بھنور قسط نمبر 2

بھنور
قسط نمبر 2
پھر میں نے سوچا میں جدھر سے آئی ہوں اس طرف مڑ کر بھاگوں تو شاید دروازہ مل جائے .....!!!
یہی سوچ کر جونہی میں مڑی کسی سے ٹکرا گئی وہ جو کوئی بھی تھا اس نے مجھے دبوچ لیا اور اپنے پتھر جیسے ہاتھ سے میرا منہ دبایا کہ میں چیخ نہ سکوں. کوئی میری آواز نہ سن سکے اور وہ مجھے گود میں اٹھا کر ایک جانب دوڑ پڑا میں کچھ خوف کی وجہ سے اور کچھ اسکے سختی سے دبائے ہاتھ سے سانس کی گھٹن کی وجہ سے جلد ہی بے ہوش ہوگئی
 
جب مجھے ہوش آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی تنگ و تاریک جگہ پر پڑی ہوں جس جگہ میں پڑی ہوئی تھی جہاں کیلی مٹی بھی تھی
عجیب ناگوار سی او پھیلی ہوئی تھی میرے سر میں شدید درد ہورہا تھا میں اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پارہی تھی
میرے عضاء نے جیسے کام کرنا چھوڑ دیا تھا میرا حلق خشک ہوگیا تھا کانٹے سے چبھنے لگے تھے 
 
میں نے دھیرے دھیرے اپنی ہاتھوں کو جنبش دےکر ٹٹول کر دیکھا یہ دیوار ہی تھی میں نے بمشکل خود کو اٹھا کر دیوار کے سہارے ٹیک لگایا
یہ گولائی والی دیوار تھی میں کسی گہرائی میں تھی یعنی میں کنواں میں تھی سر اٹھا کر دیکھا دور کہی سے ہلکی روشنی گولائی کے آدھے حصے سے چمک رہی تھی اور آدھا تاریک حصہ ۔جھے ہولا رہا تھا
میں شاید کسی اندھے کنویں میں گر پڑی تھی ....!!!!؟
یا مجھے پھینکا گیا تھا...!!!؟؟
ڈر ، خوف ، اور دہشت کی ایک سرد لہر میرے جسم میں دوڑ گئی میرے ساتھ گذرے واقعات مجھے یاد آگئے تھے اور میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے تھے
یہ وہ واقعہ تھا جس نے میری زندگی میں ان منحوس واقعات اور پراسرار حادثات کی بنیاد ڈالی.
 
جو اتنے حیرت انگیز ، پراسرار ، اور ناقابل یقین ، ہیں کہ کبھی کبھی مجھے بھی شک سہ ہونے لگتا ہے کہ کہیں وہ سب ایک خوفناک خوابوں کے سلسلے تو نہیں تھے
مگر جب نہ چاہتے ہوئے بھی آئینہ پر نظر پڑتی ہے تو یقین کرنا پڑتا ہے میرا چہرہ ہی اس سچائی کا ثبوت ہے ....!!!
بہتر ہوگا کہ میں آپ کو تمام واقعات تسلسل کے ساتھ سناؤں .....!!!
میری اس وقت عمر ہی کیا تھی چھ سال یا اس سے ذیادہ کچھ ماہ ....!!!
یہ تو اب میں نے سوچ سوچ کر ان حادثوں کا تانا بانا بنا ہے ورنہ تو اس وقت مجھے شعور ہی کہاں تھا اور سمجھ بھی نہیں تھی .....!!!
میں خوف سے بلکل بے شدہ ہوگئ تھی میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا صرف امی ابو کے چہرے مجھے یاد آرہے تھے
میں چیخنا چاہتی تھی لیکن آواز گلے میں گھٹ کر رہ گئی تھی میں پکارنا چاہ رہی تھی لیکن مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ میں کسی کو آوازیں دے سکوں
یہ ایسا کنواں تھا جس کا پانی خشک ہوگیا تھا بس کیچڑ تھا ٹھنڈا ٹھنڈا مٹی کا کیچڑ ....!!!؟
میں نے ادھر ادھر دہشت ذدہ ہوکر بے بسی سے نظریں دوڑائی اندھیرے میں میری آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوگئی تھی ورنہ تو جب جاگی تھی نظر کچھ نہیں آرہا تھا
میرے پیر بھی اب ہلنے لگے تھے میں نے پیروں کو سمیٹ کر خود کو گٹھری سہ بنالیا تھا پھر مجھے نیند آگئی یا رعشہ طاری ہوا کچھ خبر نہیں رہی تھی
جب آنکھ کھلی تھی تو ہاتھ پیر ٹھنڈ کی وجہ سے بگڑ گئے تھے جانے میں کتنی دیر یونہی بیٹھی تھی سارے جسم میں بیٹھنے ہونے لگی میں نے کراہ کر اپنے پیر کھولے
اور ہاتھوں کو بھی ہلا کر دیکھا کنویں کی پتھر کی دیوار اب مجھے کچھ صاف صاف نظر آرہی تھی میں نے چونک کر اوپر دیکھا
اوپر ہلکی ہلکی روشنی دکھائی دے رہی تھی شاید یہ سورج کی روشنی تھی میں ساری رات یہی پڑی تھی بے ہوشی کے حالت میں .......!!!!
میرے حواس پوری طرح جاگ گئے تھے میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ہر سو خاموشی چھائی ہوئی تھی 
 
اس قدر سناٹے سے میں مزید گھبرا کر رونے لگی میرے سوچنے سمجھنے کی حالت سلب ہوچکی تھی میں زاروقطار رو رہی تھی
اس دوران ہلکی ہلکی سی سر سراہت محسوس ہوئی میں نے دھیان نہیں دیا میں امی کو دل ہی دل میں پکار رہی تھی
اور پھر ایک زوردار پھنکار نے مجھے ڈرا دیا میں پوری طرح کانپ گئی تھی جو میں نے دیکھا میری رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی
خوف سے میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا دہشت سے آنکھیں پتھرا گئی ڈر سے میری جان نکل گئی تھی
ایک خوفناک سانپ کیلی مٹی میں لت پت کنویں کی بوسیدہ پتھروں کی کچی دیوار کے ساتھ ایک سوراخ سے نکل کر باہر آگیا تھا
: میں بری طرح کانپ رہی تھی اپنے آپ کو اس بری طرح ہلنے سے روکنے کے باوجود مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا تھا میرے جسم میں دہشت کی سرد لہر دوڑ گئی تھی
سانپ کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی چمک نے مجھ پر سحر سہ طاری کردیا تھا سانپ پھن پھیلائے میرے سامنے بیٹھا تھا بلکل ویسا ہی ناگ تھا جیسا کل رات میں نے قد آدم آئینہ میں اسکی پرچھائی دیکھی تھی
میری دہشت کی پھٹی نگاہیں اس کی آنکھوں پر ٹکی تھی میں خوف و بے بسی کی بحر فنا میں ڈوب گئی تھی میرے کانپتا ہوا جسم دھیرے دھیرے پرسکون ہونے لگا
میں زندگی اور موت کے بیچ جھول رہی تھی زبان گنگ ہوگئی تھی صرف آنسو تھے جو غیر اختیاری طور پر میری آنکھوں سے بہہ رہے تھے
مجھ پر اس ناگ کی آنکھوں نے جیسے جادو کردیا تھا میں بت بنی بیٹھی تھی ب آنسؤوں ایک دھار تھی جو آنکھوں سے بہی جارہی تھی

: وہ سانپ آہستہ آہستہ رینگتا ہوا میرے قریب آیا میری سانس رکنے لگی وہ میرے قریب آکر کنڈلی مار کر بیٹھ گیا اپنا آدھے جسم کی اس نے کنڈلی ماری اور آدھا جسم پھن کے ساتھ کھڑا کئے وہ میرے قریب آیا
وہ میرے اتنے قریب تھا کہ اس کی پھنکار میں اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھی مارے خوف کہ میں اپنی آنکھیں چاہ کر بھی بند نہیں کر پارہی تھی
جیسے ناگ نے میری آنکھوں سے مجھے جکڑ لیا ہو اور میں اس خوفناک ناگ کو اپنے بلکل قریب دیکھنے مجبور تھی اور وہ ناگ بار بار اپنی زبان باہر نکال نکال کر مجھے تول رہا تھا
اس کے بعد جو کچھ ہوا اس سے میری موت واقع ہوجانی چاہیے تھی مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا ابھی میری زندگی منظور تھی یہ تو صرف ابتدائی مراحل تھے
اچانک اس سانپ نے اپنے پھیلاۓ ہوئے پھن کو بلکل میرے چہرے کے قریب لا کر اپنی لمبی زبان سے میرے بہتے ہوئے آنسؤوں کو پی لیا
اس کی دو شاخوں والی کالی زبان باہر نکلی اور میرے گالوں پر چھو کر واپس چلی گئی اب میں اسکی زبان مسلسل اپنے گالوں پر محسوس کر رہی تھی
کبھی اس گال پر کبھی اس گال پر میں اس کی گرم لچک دار نرم نرم زبان کا لمس اپنے گالوں پر مسلسل محسوس کررہی تھی
ناگ کی لیس دار زبان کا احساس ایک ایسا کراہت اور نفرت انگیز تجربہ تھا جسے آج بھی سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں
وہ باری باری میرے گالوں پر بہتے آنسوؤں کو پی رہا تھا کچھ ہی دیر میں میرے گالوں پر ایک عجیب سی جلن شروع ہوگئی
یہ عمل نہ جانے کتنی دیر اور جاری رہا کیونکہ میں نقاہت سے اور ڈر سے بیہوشی ہوچکی تھی گالوں کی مسلسل جلن غنودگی میں پو ری طرح ختم ہوتی محسوس ہوئی تھی
میں خود بھی اس ناگ کو اور دیکھنا نہیں چاہتی تھی اور یہ بھی شاید قدرت کا رحم ہی تھا کہ میں خود سے غافل ہوگئی تھی
ورنہ اس اندھے کنویں میں اکیلے ایک زہریلے سانپ کے ساتھ کا تصور مجھے مارے جارہا تھا اور خوف سے میرے ہاتھ پیر وں پر چونٹیاں رینگنے لگی تھی
جب دوبارہ ہوش میں آئی تو کنواں پوری طرح سے روشن تھا سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا کنویں کی گہرائیوں میں جہاں میں پڑی تھی وہاں تک روشنی آرہی تھی
سورج نصف النہار پر تھا میں نے ناگ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں وہ ایک کونے میں دبکا بیٹھا تھا اس نے کنڈلی نہیں ماری تھی لمبا ہی لیٹا ہوا تھا دیوار کے کنارے کنارے سے....!!
میں نے اپنے اندر ایک عجیب سی تبدیلی محسوس کی ناگ کا خوف میرے دل ودماغ سے یکلخت نکل چکا تھا
میں بری طرح نڈھال ہوگئی تھی کیچڑ میں پڑے پڑے میرے ہاتھ پیر سن ہورہے تھے میں نے بے خیالی میں ہاتھ پھیلائے کہ بکرے ہوئے کھل جائیں
ناگ میرے ہاتھوں پر لپٹ کر بیٹھ گیا جیسے وہ میرا پالتو جانور ہو اور میں اسکی مالکن ....!!!
میں نے اس کے لپٹنے پر ناگواری سے ہاتھ جھٹکا تو وہ کونے میں دبک کر دیوار کے ساتھ چپک کر بیٹھ گیا جیسے وہ اب مجھ سے خوفذدہ ہو
میں اپنے ذہن کو بلکل جاگتا ہوا نہیں رکھ پارہی تھی جیسے میں ابھی تک نیند میں ہی ہوں میں نے دماغ پر زور دے کر رات کے واقعات یاد کرنے کی کوششیں کی
مجھے ایکدم امی کے ہار کا خیال آیا اور میرے ہاتھ گلے میں ہار کو ٹٹولنے لگے جو میرے گلے سے غائب تھا
مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے امی کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آیا ابا کا چہرہ نگاہوں میں کھونے لگا
مجھے شادی کا خیال بھی آیا اب مجھے پوری طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ میں کس مشکل میں ہوں .....!!!
یقیناً وہ شخص کوئی ڈاکو ہی رہا ہوگا جس نے میرے گلے سے وہ قیمتی ہار اتار کر مجھے اندھے کنویں میں مرنے کے لئے پھینک دیا تھا وہ سمجھ رہا ہوگا کنویں کے پانی میں ڈوب کر مر جاؤں گی
اور اگر کنواں سوکھا بھی ہے تو بھی مر ہی جاؤں گی وہ مجھے مارنے کی گرز سے ہی یہاں تھینک گیا تھا اور تقدیر سے میں بچ گئی تھی
لیکن.....!!!؟؟
میں پچھلے دروازے سے گلی میں کیوں نہیں گئی تھی ....!!!؟؟؟
میں میدان میں کیسے پہنچ گئی ......!؛!؟؟؟
مجھ پر شاید پھر سے غنودگی شروع ہوگئی تھی مجھے امی کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی میں اپنے بیڈ پر لیٹی تھی امی میرے پاس بیٹھی تھی
یہ میرا بیڈروم تھا اور امی کا معمول تھا کہ وہ بلاناغہ سونے سے پہلے مجھے آیت الکرسی اور دوسری دعائیں سورتیں پڑھواکر ہی سلاتی تھی اور جب تک میں سو نہیں جاتی وہ وہی بیٹھی رہتی تھی
میں جب چار یا پانچ سال کی تھی تبھی سے امی نے مجھے قرآن شریف اور نماز پڑھانا شروع کیا تھا مجھے بہت سی دعائیں روزآنہ پڑھنے سے یاد بھی ہوگئی تھی مجھے زبانی آیت الکرسی بھی یاد تھی
امی کہتی تھی کہ مصیبت اور خوف میں آیت الکرسی پڑھنے چاہیے اس سے سارے خوف اور بلائیں ختم ہوجاتی ہیں
میں نے اپنے آپ کو اپنے صاف ستھرے بستر پر لیٹ پایا امی مجھے پیار سے پڑھا رہی تھی
"موہنی ...!!!پڑھو ...!! اللہ لا الا ......!!"
میرے منہ سے خودبخود آیت الکرسی کے الفاظ نکلنے لگے ایک بار ایسا بھی ہوا کہ امی منظر سے غائب ہوئی ہیں اور ناگ مجھے دیکھ رہا ہے
مجھے میرا وہم ہی لگا کہ ناگ مجھے اور میری آواز سے حیرت ذدہ اور خوف بھری آنکھوں سے دیکھ رہا ہے بس کچھ لمحوں کے لیے ہی امی اوجھل ہوکر کنواں اور ناگ نظر آگیا تھا
اور میں پڑھتے پڑھتے رک کر ناگ کو دیکھ رہی تھی تبھی امی کی آواز سے پھر منظر بدلا اور میں امی کے ساتھ ہی آیت الکرسی پڑھنے لگی
امی کی آواز ایسے گونج دار تھی اور قرآت اتنی عمدہ تھی کہ میرے کان بجنے لگے تھے اور مجھے کوئی آواز کوئی سرسراہٹ سنائی نہیں دی میں منمہاک سے پڑھتی رہی تھی
کلام پاک کی برکت نے میرے اندر ایک قوت سی بھردی تھی اور اب مجھ میں حوصلہ بھی آگیا تھا
مجھے یکایک ابوکی آواز سنائی دی میں نے آنکھیں کھول دی اور پوری قوت سے چیخی
"میں یہاں ہوں ابو .....!!!ابو....!!! میں یہاں ہوں ...!!"میری آواز کنویں کی دیواروں کو ٹکراتی گونجتی باہر نکلی
میں نے پھر سے آواز لگائی
"ابو میں یہاں ہوں...!!ابو ...!!"اس بار کچھ لوگوں کی آہٹ سنائی دی جیسے لوگ چل رہے ہیں اور بول بھی رہے ہیں پھر مجھے لگا کوئی مجھے دور سے پکار رہا ہے
"موہنی ...!!موہنی....!!کہاں ہو موہنی.....!!!؟" ایک دو آوازیں میمونہ میمونہ کی بھی ابھری تھی لیکن موہنی والی آواز ابو کی تھی
"ابو میں یہاں ہوں ....!!!؟"اس بار میں نے اپنی پوری قوت سے چیخ لگائی
اور یہ کرشمہ ہی تھا کہ انھوں نے میری آواز سن لی اللہ کا شکر تھا کنویں میں کسی نے جھانک کر دیکھا مجھے بس دھوپ کی تمازت میں پرچھائی ہے نظر آئی
"بیٹی ...!!!گھبراؤ نہیں ہم آگئے ہیں ...!!؟"یہ خالو کی خوشی بھری آواز تھی
"موہنی ...!!بیٹا گھبراؤ نہیں جہاں بیٹھی ہو وہی بیٹھی رہو ...!! ہم تم کو ابھی باہر نکالتے ہیں ....!!!! " یہ ابو کی کپکپاتی آواز تھی
مجھے نیچے سے صرف کالے سائے ہی نظر آرہے تھے میں صحیح طریقے سے انھیں دیکھ نہیں پارہی تھی
"موہنی تھوڑی دیر صبر کرو ہم ایک کرسی کو رسی باندھ کر کنویں میں چھوڑنے والے ہیں ....!!! تم اس پر آرام سے بیٹھ جانا ...!!! جب تم اس پر بیٹھ جاؤ تو مجھے بتانا ...!!!موہنی ...!!ڈرنا نہیں....؛؛!
ہم تمہیں کھینچ لیں گے ...!!حوصلہ رکھو ...!!!موہنی تمہیں کچھ نہیں ہوگا..!!!؟"ابو مجھ سے کہتے رہے تھے میرے ابو ....!!!! شاید اس وقت سوچ رہے ہونگے کہ میں اندھیرے سے اور اکیلے پن سے ڈر رہی ہونگی پر انھیں کیا پتہ تھا مجھ پر کیا کیا گزر چکا ہے
پھر رسی سے بندھی کرسی دھیرے دھیرے نیچے آنے لگی اور اس کے پاؤں کیلی مٹی میں رک گئے
ابو ابھی بھی مجھے پکارنے پکار کر ہدایات دے رہے تھے لیکن مجھ پر پھر غنودگی طاری ہونے لگی تھی میں نے اپنی ساری طاقت کو جمع کر کے کرسی کو سختی سے پکڑ کر اس پر بیٹھ گئی
"ابو میں بیٹھ گئی ہوں ....!!!!" پھرمیں نے رسی کو زور زور سے ہلا کر کہا
موہنی کرسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا ہم اسے آہستہ آہستہ اوپر کھینچ رہے ہیں ہمت سے کام لینا موہنی ...!!؟" ابو بولے
جب کرسی اوپر کھینچنے سے اوپر اٹھنے لگی تو وہ ناگ اچھل کر میری گود میں آ بیٹھا ....!!
میں نے ڈر اور خوف کے باوجود اس کو ہٹانے کی کوشش نہیں کی تھی جب کرسی آدھے راستے تک پہنچی اور تیز روشنی چمکنے لگی تو وہ ناگ خود ہی میری پیروں پر رینگتا ہوا نیچے لٹک گیا
میں اوپر پہنچتے پہنچتے وہ کنویں میں گر گیا میںنے اپنی نیم وا آنکھوں سے یہ منظر پوری طرح دیکھا تھا کہ وہ ناگ اپنی دم تک سیدھا کھڑا ہو کر اپنے پھن کو ہلا ہلا کر مجھے الوداع کر رہا تھا
اب میں اس منظر کو یاد کرتی ہوں تو لگتا ہے کہ کیا ایسا بھی ممکن تھا.....؟؟؟؟
میں نیم بے ہوشی کی حالت میں ابو کی گود میں تھی تیز روشنی سے آنکھیں کھل نہیں رہی تھی اور اب جب میں محفوظ ہاتھوں میں تھی تو میرے وجود میں سکون اترنے لگا تھا
ابو مجھے محبت سے گلے لگائے بار بار چوم رہے تھے ان کی نم آنکھیں بار بار چھلک رہی تھی اور وہ اپنے رب کا بار بار شکر ادا کر رہے تھے
گھر کے قریب پہنچے تو امی دیوانہ وار بغیر پردے کا خیال کئے باہر نکل آئیں اور بھاگ کر مجھے آغوش میں لے لیا مجھے آغوش میں لیتے ہی وہ گر پڑی وہ بے ہوش ہوگئیں تھی
اس چھوٹی سی گلی میں ایک شور سہ برپا تھا میرے ملنے کی خوشی کا اور امی کو اندر بخیر لیجانے کا
اس حادثے کے بعد میں تین دن تک سخت و تیز بخار میں مبتلا رہی تھی تیز بخار کی نقاہت ....!!! اور چہرے جلن کی وجہ سے مجھے اپنے آس پاس کا بلکل ہوش نہیں تھا میں بے شدہ پڑی تھی
چوتھے دن بخار کا زور کچھ ٹوٹا تو میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر اپنے بستر پر ہوں ابھی بھی جیسے خواب جیسی کیفیت ہورہی تھی خواب میں ہون یا اپنے بستر پر صحیح سے اندازہ نہیں کرپارہی تھی
کچھ دیر بعد ہی کمرے میں ابو اور ڈاکٹر صاحب داخل ہوئے اور میرا پوری طرح سے چیک اپ کیا ابو سے بھی بات کرتے رہے تھے اور انھوں نے میرے جلتے ہوئے گالوں پر ٹھنڈا ٹھنڈا مرہم بھی لگایا تھا
ایک دو روز کے بعد میں ، میں اٹھ کے چلنے پھرنے قابل ہوگئی تھی کنویں والے حادثے کے بعد مجھے فوراً ہی وہاں سے لے آئے تھے
اور اس دوران مجھ سے کسی نے ذیادہ بات چیت نہیں کی تھی اور نہ ہی کسی نے مجھے اس ہولناک واقعہ کی تفصیل پوچھی تھی
مجھے بعد میں معلوم ہوا تھا ڈاکٹر نے سختی سے کچھ بھی پوچھنے سے منع کیا تھا جب تک میں پوری طرح صحت مند نہ ہو جاؤں گا
امی کے لیے یہ حادثہ بہت خوفذدہ رہا تھا وہ ہر وقت سائے کی طرح میرے ساتھ رہتی تھی رات کو بھی میرے پاس سوتی تھیں
کچھ دن بعد میں پوری طرح سے ٹھیک ہوگئی امی کچن سے ناشتہ لینے گئی تھی مجھے پیاس لگی تو میں نے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے جگ سے پانی لینا چاہا اور نظر جیسے ہی میرے چہرے پڑی
مجھ پر سکتہ سہ طاری ہوگیا میرا چہرہ .....!!!
اتنے دنوں بعد پہلی مرتبہ میں نے اپنے آپ کو جو آئینے میں دیکھا .....!!!
اف ....!!!
میرے اللہ یہ کیا ....!!؟
یہ مجھے کیا ہوگیا .....؛!!؟؟
میرا چہرہ.....!!!!!
میرے چہرے کے دونوں طرف گالوں پر آنکھوں کے نیچے ٹھوڈی تک کالی لکیر بنی ہوئی تھی
میں نے صابن لگا کر چہرہ دھویا مگر وہ نشان نہیں گئے چھونے پر وہ حصہ کھردرا سہ محسوس ہورہا تھا اور ہلکی سی جلن بھی تھی
میں اپنا چہرہ دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی انی میری آواز سن کر دوڑی آئی میں اس وقت واش روم میں آئینے کے سامنے کھڑی رو رہی تھی
امی مجھے لپٹا کر کمرے میں لائی میں کچھ سنبھلی گئی تھی میں حیران بھی تھی
"امی ...!!یہ میرے چہرے کو کیا ہوا ....!!؟؟؟ یہ کالے نشان میرے چہرے پر کیسے پڑے ...!!"میں نے امی کو پوچھا
"ہم خود حیران ہیں ...!!!؟؟جب تم اس منحوس کنویں سے باہر آئیں تھیں تو یہ نشان تمہارے چہرے پر موجود تھے ...!!"امی افسوس سے بولی
امی کچھ دیر میرے چہرے کو خاموشی سے دیکھتی رہی پھر بولیں
"اچھا موہنی بیٹا...!!!ذرا ہمت کرکے یاد کرکے بتاؤ کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا....!!!
...........................
..........................
.......................... 
......................... 
 

13

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں