جوانی کی آگ دیکھنے والوں کی تعداد - 481

urdu font stories

وه گهڑی بڑی دلدوز تھی جب شازیہ آپی رخصت ہورہی تھیں۔ وہ بے تحاشہ رو رہی تھیں۔ سب کہہ رہے تھے کہ ارے بھئی مت رو ! اپنے میک آپ کا خیال کر لو ، لیکن یہ وقت جدائی کٹھن تھا۔ ایسے میں میک آپ کا خیال کسے رہتا ہے وه رخصت ہو کر چلی گئیں اور بابل کا آنگن ویران کر گئیں ۔

 اگلے دن ولیمہ تها۔ گھر میں اداسی سی چھا گئی تھی۔ ولیمے والے دن میں نے ہلکا سبز کامدانی جوڑا پہنا تھا۔ نادرہ باجی کا دیور ماجد سب کی تصویریں کھینچ رہا تھا۔ اس نے سب سے زیادہ میرے تصویریں اتاریں۔ اگلے روز آپی اور بہنوئی اپنے گھر واپس چلے گئے ۔ ایک ایک کرکے مہمان جا رہے تھے ، ماجد نے بھی ٹکٹ لے لئے تھے۔ جس روز باجی نادره اپنی ساس اور ماجد کے ہمراہ واپس جارہی تھیں، میرا جی بہت اداس ہوگیا تھا۔ جاتے وقت ماجد کا چہرہ بھی بجها بجها تها ، جیسے اسے بچھڑنے کا دکھ ستا رہا ہو۔ اس نے امی سے کہا۔ آنٹی آپ کب کراچی آئیں گی؟ امی نے وعدہ کرلیا کہ جلد کراچی کا چکر لگائیں گی۔ شازیہ آپی کی شادی کے تین ماہ بعد ہم لوگ کراچی گئے۔

اگلے دن ہم سب نادره باجی کے گھر والوں کے ہمراہ سمندر کی سیر کو نکلے۔ میں بہت خوش تھی میرے لئے یہ ایک نئی دنیا تھی، پہلی بار جو سمندر دیکھا تھا۔ گیلی چمکیلی ریت پر ننگے پاؤں دوڑنا ، اٹھتی گرتی لہروں کو چھونا ، کیا ہی لطف تھا اس انوکھی سیر میں۔ سمندر کی لہروں سے کھیلتے کھیلتے جب تھک گئے تو میں ساحل پر ایک طرف کو چل دی۔ تب ہی ماجد اس نے مجھے آواز دى حيات تم کہاں جارہی ہو ؟ کینٹین کی طرف میں نے کہا ۔ ٹھہرو، میں بھی آتا ہوں ۔

 وہ جلدی جلدی ڈگ بھرتا ہوا میری طرف آیا اور ہم باتیں کرتے آگے چلنے لگے۔ ہم نے کولڈ ڈرنک لی ، تب ماجد کہنے لگا۔ بہت دن سے سوچ رہا تھا کہ تم سے بات کروں لیکن موقع نہیں مل رہا تھا۔ آج وقت بھی ہے اور تم بھی ہو۔ حیات میں تم سے شادی کرنا چاہتاہوں ۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ مجھے یوں لگا جیسے پاؤں تلے زمین نکل گئی ہو۔ میں فوراً رکی اور جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا کر جانے کو مڑی میں نے اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا ۔ تمام راستے میں گم صم رہی جبکہ سب لوگ گاڑی میں ہلہ گلہ کرتے اور گانے گاتے جارہے تھے۔ ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد ہم گھر پہنچ گئے، لیکن اب سیر کا لطف جاتا رہا تھا۔

 اگلے روز ہم لاہور واپس جانے والے تھے شام کو اس نے کہا۔ چلو تمہیں سوپ پلا لاؤں ۔ میں جانا نہیں چاہتی تھی ، لیکن باجی بولیں۔ چلی جاؤ، پھر کب کراچی آنا ہوگا۔ ان کے اصرار پر میں اس کے ساتھ چلی گئی ۔ وہ مجھے ایک چائنیز ریسٹورنٹ لے گیا ۔ ہم نے وہاں مزیدار سوپ پیا۔ اس نے کہا۔ تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟ میرے پاس ایسی باتوں کا جواب نہیں ہے اور اگر تم نے تنگ کیا تو میں یہاں سے اٹھ کر چلی جاؤں گی۔ وہ خاموش ہوگیا۔ ہم گھر واپس آئے تو باجی کی پڑوسن باہر کھڑی تھی۔ کہنے لگی۔ ماجد! کیا یہ وہی لڑکی ہے ، جس کا تم ذکر کر رہے تھے؟ ہاں وہی ہے ۔ ماجد نے مسکرا کر جواب دیا، تو میرا ماتها ٹهنکا۔

 میں پلٹ کی اس عورت کے پاس گئی اور پوچھا ماجد نے آپ کو میرے بارے میں کیا بتایا ہے ؟ وہ بولی یہی کہ آپ اس کی منگیتر ہیں ۔ میں ان کی منگیتر نہیں ہوں بلکہ ان کی بھابھی کی بہن ہوں ۔ ماجد نے آپ کو غلط کہا ہے۔ میں نے اپنی پوزیشن صاف کی اور گھر جاکر ماجد سے خوب لڑی کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ لوگوں سے کہتے پھرو کہ میں تمہاری منگیتر ہوں۔ میں نے اسے خوب ذلیل کیا ، لیکن اس نے مجھے کچھ نہیں کہا اور میرے گھر والوں سے بات کرنے میں ہی عافیت جانی۔ اس کی ماں نے امی سے میرا رشتہ طلب کیا، امی نے اسی وقت ہاں کردی۔

 اگلے روز ہم لاہور روانہ ہوگئے ۔ واپس آنے کے کچھ دن بعد امی نے مجھ سے کہا۔ ماجد کی ماں نے تمہارا رشتہ مانگا ہے اور میں نے ہاں کردی ہے، کیونکہ میری نظر میں اس سے بہتر کوئی لڑکا نہیں ہے مجھے ماجد پر غصہ تھا ، لہٰذا امی سے صاف کہہ دیا کہ میں اس انسان سے ہرگز شادی نہیں کروں گی ، جو ہر ایک سے کہتا پھرتا ہے کہ میں اس کی منگیتر ہوں اور اگر آپ نے زبردستی کی، تو میں خود کشی کر لوں گی۔ امی میرے تیور دیکھ کر ڈر گئیں ۔ وہ جانتی تھیں کہ میں ضد کی پکی ہوں۔ دو ہفتے بعد وہ لاہور آیا اور بتایا کہ میں سعودی عرب جا رہا ہوں۔

 سال بعد واپس آؤں گا اور تم سے شادی کروں گا ۔ میں نے اسے صاف جواب دے دیا کہ میں نے تم سے شادی نہیں کرنی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے میرے پاؤں پکڑ لئے بولا۔ حیات میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ اس کی سچائی میں گھلے الفاظ مجھے اس وقت ڈائیلاگ لگ رہے تھے ۔ میں نے اس سے پاؤں چھڑائے اور اسے روتا چھوڑ کر چلی گئی۔ شاید یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی کہ ایک اچھے انسان کو یوں ٹھکرا دیا۔ وہ سعودی عرب چلا گیا، جہاں اسے بہت اچھی نوکری مل گئی تھی۔

 امی نے مجھ سے کہا کہ تم نے ماجد کو ٹھکرا کر بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ آخر تم نے ایسا کیوں کیا؟ جبکہ وہ ایک شریف اور لائق لڑکا ہے۔ گھرانہ دیکھا بھالا ہے۔ اب امی کو کیسے بتاتی کہ یہ سب میں نے اکبر کے لئے کیا تھا۔ وہ ایک بانکا سجیلا نوجوان تھا وہ ہمارا رشتہ دار تو نہیں تھا، اس سے میری ملاقات ایک کزن کی شادی میں ہوئی تھی ۔ وہ مجھ سے عمر میں بارہ سال بڑا تھا۔ اس کا اپنا بزنس تها، لمبا قد ، گورا رنگ نیلی آنکھیں، سنہرے بال ، دیکھنے میں بالکل انگریز لگتا تھا۔ اس کے پاس اپنی گاڑی اپنا گھر تھا۔ وہ کافی امیر تھا، اس کی جیون ساتھی بن جانے میں ایک کشش تھی۔ ہماری روز فون پر بات ہوتی تھی۔ ایک روز میں نے اسے کہا ۔ اگر تم کو میں پسند ہوں، تو سیدھے طریقے سے اپنے والدین کو رشتے کے لئے ہمارے گھر بھیجو ۔ میں نے اسے آزمانے کے لئے ایسا کہا تھا، لیکن وہ واقعی سنجیده تها . اس نے اسی ہفتے اپنی پھپھو اور والد کو امی کے پاس رشتہ کے لئے بھیج دیا۔

 امی نے ان لوگوں سے کہا کہ ہم سوچ کر جواب دیں گے۔ ان کے جانے کے بعد مجھ سے پوچھا۔ کیا تم جانتی ہو ان لوگوں کو ؟ یہ کیسے ہمارے گھر رشتہ کے لئے آ گئے ؟ میں نے گول مول جواب دیا، تو کہنے لگیں۔ بیٹی دیکھو! میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ مجھے یہ لوگ اچھے نہیں لگے۔ میں رونے لگی اور کہا۔ امی آپ کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ امی نے بہت سمجھایا لیکن پٹی تو خود میری آنکھوں پر بندھی تھی۔ میری ضد کی وجہ سے امی نے ہاں کردی، یوں والد نے قرض لے کر میری شادی تین ماہ کے اندر کردی بھائی بھی شادی میں شامل نہ ہوسکے۔

شادی کے چھ ماہ تک تو اکبر کا رویہ مجھ سے اچھا رہا لیکن پھر وہ بدلنے لگے۔ راتوں کو دیرے گھر آتے۔ میں کچھ پوچھتی تو لڑنے لگتے۔ شادی سے پہلے وہ ایک سلجھے ہوئے مرد لگتے تھے۔ میں شوہر کو اپنا سب کچھ سمجھ کر تمام فرائض محبت سے انجام دیتی اور ان کی خدمت میں کو تاہی کو گناہ سمجھتی تھی۔ شادی کو دو برس گزر چکے تھے ، مگر ابھی تک اولاد کی نعمت نصیب نہیں ہوئی تھی۔اکبر کے ماموں زاد بھائی اعظم جو ایک عیش پسند انسان تھے، وہ زیادہ تر اکبر کے ساتھ ہوتے تھے اور ان کو راہ راست سے بھٹکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، انہیں اپنے ہمراہ غلط جگہوں پر لے جاتے تھے۔ اکبر، اب ان کی سنگت میں دن بدن بگڑتے جارہے تھے۔ اب تو شاذ و نادر ہی جلدی گھر آتے تھے۔
 ان کو سمجھانے والا کوئی نہ تھا۔ سسر شادی کے چھ ماہ بعد ہی وفات پاگئے اور ساس بڑے بیٹے کے پاس انگلینڈ میں تھیں۔ اکبر کی بڑی بہن بھی شوہر اور بچوں کے ہمراہ لندن میں رہتی تھیں۔ اپنے حالات بتا کر میں اپنے والدین کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ابو دل کے مریض تھے وہ میرا صدمہ سہہ نہیں سکتے تھے ، اس لئے میں نے اپنے کزن عاطف بھائی کو اس بارے میں بتایا اور اکبر کی بے رخی کی وجہ معلوم کرنے کی درخواست کی۔ عاطف بھائی نے مجھ سے وعدہ کیا اور تسلی دی۔ کچھ دن گزرنے کے بعد عاطف بھائی نے فون کر کے بتایا کہ تمہارا شوہر پچھلے کئی ماہ سے ایک طوائف کے چکر میں پھنسا ہوا ہے اور دونوں ہاتھوں سے اس پر اپنی دولت لٹا رہا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت تکلیف ہوئی۔ رات کو اکبر گھر آئے تو میں ضبط نہ کر سکی اور اس بارے میں پوچھا۔ ان کی نگاہوں میں شرم اور زبان پر معذرت کے الفاظ نہیں تھے ، بلکہ ڈھٹائی سے بولے۔ دولت لٹا رہا ہوں تو اپنی، تمہارے باپ کی نہیں۔ میں تو بہت جلد دوسری شادی کرنے والا ہوں۔

 اگر تم نے میری زندگی میں مداخلت کی، تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئے۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ صدمے کے عالم میں، میں زمین پر گر پڑی۔ جب ہوش آیا، تو میری زندگی کی انمول خوشی لٹ چکی تھی۔ اب میری زندگی کا کوئی مقصد باقی نہ رہا تھا۔ جب اکبر کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے افسوس کے دو بول بھی نہ بولے بلکہ. کہنے لگے کہ اپنے میکے چلی جاؤ۔ میں بے بسی سے اپنے شوہر کو دیکھے جا رہی تھی۔ مجھے ان کی سنگدلی پر حیرت تھی۔ مجھے ڈرائیور کے حوالے کر کے وہ گھر کو تالا لگا کر چلے گئے اور میں اپنی قسمت پر گریہ زاری کرتی، بابا جان کے در پر آ گئی۔

اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے۔ ابا جان مجھے اس وقت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پوچھا۔ بیٹی ! اکبر کہاں ہے؟ وہ میری بد نصیبی سے بے خبر تھے۔ یہ سنتے ہی میں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا کیونکہ اب میں ان کو اپنی بد بختی اور اکبر کی سنگدلی بتانے پر مجبور تھی۔ اچانک ہی ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور انہیں اس وقت دل کا دورہ پڑ گیا۔ میں نے عاطف بھائی کو فون کیا۔ جب تک وہ پہنچے، ابا بے ہوش ہو چکے تھے۔ ان کو اسپتال لے جایا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ دو سال بھابیوں کے پاس رہی۔

 ان کی چاکری اور گھر کا سارا کام کرتی۔ ان کو اتنا سکھ دیتی تھی کہ وہ مجھے وہاں رہنے دیں۔عاطف بھائی کو شش کر کے، میرے میاں کو سمجھا بجھا کر لائے۔ وہ مجھے اس شرط پر گھر لے گئے کہ وہ مجھے جیسے رکھیں، رہوں گی۔ کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاؤں گی اور کبھی نہ پوچھوں گی کہ تم دیر سے کیوں آئے ؟ کہاں تھے ؟ میں نے گھر آباد رکھنے کے لئے یہ سب منظور کر لیا۔ سال بعد میرے ہاں ایک بیٹی نے جنم لیا تو اکبر کا مزاج اور خراب ہو گیا کہ وہ بیٹے کے آرزو مند تھے لیکن یہ میرے بس کی بات تو نہ تھی۔ میں بیٹی کی پرورش میں لگ گئی۔
 شوہر سے میرا تعلق واجبی سا رہ گیا تھا۔ مرضی ہوتی تو بات کرتے ، مرضی نہ ہوتی تو کلام نہ کرتے دوسرے سال خدا نے فضل کیا اور میرے بیٹا ہو گیا، لیکن اس پر بھی میری بد نصیبوں کا قفل وا نہ ہوا کیونکہ اکبر کو ہر حال میں دوسری شادی کرنی تھی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ جو رقاصہ ان کے دل میں بس گئی ہے ، وہ اسی سے شادی کریں گے لیکن ایسا نہ تھا، اصل مسئلہ کچھ اور تھا۔

جہاں وہ شادی کر رہے تھے، وہ ان کی سابق منگیتر ، خالہ زاد زویا تھی، جس سے وہ ملتے تھے اور ان لوگوں کا مطالبہ تھا جب وہ پہلی بیوی کو طلاق نہیں دو گے ، ہم رشتہ نہیں دیں گے۔ ایک روز وہ مجھے بہانے سے میکے پہنچا آئے اور بچے اپنے پاس رکھ لئے ۔ انہوں نے زویا کی ماں کو یہ باور کرایا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے ،

 پھر ہفتہ بعد انہوں نے زویا سے شادی کرلی اور اسے گھر لے آئے، لیکن جب میرے بچوں نے رو رو کر ان دونوں کا جینا حرام کر دیا تو ان کی سمجھ میں آیا کہ بچے ماں کے بغیر نہیں رہ سکتے۔

آخر کار اکبر کو احساس ہو گیا کہ اس نے مجھ سے بچوں کو جدا کر کے غلطی کی ہے۔ دو سال بعد اچانک وہ آگئے۔ مجھ سے معافی مانگی اور کہا۔ گھر چلو، میں تمہیں نچلی منزل میں رکھوں گا۔ میں نے یہ بھی منظور کر لیا اور اپنی اولاد کی خاطر سوکن کے گھر چلی گئی۔ بھابھیاں تو پہلے ہی چاہتی تھیں کہ میں چلی جاؤں۔ اکبر نے وعدہ کیا تھا کہ میں ایک دن تمہارے اور ایک دن زویا کے پاس رہوں گا، لیکن وہ وعدے پر قائم نہ رہ سکے۔ میں نے بچوں کی خاطر یہ سب قبول کر لیا۔
 اب میرے پاس گاڑی ہے، پیسے ہے ، دو بیٹے اور ہو گئے۔ میں چار بچوں کی ماں ہوں، مگر آج بھی لگتا ہے کہ خالی دامن ہوں کیونکہ شوہر کا پیار نہیں ملا، سکون نہیں، عزت نہیں ہے۔ مجھے اپنی والدہ اور ماجد کی باتیں یاد آتی ہیں۔ میری شادی کے چھ سال بعد ماجد نے بھی شادی کرلی تھی۔ اس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سعودی عرب میں پر سکون زندگی گزار رہا ہے۔

 میں سمجھتی ہوں کہ ماجد نے اپنے والدین کی پسند کی شادی کی تھی ، اس لئے آج پر سکون زندگی گزار رہا ہے ، جبکہ میں نے من مانی کی، اس لئے بے سکون ہوں۔ میری سب بہنوں سے گزارش ہے کہ شادی والدین کی مرضی سے ہی کرنا چاہئے ورنہ ساری عمر پریشان رہنا پڑتا ہے، جیسے آج میں ہوں۔