شاہ کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا محترم امام صاحب آپ کے اصولوں اور نظریے کو دیکھ کر میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں۔ مجھ کو امید تو یہ رکھنی چاہیے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی سوچ لیں کہ میں ایک تھانیدار ہوں اور اس کیس کی تفتیش کر رہا ہوں اور تفتیش میں بال کی بھی کھال اتاری جاتی ہے۔ گستاخی معاف کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ دل میں شاہ کی دشمنی یا نفرت رکھ کر مجھ کو یہ بیان دے رہے ہیں۔ امام نے اپنی شہادت والی انگلی اوپر کر کے کہا جو کہا ہے سچ کہا ہے۔ اللہ کی ذات کے سوا میرا کوئی گواہ نہیں۔ سچ اور جھوٹ کو جاننے والا وہ اوپر بیٹھا ہے۔ میں جو بات اس وقت تھانے میں کر رہا ہوں یہی بات مسجد میں بیٹھ کر کروں گا۔ اگر آپ مجھے عدالت میں لے جائیں گے تو بھی یہی بات میرے منہ سے نکلے گی۔ میرے پاس یہی ایک ذریعہ ہے کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ بیان تحریری دے دوں گا۔ اس امام نے تو میرا مسئلہ حل کر دیا تھا لیکن ابھی صرف یہ ایک نشاندہی تھی۔ عدالت میں صرف بیان کافی نہیں ہوتا بیان کے ساتھ ساتھ شہادت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے امام سے چند اور ضروری باتیں معلوم کیں اور اس کو گواہی کے لیے بھی تیار کر لیا۔ اگر میں اس وقت جلدی بازی سے کام لیتا تو فوراً شاہ کو تھانے طلب کر لیتا لیکن میں نے اس کے خلاف مزید شہادت کی فراہمی کے لیے اور شاہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکالنے کے لیے ایک اور راستہ اختیار کیا۔ وہ یہ تھا کہ میں نے ایک ہیڈ کانسٹیبل کو کہا وہ شاہ کی بیٹی کو تھانے لے آئے۔ مجھ کو معلوم تھا کہ شاہ ہیڈ کانسٹیبل کو بہلائے پھسلائے گا اور اس کو رشوت پیش کرے گا اور اس کے منہ میں یہ الفاظ ڈالے گا کہ شاہ کی بیٹی گھر نہیں ہے یا پھر وہ خود تھانے آئے گا اور مجھ سے پوچھے گا کہ میں نے اس کے گھر کے پردے کا بھی خیال نہیں کیا۔
میں نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لیا تھا کہ شاہ نے ایسی کوئی رکاوٹ ڈالی تو میں اس کے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ میں نے امام کو یہ کہہ کر جانے کی اجازت دےدی کہ وہ گاؤں میں موجود رہے اور طلبی پر فوراً پہنچیں۔ منور کے دونوں دوست بھی آئے بیٹھے تھے۔ میں نے ان میں سے ایک اندر اپنے کمرے میں بلایا اور اس سے یہ سوال پوچھے۔ منور کا چال چلن کیسا تھا؟ کیا منور نے اسے بتایا تھا کہ اس کے پیچھے ایک چڑیل پڑی ہوئی ہے؟ شاہ کی بیٹی کے ساتھ منور کا کیا معاملہ تھا؟ کیا مرنے سے پہلے منور شاہ کے پاس تعویز لینے جاتا رہا تھا؟ شاہ کے ساتھ منور کی کیا دشمنی تھی؟ منور کے دوست نے ان سوالوں کے وہی جواب دیے جو امام مجھ کو تفصیل سے بتا چکا تھا۔ دوسرے دوست کو بلایا تو اس نے بھی بالکل وہی جواب دیے جو مجھ کو پہلے مل چکے تھے۔ ان دونوں دوستوں سے مجھے یہ پتہ چلا کہ نمبردار کے ساتھ منور کی بول چال بند تھی۔ منور کے ان دوستوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ نمبردار منور سے ڈرتا بھی تھا۔ اب میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ میں نمبردار کو باقاعدہ حراست میں لے لوں یا پہلے شہادت اکٹھی کر لوں۔ میں نے سوچا ابھی نمبردار کو اندر ہی اندر پریشان ہونے دوں اور تھانے میں ہی بٹھائے رکھوں۔ میں نے زرگل خان کو اندر بلایا اور اسے بتایا کہ بہت ساری نشاندہی ہو گئی ہے اور مجھ کو امید ہے کہ تمہارا بچہ بھی بہت جلد مل جائے گا۔
زرگل خان نے مجھ سے اس تفتیش کی تفصیل پوچھی جو میں اب تک کر چکا تھا۔ میں نے جب اس کو تفصیل بتائی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے بڑے غصے سے کہا تو پھر اس نمبردار کو مہمان بنا کر کیوں رکھا ہوا ہے۔ میں ابھی نمبردار کو الٹا لٹکاتا ہوں اور نیچے انگارے رکھ کر ان پر سرخ مرچ ڈالوں گا اور کہوں گا کہ جب تک میرے بچے کی نشاندہی نہیں کرو گے اسی طرح لٹکتے رہو گے۔ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف چل پڑا۔ میں نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا۔ میں نے اسے پیچھے گھسیٹتے ہوئے کہا ابھی نہیں زرگل خان اس طرح میری ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔ تم جو کرنا چاہے ہو وہ میں بعد میں کروں گا۔ زرگل نے کہا تم پنجابی لوگ ہوتے ہی کم عقل ہو یہ ملزموں کے باپ کی بیٹھک نہیں تھانہ ہے اگر کوئی شخص مشتبہ ہے تو اس کا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہونی چاہیے۔ میں ان کو چھوڑوں گا نہیں! میں نے کہا زرگل خان تم اس وقت غصے سے نہیں عقل سے کام لو۔ میری ساری تفتیش چوپٹ نہ کرو۔ ذرا صبر کر لو اور دعا کرو کہ تمہارا بچہ زندہ مل جائے۔ میں نے بڑی مشکل سے زرگل خان کو قابو کیا۔ اس نے کہا اگر مجھ کو میرا بچہ نہ ملا تو میں سب کو گولی مار دوں گا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد شاہ آ گیا۔ اس کے ساتھ ایک برقعہ پوش عورت تھی۔
عورت نے پرانے ٹائپ کا برقعہ پہن رکھا تھا۔ میں پہلی بار شاہ کو دیکھ رہا تھا۔ شاہ کی عمر چالیس سال سے اوپر تھی لیکن رنگ ایسا لال کہ وہ تیس بتیس سال کی عمر کا پہلوان لگتا تھا۔ شاہ نے عورت کو برآمدے میں بینچ پر بٹھایا اور خود میرے پاس آ گیا۔ زرگل میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ شاہ اپنے آپ ہی ہمارے پاس آ کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ بہت غصے میں ہے۔ شاہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا آپ نئے تھانیدار ہیں جناب؟ میں نے ایک ادنیٰ ملازم کی طرح جواب دیا جی شاہ جی میں ہی نیا تھانیدار ہوں۔ شاہ نے کہا زرگل صاحب نے آپ کو ہمارے متعلق شاید کچھ نہیں بتایا! ہماری گدی اور آستانے کی یہ توہین تو کبھی آپ کے افسروں نے بھی نہیں کی تو آپ نے یہ جرات کیسے کی؟ ہماری بیٹی کو آپ نے تھانے کیوں بلایا ہے؟ میں نے کہا میں مجبور ہوں شاہ جی! ڈیوٹی کی مجبوری ہے اگر ہم کوتاہی کریں گے تو جن افسروں نے آپ کے آستانے کی کبھی توہین نہیں کی! وہ افسر ہماری اتنی توہین کرتے ہیں جو ہم برداشت نہیں کر سکتے! شاہ نے پرانے زمانے کے بادشاہوں کی طرح کہا ہمیں آپ کی توہین کی کوئی پرواہ نہیں ہے آپ نے جس گدی کی توہین کی ہے وہ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ اللہ کے ان پیارے بزرگوں کی روحیں جو مزار شریف میں دفن ہیں وہ آپ کو چین سے جینے نہیں دیں گی۔ آپ نے تو اتنا بھی نہ سوچا کہ ہماری بیٹی پردہ نشین ہے۔
ہم اس کو برقعے میں لائے ہیں اپنی تھانیداری پر اتنا غرور مت کرو ورنہ جل کر بھسم ہو جاؤ گے۔ میں نے کہا شاہ جی حضور گستاخی معاف کیا آپ کی بیٹی کھیتوں میں منور کو اکیلا دیکھ کر اس کے پاس برقعے میں جایا کرتی تھی؟ شاہ کے ہونٹ کانپنے لگے اور وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ میں اندازہ نہیں کر سکا کہ اس کو غصہ آ گیا تھا یا وہ گھبرا گیا تھا۔ زرگل خان نے غصے سے کہا شاہ جی ہمارا وقت ضائع نہ کرو ہم نے تمہاری بیٹی کو تفتیش کے واسطے بلایا ہے۔ شاہ نے کہا کیسی تفتیش خان صاحب ہماری بیٹی نے کیا جرم کیا ہے؟ میں نے کہا شاہ جی آپ ذرا باہر تشریف لے جائیں اور ہمیں گستاخی کا موقع نہ دیں۔ یہ تھانہ ہے اور ہم نے آپ کی بیٹی سے کچھ پوچھنا ہے اسی لیے اسے تھانے میں بلایا ہے اور ہم یہ کام ضرور کریں گے۔ اگر آپ خود باہر نہیں جائیں گے تو ہم گھسیٹ کر باہر نکال دیں گے۔ اگر ہم کو پریشان کرنے کی کوشش کی تو ہم آپ کو حوالات میں بند کر دیں گے۔ یہ تو جان چکے تھے کہ شاہ کی اصلیت کیا ہے۔
اس نے کچھ کہنا چاہا تو زرگل اٹھ کھڑا ہوا اور بڑے غصے سے بولا ایک منٹ میں باہر نکل جاؤ ورنہ میں تمہاری ساری پیری ادھر ہی نکال دوں گا۔ شاہ نے بڑا ہی عجیب تماشہ دکھایا وہ بڑے غصے سے اٹھا اور باہر نکل گیا۔ باہر جا کر بلند آواز میں بولنے لگا تمہارا یہ تھانہ بند ہو کر رہے گا چڑیلیں تمہارے بچوں کو غائب کر دیں گی اور پھر بلانا اپنے ان حاکموں کو جن کے تم چمچے ہو۔ میں دیکھ لوں گا کہ کون تم لوگوں کو بچاتا ہے۔ وہ واہی تباہی بک کر خاموش ہو گیا۔ میں اور زرگل خان اندر بیٹھے ہنستے رہے۔ شاہ کی آواز خاموش ہو گئی تو میں نے زرگل خان سے کہا کہ وہ مجھ کو اکیلا چھوڑ دے پھر ایک کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ وہ شاہ کی بیٹی کو میرے پاس لے آئے۔ اس نے اندر آتے ہی برقعے کا نقاب اٹھا دیا۔ وہ دلکش چہرے اور چھریرے بدن والی نوجوان لڑکی تھی۔ اس کے چہرے پر اداسی تھی۔ میں نے اس سے کہا گھبرانا نہیں تم یہ بتاؤ کہ جب بھی گھر سے باہر نکلتی ہو تو برقعہ اوڑھ کر نکلتی ہو؟ اس نے کہا نہیں آج تو شاہ جی کہا تھا کہ برقعہ پہن کر چلو۔ میرا تو کوئی برقعہ ہے بھی نہیں یہ تو میری ماں کا برقعہ ہے۔ میں نے کہا لیکن تمہارے والد صاحب تو ناراض ہو رہے تھے کہ میں نے پردے کا خیال نہیں رکھا۔ وہ میری بات کاٹ کر بولی یہ میرے والد صاحب نہیں ہیں اس لیے تو میں ان کو شاہ جی کہتی ہوں۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا یہ کیا معاملہ ہے سب لوگ کہتے ہیں کہ تم شاہ جی کی بیٹی ہو۔
لڑکی نے مجھے بتایا کہ میں اس وقت تین سال کی تھی جب میری ماں بیوہ ہوئی۔ میں اپنی ماں کی ایک ہی اولاد تھی۔ میری ماں خوبصورت تھی اور اس کے نام پر کچھ زمین بھی تھی۔ اس شاہ کی پہلے بھی ایک بیوی موجود تھی۔ شاہ نے دو آدمیوں کو ساتھ ملا دھوکے سے میری ماں کے ساتھ شادی کر لی۔ اس لڑکی کا بیان لمبا ہو رہا تھا۔ میں اس سے اس کی ماں کی ہسٹری نہیں سننا چاہتا تھا لیکن لڑکی نے اس طرح بولنا شروع کر دیا تھا جیسے وہ اپنے دل کا غبار نکال رہی ہو۔ مختصر بات یہ تھی کہ شاہ ایک بدکار آدمی تھا۔ شراب بھی پیتا تھا اور رات کو اس کے پاس نئی سے نئی عورت آتی تھی۔ اس لڑکی کی ماں کو شاہ کا یہ سلسلہ پسند نہیں تھا۔ اس نے اعتراض کیا تو شاہ نے اس کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ پھر چوتھے پانچویں دن کا یہ دستور ہو گیا کہ شاہ اس لڑکی کی ماں کو مارتا پیٹتا تھا۔ یہ لڑکی بڑی ہوئی تو شاہ نے اس کے ساتھ بھی اس کی ماں جیسا سلوک کرنا شروع کر دیا۔ لڑکی بہت ہی تلخ حالات میں پل کر جوان ہوئی۔
اس کی ماں وقت سے پہلے ہی بوڑھی ہو گئی۔ لڑکی نے منور کو دیکھا تو وہ اسے بہت اچھا لگا اور وہ اس کے پیچھے پھرنے لگی لیکن منور اس لڑکی کو قبول نہیں کرتا تھا۔ لڑکی نے مایوس ہو کر منور سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ پیار محبت کی ایک دو باتیں ہی کر لیا کرے۔ منور نے اس کی بات مان لی! لیکن اس کو زیادہ وقت اپنے پاس ٹہرانے نہیں دیتا تھا۔ ایک روز شاہ نے ان دونوں کو اکٹھے دیکھ لیا۔ شاہ تو پہلے ہی لڑکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تھا اب شاہ نے لڑکی کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ لیکن لڑکی پھر بھی باز نہیں آئی۔ میں لڑکی سے سوال جواب کے ذریعے کوئی سراغ لینا چاہتا تھا جس میں مجھے مایوسی ہوئی۔ لڑکی کے دل میں شاہ کے لیے بہت نفرت تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ اس کوشش میں ہو کہ وہ شاہ کو گرفتار کرا دے۔ اس کو تو جیسے معلوم ہی نہیں تھا کہ میں کس سلسلے میں اس سے پوچھ گچھ کر رہا ہوں۔ مجھ کو یہ شک بھی ہوا کہ اس کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں بیٹھی ہے اور کس کے ساتھ بات کر رہی ہے۔ مجھ کو یہ سمجھنے میں تھوڑا وقت لگ گیا کہ یہ لڑکی ذہنی لحاظ سے نارمل نہیں! وہ نارمل اس لیے نہیں تھی کہ تین چار سال کی عمر میں اس کا باپ مر گیا۔ اس لڑکی کو ایک صدمہ تو یہ پہنچا تھا اور دوسرا صدمہ یہ کہ اس کو اپنے پیارے باپ کی جگہ ایک ظالم باپ مل گیا تھا جو اس کو بھی مارتا تھا اور اس کی ماں کو بھی! پیار اور شفقت کی جگہ اس کو ظلم اور تشدد ملا۔ پھر اس نے اس گھر میں شراب نوشی اور بدکاری دیکھی جو اس جگہ یعنی شاہ کی حویلی کا دستور تھا۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات میں پلے ہوئے بچے شفقت اور پیار سے محروم ہوتے ہیں۔
ان کو جس سے بھی پیار مل جائے خواہ وہ جھوٹا ہی ہو وہ اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس لڑکی کو منور اچھا لگا تو اس نے اسی کو اپنے پیار کا محور بنا لیا اور پھر آخر شاہ نے اس کو گھر میں بند کر دیا۔ کچھ اور سوال جواب کے بعد لڑکی نے ایک نئی بات بتا دی کہ کچھ دنوں سے وہ کسی بچے یا شاید کسی عورت کے رونے کی آواز سنتی تھی جو گھر کے کسی کمرے سے آتی تھی۔ گھر میں کوئی بھی بچہ نہیں تھا۔ اس کی ماں بھی اس کے سامنے موجود ہوتی تھی۔ یہ آواز شاہ کی دوسری بیوی کی ہو سکتی تھی۔ ایک رات اس کی ماں سو گئی اور وہ جاگ رہی تھی۔ اس کو پھر رونے کی آواز آئی۔ وہ اپنے کمرے سے نکلی اور برآمدے میں سے ہوتی ہوئی ایک کمرے کے پاس جا رکی۔ آواز اسی کمرے سے آ رہی تھی۔ کمرے کے دروازے کے ساتھ ایک کھڑکی تھی جو ذرا سی کھلی ہوئی تھی۔ اس نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا کہ گیارہ بارہ سال کا ایک بچہ رو رہا تھا اور ایک آدمی اس بچے کو ڈرا رہا تھا۔ میں اس سے پوچھا بچہ کچھ کہتا بھی تھا یا صرف رو ہی رہا تھا۔ لڑکی نے بتایا کہ وہ کچھ کہتا بھی تھا لیکن پتہ نہیں وہ کونسی زبان بول رہا تھا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
وہ بچہ ہماری طرح پنجابی زبان نہیں بولتا تھا۔ وہ بڑا ہی خوبصورت اور گورے رنگ کا بچہ تھا۔ میں نے کچھ اور نہ سنا۔ سپرنگ کی طرح اچھلا اور باہر نکل کر زرگل خان کو آواز دی۔ اس کے ساتھ ہی ایک کانسٹیبل کو بلایا اور اس سے کہا کہ وہ شاہ کو فوراً بلائے۔ میں شاہ کو اب کسی بھی پوچھ گچھ کے بغیر حوالات میں بند کرنا چاہتا تھا۔ اب کسی شک کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ ہمارا ملزم شاہ ہی تھا۔ کانسٹیبل نے آ کر بتایا کہ شاہ جی چلے گئے ہیں۔ میں نے کہا کہاں چلا گیا ہے۔ کانسٹیبل نے کہا اس عورت کو آپ کے پاس بٹھا کر شاہ جی بڑے غصے میں بولتے رہے تھے اور پھر وہ باہر نکل گئے۔ زرگل آیا تو میں نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا زرگل تمہارا بچہ مل گیا ہے فوراً چھاپے کا بندوبست کرو ایک منٹ کی بھی دیر نہ کرو۔ شاہ کا گاؤں تھانے دو میل دور تھا۔ ہم وقت ضائع کیے بغیر وہاں پہنچے۔ پھر بھی ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔
ہم سیدھا شاہ کے گھر ایسے داخل ہوئے جیسے کوئی چوروں کا اڈا ہو۔ سیدھا اندر گئے۔ شاہ گھر میں ہی تھا۔ ہمیں دیکھ کر واہی تباہی بکنے لگا۔ میں اس کو احترام سے باہر لا کر کانسٹیبلوں کے حوالے کرنا چاہتا تھا لیکن زرگل کا دماغ اتنا خراب ہو گیا تھا کہ اس نے شاہ کو گریبان سے پکڑا اور اس کی گردن پر مکا مارا۔ اس سے پوچھا میرا لڑکا کہاں ہے؟ شاہ نے کہا کون سا لڑکا یہاں کوئی بچہ نہیں ہے۔ پوری حویلی کی تلاشی لے لو۔ زرگل کے ایک زور دار تھپڑ نے شاہ کو آگے بولنے نہ دیا۔ کانسٹیبلوں نے تلاشی اور چھاپے کے دستور کے مطابق اس حویلی میں جتنے افراد تھے ان سب کو ایک جگہ اکٹھا کر لیا۔ دو عورتیں تھیں دو آدمی تھے۔ یہ آدمی ملازم ٹائپ لگتے تھے۔ (جاری ہے) (عشق اک چڑیل کا) آخری قسط۔ میں نے ان دونوں آدمیوں کو الگ کر لیا اور ان سے کہا وہ بتا دیں کہ بچہ کہاں ہے ورنہ ان کی ہڈیاں یہاں بھی ٹوٹیں گی اور تھانے لے جا کر بھی مرمت ہو گی اور پھر دس دس سال کی سزا بھی ملے گی۔ دونوں نے انکار کیا۔
گھر کی تلاشی لی گئی۔ میں نے شاہ کی بیٹی سے اس کمرے کا محل وقوع معلوم کر لیا تھا جس کمرے میں اس نے بچے کو دیکھا تھا۔ اس کمرے میں بچہ موجود نہیں تھا بلکہ بچہ پورے گھر میں نہیں تھا۔ میں نے شاہ کو ایک طرف کیا اور اس سے کہا شاہ جی کیوں اپنی بے عزتی کروانا چاہتے ہو۔ قانون کی نظر میں تمہاری اس گدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ قانون کی نظر میں تم ایک مجرم ہو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ گدی ہی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے جس کے بل بوتے پر تم یہ سب کچھ کر رہے ہو۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم اپنی گدی بچاؤ اور بتاؤ کہ بچہ کہاں ہے۔ شاہ نے غصے سے کہا تم چاہتے کیا اور میرے گھر میں کس بچے کو ڈھونڈ رہے ہو یہاں کوئی بچہ نہیں ہے اگر تمہیں ملتا ہے خود ہی ڈھونڈ لو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے شاہ جی آپ کی مرضی میں تو آپ کی عزت بچانا چاہتا تھا پھر میں نے شاہ کو کانسٹیبلوں کے حوالے کر کے کہا اسے ہتھکڑی لگا لو۔
جس طرح اس کو ہتھکڑی لگائی گئی وہ آپ یوں سمجھیں جیسے کسی مست بھینسے کے گلے میں رسہ ڈالا جاتا ہے۔ میں نے ان دو آدمیوں میں سے ایک کا گریبان پکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر صحن میں لے آیا۔ اس کے منہ پر ایک مکا مارا تو وہ پیچھے جا گرا۔ میں نے کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ وہ اس کے دوسرے ساتھی کی بھی ذرا خاطر داری کرے۔ جلد ہی ان میں سے ایک نے ہاتھ جوڑ دیے اور کہنے لگا کہ وہ بتائے گا کہ بچہ کہاں ہے پھر اس نے صاف بتا دیا کہ بچہ واقعی ایک کمرے میں بند رہا ہے اور آج ہی شاہ جی جب اپنی بیٹی کو تھانے چھوڑ کر آئے تو لڑکے کو ساتھ لیا اور ان دونوں آدمیوں سے کہا کہ بچے کو فلاں گاؤں چھوڑ آؤ۔ انہوں نے گاؤں کی نشاندہی بھی کر دی۔ یہ چھوٹا سا ایک گاؤں تھا اور شاہ کے گاؤں سے ایک ہی میل دور تھا۔ میں نے دو کانسٹیبلوں کی ڈیوٹی شاہ پر لگائی کہ وہ اسے قابو میں رکھیں۔ ان دونوں آدمیوں اور ایک کانسٹیبل کو لے کر میں اور زرگل اس گاؤں چلے گئے جس میں بچے کو بھیجا گیا تھا۔ گاؤں میں داخل ہوئے تو ایک آدمی گاؤں سے باہر ہی کھڑا تھا۔ اس نے ہم کو دور سے دیکھا تو ایک طرف کو دوڑ پڑا۔
وہ گاؤں کی طرف نہیں گیا وہ گاؤں سے باہر دوسری طرف جا رہا تھا۔ اس کے بھاگتے ہی ہم سمجھ گئے کہ یہی ہمارا ملزم ہے۔ میں نے کانسٹیبل کو اشارہ کیا اور کانسٹیبل اس آدمی کے پیچھے بھاگا اور جلد ہی اسے جا لیا۔ کانسٹیبل اس کو لے کر ہمارے پاس آیا تو وہ آدمی ہاتھ جوڑ کر منتیں کرنے لگا۔ اس کا سارا جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں بھاگا تھا۔ اس نے کانپتے ہوئے کہا جناب میں بے قصور ہوں وہ تو شاہ جی نے حکم دیا تھا کہ اس بچے کو دو دن اپنے گھر رکھوں۔ میں نے پوچھا بچہ کہاں ہے۔ اس نے ایک گھر کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ سامنے میرے گھر میں ہے بچہ۔ زرگل دوڑتا ہوا اس کے گھر میں داخل ہو گیا۔ میں جب اس آدمی کو لے کر اس کے گھر پہنچا تو بچہ زرگل کے گلے لگا ہوا تھا۔ بچے کو ان لوگوں نے دیہاتی قسم کے کپڑے پہنائے ہوئے تھے۔ گاؤں کے دو آدمیوں کو بچے کی برآمدگی کا گواہ بنایا بیان لکھ کر ان کو پڑھ کر سنایا اور ان کے انگوٹھے لگوائے۔ پھر اس آدمی کو لے شاہ کے گاؤں آئے وہاں سے شاہ کو بھی ساتھ لیا اور ہم تھانے واپس آ گئے۔ تھوڑی دیر بعد تھانے کے احاطے کے باہر شاہ کے مریدوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ وہ سب خاموش کھڑے تھے۔ ان میں دنگا فساد کرنے یا احتجاجی مظاہرہ کرنے کی جرات نہیں تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ شاہ اقبال جرم کر لے لیکن وہ بڑی ڈھیٹ مٹی کا بنا ہوا تھا۔
زرگل اس قدر غصے میں تھا کہ اس کے بس میں ہوتا تو وہ شاہ کی گردن پر چھری پھیر دیتا۔ زرگل نے مجھ کو کہا اب آپ رہنے دیں باقی کا کام مجھ کو کرنے دیں۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ شاہ کو ایک کمرے میں لے گیا اور ایذا رسانی کا عمل شروع کر دیا اور میں دوسرے آدمیوں سے اقبالی بیان لینے لگا۔ میں جب تقریباً دو گھنٹے بعد گیا کہ دیکھوں زرگل کیا کر رہا ہے تو شاہ کو بے ہوشی کی حالت میں پایا۔ زرگل نے شاہ کو ایسی ایسی ایذا دی تھی کہ جس کو شاہ جیسا مضبوط آدمی بھی برداشت نہیں کر سکا تھا اور بے ہوش ہو گیا تھا۔ بچہ تو مل گیا تھا لیکن ابھی منور کے قاتل کو بھی پکڑنا تھا۔ قاتل شاہ کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ شاہ نے خود تو قتل نہیں کیا ہو گا اپنے کسی آدمی سے کرایا ہو گا۔ زرگل نے ساری رات ایذا رسانی جاری رکھی۔ وہ جب بھی ہوش میں آتا تو زرگل پھر اپنا ظالمانہ عمل شروع کر دیتا تھا۔ اگلے دن دوپہر کے بعد شاہ نے نیم بے ہوشی کی حالت میں قتل کا اعتراف کر لیا۔ اس نے زرگل کو یہ بھی بتایا کہ اس نے اس کا بچہ اس واسطے اغوا کرایا تھا کہ اس کو ڈرائے گا کہ اس کے بچے کو چڑیل اٹھا کر لے گئی ہے اور وہ بچہ اس شرط پر واپس کرے گی کہ وہ یہ منور والی تفتیش بند کر دے۔
لیکن شاہ کی سکیم ناکام ہو گئی تھی اور چڑیل کا بھانڈا پھوٹ گیا تھا۔ میں نے زرگل کو بڑی مشکل سے سمجھایا کہ اب شاہ کو چھوڑ دو کہیں ایسا نہ کہ یہ مر جائے یا اس کو کوئی نقصان پہنچ جائے جو عدالت میں ثابت ہو جائے کہ یہ ایذا رسانی کا نتیجہ ہے۔ میں نے زرگل سے کہا اگر شاہ نے قتل کسی اور سے بھی کروایا ہو گا تو بھی میں یہ ثابت کر دوں گا کہ قتل شاہ نے خود کیا ہے۔ زرگل نے کہا ہاں پھر ٹھیک ہے میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ یہ شاہ پھانسی کے تختے تک پہنچے میں اسے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا۔ پانچ چھ گھنٹے کے اندر اندر ساری واردات ہمارے سامنے آ گئی۔ جس آدمی نے شاہ کے ساتھ مل کر منور کا گلا دبایا تھا اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ میں نے اس آدمی سے کہا کہ وہ یہ بیان دے کہ گلا شاہ نے دبایا تھا اور کہے کہ اس نے منور کو پکڑ رکھا تھا اور منور کا گلا شاہ نے دبایا تھا۔ اس شخص کو میں نے یہ بیان دینے کے صلے میں یہ انعام دیا کہ اسے وعدہ معاف گواہ بنا لیا۔ دوسرے ملزموں سے یہ وعدے کیے کہ ان کو بری کرا دوں گا بہت تھوڑی سزا دلاوں گا مگر شرط یہ ہے کہ وہ ہمارے بتائے ہوئے بیان دیں گے۔
شاہ نے قتل اور اغوا کے یہ جرائم جس وجہ سے کیے تھے ان میں ایک وجہ تو یہ تھی کہ منور اس کی مریدی سے نکل کر باغی ہو گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ منور نے شاہ کی بے عزتی کی تھی اور تیسری وجہ یہ تھی کہ اس کو شک ہو گیا تھا کہ منور نے اس کی بیٹی کے ساتھ ناجائز تعلق رکھا ہوا ہے۔ ہماری قوم کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس کو شاہ جیسے پیروں کی لیڈری مل گئی جو ساری قوم کو بدی کی طرف لے گئی۔ غور کریں کہ شاہ نے قتل کا کیا طریقہ اختیار کیا تھا۔ بکرے کی کلیجی لے کر اس کا ایک ٹکڑا منور کو قتل کر کے اس کے منہ میں ٹھونس دیا گیا اور مشہور کر دیا گیا کہ یہ کسی چڑیل کی کارروائی ہے اور لوگوں نے بھی اس بات کو تہہ دل سے مان لیا۔ شاہ نے اپنی جان مزید ایذا رسانی سے بچانے کے لیے اقبال بیان دے دیا تھا لیکن سیشن کورٹ میں جا کر وہ اپنے بیان سے مکر گیا۔ اس نے عدالت میں کہا کہ اسے بہت زیادہ اذیت دے کر بے ہوشی کی حالت میں بیان لیا گیا۔ اس کے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں تھی۔ شاہ نے ایک بہت ہی لائق وکیل کیا تھا لیکن میں نے ایک ایسے ملزم کو وعدہ معاف گواہ بنا لیا تھا جو قتل اور اغوا کے دونوں جرائم میں شامل تھا۔ ملزموں سے میں نے ایسے بیان دلوائے تھے کہ جنہوں نے اس وکیل کی قابلیت کو بیکار کر دیا تھا۔ عدالت نے شاہ کو قاتل قرار دے دیا اور اس کو سزائے موت سنائی گئی۔ باقی ملزموں کو دو دو چار چار سال کی سزائیں ہوئیں۔ سب سے زیادہ سزا نمبردار کو دی گئی۔
(ختم شد)