زرگل خان اس وقت تھانے میں اسی واردات کی تفتیش میں مصروف تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ اس کا بچہ باہر کھیلنے کے لیے گیا اور واپس نہیں آیا۔ زرگل نے سارے کام چھوڑ کر اپنے بچے کی تلاش شروع کر دی۔ لوگ کہتے تھے کہ زرگل خان نے مقتول کی لاش کا پوسٹ مارٹم کروا کر چڑیل کو ناراض کر دیا تھا اور اس چڑیل کی دشمنی مول لے لی تھی۔ زرگل خان کی اس کارروائی کے بدلے میں اس کا بچہ غائب کر دیا تھا اور اب تک اس بچے کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ زرگل خان بچے کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہا تھا لیکن بچے کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ زرگل خان کی تھانے کی وارداتوں کی تفتیش میں دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ وہ کسی بھی واردات کی تفتیش نہیں کر رہا تھا۔ صرف اپنے بچے کی بازیابی میں مصروف تھا۔ زرگل خان کی ساری کارروائی سن کر میں سمجھ گیا تھا کہ اب زرگل خان کو اپنے بچے کی بازیابی کے سوا کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ اسی لیے منور کی موت کی تفتیش میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی زرگل خان تفتیش پر کوئی توجہ دے سکا تھا۔ اگر اس کا بچہ اغوا نہ ہوا ہوتا تو شاید زرگل خان اس تفتیش کو کنارے لگا چکا ہوتا یا کنارے پہنچنے والا ہوتا!
بہرحال اس تفتیش میں ابھی بہت سی باتیں ادھوری تھیں جن کے متعلق جاننا بہت ضروری تھا۔ خاص کر کے نمبردار کا کردار اس کیس میں مشکوک تھا۔ میں نے زرگل خان سے کہا دیکھو زرگل خان تمہارا اپنا ایک طریقہ تفتیش ہے اور میرا اپنا طریقہ ہے۔ اس لیے میں چاہوں گا کہ تم میری کسی بات پر اعتراض نہیں کرو گے اور نہ ہی مجھ پر کوئی زور زبردستی کرو گے کہ میں یہ کام یا بات ایسے نہیں ویسے کروں۔ زرگل خان نے کہا میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اس لیے تو یہ تفتیش آپ کے حوالے کی ہے۔ اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ مجھے میرا بیٹا جلد از جلد مل جائے۔ میں نے زرگل خان کو تسلی دی اور کہا کہ اللہ پر بھروسہ رکھے۔ اللہ بہتر کرے گا اور تمہارا بچہ صحیح سلامت واپس مل جائے گا۔ زرگل خان نے کہا ٹھیک ہے آپ اپنا کام شروع کریں اور جہاں میری مدد کی ضرورت ہو مجھے بتائیں۔ میں حاضر ہوں۔ میں نے کہا زرگل خان مجھے سب سے پہلے نمبردار کا بیان دوبارہ چاہیے۔ میں خود اس سے بیان لینا چاہتا ہوں۔ زرگل خان نے کہا میں ابھی نمبردار کو بلوا لیتا ہوں۔ آپ اس سے جو بھی بیان لینا چاہتے ہیں وہ لیں اور پھر زرگل خان باہر نکل گیا۔
میں نمبردار کے زرگل خان کو دیے گیے بیان پر غور کرنے لگا۔ جب نمبردار آیا تو میں نے اسے فوراً اپنے پاس بلا لیا اور سب سے پہلے اس سے منور کی موت کے بارے میں پوچھا تو نمبردار نے مجھے بھی وہی کہانی سنانی شروع کر دی جو وہ زرگل خان کو سنا چکا تھا۔ میں نے نمبردار سے پوچھا کیا منور نے چڑیل والی بات صرف تمہیں بتائی تھی یا کسی اور سے بھی اس کا ذکر کیا تھا اور منور کی بات سن کر تم نے اسے کیا مشورہ دیا تھا۔ نمبردار نے کہا جناب مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ منور نے کسی اور سے بھی ذکر کیا تھا یا نہیں البتہ جب اس نے مجھے بتایا کہ ایک چڑیل اسے تنگ کرتی ہے تو میں نے اسے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جلد از جلد اپنے شاہ جی سے ملے اور انہیں بتائے کہ کوئی چڑیل اسے تنگ کرتی ہے اور شاہ جی ضرور اس چڑیل کا کوئی نہ کوئی بندوبست کریں گے۔ میں نے پوچھا تو کیا منور شاہ کے پاس گیا تھا؟ نمبردار نے کہا پہلے تو منور جانے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن سمجھانے پر وہ شاہ جی کے پاس گیا تھا بلکہ میں خود اس کو شاہ جی کے پاس لے کر گیا۔
میں نے پوچھا منور شاہ کے پاس کیوں جانا نہیں چاہتا تھا۔ نمبردار نے کہا جناب منور کو کسی نے ورغلا دیا تھا اور شاہ جی کے خلاف بھڑکا دیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا منور شاہ کا مرید نہیں تھا۔ نمبردار نے بتایا پہلے منور شاہ جی کے پاس آتا جاتا رہتا تھا لیکن پھر اس نے شاہ جی پاس جانا چھوڑ دیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا تمہاری مسجد کا امام کیسا آدمی ہے کیا وہ بھی شاہ کی طرح تعویز وغیرہ دیتا ہے۔ نمبردار نے کہا وہ ٹھیک آدمی نہیں ہے۔ اسی نے تو منور کو بھڑکایا تھا۔ وہ شاہ جی خلاف باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسلام پیری مریدی کی اجازت نہیں دیتا۔ میں نے کہا یہ باتیں یقیناً شاہ کے کانوں میں بھی پڑیں ہوں گی پھر شاہ نے اس امام کو مسجد میں رہنے کیوں دیا۔ نمبردار نے کہا جناب اپنے شاہ جی بادشاہ آدمی ہیں وہ کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ جس نے بھی اس گدی کی بے ادبی کی وہ خود ہی سزا پائے گا۔ میں نے کہا جیسی منور نے پائی ہے؟ میں نے خاص طور پر نوٹ کیا کہ نمبردار کی آنکھوں میں اور چہرے پر بے چینی پیدا ہو گئی تھی۔ میں نے اس سے کہا میں اب تمہاری زبان سے صرف سچ سننا چاہتا ہوں۔ سچ سچ بتاؤ منور کی موت کیسے ہوئی تھی کیا منور کی شاہ کے ساتھ کوئی عداوت ہو گئی تھی۔ نمبردار نے کہا نہیں حضور کوئی عداوت نہیں تھی بس ذرا غلط فہمی ہو گئی تھی جو دور ہو گئی تھی اور منور شاہ جی کے پاس چڑیل سے نجات کے لیے تعویز لینے کے لیے جانے لگا تھا ویسے بھی مرید اپنے پیر کے لیے عداوت رکھ ہی نہیں سکتا اور منور بھی شاہ جی کا مرید تھا۔
میں نے نمبردار سے کہا اب میری بات کان کھول کر سن لو تم مجھ کو صرف دو سوالوں کے جواب دے دو اور یہاں سے چلے جاؤ ورنہ تمہارا یہاں سے نکلنا ممکن نہیں ہو گا۔ ایک یہ کہ منور کو کس نے قتل کیا ہے اور دوسرا یہ کہ خان صاحب کا بچہ کہاں ہے؟ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ مجھ کو فوراً بتا دیتا۔ اس نے انکار کیا اور یہ بھی کہا کہ معلوم نہیں کیوں میں اس پر اتنا خوفناک الزام لگا رہا ہوں۔ میں نے کانسٹیبل کو بلا کر اس سے کہا اس نمبردار کو حوالات میں بٹھا دو اور اس کے ساتھ کوئی بھی شخص بات نہ کرے! نمبردار کی گھبراہٹ دیکھنے والی تھی وہ کانسٹیبل کے ساتھ جانے کے لیے آمادہ نہیں تھا مگر میرے اشارے پر کانسٹیبل اسے بازو سے پکڑ کر لے گیا۔
میں نے مقتول منور کی بیوی کو بھی بلا رکھا تھا۔ وہ بھی باہر بیٹھی تھی۔ میں نے اسے اندر بلا لیا۔ اس کے ساتھ ہمدردی کی دو چار باتیں کیں اور اس سے پوچھا کیا تم بھی یہی سمجھتی ہو کہ تمہارے خاوند کو کسی چڑیل نے مارا ہے؟ وہ بولی جی ہاں لگتا ہے کہ آپ نے میرے خاوند کی لاش نہیں دیکھی اگر دیکھی ہوتی تو آپ خود کہتے کہ یہ کسی بندے کا کام نہیں ہو سکتا۔ میرے خاوند کی جو حالت تھی وہ کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا! میں نے اس سے پوچھا کیا منور نے اسے کبھی بتایا تھا کہ کوئی چڑیل اس کو تنگ کرتی ہے یا اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ اس نے کہا میرے خاوند نے مجھے کبھی نہیں بتایا اگر بتایا ہوتا تو میں ضرور اسے شاہ جی کے پاس بھیج دیتی یا کوئی تعویز وغیرہ کروا دیتی۔ میں نے اس سے پوچھا کیا منور خود شاہ جی کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔ وہ بولی تھانیدار صاحب دراصل منور بھٹک گیا تھا۔ وہ کسی کی الٹی سیدھی باتوں میں آ گیا تھا اور شاہ جی کی مریدی سے نکل گیا تھا اور پھر جیسے ہی شاہ جی کا ہاتھ اس کے سر سے اٹھا وہ مارا گیا اگر وہ شاہ جی کی مریدی میں ہوتا تو شاہ جی ضرور اس کے چڑیل سے اس کی جان چھڑا دیتے۔
میں نے اس سے کہا کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے خاوند کے گہرے دوست کون کون ہیں مطلب کہ ایسے آدمی جن کے ساتھ وہ اپنے دل کی باتیں بھی کر لیتا تھا۔ منور کی بیوی نے مجھ کو دو نام بتائے اور کہا ان دونوں کو وہ اپنے سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر سمجھتا تھا۔ میں نے مقتول منور کی بیوی کو جانے کی اجازت دے دی اور ایک کانسٹیبل کو بلا کر ان دونوں آدمیوں کے نام بتائے جو مقتول کی بیوی نے بتائے تھے اور کہا کہ وہ ان کو تھانے لے آئے اور ساتھ ہی مقتول کے گاؤں کی مسجد کے امام کو بھی لیتا آئے۔ مقتول کی بیوی اٹھ کر گئی تو زرگل خان میرے پاس آ گیا۔ زرگل خان نے غصے سے کہا آپ پہلے صرف میرے بچے کی گمشدگی کی تفتیش کریں باقی تفتیش کو بعد میں دیکھ لیں گے۔ مجھے ہر حال میں اپنا بچہ واپس چاہیے نہیں تو میں آپ کو گولی مار دوں گا یا خود کو ختم کر لوں گا۔ زرگل نے روتے ہوئے کہا میں اپنے گھر جاتا ہوں تو بیوی پوچھتی ہے میرے بچے کو لے آئے ہو۔ وہ اور کوئی بات نہیں کرتی کہتی ہے پٹھان کی اولاد ہو تو میرا بچہ میرے سامنے لاؤ ورنہ میرے سامنے نہ آؤ۔ اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں۔ ظاہر ہے میں اسے تسلی دینے کے سوا کیا کر سکتا تھا۔ مقتول کے گاؤں کی مسجد کا امام پہلے آ گیا۔ میں نے زرگل خان سے کہا تم باہر چلے جاؤ یا اپنے گھر چلے جاؤ۔ فکر مت کرو تمہارا بچہ جلد مل جائے گا۔ زرگل خان کچھ کہے بغیر نکل گیا۔
میں نے امام مسجد کو اندر بلا لیا۔ اس کا ڈیل ڈول اور حلیہ دیہات کے مولویوں جیسا نہیں تھا۔ اس کی عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ داڑھی چھوٹی اور اچھے طریقے سے تراشی ہوئی تھی۔ میں اس کو احترام سے اپنے سامنے کرسی پر بٹھایا۔ میں نے کہا محترم سنا ہے کہ لوگ آپ کو وہابی کہتے ہیں کیا آپ وہابی ہیں۔ اس نے کہا میں صرف مسلمان ہوں مگر یہ لوگ مجھ کو وہابی کہتے ہیں۔ میں نے تو کسی سے نہیں کہا کہ وہ مجھ کو وہابی کہیں۔ میں تو انہیں صرف یہ کہتا ہوں یہ شاہ کسی کی بھی مدد نہیں کر سکتا۔ مشکل اور مصیبت میں خدا کو یاد کرو اور اسی سے مدد مانگو مگر یہ لوگ پہلے پیر کا اس کے بعد خدا کا نام لیتے ہیں۔ میں تو انہیں پیری مریدی سے روکتا ہوں تو لوگ مجھ کو وہابی کہتے ہیں۔ جبکہ یہ شاہ شریف آدمی نہیں ہے۔ یہ اپنے آپ کو اور اپنے مرے ہوئے باپ کو اللہ کے ولیوں کے برابر سمجھتا ہے جبکہ یہ شاہ اولیاء اللہ کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہے۔
یہ نوسر باز ہے۔ اس وجہ سے یہ شاہ بھی گاؤں کا نمبردار بھی اور گاؤں کے زیادہ تر لوگ بھی میرے خلاف ہو گئے تھے۔ میں نے امام سے کہا میں مقتول منور کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی اس کو کسی چڑیل نے مارا ہے؟ امام نے کہا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ منور کو کسی چڑیل نے مارا ہے اور یہ کسی چڑیل کی کارروائی ہے تو پھر میں اس شاہ کو ہی وہ چڑیل کہوں گا۔ میں نے چونک کر امام کی طرف دیکھا اور کہا امام صاحب یہ آپ نے اتنی بڑی بات کہہ دی ہے۔ یہ آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ امام نے کہا یہ بات میں اس طرح کہہ سکتا ہوں کہ منور میری باتوں کو سمجھنے لگا تھا اور گاؤں کے دو آدمی اور ہیں جو مجھ سے متاثر ہو کر شاہ کی مریدی سے نکل آئے تھے۔ میں نے امام سے پوچھا آپ کے ساتھ منور کا تعلق کیسا تھا؟ امام نے بتایا کہ چونکہ یہ دیہاتی لوگ ہر بات پیری مریدی کے رنگ میں سوچتے ہیں اس وجہ سے منور مجھ کو اپنا پیر مانتا تھا۔ وہ میرے پاس بیٹھا کرتا تھا اور دین کی باتیں پوچھتا تھا اور ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا تھا۔ میں نے کہا پھر تو شاہ آپ کا دشمن ہو گیا ہو گا۔ امام میری بات سن کر ہنس پڑا اور کہنے لگا اگر میں شاہ کے آگے دب جاتا تو اب تک شاہ مجھ کو اس گاؤں سے ہی نہیں دنیا سے ہی اٹھوا چکا ہوتا! شاہ نے مجھ کو دھمکیاں بھی دی تھیں کہ میں اس کے معاملے میں اپنی زبان بند رکھوں ورنہ میرے پیچھلے مجھ کو ڈھونڈتے رہیں گے۔
یہ دھمکی شاہ نے اپنے ایک آدمی کے ذریعے مجھ تک پہنچائی تھی۔ لیکن میں شاہ سے ڈر کر بیٹھ نہیں گیا تھا بلکہ اس کے گھر چلا گیا اور اس کو بتایا کہ میں کون ہوں اور کس خاندان کا آدمی ہوں۔ میں نے شاہ سے کہا اس نے پھر کبھی کوئی دھمکی دی تو پھر دنیا دیکھے گی کہ کس کے پیچھلے اسے ڈھونڈتے ہیں۔ یہ بات تو آپ سب ہی جانتے ہوں گے کہ دیہاتوں کی مسجدوں کے امام کس قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کی ڈیل ڈول بولنے کا طریقہ اور لباس الگ قسم کا ہوتا ہے۔ لیکن یہ امام عام قسم کا مولوی نہیں لگتا تھا۔ کوئی کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ اس آدمی کا پیشہ امامت ہے۔ اس نے جب میرے سامنے اپنے خاندان کا نام لیا تو میں بھی متاثر ہوا۔ اس کے خاندان کے دو آدمی پولیس کے دو بڑے عہدوں پر تھے۔
اس شخص کو مولوی یا امام نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن اللہ اس کو مذہب کے راستے پر لے آیا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے مجھ کو بتایا کہ اس کے خاندان اور برداری نے اسے پاگل قرار دے دیا تھا اور اس کا پاگل پن یہ تھا کہ اتنے اونچے خاندان کا بیٹا ہو کر وہ مذہب کی اور مسجدوں کی امامت کی باتیں کرتا تھا۔ اس آدمی کے دماغ میں اور دل میں خدا کا نور داخل ہو گیا تھا۔ اس نے کسی بھی عالم دین کی شاگردی نہیں کی تھی۔ خود ہی قرآن پڑھ کر اور کتابیں پڑھ کر علما کرام سے پوچھ پوچھ کر علم کی دولت حاصل کی تھی۔ اس کا اصول یہ تھا جو دراصل صحیح اسلام ہے کہ فرقہ بندی اور پیر پرستی حرام ہے۔ مسلمان صرف مسلمان ہے اس پر کوئی بھی لیبل نہیں لگایا جا سکتا۔ اس نے انہی نظریات کو پھیلانا اپنا مشن بنا لیا تھا۔ اپنے گھر کا آرام چھوڑ کر وہ گھر سے بہت دور آ گیا تھا۔ اس کا اس گاؤں میں یہ خالی مسجد مل گئی تو اس نے گاؤں والوں سے بات کر کے اس مسجد کی امامت سنبھال لی۔ اس نے پیر پرستی قبر پرستی اور مزاروں پر سجدے کے خلاف وعظ کرنے شروع کر دیے۔ دیہات میں اس طرح کی باتیں کرنے والے کو لوگ وہابی کہتے ہیں۔ اس کو جس طرح اس کے خاندان اور برداری والوں نے پاگل کہا تھا اسی طرح گاؤں میں بھی زیادہ تر لوگ اس کو پاگل سمجھتے تھے۔ اگر یہ قابل قدر آدمی شاہ کو اپنا خاندان نہ بتاتا تو وہ ایک بھی دن اور اس گاؤں میں نہیں ٹھہر سکتا تھا۔
یہ امام جو باتیں کرتا تھا وہ بہت تھوڑے لوگ قبول کیا کرتے ہیں اور قبول بھی وہ لوگ کیا کرتے ہیں جو روشن خیال ہوتے ہیں اور اسلام کی صحیح روح کو پانا چاہتے ہیں۔ میں نے امام سے پوچھا منور کے متعلق شاید آپ دوسرے لوگوں سے زیادہ جانتے ہوں گے کہ وہ کیسا آدمی تھا۔ امام نے کہا جی ہاں آپ کا اندازہ درست ہے۔ میں منور کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ کوئی عالم فاضل نہیں تھا۔ ان پڑھ دیہاتی تھا۔ میں اس کو اس لیے زیادہ پسند کرتا تھا کہ وہ میری بات سمجھتا تھا اور میرا ساتھ دیتا تھا۔ اس نے میری بہت خدمت کی ہے۔ میں نے پوچھا کیا منور کو یہ بات معلوم تھی کہ شاہ نے آپ کو دھمکی دی ہے؟ امام نے کہا جی ہاں میں نے اسے خود بتایا تھا کہ شاہ کی طرف سے یہ پیغام ملا ہے۔ جب میں نے اسے بتایا تو وہ غصے سے کانپنے لگا تھا اور کہتا تھا کہ آپ اجازت دیں تو میں اس شاہ کو ختم کر دوں۔ لیکن میں نے اس روک دیا تھا۔ پھر منور نے مجھے ایک روز بتایا کہ شاہ کے ساتھ اس کی اتفاقیہ ملاقات ہو گئی اور منور نے شاہ کو بڑی سخت باتیں کہیں اور شاہ نے اسے گالیاں دیں۔ شاہ نے اس کو یہ بھی کہا کہ تم اپنی موت کو پکار رہے ہو مگر منور نے شاہ کی اس بات کا جواب للکار کر دیا تھا۔ میں نے امام سے پوچھا یہ کب کی بات ہے؟ امام نے بتایا کہ شاید یہ بیس بائیس روز پہلے کی بات ہے۔ میں نے کہا مگر میں نے تو سنا ہے منور نے مرنے سے چند روز پہلے شاہ کے ہاں جانا شروع کر دیا۔
منور غالباً تعویز وغیرہ لینے شاہ کے پاس تین چار مرتبہ گیا تھا۔ امام نے کہا میں نہیں مانتا اگر تو منور میرے آگے جھوٹ بولتا رہا تو پھر میں کچھ کہہ نہیں سکتا! لیکن مجھ کو منور پر اعتبار تھا وہ شاہ کے گھر نہیں جا سکتا۔ میں نے امام سے پوچھا کیا منور نے آپ سے کبھی ایسی کوئی بات کی تھی کہ ایک چڑیل اس کے ساتھ پیار محبت کے واسطے اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ امام نے کہا کبھی بھی نہیں اگر وہ ایسی کسی مصیبت میں پھنس گیا ہوتا تو میرے ساتھ ضرور بات کرتا! اور میں اس کو سمجھاتا کہ یہ اس کا وہم ہے۔ میں نے کہا ہو سکتا ہے اس نے اپنا یہ روگ آپ سے چھپا کر رکھا ہو۔ امام نے کہا میں یہ بات بھی نہیں مانتا! کیونکہ وہ مجھ سے کچھ بھی چھپاتا نہیں تھا۔ مثال کے طور پر آپ کو اس کی اور شاہ کی دشمنی کی ایک اور وجہ بتاتا ہوں۔ منور نے یہ بات بھی مجھ سے نہیں چھپائی تھی۔ شاہ کی ایک جوان بیٹی ہے جو غیر شادی شدہ ہے۔ منور کے پیچھے کوئی چڑیل تو نہیں پڑی تھی البتہ شاہ کی یہ بیٹی اس کے پیچھے چڑیلوں کی طرح پڑ گئی تھی۔ منور کو وہ کھیتوں میں اکیلا دیکھ لیتی تو اس کے پاس پہنچ جاتی تھی۔ یہ لڑکی عام طور پر اپنی حویلی کی چھت پر کھڑی رہتی تھی اور جونہی اس کو منور نظر آتا تو وہ اس کے پاس پہنچ جاتی تھی۔ وہ منور کی خوبصورتی پر جان چھڑکتی تھی اور منور اس سے جان چھڑاتا تھا۔
تین بار ایسا ہوا کہ شاہ نے ان دونوں کو اونچی فصل کے درمیان منڈھ پر اکٹھے کھڑے دیکھا۔ ان کو دیکھ کر شاہ یہی سمجھ سکتا تھا کہ ان دونوں کے آپس میں قابل اعتراض تعلقات ہیں۔ شاہ نے منور کو بہت ڈرایا اور دھمکایا! منور نے شاہ کو کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو گھر میں بند کر کے رکھے۔ لیکن لڑکی پھر بھی باز نہ آئی۔ وہ منور کو پھر ملی اور اسے بتایا کہ شاہ نے اس کو بہت مارا پیٹا ہے۔ امام مسجد کی یہ باتیں سن کر میں بہت خوش ہوا۔ اس نے قاتل کی نشاندہی کر دی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا منور اور شاہ کی بیٹی کی آخری ملاقات کب ہوئی تھی۔ امام نے کہا منور کے مرنے سے تین روز پہلے مغرب کی نماز کے بعد منور نے مجھ کو بتایا کہ آج پھر لڑکی اس کے راستے میں آ گئی تھی اور پھر شاہ نے دیکھ لیا اور وہ دوڑتا ہوا آیا۔ شاہ کو دیکھ کر لڑکی اپنے گھر کی جانب جانے لگی۔ لڑکی کو چھوڑ کر شاہ منور کے پاس آیا اور اسے کہا منور تم نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو گھر میں بند کر کے رکھوں لیکن اب میں تمہیں خبردار کرتا ہوں۔ زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنے گھر میں بند ہو کر رہو۔ منور نے شاہ سے کہا کہ تمہاری بیٹی خود ہی غلط نیت سے میرے پاس آتی ہے اور میں اس کو ٹالتا رہتا ہوں۔ لیکن اب اگر وہ میرے پاس آئی تو پھر پاک صاف واپس نہیں جائے گی۔ منور ایسا ناپاک آدمی نہیں تھا۔ اس نے صرف شاہ کی دھمکی کا جواب دیا تھا۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جو کچھ منور نے کہہ دیا تھا وہ بڑی ہی گندی گالی سمجھی جاتی ہے۔ پھر اس کے بعد منور کے متعلق یہ اطلاع ملی کہ اس کو کوئی چڑیل مار گئی ہے تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں اس چڑیل کو جانتا ہوں۔