بولا ۔ ” تمہارا نام تابش ہے نا؟“ جی فرمائیے ۔“ میں نے کہا۔
میں تم سے ملنا چاہتا تھا۔ یہ اچھا اتفاق ہے کہ تم سے ملاقات ہو گئی ۔ وہ گلابی اردو
میں بولا ۔
" کہیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“
یہاں کھڑے کھڑے کیا خدمت ہو سکتی ہے باؤ جی ! تم سے ایک بہت ضروری گل
کرنی تھی۔ اگر تمہارے پاس ٹائم ہے تو آؤ ذرا دو منٹ اندر بیٹھ جاتے ہیں ۔ لیکن میں ذرا جلدی میں تھا۔ دراصل .
یار باؤ! یہ دراصل ، لیکن، چنانچہ اگر مگر سب بیکار کے لفظ ہیں ۔ بس دومنٹ کی بات
ہے۔ چائے کا ایک کپ پیتے ہیں ۔ پھر تم چلے جانا ۔ اس نے اپنا بھاری بھر کم ہاتھ دوستانہ انداز میں میرے کندھے پر رکھ دیا۔ چارونا چار میں سیٹھ سراج کے ساتھ چلتا ہوا ہوٹل کے نیم گرم ڈائننگ ہال میں آ گیا۔ اس ہوٹل کی اندرونی سجاوٹ گاؤں کے انداز کی تھی۔ یہاں جدید کھانوں کے علاوہ دیہات کے سارے پکوان بھی ملتے تھے۔ ہم رنگین پایوں والی نواڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ جی کہیں آپ کو کیا کہنا ہے؟“ میری سنی ان سنی کرتے ہوئے سیٹھ سراج نے بیرے کو بلایا اور کہا۔ بس وہی روز
والا لیکن ڈیل بیرا ادب سے جھک کر واپس چلا گیا۔ سیٹھ سراج ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا۔ میں نے کئی بار چاہا کہ وہ کام کی بات کی طرف آ جائے مگر وہ ٹالتا رہا۔ یہاں تک کہ کھانا آ گیا ۔ کھانا کیا تھا ، سات آٹھ آدمیوں کی خوراک تھی ۔ چھوٹے پائے ، روسٹ مچھلی ، بانڈی گوشت ، کنہ گوشت اور پتا نہیں کون کون سے گوشت ۔ ساتھ میں نمکین لسی سے بھرا ہوا جگ اور تندوری
پر اٹھے وغیرہ ۔
سیٹھ سراج کے بے حد اصرار پر میں نے چند لقمے لیے۔ میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اس بھینسے کا لنچ جلد ختم ہو اور میں اس سے جان چھڑا کر باہر نکل سکوں ۔ کھانے کے بعد نیپکن سے ہاتھ اور ٹھوڑی وغیرہ صاف کرنے کے بعد سراج نے دو طویل ڈکاریں لیں اور اچانک بولا ۔ یار باو تم شکل سے سمجھدار لگتے ہو۔ تم ہی اس معاملے کا کچھ کرو۔ منڈوں سے گھلتی ہوگئی ہے، پر ہر گھلتی کی کوئی مافی تلافی بھی تو ہوتی ہے نا۔ کورٹ کچہری میں جائیں گے تو ساروں کی بدنامی ہو گی اور لڑکی کی زیادہ ہوگی ۔ وہ جیسے عثمان صاحب کی دھی ہے، ویسے ہی
میری بھی دھی ہے۔ ہم اس بات کو اور بڑھانا نہیں چاہندے۔“ بات تو اب بڑھ چکی ہے سیٹھ جی ! جو بد نامی اب ہو رہی ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا
ہونی ہے۔
باقی رہی معافی تلافی والی بات تو اس کا آپ لڑکی کے وارثوں سے پوچھیں ۔“ پر تم اس گھر کے ایک اہم بندے ہو یار بہاؤ ! تم کرنا چاہو تو بہت کچھ کر سکتے ہو۔ اپنے
خالو صاحب کو بہت کچھ سمجھا سکتے ہو۔ بدلے میں تم جو کام مجھ سے لینا چاہو میں حاضر ہوں۔ اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے باؤ یار! وہ وڈے وڈیرے کہتے ہیں نا کہ ایک ہتھ دوسرے ہتھ کو
دھوتا ہے
میرا خون کھول اُٹھا لیکن میں بولا کچھ نہیں ۔ سیٹھ سراج طاقت کے زعم میں مجھے اپنی راہ
پر لانا چاہ رہا تھا۔ اسی دوران میں سیٹھ کے ڈرائیور نے موبائل فون اس کی طرف بڑھایا۔ تہاڑی کال اے جی ۔ ان دنوں موبائل فون کم لوگوں کے پاس تھے۔ سیٹھ سراج نے کال اٹینڈ کی ۔ ڈرائیور اٹین شین حالت میں پاس ہی کھڑا رہا۔ سیٹھ سراج کچھ دیر تک کال سنتا رہا اور ہوں ہوں کرتا رہا۔ آخر میں بولا ۔ ” تم فکر نہ کرو ڈاکٹر صاحبہ! ہمارے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہو سکتا۔
میں ابھی انتظام کرتا ہوں ۔“ فون بند کر کے اس نے ایک اور نمبر ملایا پھر بولا ۔ ایم این اے صاحب سے بات کراؤ۔ چند لمحے بعد ایم این اے مشتاق گورایا سے اس کی بات چیت شروع ہوئی ۔ ” او جی کوئی سفارشی ٹٹو آ گیا ہے گورا یا صاحب ! ڈاکٹرنی کی نوکری پکی ہوگئی تھی۔ اب اسے پیچھے ہٹا
کر اپنی کسی پھوپھی چاچی کو آگے لانا چاہندا اے۔ آپ نے یہ کام نہیں ہونے دینا ہے کسی بھی طرح ٹھیک ہے ہاں جی ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے۔ میں خود جاؤں گا ۔ سلاماں لیکم ۔
گفتگوختم کرنے کے بعد اس نے آدھا گلاس لسی پی اور مونچھیں صاف کر کے بولا ۔ یہ
اپنے گورا یا صاحب بڑے کام کے بندے ہیں۔ اپنے شہر کی ساری نہیں تو آدھی نوکریوں پر ضرور ان کا زور چل جاتا ہے ۔ پھر وہ ذرا چونک کر خاموش ہوا اور بولا ۔ ہاں ... مجھے ایک
دن عثمان صاحب سے پتا چلا تھا کہ تم بھی نوکری شوکری ڈھونڈ رہے ہو؟ میں خاموش رہا۔
وہ بولا ۔ " آج کل گورا یا صاحب کا ہتھ بہت آگے تک جا رہا ہے۔ اگر تم کہو تو میں آج
ہی تمہارے بارے میں ان سے گل کرتا ہوں ۔“ مجھے ایسی سیاسی نوکری نہیں چاہیے جی جو اگلے الیکشن کے بعد چھوڑنی پڑے۔ اب
مجھے اجازت دیں۔ کھانے کے لیے بہت شکریہ۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا۔
یار باؤ ! تم بڑے روکھے بولتے ہو۔“
بس میں ایسا ہی ہوں ۔ دراصل ..
پھر وہی دراصل تمہیں کہا ہے نا یہ دراصل لیکن اگر مگر بولنے والے بندے مجھے زہر لگتے ہیں ۔ سیدھی سیدھی گل کرنی چاہیے ۔“
کیا سیدھی سیدھی گل کروں؟“ تم اس ماملے میں کچھ کر سکتے ہو یا نہیں؟“
جی نہیں ۔
جی بھی اور نہیں بھی۔ تم دوغلی گل کر رہے ہو اور دوغلی گل کرنے والے بندے چنگے نہیں ہوتے ۔ اس نے عجیب لہجے میں کہا۔ اس کی تیل سے چپڑی ہوئی تنگ پیشانی کے نیچے
اس کی آنکھوں میں دو چنگاریاں سی چمکیں ۔
اس سے پہلے کہ میں جواب میں کچھ کہتا، وہ اپنے ڈرائیور سے بولا ۔ ” چلو فتح محمد۔۔۔۔۔ ہیرے کو لمبی ٹپ دیتا ہوا وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ میں دوسرے دروازے سے بغلی
سڑک پر آگیا ۔ :
سات آٹھ روز اسی طرح گزر گئے ۔ صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ سوائے اس کے کہ جو دو افراد ثروت کو سڑک سے اُٹھانے والی کارروائی میں شریک تھے، ان کا پتا چل گیا ۔ بادی النظر میں تو یہی پتا چلتا تھا کہ وہ کرائے کے غنڈے ہیں ۔ انہیں اس کام کے لیے پندرہ ہزار روپے فی بندہ دیا گیا تھا۔ پانچ ہزار پیشگی، دس ہزار کام کے بعد ملا
تھا۔ اس کے علاوہ کچھ انعام وغیرہ بھی تھا۔ ان دونوں افراد کے ساتھ تیسرا بندہ واجی کا یار
قادر لمبا خود تھا۔
اسٹیشن وین بھی واجی وغیرہ نے ہی فراہم کی تھی۔ ان دونوں افراد کی نشان دہی پر پولیس نے واجی کے چوتھے ساتھی ابدال کو پکڑ لیا۔ پولیس نے ابدال کو عدالت میں پیش کر
کے اس کا سات روزہ ریمانڈ لیا تھا لیکن ابھی تک اس سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا تھا یا شاید پولیس نے نیک نیتی سے پوچھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی ۔ ابدال کا مؤقف تھا کہ وہ واجی وغیرہ
کا دوست ضرور رہا ہے لیکن مذکورہ واردات میں اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ وہ اپنے ساتھیوں کے
موجودہ ٹھکانے کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکا۔
ان سات آٹھ روز میں ثروت سے بھی میری ملاقات نہیں ہو سکی ۔ ہمارے اپنے گھر
میں بھی صورت حال کچھ کشیدہ ہی تھی۔ امی اور فرح میرے لیے پریشان رہتی تھیں ۔ ایک روز صبح سویرے گھنٹی بجی۔ نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ یہ فون ثروت کے گھر سے ہے اور وہاں سے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
میرا اندیشه درست نکلا ۔ نصرت نے روتے ہوئے بتایا کہ ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور
وہ ہسپتال میں ہیں ۔
یہ تشویشناک صورت حال تھی۔ خالو عثمان کو انجائنا کی ہلکی پھلکی تکلیف تو پہلے سے تھی۔ ڈاکٹر نے انہیں اینجو گرافی کا مشورہ دیا ہوا تھا جسے وہ مسلسل نظر انداز کر رہے تھے۔
ہم بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے ۔ اس وقت تک خالو عثمان اپنے خالق حقیقی سے مل چکے تھے۔ ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں کہرام مچا ہوا تھا۔ خالہ صفیہ بے ہوش تھیں ۔ نصرت ، ثروت اور ان کی پھوپھی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ دیگر عزیز بھی اشک بار کھڑے تھے۔ ثروت کی پھوپھی جان زینب نے مجھے دیکھا تو روتے ہوئے کہا۔ ” میرے بھائی کو بچی
کا دکھ لے گیا۔ اللہ غارت کرے ان بد معاشوں کو انہوں نے میرے بھائی کی جان لے لی۔ ہم کہاں انصاف مانگیں ۔ کس کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں ۔“
خالو عثمان کی تجہیز و تکفین کے دوران میں سکتے کی سی کیفیت میں رہا۔ خالو عثمان کو فجر
کے وقت دل کی تکلیف شروع ہوئی تھی ۔ وہ پہلے تو ہسپتال جانے سے کتراتے رہے پھر جب درد بڑھ گیا تو انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں پندرہ بیس منٹ کے اندر وہ ختم ہو گئے ۔ میں نے خالہ صفیہ اور ناصر بھائی وغیرہ سے بہت پوچھا کہ کوئی ایسی خاص بات تو نہیں ہوئی تھی جس کا خالو نے اثر لیا ہو ۔ انہیں کوئی ایسی بات معلوم نہیں تھی ۔ مگر میرے دل میں نہ جانے کیوں کھٹکا سا تھا کہ ثروت کے حوالے سے ہی کوئی خاص بات ہوئی ہے جس کا دُکھ انہیں پہنچا
ہے۔ میرا دھیان بار بار تھانیدار اشرف ساہی اور سیٹھ سراج وغیرہ کی طرف ہی جاتا تھا۔
خالو عثمان کی وفات کے بعد خالہ صفیہ بھی بستر سے لگ گئیں۔ انہیں مسلسل بخار ہو رہا تھا۔ یہ بڑی پریشانی کے دن تھے۔ ناصر بھائی بینک میں ملازم تھے۔ اپنی ڈیوٹی میں سے وقت نکالنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ نصرت گھر کا کام کاج سنبھالتی تھی ، ثروت خود بیمار ہونے کے باوجود ماں کی تیمار داری میں لگی رہتی تھی ۔ خالو عثمان ایک پرائیویٹ سروس کرتے تھے۔ اس کے علاوہ چند سال پہلے تک وہ کیمیکلز کی فروخت کا کام بھی کرتے رہے تھے۔ ان کی تنخواہ آنی بند ہوئی تو گھر پر معاشی دباؤ بھی آگیا۔ لیکن ان سارے مصائب سے بڑی وہ مصیبت تھی
جو بدنامی کی صورت میں خالو مرحوم کے گھر پر مسلط ہو گئی تھی۔ ایک دن ناصر بھائی نے مجھ سے کہا۔ ”یار تابش ! کسی وقت تو دل چاہتا ہے کہ یہ گھر
چھوڑ دیں ۔ کہیں اور مکان لے لیں ۔ آپ کا مطلب ہے کہ یہ مکان بیچ دیں؟“
ہاں ایک گا ہک بھی لگ رہا ہے ۔ اچھے پیسے دے دے گا۔ میں اس جگہ سے کچھ الرجک سا ہو گیا ہوں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آتے جاتے سیٹھ سراج یا اس کے گھر کا کوئی اور فرد نظر آ جاتا ہے۔ ان لوگوں کو دیکھتا ہوں تو خون کھول جاتا ہے ۔“ "
سراج کی صورت تو مجھ سے بھی نہیں دیکھی جاتی ۔ خالو کے جنازے پر آیا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا ، قبرستان میں ہی اسے پکڑلوں اور مار مار کر حلیہ بگاڑ دوں۔ میں تو کہتا ہوں یہی بندہ خالو کی موت کا ذمے دار ہے۔ یہ مسلسل انہیں ذہنی اذیت پہنچارہا تھا۔“
اب کس کس پر الزام دھریں۔ ایک طرف وہ ایس ایچ او اشرف ہے۔ وہ صاف طور پر ملزم پارٹی کی سائیڈ لے رہا ہے۔ پھر وہ ایم این اے گورایا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تینوں لڑکوں کو پناہ بھی اسی نے دی ہوئی ہے۔ کسی دن میں گھوم گیا تو پستول لے کر نکل جاؤں گا اور
ایک ایک کو شوٹ کردوں گا ۔“ میں ایک آہ بھر کر رہ گیا۔ شوٹ کرنے اور جان سے مارنے والی باتیں میں بھی کئی دفعہ سوچ چکا تھا لیکن ایسی سوچوں کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور سے ہم جیسے لوگوں کے لیے۔ سوچ اور عمل کے درمیان بے شمار تاویلیں اور مصلحتیں آن کھڑی ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں ناصر بھائی اس معاملے میں مجھ سے بہتر تھے لیکن کوئی بڑا جھگڑا کھڑا کرنے یا کسی کو
شوٹ کرنے کی حد تک وہ بھی نہیں جاسکتے تھے۔ ہم دونوں گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ اندر
سے رونے چلانے کی آوازیں آئیں ۔ ہم بھاگتے ہوئے صحن میں پہنچے منظر دل دوز تھا۔ خالہ صفیہ سیڑھیوں کے قریب بے سدھ پڑی تھیں ۔ ان کا سر ثروت کی گود میں تھا۔
خالہ صفیہ کے سر سے مسلسل خون بہ رہا تھا اور نچلا ہونٹ بری طرح پھٹ گیا تھا۔ ثروت مسلسل چلا رہی تھی۔ امی جی ! آنکھیں کھولیں امی جی
ثروت سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ انہیں کیا ہوا ہے۔ وہ سیڑھیوں سے گری تھیں، قریب ہی ۔
صابن کی ٹکیہ اور چھوٹا تولیہ پڑا ہوا تھا۔
انہیں ہسپتال لے جاؤ ۔ نصرت دل دوز آواز میں بولی ۔ ہم نے خونچکاں خالہ صفیہ کو ہاتھوں میں اُٹھایا اور کسی نہ کسی طرح سوزو کی گاڑی تک پہنچایا ، وہ گہری بے ہوشی میں تھیں ۔ ثروت بھی والدہ کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی۔ میں نے حتی
الامکان تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے انہیں قریبی ہسپتال پہنچایا۔ راستے میں ثروت نے روتے ہوئے بتایا۔ نیچے کا ٹوائلٹ خالی نہیں تھا۔ وہ بخار کی حالت میں اوپر چلی گئیں اور واپس آتے ہوئے گر گئیں۔“
ثریا عظیم ہسپتال والوں نے کہا کہ ان کے سر پر چوٹ لگی ہے، انہیں فورا جنرل ہسپتال لے جاؤ۔ وہاں ان کے سر کا سی ٹی اسکین وغیرہ ہو گا ۔ ہم انہیں لے کر جنرل ہسپتال پہنچے۔
بہت بھاگ دوڑ کر کے سی ٹی اسکین ہوا۔ معلوم ہوا کہ دماغ میں خون کے دو لوتھڑے ہیں جو
زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ آپریشن کی ضرورت ہے۔
اسی روز رات کو خالہ کا آپریشن ہو گیا لیکن وہ ہنوز بے ہوش تھیں ۔ ثروت اور نصرت کا رو رو کر برا حال تھا۔ ابھی باپ کی موت کا صدمہ تازہ تھا کہ یہ آفت ٹوٹ پڑی تھی ۔ خالہ صفیہ کی بے ہوشی طویل ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ہی ہماری پریشانیاں بھی بڑھ رہی تھیں ۔ آخر ایک صبح ڈاکٹر نے یہ منحوس خبر سنائی کہ وہ قومہ میں چلی گئی ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد کے تمام دکھوں اور مسائل سے پیچھا چھڑا کر بے ہوشی کی اوٹ میں اوجھل ہوگئی تھیں ۔ میں ان کا چہرہ دیکھتا تو مجھے لگتا تھا کہ وہ اس عالم بے خبری میں بھی اپنی مصیبت زدہ بیٹی کے لیے دعا گو ہیں ۔ ان کے لبوں کی خفیف لرزش کسی ایسی ہی دعا کی نشان دہی کرتی تھی ۔
ہم بھی دعائیں مانگ رہے تھے۔ ان کی زندگی کے لیے، ان کی واپسی کے لیے ... ایک دن ناصر بھائی نے مجھے زبردستی گھر بھیجا تا کہ میں چند گھنٹے آرام کرلوں اور تازہ دم ہو جاؤں ۔ شام کے وقت میں نے ناصر بھائی کو فون کیا اور پوچھا۔ ” میں کتنے بجے تک پہنچ
جاؤں؟“
دوسری طرف سے چند لمحے خاموشی رہی۔ پھر ناصر بھائی پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے۔ وہ چلی گئیں تابش ! وہ ہمیں چھوڑ گئیں ۔
میں پتھر کا بت بنا بیٹھا رہ گیا۔ تقریبا بارہ دن بے ہوش رہنے کے بعد وہ بھی سفر آخرت پر روانہ ہوگئی تھیں ۔
ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ مصیبت تنہا نہیں آتی
۔ اس گھرانے پر دیکھتے ہی دیکھتے آفتیں ٹوٹ پڑی تھیں ۔ کسی وقت تو میں خود
کو بھی بری طرح ملامت کرنے لگتا۔ میں سوچتا کہ شاید آفتوں کے اس سلسلے کا
سبب میں ہی بنا ہوں ۔ میں نے گھر سے باہر ثروت سے ملنا جلنا شروع کیا۔ میں
اسے ریسٹورنٹ میں بلاتا رہا۔ اس میل جول کی وجہ سے واجی بھی شیر ہوا اور
شدتسے ثروت کے پیچھے پڑ گیا۔ میں ایک بار پھر ثروت کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی جھیل سی آنکھوں کی چمک لوٹانا چاہتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس کے دُکھ بہت بڑے ہیں مگر میں دُکھوں کا یہ
حصار توڑنا چاہتا تھا۔ دل کرتا تھا، میں اس کے گرد اپنی بانہوں کا حصار بنا دوں۔ وہ میرے سینے میں چہرہ چھپا کر آنکھیں بند کرلے۔ میں اس کی طرف بڑھنے والے ہر رنج والم کا رُخ
موڑ دوں ۔
خالہ صفیہ کے چالیسویں کے موقعے پر قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ امی تو قرآن خوانی کے بعد جلدی ہی واپس چلی گئیں، میں وہیں موجود رہا۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح ثروت سے بات کرنے کا کوئی موقع مل جائے ۔ فون تو وہ اُٹھاتی ہی نہیں تھی۔ پچھلے ایک مہینے میں میں بیسیوں مرتبہ کوشش کر چکا تھا ۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کمرے میں گئی تو میں بھی کچھ دیر بعد اس - کے پیچھے چلا گیا۔ وہ مصلے پر پر بیٹھی تھی اور سلام پھیر کر فارغ ہوئی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ ذرا سا چونک گئی میں نے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ " ثروت ! اگر میرا کوئی گناہ ہے تو ہے مجھے بتا دو۔ میں ہر طرح کا
کفارہ ادا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ کسی کا کوئی گناہ نہیں۔ میں ہی بدنصیب ہوں ۔ جو کچھ ہو رہا ہے میری وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس نے حسب سابق اپنا سر گھٹنوں پر جھکا لیا۔
" ثروت پلیز خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کرو۔ ناصر بھائی بہت پریشان ہیں۔ اگر تم لوگ خود کو نہیں سنبھا لو گے تو وہ بھی بکھر جائیں گے۔“
میرے بس میں کچھ نہیں ۔ اپنی جان لینا حرام ہے، ورنہ شاید ایسا کر لیتی ۔ مایوسی بھی تو حرام ہے۔ کفر ہے۔“
پلیز تابش ! مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ بھول جاؤ کہ کوئی ثروت تمہاری
زندگی میں آئی تھی ۔ اب ہم دونوں کے لیے یہی بہتر ہے۔" لیکن ثروت
پلیز خدا کے لیے خدا رسول کے لیے ، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میری تکلیف کو اور مت بڑھاؤ۔ میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔ میرا خیال دل سے نکال دو
جیسے تمہاری امی کہتی ہیں اور بڑے کہتے ہیں ویسا کر لو۔ وہ گھٹنوں پر سر رکھ کر رونے لگی۔
میں گنگ ہو کر رہ گیا۔ اسی دوران میں نصرت کی آواز سنائی دی۔ وہ آپی آپی
پکارتے ہوئے اوپر آ رہی تھی۔ میں آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس رات میں دیر تک دیوانوں کی طرح لاہور کی سڑکوں پر پھرتا رہا۔ میرے اندر ایک
جوالا مکھی تھا۔ ایک جلتا ہوا لاوا تھا جوہر قابل نفرت شے کو اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا تھا مگر میری جسمانی طاقت اور میری فطرت اس جوالا مکھی کی تاب نہ لا سکتی تھی اور نہ اس سے پھیلنے
والی تباہی کی ۔ اس رات سڑکوں پر گھومتے گھومتے میں نے کئی بارسیٹھ سراج کو قتل کیا۔ کئی بار
ایم این اے گورایا کی جان لی اور کئی بار تھانیدار اشرف کو بدترین انجام سے دو چار کیا۔ میرے جیسے لوگ ایسے حالات کا شکار ہو کر یہی کچھ کیا کرتے ہیں۔ اپنے تصورات کا سہارا لے کر دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کبھی سراب سے بھی پیاس بجھا کرتی ہے؟

اس سے
تو ناتوانیوں کا دُکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ کسی وقت دل چاہتا کہ خود فراموشی کا سہارا لوں۔ خود کو شراب میں یا کسی اور نشے میں غرق کرلوں۔ مجھے پتا ہی نہیں چلے کہ میرے ارد گرد کیا ہو رہا ہے یا پھر ویسے ہی کسی طرف نکل جاؤں۔ کچھ عرصے کے لیے ارد گرد سے ناتہ توڑ لوں ۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل .. بس اس طرح کی لا تعداد سوچیں تھیں جو دماغ کو اتھل پتھل کر رہی تھیں ۔
اسی دوران میں چند روز بعد مجھے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مناسب جاب مل گئی۔ جاب
ملنے سے جہاں خوشی ہوئی وہاں ایک طرح سے دُکھ نے بھی دل کو چیر ڈالا ۔ ثروت کو میری جاب کا بڑا چاؤ تھا۔ وہ کہا کرتی تھی کہ جب تم پہلے دن جاب پر جاؤ گے تو ہم اس موقعے کو سیلیبریٹ کریں گے۔ ریسٹورنٹ میں ہائی ٹی لیں گے اور پھر دریائے راوی میں ڈوبتے
ہوئے سورج کا منظر دیکھیں گے۔
آج میری جاب کا پہلا دن تھا۔ مگر ریسٹورنٹ نہیں تھا، ہائی ٹی بھی نہیں تھی اور راوی میں ڈوبتے ہوئے سورج کا منظر بھی نہیں تھا۔ سب کچھ ایک دھند لکے میں گم ہو گیا تھا۔
اس شام میں اکیلا ہی شیزان ریسٹورنٹ میں جا بیٹھا۔ وہی میز تھی جہاں ہم اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ دائیں طرف ایک گلدان رکھا تھا اور شفاف کھڑکی میں سے سڑک کا منظر دکھائی
دیتا تھا۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی کھڑ کی کی طرف دیکھنے لگا۔ دل میں آس پیدا ہوئی ۔ دل خوش فہم دور دراز کے امکانات کو ذہن میں لانے لگا۔ یقینی بات تھی کہ ناصر بھائی کے ذریعے ثروت کو بھی میری جانب کی خبر ہو چکی ہوگی ۔ شاید اسے یہ بھی پتا ہو کہ آج میری ڈیوٹی کا پہلا دن تھا اور آج اس ریسٹورنٹ کی موسیقی بکھیرتی فضا میں ایک نیم تاریک گوشے میں ہم نے اکٹھے بیٹھنا تھا۔ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامنے تھے اور ایک ساتھ مسکرنا تھا۔
میں سڑک کی طرف دیکھتا رہا۔ دیوانہ دل یہ سوچتا رہا۔ کیا پتا وہ آ جائے ۔ اپنی گلابی
پھولوں والی چادر کو سنبھالتی ہوئی ، اپنے شولڈر بیگ کو بائیں ہاتھ سے تھامے ہوئے متوازن چال چلتی ہوئی ۔ خزاں کے سارے رنگ ایک دم بہار کے رنگوں میں بدل جائیں ۔ میری آنکھیں منتظر ر ہیں لیکن کوئی نہیں آیا۔ کسی کو آنا ہی نہیں تھا۔ جب فاصلے پیدا ہو
جائیں تو ایک گھر میں رہتے ہوئے ملاقات نہیں ہوتی ۔ یہ تو پھر 60 لاکھ کی آبادی والا شہر تھا۔ میں نے اکیلے ہی چائے پی اور سر جھکا کر بیٹھا رہا۔ پانچ دس منٹ اسی طرح گزر گئے ۔ مایوسیوں کی دھند مجھے ڈھانپتی رہی ۔ اچانک قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ ”السلام علیکم کسی نے دلکش آواز میں کہا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا، سامنے آرسہ کھڑی تھی۔ میں حیران رہ گیا۔ آرسہ چچی سلطانہ کی وہی بھتیجی تھی جس کا رشتہ وہ ماضی میں مجھ سے کرنا چاہ رہی تھیں ۔ یہ لوگ پنڈی میں رہتے تھے۔ میں آرسہ کو یہاں دیکھنے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ تم کب آئیں یہاں؟ میں نے پوچھا۔ آج ہی ۔ جناب تو صبح کے گھر سے نکلے ہوئے تھے۔ اس لیے خبر کیسے ہوتی ۔ ابوامی بھی ساتھ آئے ہیں۔ ابو کی چھٹیاں ہیں۔ اب ایک دو ہفتے آپ کے پاس رہیں گے اور آپ کا ناک میں دم کریں گے ۔ وہ چہکی ۔
میرا واقعی ناک میں دم ہونے لگا۔ آرسہ مجھے کبھی اچھی نہیں لگی تھی۔ میں نے اپنی اندرونی کیفیت چھپاتے ہوئے کہا۔ لیکن تم یہاں کیسے پہنچیں؟“
میں فرح کے ساتھ تھوڑی سی شاپنگ کے لیے نکلی تھی ۔ اچانک ہماری نظر آپ کی گاڑی پر پڑ گئی ۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ آپ یہاں بیٹھے ہوں گے ۔“ اس نے بڑے ناز سے
اپنے بالوں کو پیشانی سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ فرح کہاں ہے؟“
وہ سامنے رکشہ میں بیٹھی ہے۔“ اس نے کھڑکی سے باہر اشارہ کیا۔ میں طویل سانس لے کر رہ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں فرح اور آرسہ کو لے کر واپس گھر جا
رہا تھا۔ آرسہ خوبصورت تھی لیکن اس کی خوبصورتی سورج کی طرح تھی۔ چمکیلی، بھڑکیلی اور کبھی کبھی جلاتی ہوئی۔ اس کا رنگ غیر معمولی سفید تھا۔ آنکھیں براؤن، بال شہد رنگ اور جسم منہ
زور ۔ وہ بڑی تیزی سے بولتی تھی ۔
اس کا موازنہ ثروت سے کیا جاتا تو ثروت کی خوبصورتی کو چاندنی سے تشبیہ دی جا سکتی تھی۔ بے شک چاندنی ، دھوپ سے کم روشن ہوتی ہے لیکن اس کا ایک اپنا حسن اور دھیما پن
ہوتا ہے۔ ایک پر وقار ٹھہراو ، ایک ٹھنڈک اور ایک جذب ہو جانے والی صلاحیت
۔ اس لیےارسہ مجھے کبھی اچھی نہیں لگی تھی اور اس کی یہ بے موقع آمد تو اور بھی بُری لگی۔
وہ پورے گھر میں دندنانے لگی۔ بلا وجہ میرے کمرے میں بھی آجاتی تھی۔ خاص طور پر وہ آج کل والدہ کے ارد گرد بہت گھوم رہی تھی ۔ ایک دن میں دفتر سے لوٹا تو میرا پورا کمرہ بڑی اچھی طرح سنورا سنبھالا ہوا تھا۔ آرسہ میرے ہی بیڈ پر اوندھی لیٹی انگلش میوزک پر ہولے ہولے پاؤں ہلا رہی تھی۔ اس نے ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔ میری چاپ پر اس نے پلٹ کر دیکھا ۔ ” یہ کیا ہے آرسہ؟ میں نے ناگواری کا اظہار
کیا۔
ہ تمہارا کمرہ ہے ڈئیر۔۔۔ اور یہ میں ہوں۔ وہ بستر پر نیم دراز ہو کر بولی ۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا آرسہ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
تمہارا مطلب میرے لباس سے ہے؟“ اس کے چہرے پر رنگ سالہرایا پھر وہ ڈھیٹ بن کر مسکرائی ۔ پتا نہیں اس فقرے سے
میرا مطلب تمہاری ہر چیز سے ہے۔“
تمہارا کیا مطلب ہے؟“ میں سٹپٹایا ہوا ہاتھ روم میں گھس گیا۔ یونہی منہ پر پانی کے چھینٹے مارکر باہر لگا تو وہ جا
چکی تھی۔
امی کمرے میں داخل ہوئیں ۔ یہ تو کیا بول رہا تھا آرسہ سے؟“
وہ میرے کمرے میں کیوں آجاتی ہے؟“ میں نے ہی کہا تھا اسے کہ ذرا تیرا کمرہ دیکھ لے ۔ امی نے کہا۔
میں نے دروازہ بند کرتے ہوئے امی کو اپنے سامنے کرسی پر بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گیا۔ امی ! مجھے صاف صاف بتائیں آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ کیوں باسی کڑی میں ابال دے رہی ہیں؟ میں اتنا انجان نہیں ہوں ۔ میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں ۔
تابی ! تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟ وہ تو چند دن کے لیے یہاں آئی ہے پھر چلی جائے گی۔ تمہیں پتا ہی ہے کہ اس کی طبیعت ذرا شوخ ہے۔ اگر اس نے۔۔۔
مجھے ایسی شوخیاں نہیں چاہئیں امی ! میں نے تیزی سے ان کی بات کائی۔
پلیز اسے کہہ دیں کہ میرے کمرے میں نہ آیا کرے۔ میں اس کے منہ لگنا نہیں چاہتا ۔ اچھا آہستہ بولو۔ کوئی سن لے گا۔ میں سمجھا دوں گی اسے لیکن آرسہ کے ابوامی
کے پاس تو دو چار منٹ بیٹھ جایا کرو ۔ وہ کیا کہیں گے کہ اچھے مہمان آئے ہیں ۔ ان کے لیے چچی چاچا کافی ہیں۔ میرے اپنے بہت سے مسئلے ہیں۔ کام کا بوجھ اتنا
زیادہ ہے کہ کئی دن سے خالہ صفیہ کے گھر بھی نہیں جاسکا۔ ان کا فون بھی نہیں ملتا ہے ۔“ فون تو میں نے بھی ایک دن کیا تھا۔ بس بیل ہوتی رہی ۔“ لیکن امی ! کیا اگر فون نہیں ملے گا تو ہم ان کا اتا پتا ہی نہیں لیں گے؟ ہنستا بستا گھر تھا، دیران ہو گیا ہے۔ وہ تینوں بالکل بے سہارا ہو گئے ہیں۔ ہمیں تو ہر گھڑی ان کی خبر رکھنی چاہیے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ ایک دن فون کیا تھا ۔ ایک دم امی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ چپ سی ہو گئیں ۔ پھر بولیں ۔ چلو ٹھیک ہے۔ کل ان کی طرف جائیں گے ۔ فرح کو بھی لے جائیں گے ۔“ صرف جانے سے کچھ نہیں ہو گا امی ! پہلے ہم سب اپنا ذہن صاف کر لیں۔ یہ بات اچھی طرح اپنے دماغ میں بٹھا لیں کہ ہمیں ان حالات میں ان لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑنا۔ ان
کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو نبھانا ہے۔ ثروت وہی ہے جو آج سے چند ماہ پہلے تھی اور اگر خدانخواستہ اس واقعے میں اس کے ساتھ کچھ ہو بھی جاتا تو میرے لیے میری آواز بھرا
گئی اور میں فقرہ مکمل نہ کر سکا۔
امی نے کہا۔ "اچھا تو دل چھوٹا نہ کر ۔ ہم کل چلیں گے ان کی طرف ۔“
لیکن مجھے اس طرح نہیں جانا جس طرح ہم پہلے جاتے رہے ہیں۔ ہم ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے انہیں مزید گہرا کر کے آ جاتے ہیں۔ جو کچھ اس بچاری کے ساتھ ہوا ہے، وہ خدانخواستہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو کیا ہم اسے دھتکار پھٹکار کر ایک طرف رکھ دیں گے؟ اس کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں گے؟ میرے سینے میں تپش تھی۔
میں بولتا چلا گیا۔
اس روز میرے اور امی کے درمیان آدھ پون گھنٹہ بات ہوئی۔ پتا نہیں کہ میں انہیں کس حد تک قائل کر سکا مگر اتنا ضرور ہوا کہ وہ ثروت کے ہاں خوش دلی سے جانے اور ان سے
رابطہ برقرار رکھنے پر آمادہ ہو گئیں ۔
اگلے روز گھر سے نکلنے سے پہلے فرح نے پھر ثروت کے گھر فون کیا۔ حسب سابق بیل ہوتی رہی لیکن کال ریسیو نہیں کی گئی ۔ ہم روانہ ہوئے ۔ راستے سے ہم نے آئس کریم اور
فروٹ وغیرہ لیا۔
ثروت کے گھر پہنچ کر دیر تک بیل دیتے رہے پھر گیٹ کھٹکھٹایا لیکن اندر سے کوئی برآمد نہیں ہوا۔ ساتھ والے پڑوسی نے دروازہ کھولا ۔ مجھے پہچان کر علیک سلیک کی پھر بتایا کہ ناصر صاحب اور ان کی فیملی تو یہاں سے جاچکے ہیں۔
للکار - پارٹ 2
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu
stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral,
Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love
stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in
Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu
detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for kids,
Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu
suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, urdu
font stories,new stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز
کہانیاں, ,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu
kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں
