بھنور قسط نمبر 3

 
 
 
بھنور
قسط نمبر 3
: اس وقت ابو بھی آگئے تھے وہ صبح کا ناشتہ میرے ساتھ میرے کمرے میں کرنے لگے تھے ہم دونوں کو محو گفتگو کرتے ہوئے ہمارے پاس آکر بیٹھے
میں نے بتایا کہ کس طرح اس رات خالہ کے یہاں جب سب لوگ مہیندی کا انتظار کر رہے تھے توامی کا ہار گلے میں ڈال کر میں باہر نکل گئی
کس طرح کسی نے مجھے دبوچ لیا اور میرا منہ دبا کر وہ مجھے گود میں اٹھا کر بھاگا تھا میں ڈر سے بے ہوش ہوگئی تھی پھر میں نے اپنے آپ کو اس کنویں میں پایا تھا
میں نے تفصیل سے ناگ کا ذکر بھی کیا جس نے میرے آنسوؤں کو اپنی زبان سے پیا تھا اور مجھے ڈسا نہیں میرے ساتھ ہی پڑا رہا تھا اور میرے ساتھ ہی کرسی پر باہر آرہا تھا
پھر وہ خود ہی نیچے اتر کر چلا گیا اس نے الوداع کہاامی ابو حیران پریشان میرا لفظ بہ لفظ سن رہے تھے امی کے چہرے سے پریشانی حد درجہ جھلک رہی تھی وہ خوفزدہ بھی تھی
"ہاں موہن ...!!تم نے درست کہا بیٹے یہ نشان اسی سانپ کے زبان سے پڑے ہیں .....!!! ڈاکٹر بھی یہی کہہ رہے تھے کہ کسی زہریلے کیڑے نے کاٹا ہو مگر سیدھی لکیر دیکھ کر وہ بھی حیران تھے ....!!!"
ابو نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور امی کو اشارہ میں کچھ کہا جیسے وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے ہوں
"چلیں اب ناشتہ کریں ٹھنڈا ہورہا ہے اب سب مل کر ڈائینینگ ٹیبل پر ہی کریں گے چلو موہنی ...!!!"امی کہتی ہوئی تیزی سے اٹھی تو میں بھی گہری سانس لے کر اٹھ گئی
میری عمر ایسی نہیں تھی کہ کسی بھی بات کا ہوش یا سمجھ ہوتی اور نہ ہی مجھے اپنے چہرے کے دائمی داغوں کی کوئی خاص فکر تھی
وہ دن تو بے فکری کے ہوتے تھے کھیل کود میں گزارنے والے معصوم سے دن تھے
امی نے پھر مجھے بتایاکہ...!!!
"اس رات جب مہندی کی رسم ہورہی تھی تو رضیہ نے آکر مجھے بتایا کہ
"خالہ ...!!موہنی کہی دکھائی دے رہی ہے ...!!"
ہم نے ملکر پورا گھر چھان مارا اڑوس پڑوس میں بھی دیکھ لیا مگر تمہارا کہیں پتہ نہیں تھا میرے تو پیروں سے زمین ہل گئی تھی اور سر سے آسمان ....!!!
تم ساری رات غائب رہی تھی پوری رات کا ایک ایک لمحہ مجھ پر بھاری تھا جانے کونسی خبر میرے منتظر تھی شادی کا خوشی کے ہنگاموں والا گھر ایکدم ویران اور اداس ہوگیا
سب لوگ کیا مہمان کیا گھر والے کیا گاؤں والے سب لوگ تمہاری تلاش میں ساری رات پھرتے رہے کسی کو کسی کا ہوش نہیں تھا
مندر میں دور دور گاؤں سے پورن ماشیکی پوجا کے لئے لوگ آئے تھے ایک قافلہ بغیر تلاشی کے گاؤں سے باہر نہ گیا ہم نے یہ بلکل نہیں سوچا تھا کہ تم نے میرا ہار پہنا ہوگا
یہی خیال تھا کہ اس افراتفری میں کسی نے موقع پاکر غائب کردیا ہوگا وہ تو یہاں گھر آکر میں نے جیولری چیک کی تھی وہاں گاؤں میں تو خیال بھی نہیں تھا
اس رات تو سب لوگ تمہیں ڈھونڈ رہے تھے اور میں مصلہ بچھائے پوری رات سجدے میں گرے تمہاری سلامتی کی دعائیں کرتی رہی تھی اور اپنے اللہ سے تمہاری زندگی کی دعا مانگتی رہی
میں نے اس رات جانے کیا کیا منتیں مانگی کتنے صدقے کے وعدے کئے ہیں انشاء اللہ سب پورے کروں گی میری جان کے صدقے ....!!!
رات کے آخری پہر سب لوگ تھکے ہارے کچھ دیر سستانے گھروں کو واپس چلے گئے دوسری صبح ہوئی اور سورج کی روشنی میں سب لوگ پھر سے تمہاری تلاش میں سارے علاقے میں پھیل گئے
اللہ کا جتنا شکر کروں کم ہے دوپہر کو تم پرانے قبرستان میں اس سوکھے کنویں سے مل گئیں وہ جو بھی تھا تمہیں جان سے مارنے کے لئے ہی کنویں میں پھینکا تھا
مگر جسے اللہ رکھے اسے کیا ہوسکتا ہے اب وہ شخص پکڑا جائے یا نہیں میرا ہار ملے یا نہ ملے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے بیٹی مجھے مل گئ
مجھے میری زندگی مل گئی
میری دنیا مل گئی
میری جنت مل گئی ...!!!؟" امی نے مجھے پھر اپنے سے لپٹایا اور پیار کیا
"تمہارے ابو بتارہے تھے کہ وہ کچھ لوگوں کی ٹولی قبرستان کے کئی چکر لگا چکی تھی اور آوازیں بھی دی تھی لیکن تم نے دوپہر کے وقت آواز دی شاید میری جان بے ہوش تھی ...!!"امی نے کہا تو اسے امی کا آیت الکرسی پڑھانا یاد آیا
کیونکہ اس سے پہلے تو اسے ابو یا اور کوئی آواز نہیں آئی تھی جیسے ہی اس نے پڑھنا شروع کیا تو کچھ ہی دیر بعد آوازیں سنائی دی
: وقت گزرتا گیا سوائے ابو امی کے کسی کو بھی اس منحوس واقعہ کی تفصیل نہیں معلوم تھی
میرے ذہن سے بھی اس کی شدت کم ہوتی گئی میں اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے تھی ابو امی نے پھر کبھی بی حادثے کا ذکر نہیں کیا نہ مجھ سے نہ کسی اور سے
اور نہ میں کبھی بسکی واپس گئی خالہ ہی کئی دفعہ ملنے آئی اور وہ کبھی کبھی شرمندہ بھی ہوجاتی تھی لیکن اس سارے واقعے میں ان کا کیا قصور تھا
ابو نے ایک سے ایک ماہر جلد سے مشورہ کیا میرا چیک اپ کروایا لیکن ڈاکٹروں نے کہا
"یہ نشان ایکدم ختم نہیں ہونگے کیونکہ زہر کا اثر اندر تک ہے مگر اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے .....!!
یہ نشان اب نہیں بڑھے گئیں اور نہ ہی کبھی جلن یا تکلیف دے گا ...!!"تقریباً سبھی ڈاکٹروں کی رائے اس جیسی ہی تھی
چنانچہ ایسا ہی ہوا مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں تھی میں ان دو سیاہ داغوں سے کبھی چھٹکارا نہیں پاسکتی تھی
وقت کے ساتھ ساتھ میرے گالوں کے وہ دو سیاہ داغ مدھم ہوگئے تھے مگر گئے نہیں .....!!! اس کا مجھے بہت افسوس تھا کہ وہ دائمی نشان میرے چہرے پر جم گئے تھے
میں باہر جاتی یا فنکشن میں جاتی تو لوگ حیرت سے دیکھتے تھے میرے گالوں کے نشان بہت واضح نظر آتے تھے ان نشانوں پر میک اپ بھی نہیں ٹھرتا تھا تھوڑی دیر کے بعد وہ لکیریں واضح نظر آتی تھیں
اب وہ میری چہرے کا حصہ بن چکی تھی ایسا حصہ جو نہایت کربناک تھا اور میں اپنے آپ کو دیکھ کر ہر اس لمحے کو یاد کرنے مجبور تھی جسے میں بھولنا چاہتی تھی
اب میں اپنے چہرے کے نشانوں کی عادی ہوگئی تھی وقت کے ساتھ ساتھ میں نے یہ حقیقت تسلیم کرلی تھی صرف میں نے ہی نہیں بلکہ میرے تمام عزیز و اقارب اور سہیلیاں اور جاننے والوں نے بھی مجھے اسی حال میں قبول کرلیا تھا
شروع شروع اسکول میں مجھ سے بات کرنے بھی لڑکیاں ڈرتی تھی لیکن دھیرے دھیرے میری عادی ہوگئی شیما ہی بس میری عزیز سہیلی بن سکی مجھے اس سے بہت محبت تھی وہ اکثر میرے گھر رکنے بھی آتی تھی
میرے بعد امی کو کئی دفعہ اسقاط حمل سے گزرنا پڑا تھا ابو امی کو اولاد نرینہ کی بڑی خواہش تھی لیکن یہ پوری نہ ہوسکی ان بھیانک خوابوں کے تسلسل نے انکے ذہن اور جسم پر ایسا اثر کیاکہ کچھ سالوں میں امی بانجھ ہوگئی
خوب علاج کئے عملیات کئے لیکن تقدیر میں جو تھا وہی ہوا میں ان کی اکلوتی اولاد تھی اور میرے لئے وہ دونوں ہی بہت حساس تھی مجھے ذرا سی تکلیف ہوتی اور وہ دونوں تڑپ جاتے تھے
: ابو کھلے ذہن کے مالک تھے انی کی دل آزاری کے ڈر سے انھوں نے کبھی دوسری شادی کا ذکر بھی نہیں کیا حالانکہ زمینداروں کے گھرانوں میں یہ بات بہت اہم تھی
اور اس بات پر کئی دفعہ بہت طوفان بھی اٹھایا گیا لیکن ابو کو قطع پرواہ نہیں تھی اپنے آبائی گاؤں کو خیر آباد کرکے انھوں نے ہمیں الہ آباد شفٹ کیا
ہم چھٹیوں میں عید برأت کو جاتے رہتے تھے ابو الہ آباد میں ہی اپنا بزنیس بڑھایا تھا میں نے میڑک پاس کرلیا تو کالج جانے کے لئے بےچین ہوگئی
بچپن کا زمانہ گزر گیا تھا اور جوانی نے دہلیز پر قدم رکھا تھا مجھے پڑھائی کا بہت شوق تھا لیکن یہ وہ ‌زمبنہ تھا جب تعلیم اتنی عام اور اہم نہیں تھی ذیادہ پڑھی لکھی لڑکی بھی عیب دار معلوم ہوتی تھی
روایتی ماں باپ کی طرح ہی میرے امی ابو کو میرے شادی کی فکر لگ گئی میں نے کالج جانے کی ضد شروع کی امی کو منظور نہیں تھا کہ میں کالج جاؤں
ابو میری بات مان گئے میرا ایڈمیشن کالج میں ہوگیا اور میرے لیے کالج لانے لے جانے کے لیے وین کا انتظام بھی کیا
یوں ہی میرے زندگی کے سال گزرنے لگے امی کو میری شادی کی بہت جلدی تھی اور وہ ہر ممکن کوششیں کر رہی تھی
لیکن میرے چہرے کے داغ دیکھ کر ہی سب خاموش ہوجاتے کوئی میرے سیاہ داغوں کو پیدائشی داغ ماننے تیار نہیں تھے
حثیثت ، تعلیم ، انچے خاندان ، اور ابو کے جائیداد کی اکلوتی وارث ہوتے ہوئے بھی مجھے کوئی اپنانے تیار نہیں تھا
یہ میرے احساس کو ایسی زبردست چوٹ تھی میرا اعتماد ٹوٹ کر بکھر چکا تھا اور میں ہر نئی ملاقات پر احساس کمتری کا شکار ہورہی تھی
میں خود کو عیب دار مانتی تھی اور یہ صحیح بھی تھا کہ میرے چہرے پر عیب ہی تھا اور اس کے رہتے کوئی میرے دل ، کردار اور اخلاق کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رھا تھا
بار بار ٹھکرائے جانے کے تکلیف دہ احساس نے مجھے اپنی ہی نظروں میں سب سے کمتر بنادیا تھامیری حالت دیکھ کر ابو نے سختی سے امی کو روکا تھا
"بیگم ...!!!آپ خواہ مخواہ موہنی کو تکلیف دینے پر کیوں تلی ہیں ...!!!جب اللہ کی مرضی ہوگی رشتہ خود بخود آئے گا بھی طے بھی ہوگا ...!!" ابو برہمی سے پہلے تھے
"بلکل جب اللہ کی مرضی ہوگی ایسا ہوکر رہے گا ....!! لیکن میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے اس وقت کا انتظار نہیں کرسکتی ہمیں اپنی بھی کوششیں کرنی چاہیے پھر اللہ سے مدد مانگنی ہوگی ...!!!"امی نے لہجہ نرم ہی رکھا لیکن تلخ ہوگیا تھا
میں نے کبھی امی کو ابو سے اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا تھا آج یہ تلخی صرف میری ہی وجہ سے ابھری تھی جس کا مجھے بہت افسوس ہوا تھا
"آج مالدار ، عزت دار , اور خاندانی ہوتے ہوئے بھی موہنی کو کوئی پسند نہیں کر رہا کتنے اچھے اچھے رشتے بس میری بچی کے چہرے پر پڑے ان سیاہ نشانوں کی وجہ سے چلے گئے.....!!
میں بھی ماں ہوں اپنی بچی کا اچھا برا سوچنے کرنے کا حق ہے مجھے میں بھی اسے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہوں .....!!!
میرے خدشات مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتے کہ میرے بچے کے نصیب کیسا ہوگا کم ازکم اتنی تو تسلی رہے کہ لڑکا لائق فائق ہی ہو .....!!!"امی کی آواز نم ہوئی تو ابو نے ہتھیار ڈال دئیے
"میں بھی موہنی کے لئے پریشان ہوں بیگم...!!!لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسے بار بار کسی بکاؤ چیز کی طرح نمائش لگائیں اور اسے ٹھکرائے جانے کے احساس سے گزار کر احساس کمتری میں مبتلا کردیں ....!!" ابو نے نرمی سے سمجھایا تو ذرا سی نرمی پاکر امی کا دکھ چھلک گیا
وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی رو تو میری آنکھیں بھی رہی تھی ان کا دکھ مجھ سے بھی تو کہاں برداشت ہوتا تھا
کچھ دن پہلے ہی تو وہ کتنی بے فکر سی تھی اپنی زندگی سے ....!!!
کالج جانے کی خوشی ......!!
نئی دنیا میں پہلا قدم ....!!
نئے دوست نیا ماحول ....!!!
خوش گپیوں میں مصروف....!!!
ناول رسالے پڑھتے میں ہ کتنی مطمئن سی تھی اور اب اچانک ہی یہ افتاد آگئی تھی اور میں حد درجہ اداس ہوگئی تھی
امی مجھے فارغ وقت میں باورچی خانہ میں لے جاتی کچھ بنانا سکھاتی حالانکہ گھر میں پابندی سے نوکرانیاں آتی تھی
"بیٹی یہ تمہیں آنا چاہیے....!! عورت کو چاہے کتنا بھی امیر دل عزیز شوہر ملے لیکن اللہ نے اسے اپنے شوہر کی خدمت پر معمور کیا ہے اور ہر شوہر یہی پسند کرتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لئے اچھے اچھے کھانے بنائے اس کی خدمت کرے ......!!" جب امی مجھے کھانا بنانا سکھاتی تھی تو وہ مجھے سمجھاتی بھی تھی
"پتہ نہیں موہنی کس گھر جاؤ گی وہاں حالات کیا ہونگے کھانا پکانا سینا پرونا اور گھر کے دوسرے اہم امور کا آنا ضروری ہے بیٹا...!!" امی اب یہ ذیادہ کہنے لگی تھی میرے ذمہ بھی کچھ کام لگا رکھے تھے
"سب کام اپنے وقت پر ہوں تو ہی اچھا ہوتا ہے وقت کی پابندی سے گھر کو سنوارنا بھی ایک ہنر ہے ...!!!" میں کبھی وقت کی پابندی نہ کرتی تو امی ڈانٹ دیتی اور شادی کی اتنی جلدی پر میں چڑ جاتی تو کہتیں
"موہنی دل تو یہی چاہتا ہے کہ ہم تمہیں ہر دم اپنے سینے سے لگا کر رکھیں.....!!! مگر یہ دنیا کی ریت ہے بیٹے لڑکی جوان ہوجائے تو ماں باپ کو فکر لاحق ہوجاتی ہے یہ قدرتی بات ہے .....!!!"
میں خفگی سے دیکھتی تو مزید کہتی
" ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اس سے بغاوت کو معاشرہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا ....!!"
چھوڑیں امی ...!! آپ بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئیں...!!" میں یہ کہہ کر بھاگ جاتی اور اپنی کتابوں کی دنیا میں کھو جاتی
ایسا نہیں تھا کہ میں نے اپنے لڑکپن کے خواب نہیں دیکھے تھے ...!!؟؟
میرا کوئی آئیڈیل نہیں تھا....!!؟
میں نے خواب بھی دیکھے تھے میرا آئیڈیل بھی تھا ....!!!؟
میں بھی ایک عام لڑکی تھی اور میرا بھی حق تھا کہ میں بھی اپنے جیون ساتھی کے کچھ خواب دیکھوں .….!!
میں نے بھی اپنے خوابوں کی دنیا میں حسین سے رنگ بھرے تھے جو پہلی دفعہ تب بے رنگ ہوئے جب مجھے دیکھنے آنے والی ایک خاتون نے گال پیٹتے ہوئے یہ منحوس جملے پگھلے سیسے کی طرح میرے کانوں میں ڈالے تھے
"اللہ خیر کرے یہ نشان کیسے ہیں .....!!! استغفراللہ جیسے شیش ناگ کے چہرے پر ہوتے ہیں نہ .....!! توبہ توبہ ویسے ہی لگ رہے ہیں ....!!؟؟"
"ہاں بہن تم کہہ تو ٹھیک رہی ہو میں نے ابھی غور کیا ہے کیسی سیدھی لکیریں ہیں اف....!!" ساتھ والی خاتون نے حیرت سے کہا میں اٹھ کر آگئی
کئی د‌نوں تک میری طبیعت بوجھل رہی تھی اور میں چھپ چھپ کر روتی بھی رہی تھی یہ ناگ کی طرح ہی تو نشان تھے اس ناگ کے منحوس زہر کے نشانات جو میرے زندگی سے چپک گئے تھے
اب میں نے بی اے پاس کر لیا تھا انی کی فکر جوں کی توں تھی لیکن ا‌ کی عملی شدت میں کمی آگئی تھی یا شاید وہ مایوس ہوگئی تھی
کالج کی زندگی ختم ہوگئ تھی آہستہ آہستہ جو میری تھوڑی بہت سہیلیاں تھی وہ بھی کم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی تھی کتنوں کی شادی کالج پڑھنے کے دوران ہی ہوگئی تھی اور کچھ کی کالج ختم ہونے کے بعد.....!!
میں اکثر تنہائی کا شکار ہونے لگی بڑے سے گھر میں ادھر ادھر گھومتی رہتی تھی یا امی کا ہی ہاتھ بٹا لیتی پر اس میں میرا دل نہیں لگتا تھا
میں نے کتابیں بھی پڑھتی تھی اور گھر کے ذیادہ تر کام کاج میں خود کو مصروف رکھنے کی کوشش بھی کرتی تھی
مارچ آخر کا مہینہ تھا گرمیاں اپنے عروج پر تھیں اس دن دوپہر کو امی مجھے ساتھ لے کر کھانا کھایا ورنہ تو میں دوپہر کا کھانا باقاعدہ بیٹھ کر نہیں کھاتے تھی
گھوم پھر کر باورچی خانے کا چکر لگاتے ہوئے کچھ چتر پتر یا چائے اسنیک کھالیتے تھی یا کچھ بیکری آئیٹم ہی چکھ لیتی تھی
اس دن امی خوش اور مطمئن بھی لگ رہی تھی اور ہلکی ہلکی خوفزدہ بھی میں سمجھ گئی کہ پھر سے کوئی نئی بات شروع ہوئی ہے جو اپنا اختتام پھر کسی نئی تلخی پر کرے گی
پھر بھی میں خاموشی سے امی کے کہنے کا انتظار کرتی رہی امی کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا شاید....!!!
کہ مجھ سے بات کہاں سے شروع کریں بس لئے کچھ سنجیدہ ہوئی اور کہا
"موہنی اب تم بڑی ہوگئ ہو پڑھی لکھی ہو سمجھدار ہو اپنا اچھا برا سمجھتی ہو .....!!؛ یہ ایک ماں کا دل ہی جانتا ہے جب وہ اپنی پلی پلائی بچی کو جس کو اس نے راتوں کو جاگ جاگ کر سلایا ہو کسی غیر کے ہاتھوں رخصت کرتے ہوئے کیسے دل کٹتا ہے ....!!"
"کیا بات ہے امی کیا ہوا ہے ...!!"میں الجھ گئی
"رحیم انکل کے دوست فرقان صاحب....!!ان کے بیٹے کمال بیالوجی ایم ایس سی ....!! انھوں نے تمہارا فوٹو دیکھ کر ہی تمہیں پسند کر لیا ہے ....!!"امی کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی
"وہ آج شام تمہیں دیکھنے آرہے ہیں ....!!!میں اور تمہارے ابو چاہتے ہیں کہ تم بھی کمال کو ایک نظر دیکھ لو.....!!!
یہ ذندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے بیٹا ...!!!اسلامی طریقہ بھی یہی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لیں اس میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے...!!!" امی مجھے نرم لہجے میں سمجھانے لگی تھی
امی نے یہ بھی بتایا کہ ابو کے دوست رحیم جن کو میں رحیم انکل کہتی تھی اور وہ اکثر ہمارے گھر آتے بھی تھے اور فیملی ریلیشنز بھی تھے ان کے ایک دور پار کے دوست تھے یہ فرقان صاحب ....!!!
ریٹائرڈ فورسٹ آفیسر نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنا بزنیس شروع کیا تھا اور اب وہ لاکھوں کا بزنیس سنبھال رہے تھے
ان کا اکلوتا بیٹا کمال ....!!!
کمال احمد...!!!
بہت شریف پڑھا لکھا بیالوجی میں ایم ایس سی کر چکے تھے ....!!
کمال کی کی والدہ کا سالوں پہلے انتقال ہوگیا تھا باپ بیٹے الہ آباد میں ہی نئے تعمیری علاقے میں بہت بڑی بنگلے میں رہتے تھے
نوکر ، چاکر ، دولت ، عزت ، شہرت کسی چیز کی کمی نہیں تھی لاکھوں کی جائیداد کا اکیلا وارث کمال احمد ہی تھا اور انھوں نے میری فوٹو دیکھتے ہی مجھے پسند کرلیا تھا
ا‌نھیں نرم مزاج نیک سیرت سگھڑ سلیقہ مند سلیقہ شعار گھریلو لڑکی ہی درکار تھی جو ان کو اور ان کے گھر کو سنبھال سکے اور ان دونوں کا خیال رکھ سکے
مجھے حیرت ہوئی کہ کیا کمال کو میرے چہرے کے داغوں سے کوئی مطلب نہیں ....!!
جب وہ اتنے قابل ہیں تو میری جیسے لڑکی کو کیونکر پسند کرلیا ....!!!
وہ کسی ایسی بے حد خوبصورت لڑکی کا بھی تو انتخاب کر سکتے تھے جو ان کے دسترس میں ہوتی
----------------------_--------
ابو کھلے ذہن کے مالک تھے امی کی دل آزاری کے ڈر سے انھوں نے کبھی دوسری شادی کا ذکر بھی نہیں کیا حالانکہ زمینداروں کے گھرانوں میں یہ بات بہت اہم تھی
اور اس بات پر کئی دفعہ بہت طوفان بھی اٹھایا گیا لیکن ابو کو قطع پرواہ نہیں تھی اپنے آبائی گاؤں کو خیر آباد کرکے انھوں نے ہمیں الہ آباد شفٹ کیا
ہم چھٹیوں میں عید برأت کو جاتے رہتے تھے ابو الہ آباد میں ہی اپنا بزنیس بڑھایا تھا میں نے میڑک پاس کرلیا تو کالج جانے کے لئے بےچین ہوگئی
بچپن کا زمانہ گزر گیا تھا اور جوانی نے دہلیز پر قدم رکھا تھا مجھے پڑھائی کا بہت شوق تھا لیکن یہ وہ ‌زمبنہ تھا جب تعلیم اتنی عام اور اہم نہیں تھی ذیادہ پڑھی لکھی لڑکی بھی عیب دار معلوم ہوتی تھی
روایتی ماں باپ کی طرح ہی میرے امی ابو کو میرے شادی کی فکر لگ گئی میں نے کالج جانے کی ضد شروع کی امی کو منظور نہیں تھا کہ میں کالج جاؤں
ابو میری بات مان گئے میرا ایڈمیشن کالج میں ہوگیا اور میرے لیے کالج لانے لے جانے کے لیے وین کا انتظام بھی کیا
یوں ہی میرے زندگی کے سال گزرنے لگے امی کو میری شادی کی بہت جلدی تھی اور وہ ہر ممکن کوششیں کر رہی تھی
لیکن میرے چہرے کے داغ دیکھ کر ہی سب خاموش ہوجاتے کوئی میرے سیاہ داغوں کو پیدائشی داغ ماننے تیار نہیں تھے
حثیثت ، تعلیم ، انچے خاندان ، اور ابو کے جائیداد کی اکلوتی وارث ہوتے ہوئے بھی مجھے کوئی اپنانے تیار نہیں تھا
یہ میرے احساس کو ایسی زبردست چوٹ تھی میرا اعتماد ٹوٹ کر بکھر چکا تھا اور میں ہر نئی ملاقات پر احساس کمتری کا شکار ہورہی تھی
میں خود کو عیب دار مانتی تھی اور یہ صحیح بھی تھا کہ میرے چہرے پر عیب ہی تھا اور اس کے رہتے کوئی میرے دل ، کردار اور اخلاق کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رھا تھا
بار بار ٹھکرائے جانے کے تکلیف دہ احساس نے مجھے اپنی ہی نظروں میں سب سے کمتر بنادیا تھامیری حالت دیکھ کر ابو نے سختی سے امی کو روکا تھا
"بیگم ...!!!آپ خواہ مخواہ موہنی کو تکلیف دینے پر کیوں تلی ہیں ...!!!جب اللہ کی مرضی ہوگی رشتہ خود بخود آئے گا بھی طے بھی ہوگا ...!!" ابو برہمی سے پہلے تھے
"بلکل جب اللہ کی مرضی ہوگی ایسا ہوکر رہے گا ....!! لیکن میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے اس وقت کا انتظار نہیں کرسکتی ہمیں اپنی بھی کوششیں کرنی چاہیے پھر اللہ سے مدد مانگنی ہوگی ...!!!"امی نے لہجہ نرم ہی رکھا لیکن تلخ ہوگیا تھا
میں نے کبھی امی کو ابو سے اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا تھا آج یہ تلخی صرف میری ہی وجہ سے ابھری تھی جس کا مجھے بہت افسوس ہوا تھا
"آج مالدار ، عزت دار , اور خاندانی ہوتے ہوئے بھی موہنی کو کوئی پسند نہیں کر رہا کتنے اچھے اچھے رشتے بس میری بچی کے چہرے پر پڑے ان سیاہ نشانوں کی وجہ سے چلے گئے.....!!
میں بھی ماں ہوں اپنی بچی کا اچھا برا سوچنے کرنے کا حق ہے مجھے میں بھی اسے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہوں .....!!!
میرے خدشات مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتے کہ میرے بچے کے نصیب کیسا ہوگا کم ازکم اتنی تو تسلی رہے کہ لڑکا لائق فائق ہی ہو .....!!!"امی کی آواز نم ہوئی تو ابو نے ہتھیار ڈال دئیے
"میں بھی موہنی کے لئے پریشان ہوں بیگم...!!!لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسے بار بار کسی بکاؤ چیز کی طرح نمائش لگائیں اور اسے ٹھکرائے جانے کے احساس سے گزار کر احساس کمتری میں مبتلا کردیں ....!!" ابو نے نرمی سے سمجھایا تو ذرا سی نرمی پاکر امی کا دکھ چھلک گیا
وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی رو تو میری آنکھیں بھی رہی تھی ان کا دکھ مجھ سے بھی تو کہاں برداشت ہوتا تھا
کچھ دن پہلے ہی تو وہ کتنی بے فکر سی تھی اپنی زندگی سے ....!!!
کالج جانے کی خوشی ......!!
نئی دنیا میں پہلا قدم ....!!
نئے دوست نیا ماحول ....!!!
خوش گپیوں میں مصروف....!!!
ناول رسالے پڑھتے میں کتنی مطمئن سی تھی اور اب اچانک ہی یہ افتاد آگئی تھی اور میں حد درجہ اداس ہوگئی تھی
امی مجھے فارغ وقت میں باورچی خانہ میں لے جاتی کچھ بنانا سکھاتی حالانکہ گھر میں پابندی سے نوکرانیاں آتی تھی
"بیٹی یہ تمہیں آنا چاہیے....!! عورت کو چاہے کتنا بھی امیر دل عزیز شوہر ملے لیکن اللہ نے اسے اپنے شوہر کی خدمت پر معمور کیا ہے اور ہر شوہر یہی پسند کرتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لئے اچھے اچھے کھانے بنائے اس کی خدمت کرے ......!!" جب امی مجھے کھانا بنانا سکھاتی تھی تو وہ مجھے سمجھاتی بھی تھی
"پتہ نہیں موہنی کس گھر جاؤ گی وہاں حالات کیا ہونگے کھانا پکانا سینا پرونا اور گھر کے دوسرے اہم امور کا آنا ضروری ہے بیٹا...!!" امی اب یہ ذیادہ کہنے لگی تھی میرے ذمہ بھی کچھ کام لگا رکھے تھے
"سب کام اپنے وقت پر ہوں تو ہی اچھا ہوتا ہے وقت کی پابندی سے گھر کو سنوارنا بھی ایک ہنر ہے ...!!!" میں کبھی وقت کی پابندی نہ کرتی تو امی ڈانٹ دیتی اور شادی کی اتنی جلدی پر میں چڑ جاتی تو کہتیں
"موہنی دل تو یہی چاہتا ہے کہ ہم تمہیں ہر دم اپنے سینے سے لگا کر رکھیں.....!!! مگر یہ دنیا کی ریت ہے بیٹے لڑکی جوان ہوجائے تو ماں باپ کو فکر لاحق ہوجاتی ہے یہ قدرتی بات ہے .....!!!"
میں خفگی سے دیکھتی تو مزید کہتی
" ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اس سے بغاوت کو معاشرہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا ....!!"
چھوڑیں امی ...!! آپ بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئیں...!!" میں یہ کہہ کر بھاگ جاتی اور اپنی کتابوں کی دنیا میں کھو جاتی
ایسا نہیں تھا کہ میں نے اپنے لڑکپن کے خواب نہیں دیکھے تھے ...!!؟؟
میرا کوئی آئیڈیل نہیں تھا....!!؟
میں نے خواب بھی دیکھے تھے میرا آئیڈیل بھی تھا ....!!!؟
میں بھی ایک عام لڑکی تھی اور میرا بھی حق تھا کہ میں بھی اپنے جیون ساتھی کے کچھ خواب دیکھوں .….!!
میں نے بھی اپنے خوابوں کی دنیا میں حسین سے رنگ بھرے تھے جو پہلی دفعہ تب بے رنگ ہوئے جب مجھے دیکھنے آنے والی ایک خاتون نے گال پیٹتے ہوئے یہ منحوس جملے پگھلے سیسے کی طرح میرے کانوں میں ڈالے تھے
"اللہ خیر کرے یہ نشان کیسے ہیں .....!!! استغفراللہ جیسے شیش ناگ کے چہرے پر ہوتے ہیں نہ .....!! توبہ توبہ ویسے ہی لگ رہے ہیں ....!!؟؟"
"ہاں بہن تم کہہ تو ٹھیک رہی ہو میں نے ابھی غور کیا ہے کیسی سیدھی لکیریں ہیں اف....!!" ساتھ والی خاتون نے حیرت سے کہا میں اٹھ کر آگئی
کئی د‌نوں تک میری طبیعت بوجھل رہی تھی اور میں چھپ چھپ کر روتی بھی رہی تھی یہ ناگ کی طرح ہی تو نشان تھے اس ناگ کے منحوس زہر کے نشانات جو میرے زندگی سے چپک گئے تھے
اب میں نے بی اے پاس کر لیا تھا انی کی فکر جوں کی توں تھی لیکن ا‌ کی عملی شدت میں کمی آگئی تھی یا شاید وہ مایوس ہوگئی تھی
کالج کی زندگی ختم ہوگئ تھی آہستہ آہستہ جو میری تھوڑی بہت سہیلیاں تھی وہ بھی کم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی تھی کتنوں کی شادی کالج پڑھنے کے دوران ہی ہوگئی تھی اور کچھ کی کالج ختم ہونے کے بعد.....!!
میں اکثر تنہائی کا شکار ہونے لگی بڑے سے گھر میں ادھر ادھر گھومتی رہتی تھی یا امی کا ہی ہاتھ بٹا لیتی پر اس میں میرا دل نہیں لگتا تھا
میں نے کتابیں بھی پڑھتی تھی اور گھر کے ذیادہ تر کام کاج میں خود کو مصروف رکھنے کی کوشش بھی کرتی تھی
مارچ آخر کا مہینہ تھا گرمیاں اپنے عروج پر تھیں اس دن دوپہر کو امی مجھے ساتھ لے کر کھانا کھایا ورنہ تو میں دوپہر کا کھانا باقاعدہ بیٹھ کر نہیں کھاتے تھی
گھوم پھر کر باورچی خانے کا چکر لگاتے ہوئے کچھ چتر پتر یا چائے اسنیک کھالیتے تھی یا کچھ بیکری آئیٹم ہی چکھ لیتی تھی
اس دن امی خوش اور مطمئن بھی لگ رہی تھی اور ہلکی ہلکی خوفزدہ بھی میں سمجھ گئی کہ پھر سے کوئی نئی بات شروع ہوئی ہے جو اپنا اختتام پھر کسی نئی تلخی پر کرے گی
پھر بھی میں خاموشی سے امی کے کہنے کا انتظار کرتی رہی امی کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا شاید....!!!
کہ مجھ سے بات کہاں سے شروع کریں بس لئے کچھ سنجیدہ ہوئی اور کہا
"موہنی اب تم بڑی ہوگئ ہو پڑھی لکھی ہو سمجھدار ہو اپنا اچھا برا سمجھتی ہو .....!!؛ یہ ایک ماں کا دل ہی جانتا ہے جب وہ اپنی پلی پلائی بچی کو جس کو اس نے راتوں کو جاگ جاگ کر سلایا ہو کسی غیر کے ہاتھوں رخصت کرتے ہوئے کیسے دل کٹتا ہے ....!!"
"کیا بات ہے امی کیا ہوا ہے ...!!"میں الجھ گئی
"رحیم انکل کے دوست فرقان صاحب....!!ان کے بیٹے کمال بیالوجی ایم ایس سی ....!! انھوں نے تمہارا فوٹو دیکھ کر ہی تمہیں پسند کر لیا ہے ....!!"امی کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی
"وہ آج شام تمہیں دیکھنے آرہے ہیں ....!!!میں اور تمہارے ابو چاہتے ہیں کہ تم بھی کمال کو ایک نظر دیکھ لو.....!!!
یہ ذندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے بیٹا ...!!!اسلامی طریقہ بھی یہی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لیں اس میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے...!!!" امی مجھے نرم لہجے میں سمجھانے لگی تھی
امی نے یہ بھی بتایا کہ ابو کے دوست رحیم جن کو میں رحیم انکل کہتی تھی اور وہ اکثر ہمارے گھر آتے بھی تھے اور فیملی ریلیشنز بھی تھے ان کے ایک دور پار کے دوست تھے یہ فرقان صاحب ....!!!
ریٹائرڈ فورسٹ آفیسر نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنا بزنیس شروع کیا تھا اور اب وہ لاکھوں کا بزنیس سنبھال رہے تھے
ان کا اکلوتا بیٹا کمال ....!!!
کمال احمد...!!!
بہت شریف پڑھا لکھا بیالوجی میں ایم ایس سی کر چکے تھے ....!!
کمال کی کی والدہ کا سالوں پہلے انتقال ہوگیا تھا باپ بیٹے الہ آباد میں ہی نئے تعمیری علاقے میں بہت بڑی بنگلے میں رہتے تھے
نوکر ، چاکر ، دولت ، عزت ، شہرت کسی چیز کی کمی نہیں تھی لاکھوں کی جائیداد کا اکیلا وارث کمال احمد ہی تھا اور انھوں نے میری فوٹو دیکھتے ہی مجھے پسند کرلیا تھا
ا‌نھیں نرم مزاج نیک سیرت سگھڑ سلیقہ مند سلیقہ شعار گھریلو لڑکی ہی درکار تھی جو ان کو اور ان کے گھر کو سنبھال سکے اور ان دونوں کا خیال رکھ سکے
مجھے حیرت ہوئی کہ کیا کمال کو میرے چہرے کے داغوں سے کوئی مطلب نہیں ....!!
جب وہ اتنے قابل ہیں تو میری جیسے لڑکی کو کیونکر پسند کرلیا ....!!!
وہ کسی ایسی بے حد خوبصورت لڑکی کا بھی تو انتخاب کر سکتے تھے جو ان کے دسترس میں ہوتی
:
جیسے جیسے دوپہر گزرنے لگی اور شام آرہی تھی میری بے چینی بڑھنے لگی عصر اور مغرب کے بیچ وہ لوگ آگئے بڑی سی نئے ماڈل کی گاڑی تھی
سوٹ بوٹ پہنے ہوئے رحیم انکل کے ساتھ ہی کمال کے والد اور پیچھے پیچھے کمال گردن جھکائے چل رہے تھے لمبا قد تھا چہرہ صاف دکھائی نہیں دیا
میں اوپری منزل کی کھڑکی سے دیکھ رہی تھی امی کچن میں مصروف تھی میں فوراً کھڑکی سے ہٹ گئی کہ کہیں کسی کی نظر نہ پڑ جائے
امی نے مجھے اچھی طرح سے تیار کیا خود اپنی نگرانی میں ان کا چہرہ خوشی سے گلابی گلابی ہورہا تھا کئی دنوں بعد وہ اتنی خوش لگ رہی تھی
" شرمانے کی بات نہیں ہے کمال کو یہاں ہم نے تمہیں دیکھنے کے لئے ہی بلایا ہے ورنہ تو وہ فوٹو پر ہی راضی ہوگیا تھا تم خود بھی آرام سے کمال کو دیکھ لینا ....!!!
ہاں..!! اگر وہ بات کرے یا کوئی سوال کرے تو بلاجھجک جواب دینا یہ بس اس لیے ہے کہ تم اچھی طرح سے کمال کو دیکھ لو ....!!" امی کی ہدایات جاری تھی
گلابی کلر کے جھل مل کرتے گھاگرے میں سلیقے سے جمے بال اور بڑے سے ڈوپٹے میں خود کو لپیٹے میں اچھی لگ رہی تھی
بس....!!!
جیسے ہی نظر چہرے پر گئی مایوسی کی ایک لہر مجھ میں دوڑ گئی اور مجھے اپنا سراپا نامکمل لگنے لگا میں نے نگاہیں جھکالیں میرے چہرے کے سیاہ نشانوں نے مجھے آج حد درجہ مایوس کیا تھا
میں نے ایک اچٹتی سی نظر شیشے پر ڈالی اور میرے نگاہیں جیسے پتھرا گئیمیں لمحوں میں تیرہ سال پیچھے چلی گئی
جب میں امی کا ہار پہنے اس قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑی تھی اور ناگ کی پرچھائی نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا اور ناگ کے پھن کا نشان میرے وجود سے مکمل ہوگیا تھا
ابھی بھی میں قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑی تھی اور ناگ کی پرچھائی پھن پھیلائے مجھے اپنے حصار میں لئے ہوئے تھی
اور جس بات سے میں کانپ اٹھی تھی وہ یہی تھی کہ میرے چہرے کے وہ نشان ناگ کے پھن کے نشان سے مل کر مکمل ہوگئے تھے
میری آنکھیں خوف سے پتھرا گئی تھی دہشت سے میرا وجود کانپنے لگا میں پسینہ میں شرابور ہوگئ تھی پچھلی دفعہ کی طرح اس دفعہ یہ پرچھائی کچھ لمحوں کے بعد غائب نہیں ہوئی تھی
وہ ابھی بھی ویسی ہی تھی اور ناگ کی آنکھیں مجھے واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی یہ وہی ناگ تھا
"موہنی ...!!!کیا ہوا ...!!موہنی ...!!"امی نے گھبرا کر مجھے لپٹایا میں دودھ کی طرح سفید ہوگئی تھی اور پسینے میں شرابور
"میں ٹھیک ہوں امی ....!!آپ پریشان نہ ہوں ..!!"میں نے خود پر اور اپنے خوف پر قابو پایا امی کی حالت غیر ہورہی تھی اپنے وجود کو سختی سے اپنے ہی بانہوں میں دبا کر کپکپاہٹ کو کم کرنے کی کوشش کی
امی نے پانی دیا تو میں وہ غٹاغٹ پی گئی
"کیا ہوا میری جان طبیعت ٹھیک ہے ....!!؟" امی نے ماتھا چوما پیار کیا لپٹانے لگی کچھ دعائیں دم کی تو میں پرسکون ہوگئ
"کچھ نہیں امی ذرا چکر آگیا تھا میں آپ ٹھیک ہوں ابو سے کچھ نہ کہیں پریشان ہوجائیں گے ....!!؟" میں نے امی کو سمجھاتے ہوئے تاکید بھی کی امی نے چند نوٹ مجھ پر سے اتارے اور صدقہ کے لئے لے گئی
"یہ کیا تھا ...!!؟"میں نے خود سے سوال کیا ناگ کی پرچھائی والی بات تو میں نے امی ابو کو بھی نہیں بتائی تھی اور کبھی میری یاد میں وہ بات آتی بھی تو میں اسے اپنا وہم ہی سمجھتی رہی تھی
ابھییں کچھ ہی سنبھل کر اپنے خیالات سے چونکی تھی کہ امی کمرے میں آئیں اور میرا ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے بولی
"موہنی تمہیں تو معلوم ہے کہ عام طور پر میں کسی مرد کے سامنے نہیں جاتی چاہے وہ تمہارے ابو کے کتنے ہی نزدیکی دوست ہوں ....!!!؟مگر تمہارے ابو نے کہا ہے تمہیں لے کر ڈرائنگ روم میں آؤں ان کے ساتھ کو ئی خاتون نہیں ہے ...!!چلو موہنی میرے ساتھ چلو ...!!!؟"
وہ لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے میں بہت ہمت والی لڑکی تھی ذیادہ کسی سے شرماتی نہیں تھی مگر اس وقت عجیب لگ رہا تھا اور یہ کوئی پہلی دفعہ تو نہیں تھا کہ میں ایسا کسی کے سامنے پیش ہوئی تھی
اس وقت میری جو حالت تھی بیان سے باہر تھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ذہن پر جیسے غنودگی سوار ہوگئی تھی میں امی کو لئے سلام کی پروقار آواز کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو سب لوگ امی کے احترام میں کھڑے ہوئے تھے
کمال بھی سر جھکائے جلدی سے کھڑے ہوئے اور بیٹھ گئے میں اور امی خاص ہمارے لئے صحیح زاویہ سے لگائے گئے صوفے پر الگ بیٹھ گئے
کئی سوالات ہوئے ماحول خوشگوار تھا لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا میںنے امی کے اشارے پر کمال کو بھی دیکھا جن کی نظریں جھکی جھکی سی تھی
وہ بندہ جوں کا توں بیٹھا تھا اس نے شاید ایک مرتبہ بھی نگاہیں اٹھا کر مجھے نہیں دیکھا تھا
یا وہ اتنا ہوشیار ہو کہ چپکے سے مجھے دیکھ لیا ہو یہ ایک فطری سوچ تھی اور میں چاہتی تھی کہ وہ واضح طور پر میرے چہرے کے سیاہ نشانوں کو دیکھ لیں اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں
پھر میں نے کمال کی طرف دیکھنے کی کوشش کی تو میری نگاہیں اس پر ٹک نہ سکی میرے دل میں انجانا سہ خوف جاگ اٹھا اور ایک جھجک نے مجھے گھیر لیا
امی نے چلنے کا اشارہ کیا تو میں خواب کی سی کیفیت میں باہر آگئی تھی میرے اعصاب پر عجیب سی تھکان سوار ہوئی تھی
ڈرائنگ روم کی ساری آوازیں صاف آرہی تھی مگر مجھے کمال کی کوئی آواز نہیں آئی پھر وہ رخصت ہوئے تب بھی امی بہت خوش تھیں
میں اپنے کمرے میں ہی پڑی تھی امی ابو برآمدے میں ہی بیٹھے تھے مجھے انکی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی وہ کمال اور فرقان انکل کی تعریفوں اور جائیداد بزنیس کی ڈھیر ساری باتوں میں مصروف تھے
دونوں کے ہی آوازوں سے خوشی جھلک رہی تھی لیکن آج مغرب جو میرے ساتھ ہوا وہ میں بھول نہیں پارہی تھی کسی نے میرے پرانے زخم ادھیڑ دئیے تھے
مجھے کمال سے انجانا سا خوف آنے لگا تھا بلکہ ان باتوں سے بھی خوف آنے لگا تھا اور نہ ہی امی ابو کی باتوں سے مجھے کوئی دلچسپی رہی تھی
شام تک موسم بلکل صاف تھا بارش کے بلکل آثار نہیں تھے اور گرمیوں کے دن تھے تو بارش کا سوال نہیں تھا اچانک ہی گہرے کالے بادل چھائے اور زور زور سے برسات شروع ہوگئی
بجلیاں بھی کڑک رہی تھی اور بارش بھی بہت طوفانی تھی میں بارش سے ہمیشہ ہی لطف لیتی رہتی تھی بارش کے پانی میں اٹکھیلیاں مارنا مجھے پسند تھا
لیکن اس دن میرا دل خوف سے لرز رہا تھا میں نے گھر کے تمام کھڑی دروازے سختی سے بند کئے تھے انی بھی حیران ہورہی تھی لیکن مجھ سے کہا کچھ نہیں تھا
میرے خیالات حد درجہ منتشر تھے امی کے سوالات سے بچنے کے لئے جیسے تیسے کھانا کھایا اور جلد ہی بستر پر لیٹ گئی امی کو پھر بھی تشویش ہوئی تھی وہ سونے سے پہلے مجھے ایک بار دیکھ کر گئیں تھی
اس دن کے بعد میرے لڑکپن کے دن جیسے ختم ہوگئے اور اپنی عمر کے آخری خوش گوار دن تھے.
...........................
.......................... 
......................... 
......................... 
 

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں