بھنور قسط نمبر 1

بھنور
قسط نمبر 1
میری زندگی کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی. میری زندگی کی شروعات بھی عجیب وغریب ہی رہی تھی اور ممکن ہے اختتام بھی شاید سب سے منفرد ہو ......!!!
 
کبھی کبھی سوچتی ہوں تو لگتا ہے
کیسے کیسے حالات کا میں نے سامنا کیا ہے
کن کن آزمائشوں سے گزری ہوں
کیا کیا مجھ پر بیت گیا
کیا کچھ میں میں نے اپنی زندگی میں سہہ لیا
اور کمال تو اس بات کا تھا کہ .....!!!
میں اب بھی زندہ تھی ....!!!؟
اس وقت میرے بڑے سے گھر کے ہال میں تنہاہ آرام دہ چئیر پر بیٹھی ہوئی ہوں اور جھول بھی رہی ہوں 
 
آرام دہ چئیر پر ہولے ہولے جھولنا مجھے پسند ہے اور یہ کرسی میں نے
یرے امی ابو کی تصویر کے سامنے لگائی ہوئی ہے تاکہ......!!!!
میں انھیں اپنے ان پرسکون لمحات میں دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ان کے چہروں سے ٹھنڈک ........!!!!
اور روح کو ان کے میرے پاس ہونے کے احساس سے سرشار کرسکوں ....!!!
میں اپنی دو ملازمین کے ساتھ اکیلی ہی اس بنگلے میں رہتی ہوں اور اب عمر کے اس حصے میں جب
میری سوچ ....!!
میرا وجود.....!!!
میرا بدن .....!!!
میری روح .....!!!
میرا احساس.....!!!
میرا جذبہ....!!!
میری زندگی.....!!!
میری امید.....!!!
میری آرزو....!!
میری تمنا .....!!!
میرے منزلیں .....!!!
میرے راستے....!!!
میری سانسیں....!!!
میرے حوصلے.....!!!
میری ہمت.....!!!
میری عمر ....!!!
سب کچھ تھک چکے ہیں .....!!
اس بنگلے میں مجھے کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کا ڈر خوف مجھ پر طاری ہوتا ہے
بس وہ حادثے جو میرے ساتھ ہوئے ان کی یاد میرے ذہن سے نہیں نکلتی
میں آج بھی خود کو سندر بن کے جنگلات میں خود کو اپنی آخری حالت میں کھڑی پاتی ہوں
میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا
جو ناقابل یقین حد تک سچ ......!!!
ہاں سچ ہی تو ہے ....!!
لیکن یہ اور بات ہے کہ...!!؟؟
اسے آج تک کوئی بھی سچ مان نہیں سکا...!!!؟؟
مجھے بھی لگتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہی ہے لیکن.....!!
جب میں آئینہ دیکھتی ہوں تو وہ اپنی پوری تابناک سچائی کے ساتھ میرے سامنے آجاتا ہے....!!!
سچ...!!!؟
میرے ابو ایک بہت بڑے زمیندار کے اکلوتے وارث تھے خوب رو خوبصورت اور وجہیہ ہونے کے ساتھ ساتھ میرے ابو اعلی تعلیم یافتہ بھی تھے
میرے دادا نے ابو کے لئے اپنے دوست کی ہر دل عزیز نواسی....!!!یعنی میری امی کو پسند کیا تھا
میری امی بلا کی حسین تھی اونچے قد کی.....!!
گلابی گلابی .....!!!
نکھری نکھری ....!!!!
ستواں ناک .....!!!
بڑی بڑی آنکھیں....!!
گلابی ہونٹ مانو جیسے کسی نے رنگ بھردئے ہوں گلابوں کے ......!!!!
ان کی بلوری بڑی بڑی آنکھوں پر ہی ابو پہلی نظر میں فدا ہوگئے تھے
امی مجھے اپنی آخری دیدار تک بلکل ایک پری کی طرح ہی لگتی تھی جس طرح میں نے اوپر بیان کیا ہے
جب میں پیدا ہوئی تھی تو سب نے مجھے بھی امی کی طرح ہی حسین پایا تھا اور اللہ نے مجھے ان کی طرح ہی حسن سے نوازا تھا
لیکن....!!!
اب میں ویسی نہیں لگتی ....!؛!!
خیر....!!!
یوں دھوم دھام سے انکی شادی ہوگئی تھی سارے ہی رشتہ دار خوش تھے اور امی ابو بھی ایکدوسرے کو پاکر بہت خوش تھے
ان کی خوشی کو بس ایک ہی کمی باقی تھی اولاد نرینہ کی خوشی ....!!!
ایک سال .....!!
دو سال......!!
چند سال....!!
جیسے دن تو پر لگا لگا کر اڑنے لگے تھے امی کے ساتھ ساتھ ابو بھی پریشان تھے
داداجی تو یہ حسرت لئے دنیا سے کوچ کر گئے تھے ایسا نہیں تھا کہ علاج وغیرہ نہیں کیا گیا تھا
سب کیا....!!! دعا ، درود ، دم ، تعویز ، نیاز ، مرادیں ،
کیا کچھ نہ کیا ....!!!
ڈاکٹر ی علاج بھی سب کئے تھے دونوں ہی نارمل تھے کسی میں کوئی کمی نہیں تھی
میری امی ایک پڑھی لکھی اور دنیا کے اونچ نیچ کو سمجھنے والی سمجھدار سلجھی ہوئی خاتون تھی
اپنی تمام تر خوشگوار اور خوبصورت سوچ کے باوجود انہیں اس دوران اکثر عجیب و غریب خواب نظر آتے ...!!
جس کی وجہ سے امی بے حد خوفزدہ رہتی تھی کئی دفعہ تو وہ سونے سے بھی ڈرنے لگی تھی
یہ سلسلہ شادی کے دوسرے سال پہلی دفعہ جب پیش آیا تب امی پہلی بار امید سے تھی اور کم عمری اور لاعلمی کی وجہ سے انہیں بلکل علم نہیں تھا کہ وہ ارتقاء کے عمل سے گزر رہی ہیں
انھوں نے خواب میں خوفناک طریقے سے چھ منہ والے سانپ کو ان کے پیٹ سے لپٹ کر بیٹھے ہوئے دیکھا تھا
اور وہ جہاں تھی وہاں ہر طرف حشرات الارض رینگتے پھر رہے تھے اور وہ اپنے سینے پر پھنوں کو پھیلاۓ اس کالے ناگ کو دیکھ کر بری طرح چیخ رہی
ابو بتاتے تھے امی آنکھیں بند کئے ہوئے رات کے ایک بجے اپنی پوری قوت سے چیخ رہی تھی جیسے وہ ناگ مے سچ مچ انھیں جکڑ کر رکھا ہو ....!!!
پوری حویلی گونج اٹھی تھی اور جب ابو نے امی کو جگایا تھا تو امی تب بھی بری طرح چیخ رہی تھی پھر دادی صغراں انھیں بھاگم بھاگ ہاسپٹل لے گئیں تھی
لیکن دیر ہوگی تھی اور اگر کچھ وقت گزر جاتا تو شائد امی کی بھی جان جاسکتی تھی
اس صدمے سے ابو اور امی بہت مایوس ہوئے تھے امی کو تو اپنی لاعلمی پر بہت غصہ تھا کہ وہ جس خبر کے انتظار میں کان لگائے بیٹھی تھی اس سے اس قدر غافل کیسے رہی تھی
اس کے بعد ان خوفناک خوابوں کا جیسے سلسلہ سہ شروع ہوگیا تھا امی کی حالت ان دنوں حد درجہ خراب تھی
نہ وہ ٹھیک سے سوتی تھیں اور نہ ہی ٹھیک سے کھاتے پیتے تھی اور ان کی صحت گرنے لگی
پہلے اس انجانے میں ہوئے حادثہ نے امی کو آدھ موا کرکے چھوڑا اور اس پر یہ خوابوں نے انھیں حد درجہ پریشان کرکے رکھ دیا تھا
ابو کے ایک عزیز دوست تھے تاج الدین....!!!
انہوں نے دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ مذہب کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا
ایک دن وہ ابو سے ملنے آئے تو باتوں باتوں میں اپنی پریشانی ابو نے ان کے سامنے بیان کی ...!!!
امی کے خوابوں کے بارے میں اور حادثے کا بھی انھیں بتایا اور اب امی کن حالات میں ہے وہ بھی بتایا
تاج الدین بابا نے تمام تفصیلات سنی اور دوسرے دن آنے کا کہہ کر لوٹ گئے ابو کو کوئی امید تو نہیں تھی لیکن دکھ بانٹنے سے ابو کا دل ہلکا ہوگیا تھا
لیکن تاج الدین بابا اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح آئے تھے اور انھوں نے امی کو کچھ دعائیں پڑھنے کو دی
یہ بھی تاکید کی کہ بلاناغہ ان کے نام کے بکرے سات دن تک ذبح کریں ....!!!
ابو نے وہ دعائیں امی کو دیں اور تاج الدین بابا کی ساری باتیں کہہ دیں ابو ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے
چونکہ تاج الدین بابا سے ان کے تعلقات بچپن سے تھے تو ان کے بھروسے پر انھوں نے امی کے صدقے میں سات دنوں تک سات کالے بکرے ذبح کئے
امی بھی بے خوابی اور خوفناک قسم کے خوابوں سے تنگ آگئی تھی اس لیے انھوں نے نماز بھی شروع کی اور تاج الدین بابا کی دعائیں بھی پڑھی
حیرت انگیز طور پر پہلے ہی رات وہ ایسی بے خبر سوئی کہ صبح تک ہلی نہیں
صبح وہ بے حد خوش تھی اور پرسکون بھی اور امی نے ا‌ن دعاؤں کو اپنا زندگی کا معمول بنالیا
ایک سال کے بعد میرے آنے کی خوشی ظاہر ہوئی تھی تب تک اپنے خوابوں کے خوف سے نکل گئی تھی اور دعائیں بھی بند کردی تھی
اب جب دوبارہ انھیں خوشخبری ملی تھی تو وہ اور ابو بہت احتیاط کرنے لگے تھے امی کو پھر سے خوفناک خواب آنے لگے تھے
مگر ان میں پہلے والی شدت نہیں تھی لیڈی ڈاکٹر نے انہیں کچھ سکون آور گولیاں لکھ دی تھی اور کہا تھا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سب نارمل ہے پہلا تجربہ ایسا ہی ہوتا ہے ...!!
امی کو مسلسل خوابوں میں چاروں طرف حشرات الارض رینگتے ہوئے نظر آتے تھے خوفناک زہریلے ڈنک والے .…...؛!!
تاج الدین بابا اچانک ہی ابو سے ملنے آئے ابو نے ان کا شکریہ ادا کیا اور خوشی کی نوید کے ساتھ خوابوں کے سلسلے کا آغاز ہوا وہ بتایا
تاج الدین بابا نے پھر سے قرآنی آیات پڑھنے کو دیں اور سختی سے ہدایات بھی دی تھی کہ یہ عمل مکمل کریں مگر امی نے پورا عمل نہیں کیا تھا
کاش.....!!!!
امی نے وہ عمل مکمل کر لیا ہوتا تو.....!!!!
تو شاید میرے ساتھ یہ حادثے نہ ہوتے .....!!!
لیکن ...!!!
جب سب طے شدہ ہوتا ہے تو غفلت ڈال دی جاتی ہے .....!!!
تاکہ جو ہونا ہو وہ ہوکر ہی رہتا ہے ....!!!؟
میری زندگی میں پیش آنے والے پر اسرار واقعات کا امی کے خوابوں سے گہرا تعلق تھا یہ امی بہت دیر سے سمجھی تھی
یوں تو ہر شخص کی زندگی ایک کہانی ہے مگر ....!!
میں اب جبکہ اپنی عمر کے ستر سال میں بلکل تنہاہ رہ گئی ہوں تو یہ واقعات چھپا کر بھی کوئی فائدہ نہیں تھا
میں نے دھیرے سے اٹھ کر ہال میں رکھے میز کی طرف قدم بڑھائے تاکہ میں وہ فائل نکال سکوں جس نے میری زندگی کو اندھیر کر دیا تھا
اسے اوپر نکال کر رکھتے ہوئے میرے ہاتھ ایک لمحے کو کانپے تھے لیکن پھر میں اسے لے کر اپنے آرام دہ چئیر پر واپس آگئی ہوں
اس فائل کو أکثر میں پڑھتی ہوں جن میں ان حقائق کی تصدیق ہے جو ناممکنات میں سے ہیں
جب بھی میں یہ پڑھنے لگتے ہوں تو لگتا ہے پہلی بار پڑھ رہی ہوں میری جسمانی اور ذہنی حالت میرے عمر کے دوسرے لوگوں سے بیس فیصد ذیادہ اچھی ہے
اس لیے بھی شاید مجھے آج تک وہ ساری باتیں جوں کا توں یاد ہیں اور میں انھیں لفظ بہ لفظ سنا بھی سکتی ہوں ....!!
اپنی زندگی پر غور کرتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ وہ سارے واقعات میرے ساتھ گزرے ہیں اور میں ان سارے حالات سے گزر چکی ہوں
جب انسان تنہاہ رہ جاتا ہے اور عمر کے اس حصے میں ہر دم بس یہ انتظار رہتا ہے کہ آج نہیں تو کل اس دارفانی سے چلے جانا ہے
اور یہی سوچ کر وہ اپنے سارے رازوں سے پردے بھی اٹھا دیتا ہے
کون ہے .....!!!
جو میری داستان کو سچ مانے گا ...!!!
مجھے کوئی پرواہ بھی نہیں ...!!!
میں اپنی داستان سنا کر محض اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہوں ....!!!
میری ہوش کی زندگی کی یادداشت اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب میں چھ یا سات سال کی رہی ہوگی ....!!!
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم یو پی ( اترپردیش) کے شہر الہ آباد میں رہتے تھے اور اس شہر کے نواحی بستی کا نام بسکی تھا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم لوگ میرے خالہ کے پاس گئے ہوئے تھے میری خالہ گنگا کے کنارے بسے ایک گاؤں میں رہتی تھی
ہم اکثر اپنی خالہ کے یہاں جاتے تھے کبھی کبھی میں وہاں رہ بھی جاتی تھی مجھے ان کا گاؤں بہت پسند تھا امی بھی میری وجہ سے رک جاتی تھیں
یہ علاقہ گنگا کے کنارے آباد تھا وہاں ایک پرانا مندر بھی تھا ....!!
" ناگ باسو "
یہ مندر بڑا مشہور تھا شاید آج بھی ہو .....!!!
یہ مندر کالے رنگ کے پاشان پتھروں سے بنا ہوا تھا جیسے پہاڑ میں کرید کر بنایا گیا ہو .....!!
اس کی کالے پتھروں کی سیڑھیاں سیدھے گنگا ندی میں اترتی تھی میں کبھی بھی اس سیڑھیوں کی آخری سیڑھی دیکھ نہ سکی تھی مجھے بڑا اشتیاق تھا کہ میں آخری سیڑھی تک جاؤں لیکن پانی کےا بہاؤ سے یہ ممکن نہیں تھا
ہندو ناریاں اور پورش وہاں اشنان کرتے تھے صبح سویرے سے ہی گھنٹیوں کی گونج شروع ہوجاتی تھی اور گاؤں کے لوگ گنگا میں ڈبکیاں لگا لگا کر واپس گھروں کو آتے نظر آتے تھے
اسی مندر میں ناگ دیوتا کی پوجا بھی ہوتی رہتی تھی اور وہاں بہت سے بڑے بڑے ناگ ادھر سے ادھر بھی گھومتے رہتے تھے
جنھیں پنڈت پروہت روزآنہ تازہ دودھ پلاتے تھے اور ان کے سامنے جھک جھک کر ان کا آشیرواد بھی لیتے تھے
یہ ساری باتیں میرے لئے تو بہت انوکھی اور نئی تھی اس لیے ان کو دیکھنے کی دلچسپی بھی بہت تھی اور جاننے کا تجسس بھی جاگتا تھا لیکن امی ان سانپوں سے بہت ڈرتی تھیں اور مجھے سختی سے روکتی تھی
چونکہ گاؤں سے مندر نزدیک ہی تھا اور دن میں دو تین چکر تو ضرور لگتے تھے میرے ....!!!
میری خالہ زاد بہن کی شادی تھی ان دنوں ہم وہاں رہنے گئے تھے امی مجھے سختی سے روکتی تھی کہ میں کہی باہر نہ جاؤں
لیکن میں تو امی کے ادھر ادھر ہوتے ہی دوڑ پڑتی اور گاؤں کا چکر لگا کر واپس آجاتی ...!! امی ناگ مندر سے ڈرتی بہت تھی
شاید ان کے خوفناک خوابوں کی وجہ سے .....!!!!؟
وہ تو کبھی مندر کے طرف نہ خود جاتی اور نہ ہی مجھے پھٹکنے دیتی اگر ضرورتاً بھی جانا ہوتا تو راستہ بدل کر لمبا چکر کاٹ کر جاتی تھی
میں اور میری خالہ زاد بہن صرف مندر کے احاطے میں ہی کھیل کود کر واپس آجاتے تھے کبھی اندر نہیں گئے تھے اندر کی طرف حد درجہ اندھیرا تھا
دور سے ہی ایک چراغ جلتا ہوا نظرآتا تھا جس کی مدھم روشنی اس مندر کے اندھیرے کو مٹانے ناکام ہی رہتی تھی
یہ شادی سے ایک روز پہلے کا واقعہ ہے جب میری زندگی کا رخ یکدم پلٹ گیا تھا
وہ پورے چاند کی رات تھی یعنی " پورن ماشی " کی رات ...!!!
اس رات مندر میں ناگوں کی خاص پوجا ہوتی تھی پورے مندر کو دیپوں سے چراغوں سے روشن کیا گیا تھا مندر دور سے ہی جھلملا تا ہوا بہت خوبصورت لگ رہا تھا
میں نے خالہ کے دھابے پر چڑھ کر مندر کو دیکھا بھی تھا اور کافی دیر تک وہی بیٹھی بھی رہی تھی میں اکیلی ہی بہت وقت گزارنے کی عادی تھی اس لئے کسی کی کمی کھلتی بھی نہیں تھی امی مجھے دیکھ کر گئیں تھی کہ میں اب وہاں سے جلدی نہیں اٹھوں گی
گھر میں شادی کی تیاریاں زور وشور سے شروع تھی خالہ کے چھوٹے سے گھر میں ایک خوشی کا شور سہ برپا تھا
ہر طرف گہماگہمی قہقہے خوش گپیاں پورا گھر اسی میں ڈوبا تھا ہر کوئی اپنی جگہ خوش اور مگن تھا
امی نے مجھے کھلا چھوڑ دیا تھا اب ہر وقت ان کی آنکھیں میرا پیچھا نہیں کرتی تھی انہیں اطمینان تھا کہ خالہ کی چھوٹی بیٹی رضیہ آپا میرا خیال رکھ رہی ہیں
گھر میں خوب ہنگامہ تھا ڈھولک پر گیت گاۓ جارہے تھے مردانہ خانے میں اپنی ہی الگ محفل جمی ہوئی تھی
کھانا پینا گپ شپ چل رہی تھی اندر عورتیں لڑکیاں اپنے اپنے شادی کے جوڑے گہنے زیور دیکھ دیکھ کر خوش ہورہی تھیں
گو میں بہت چھوٹی تھی مگر مجھے اچھے کپڑے اور زیور کا بہت شوق تھا اور امی نے میرے لیے بہت زرق برق کے جوڑے بھی بنوائے تھے
میں بھی ان عورتوں کی دیکھا دیکھی اچھلتی کودتی اس کمرے میں آگئی جہاں امی کے کپڑے اور زیور رکھے تھے
اس کمرے میں بڑی سی سنگھار میز تھی جس پر ایک بڑا سہ آئینہ رکھا ہوا تھا میں نے بھی شوق شوق میں امی کا ہار گلے میں ڈال لیا
اور آئینہ میں خود کو اٹھلا اٹھلا کر دیکھنے لگی اس وقت میں اپنے آپ کو بہت اچھی لگ رہی تھی اور ہار پہن کر میں خود کو اپنے تصور میں ایک پروقار خاتون سمجھ رہی تھی
اچانک میں نے شیشے میں پھن پھیلائے ناگ کی پرچھائی واضح طور پر دیکھی سانپ کا پھن اتنا بڑا تھا کہ اس قد آدم آئینہ میں میں ننھی سی اور پھن مجھے اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھا
جیسے ناگ کے بیچ کے نشان میرے وجود سے مکمل ہوئے تھے میں نے حیرت سے آنکھیں ملی اور پیچھے بھی دیکھا لیکن منظر ہا میں تحلیل ہوگیا تھا
یا مجھے دھوکا ہوا تھا یہ میں سمجھ نہ سکی لیکن میں ناگ کے سر کے بیچ کا نشان بن کر ناگ کی پرچھائی کو مکمل کیسے کر سکتی تھی
اس وقت کمرے میں کوئی نہیں تھا کچھ ہی دیر میں میں سب بھول گئی اور میں کچھ دیر تک خود کو دیکھتی اور اٹھلاتی رہی شیشے میں الگ الگ زاویے کر کے ہنستی رہی
موہنی.....!!
موہنی......!!
میرے کانوں میں آواز آئی جیسے کوئی سرگوشی کررہا ہو
میرا نام میمونہ ہے ....!!
مگر مجھے سارے گھر والے میری خوبصورتی سے متاثر ہوکر موہنی ہی کہتے تھے
میں نے ادھر ادھر دروازے میں جاکر دیکھا لیکن مجھے کوئی بھی پکارنے والا نظر نہیں آیا تومیں واپس کمرے میں آئی
موہنی....!!!
موہنی....!!!
پھر سے سرگوشی ابھری مجھے لگا شاید میری سہیلی حنا جو یہی خالہ کے پڑوس میں رہتی تھی اور چونکہ میں شہر سے آئی تھی اس لئے بہت متاثر رہتی تھی اس نے مجھے کھڑکی کے نیچے سے آوازیں دے رہی ہے ....!!
اس کمرے کا ایک دروازہ دوسرے کمرے میں اور اس کمرے کا دروازہ برامدے میں کھلتا تھا میں نے اس کمرے میں جھانک کر دیکھا
اس کمرے کا برآمدے کا دروازہ اتفاق سے کھلا ہوا تھا میں حنا کی آواز پر اسی دروازے سے باہر نکلتی چلی گئی ہار ابھی تک میرے گلے میں پڑا تھا
جس پر میں اپنا ہاتھ بار بار رکھ کر اس کے ہونے کی خوشی بھی محسوس کرتی رہی تھی میں برآمدے میں کھڑی تھی میری نظریں حنا کو ڈھونڈ رہی تھی
یہ برآمدہ گھوم کر سامنے والے بڑے دروازے سے جا ملتا تھا اور اسی برآمدے کا ایک چھوٹا سا دروازہ بھی باہر کی طرف جاتا تھا
بڑے دروازے کی طرف تو بہت شور ہنگامہ برپا تھا شاید ہونے والے دولہا بھائی کے گھر سے مہندی آئی تھی اور سب اسی پر ہنگامہ برپا کئے ہوئے تھے
میں نے سوچا کہ شاید اسی ہنگامے کو دیکھنے کے لئے میری سہیلی نے مجھے آوازیں دی ہوگی اور آواز دے کر خود آگے چلی گئی ہوگی
مجھے خدشہ تھا کہ سامنے سے جاؤں گی اور امی دیکھ لیں گی تو مجھے اپنے ساتھ ہی روک لیں گی اس لیے پچھلے دروازے سے سامنے کی طرف جانے کا سوچا اور اس طرف بڑھی
اس دروازے سے میں کھلے میدان میں نکل گئی میں حیران تھی کہ یہاں سے تو ہمیشہ ہی مڑ کر وہ گلی میں پہنچ جاتی تھی اچانک وہ میدان میں کہاں آگئی اور کہاں جاؤں.....!!!
میدان میں پورا سناٹا چھا یا ہوا تھا میں بلکل بھول گئی تھی کہ امی کا ہار میرے گلے میں ابھی تک پڑا ہے
میں نے محسوس کیا کہ جیسے کوئی بلکل میرے پیچھے چل رہا ہے میدان میں گھپ اندھیرا تھا میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کہاں جاؤں
مجھ پر حد درجہ خوف طاری ہوگیا تھا میں مرے مرے قدموں سے چل تو رہی تھی لیکن مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی پیچھے سے آنے والے قدموں کی آہٹ کی سمجھ آرہی تھی
.............................
............................ 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں