چال باز رشتے - آخری حصہ

Sublimegate Urdu Stories 16

میں معیز کو لانے کی کوشش کروں گی۔ مجھے تو ، اس کی فکر کھائے جارہی ہے۔ پر مجھے نہیں لگتا کہ وہ میرے ساتھ آئے۔ وہ مایوسی سے بولیں – اچھا پیر بابا کے مؤکل خود ہی سیدھا کرلیں گے ۔ اسے عفت آرا بے نیازی سے بولیں تو صفت آرا بے ساختہ بولیں۔ “اماں! موکل تو بڑا سخت عمل کرتے ہیں ایک ہی تو بھانجا ہے ہمارا خدا نخواستہ بیمار نہ پڑ جائے۔ جبکہ جہاں آرا کا رنگ بھی یہ بات سن کر زرد پڑ گیا۔ ہاں اماں صفی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ “تو اس کے دماغ کا خناس ایسے نہیں نکل سکتا۔ جہاں آرا تم جانو اور تمہارا بیٹا۔ اے فرحی اٹھ ذرا کچھ کھانے پینے کا ہی دیکھ لئے یہ صفت آرا ذرا دبا لے تو اسے بھی بھیجتی ہوں۔ 

چل میری بچی عفت آرا نے صفت آرا کو پچکار کر کہا ،نہ چاہتے ہوئے بھی بگڑے انداز میں اٹھ کر وہ کچن تک چلی آئی۔ شام کو اماں ابا سے مل کر شاداں جب گھر میں داخل ہوئی تو یہ نہیں جانتی تھی کہ دائرہ حیات – اس پر تنگ ہونے والا ہے اور آج سے اس کی ابتدا ہونی ہے۔ طریقے سیکھو ۔ اب تم اکیلی اس گھر میں تو ہو نہیں کہ میاں کو بغل میں دابا اور جدھر کو دل کیا منہ اٹھائے چل دیں ، جب دل کیا واپس آ گئے۔ یہاں تمہارے علاوہ چار لوگ اور بھی بستے ہیں۔ میں سدا کی مریض نہ اٹھنے کی نہ بیٹھنے کی۔ فرحی میری معصوم بچی سارا دن کالج میں جان مار کے آتی ہے ایک چھٹی کا دن نصیب ہوتا ہے -میری بچیاں ماں کی محبت میں دوڑی چلی آتی آگے بھا بھی ہیں ۔ بیگم میاں سمیت گر خالی ڈھنڈار کچن۔ اب میں بوڑھی جا کر ہنڈیا روٹی کروں یا کوسوں دور سے آئی ہوئی بیمار نند یا میری تھکی ہاری بچی ۔تھکی ہاری بچی ۔ فرحی۔ ” انہوں نے غصے سے پھور سامنے وہ کلاس لی کہ اس کی آنکھوں میں بے عزتی کے لےے احساس سے آنسو آگئے۔ 

پھول جھڑنے والی زبان سے ۔ انگارے برسنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ میں آپ کو بتا کر تو گئی تھی۔ ” پہلے اس نے مدد طلب نظروں سے میاں کو دیکھا تو وہ سر جھکائے ایسا بے نیاز نظر آیا جیسے کبھی آشنا تھا ہی نہیں سواسی کو ہمت کرنا پڑی۔ہاں تو بڑا احسان کیا مجھ پر ۔ ” وہ طنزیہ بولیں تب علی کو اچانک یاد آیا کہ اماں نے ان کا اور فرحت آراء کا کھانا بھی باندھ کر دیا تھا۔ وہ اماں نے آپ لوگوں کے لیے دیا تھا کھانا میں لے کر آئی ہوں ۔ ” اس نے جوش سے کہا جوابا ” عفت آرا کا جواب اس کا سارا جوش ٹھنڈا کر گیا۔ رہنے دو بی بی ہمیں کوئی بھوکا سمجھا ہے تمہاری ماں نے جو کھانے کی پوٹلی ساتھ کردی۔ عزت دینی بھی تو گھر بلا کے کھلائے۔ ٹیپو تو ذرا کمرے میں آ میرے فورا بھاری بھر کم جسم کو کھینچتی وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں ۔ فرحت آرا موجود نہیں تھیں۔ صفت آرا نے اس کو ڈانٹ پڑوا کے گھر کی راہ لی جبکہ جہاں آرا کافی پہلے واپس جا چکی تھیں۔ ٹیپو سر جھکائے ماں کے پیچھے چلا گیا تو وہ آنسو پیتی رہ گئی- عمران بھائی، سعیدہ بیگم، ثمن ناشتا کرنے میں مصروف تھے جب وہ چلا آیا۔ السلام علیکم اس کے سلام کا جواب سعیدہ بیگم اور عمران نے تو بڑے پُر جوش انداز میں اسے خوش آمدید کہہ کر ناشتے کی دعوت دی جسے اس نے خوش دلی سے قبول کر لیا ور کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے بے نیازی سے ناشتا کرتی ثمن پر نگاہ ڈالی اور اس کی بے نیازی پر زیر لب مسکرا دیا۔ ادھر سے گزر رہا تھا سوچا خالہ سے ملتا چلوں۔” اس نے اپنے آنے کی وجہ ان سب کے گوش گزار کرتے ہوئے کہا۔ آپ کو اپنی خالہ سے ملنا ہو تو اپنی نانی اماں کے گھر تشریف لے جایا کریں چونکہ چوبیس میں سے بیس گھنٹے ان کے وہیں گزرتے ہیں۔ یہاں ہمارے گھر ان کا جو ٹائم ہم پر احسان کرتے ہوئے گزرتا ہے وہ ان کا استراحت کا ٹائم ہوتا ہے۔ 

اس وقت ان کو اٹھانے کی جرات ان کی ساس اور شوہر میں نہیں تو آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ چائے پیتے ہوئے ثمن نے صفت آرا کے باری میں طنزیہ انداز میں حقیقت بیان کی تو معیز شرمندہ ہو گیا جبکہ سعیدہ بیگم نے ثمن کو ٹوک دیا۔ کوئی بات نہیں بیٹا! یہ لڑکی تو جو منہ میں آئے – بولے چلے جاتی ہے تم آئے اچھا کیا ہمیں خوشی ہوئی۔ انہوں نے بیٹی کو گھورتے ہوئے معیز کی شرمندگی ختم کرنے کی کوشش کی۔ کچھ بھی تھا یہ بچہ انہیں اپنی ماں اور نانی کے خاندان سے یکسر مختلف لگتا تھا۔ جبکہ عمران بھائی ثمن کی بات پر کوئی تبع تبصرہ کیے بغیر معیز سے اس کی نوکری کی تفصیلات پوچھنے لگے۔ شثمن من کو کالج نہیں جانا تھا سو ناشتے کے بعد اطمینان سے برتن سمیٹنے لگی۔ عمران بھائی بھی معیز سے معذرت کر کے آفس کے لیے اٹھ گئے جبکہ معیز کو واقعی میں اپنی خالہ پر بے حد غصہ آیا جو نو بج جانے کے بعد بھی ابھی تک کمرے سے باہر نہ آئی تھیں۔ خیر وہ بھی کون سا خالہ سے ملنے آیا تھا۔ مقصد تھا دشمن جاں کا دیدار جو وہ کر چکا تھا۔ سو اٹھنے کے لیے پر تول ہی رہا تھا کہ خالہ بھی آنکھیں ملتی کمرے سے برآمد ہو ہی گئیں۔ ارے معیز ، میری جان ! تم کب آئے مجھے جگا دیا ہوتا۔ بھانجے کو دیکھ والہانہ انداز میں آگے بڑھ کر کہا گیا۔ کچھ کھانے پینے کو پوچھا یا ایسے ہی بٹھا رکھا ہےبچے کو ،کرخت لہجے میں کیا گیا سوال اندر آتی ثمن کو آگ ہی لگا گیا۔ ناشتے کے ساتھ چائے بھی نوش فرما چکے ہیں محترم اور کچھ۔ اس نے صفت آرا سے تند لہجے میں کہا۔

کچھ کھلا پلا کر جتانے کی پرانی عادت ہے تم لوگوں کی۔ دیکھا معیز اور ہاں میرے لیے ناشتا بنا دو۔ پہلی بات معیز سے خاصے مظلومانہ انداز میں اور دوسرا آرڈر ثمن کو دیکھ کر دیا گیا۔ “سب کا ناشتا میں بنا کر رکھ چکی ہوں گھنٹہ بھر پہلے۔ ہاں گرم کرنے کی زحمت آپ کو خود کرنا پڑے تھی۔ مجھے ابھی مشین لگانی ہے اور اماں کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ روکھے انداز میں کہہ کر جانے لگی جبکہ سعیدہ بیگم بہو اور بیٹی دونوں کے تیور وہ بھی مہمان کے سامنے دیکھ کر گھبرا گئیں اور خود ہی اٹھنے لگیں – “اچھا ثمن تم جاؤ، مشین میں پانی ڈالو۔ بہو کو میں خود ہی ناشتا گرم کر دیتی ہوں۔”کیوں نوکر ہیں آپ جو سارا سارا دن لگی رہتی ہیں۔ ثمن نے غصّے میں ماں سے کہا تو صفت آرا معیز کو دیکھ کر کہ رو دیں ۔ “دیکھ رہے ہو معیز ! آج تم نے بھی دیکھ لی میری عزت اس گھر میں دو کوڑی کی بھی نہیں ہے۔”ثمن میں تمہیں کہہ رہی ہوں ناں تم جاؤ۔”سعیدہ بیگم کا زور بس ! اپنی بیٹی پر ہی تھا سو زور سے کہا تو وہ پیر پٹختی وہاں سے واک آؤٹ کر گئی – صفت بیٹا بس کر چپ کر جاؤ۔ بچی ہے ، کتنی بار کہا ہے تم ۔ بھابھی ہو اس کی درگزر سے کام لے لیا کرو۔ میں ابھی ناشتا لے کر آتی ہوں۔” وہ معیزکے سامنے شرمندہ شرمندہ سی تھیں۔ یہ کیا بات ؟ ہوئی۔ خالہ ! میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ شادی کے بعد لڑکیوں کی کتنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ پورے گھر کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے ے اور آپ اپنی ساس کو تکلیف دیتی ہیں اس عمر میں۔ وہ تو ، شکر کریں کہ سسرال اچھی ملی ہے آپ کو ورنہ برا نہ مانیں تو ایسے طور طریقے پسند نہیں کیے جاتے شادی کے بعد جیسے آپ کے ہیں۔ 

معیز مگر مچھ کے آنسو پونجھتی صفت آرا سے ناراضی سے گویا ہوا تو مانوان کے تو آگ ہی لگ گئی۔ کون سے طور طریقے دیکھ لیے میرے جو تم ایسے بول رہے ہو۔ یہی دیکھ لو آدھا گھنٹہ بمشکل ہوا ہو گا تمہیں یہاں آئے ہوئے اور پتا نہیں کیا کچھ گھول کے پلادیا کہ خالہ کو طور طریقے سکھانے لگے ” وہ چمک کر بولیں۔ انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا خالہ میں خود کیا اندھا ہوں۔ جب بھی نانی اماں کے گھر جاؤں آپ اپنا گھر بار چھوڑ کر اکثر وہیں ملتی ہیں۔۔ آج ناشتے کے ٹائم آیا ہوں تو آپ سوئی ہوئی تھیں۔ اس میں بھڑکانے یا سکھانے والی تو بات ہی کوئی نہیں۔ سامنے کی باتیں ہیں۔ لو بیٹا صفت آراء ناشتا کرو اور معیز بچے چائےپیو گے بناؤں۔ سعیدہ بیگم نے گرما گرم ناشتے کی پلیٹ روٹھی ہوئی صفت آرا کے سامنے لاکر رکھی اور اس کے منہ پھیر لینے کو نظر انداز کرتے ہوئے حلاوت سے معیز سے پوچھا۔ ارے نہیں آنٹی بہت شکریہ۔ ابھی پی ہے ناں آپ سب کے ساتھ چائے ۔ ۔ بس ایک کپ ہی لیتا ہوں میں ناشتے میں۔ وہ ادب سے گویا ہوا تو سعیدہ بیگم جیتے رہو کہہ کر وہاں سے چلی گئیں۔ ہونہہ مکار بڑھیا! اس کی ظاہری شکل پر مت جاؤ ۔

 بڑی خرانٹ ہے۔ اور بیٹی اس سے زیادہ زبان دراز اور سر پھری صفت آرا نے تنفر سے سعیدہ بیگم اور ثمن کی شان میں قصیدہ پڑھا اور شتا کرنے لگیں۔ بس خالہ ایک بات کا جواب دیں۔ اگر چھوٹی مامی ایسا کریں نانی اماں کے ساتھ جیسے آپ کر رہی ہیں آنٹی کے ساتھ تو کیسا لگے گا آپ کو۔” کہنا کیا چاہ رہے ہو معیز کہ میں بری ہوں۔ اماں بری ہیں باقی سب اچھے ہیں۔ ارے تم مرد ہو سارا دن گھر سے باہر رہنے والے۔ تمہیں کیا پتا گھروں میں کیسی کیسی سیاستیں ہوتی ہیں۔ تمہاری وہ مامی بھی بڑی چار سو بیس ہے۔ صفت آرا کی گڈ بک میں کوئی فرد بھی شامل نہیں تھا۔ معیز ان کو سمجھانے کا ارادہ ترک کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ ارے رکو تو سہی میں ناشتا کر لوں پھر اماں کی طرف چلتے ہیں۔ اماں بیچاری تو بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے رہ گئیں تم بھی چکر نہیں لگاتے ویسے تبھی آپا کو بڑی شکاتیں ہیں تم سے۔ بہت تنگ کرنے لگے ہو انہیں اماں کو کوئی بات بھی کرنی تھی تم سے۔ ” صفت آراء نے معیز کو گھیرنا چاہا لیکن اس کا دل اتنا برا ہو چکا تھا کہ مزید ایسی کوئی صورت حال برداشت کرنے کا کی سکت نہیں تھی۔ کل سے اسے اپنی نوکری پر جانا آج فری تھا سوثمن کو دیکھنے کی خاطر چلا آیا پر جو بد مزگی ہوئی تھی اس نے اس خوشی کو غارت کر دیا – آج تو خالہ ابا کے ساتھ کہیں ضروری کام سے جانا ہے۔ میں جلد ہی چکر لگاؤں گا نانی اماں کے پاس۔

 سلام کہیے گا ان کو۔ کہتے ہی وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ باہر آنگن میں ثمن برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی بازوؤں میں خود کو سمیٹے گھٹنوں سے ٹھوڑی ٹکائے پتا نہیں کسی سوچ میں گم تھی۔ وہ کھنکھارا تو وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ میں حالات کو سدھارنے کا وعدہ کروں تو کیا پھر بھی تمہاری ناں ہاں میں نہیں بدلے گی۔ کوئی آ نا جائے اس ڈر سے اس نے جلدی سے اپنا سوال پوچھ ڈالا۔ آخر وہ کوشش بھی کرے اماں کو اس کے حق میں کرنے کی تو کچھ زاد راہ تو ہو نا اس کے پاس۔ معجزے ہم گنہگاروں کے ساتھ نہیں ہوتے معیز انسانوں کے ذہن کو بدلنا بہت مشکل بات ہے، بلکہ نا ممکن ۔ اگر ممکن ہوتا تو آج ہمارے گھر میں سکون ہوتا۔ وہ اداسی سے مسکرائی۔

میرا نانی اماں کے گھر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن اپنے گھر کا میں یقین دلاتا ہوں کہ جب تک حالات اور ماحول کو تمہارے حق میں نہ کرلوں تمہیں وہاں لے کر نہیں جاؤں گا۔ اس کا مضبوط لہجہ اس کی سچائی کا گواہ تھا۔ ثمن نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا تو معیز کا چہرہ کھل اٹھا۔ ایک مشکل معرکہ اس نے سر کر لیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ آگے کے حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لے گا۔ اس نے مسکرا کر اس کے آگے سرتسلیم خم کیا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ تتلی نے سب کو ناشتا بنا کر دیا تھا جب اس کی ساس نے حکم صادر فرمایا کہ وہ سالن بھی لے کر آئے جو وہ رات اپنی ماں کے گھر سے لائی تھی۔ وہ شکر ہے اس نے فریج میں رکھ دیا تھا جھٹ گرم کر کے لے آئی۔ تم کہاں جا رہی ہو ؟ پہلے ایک پلیٹ میں ڈال کر خود کھاؤ پھر ہم چکھیں گے۔ 

کسی کا کیا بھروسا آج کے دور میں جب اپنے ہی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ غیر تو پھر غیر ہیں۔ کچھ ملا کے دے دیا ہو کہ چلو بوڑھی ساس اور ایک نند کا ٹنٹنا ہی مکا دیں۔ بیٹی اکیلی راج کرے۔ عفت آرا نے معمول کے مطابق ایک کہانی گھڑ کے اس میں اپنی مرضی کے رنگ بھر دیے۔ نتلی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس قدر کھلی تذلیل کچھ کہنے کے بجائے اس نے چپ چاپ پلیٹ میں تھوڑا سا سالن ڈالا۔ آہستہ آہستہ نوالا توڑا ایسے کہ دل دکھ سے اور آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ رات کو تنہائی کے سحر میں محبت کے خزانے لٹانے والا ٹیپو دن کی روشنی میں اتنا اجنبی کیسے بن جاتا تھا صفت آرا بے نیازی سے چائے پیتی تتلی کو دیکھتی رہیں۔ دوسرا نوالہ لیتے ہی اس زور کی ابکائی آئی وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اندر کی طرف بھاگی۔ دیکھا عفت آرا نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیسے یوں ہی۔ دیکھا بڑی بی نے ایسے ہی پوٹلی باندھ کے نہیں دے دی ساتھ۔ کچھ تھاناں ایسا جوبنو ایسے بھاگی ہے۔ عفت آرا نے فخریہ انداز میں اپنی اولاد کو مخاطب کیا تو اندر الٹیوں سے بے حال ہوئی تتلی سے بے خبروہ دونوں ماں سے شدید متاثر ہوئے جلد ہی ٹیپو دفتر اور فرحت آرا کالج سدھار گئیں۔ تتلی الٹیاں کر کے بے حال اپنے کمرے میں بیڈ پر جا پڑی تھی۔ معدہ خالی ہو جانے کے باوجود جیسے الٹا پڑ رہا تھا۔ وہ ہے سدھ پڑی تھی جب عفت آرا اندر داخل ہوئیں۔ اے بنو نہ کرو نہ بھرو ۔ 

ایسے ہی نہیں بڑے بوڑھے بڑی بڑی باتیں کر گئے۔ سالن روٹی کر لینا۔ میں ذرا پیر بابا کی زیارت کر آؤں آج یہ نہ ہو اٹوائی کھٹوائی لیے پڑی رہو ہمارے آنے تک ” کہتے ہی وہ دروازے سے ویسے ہی پلٹ گئیں۔ جبکہ تتلی میں اتنی سکت ہی نہیں تھی جو پلٹ کر جواب ہی دے پاتی۔ عفت آرا نے صفت آرا کے گھر میں داخل ہوتے ہی اسے ساتھ لیا اور دونوں اپنی مہم پر روانہ ہو گئیں۔ کافی دیر گزرنے کے بعد آئی اور تخت پر خود کو گرا لیا۔ کپڑے ڈالنے کے لیے اوپر آئی ثمن نے عادتا ہی منڈیر سے جھانکا تو سامنے دھوپ میں تخت پر نڈھال سے لیٹی وہ کامنی سی لڑکی نظر آئی جو اکثر جھانکنےپر اسے کسی نہ کسی کام میں مصروف تتلی کی طرح اڑی پھرتی دکھائی دیتی تھی۔ اسے خالی گھر سے احساس ہوا کہ گھر میں کوئی نہیں کیونکہ تائی اماں کی گھر موجودگی میں ان کا یہ تخت آنگن میں اور گرمیوں میں برآمدے میں پڑا نظر آتا تھا جس پر وہ سارا دن براجمان رہتیں۔ سنو! کیا ہوا ؟ اس نے اونچی آواز میں پکارا تو کسی ذی روح کی آواز سن کر تتلی نے آنکھیں کھول کر اوپر دیکھا اور ایک فکر مند روشن چره دیکھ کر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں پر خود میں اتنی ہمت ہرگز نہ پائی کہ آواز لگا کر اسے بلا لیتی یا اپنی غیر ہوتی طبیعت کا بتاتی ۔ یکایک اسے ایک اور ابکائی آئی اور ایسا لگا جیسے اس کی آنتیں بھی آئی ہیں۔ ثمن نے ایک سیکنڈ کے لیے کچھ سوچا بھاگ کر سیڑھیاں عبور کیں اور وہ درمیانہ چھوٹا دروازہ کھول کر اس کے پاس پہنچ گئی۔ سعیدہ بیگم ارے ارے کرتی رہ گئیں۔ ثمن نے تکیہ لا کر اسے بٹھایا۔ کمر سہلا کر دو گھونٹ پانی پلایا۔ 

کچن میں جا کر جلدی سے چائے بنائی اور دوسلائس بھی ساتھ سینک کر لے آئی۔ وہ کھا کر چائے پی کر نڈھال پڑی تتلی میں کچھ طاقت آئی تو ایک ہمدرد کاندھا میسر آنے پر رو رو کر سارا حال کہہ سنایا۔ “بس یار تمہارے حال پر تو اب رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ پتا نہیں کیا دیکھ کر تمہارے ماں باپ ان لوگوں پر ریجھ گئے اور اتنی پیاری بیٹی کو ان پاگلوں کے پلے باندھ دیا ۔ ثمن نے تاسف سے کہا تو تتلی کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی۔ کیا مطلب ہے آپ کا ۔ اس نے آہستہ سے پوچھا کہ زیادہ بولنے میں بھی د قت ہو رہی تھی۔ لمحوں میں ساری طاقت جیسے نچڑ کے رہ گئی تھی۔ مطلب یہ کہ بس تم اپنے آپ کو مضبوط بناؤ۔ صرف اس حد تک ان لوگوں کی عزت کرو جہاں تک تمہاری عزت نفس مجروح ہونے کی بات نہ آجائے۔ تم نے وہ بات تو سنی ہو گی کہ دب جانے والوں کو دنیا زیادہ دبتی ہے تو جتنا سرینڈر کروگی، یہ لوگ اتنا زیادہ سر چڑھیں گے ۔ میری اماں بھی تم جیسے خوفزدہ لوگوں کے قبیل سے تعلق رکھتی ہیں ، ہول ہول کے برا حال کر لیا ہو گا۔ لیکن خوش قسمتی سے میں اپنے ابا پر گئی ہوں۔ مجھے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہے اور ایسے گھمنڈی اور بد گمان لوگوں کا تو ہر گز نہیں۔ میرے ابا دبئی میں ہوتے ہیں۔ وہ اسے سب کچھ بتاتی چلی گئی۔ تتلی کو اس گھٹن زدہ ماحول میں وہ پیاری اور باتونی سی ہمدرد لڑ کی بہت اچھی لگی۔ ” آپ کبھی کبھار آجا کریں مجھے اچھا لگے گا۔” تتلی نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا تو ثمن مسکرا دی۔

یہ بات مجھ سے تو کہہ دی ہے اپنی فیملی کے سامنے ہرگز مت کرنا۔ دفعہ لگ جائے گی تم پر اور نا کردہ گناہوں میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا مجھ سے تعلقات بڑھا کر۔ تائی اماں کے مخالفین میں سب سے پہلے نمبر پر ہوں۔ خیر تم فکر مت کرو۔ ان لوگوں کی غیر موجودگی میں ایسی ہی کسی ہنگامی ملاقات کا بندوبست کر لیا کروں گی۔ تم اب آرام کرو۔ میں چلتی ہوں۔” ساری صورت حال سعیدہ بیگم کے پاس بتائی تو انہوں نے افسوس کا اظہار کر کے ثمن کو منع کیا کہ آئندہ ان کے کسی بھی معاملے میں دخل نہ ہی دے تو اچھا ہے۔ کیونکہ ان کو پتا تھا کہ عفت آرا ثمن سے بدتی تھیں – سوا سے کچھ کہنے سے احتراز کرتیں کہ ثمن ان کو اور صفت آرا کو خوب کھری کھری سنا دیا کرتی تھی جبکہ ان کا سارا نزلہ سعیدہ بیگم پرگرتا تھا کیونکہ ان کی دبو اور صلح جو فطرت سے واقف تھیں۔

 ثمن نے اس روز معیز کو فون کر کے ساری تفصیل بتائی۔ ساتھ ہی استدعا کی کہ کم از کم اپنے ماموں ٹیپو کو ہی سمجھائے کہ وہ بیوی کو اس کا جائز مقام دے گھر میں۔ معیز خود اپنی نانی کے گھر کے طور طریقوں سے نالاں تھا۔ انسان کو اصلاح کا آغاز اپنے گھر سے کرنا چاہیے ثمن اور میں بھی سب سے پہلے یہ چاہتا ہوں کہ امی نانی کے اثر سے آزاد ہو جائیں اس سلسلے میں میں نے اور دادی نے آج کل ایک کمپین چلائی ہوئی ہے۔ دعا کرنا کہ کامیابی ہو۔ یقین کرو من سوچتا ہوں اگر نانا مرحوم کوشش کر کے ایک نانی کی سوچ کا رخ بدل دیتے تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی۔ خیر کوشش میں کامیابی ہے۔ اتنا تو ہو ہی گیا ہے کہ پہلے ہماری کسی بات پر لڑ لڑ جھگڑ کر کمرہ نشین کے بعد ہو جاتی تھیں۔ آج کل ماتھے پر تیوری ڈالے سنتی رہتی ہیں – ویسے تمہارے پاس دوسروں کے سنانے کی باتیں ہیں کبھی یہ بھی پوچ لو معیز کیسے ہو؟ آج تمہاری یاد آرہی تھی سو فون کر لیا۔ دل میں موجود بہت دن کا شکوہ اس نے کر ہی ڈالا تو ثمن نے ایک نظر سیل کو دیکھا اور مسکرا کر کہا۔ منہ دھو کر رکھو۔ اس کی مسکراتی آواز محسوس کر کے معیز بھی مسکرا دیا -بہت سارے دن یوں ہی گزرتے چلے گئے۔ 

ایک دن ارسلان بھائی کی آمد نے ان سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ وہ بہت غصے میں تھے۔ خدا کا خوف کریں اماں ! کیوں ان شریف لوگوں کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔ چھوڑ دیں یہ بے جا ضد اور آپا کی رخصتی دے دیں۔ جاوید بے چارہ روز فون کرتا ہے کل آخر کار وہ خود آ گیا کہ ان کو فائنل جواب چاہیے کہ آپ لوگ رخصتی پر تیار ہیں نہیں۔ آپ لوگوں نے تو ہمارا تماشا ہی بنا کر رکھ دیا ہے۔ ” عفت آرا خاموشی سے ارسلان کو بولتا سنتی رہیں۔ بول چکے تم یا کچھ اور کہنا ہے؟” انہوں نے اطمینان سے پاندان بند کر کے کہا۔ ٹیپو صفت آرا اور فرحت آرا بھی وہیں موجود تھیں۔ تتلی کچن میں تھی ویسے بھی اس کو سختی سے منع کیا تھا عفت آرا نے کہ جب وہ لوگ کمرے میں جمع ہوں تو وہ اگر کوئی بہت ضروری کام ہو تو کرنے آسکتی ہے ورنہ انہیں اپنے بہت گھریلو معاملوں میں اس قسم کی دخل اندازی پسند نہیں ہے۔ میاں ہمارا تو آج بھی وہی جواب تھا جو کل ہے۔ ہماری طرف سے جو تقاضا ہے وہ آج پورا کر دے کل رخصتی کرا کے لے جائے۔ ان کا اطمینان قابل دید تھا۔ اب ان کے پاس نہیں ہے اتنا سب کچھ تو کہاں سے ے لائیں ؟ ارسلان بھائی ۔ نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔ بھلے نہ ہو کچھ ہماری بلا ہے۔ 

اس کی بھابھیوں کو دیکھو کیسے سونے سے لدی پھرتی ہیں۔ ماں نے بڑھاپے میں تین تین دفعہ کان چھدوا کے اتنے بڑے بڑے بالے ڈال رکھے ہیں ہاتھوں میں بارہ سونے کی چوڑیاں۔ میری بیٹی کو دینے کے لیے کچھ نہیں ان کے پاس۔” اماں ! جاوید کے بھائی دبئی میں کاروبار کرتے ہیں بہت اچھا کام چل رہا ہے ان کا جبکہ جاوید سرکاری ملازم ہے۔ بھلے بھائی ہیں پر معاشی حیثیت میں فرق ہے ان کی۔ اور آپ مجھ سے بہت بہتر جانتی ہیں سب کچھ پر پتا نہیں کیوں آپ کو انجان بن کر لوگوں کو اذیت دے کر لطف آتا ہے۔ بیٹی کی ماں ہیں آپ سوچیں اگر وہ ضدمیں آ گئے اور کوئی ایسا ویسا قدم اٹھا لیا تو نقصان تو ہمارا ہے ناں۔ غصے سے انہوں نے کہا۔ تو اٹھالیں کوئی بھی قدم ہماری بیٹی بھی ہم پر بھاری نہیں ہے۔ رشتے بہتیرے ان کی بے نیازی پر ارسلان بھائی تو چپ ہی رہ گئے اور ایک نظر تماشائی بنے بیٹھے باقی اہل خانہ کی طرف دیکھا جن کی ڈور اماں کے ہاتھ میں تھی۔

اماں بیٹی تو کسی پر بھی بھاری نہیں ہوتی۔ بھاری تو وہ بدنامی ہوتی ہے جو کسی ایسے ہٹ دھرم فیصلے کے بعد بیٹی اور اس کے گھر والوں کا نصیب بنتی ہے۔ آپ بہت غلط کر رہی ہیں اور بہت پچھتائیں گی ۔ دم لے جاؤ میاں ! تم نے کب خود کو اس خاندان کا حصہ سمجھا ہے۔ الٹا جب بھی آئے ماں کی دل جوئی کرنے کی بجائے دل ہی دکھایا ۔ ” عفت آرا کی بات پر ارسلان کا منہ اتر گیا۔ وہ سست قدم اٹھاتے اس گھر سے نکل آئے تھے۔ یہاں کے لوگوں نے برسوں پہلے جو زندگی گزارنے کی غلط راہیں متعین کی تھیں برس ہا برس کے بعد بھی اسی پر قائم تھے۔ اماں ابا کی محبت کی چھاؤں میں وہ کسی تتلی کی مانند اڑتی پھرتی تھی اب اسے لگتا اس تتلی کے رنگ کسی نے نوچ کر اسے ایک پنجرے میں بند کر دیا تھا جہاں وہ سانس بھی بمشکل لے پاتی تھی۔ 

گھر کے کام کاج کے دوران ثمن کا مہربان چہرہ کبھی کبھار اوپر سے دکھائی دے جاتا پر نہ تو وہ اس سے کچھ کہہ سکتی نہ ہی ثمن کچھ کہہ پاتی۔ اچانک اسے ایک دم چکر آیا ۔ اس نے سلیب کو تھامنے کی کوشش کی اور ذہن پر اندھیرا چھا جانے کے باعث دھڑام سے پکے فرش پر جا گری۔ غضب خدا کا ایسی میسنی پانچ ماہ ہو گئے اس لڑکی کی ایسی حالت کو منہ سے نہ پھوٹ کے دی وہ تو اس کی حالت دیکھ کر میں ٹھن گئی اور دائی کو پکڑلائی۔ اس نے تصدیق کردی کہ جی آپ کی بہو تو پانچ ماہ کی حاملہ ہے۔ یہاں تو جس کے ساتھ بھلا کرو وہی منہ پر چانٹا ما کر چلتا بنتا ہے۔ غریب سمجھ کر گھر کی عزت بنایا ، پیار دیا محبت دی۔ عزت دی۔ کیا صلہ دیا اس کل کی چھوکری نے ہماری نسل اس کی کوکھ میں پل رہی ہے اور اس گھنی نے بتا کے نہ دیا۔ تتلی نے ہوش و حواس بحال ہوتے ہی الزامات کی بوچھاڑ وصول کی تو آنکھیں موندے رہنے میں ہے بہتری سمجھی – صفی ذرا پر بابا کو فون ملا۔ اگر شام کے کھانے پر تشریف لے آئیں تو دم ہی کر دیں – دشمنوں کو خبر بھی نہ ملے اس خوشی کی خبر کی۔ ” صفت آرا اٹھ کر فون کرنے لگیں خوش قسمتی سے پیر بابا نے بھی آنے کی منظوری دے دی تھی۔ 

تتلی چادر میں لپٹی ہوئی بہت عجیب محسوس کر رہی تھی۔ سارا گھرانہ ہی ادب سے وہاں سر جھکائے موجود تھا۔ سر اوپر اٹھاؤ۔ بابا کی رعب دار آواز پر تتلی نے چونک کر ان کو دیکھا تو عمر کے لحاظ سے اس کا کوئی تاثر اس شخص کے چہرے پر موجود نہ تھا لیکن عجیب سی چمک اور الگ سا انداز تھا جس کو محسوس کرتے ہی وہ سمٹ کر اور زیادہ چہرے کو جھکا گئی۔ بی بی کو مخصوص عرصے تک مسلسل علاج کرانا پڑے گا۔ ہر جمعرات کو اسے آستانے پر لے آیا کریں۔ مجھے کوئی اچھا اشارہ نہیں ملا ہے۔ اس بار کا وار بہت سخت ہے۔ کچھ دیر کے بعد آنکھیں کھول کر بابا نے سرخ آنکھوں سے سر جھکائے بیٹھی تتلی کو دیکھ کر سب حاضرین کو مطلع کیا۔ الہی خیر۔ میں تو پہلے ہی کہتی تھی بابا آپ سے۔ کچھ خطرہ تو نہیں ہے ناں۔ عفت آرا گھبرا کر بولیں۔ ہمارے ہوتے ہوئے فکر کیوں کرتی ہے مائی۔ دیکھنا تو جن کا وار ہے ان ہی پر الٹ دیں گے ہم۔ وہ غضب سے بولے۔ تتلی کو اس کی ساس نے وہاں سے اٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ 

کمرے میں آکر اس نے چادر اتاری اور خود کو اس عجیب سے ماحول اور عجیب سے شخص سے دور پا کر سکون کی سانس لی۔ ابھی وہ کمر ٹیک لگا ہی پائی تھی کہ صفت آرا کمرے میں داخل ہوئیں۔ سنو لڑکی اچو تمہاری ماں کی طرف سے سیٹ تھا گولڈ کا وہ کہاں ہے؟ جلدی سے نکالو۔ پیربابا کو کہیں جانا ہے ۔ وہ خود ہی اس کی الماری کی دراز میں چیک کرنے لگیں۔ میرے سیٹ کا پیر سے کیا تعلق ہے۔”کسی قدر ہراساں لہجے میں اس نے پوچھا۔ کیوں بی بی! اتنی معصوم مت بنو۔ اتنی بڑی شخصیت اتنی شان والے بزرگ آئے ہیں یہاں۔ ان کا احسان ماننے کے بجائے یہ کیا پوچھنے کھڑی ہو گئی ہو۔ سنا نہیں کیسی بلاؤں مصیبتوں کو تم پر سے ٹال دیں گے۔ وہ تو شکر کرو اماں کا ،جن کا خیال کر کے وہ اپنے منہ سے کچھ نہیں مانگتے ہم خود ہی جو کچھ دے دیتے ہیں انہوں نے اعتراض نہیں کیا ورنہ ان کے آستانے پر تو جانا ہو گا خود دیکھ لینا کیسے کیسے امیر کبیر اعلا عہدوں والے کیسے کیسے نذرانے لے کر نظرکرم کے منتظر رہتے ہیں پر جن سے پیر بابا ایک بار ناراض ہو جائیں تو وہ ناکام و نامراد ہی لوٹتا ہے۔

 اب بت بن کر بعد میں کھڑی رہنا وہ زیور نکال کے دو۔ آنسو پیتے ہوئے تتلی نے زیورات والا خانہ کھول کر وہ اکلوتا سیٹ انہیں دیا جو نجانے کیا کیا جتن کر کے ابا نے اس کے لیے شہر سے بنوایا تھا۔ اس کی سسرال سے ملنے والی چار چوڑیاں اور دو سیٹ ان چھ ماہ میں پہلے ہی اس کی ساس اس سے لے چکی تھیں وہ بھی شاید ایسے ہی کسی مصرف میں جا چکے تھے۔ پر رات کو ٹیپو کے کمرے میں آنے پر وہ چپ نہ رہ سکی۔ اس کے بھی کم و بیش اپنی بہن والے خیالات و الفاظ ہی تھے کہ وہ پیر بابا کے پاس گئی نذرانے والی چیز کے بارے میں ایسی ویسی سوچیں رکھ کر اپنا ایمان خراب کر رہی ہے۔میرا علم بہت محدود اور عمر بہت ہی کم ہے لیکن اتنا جانتی ہوں کہ جو کرتا ہے۔ اللہ کرتا ہے۔ انسانوں کی زندگی میں جو خوشی آتی ہے وہ اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ ان بابوں قسم کی مخلوق کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے نہ ہی یہ غیب کا علم جانتے ہیں اور آپ اس خیال میں بھی مت رہیں کہ اس عجیب شکل والے آدمی کے پاس ہر جمعرات کو جاؤں گی ۔ آج تتلی کا ضبط جواب دے ہی گیا تھا۔ گستاخ جاہل عورت ڈربے جیسے گھر میں رہنے والی تم کیا جانتی ہو ان بزرگوں کی کرامات کو۔ تمہیں نہیں پتا کہ یہی وہ نیک لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تک ہماری دعا پہنچانے کا وسیلہ بنتے ہیں۔ ورنہ ہم تم جیسے لوگ تو اس قابل ہی نہیں کہ اتنے گناہوں کے ساتھ اس منہ سے اپنے گناہ بخشوا ئیں اور کوئی دعا مانگیں۔ ٹیپو غصے سے بولا تو تتلی اس کی عجیب و غریب توجیہ پرحیرت زدہ رہ گئی۔

آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ امجھے یقین نہیں آرہا کہ ایسی باتیں کر سکتے ہیں۔ معاف کیجئے گا جہاں تک میرا علم ہے میرا اللہ تورحیم وکریم ہے ہر خاص و عام کے لیے وہ کہتا ہے کہ مانگو وہ مانگنے والوں کو تو بہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ میں نے تو اس گھر میں ایک بھی فرد کو کبھی نماز کی پابندی کرتے نہیں دیکھا۔ یقین کریں نماز میں ہی سکون ہے۔ ابھی تتلی کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ ٹیپو کا زوردار تھپڑ اسے زمین چاٹنے پر مجبور کر گیا۔ گھٹیا خاندان کی گھٹیا لڑکی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم غلط ہیں۔ کافر ہیں مسلمان تو دنیا میں تم ہی ہو گویا۔ اماں سے بات کرتا ہوں صبح کہ گھر بھجوائیں تمہیں تمہارے۔

 اونچے گھر میں آکر اپنی اوقات ہی بھول گئی۔ تم جیسی لڑکی کو کیا پتا اونچے گھروں میں رہنے کےطور طریقے کیا ہوتے ہیں۔ ٹیپو نے اسی پر اکتفا نہیں کیا جا کر لمحوں میں اماں کو بتایا اور انہوں نے اس کے اگلے پچھلوں کو وہ سنائیں کہ متلی کے آنسو بھی اذیت کے مارے بہہ نکلے – تم جیسی گستاخ اور بے ادب لڑکی کی ہمارے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے ابھی اور اس وقت اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ۔ ہوش ٹھکانے آئیں تو لوٹ آنا۔ ہمارے طور طریقوں کے مطابق اگر زندگی نہیں گزارنی تو ہماری طرف سے آزاد ہو۔ کاغذ بھی بھیج دیں گے۔ تمہیں شاید اونچی حیثیت راس نہیں آئی۔ چلو اٹھو خوب غصے میں عفت آرا کا سانس پھول گیا۔ خوف سے تتلی کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ میں اس وقت کہاں جاؤں۔ کل صبح.. ہرگز نہیں۔ ابھی جاؤ گی تم۔ تمہارے اماں باوا کو بھی پتا چلے کہ ایسا آخر کیا کام کیا ہے جو اس ٹائم نکال باہر کی گئی ہو۔ چل ٹیپو بازو سے پکڑ کر دروازے سے باہر نکال ایسے۔ انہوں نے بیٹے کو حکم دیا تو وہ ہراساں کھڑی تتلی کی طرف بڑھا ۔ تتلی نے ایک نظر ان ظالم چہروں کی طرف دیکھا اور اپنی طرف آتے ٹیپو کو روک دیا- میں چلی جاؤں گی خود ہی بھرائی ہوئی آواز میں اس نے کہا۔ 

بیڈ پر پڑی چادر اٹھا کر اوڑھی اور آہستہ آہستہ چلتی کمرے سے باہر آ گئی۔ ہر طرف اندھیرے اور سناٹے کا راج تھا۔ سامنے اندھیرے میں نظر آتے ایک روشن گھر کو دیکھ کر اسے اس ہمد رو لڑکی کا خیال آیا تو بیرونی دروازه پار کر کے وہ گلی میں اسی طرف چلی آئی جہاں ثمن کے گھر کا بیرونی دروازہ تھا۔ اپنے پیچھے اس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرنے کی زور دار آواز سنی پر قدم رو کے بغیر وہاں آ کر کھڑی ہو گئی۔ دروازے کی گھنٹی پر ہاتھ رکھتے ہی گھنٹی کی تیز آواز پورے گھر میں گونجی۔ اس گھر میں اس کی ساس کا ایک روپ صفت آرا بھی موجود تھی۔ اس نے دل میں دعا کی کہ اس وقت اس کا سامنا اس سے نہ ہو۔ دفعتا دروازہ کھول کر عمران بھائی نے باہر جھانکا۔ آپ کون .. ارے آپ پہلے اس نے حیرت سے اور پھر اس کو پہچان کر شدید حیرت سے سوال کیا۔ شادی میں ایک دفعہ اسے دیکھا تھا اس کے بعد ایک اور بار جب جہاں آرا نے پورے گھر کی دعوت کی تو صفت آرا مجبور کر کے اسے بھی ساتھ لے گئی تھیں تب اس کی نظر ٹیپو کی بیوی پر پڑی تھی اب وہ دوسری نظر میں ہی سہی اسے پہچان گیا تھا۔ وہ ثمن سے ملنا ہے۔ بے عزتی کے احساس سے ایک بار پھر اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ 

ہاں ہاں۔ آئیے اندر ہی ہے۔ عمران کو اس کا اس وقت آنا اور روئی روئی آنکھیں بہت کچھ بتا گیا – تتلی ہچکچا گئی۔ وہ صفت آپا کو میرا آنا شاید اچھا نہ لگے۔ کیوں ؟ عمران کی تیوری پر بل پڑ گئے خیر آپ اندر تو آئیں۔ صفت ویسے بھی اپنے کمرے سےباہر نکلنے کا تکلف کم ہی کرتی ہے۔ عمران کی یہ بات سن کرتتلی اندر آگئی۔ عمران اسے سیدھا امی اور ثمن کے کمرے کی جانب لے آیا۔ ثمن کے گلے لگ کر وہ بے ساختہ ر روپڑی اور روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان ساری بات بتائی۔ میں اس وقت اکیلی اپنے گھر کیسے جاؤں جب کہ اس وقت وہاں سواری بھی کوئی نہیں جاتی اور میرے پاس کرائے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔ وہ شرمندگی سے سسکیوں کے درمیان بولی۔ امی تاسف سے اسے دیکھتی رہیں جب کہ ثمن کا چرچ سرخ پڑ گیا یہ سب سن کر عمران کے ماتھے پر الگ تیوریاں تھیں۔ خدا اگر ان کی رسی دراز کر رہا ہے تو اس میں بھی مصلحت ہے اس کی- تم دیکھنا تتلی برا انجام ہونے والا ہے ان کا۔ ثمن جی میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ میں آپ کو اپنے ابا کا نمبر بتاتی ہوں۔ آپ انہیں فون کر دیں ۔ وہ یہاں سے آکر مجھے لے جائیں۔ آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولو گی یہ اس نے روتے ہوئے کہا توامی نے ساتھ لگا کر اسے تسلی دی۔ تم کہتی ہوتومیں کردیتی ہوں تتلی پر یہ بھی تو دیکھو کہ رات کے اس ٹائم وہ لوگ پریشان نہ ہو جائیں۔ تم ایسا کرو رات تو یہاں رہ جاؤ۔ کل میں اور عمران بھائی تمہیں چھوڑ آئیں گے۔ ثمن نے تتلی کوتسلی دینے والے انداز میں کہا۔ نہیں نہیں ، آپ کو ان لوگوں کا پتا نہیں ہے ، کیسے بات کا بتنگڑ بنانے میں ماہر ہیں۔ میرے رات یہاں گزارنے کو ہی بہت بڑا مسئلہ بنا لیں گے اور میں کچھ بھی ہو جائے اپنا گھر توڑنا نہیں چاہتی۔ ثمن جی یقین کریں ان لوگوں نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے پہلے سے ہی کسی بہانے کے منتظر تھے کہ کوئی بات میری طرف سے سے ہو اور وہ مجھے وہی وجہ بنا کر گھر سے نکال دیں۔ میرے اماں ابا مرجائیں گے۔ عزت ہی تو ہوتی ہوتی ہے ہم غریبوں کے پاس۔ اس نے ایک بار پھر رونا شروع کر دیا ۔ ثمن ! یہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ عمران تم ایسا کرو گاڑی نکالوں میں اور تم چل کر اسے اس کے باپ کے گھر چھوڑ کر آتے ہیں۔ سعیدہ بیگم نے حتمی انداز میں کہا تو تتلی نے شکر سے ان کی طرف دیکھا جب کہ عمران سرہلا کرباہر چلا گیا۔ پینتالیس منٹ کے بعد وہ لوگ تتلی کے گھر پر تھے۔

عفت آرا معمول کے مطابق اپنے تخت پر براجمان تھیں۔ صفت آرا بھی باہر دھوپ میں کرسی ڈالے چائے پی رہی تھیں۔ ٹیپودفتر اور فرحت آرا کالج گئے تھے۔بہت اچھا فیصلہ کیا اماں آپ نے۔ اب دیکھنا کیسے سارے کسی تیل نکلیں گے اس بیگم کے میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ قابو میں رکھیں، آپ ہی نے زیادہ سر پر چڑھا لیا تھا۔ اب دیکھنا کیسے ناک رگڑتے ہوئے آئیں گے۔ تنفر سے کہا گیا۔ اسی اثنا میں بیرونی گھنٹی بجی تو صفت آرانے فرش کو پونچھا لگاتی ملازمہ کو آواز دے کر کہا کہ دروازے پر دیکھے کون آیا ہے۔ یہ ڈاکیا آیا ہے جی باہر کہتا ہے سائن کر دیں آپ ۔ رجسٹری ہے۔ ملازمہ ایک کاغذ اور پن پکڑے اندر آئی اور دونوں ماں بیٹوں نے تعجب سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ٹھیک سے سنا بھی تھا ہمارے ہی گھر آیا ہے ڈاکیا۔ عفت آرا نے بھنویں اچکا کر کہا تو ملازمہ بولی۔ ہاں جی اس نے خود ٹیپو صاحب کا اصلی نام کامران لیا کہ ان کا گھر ہے۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے صفت آرا نے کاغذ پر سائن کر دیے ۔ چند ہی لمحوں بعد ملازمہ نے ایک خاکی لفافہ لا کر صفت آرا کے ہاتھ میں تھما دیا۔ صفت آرا نے عجلت سے لفافہ کھولا اور اندر نکلے کاغذ پر لکھے الفاظ پڑھ کر گویا ساکت ہی رہ گئی۔ کیا ہوا۔ کیا ہے صفی ؟ بت کیوں بن گئی اے – بتا بھی کیا ہے اس میں عفت آرا اس کا انداز دیکھ کر ٹھٹک گئیں اور بے تابی سے پوچھے گئیں۔ طلاق ہے اماں فرحی کو طلاق دے دی ہے جاوید نے الفاظ بے رابطہ سے ہو کر اماں کی سماعت پر بم پھوڑ گئے۔

 جاوید اور اس کے گھر والوں کے یہاں آکر ناک رگڑنے کا خواب چکنا چور ہو کر ان کے سامنے بکھرا پڑا تھا۔ تو کرنے دیتی ان کو وہ سب کچھ کہنے دیتی وہ سب جوان کی زبان سے نکل رہا تھا۔ میں سمجھاتی تھی تجھے تتلی کہ سرال کا پرچا انسان کی زندگی کا سب سے مشکل پرچا ہوتا ہے۔ عورت کو اپنا من مارنا پڑتا ہے زبان بند رکھنی پڑتی ہے۔ بعض دفعہ تو عزت نفس بھی گنوانا پڑتی ہے تب جاکے عورت قدم جما تی ہے سسرال میں۔ کس کس کو یقین دلائیں گے کہ قصور تیرا نہیں ہے؟ سسرال سے روٹھی عورت جو میکے کی دہلیز پر آکر بیٹھے اس کے لیے ہر آنکھ میں تجسس اور ہر زبان پر سوال ہوتا ہے۔” آج اسے آئے پندرہ دن ہو گئے تھے اور اماں دن میں کوئی پندرہ بار یہ باتیں دہراتی تھیں۔ ابا نے کتنی بار دفتر میں ٹیپو سے بات کرنا چاہی تو وہ کنی کترا کر ایسے نکل جاتا جیسے ان سے کوئی تعلق کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔ میں کچھ بھی کر لیتی اماں پر انہوں نے مجھ سے کسی بھی حال میں خوش نہیں ہونا تھا۔ وجہ یہ نہ بنتی کچھ اور بنا لیتے وہ لوگ ۔ جو لوگ اللہ سے مطمئن نہیں ہوتے اللہ انہیں بندوں سے بھی نا خوش رکھتا ہے۔ 

ایک اللہ کو نہیں مانتے۔ اسی پر بھروسہ نہیں ان کو باقی سب جتن کر لیتے ہیں خوشی اور سکون حاصل کرنے کو ان پانچ ماہ میں ایک فرد نے ایک بھی نماز ادا نہیں کی۔ کبھی خیرات صدقہ کے لیے ایک روپیہ ان کی جیب ان کے گھر سے نہیں نکلا اور غیر اللہ کے لیے قرض لینے سے نہیں چوکتے میرا سارا زیور تعویز گنڈوں، پیروں، فقیروں پر خرچ کر ڈالا۔ ایک عجیب سے آدمی کو بلا رکھا تھا اوراتنی گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا مجھے پھر کہا کہ ہر جمعرات کو اس کو میرے پاس لاؤ عمل کرنے کی خاطر۔ اس پر سے بلائیں اتاروں گا۔ وہ سب کچھ بھی بتاتی چلی گئی جو پہلے اس نے نہیں بتایا تھا۔ اماں تو گنگ رہ گئیں ۔ ابا الگ دروازے میں ساکت کھڑے رہ گئے۔ تیرے لیے اچھا بر تلاش کرنے میں مجھ سے بہت بڑی بھول ہو گئی تتلی! اپنے ابا کو معاف کر دے میری بچی تو یہاں اطمینان سے رہ – وہ لوگ معافی مانگیں اور لینے آئیں گے پھر بھی نہیں جانے دوں گا۔ تو نے پہلے کیوں نہیں بتایا اتنا سب کچھ سہتی رہی۔ اسے ساتھ لگا کر ابّا سسک اٹھے۔ 

ابھی بھی ان کے لیے پلٹنے کی راہ کھلی تھی۔ ابھی بھی کئی مواقع تھے پر جن کو اللہ خود ہدایت نہ دینا چاہے ان کے دلوں پر بھی غفلت اور گمراہی کے پردے ڈال دیتا ہے۔ عفت آرا کو اب بھی زعم تھا کہ ان کی لیکچرار بیٹی بیٹھی نہیں رہے گی۔ رشتے کرانے والی کی مٹھی گرم کرکے انہوں نے فوری اچھے رشتے کی درخواست کی تھی اور بہت پر امید تھیں۔ آج ہی ایک چکر پیر بابا کے ہاں بھی لگایا لگا تھا۔ اس نے تتلی کا حساب کر کے بتایا تھا کہ ابھی اسے یہاں سے لینے کوئی مت جائے جب تک وہ خود سیدھی نہ ہو جائے صفت آرا کو اس کی گود ہری کرنے کے آزمودہ ٹوٹکے بھی بتائے تھے ساتھ میں کچھ ایسے کام بھی جن میں کچھ خطرہ تو تھا پراولاد ؟ کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ اصل مسئلہ اسے ثمن سے تھا۔ آج قسمت نے ایسے موقع دیا تھا کہ ثمن پندرہ دن کے کالج ٹرپ پر گئی تھی – بی پی ہائی اور لو ہونے کی صورت میں کئی بار انہیں شدید دورے پڑچکے تھے ۔ سو شیطان اس کی باگ تھام کراس کو گمراہی کے راستے پر چلا رہا تھا – کیا کر رہی ہو ؟ عمران کی گونج دار آواز پر اس کا گلاس لرز گیا۔ یہ مصیبت کہاں سے آ گئی؟ اس نے دل ہی دل میں سوچا وہ تواطمینان کر کے آئی تھی۔کہ عمران مصروف ہے – اس نے اپنا لہجہ ہموار رکھنے کی پوری کوشش کی کہ کچھ نہیں کر رہی پر عمران نے کچن میں داخل ہوتے اسے ادھر ادھر کرتے دیکھا تھا۔ وہ آگے بڑھ آیا۔

کس کے لیے ہے یہ دودھ کا گلاس ؟ کھوجتی نظروں سے اس کودیکھتے ہوئے وہ بولا تو صفت آرا کی آنکھوں کے سامنے کئی رنگ کے ستارے گھوم گئے۔ میں تو پی چکی ہوں۔ یہ ثمن نہیں ہے تو میں نے کہا اماں کو دے آؤں۔ اس نے تھوک نکلتے ہوئے نظریں چرا کر کہا۔ ہوں۔ ثمن تو گزشتہ آٹھ د ن سے نہیں ہے۔ روز اپنی بیماری کے باوجود اماں ہی تمہیں اور مجھے دودھ دے کے جاتی ہیں کام بھی سارا وہی سنبھال رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تمہاری ہمدردی آج ہی کیوں جاگی ؟ اس نے دانت پیس کر اس سے پوچھا۔ آپ تو بات کا بتنگڑ بنانے میں ماہر ہیں۔ کام نہ کرو تب بھی مسئلہ کرو تب بھی سوال و جواب صفت آرا نے بات کو سمیٹنے اور اس کا شک ختم کرنے کی خاطر اپنے مخصوص تیز لہجے میں کہا۔ لاؤ یہ دودھ مجھے دو۔ میں پی لیتا ہوں ہے اماں کے لیے تم اور نکال کے لے جاؤ۔ عمران کی آنکھوں میں شک اور لہجے میں نرمی تھی۔ صفت کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ نہیں۔ اس نے دودھ کا گلاس پیچھے کر دیا۔ تھوڑا سا دودھ چھلک کر سلیب پر گر گیا۔ عمران نے آگے بڑھ کر دھکیل کر صفت آرا کو پیچھے کیا اور خود گلاس اٹھانے لگا۔ مت پیو عمران اس میں زہر ہے۔ صفت آرا زور سے چیخی اور گلاس پر زور سے ہاتھ مار کر اسے گرا دیا۔ شیشے کا گلاس چھنا کے سے سلیب پر گرا اور سارا دودھ پھیل گیا اور سلیب سے گر کر لکیریں بنا تا فرش پر بہنے لگا۔ 

میں تمہارے ہر عمل کو تمہاری بے وقوفی سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا اور یہی سوچ کر چپ رہا کہ ہماری اچھائی بھی تو تمہیں اپنا بنا ہی لے گئی پر نہیں جانتا تھا کہ نیت کے برے لوگوں پر کوئی اچھائی اثر ہی نہیں کرتی ! بقائمی ہوش و میں عمران الہی بقاء ہوش و حواس تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ طلاق دیتا ہوں۔ طلاق دیتا ہوں۔” عمران کے لبوں سے الفاظ نہیں انگارے نکلے جو صفت آرا کو تو لبوں پر ہاتھ رکھ کر ساکت رہنے پر مجبور کر گئے پر شیشے کے گلاس کے ٹوٹنے کی آواز سن کر کچن کے دروازے میں کھڑی سعیدہ سے یہ سب برداشت نہ ہو سکا تو وہ لہرا کر گرنے ہی لگی تھیں کہ عمران نے بھاگ کر ان کے کمزور وجود کو اپنے مضبوط بازووں میں سمیٹ لیا۔ اماں سے نیچے گر پڑی۔ ہے. ایک تیز چیخ کی آواز پ ننگے پاؤں ہی اندر کی طرف بھاگیں جہاں سے تتلی کے چیخنے کی آواز آئی تھی۔ مغرب سے پہلے کا وقت تھا۔ ابا عصر کی نماز پڑھنے گئے تھے اور اکثر ہی وہ باہر عصر کی نماز پڑھ کر چوپال پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اماں الٹے پاؤں واپس دوڑیں۔ چار پائی گھسیٹ کر دیوار کے پار جھانکا شکر ہے ہمسایوں کا بچہ گڈو موجود تھا۔ اس سے کہا کہ بھاگ کر تتلی کے ابا کو جلدی سے بلا کے آئے۔ 

پانچ منٹ بعد ہی ابا آگئے۔ ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تتلی کی حالت دیکھ کر- وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی۔ محلے میں ہی ایک ہمسایے کی ٹیکسی تھی ابا نے تتلی کو بازوؤں میں بھر کر ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا ۔ اماں بھی اس کا سر گود میں رکھ کر بیٹھ گئیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر آیات پڑھنے لگی 45 منٹ کا سفر آدھے گھنٹے میں طے کر کے وہ ہسپتال پہنچے- جہاں تتلی کی حالت دیکھ کر اسے ایمرجنسی لے جایا گیا – ڈاکٹر نے دستخط کرائے کہ فوری آپریشن کرنا پڑے گا – تتلی کی جان کو بہت خطرہ ہے – ابا نے سائن کر دیے اور سوا گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر نے ان کو تسلی دی کہ تتلی کا آپریشن ہو گیا ہے لیکن بچہ اس دنیا میں آنے کے بعد صرف چند لمحے ہی جی سکا – ویسے بھی وہ سات ماہ کا تھا اور بہت زیادہ پیچیدگیوں کا شکار تھا- اماں ابا دکھی ہوئے پر تتلی کی جان بچ گئی تھی اس کے لیے وہ جتنا رب کا شکر ادا کرتے کم تھا- تتلی کی طرف سے تسلی ہو جانے کے بعد ابا نے ٹیپو کا نمبر ملایا اور اسے ساری تفصیل بتائی – آپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں میرا آپ سے کیا تعلق؟ بیٹی کو گھر بٹھانے کا یہ بدلہ لیا ہے ہم سے کہ جادو ٹونے کرا کر بربادی پھیلا دی سارے گھر میں- اب کہتے ہو کہ میں اس فتنی کو دیکھنے کے لیے آؤں میری طرف سے تم سب جہنم میں جاؤ- آزادی کا پروانہ میں جلد بھجوا دوں گا اس نے فون بند کر دیا – ابا کا چہرہ دیکھ کر اماں پریشان ہو گئیں کیا ہوا تتلی کے ابا کیا کہا داماد نے؟ وہ پریشان ہو کر بولی- ان کا کندھا ہلا کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا ان کا انداز اماں کو کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہا تھا جواب میں ابا صرف خالی نظروں سے انہیں دیکھ کر رہ گئے- 

بہت دنوں کے بعد معیز نے ثمن کے نمبر پر کال کی تھی درمیان کے دو تین ماہ اتنے مصروف اور عجیب گزرے تھے کہ کچھ سمجھ میں نہ آیا فرحت خالہ کی طلاق، پھر صفت خالہ کا طلاق کا بعد گھرآ جانا- ٹیپو ماموں کا تتلی مامی کو طلاق دے دینا .. دیکھا جائے تو مصیبتوں کا پہاڑ تھا جو عفت آ را کے گھر پر ٹوٹا تھا ابھی بھی خدا کی طرف سے دی گئی تنبیہ کو وہ سمجھ نہیں پائے تھے- وہ لوگ اسے دشمنوں کے وار سمجھتے اور پیروں فقیروں کےآستانے پر ان کے چکروں کی تعداد اور نزرانوں کے مقدار بڑھ گئی تھی – معیز جب بھی گھر میں اپنے رشتے کی بات چھیڑنا چاہتا کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ کھڑا ہو جاتا جس کے بعد اسے لگتا کہ اس کا اور ثمن کا ساتھ ناممکن ہے- حالانکہ اب تو جہاں آ را اپنے میکے بہت کم جاتی تھیں ابا کی طرف سے ان کو دھمکی دی گئی تھی کہ اب وہ ہفتے میں ایک بار کی بجائے مہینے میں ایک بار جائیں کیونکہ دادی ضعیف تھی ان سے گھر کی ذمہ داریاں نہیں سنبھالی جاتی تھی – دوسرا ابا جانتے تھے کہ جب تک جہاں آ را کا رابطہ ان کے میکے والوں سے رہے گا ان کے گھر میں سکون نہیں آ سکتا- وہ اپنی ساس کی فطرت کو سمجھتے تھے ورنہ ان کا دل چاہتا تھا کہ ہمیشہ کے لیے یاں تو جہاں آ را کو میکے بھیج دیں یا پھر ان کا وہاں جانا بند کر دیں – لیکن دونوں کاموں پر دل آمادہ نہ ہوا تو درمیان کی راہ نکال لی – جہاں آرا بھی شاید بہنوں کے ساتھ ہونے والے سانحوں کے بعد ذرا چپ تھیں-

 دادی جو کہتی چپ چاپ سن لیتی اور زیادہ تر خاموش رہتی – معیز یہ سب کیا ہو گیا بخدا بھابی سے ہم جتنا بھی تنگ تھے یا جو کچھ بھی انہوں نے تائی یا ہمارے ساتھ کیا، اس انتہائی قدم کا ہم میں سے کسی نے کبھی نہ سوچا تھا – عمران بھائی بہت چپ ہو گئے ہیں – اماں اس دن کے بعد سے ان سے کلام ہی نہیں کر رہی – حالانکہ تین ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے ہنستی کھلکھلاتی ثمن آج رو رہی تھی حالات الجھے ہوئے ریشم کی مانند سلجھنے کی بجائے اڑتے جا رہے تھے- وہ خاموشی سے سنتا رہا کیونکہ جانتا تھا کہ وہ اپنی ساری پریشانی اسے بتا نہیں دے گی چین اسے نہیں آ ئے گا- اس واقعے سے اگلے دن تمہاری نانی اماں اور فرحت آپا آئی تھیں بہت برا بھلا کہا مجھے اور اماں کو – پھر کہا کہ عمران بھائی نے جھوٹ بول کر سارا ڈرامہ کیا صفت ارا کو چھوڑنے کی خاطر- مجھے کہا کہ میں اب خوشی سے ناچوں جو میں چاہتی تھی وہ ہو گیا ہے – مجھے بتاؤ معیز کیا کوئی ماں اور بہن چاہتی ہے کہ اس کے بھائی یا بیٹے کا گھر اجڑ جائے – مجھے تو اس بات کا صدمہ تھا کہ تائی کی یا فرحت آپا کی کوئی بات مجھے بری ہی نہیں لگی – جانتی تھی کہ ان کی تو بیٹی کا گھر اجڑا تھا وہ مجھے کیسے برا بھلا نہ کہتی- اس کا اپنا دل اتنا بوجھل تھا کہ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کن الفاظ میں تسلی دے حالانکہ آج تک جب بھی وہ پریشان ہوتا تھا ثمن کی بے ساختہ باتیں اس کی ساری پریشانی دور کر دیتی تھی اس کے باوجود وہ آج اسے تسلی کے لیے ایک لفظ بھی نہ بول پایا-
ہسپتال میں تین دن داخل رہنے کے بعد جب تتلی گھر آئی تھی تو اس کے ایک ہفتے بعد ٹیپو کی طرف سے اسے طلاق کے کاغذات اور حق مہر کی رقم مل گئی تھی- پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی تتلی میں وہ رنگ نہ آ سکے جو اس کے مزاج کا حصہ تھے- سارا دن کاموں میں لگی رہتی مارے باندھے کام کے لیے اٹھنے والی تتلی اب ڈھونڈ ڈھونڈ کر کام نکالتی – 10 بار اماں نماز کے لیے آواز لگاتی تو کبھی پڑھ لیتی کبھی نہیں – پر اب اس کی نمازوں میں باقاعدگی آ گئی تھی – سنجیدگی مزاج کا حصہ بن گئی تھی- اماں اسے دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھرتی تو ابا نظر چرا جاتے – کسی گہری سوچ میں وہ گم تھا جب جہاں آرا اندر آئیں – اسے پتہ نہ چلا وہ بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھی تو تب وہ چونک کر سیدھا ہو گیا – ارے اماں کب آئیں وہ سیدھا ہوتے ہوئے بولا- جب تم اپنے خیالوں میں گم تھے وہ آہستہ سے مسکرا کر بولی جی اماں بولیے کوئی کام تھا؟ معیز نے ان سے پوچھا- کیوں میں تمہارے پاس ویسے نہیں بیٹھ سکتی- ارے نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا وہ شرمندہ ہو گیا -میری بھی عجیب قسمت ہے معی، ساری زندگی ساس کو خوش نہ کر پائی- میاں نے بھی مجھ سے سکون نہیں پایا- اب بیٹا ہے تو وہ بھی میری وجہ سے پریشان –

 آ نکھوں سے آنسو بہنے لگے ارے اماں یہ کیا کر رہی ہیں وہ گھبرا گیا اور ان کا ہاتھ تھام کر بے قراری سے کہا- ہاں تو نہیں ہے پریشان ؟کبھی کہا اپنی ماں سے کہا تو ثمن کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو معیز نے انکھیں پھاڑ کر ان کو دیکھنا شروع کر دیا- میں اچھی بہو نہ بنی نہ ہی اچھی بیوی پر یہ افسوس تو ساری زندگی میری جان جلائے گا کہ میں اچھی ماں بھی نہ تھی – تمہیں ماں پر اتنا بھی اعتماد نہیں تھا ایک بار مجھے بتاتا تو صحیح- معیز کتنی دیر اپنی ماں کی طرف دیکھتا رہا یہاں تک کہ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور ان کی گود میں منہ چھپا کر رو پڑا – اماں میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا – جہاں ارا کے آنسو ان کے چہرے پر ٹھٹھر کر رہ گئے- سونی یہاں آؤ… ارے بہو چھوڑو تم ان دادا پوتی کو… میری بات سنو- سعیدہ بیگم نے پیار سے اپنی بہو کو بلایا- جی اماں آج ثمن اور معیز کھانے پرآ رہے ہیں ذرا اہتمام کر لینا یا کچھ چیزیں بازار سے منگوا لینا- ارے واہ بازار سے کیوں میں تو سب چیزیں ثمن کی پسند کی بناؤں گی – اپنی ساس اور دادی کو ایسی پیاری ہوئی ہے کہ شکل دیکھنے کو ہم ترس جاتے ہیں- عبداللہ کو بھی بہت یاد آتی ہے اور سونی بھی بہت مس کر رہی ہے آج کل اس کو- 
بھابھی کے الفاظ میں نند کے لیے نرمی اور پیار تھا. ارے تتلی یار کہاں ہو میری ٹائی نہیں مل رہی – عمران کی آواز پر وہ ابھی جی آئی کہتی بھاگی چلی آئی تو سیدہ بیگم نے اپنے اللہ تعالی کی اس مہربانی پر ایک بار پھر شکر ادا کیا، جس نے ان کے گھر کے بدنما کینوس میں رنگ بھر دیے تھے اور ان کے گھر کو مکمل جنت بنا دیا تھا- ثمن کی معیز سے شادی پر جہاں آرا کی اماں اور اس کی بہنوں اور ٹیپو نے بائیکاٹ کر دیا تھا- تین سال پہلے ثمن کی معیز سے شادی کے بعد ثمن کی ہی خواہش پر عمران شادی پر راضی ہوا تھا اور آج تک اپنے اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ اس نے بہن کا مان رکھ کر اپنے لیے جنت کما لی – جہاں آ را جو پہلے پہل اپنے میکے والوں کی وجہ سے پریشان اور چپ رہتی ثمن کی پرخلوص طبیعت اور بے ساختہ انداز نے ان کو زیادہ دیر تک اس سے بے نیاز رہنے نہیں دیا تھا-