چال باز رشتے

Sublimegate Urdu Stories 17

جہاں آرا چپ بھی کر جا میری بچی مجھے تو ہول اٹھ رہے ہیں- تیرا رونا دیکھ کے سوچنے دے مجھے، ایسا کروں کہ تجھے رلانے والے خود خون کے آنسو روئیں – عفت آرا جذبا تی لہجے میں بولی آخر کو بڑی اور چہیتی بیٹی تھی ان کی – اس کے کسی بھی مسئلے پر کیسے جذباتی نہ ہوتیں – ارے اماں شوہر تو چھوڑو اولاد بھی اپنی نہیں رہی – اب بڑی بی صبح ہی صبح اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں پتہ نہیں کیا جنتر منتر پھونکتی رہتی ہیں دن چڑھے تک – میرا لاڈلا فرمانبردار معیز کہتا ہے اماں آپ کی پسند کی ہوئی لڑکی لا کر مجھے گھر کو جہنم نہیں بنانا – میرے لیے تو دلہن دادی بھی پسند کریں گی- دادی الگ صدقے واری جاتی ہیں پوتے کی باتیں سن کر – ارے جس نند نے ساری زندگی مجھے جلایا تڑپایا آج تک چین نہ لینے دیا

 وہ تو اسی کی بیٹی کو سر پر لا کے بٹھائیں گی دیکھ لینا- وہ سو سو کر کے بولی تو عفت آرا کو مزید جوش آگیا- ارے ایسے کیسے لے کے آئے گی تو اٹھ ذرا ٹیلی فون کھسکا لا – اور میرے تکیے کے نیچے سے ڈائری نکال کر پیر بابا کا نمبر ملا ذرا- میں دیکھتی ہوں تیری ساس کی مکاریاں پیر بابا کی کرامت کے آگے – اور پچھلی بار تجھے جو پڑیاں بنا کے دی تھیں پیر بابا نے کہ دودھ میں گھول کر سب گھر والوں کو پلا دینا وہ تو پورا کیا کہ نہیں تو نے عمل 

 وہ فون کا رسیور اٹھا کر رک کر جہاں آرا سے پوچھنے لگی تو وہ منہ بنا کر رہ گئی – کیا تھا اماں عمل پورے اٹھ دن کیا تھا بارہ ہزار الگ لے لیے- آپ کے پیر بابا نے، پر اثر خاک ہونا تھا الٹا ایک دن معیز کے ابا کو شک پڑ گیا جب میں دودھ میں پڑیا ڈال رہی تھی تو وہ کچن میں آ گئے – شکر ہے زیادہ کریدہ نہیں- ورنہ تو آپ کو پتہ ہے ان کی عادت کا – ایک بار جس بات کے پیچھے پڑ جائیں بال کی کھال اتار ڈالتے ہیں – وہ خاصی ناراضگی سے گویا ہوئیں -اے جہاں آرا تجھ سے یا تو کوئی عمل میں گڑبڑ ہوئی ہوگی یا تیرا شک تجھے لے ڈوبا – یاد نہیں پیر بابا کا کہنا ہے کہ رتی بھر شک بھی میرے عمل کو بیکار کر ڈالتا ہے جو کام بھی کرو جو عمل بھی کرو پورےایمان سے کرو- انہوں نے بیٹی کو لتاڑا تو وہ شرمندہ سی نظر آنے لگی – پر کچھ اثر ہوا نا معیز پر نہ اس کے ابا پر- تو میرے دل میں آئی کہ پیسے ضائع ہی نہ ہو گئے ہوں – عفت آرا اب پیر بابا سے گفتگو فرما رہی تھی میری بچی پر رحم کریں پیر بابا اس کی جادوگرنی جیسی ساس نے سارے گھر کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا ہے – جو ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے وہ الگ ہے 

 میرے اکلوتے بیٹے کے رشتے کا بھی ذکر کیا تھا آپ سے کہ دشمن کہیں کام بننے ہی نہیں دیتے – جہاں ذرا بات بنتی ہے ایسی ایسی باتیں کر کے آ جاتے ہیں کہ چار جگہ سے میرے شہزادے سے بیٹے کا لوگ خود آ کر انکار کر گئے – لہجے میں رقت طاری کیے وہ اپنے مسائل پیر بابا کو بتا رہی تھیں دو کالے بکرے جی جی حاضر پیر صاحب 25 ہزار جی مجھے پتہ ہے- آپ جیسے ولی کا اس دنیا اور دنیا کے پیسوں سے کیا لینا دینا- پر موکل تو نذرانہ لیں گے نا – نہ جی ہم جیسے لوگوں نے آپ پر شک کر کے گنہگار ہونا ہے وہ عقیدت سے دوہری ہی ہو گئی -کچھ ایسے ہی تاثرات جہاں آرا کے چہرے پر بھی نمودار ہو گئے – بس جی اس بار کوئی عمل کوئی وظیفہ کریں بابا جی میری بچی بڑی پریشان ہے – جی نہیں نہیں نظرانہ دینے میں خود آؤں گی – جی جی پیر بابا جی اللہ آپ کو ہزار سال سلامت رکھے- انہوں نے فون رکھ کر کہا – بس تو دیکھ جہاں آرا اب کی بار کا عمل تیرے ساس تیرے پیروں میں نہ آ گرے پھر کہنا- بکرے تو میں خود کر لوں گی 25 ہزار کا بندوبست ان دو دنوں میں تجھے کرنا پڑے گا 

 عفت آرا پاندان آگے کھسکا کر اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا – وہی تو سوچ رہی ہوں اماں پچھلی دفعہ تو بارہ ہزار کی کمیٹی نکلی تھی تو اسے اسی میں سے دے دیے تھے- اب پیسے کہاں سے لاؤں معیز کے بابا تو کبھی بھی نہ دیں نہ ہی وہ ان باتوں کو مانتے ہیں – فرحت کب آئے گی کالج سے- اس سے ادھار پکڑ لیتی ہوں اگلی بی سی ڈال کے چکا دوں گی جہاں آرا کو آخر ایک رات بہن کی صورت میں سجھائی دے ہی گئی – یہ ٹیپو کب تک آتا ہے دفتر سے پیسوں کی طرف سے مطمئن ہو کر جہاں آرا کو بھائی کا خیال آیا – ٹیپوآج کل پریشان ہے بتا رہا تھا کہ پروموشن ہوتی ہوتی رہ گئی میرے بچے کی اس سے کئی سال جونیئر جو ابھی نیا آیا تھا اس کو ترقی دے دی باس نے – بندش کرا رکھی ہے دشمنوں نے – فرحت ہے تو اچھی بھلی صورت کی ، میری بچی ہزاروں میں تنخواہ ہے – سرکاری نوکری پر رخصتی کرانے میں سستی سے کام لے رہے ہیں سسرال والے- پر میں بھی دیکھ لوں گی ایک ایک کو – اماں بھر بھر کے دل کی بڑھاس نکال رہی تھی اور جہاں آرا تائیدی انداز میں سرہلائے جا رہی تھی 

 سعیدہ نماز کے بعد قران پاک کی تلاوت کر کے اپنے کمرے سے باہر آئیں تو فجر کا ٹائم نکلتا دیکھ کر الٹے پاؤں واپس ثمن کے بستر کی طرف گئیں اٹھ جاؤ ثمن جلدی سے – نماز کا ٹائم نکل رہا ہے بیٹا – انہوں نے اس کی چادر بھی کھینچ ڈالی- تب ثمن آنکھیں ملتے اٹھی وہ خود جلدی سے کچن کی جانب آ گئی – بیٹے کے بند کمرے کی جانب نگاہ گئی توبس ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی عمران کی شادی کے بعد بھی آج تک ناشتہ ماں ہی دیتی تھی بہو بیگم دن چڑھے اٹھتی اپنی مرضی کا ناشتہ بنا کر نوش فرما کر سیدھا ماں کے گھر سدھار جاتی – اور واپسی عمران کی واپسی سے محض آدھا گھنٹہ پہلے ہوتی- شادی کے تین سال بعد بھی آج تک اس کا یہی دستور تھا خود ایک دو بار دبے لفظوں میں بہو سے بات کی گویا ایک قیامت صغری کو آواز دے دی -بہو بیگم نے وہ سنائی کہ وہ تکتی رہ گئی – وہ تو شکر ہے ثمن کالج گئی ہوئی تھی ورنہ وہ اپنی ماں کے ساتھ یہ بدتمیزی برداشت نہ کر پاتی – بیٹے سے کچھ کہتی تو ایسی نظر سے دیکھتا تو شرمندہ ہی ہو جاتی — عمران اپنے کسی دوست کی بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا – پر صدا کی ہمدرد سجدہ بیگم اپنی جٹھانی عفت آ را کا بوجھ کم کرنے کے لیے صفت ارا کو بیاہ لائیں – صرف عفت آرا جب بیاہ کر آئیں -تو پتہ نہیں کیسا وہم لاحق ہوا کہ سارے رشتہ دار ان کے پہننے اوڑھنے کے خلاف ہیں – ان کو خوش دیکھ کر سب ان پر جادو ٹونا کراتے ہیں عملیات کے ذریعے ان کے گھر میں پھوٹ پڑھوانا چاہتے ہیں اورتنگ دستی لانا چاہتے ہیں دماغ میں رینگنے والے یہ کیڑے اگر اس کی وقت مناسب انداز میں جھاڑ دیے جاتے تو ٹھیک تھا – پر کون کرتا – ان کے شک کی نوعیت بچوں کے بعد بدل گئی تھی – بچہ بیمار ہوا تو فلاں نے عمل کروایا – فلاں بیٹی کی پوزیشن نہیں آئی فلاں رشتہ دار نے کچھ کروایا ہوگا – اپنی تربیت کا یہ پہلو انہوں نے اپنی ساری اولاد میں منتقل کر دیا 

 یوں فقیروں کے پاس ہر مسئلے کا حل ڈھونڈنے والا یہ خاندان ہزاروں روپے اسی مصرف میں جھونک آتا اور اللہ کے نام پر نہ تو دل میں خوف تھا نہ دینے کے لیے ایک روپیہ – بیٹیاں جس گھر میں گئی اپنی بد فطرت اور اسی فضول شخص کی بدولت نہ تو خود کسی خاندان کو اپنا بنا سکیں اور نہ ان کی ہو سکی – الٹا سسرال والوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی تھی – گزرتے سالوں میں عفت آرا بیوہ بھی ہو گئیں اور ان کی عادت و خصلت میں کوئی فرق نہ پڑا –

ثمن بھی ماں کی مدد کو کچن میں آ گئی – دونوں ماں بیٹی نے مل کر ناشتہ بنایا عمران ناشتہ کر کے آ فس چلا گیا – ثمن ابھی ناشتہ کر کے چائے پی رہی تھی آج کل پیپرز کے بعد فارغ تھی- تو اس لیے اطمینان سے بیٹھی تھی ورنہ اس وقت تو وہ عمران کے ساتھ ہی چلی جایا کرتی تھی – ساجدہ بھی بیٹی کے ساتھ ہی اپنی چائے لے کر آ بیٹھی – جالی بڑا دروازہ کھول کر بھاری بھر کم جسامت کی عفت آرا داخل ہو کر ساجدہ بیگم کا دل ہلا گئی- ان کے ایمرجنسی دور اکثر ہوتے تھے اور خاصے فساد لیے ہوتے تھے- سو انہوں نے گھبراہٹ کے مارے آج بھی چائے واپس ٹیبل پر رکھ دی اور ان کے استقبال کے لیے کھڑی ہو گئی تا ہم ثمن کی طرف سے ایسا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا – اس نے صرف سلام کیا جس کا جواب دینا انہوں نے گوارا نہیں کیا – ثمن کے ماتھے پر ناگواری سے بل پڑ گئے ان کی ہرآمد کے بے سروپا وجہ ہوتی اور اس کے پیچھے ایک فضول بحث اور اختتام ایک جگہ پر ہوتا امی بیچاری تو ان کی تسلی کرانے میں ہلکان ہو جاتی اور بالاخر دم سادہ کر چپ ہو جاتی 

 سا جدہ بیگم مجھے پتہ ہوتا کہ میری جس بچی کو بڑے ارمانوں سے تم بیاہ کر لائی تھی اس کے ساتھ یہ سلوک کرو گی تو ہرگز اس کو یہاں نہ بیاہتی – ہائے میری بد نصیب بچی- کیسے ناقدر لوگ پلے پڑ گئے – ثمن کچھ بولنے لگی تھی کہ اماں کی گھوری اسے چپ کروا گئی بھابی بیگم آپ بیٹھیں تو تسلی سے بات کریں ، کیا ہو گیا ہے اللہ گواہ ہے کہ میں نے صفت آرا اور اپنی ثمن میں کوئی فرق روا نہیں رکھا – ساجدہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا انہوں نے غصے سے ہاتھ جھٹک دیا ,پر بیٹھ ضرور گئیں اتنے بھاری بھرکم حبسے کے ساتھ کتنی دیر کھڑی ہو سکتی تھی- ارے رہنے دو بیوی اگر میری بچی کو اپنی بیٹی سمجھتی تو آج اس کی اولاد ہو گئی ہوتی وجہ سن کر ساجدہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا- جبکہ ثمن کے تیوری کے بل مزید گہرے ہو گئے اور چہرے کے زاویے بھی بگڑ گئے تاہم وہ خاموش رہی – بھابی یہ تو اللہ کا کام ہے اور جب کسے چاہے نواز دے – علی شادی کو تھوڑا ہی تو عرصہ ہوا ہے اللہ تعالی ہمیں بھی دے گا انشاءاللہ – اور مجھ سے بھلا زیادہ کسے خوشی ہو گئی کہ میرے اکلوتے بیٹے کی نسل اگے بڑھے ساجدہ نے رسان سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اے بی بی بس کر اپنے یہ ڈھونگ – پیر بابا نے خود تمہارا نام لیا ہے اور پیر بابا کا نام سن کر ساجدہ بیگم نے ایک طویل سانس لی وہ تو میں اپنے کسی اور مسئلے کے لیے گئی تو لگے ہاتھوں صفت آرا کا حساب بھی کروا لیا – صاف کہہ دیا کہ بی بی جب تک تیری بیٹی کی ساس زندہ ہے اس نے تیری بیٹی کے بچے نہیں ہونے دینا

ایسا عمل کرا رکھا ہے اس نے اور میں کہتی ہوں کہ میرے گھر میں نہ تو کبھی سکون نامی شے کا عمل دخل ہو سکتا ہے جب تک یہ کمبخت پیر بابا زندہ ہے -سا جدہ بیگم کی زبان کیسے پیربابا کی شان میں گستاخی کر رہی ہے نامراد جلا کر بھسم کر دیں گے ان کو پتہ چل گیا تو عفت آرا بولی- ثمن تم جاؤ یہاں سے سا جدہ بیگم نے غصے سے کہا ، جا رہی ہوں پر یاد رکھیے گا جس دن اس منحوس بابے کا مجھے پتہ مل گیا نا میں اس کے خلاف ایف آئی آر درج کراؤں گی – لوگوں کے گھروں میں فساد ڈلوانے کے جرم میں – پاؤں پٹختی اپنی تائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی چلی گئی کہ تائی کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفار کرتی رہی دیکھیے بھابھی بیگم میں آ پ کو ایک نہیں کئی ہزاربار بتا چکی ہوں کہ زندگی میں رونما ہونے والی ہر بات ہر عمل اور وقت اور واقعہ منجانب اللہ ہوتا ہے – ہم تو بے بس انسان ہیں میں آپ کو کن الفاظ میں یقین دلاؤں کہ میں ان تعویز گنڈوں اور عملیات وغیرہ پر یقین نہیں رکھتی ہاں تو تو اتنی ہی اگر پاک صاف ہو تو اٹھاؤ قران عفت آ را چمک کر بولی – سا جدہ بیگم نے بے ساختہ اس استغفار کیا- بھابھی بیگم معاف کیجئے گا قران پاک جیسی مقدس کتاب اللہ تعالی نے ہدایت کے لیے اتاری ہے، نہ کہ ہم جیسے گنہگار بندوں کے جھوٹ سچ جاننے کو- ارے اماں آپ 

 اتنی دیر میں عفت بھی آنکھیں ملتی آئی تو ساجدہ کو بہت کوفت ہوئی کم از کم اس وقت وہ بہو بیگم کی موجودگی نہیں چاہتی تھی پتہ تھا کہ ان دونوں کو اکٹھا سنبھالنا دشوار ہوگا – اور ہوا بھی یہی عفت آرا نے اپنی بیٹی سے اپنی آمد کی وجہ بتائی تو اس نے سر پر ہاتھ مار مار کر وہ رونا پیٹا ڈالا کہ پہلے تو سا جدہ بیگم سے چپ کرانے کی کوشش کرتی رہی پھر خود ہی ہاتھوں میں سر تھام کر بیٹھ گئی – ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان جاہل عورتوں کو کیسے چپ کروائیں- یہ سب سن کر ثمن ایک بار پھر کمرے میں آئی تو وہاں کی صورتحال پر اس کا خون کھول گیا وہ دونوں ماں بیٹی امی کو دیکھ کر تیز تیز کچھ بول رہی تھی اور امی آنسو بھری آنکھوں سے بولنے کی کوشش کرتی پھر بے بسی سے چپ ہو جاتی – چپ میں کہتی ہوں چپ کر جائیں آپ لوگ خدا کے لیے- اس نے اتنی زور سے کہا کہ تھوڑی دیر کو تو واقعی وہ دونوں خواتین چپ ہو گئی – تائی جان معاف کیجئے گا اگر اسی تماشے کے لیے ہی آئی ہیں یہاں تو پلیز زحمت نہ کیا کریں رشتے داری کے ناطے تو اپ نے کبھی یہاں قدم نہیں رکھا ،الزامات ہی لگانے آئیں جب بھی آئیں- آ پ کی بیٹی صاحبہ روز اپنے درشن آپ کو کرا تو آتی ہیں-

 الفاظ قسم دلیلیں کوئی بھی چیز آپ کو مطمئن نہیں کر سکتی اب میں کہتی ہوں کہ آپ جو کر سکتی ہیں کریں- بس یہاں آنے سے پرہیز کیجئے گا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اٹھے امی آپ اپنے کمرے میں چلیں یہ عفت آرا کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اس کہ اس قدر دو ٹوک رویے پر صفت آرا خونخوار نظروں سے نند کو دیکھتی رہی پھر چیخ کر بولی میرا گھر ہے یہ اور میری ماں کو یہاں آنے سے روکنے والی تو کون ہوتی ہے- ثمن ایک بار پھر بولنے لگی تھی کہ ساجدہ نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا

ارسلان کے دفتر سے آتے ہی بھابھی نے جلدی سے کھانا لگا دیا بچوں کو وہ سکول سے آتے ہی کھانا دے چکی تھی اب وہ آرام کر رہے تھے- ابھی ارسلان ہاتھ دھو کر ٹیبل تک آئے ہی تھے کہ اطلائی گھنٹی پر ایک بار پھر اٹھ کر دروازے تک گئے- پھر ان کی پرجوش سی آواز سنائی دی – تھوڑی دیر ٹیپو کو ساتھ لیے اندر آئے – ہاں بھئی کرن ٹیپو بھی کھانا کھائے گا – تم روٹیاں اور ڈال دو وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھے ساتھ میں ٹیپو کو بھی ہاتھ پکڑ کر ساتھ والی کرسی پر بٹھا دیا – نہیں بھائی میں کھانا نہیں کھاؤں گا اپ تکلف مت کریں – اماں کا پیغام دینے آیا تھا میں آپ کو یاد کر رہی ہیں- شام کو چکر لگا لینا- بھائی کا اس قدر روکھا جواب وہ دکھ سے بس اسے دیکھ کر رہ گئے – جبکہ کرن بھابھی جو روٹیاں ڈالنے کے لیے کھڑی ہو رہی تھی پھر سے بیٹھ گئی اور ٹیپو سنا کیا حال ہے؟ گھر میں سب کیسے ہیں؟ اماں ابا تمہاری جاب کیسی جا رہی ہے ارسلان نے کھانا کھاتے ہوئے ٹیپو سے پوچھا سب ٹھیک ہیں بھائی – جاب بھی بس ٹھیک ہی جا رہی ہے دشمنوں کا بس نہیں چلتا کہ روزی روٹی بھی بند کر دیں 

 پرموشن ہوتے ہوتے رہ گئی اماں کی تربیت کی جڑیں دور تک پھیلی تھی – ارسلان بھائی نے ایک نظر کھانا کھاتی کرن کو دیکھا پھر کھانا ختم کرتے ہوئے رسان سے بولے- دیکھو یار تم تو پڑھے لکھے نوجوان ہو تم کم از کم ان فرسودہ خیالات کا مالک نہیں سمجھتا تھا- زندگی موت رزق بیماری ہر کام اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی مرضی سے ہوتا ہے – جس دن تم لوگوں نے اس حقیقت کو قبول کر لیا یقین کرو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے- میرا ،اماں اور تم لوگوں سے نظریاتی اختلاف یہی تو تھا جس نے مجھے اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا – اللہ بہت ناراض ہوتا ہے بدگمانی پالنے والے انسان سے ناحق تہمت اور الزام لگانا بہت بڑا گناہ ہے – وہ اسے سمجھانے لگے بس کریں بھائی – آپ کیا ہمارا ساتھ دیں گے آپ تو خود ہی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں- ورنہ آج یوں الگ نہ ہوتے ہم سے – وہ منہ بنا کر بولا تو ارسلان بھائی حیراں رہ گئے – اچھا چائے تو پیو گے نا – انہوں نے سر جھٹک کر صلح جو انداز میں پوچھا، نہیں بس میں اب چلتا ہوں ، پچھلی دفعہ بھی ایک بار یہاں میٹھا کھا لیا تھا تو پورا ایک ہفتہ بستر سے نہیں اٹھ سکا تھا 

 وہ کرن بھابھی کو دیکھ کر بولا، تو اذیت کا وہی احساس بھابھی کے اندر اتر گیا ،جسے اس گھر میں رہتے ہوئے ہر بار ان کو محسوس ہوتا تھا – جبکہ ارسلان نے بہت مشکل سے کچھ کہنے سے باز رکھا اور ٹیپو کے ساتھ چلتے ہوئے اسے بیرونی دروازے تک چھوڑ کر آئے تھے – ارسلان پر اپنی ماں اور بہنوں کی گہری چھاپ اس لیے نہ پڑ سکی تھی کہ میٹرک کرتے ہی اس کے چچا دبئی میں مقیم تھے انہوں نے اسے وہیں بلوا لیا تھا – چچا کا خشک میوہ جات کی برامد کا کافی کام بڑھ گیا تھا – دوسرا ابا بھی اس وقت زندہ تھے سو انہوں نے ارسلان بھائی کو دبئی چچا کے پاس بھجوا دیا – اس نے چھوٹی عمر سے عملی زندگی میں قدم رکھا تھا اور زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنا جان گیا تھا کمانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا- چچا جیسے معاملہ فہم بندے کا ساتھ اس میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لایا تھا – ساتھ سال دیار غیر میں رہنے کے بعد جب وہ پاکستان واپس لوٹا – تو اپنے کاروبار یہاں چھوٹے پیمانے پر شروع کیا جو کہ بعد میں کافی اچھا چل نکلا تو اس نے پردیس جانے کا خیال پھر دل میں نہ آنے دیا-چچا البتہ اب بھی وہیں تھے 

 دبئی انہیں راس آ گیا تھا – شاید عفت آرا بہت چھان پھٹک کر کرن کو بیاہ کر لائیں مگر وہ ایک سال میں ہی گھبرا گئی – کچن میں کام کے دوران عفت آرا اور جہاں آرا اچانک چھا پا مارتی چلو یہ تو پھر بھی برداشت تھا مگر ان کی باتیں ، سالن میں کچھ ملا تو نہیں دیا ،کسی کے کہنے میں آ کر ؟ عفت آرا کے سوال پر کرن حیرت و استعجاب سے ان کو دیکھتی- کیا مطلب امی وہ حیرت سے سوال کرتی تو ہنسی سے مزید اس کا دل جلاتی- ایسی بھی معصوم نہ بنو ، ذرا پہلے خود تو چکھو – صوم کی پابند کرن نماز کے سٹائل میں دوپٹہ باندھے رکھتی- ساتھ ساتھ اپنی امی کے کہنے کے مطابق درود و پاک کا ورد کرتی رہتی- پہلی بار عفت آرا کی اس کے انداز پر نظر پڑی تو اس کے ہلتے لب انہیں ہلا گئے – فورا ہی آ کر اس کے ہاتھ سے سالن کا چمچہ لیا اور لگیں قسمیں اٹھوانے کہ کون سا عمل کر رہی تھی- پڑھ پڑھ کر ان کو مارنا چاہتی ہے اور اس کی گھر کی جاگیر سنبھالنا چاہتی ہے -وہ تو سن کر دنگ ہی رہ گئی خدا کی قسم امی گھر سے ہی عادت ہے، کچن کا کام ہو یا سلائی کڑھائی کا میں درود پاک کا ورد کرتی رہتی ہوں وہ روہانسی ہو کر بولی – ابے رہنے دو بی بی، ڈرامے ہم سب جانتے ہیں ان قصوں کو، اس گھر میں رہنا ہے تو یہ عملیات دم اور درود نہیں چلیں گے، انہوں نے انگلی اٹھا کر اسے متنبہ کیا ،تو وہ اپنے آنسو چھپا کر چپ ہی ہو گئی- ارسلان سے ذکر کرنا نہ بھولی رفتہ رفتہ اس کے لیے فرائض کی ادائیگی بھی اس گھر میں مشکل ہو گئی- اس کی نماز قران کی عادت کو گھر میں کسی بھی بیماری یا پریشانی سے جوڑ دیا جاتا- کہ سارا سارا دن مصلہ بچھا کے جہاں وظیفے کیے جاتے ہوں وہاں کیسے سکھ کا سانس نصیب ہوگا؟ ارسلان کا ساتھ تھا جوایسے جاہل لوگوں کو برداشت کر رہی تھی 

 تین سال کے عرصے میں دو بچے ہو گئے ، نہ تو خود کو ان کے مطابق ڈھال پائی نہ ان کو بدلنے میں کامیاب ہو سکی پر معاملہ تو تب خراب ہوا جب چھوٹے بچوں کو بھی وہ ان فضولیات میں ملوث کرنے لگی – ان کے گھر رواج تھا کسی بھی بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ کسی عامل بابے ٹائپ لوگوں سے ضرور استفادہ کیا جاتا- پورے گھر کے خیال میں بیماری یا پریشانی کا تعلق اللہ سے نہیں بلکہ رشتہ دار جو ان کے دشمن تھے ان کی طرف سے کرائے گئے کسی عمل کا نتیجہ ہوتی- ارسلان کا بیٹا طلحہ ایک دفعہ ہیضے کا شکار ہو گیا ارسلان بزنس کا سلسلے میں باہرتھا عفت آرا ٹیپو کے ساتھ بابے کے پاس لے گئی اور دم کرا کے کوئی 10 ،12 تعویز گلے میں پہنا کے لے آ ئیں اور مرچوں کے دھوئیں اور لال بلی ،دوائیوں سے علاج شروع کیا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی دن میں بچے کی حالت اس حد تک بگڑ گئی کہ اسے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا ارسلان جو اب تک صرف نظر انداز کر دینے کی پالیسی اپنائے ہوئے تھا ماں اور بھائی پر خوب بگڑا ، عفت آرا کون سی چپ رہنے والی تھی سارا الزام ہی کرن کی اماں کے ساتھ رکھ دیا کہ بچے کو کچھ کھلا دیا ہے بقول ان کے بابا کے- اور بابا نے ہی پیشگوئی کی تھی کہ پہلے بچے کی حالت بگڑ جائے گی لیکن ان کا عمل اسے موت کے منہ سے کھینچ لائے گا – ارسلان پہلی دفعہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوا اس کی سوچ نے عملی قدم تب اٹھایا جب اس واقعے کے محض ہفتہ بعد اسے اپنی بیٹی جو کہ اس وقت بمشکل پانچ سال کی تھی گلی کے بیچ میں حراساں کھڑی دکھائی دی اس کے ہاتھ میں کچھ پکڑا ہوا تھا

 ارسلان کو کرن کی لاپرواہی پر شدید غصہ آیا کہ بچی کو بھلے ہی اپنا محلہ اور جان پہچان کے لوگ تھے- باہر کیوں بھیجا ؟ پر بچی سے صورتحال پتہ چلنے پر اس کے خون میں شرارے دوڑ گئے- میں تو سو رہی تھی پاپا- ماما نہانے گئی تھیں دادی نے گوشت د یا اور کہا جدھر ماسی کوڑا ڈال کے اتی ہے وہاں جو کالا کتا بیٹھا ہو اس کے آگے گوشت ڈال کر جلدی سے بھاگ آنا- ماما کو مت بتانا- تمہارے اوپر جن کا سایہ ہو گیا ہے ایسا کرنے سے وہ بھاگ جائے گا نہیں تو تمہیں کھا جائے گا کہہ کر بچی رو دی – پاپا گوشت تو ڈال دیں ورنہ جن مجھے کھا نہ جائے – بچی کا خوف سے برا حال تھا اور ارسلان کا غصے سے- وہ سیدھا گھر آ یا اور کرن کو پیکنگ کرنے کو کہا – ایسا کیا قصور ہو گیا ہم سے کہ گھر بھی چھوڑ کے جا رہے ہیں- تیری بیوی اور ساس نے کوئی نئی پٹی پڑھائی ہوگی – بیٹے کے تیور دیکھ کر وہ ٹھٹک ہی گئی تھیں جب وہ پتھریلے تاثرات لیے بچی کو سینے سے چمٹائے گھر میں داخل ہوا- یہاں رہ کر اب جو کچھ کرتی ہیں وہ اب میری برداشت سے باہر ہے

 اماں میں آپ سے گستاخی کرنا نہیں چاہتا اپنی فضول باتوں وہموں اور وسوسوں میں آ پ نے معصوم بچوں کو گھسیٹ لیا ہے یہ دیکھیں اس کا رو رو کر برا حال ہے – وہ غصے سے پھٹ پڑا – ہاں تو حساب کرایا ہے میں نے اسی سے ہی یہ بات پتہ چلی کہ ہمارے گھر پر جو عمل کئی سال پہلے دشمنوں نے کروایا تھا وہ تعویذ پرانے ہو کر اب جنات کی شکل اختیار کر گئے ہیں-

ٹیپو میرا بچہ کب سے بے روزگار پھر رہا ہے- ایسے ہی طلحہ کھڑے کھڑے بیمار ہو گیا – فرحت کے نکاح کے بعد لڑکے والے رخصتی بھول گئے تو یہ سب مسئلے ایسے آسمان سے نہیں اتر پڑے ان سب کے پیچھے کچھ تو ہے نا – پر تم نے میری پہلے کون سی بات مانی ہے جو اب مانو گے – وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی کچھ کہنا سننا بےکار تھا – یو اماں کے واویلے کرن اور اس کی اماں پر الزام کے باوجود ارسلان نے وہ گھر اسی دن چھوڑ دیا تھا- پر گھر کی خبر گیری کرنا کبھی نہیں بھولا- نہ ہی اماں کو خرچ کی مد میں جوماہانہ رقم دیا کرتا تھا وہ دینا – وہ گھر والوں کی ذہنیت بدلنے میں اج بھی اتنا ہی ناکام تھا جتنا چار سال پہلے- تتلی تتلی میں کہتی ہوں چھوڑو یہ رسالے اور اٹھ کر جھاڑو ہی دے لے گھر میں دیکھ تو ذرا سی ہوا کیا چلی منٹوں میں دوبارہ گند ہو گیا- صفائی پسند اماں سے گھر کی حالت برداشت نہ ہوئی تو رسالہ پڑھتی بیٹی کو پکار بیٹھی- وہ جو ابھی محض 20 منٹ پہلے ہی جھاڑو لگا کر سارے گھر کو چمکا کر ڈائجسٹ لے کر قسطوار کہانی کے سحر میں پوری طرح سے گم تھی- کسی دن اپ کے یہ چہیتے درخت میرے ہاتھوں ضائع ہو جائیں گے- اور یہ لاڈلی مرغیاں بھی ذبح کر کے بنا کے کھا جاؤں گی دیکھ لینا- غضب خدا کا 24 گھنٹوں میں 24 بار ان دو چہیتیوں کی وجہ سے مجھے گھر صاف کرنا پڑتا ہے – کبھی کبھی میں خود کو جمادار تصور کرنے لگتی ہوں بلکہ وہ بھی اتنی دفعہ جھاڑو نہیں لگاتی ہوگی جتنی دفعہ میں 

اماں کی مسلسل پکار پر اس نے رسالہ تکیے کے نیچے رکھا اور خود کمرے سے باہرآ کر ایک نظر صحن میں پڑے خشک پتوں پر اور دوسری اماں پر ڈال کر غصے سے کہا ، کیا ہے اماں ،سارا کام کرتی ہوں پھر بھی تمہیں میرے رسالے برے لگتے ہیں- جن کو پڑھنے کا ٹائم ہی اتنا کم ملتا ہے- اس نے منہ بنا کر اماں سے کہا – بیٹیوں کو سلیقہ مند ہونا چاہیے تتلی ماں باپ کے گھر کا لاڈ اگلے گھر کا عیب بن جاتا ہے – ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ میں بھی بچے کی اصلاح چھپی ہوتی ہے- مجھے پتہ ہے کہ میری بیٹی کو ہر کام اتا ہے کرتی بھی ہے پر دل لگا کر نہیں- مارے باندھے، مجھے پتا ہے کہ سارا دن بھی گھر گندا پڑا رہے میں تجھے یاد نہ دلاؤں تو ایسے ہی پڑا رہے – یہی چھوٹی چھوٹی باتیں عورت کی شخصیت بناتی اور سنوارتی ہیں ابا کی اکلوتی اولاد تھی شادی کے پانچ سال بعد منتوں مرادوں سے پیدا ہوئی نام تو دور نجف تھا پر ابا اسے تتلی بلاتے یا یوں دور نجف تو صرف کاغذات پر رہ گیا، سب کی تو تتلی تھی -ابا کے لاڈ پیار کی وجہ سے اس کے مزاج میں لاپرواہی آ گئی تھی جبکہ جس متوسط طبقے کا وہ لوگ حصہ تھے 

 پانچ سال بعد منتوں مرادوں سے پیدا ہوئی نام تو دور نجف تھا پر ابا اسے تتلی بلاتے یا یوں دور نجف تو صرف کاغذات پر رہ گیا، سب کی تو تتلی تھی -ابا کے لاڈ پیار کی وجہ سے اس کے مزاج میں لاپرواہی آ گئی تھی جبکہ جس متوسط طبقے کا وہ لوگ حصہ تھے اماں کو پتہ تھا کہ وہاں پہلے تو تعلیم کچھ خاص ضروری نہیں تھی اس نے ابا سے ضد کر کے میٹرک تک پڑھا پھر کالج کے لیے ضد کی تو شہر لے جا کر پڑھانا ان کے بس میں نہ تھا- ہاں ایف اے کی پرائیویٹ تیاری کے لیے کتابیں ضرور لا کر دے دی- ابا شہر میں ایک سرکاری دفتر میں چپڑاسی تھے- اپنی بساط سے زیادہ بیٹی کو پڑھایا اور زندگی کی ہر ضرورت مہیا کرنے کی کوشش کی- محلے میں ایک دو لوگ اس کے رشتے کے خواں تھے – ایک پرچون فروش ایک قاری صاحب اگرچہ ان کی کلاس میں ایسے ہی رشتے مناسب تھے اور اماں کے اسرار کے باوجود ابا اپنی بیٹی کے لیے ان کو مناسب نہ سمجھتے تھے- اماں نے کہا بھی تھا کہ وہ ایک چپڑاسی کی بیٹی ہے اس کے لیے ایسے ہی رشتے ائیں گے – منسٹر کے خوب مت دیکھیں پھر ابا نے انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا تھا کہ میری ایک بیٹی ہے میں دیکھ بھال کر اس کا رشتہ کروں گا- تتلی جو مارے باندھے اماں کے کام میں لگے رہتی ابا کے خیالات جان کر بہت خوش اور واقعی کسی شہزادے کے خواب بننے لگی

واہ سبحان اللہ منڈیر سے جھانکنے پر اسے تائی کے گھر جو منظر نظر ایا اسے دیکھ کر اسے گدگدی ہونے لگی- اس نے موبائل نکالا کچھ سوچ کر مسکراہٹ دباتے ہوئے ایک نمبر پریس کیا -اس وقت جو منظر میرے سامنے ہے وہ دیکھ کر اگر میں تمہیں نہ بتاتی تو شاید تمہارے ساتھ بھی زیادتی ہوتی- دوسرے اکیلے دیکھنے میں مزہ نہیں آ رہا وہ کھلکھلا کر بولی- تو دوسری طرف معیز تو حیرت سے بت ہی بن گیا – ایک تو اتنے دن بعد اس کی آ واز سنی تھی دوسرے وہ بھی اس خوشگوار موڈ میں- تیسرے اس کا اسے خود سے فون کرنا ،ایسا کیا دیکھ لیا جو ناچیز کے ساتھ شیئر کرنے کو بھی تیار ہو گئی وہ بھی مسکرا کر بولا- میں ابھی کچھ دیر پہلے یہاں پڑھنے کے ارادے سے اوپر چھت پر آئی ہوں پر نیچے آپ کی نانی اماں کے گھر کا جو منظر ہے، اسے دیکھ کر میں نے کہا ثمن پڑھائی تو روز کی جاتی ہے جبکہ ایسے انوکھے مناظر تو زندگی میں کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتے ہیں – جو اس سے مستفید ہو لیا جائے ثمن کی اواز کھنک رہی تھی جبکہ وہ نیچے دیکھتے ہوئے مسلسل بات کر رہی تھی ،قصہ یہ ہے کہ نانی اماں دھوپ میں ایک شاہی بستر پر استراحت فرما رہی ہیں غالبا طبیعت کچھ ناساز ہے ارد گرد ان کی ساری ہی اولاد جمع ہے اپ کی والدہ محترمہ سمیت 

 ہاں ارسلان بھائی نظر نہیں آ رہے معیز چوکس ہو کر اس کی بات سننے لگا یہ بھی اتنی خاص بات نہیں ،خاص تو ہیں چنی چنی انکھوں والے بابا جی – جن کے میلے کپڑے عنقریب میل کا بوجھ نہ سہار کر لگتا ہے کہ چتھروں میں تبدیل ہو کر گر جائیں گے – گلے میں رنگ برنگی ما لائیں غالبا خود کو کوئی اعلی قسم کی روحانی بزرگ سمجھنے کی کوشش میں ڈالی گئی ہیں اور ان کو جا کر کون بتائے کہ وہ اس کوشش میں بالکل ناکام ٹھہرے ہیں-آ پ کی نانی اماں کے بستر کے اہم سامنے ایک شاہی کرسی پر برجمان اب انہوں نے انکھیں بند کر کے کچھ پڑھنا شروع کر دیا ہے یہ بھی یقینا تمہارے لیے معمول کی بات ہوگی- اس نے طنز کیا تو معیز خون کے گھونٹ پی کے رہ گیا – اب ذرا ان بابا جی کے اگرچہ بابا جی میں جس دل سے صبر کر کے کہہ رہی ہوں میرا دل جانتا ہے پر چھوڑو تو کچھ توقف کے بعد گویا ہوئی- ہاں تو بابا جی کے دائیں طرف ایک کالا بکرا 30 40 کے قریب گلاب کے ہار پہنے کھڑا ہے- آپ کی امی حضور اور میری بھابھی جان اس بکرے کے گرد گویا اس کی نگرانی پر مامور ہیں- وہ کھلکھلائی تو معیز بے اختیار طویل سانس لے کر رہ گیا -اسے پتہ تھا اب ثمن نے جو ریکارڈ لگانا تھا – تھک تو نہیں گئے نہ معیز، اس نے مصنوعی لگاوٹ سے پوچھا نہیں تم بولو وہ سنجیدگی سے بولا- ہاں تو اب بابا جی نے اپنی چنی چنی انکھیں کھول کر نانی جان کی پائنتی کی طرف بیٹھے پریشان حال ٹیپو بھائی سے کچھ کہا ہے- نتیجتا اب وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ بھی بکرے کہ قریب آ گئے ہیں- آپ کی امی حضور اور ہماری بھابی جان نے اپنا ساتھ بکرے کے گرد توڑ دیا ہے اور وہ بابا جی کی بائیں طرف آ گئی ہیں 

 او نو لائیو کمنٹری کرتے کرتے ثمن کو ہنسی کا ایک شدید دورہ پڑا – معیز اب کی بار جو سین ہے ،اف میرے اللہ… وہ ہنسی کے دوران بولی معیز بے شاختہ پہلو بدل کر رہ گیا – وہ اس صورتحال کو انجوائے کرتا ثمن کی دلکش ہنسی کو اپنے اندر اتار لیتا، اگر جو یہ سارا معاملہ عفتآرا یعنی اس کی نانی اماں کے گھر کا نہ ہوتا – آپ کے ماموں جان ٹیپو صاحب نے اپنا پورا زور لگا کر اس بھاری بھرکم گود بکرے کو گود میں بھر لیا ہے اور اپ کی نانی اماں کے شاہی بستر کا طواف ہو رہا ہے ایک دو اور یہ پورے سات چکر کے ساتھ عمل پورا ہوا- یا جناب تھک گئے یہ معلوم نہیں ہو سکا اب اپ کی والدہ محترمہ ایک بھری ہوئی ٹرالی لے کر بڑی عقیدت سے بابا جی کو اصرار کر کی پیش کر رہی ہیں آپ کی نانی اماں کی پوری فیملی پر احسان کرتے ہوئے بابا جی منٹوں میں ٹرالی لپیٹ کر کے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں – تائی اماں کے علاوہ سارا گھرانہ ان کو گیٹ پر سی آف کرنے جا رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کو جاتے ہوئے وہ بکرا بھی جو بابا جی کو اللہ حافظ کہنے گیا تھا وہ ان کو اتنا پسند آ گیا کہ اسے ساتھ ہی لے گئے ہیں – کیونکہ اب جو لوگ واپس پلٹ رہے ہیں تو وہ ان کے ہمراہ نہیں ہے- امید ہے 20 منٹ کا یہ پروگرام جس کی روداد میں نے آپ کو سنائی آپ کو بے حد پسندآئی ہو گی 

 جبکہ میں یہ سب دیکھ کر اور سنا کر تھک چکی ہوں سو نیچے چلتی ہوں ہو سکتا ہے نیچے میری بھابھی صاحبہ میری امی کے ناکردہ ایک اور جرم کی شفاعت لے کر انہی کو ہراساں کر رہی ہوں، اگر وہ وہاں نہیں ہوئی تو اپنی والدہ محترمہ کا ویٹ کیجیے کیونکہ امی کو نظر انداز کر بھی دیں تو تائی امی کی بیماری کے سبب قرعہ فعال اپ کی دادی محترمہ کے نام نکلے گ- گڈ بائے ثمن کے طنزیہ لہجے میں جو کاٹ تھی وہ معیز کو اپنے دل کو کاٹتی محسوس ہوئی اور سر جھٹک کر دادی اماں کے کمرے کی طرف بڑھ گیا – ثمن اسے اب اچھی لگنا شروع ہوئی تب سے جب ابھی نانا ابا زندہ تھے اور وہ اپنی تائی کے اور معیز اپنی امی کے ساتھ اپنی نانی کے گھر جایا کرتا تھا- نٹ کھٹ اور شرارتی سی وہ لڑکی جو کبھی اس کی اچھی دوست تھی اس کی خالہ صفت آرا کو بھا گئی معیز سے بھی اس کا رابطہ بہت کم رہ گیا تھا اور جب معیز نے اسے بتایا کہ اس کی امی کے سوا دادی اور ابا کو اس کی پسند کا علم ہے تو اس نے صاف لفظوں میں انکار کر دیا تھا معیز لڑکپن کی حد تک تو میں تمہارے ساتھ کا سوچ کر خوش ہوتی رہی ہوں پر شعور کی وادی میں پہلا قدم دھرتے ہی مجھے احساس ہوا ہے کہ انسان محبت کے بغیر تو زندہ رہ سکتا ہے عزت کے بغیر نہیں اور میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے لیے ان کا کردار اور سیلف رسپیکٹ اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہوتی ہے- اس بات کا ادراک مجھے تب ہوا جب سے تمہاری خالہ صاحبہ نے ہماری زندگی جہنم بنائی ہوئی ہے 

 رہی سی کسر ہماری تائی جان پوری کر جاتی ہیں – اماں کو گھر آ کر پریشان کر کے ہراساں کر کے ، کئی دن کا بستر کا مہمان بنا کر نہ چاہتے ہوئے بھی ان چاہے رشتوں کو نبھانا، بعض دفعہ ہماری مجبوری بن جاتا ہے- پر چوائس ہو تو ایسی لائف انتخاب کیوں نہ کروں جس میں ایک فرد کی محبت تو ہو اور ساتھ ہی نفرت ہو اور الزام تراشی کے کانٹے بھی ہوں- تم اس مقصد کے لیے اپنے ابا اور دادی کو ہرگز مت ہاں ہمارے ہاں بھیجنا

وہ دن اور آج کا دن اس نے دوبارہ اس سے فون پر بات کرنا بھی پسند نہیں کیا تھا۔ تائی کے گھر آنا جانا تو کب سے تمام ہوا تھا کہ جس گاؤں ہی نہیں جانا اس کے کوس کیا گننا۔ وہ نمبر ملا ملا کر تھک جاتا ، اس کی جانب سے اتنا سخت اور کٹھور رویہ معیز کو بہت غصہ دلا دیتا تھا۔ اسے پتا تھا کہ وہ بھی اپنی طرف سے حق بجانب تھی۔ وہ تو شکر ہے کہ اس کی تربیت میں اس کی دادی کا ہاتھ تھا ورنہ وہ بھی اپنی ماں اور نانی کے زیر اثر ہوتا آج اس کی دادی خود سمد ھن اور بہو کے رویے کے ہاتھوں بہت تنگ تھیں ، گھر کا ماحول خراب نہ ہو اس لیے مدبر معاملہ فہمی اور خاموشی کے چند اصولوں سے انتشار اور بے سکونی سے بچی ہوئی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ معیز کی ماں جہاں آرا نے ہمیشہ اپنی ساس کو ظالم سمجھا تھا اور چاہتی تھیں کسی طرح ان کی راجدھانی اس گھر سے مکمل ختم ہو جائے 

 صوم و صلوۃ کی پابند معیزکی دادی اماں کو تو ایسی شرک والی باتیں پسند ہی نہیں تھیں۔ بہو کو حتی الوسع بٹھا کر نرمی سے سمجھانے کی کوشش کرتیں۔ اٹھتے بیٹھتے باتوں باتوں میں بھی بتاتیں کہ اللہ کے سوا کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ انسان یا کسی کی زندگی کے کسی بھی معاملے کی نوعیت بدل سکے پر جہاں آرا پر اپنی ماں کی سوچ اور تربیت کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ معیز کے والد کی بائیس سالہ رقافت بھی اس کو ختم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ “میں کہتا نہیں تھا تتلی کی ماں ! کہ وہ مالک بڑا بے نیاز ہے۔ ہماری گمان کے مطابق ہی نواز تا ہے ۔ جب وہ عطا کرتے نہیں تھکتا تو ہم مانگتے ہوئے کیوں گھبرائیں- تو وہ بھی تائید میں سر ہلا کر رہ گئیں ۔ غیر متوقع طور پر ان کی تتلی کے لیے اونچے گھرانے سے رشتہ آہی گیا تھا۔ ان کی بیٹی کے نصیب بھی گھل گئے تھے۔

 لڑکا ابا کے دفتر میں گریڈ اٹھارہ کا ملازم تھا۔ ابّا سے لڑکے نے ایک دن بات کی اور اگلے دن اس کی ماں بہنیں آ کر رشتہ پکا کر کے تتلی کے ہاتھ پر شگن کا دو ہزار رکھ گئی تھیں۔ ان لوگوں نے بہت جلدی کی تاریخ مانگی تھی ۔ اتنی جلدی میں یہ سب ممکن نہیں تھا پر ان کے اصرار پر ابا کو ہاں کرتے بنی تھی۔ بیٹی کے لیے جہیز تو اپنی حیثیت کے مطابق جوڑ رکھا تھا پر ابا نے اپنی چند بیگھے زمین بھی بیچ کر ان کے شایان شان بیٹی کو رخصت کر ہی دیا تھا۔ لڑکا تین چار سال سے ان کے دفتر میں تھا۔ انتہائی شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے والا۔ دونوں میاں بیوی کے دل جہاں بیٹی کی جدائی پر اداس تھے وہاں ایک اچھے گھر جانے کی طمانیت کا احساس بھی تھا۔ پتا نہیں کن کن مراحل سے گزار کر اسے اپنے کمرے میں پہنچایا گیا۔ انجان لوگ اجنبی شریک سفر اونچا خاندان کئی چیزیں تھیں جو اس کو گھبراہٹ میں بتلا کر رہی تھیں پر کامران عرف ٹیپو نے ایسے محبت کا احساس دیا تھا کہ وہ سب کچھ بھول گئی تھی۔ ساس واری صدقے جاتیں تو نندیں الگ پیار کرتے کرتے نہ تھکتیں ۔ بڑی آپا جہاں آرا کا تو ہفتے میں ایک چکر لگتا۔ منجھلی آپا فرحت آرا ایک کالج میں لیکچرار تھیں۔ فرحت آرا کا نکاح ہو گیا تھا۔ رخصتی متوقع تھی۔ چھوٹی آپا صفت آرا روز ہی چکر لگاتیں کہ ایک دیوار پارہی تو ان کا گھر تھا۔ درمیانی دروازہ کھول کر چلی آتیں۔ کبھی کبھار تو منڈیر سے بھی جھانک کر تسلی کرا دیتیں ماں کی۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ تتلی کسی تتلی کی مانند ہی اڑی پھرتی تھی۔ ہاں بولو کیوں کال کی ہے۔ ” کرخت لہجے والی وہ فرحت آرا تھیں جو اس وقت فری پریڈ میں اسٹاف روم میں موجود تھیں جب جاوید کا فون آیا ۔ جاوید جس سے ان کا نکاح ہوا تھا۔ “تم جانتی ہو فرحت میں نے کیوں کال کی ہے۔ میں نے تم سے پہلے بھی کئی بار کہا آج پھر کہہ رہا ہوں که دولت پیسہ اور زیور ا چھی زندگی اور اچھے مستقبل کی ضمانت نہیں ہوتے۔ پلیز تم لوگ یہ فضول کی ضد چھوڑ دو۔ کتنے ہی سال تم لوگوں نے اس فضول سی ضد میں ضائع کر دیے ۔

 میری اماں چکر لگا لگا کر تھک گئیں تمہاری اماں کی ایک ہی ضد ہے کہ جب تک بیس تولے سونا دو ایکڑ اراضی گھر تمہارے نام نہیں ہو گا، تم لوگ رخصتی نہیں دو گے۔ مجھے بتاؤ کہ میں سولہویں اسکیل کا ملازم آج کے اس دور میں اتنا سونا کہاں سے لاؤں؟ بیس مرلے کا ہمارا گھر ہے وہ بھی مشترکہ اور ابھی میرے ماں باپ حیات ہیں ، میں ان سے اپنے حصے کا تقاضا کیسے کر سکتا ہوں۔ پھر جو دو ایکڑ اراضی ہے وہ ہم سب بھائیوں کی مشترکہ ہے۔ تم اتنی سمجھ دار پڑھی لکھی ہو۔ تم تو کم از کم اپنی والدہ کو سمجھا سکتی ہوں۔” وہ لجاجت سے بولا تو فرحت آرا مزید اکڑ گئیں۔

تم لوگوں نے کہا تھا کہ ہماری ہر ڈیمانڈ پوری کرو گے۔ اب کہاں گئے وہ دعوے۔ سترہ اسکیل کی لیکچرار کا رشتہ لے جانا کوئی آسان بات تھوڑی ہے؟؟؟ جاوید ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئے۔ ہاں تو جب ہمارا نکاح ہوا تھا اس وقت آپ لوگوں کی ڈیمانڈ صرف پانچ تولے سونا اور ایک پلاٹ تمہارا نام کر دینے کی تھی۔ وہ وہ ہم لوگ تمہیں دینے کو تیار ہیں، خدا کے لیے اپنی اور میری زندگی اجیرن مت کرو۔ اب تو گھر والوں کا دباؤ مجھ پر گزشتہ ایک سال سے بہت بڑھ گیا ہے کہ تم لوگ اگر مصالحت پر راضی نہیں ہو تو مجھے کوئی انتہائی قدم اٹھالنا چاہیے۔ ” جاوید نے رک رک کر اپنی بات مکمل کی۔ تم ابتدائی قدم اٹھاتے ہو یا انتہائی، شوق سے اٹھاؤ۔ میں اپنی شرائط سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوں۔” فرحت آرا نے ہٹ دھرمی سے کہا اور فون بند کر دیا۔ ہونہہ کنگلے ٹٹ پونچھے لوگ بڈھے ماں باپ کتامال دبائے بیٹھے ہیں۔ ہے و قوف آدمی کو پتا ہی نہیں ہے وہ بڑبڑائیں اور اگلی کلاس لینے کے لیے اسٹاف روم سے باہر نکل گئیں۔ 

مسز ریاض جو بظاہر سر جھکائے کلاس کے ٹیسٹ چیک کرنے میں مصروف تھیں تاسف سے انہیں جاتا دیکھ کر رہ گئیں۔ عمر کے کئی سنہری سال ان کی اور ان کی ماں کی فضول ضد میں ضائع ہو چکے تھے۔ پتا نہیں کیا لکھا تھا ان کے مقدر میں۔ وہ سوچ کر رہ گئیں۔ ٹیپو اور تتلی کی آج تتلی کے اماں ابا کے گھر دعوت تھی وہ دونوں وہیں گئے تھے۔ اماں کے کمرے میں محفل گرم تھی۔ آج تو آدم بیزار صفت آرا بھی وہیں موجود تھیں۔ صفت آرا صبح سے آئی ہوئی تھی جب کہ جہاں آرا ابھی کچھ دیر قبل پہنچی تھیں اماں ! ذرا بہو رانی پہ بھی ہاتھ کس کے رکھیں۔ آج بھی مہارانی کچھ بھی پکائے بغیر چلی گئی۔ یہ دونوں آئی ہیں ہم لوگ ہیں کھانا کون پکائے گا۔ ” فرحت آرا نے منہ بنا کر کہا۔ اور اماں یہ کیا طریقہ ہوا بھلا۔ ایک ہی ہماری بھا بھی ہے اس کی ماں نے دعوت دی ہے اور جھوٹے منہ ہی سہی نہ اس کی ماں نے ہم نندوں کو ساتھ آنے کو کہا نہ اس لڑکی نے خود صفت آرا ان بہنوں میں فطرتا ” شرپسند طبیعت کی مالک تھیں ایسے ایسے نکتے کی طرف توجہ دلاتی تھیں جہاں کسی کا خیال بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ او ہو اس کے اماں ابا نے کی تو تھی ہماری دعوت ہم کون سے دعوتوں کے بھوکے ہیں۔ ” عفت آرا ے ناگواری سے کہا۔پھر بھی اماں بہو کو قابو میں رکھو ورنہ بڑی (کرن) کی طرح برک گئی تو ٹیپو کو بھی لے اڑی ہے اور یہ دوسرے کو لے جائے گ اور تم نے منہ تکتے رہ جاتا ہے۔ ” صفت آرا کو بھا بھی بھائی کا اکیلے جانا بہت کھل رہا تھا۔ لو ا یسے ہی لے اُڑے گی۔ کرن کلموہی نےایسا کیا تو اپنا سکہ ہی کھوٹا تھا ورنہ اس کی جرات تھی جو میرے جگر کے ٹکڑے کو مجھ سے الگ کرتی۔ میں نے بھی چھان پھٹک کے غریب خاندان چنا ہی اس لیے ہے که ساری زندگی دبا کے رکھوں گی۔ ذرا پر نکالے تو کتر دوں گی فورا”۔ ” عفت آرا چمک کر بولیں۔ اور واقعی کمبخت کو اتنی عقل نہ آئی کہ کھانا ہی پکا کے رکھ جائے خود تو اڑائے گی دعوت ہم یہاں بھاڑ جھونکیں گے۔ ” عفت آرا کو ایک پوائنٹ بہو بیگم کے خلاف مل ہی گیا تھا آخر ۔

اچھا اماں سنو تو کل اس جاوید کا فون آیا تھا۔” فرحت آرا نے جاوید کے ساتھ کی ہوئی بات چیت دہرائی۔ اماں کچھ سوچ ہی لو اس کا بھی ایسا نہ ہو اس کو چھوڑ کے چلتا بنے جاوید اور ہم منہ تکتے رہ جائیں ، جو کمی بیشی رہ جائے گی یہ فرحی خود ہی پوری کرائے گی عد میں۔ ” معیز کی اماں بولیں تو عفت آرا نے انہیں ھاڑ کے رکھ دیا۔ ہے تم چپ ہی رہو جہاں آرا! ایک بڑھیا تو قابو ہوئی نہ تم سے بڑی آئیں مشورے دینے والی۔ کمنجنوں کے پاس بڑا مال ہے میں۔نے پتا کروایا ہےخرچ کرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔”

میاں ویسے یہ بات سوچنے کی ہے کہ اگر ان کے پاس واقعی اتنی دولت ہوتی تو وہ میرے نام کرنے میں اتنی حیل و حجت نہ کرتے اتنا تو میں جاوید کو جان ہی گئی ہوں اتنے عرصہ میں۔” فرحت آراء نے بھی کچھ سوچتے ہوئے کہا۔خبردار جو کوئی نرمی برتی ہو۔ کیسے بڑھیا منہ پر کہہ کے گئی تھی کہ آخری بار آئی ہوں پھر نہیں آؤں گی ۔ میں دیکھتی ہوں کیسے نہیں ناک رگڑتی آتی۔ اماں کا کروفر آج بھی وہی تھا پہلے دن جیسا ۔تینوں بیٹیاں چپ رہ گئیں۔ قسم سے جہاں آراء! معیز نے تو آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ شکل دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔ یہ صیفی بھی کل یاد کر رہی تھی۔ اماں نے ٹانگیں پھیلا کر صفت آرا کو دبانے کا اشارہ کیا جو شاید اشارے کی ہی منتظر بیٹھی تھی ہل ہل کر اماں کو دبانے لگی۔ کیا پوچھتی ہو اماں ۔ دادی نے ایسی ایسی پٹیاںبڑھائی ہیں اسے میرے تو ہاتھ سے نکل گیا ہے میرا بیٹا – پہلے ایک بڑھیا نے میری جان اجیرن کر رکھی تھی اب بیٹا ناک کو آ گیا ایسےایسے فتوے دے گا۔ جنت دوزخ کے ڈرا دے گا گویا دنیا میں مسلمان صرف وہی لوگ ہیں ہم تو بڑے کا فر ہیں ، منہ پر کہہ دیتا ہے کہ امی نانی کے کہنے میں آکر اپنی عاقبت خراب کر رہی ہیں نماز پڑھا کریں توبہ استغفار کیا کریں۔ بھلا بتاؤ جوڑوں کے درد نے کسی کام کا نہ چھوڑا ۔ 

گھر کا کام کاج بھی مارے باندھے ماسیوں کے سر پر کھڑے ہو کر کراتی ہوں۔ بڑھیا مسکراتی رہتی ہے تخت پر بیٹھ کر پوتے کی لن ترانیاں سن کر۔ جہاں آرا کے اپنے ہی رونے تھے۔ ے تمہاری ساس تو سدا کی میری دشمن تھی سنا ہے۔ تیرے ابا کو پسندکرتی تھی میری شادی یہاں ہونے پر انگاروں پہ لوٹ گئی کم بخت میری شادی کے بعد بھی اس جنتی پر ڈورے ڈالنے سے باز نہ آئی۔ ایسی ایسی پر چیاں ملتیں مجھے اپنے گھر میں لڑائی ہو فساد ہو نا اتفاقی کی, پر میں بھی عفت آرا تھی اس کی چالوں کو اسی پر الٹا دیا کرتی تھی ۔ عفت آرا افسوس سے کئی بار کی گئی بات پھر دہرا گئیں۔ بیٹیوں نے بھی تائیدی انداز میں سرہلا دیا۔ تم کو میں نے چینی اور پانی پڑھوا کے دیا تھا کہ سب کو پلاؤ۔ اماں کے خشمگیں نظروں سے دیکھنے پر جہاں آراگر بڑا گئیں۔ بڑھیا اس عمر میں بھی اتنی چاق و چوبند ہے سارا کام منٹوں میں خود ہی کر لیتی ہے ۔ گھر جیسے اس کی ایکسرے کرتی نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ رات کو دودھ بھی خود ہی مجھے معیز اور اس کے ابا کو لا کر دیتی ہے ۔ ابھی تک مالک ہے اس گھر کی۔ میری جرات ہی نہیں ہوئی اور سچ پوچھو تو معیز تو آج کھلا کل اٹھتے بیٹھتے ایسے ایسے لیکچر دیتا ہے جیسے میں کوئی خدا نخواستہ کافریا ہندو ہوں۔ اس دن کہنے لگا نانی نے قربانی تو کبھی نہیں کی۔ کبھی ان پر قرضہ ہوتا ہے تو بھی ہاتھ تنگ اورجعلی بابوں کوبیس بیس ہزار کے بکرے کھڑے کھڑے پکڑا دیتی ہیں۔ ان سے کہیں ابھی بھی وقت ہے۔ 

صدقہ خیرات دے کر اللہ کو راضی کریں ان چکروں میں کچھ نہیں رکھا۔” ” وہ شرمنده سی بولیں۔ یہ معیز تو بہت بگڑ گیا ہے جہاں آرا ! سنبھل جاؤ۔ میں تو کہہ رہی ہوں کسی دن اسے بابا کے پاس لے چلو یا میں ہی تمہارے گھر لے آتی ہوں ان کو منٹوں میں سیدھا کر دیں وہ اس کو ۔ عفت آرا تڑپ کر اٹھ بیٹھیں۔ اماں ایسا غضب نہ کرنا۔ میری ساس اور معیز کے ابا تو بہت خلاف ہیں ان باتوں کے ۔ ہمارے گھر تو ویسے ہی ہر وقت ہر بات کا فتوی لگا رہتا ہے۔ نماز پڑھو۔ شرک نہ کرو۔ اللہ سے مانگو۔ چلتے پھرتے بڑھیا ایسی ایسی باتیں کرتی رہے گی گویا میری قبر میں بھی اس کم بخت نے جاکر حساب دینا ہو ۔ جہاں آرا بہت گھبرا گئیں۔