شادی سے پہلے - آخری حصہ

وہ مجھے ختم کر دینا چاہتے تھے لیکن خدا کو میری موت منظور نہ تھی۔ میں شدید زخمی ہو کر بھی زندہ بچ گئی۔ میری ماں نے بیٹوں کے ڈر سے مجھے کو ایک رشتہ دار کے گھر دوسرے گائوں بھیج دیا۔ وہاں میں نے ایک بچی کو جنم دیا۔ ان لوگوں نے میرا بہت خیال رکھا کیونکہ میں زخمی حالت میں گئی تھی اور ماں نے مجھے پر سسرال والوں کے ظلم کی جھوٹی کہانی گھڑ کر سنادی تھی۔ تین ماہ بعد ماں آکر مجھے کو لے گئی اور اس نے بچی کو ایک تیسرے گائوں جو کافی دور تھا وہاں لے جا کر اپنے کسی اور رشتہ دار کے گھر دے دیا۔

 جس خاتون کی گود میں بچی کو ڈالا ، وہ بے اولاد تھی۔ میں اکیلی ہی گھر آگئی اور ماں کی منت سماجت اور رونے بلکنے سے بھائی چپ ہو رہے ۔ انہوں نے معاملے کو اپنا شک جانا اور بات دب گئی۔ جب بابر رہا ہو کر آیا اور اس کو والدہ نے حالات سے آگاہ کیا تو وہ برہم ہو گیا۔ اس نے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ بچی میری ہے تو اس کو واپس لانا ہو گا ورنہ میں صنوبر سے شادی نہیں کروں گا۔ ماں نے کہا کہ فی الحال بچی واپس نہیں لائی جاسکتی اور نہ میرے بیٹے صنوبر کو زندہ نہ چھوڑیں گے ۔ بابر کی نیت وہ جانے ، مگر اس بات کا بہانا بنا کر اس نے مجھ سے نکاح ختم کر دیا۔ 

اس طرح میں آباد ہونے سے پہلے اجڑ گئی اور طلاق کا دھبا بھی مجھے پر لگ گیا۔ان دنوں میں رنج و غم اور بابر کی بے وفائی کے صدمے سے نڈھال تھی۔ جس روز اس نے مجھے طلاق دی، دکھ سے برا حال تھا۔ اپنے کمرے میں صبح سے رات تک ایک ہی جگہ بیٹھی روتی رہی یہاں تک کہ نصف شب بیت گئی۔ سوچتی تھی میرا قصور کیا تھا، جس کی اتنی بڑی سزا ملی۔ لیکن میرا قصور تو تھا کہ میں بزرگوں کے منع کرنے کے باوجود تنہائی میں بابر سے ملتی تھی۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور جب غلطی ہو جائے تو بعض دفعہ اس کی سزا بھی مل کر رہی تھی۔ مجھے سزا بچی کی جدائی اور بابر کی بے وفائی کی صورت میں مل گئی۔ رات کا بڑا حصہ بیت چکا تھا۔ دور دور تک سناٹا تھا۔ کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی آواز میں آتیں تو کلیجہ کٹنے لگتا تھا۔ میں رات کی تاریکی میں بیٹھی اپنی قسمت کو کوس رہی تھی۔ ماضی کی یادیں اور بابر کے ساتھ بیتے لمحات فلم کی اسکرین کی طرح آنکھوں کے سامنے چل رہے تھے۔

دو سال میری زندگی کے انہی اوپلوں میں دبی آگ جیسی سلگن میں سلگتے کٹ گئے۔ شکر ہے کہ مجھ کو لوگوں کی تیکھی نظروں اور طعنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا، پھر میری ایک دور کی خالہ نے اپنے بیٹے کے لئے میر ارشتہ مانگا اور سادگی سے میرا نکاح کچھ عرصہ بعد شفیق سے ہو گیا۔ شفیق ایک نہایت شریف انسان تھے۔ شادی کے دو سال پر سکون گزر گئے۔ 

ایک دن میری ساس اس گائوں جانکلی جہاں میری اور بابر کی بچی نے جنم لیا تھا۔ کسی نے اس کو مجھ پر ظلم کی داستان سنائی تو وہ ہکا بکارہ گئے۔ اس نے کہا کہ میری بہو کی تو کوئی بچی نہیں ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے ؟ وہ معاملے کی تحقیق میں لگ گئی۔ اس نے بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے کام لیا اور مجھ سے پوچھا اور اس کو میرے پاس لانے کا وعدہ کیا۔ ساس کا محبت بھرا رویہ دیکھا تو اس کی چال کو نہ سمجھ سکی۔ یہ بھول گئی کہ یہ ماں نہیں، ساس ہے۔ 

بس وہ دن میری زندگی کے سکون کا آخری دن تھا۔ میرے خاوند کو انہوں نے بتا دیا۔ اس کے بعد دن رات کے طعنوں نے میری زندگی اجیرن کر دی۔ میرے بھائی کی شادی پر بھی ان لوگوں نے مجھے میکے نہ جانے دیا۔ کہہ دیا کہ اب تم میکے سے کوئی تعلق نہ رکھو گی اور وہاں کبھی نہ جائو گی۔ ہم تو سمجھے تھے تم پر ظلم ہوا ہے۔ ہم کو کیا خبر تھی کہ اس سے آگے بہت کچھ ہو چکا ہے۔ اب نہ تمہارے میکے سے کوئی یہاں آگے گا اور نہ تم وہاں جائو گی۔ رور و کر میرا برا حال ہو گیا۔ اب میں اپنے میکے کی دہلیز پر کیسے قدم رکھ سکتی تھی۔ 

وقت گزرتا رہا، میں گیلی لکڑی کی طرح جلتی بجھتی اور سلگتی رہی۔ شفیق احمد اور اس کے گھر والوں نے مجھے کبھی میکے جانے نہ دیا اور نہ ہی گھر کا سکھ دیا۔ میں بس ان کے گھر کی خدمت گار کی حیثیت سے رہتی تھی کیونکہ آگے بھائیوں کا ڈر تھا۔ بابر سعودی عرب چلا گیا اور واپس نہیں لوٹا لیکن اپنی معصوم بچی کو غم مجھے دیکھنا تھا۔ جس عورت نے میری معصوم بچی کو گود لیا، اس نے اس کا نام گل ناز رکھا تھا۔ وہ کوئی اچھی عورت نہ تھی۔ اس نے اپنے طریقے سے اس کی پرورش کی اور اس کی شادی ایک اپنے واقف کار گھرانے میں کر دی۔ میری بیٹی بہت خوبصورت تھی اس لئے بہت سے اچھے گھرانوں سے اس کے رشتے آتے تھے۔ خدا جانے اس عورت نے اس کا رشتہ ظہور سے کیوں کیا ؟ وہ ایک غریب اور مزدور پیشہ تھا، لیکن اس کا بھانجا قاسم ایک امیر آدمی کا بیٹا تھا۔ 

جب گل ناز کا نکاح ظہور سے ہو گیا اس کا بھانجا بھی گھر آنے لگا۔ اب اس عورت کو خیال آیا کہ میں نے غلط کیا ہے۔ بجائے ماموں کے، میں گل ناز کو قاسم سے بیاہتی تو اچھا تھا۔ آج لڑکی بھی عیش کرتی اور میں بھی۔ اتفاق کہ قاسم کو بھی گل ناز اچھی لگتی تھی۔ رشتہ داری کی وجہ سے قاسم کے گھر آنے جانے کو ظہور نے بھی برا نہ جانا۔ وہ یہی سمجھا کہ شاید میرا خیال کرتے ہوئے بھانجا سودا سلف لانے کو اپنی ممانی کے پاس آتا ہے ، جبکہ گھر میں وہ عورت گل ناز اور قاسم کے درمیان کوئی اور ہی تعلق بنا چکی تھی۔ اس سے پہلے کہ اس تعلق کا کسی کو علم ہوتا، گل ناز اور قاسم گائوں چھوڑ کر نکل گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد اس عورت نے شور مچادیا کہ ظہور احمد میری بیٹی کو طلاق دے کیونکہ اس کا بھانجا گل ناز کو لے گیا ہے۔ یہ گائوں گائوں شہر شہر چھپتے رہے کیونکہ ظہور نے ان دونوں کو قتل کرنے کی ٹھان لی تھی۔ 

کچھ دنوں بعد ہی قاسم گرفتار ہو گیا اور گل اکیلی رہ گئی۔ اس نے اپنی منہ بولی ماں کو پیغام بھیجا کہ میں اکیلی رہ گئی ہوں ، اب تم میرے پاس آجائو۔ ماں اس جگہ چلی گئی جہاں گل ناز تھی۔ ایک روز اچانک محلے والوں کو معلوم ہوا کہ ان عورتوں کے گھر کوئی مشتبہ شخص آتا ہے۔ انہوں نے ماں بیٹی سے معاملے کا کھوج لگایا اور ظہور کو ان کے معاملے سے آگاہی دی۔ اگلے دن ہی ظہور احمد کا چھوٹا بھائی منظور احمد اور ساس اس کو لینے آگئے۔ انہوں نے کہا جو بھی ہوا لیکن ہم گل ناز کو عزت بنا چکے۔ یہ ہماری بہو ہے۔ ہم نے معاف کیا۔ اب یہ ہمارے ساتھ گھر چلے مگر لڑکی نے جانے سے انکار کر دیا۔ ظہور کو بھی ضد ہو گئی تھی کہ ایک بار تو بیوی کو ضرور گھر لانا ہے۔ اس کے بعد جو چاہے اس کا میں حشر کروں۔ وہ ہر دوسرے تیسرے دن ماں اور بھائی کو ان کے پاس بھیجنے لگا۔

اس صورت حال سے یہ ماں بیٹی تنگ آ گئیں۔یہ مشتبہ شخص جو ان کے گھر آتا تھا، ایک ٹرک ڈرائیور تھا جس نے ان ماں بیٹی کو سہارا دینے کی ہامی بھری تھی اور ماں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ ظہور والوں سے ان کا پیچھا چھڑوا دے تو گل ناز کی شادی اس کے ساتھ کر دے گی۔ اگلے دن ظہور کا بھائی آگیا کہ بھابھی گھر چلو۔ اس دن وہ ڈرائیور مہربان خان بھی وہاں موجود تھا تبھی یہ دونوں ماں بیٹی خوفزدہ ہو گئیں کہ یہ لڑکا اب جا کر گھر والوں کو خبر کر دے گا کہ ان کے گھر تو ایک غیر شخص موجود تھا۔ خدا جانے اس کے بعد ظہور ان کے ساتھ کیا کرے۔ پس انہوں نے منظور کو بٹھا لیا اور کہا۔ تم بیٹھو، ذرا انتظار کرو۔ تمہاری بھابھی ابھی تیار ہو کر ساتھ جاتی ہے۔ جب تک آپ لوگ چائے پیو۔ وہ اس کو باتوں میں لگا کر جھٹ پٹ چائے بنا کر بھی لے آئی۔ 

اس نے چائے میں نشہ آور دو املا دی تھی، جس کے پینے سے منظور پر غنودگی طاری ہو گئی وہ لیٹ گیا اور بے ہوش ہو گیا۔ اس نے ٹرک ڈرائیور سے کہا کہ مہربان! اب تم اس کو ٹھکانے لگادو، ورنہ ہمارے ساتھ ظہور تم کو بھی اپنے عتاب کا شکار بنادے گا۔ مہربان بھی ایک نوجوان لڑکا تھا۔ اس نے منظور کو کندھے پر لاد کر ٹرک میں ڈالا اور پہاڑیوں سے گہری کھائی میں گرا کر آگیا- جب منظور دو تین دن تک نہ آیا تو اس کی ماں کو فکر لاحق ہوئی کہ میرا لڑ کا بھابھی کو لینے گیا تھا۔ کہاں رہ گیا ہے ؟ وہ گل ناز کی ماں کے پاس پہنچی اور منظور کے بارے پوچھا۔ وہ بولی۔ تمہارا لڑ کا تو آدھر نہیں آیا، کہیں اور پتا کرو۔ اس کی ماں کو شک ہوا اور ان لوگوں نے تھانے جاکر رپٹ لکھوا دی۔ 

پولیس نے تفتیش کی تو راز کھل گیا اور دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ جب پولیس کے ہاتھ پڑے تو دونوں نے سارے راز اگل دیئے۔ یوں ٹرک ڈرائیور بھی گرفتار ہو گیا اور اس کی نشاندہی پر کھائی سے منظور کی لاش برآمد ہو گئی۔ ان دنوں ظہور اپنے ایک دشمن سے تنازعے کے سبب جیل میں تھا۔ جب اس کو اپنے بھائی کی موت کا پتا چلا تو وہ پاگل ہو گیا۔ وہ پولیس والوں کے پائوں پڑ گیا کہ مجھ کو صرف ایک بار چھوڑ دو۔ میں اپنی بیوی اور ساس سے اپنے بھائی کے قتل کا حساب لے لوں لیکن ایسا کب ہوا ہے کہ قانون خود کسی کو قتل کا پرمٹ جاری کر دے۔ یہ تینوں جیل میں تھے اور میں سلگ رہی تھی کہ مجھ بد نصیب کے لئے اس سے بڑی کیا سزا ہو گی کہ ان کے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر میں پہلے بیٹی سے جدائی کی سزا بھگت رہی تھی اور اب اس کے جرم کا سن کر زندگی میرے لئے ایک سزا ہو گئی۔ 
سچ ہے کہ جرم میں مرد برابر کا شریک ہو تب بھی سزاوار عورت ہی ٹھہرتی ہے۔ جرم تو بابر نے بھی کیا تھا مگر یہ کہہ کر کہ میں اس کی منکوحہ ہوں تو مجھے احساس جرم میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ، اس کے نزدیک رخصتی سے قبل قربت جرم نہ تھا۔ مجرم تو میں ٹھہرائی گئی اور سزا بھی مجھے خوب ملی جبکہ بابر کو کیا فرق پڑا جس کی وجہ سے ایک نہیں، دو زندگیاں برباد ہوئیں۔ میری بچی گل ناز غلط ہاتھوں میں چلی گئی اور اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی خوبصورت زندگی کے خوب صورت سال قید و بند کی نذر کرنے پڑے۔