بھنور قسط نمبر 4

 
 
بھنور
قسط نمبر 4
میری زندگی کے وہ شب و روز بڑے سہانے تھے میں صبح فجر کی نماز کے لیے اٹھ جاتی تھی یہ امی ابو کی تربیت کا اثر تھا وہ بھی جاگ جاتے تھے
کبھی موسم ٹھنڈا ہوتا اور کالج جانے کا موڑ نہ ہوتا تو پھر سے بستر میں دبک جاتی مزے کی لمبی نیند لیتی
وضو اور نماز سے تازگی ہوجاتی تھی گرمیوں میں نماز کے بعد باہر لان میں امی کے ساتھ پھولوں کے درمیان ٹہلتی تھی
پھر امی ابو کے ساتھ بھرپور ناشتہ
ابو آفس چل جاتے تو میں امی کے ساتھ کام نپٹاکر کتابیں لے کر بیٹھتی یا فون پر شیما سے گپ شپ لگا لیتی
کبھی ٹی وی تو نیوز پیپر پڑھ کر دوپہر کرلیتی تھی پھر باورچی خانے میں چکر لگاتے ہوئے فریج کھول کر ہر وقت کچھ کھاتے ہوئے میری شوخیاں امی کے ساتھ ہی ہوتی تھیں
شام کو جب ابو آتے تو ان کے ساتھ گاڑی پر کہیں نہ کہیں گھومنے پھرنے جانا راستے میں چاٹ آئس کریم کبھی رات کا کھانا باہر...!!!!
کبھی کبھی ہم کسی سے ملنے جاتے تھے کبھی کوئی ملنے آجاتا تھا
کاش وہ دن وہ لمحے کہی رک جاتے .....!!
ہمیشہ کے لیے اس طرح منجمد ہوجاتے ...!!!
انسان یکسانیت سے گھبرا جاتا ہے لیکن یہ یکسانیت مجھے بہت عزیز تھی
آج میں اپنی ذندگی پر غور کررہی ہوں تو وہ زمانہ میری زندگی کا سنہرا اور حسین زمانہ محسوس ہوتا تھا
میں بس اس زمانے کو قید کرکے اسے پھر سے جینے کی خواہش رکھتی تھی
مگر دن ، زمانہ ، موسم ، کبھی یکساں نہیں رہتے گزرتے ہوئے لمحوں کو کوئی روک نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی قید کرسکا ہے جو ہونا ہے وہ ہوکر ہی رہتا ہے
اس وقت جب بجلیاں کڑک کڑک کر بارش ہورہی تھی جانے کیوں مجھے تاج الدین بابا کا خیال آیا ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا تھا
ابو کے سبھی دوستوں کو میں انکل ہی کہتی تھی لیکن تاج الدین بابا کا نورانی چہرہ دیکھ کر انھیں روایتی انکل کہنا اچھا نہیں لگتا تھا
اور اس سے تقدس کا اظہار بھی نہیں ہوتا تھا جو انکی شخصیت کا حصہ تھا اس لیے میں انھیں تاج الدین بابا ہی کہتی تھی
ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے کہ وہ شادی کرے اپنا گھر سنسار بسائے کمال جیسے شخص کے لئے تو لاکھوں لڑکیاں بےتاب ہونگی اور کمال نے بقول امی " میرا انتخاب کیاہے " لیکن میرے جذبات جیسے سرد ہوگئے تھے
شادی بیاہ کا کا خیال اچھا نہیں لگ رہا تھا میری زندگی کا یہ موڑ مجھے پسند نہیں آرہا تھا شاید میری احساس کمتری مجھے اس خوشی سے روک رہی تھی
یا میرے وہ اندیشے کہ "کمال نے مجھے صحیح سے نہیں دیکھا " میرے اندر عجیب بےچینی پیدا کررہے تھے اصل بات میں سمجھ نہیں پارہی تھی
جب سے کمال کا قصہ گھر میں شروع ہوا تھا دل میں ایک انجانا سہ دھڑکا لگا ہوا تھا عجیب سی بےچینی گھیرے رہتی تھی جیسے کچھ غلط ہورہا ہے
لیکن کیا .....!!!؟
یہ میں آخر تک سمجھ ہی نہیں سکی تھی ......!!!
میری سہیلی شیما کو بھی اس بات کی خبر لگ گئی تھی وہ مجھ سے ملنے آئی ہوئی تھی اس کی منگنی اس پھو پھو زاد سے ہی طے ہوئی تھی وہ ہر وقت خوشگوار موڑ میں رہتی تھی
گھوم پھر کر اس کا موضوع اس کا منگیتر ہوتا تھا اور وہ بہت شوخ ہوتی تھی وہ مجھ سے حیران ہوتی رہتی تھی کہ جب سب بات پکی ہوگئی ہے تو میں نے ابھی تک کمال کا ذکر کیسے نہیں کیا
میں اسے کیا بتاتی کہ کمال کے ذکر سے ہی میرا کا دل عجیب انداز میں بیٹھنے لگتا ہے اور بےچینی سی ہونے لگتی ہے
: اسے میں کیا بتاتی کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے
اور کیوں ....!!!؟؟
مجھے تو ہر وقت سرسراہٹ سی سنائی دے رہی تھی جیسے زمین پر ہر وقت کوئی رینگ رہا ہے جس دن سے کمال گھر آکر گیا ہے ہر وقت جیسے ایک خوف سہ ذہن میں طاری ہوگیا ہے
"بنو ...!!!؟؟ ہر لڑکی کو ایک دن اپنے گھر سے رخصت ہونا ہ، پڑتا ہے ....!!! اس میں اتنا اداس پریشان ہونے کی کیا بات ہے ...!!؟" شیما میرے چہرے پر آتے جاتے رنگوں کو جانے کیا سمجھی تھی کہ پیار سے ٹھڈی کو چھو کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا
" اب دیکھو نہ تمہاری امی بھی تھی کسی کی بیٹی تھی نہ...!!!؟؟ اپنے گھر رہتی ہوں گی...!!! لیکن آگئی نہ تمہارے ابو کے پاس اپنا گھر بسایا ہے نہ اپ تمہاری باری ہے .....!!! اسے اداس ہونے کا کیا مطلب...!!؟"شیما لاڈ سے سمجھانے لگتی اور میں سر ہلا کر رہ جاتی تھی
"اللہ کا شکر کرو ...!!!کتنی خوش قسمت ہو تم ....!!؟ایک بڑے امیر گھرانے میں جارہی ہو ...!!مالکن بن کر ....!!! کمال بھائی کروڑوں روپے کے اکیلے مالک ہیں ...!!!
ہر لڑکی ایسے سپنے دیکھتی ہے اور کمال بھائی جیسے خوبصورت اسمارٹ لڑکے پر تو لڑکیاں مرتی ہیں ....!!!؟راج کرو گی.....!!راج ...!! تم تو کمال بھائی کے دل پر اور گھر پر ....!؛" وہ اٹھلا اٹھلا کر مجھے بہلانے کی کوشش کرتی تو میں جبراً مسکراتی
میں خود بھی اپنے آپ کو سمجھاتی تھی بہلاتی تھی خوش رکھنے کی کوشش کرتی تھی لیکن مجھے کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا
میں سوچتی تھی کہ کیوں میرے اندر کمال کے لئے دلچسپی پیدا نہیں ہورہی ہے......!!!!؟؟
مجھے اس سے فطری لگاؤ کیوں محسوس نہیں ہورہا ہے....!!!؟؟
میرا دل کمال کے لئے کوئی جذبات کیوں محسوس نہیں کر رہا ہے
مجھے سینے کی جگہ ایک سخت پتھر کا گمان ہونے لگا تھا میں بھی ایک لڑکی تھی میرے بھی خواب تھے .....!!!
عام لڑکیوں والے خواب ....!!!!؟؟
خوبصورت چاہنے والا شوہر .....!!!
اپنی ملکیت کا گھر ....!!
ہر طرح کا عیش و آرام میسر....!!!!
اور اب جب یہ سب حاصل تھا تو دل جیسے ہر خوشی سے عاری ہوگیا تھا یہ دکھ امی ابو سے بچھڑنے کا ہرگز نہیں تھا یہ خوف تھا .....!!!
انجانا خوف...!!!؟
ایسا ڈر جسے میں زبان سے بیان نہیں کرسکتی تھی ...!!!؟؟
اور نہ ہی میری سمجھ میں آرہا تھا کہ آخر مجھے خوف کس سے آرہا ہے
امی ابو سے بچھڑنے کا خوف .....!!؟؟
شادی ہوکے نئی زندگی و حالات کا خوف ......!!!
یا کمال کا خوف .....!!؟؟
مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے
اس دن امی الجھی الجھی سی میرے پاس آئی میں سونے کے لئے ہی لیٹی تھی ا‌ھیں دیکھ کر اٹھنا چاہا تو انہوں نے دوبارہ لیٹا دیا اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگی
"موہنی جس طرح کمال کو دیکھ کر جانے کے بعد تم اداس اور پریشان ہو میرے دل میں خدشات ابھر رہے ہیں .....!! ادھر تمہارے ابو نے فرقان صاحب کو " ہاں کہہ دیا ہے اور تمہاری پریشانی میرے سمجھ سے باہر ہے ...!!"امی نے نرمی سے کہا لیکن لہجے میں پریشانی واضح طور پر محسوس کی تھی میں نے...!!!
"بیٹا تمہیں کمال پسند تو ہے نہ ...!!" میں خاموشی سے انھیں تکنے لگی تو انھوں نے پوچھا
"ایسی کوئی بات نہیں ہے امی ...!!!بس میں آپ لوگوں سے دور جانے کے ڈر سے پریشان تھی ...!!؟" میرے لبوں سے یہی الفاظ نکلے میں انہیں پر چھائی والی بات بتانا چاہتی تھی
حیرت انگیز طور پر میرے الفاظ مجھے اس وقت اجنبی سے لگے میں خود بھی حیران ہوئی کہ میں کیا کہنے والی تھی اور کیا کہہ رہی ہوں
"میرے پگلی بیٹیا...!!امی لاڈ سے ماتھا چوم کر مسکراتی نکل گئی میں انھیں آواز دینا چاہتی تھی لیکن جیسے میری آواز گلے میں ہی رک گئی اور میں بس سوچ کر رہ گئی
میں نے کبھی امی سے کوئی بات نہیں چھپائی تھی اور یہ بات بھی میں بتانے والی تھی لیکن میں بول نہ سکی ....!!!
اور وہ جسطرح سے خوش ہوکر دعائیں دیتی کمرے سے رخصت ہوئی تھی دوسرے دن بھی میری ہمت نہ ہوئی کہ ان سے کچھ کہہ سکوں اتنے دنوں بعد تو وہ اتنی خوش اور مطمئن لگ رہی تھی
منگنی کی رسم بہت سادگی سے انجام پائی منگنی کی انگوٹھی ، پھل ، اور مٹھائی ، جوڑے ، کمال کے والد فرقان صاحب اور دو تین شخص ، رحیم انکل لے کر آگئے تھے
عجیب بات تھی کمال کی فیملی سے کوئی عورت ساتھ نہیں تھی معلوم ہوا کہ کمال کی ضد تھی کہ
"منگنی میں صرف گنے چنے لوگ ہی آئیں ....!"
تو خواتین بھی گنی چنے ہو سکتی تھی اور یہ بھی کہ
"منگنی کا ذکر کسی سے نہ ہو "
امی کا خیال تھا کہ
" شاید کمال اس بات سے ڈر رہے ہوں کہ خواہ مخواہ ہی خاندان کے اور لوگ بیچ میں نو کود پڑیں اور کوئی ایسی ویسی بات کرکے منگنی ختم ہی نہ کردیں .....!!
خاندان کی ہر لڑکی والا تو یہی چاہے گا نہ کہ اس کی لڑکی سے کمال شادی کرے ...!!!؟"
"آتے ہیں تو آئیں امی کہتے ہیں تو کہیں...!!! ہمیں بھی تو پتہ چل جاتا کچھ ...!!" میں نے حیرت سے امی کو دیکھا تھا
کمال کا اسطرح خاموشی سے منگنی کرنا مجھے بہت کھل رہا تھا آخر ایسی کونسی وجہ تھی جو اس قدر احتیاط کی جارہی تھی
'موہنی کچھ بھی نہ کہو تم جانتی ہو پہلے ہی ان داغوں کی وجہ سے ہم بہت رسواء ہوئے ہیں ...!!!؟
اب اللہ کا شکر ہے کہ ہماری برابری کا رشتہ ہے لڑکا پڑھا لکھا مہذب اعلی خاندان کا اکلوتا چشم و چراغ ہے تو میں کسی بھی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتی...!!؟"
اور یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ کمال نے خود ہی احتیاط برتی ورنہ ہم کہتے ہوئے کچھ اچھا لگتا...؟؟؟" امی نے ناگواری سے کہا تو میں چپ ہوگئی تھی
امی نے ڈانٹ کر میری آواز تو چھین لی تھی پر ان سوچوں کا میں کیا کرتی جو ہر وقت ذہن میں کچکوے لگا رہی تھی
منگنی کے بعد ایک عجیب سہ احساس ہورہا تھا مجھے جیسے کوئی سایا میرے آس پاس ہی گھومتا رہتا ہے یہ مردانہ سایا تھا اور وہ اکثر اپنے جیبوں میں ہاتھ ڈالے مجھے دیکھتا ہوا محسوس ہوتا تھا
میں کوئی ڈرپوک یا بزدل لڑکی نہیں تھی جسے خوف اور واہموں نے گھیرا ہو یہ احساس بہت قوی تھا جب میں بلکل اکیلی ہوتی تو مجھے شدت سے لگتا تھا کوئی میرے آس پاس ہے
امی ابو اس دن شوپنگ پر نکلے تھے اور میں گھر پر اکیلی ہی تھی میں اپنی کتابیں لئے برآمدے میں آئی تھی
کافی دیر تک پڑھتی رہی تھی چائے کی یاد ستانے لگی میں کتاب رکھ کر جوں ہی پلٹی کھڑکی کے شیشے میں مجھے وہ پرچھائی صاف نظر آئی
بس ایک لمحے کے لیے...!!!
پھر وہ غائب ہوگئی میں ششدرہ کتنی دیر تک وہی کھڑی پریشان ہوتی رہی کہ یہ کیا تھا میرا وہم یا حقیقت....!!!
اس دوران کبھی کبھی میرے دل میں یہ بھی وسوسے جنم لیتے تھے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کمال کو مجھ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے
صرف اپنے والد کی خوشی کے لیے شادی کے لیے راضی ہوں میرے ذہن میں یہ خیال بھی شدت پکڑ گیا تھا کہ کمال نے آخر مجھے ایک دفعہ بھی نظر بھر کر کیوں نہ دیکھا ....!!!!؟؟؟
مجھے سے شادی کے لیے کمال راضی بھی ہے یا نہیں ...!!!!؟؟
بظاہر توایسی تو کوئی بات کمال کو جبرا مجھ سے شادی کے لیے منا نہیں سکتی تھی یہ میری احساس کمتری ہی تھی کہ میں خود کو کمال کے قابل نہیں سمجھ رہی تھی
جب سب کچھ " پرفیکٹ " تھا تو میری جیسی عیب دار لڑکی سے شادی کی کیا وجہ .....!!!!؟؟؟؟
مگر اس قسم کے خیالات شاید ناولیں پڑھ پڑھ میرے ذہن میں پیدا ہورہی تھی اور شاید میری احساس کمتری کی وجہ سے میرے خیالات ایسے ہورہے تھے
منگنی کے کچھ عرصے کے بعد ہی شادی کی تاریخ طے کی گئی تھی میری حالت عجیب تھی میرے وسوسے خدشے مجھے ایک پل چین نہیں لینے دے رہے تھے
اس درمیانی عرصہ میں امی مجھ پر نچھاور رہتی تھیں ابو بھی بہت ذیادہ خیال رکھنے لگے تھے ہر چیز میری پسند کی میری خواہش کے مطابق ہورہی تھی
مجھے اس بیچ امی نے بتایا کہ تاج الدین بابا گھر آئے تھے وہ اکثر آتے تھے میں نے خاص نوٹ نہ کیا اور وہ جب آئے تھے تو میں شیما کے گھر گئی ہوئی تھی
"پتہ نہیں وہ ناراض کس بات پر ہوئے منگنی کے لئے ان کی رائے نہیں لی اس سے یا منگنی کی دعوت نہیں دی اس سے ...!!!؟" امی متعجب تھیں لہجہ الجھا ہوا تھا
" وہ ناراض تھے ...!!؟" میں نے بھی چونک کر پوچھا وہ کسی بات پر بھی ناراض نہیں ہوتے تھے ان کی فطرت تو بہت ٹھنڈی اور صبر والی تھی
"تمہارے ابو نے کمال کا ذکر کیا اور جتنی معلومات تھی وہ بھی گوش گزار کردی ...!!! بھائی صاحب بالکل خاموشی سے سنتے رہے تھے پھر کچھ پڑھتے اور گھر کے در و دیوار پر دم کیا
ان کے چہرے پر جلال آگیا ناراضگی سے تمہارے ابو سے بولے
"یہ کیا کیا تم نے ریاض ...!!؟ اپنی بیٹی کو ان لوگوں کے ہاتھ سونپ رہے ہو جو اس کے قابل نہیں ہے ...!!؟"
"کیا بات ہے تاج کیوں پریشان ہو ...!!"تمہارے ابو بولے تو تاج بھائی صاحب نے پھر پڑھائی شروع کردی
" ریاض ...!!!موہنی کے ساتھ یہ ظلم نہ کرو اس منگنی کو توڑ دو ...!!؟" پڑھائی کرنے بعد انھوں نے جب آنکھیں کھولی تو میں ڈر گئی موہنی ....!!!؟
ان کی آنکھیں سرخ انگارہ بنی ہوئی تھیں اور لہجہ چٹانوں جیسا سخت چہرے پر غصے کے جلال سے نظر نہیں رکھ رہی تھی
"تاج ...!!!تاریخ طے ہوگئی ہے شادی کے کارڈ چھپ کر آگئے ہیں ...!!! پندرہ دنوں میں موہنی کی شادی ہے اس کا چرچا آدھے شہر کو لگ چکا ہے ....!!!؟؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ...!!؟" تمہارے ابو کے ساتھ میں بھی ڈر گئی تھی
ان کے لہجے کی پریشانی اور گہبراہٹ مجھ سے چھپی نہیں تھی مجھے تو تعجب ہورہا ہے تاج بھائی صاحب ایسا کیوں کہہ رہے ہیں
کہنے کو تو کہہ دیا اور خود ہی اٹھ کر ناراض خاموشی سے چلے گئے جب سے میں اور تمہارے ابو الجھن کا شکار ہیں
تمہارے ابو نے پھر سے کمال کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو بھیجا ہے ....!!؟" امی اپنی دھن میں کہتی رہی تھی میں تاج الدین بابا کے اس رویہ سے سوچ میں پڑ گئی تھی
کاش میں گھر میں ہوتی اور تاج الدین بابا آتے تو میں انھیں اپنی ساری بات بتادیتی وہ اس کا کوئی حل ضرور نکالتے
اور میں انتظار ہی کرتی رہی وہ اس دن کے بعد گھر تو نہیں آئے تھے لیکن دوسری شام ابو پریشانی سے جلدی ہی گھر آئے تو انہوں نے بتایا کہ تاج الدین بابا آفس بھی آئے تھے
تاج الدین بابا نے آفس میں اپنی ناراضگی کا کھل کر اظہار کیا تھا اور ابو سے بہت برہم بھی ہوئے تھے ابو نے بھی پوری بات مجھے نہیں بتائی تھی لیکن جو سمجھ آئی وہ یہی تھی
تاج الدین بابا نے کھلے الفاظ میں منگنی توڑنے کے لیے کہا
"جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ....!!یہ کچھ اور ہی معاملہ ہے تم میری بات مان کر کچھ وقت دو میں ثابت کروں گا ...!!"
ابو تاج الدین بابا کی بہت عزت کرتے تھے منگنی توڑنے کی بات ان کو بڑی عجیب سی لگی تھی اور تاج الدین بابا نے کسی بات کے لئے کبھی اتنی سختی بھی نہیں کی تھی جسطرح وہ ان حالات میں کر رہے تھے
میرے دل میں آئی کہ میں بھی اپنے وسوسے خدشے بھی ابو سے کہہ دوں لیکن میں کہہ نہ سکی میری زبان جیسے تالوں سے چپک گئی تھی جبکہ ابو امی سے کہہ رہے تھے
" میں نے تاج سے کہا بھی کہ یوں کسی بغیر وجہ کے منگنی توڑنا کہاں کی عقلمندی ہے اور یہ لڑکی کا معاملہ ہے .....!!!
بات کچھ بھی ہو رسوائی تو لڑکی والوں کا ہی مقدر ہوگی اور یہ بھی بات ہے کہ بڑی مشکلوں سے موہنی کے لئے ایک اچھا لائق فائق مہذب پڑھا لکھا لڑکا ملا ہے جو موہنی کو پسند بھی کرتا ہے ......!!
تو کیا میں اللہ کی دی ہوئی نعمت کو ایسے ہی ٹھکرا دوں تاج ....!! میں موہنی کے لئے ایسے بھی بہت پریشان تھا اب اللہ کے شکر سے یہ رشتہ طے ہوا ہے تو میں اسے کیسے ٹھکرا سکتا ہوں مجھ میں اتنی سکت نہیں ہے ....!!!؟" ابو نے پریشانی سے امی کو دیکھا
"اور میں نے دوبارہ سے کمال کے متعلق معلومات حاصل کی ہے اور ساری باتیں مثبت ہی ہیں ...!!" ابو نے امی کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا
"خیر آپ فکر نہ کریں ...!!بغیر اطلاع منگنی کی ہے تو ناراض ہیں شادی کے وقت ہم خود جاکر ان سے معافی مانگ لیں گے اور منا کر لے آئیں گے ...!!!" امی نے سر جھٹک کر پرسکون لہجے میں کہا
شاید وہ ابو کے دوبارہ سے کمال کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے بعد مطمئن ہوگئی تھی اور ان کے خدشے ختم ہوگئے تھے
ابو نے بھی سر ہلا کر تائید کی اور چائے کے گھونٹ بھرنے لگے میرے خیالات منتشر ہوگئے تھے میں اپنے دل کی بات ابو سے کہہ نہ سکی تھی اور ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا میں حیران بھی تھی
منگنی اور شادی کے اس دورانیے وقفہ میں میری کیفیت بلکل عجیب تھی میرے اندر کے عجیب وغریب وسوسے سروابھارنے لگے تھے
میں ان سارے وسوسوں کو میرے مفلوج ذہن کی پیداوار سمجھ کر بھلا دیا شیما اس دوران میرے ساتھ کافی وقت گزارتی تھی
"تم بھی عجیب لڑکی ہو ....!!!ایسے موقع پر لڑکیا کتنے سہانے خواب دیکھتی ہیں مہیندی سے لے کر ولیمے تک کی ڈریسنگ کا پروگرام بناتی ہیں
شادی کے بعد گھومنے جانے کے لئے کیسی کیسی پلاننگ کرتے ہیں
تم بلکل بے حس لڑکی ہو ..!!! تمہارے جذبات کا پتہ ہی نہیں لگتا ....!!! کہ تم آخر چاہتی کیا ہو ....؟؟" شیما حیرت سے ڈانتی تھی
میرے دل کی جگہ تو جیسے پتھر ہی ہوگئی تھی سارے جذبات ختم ہوگئے تھے میرا دل ہر احساس سے عاری محسوس ہوتا تھا
شیما میری ہم عمر ہی تھی مگر اکثر ایسی نصیحتیں کرتی تھی جیسے بہت تجربہ کار ہو وہ کہتی
" دیکھو موہنی تمہیں اپنا مزاج بدلنا ہوگا آج کے دور میں لڑکے یوں خاموش مزاج سنجیدہ سی ہر وقت منہ بسورے والی لڑکیوں کو پسند نہیں کرتے ....!!
بلکہ آج کل کے لڑکے تو ہنس مکھ ، من موجی ، خوش مزاج ، شوخ ، چنچل ، لڑکیوں کے شیدائی ہیں
تم جیسی یکدم خاموش اور منہ لٹکانے والی لڑکی تو اپنے میاں کو خواہ مخواہ ہی ناراض کرے گی اور کچھ نہیں ...!!!" شیما کے منہ سے ایسی باتیں سن کر میں بے اختیار ہنس پڑتی تھی
جب تک وہ پاس ہوتی تھی میرے وسوسے اور کسی کی موجودگی کا احساس مجھے نہیں ہوتا تھا ورنہ تو ہر وقت ایسے لگتا تھا جیسے کسی کی آنکھیں مجھ پر گڑھی ہیں اور وہ میری ہر حرکت کو نوٹ کررہا ہے
اللہ کا دیا ابو کے پاس سب کچھ تھا میں ان کے واحد وارث تھی شادی پر ابو نے دل کھول کر خرچ کیا غریبوں کا بھی خاص خیال رکھا ہوا تھا
ابو نے امی کو بھی کھلی آزادی دے رکھی تھی کہ وہ جسطرح چاہیں اپنے دل کے ارمان پورے کریں امی یوں تو میری شادی سے بہت خوش تھیں میرے لیے قیمتی کپڑوں اور زیورات کا ڈھیر لگادیا
لیکن جب میں انھیں چپکے چپکے ڈوپٹہ سے آنسو صاف کرتے دیکھتی تو میرا دل مسوس کر رہ جاتا تھا
انھیں بس یہی خیال ستاتا ہوگا کہ وہ میرے جانے کے بعد وہ کس طرح اکیلے وقت گزاریں گے کاش میرا کوئی بھائی بھی ہوتا ....!!
ابو کے چہرے پر بھی غم و خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے اور وہ میرے لئے خوش بھی بہت تھے
: ابو کو تاج الدین بابا ناراضگی کا بھی بہت دکھ اور افسوس تھا اور ہم سب مل کر انہیں منانے ان کے گھر بھی گئے تھے لیکن وہ ہمیں ملے نہیں
ان کے پڑوسی رشتے دار نے بتایا کہ وہ عرصہ ہوا اس گھر میں نہیں آئے ہیں ان کا کسی کو کچھ اتا پتا نہیں ہے نہ کسی کو خیر خبر ہے بس کسی کو کبھی کہی اتفاقا مل جاتے ہیں تو گھر پر خیریت بھیج دیتے ہیں
ابو سے ذیادہ مجھے مایوسی ہوئی تھی میں انھیں اپنے خوف اور واہموں کے بارے میں اطلاع دینا چاہتی تھی کہ وہی ایک واحد شخصیت مجھے فل حال نظر آرہی تھی جو مجھے اس پریشانی سے نجات دلا سکتی تھی
وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور میں شادی سے پہلے ہی ذہنی طور پر خوش اور مطمئن ہونا چاہتی تھی جیسے میرے وسوسوں کو شیما اور امی نے بھانپ کر غلط مطلب اخذ کرلیا تھا کہی کمال میرے اس رویہ کو غلط نہ سمجھیں
اس وقت میری سوچیں بھی عجیب سی پاگل پن کا شکار تھی
ایک طرف تو مجھے لگتا تھا کہ کہی میں کمال کو پسند ہوں یا نہیں اس نے مجھے ایک دفعہ بھی نظر بھر کر کیوں نہ دیکھا حالانکہ تصویر تو دیکھی تھی لیکن میرے دل کو پھر بھی چین نہیں تھا
دوسری طرف مجھے میرے بے حس جذبات سے پریشانی تھی کہ کوئی بھی بات مجھے خوشی یا غم دونوں ہی جذبات سے بالاتر لگ رہی تھی جیسا میرا کسی سے کوئی تعلق ہی نہی‌ ہے
شادی میں ای طرف اپنوں سے بچھڑنے کا شدید دکھ ہوتا ہے تو کسی اپنے کی ملنے کی حد درجہ خوشی بھی ہوتی ہے نئی زندگی نئی شروعات کا جوش بھی ہوتا ہے
میں ان سارے احساسات سے عاری ہوگئی تھی
تیسرا یہ کہ مجھے کمال کے ذکر سے بھی خوف آتا تھا دھڑکا سہ لگا رہتا تھا یہ انجانا خوف میرے دل کو کچکوے لگا رہا تھا
آخر اسی شش و پنج میں شادی کا دن بھی آگیا آج تو مجھے شدت سے تاج الدین بابا یاد آرہے تھے جانے کیا ہونے والا تھا میرا دل ہولنے لگا تھا
ابو نے شادی میں دیگر دوسرے انتظامات کے ساتھ الہ آبادی طریقے کے مطابق شہنائی کا بھی انتظام کیا تھا اس زمانے کے مشہور شہنائی بجانے والوں کو خصوصا مدعو کیا تھا
نکاح کی تیاریوں کے ساتھ شہنائی کی دھن سے سبھی لطف لے رہے تھے اور خوشی خوشی دوسرے کام بھی نپٹائے جارہے تھے بارات آنے میں بس کچھ ہی وقت رہ گیا تھا
مجھے بھی شہنائی کی یہ دھن بہت بھلی لگ رہی تھی اور میری سہیلیاں اور کزن دور پار کی رشتہ کی لڑکیاں مجھے سجانے میں لگی ہوئی تھی لال جوڑا ، گھونگھٹ ، چوڑیوں سے بھری بھری کلائیاں ، موتیے کے گجرے ، خوبصورت زیور ، بڑے بڑے جھمکے ڈالے ، ہوئے میرا میک اپ کیا جارہا تھا
امی تو بار بار صدقے واری جارہی تھی ان کی دل کی کیفیات مجھ سے چھپی نہیں تھی ایک تو مجھ سے بچھڑنے کا دکھ دوسرا میرے بسنے کا سکھ
امی کے پیر زمین پر نہیں ٹک رہے تھے جانے وہ اور کیا کیا ارمان مجھ پر نکالنے کو بےتاب تھی نم آنکھوں سے گلے لگاتی لپٹاتی پیار کرتی
اچانک ماحول میں برأت آ‌ے کا شور اٹھا میری سہیلیاں اور تقریباً سبھی لڑکیاں برأت دیکھنے باہر گئی تھی میں بھی سرجھکا ئے بیٹھی رہی تھی
اچانک ہی ماحول پر نامعلوم سی خاموشی چھا گئی کچھ ہی دیر میں ہنستا مسکراتا فنکشن ہال خاموش ہوگیا اور شہنائیوں کی آوازیں بھی بند ہوگئی
میری ایک کزن دوڑتی اندر آئی تب تک ماحول کی خاموشی کم ہوگئی تھی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں میں نے اندر آتی کزن کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
"وہ دولہا بھائی کو شہنائیوں کی آوازیں پسند نہیں ہے نہ انھوں نے غصہ سے شہنائیاں بند کروادی.....!؟" اس نے ہانپتے ہوئے گہری سانس لی
"گھبرانے کی بات نہیں ہے انکل نے سب سنبھال لیا ہے انھوں نے شہنائی والوں کو رخصت کر دیا ہے دولہا بھائی نکاح کے لیے پیٹھ رہے ہیں ...!!؟" رضیہ آپا اندر آتے ہوئے بولی تو میں نے گہرا سانس لیا
ہوسکتاہے کمال کو موسقی پسند نہ ہو یا شہنائیاں پسند نہ ہو ، میں نے خود کو تسلی دی
کچھ ہی دیر میں ابو دیگر معزز خاندان کو لے کر میرے پاس آئے میری پاس اب صرف گھر کی بڑی خواتین ہی بیٹھی ہوئی تھی
جب مجھ سے کمال کا نام اور مہر کی رقم کہہ کر ایجاب وقبول کروایا جارہا تھا ذہنی طور پر " ہاں " کہنے کو تیار ہونے کے باوجود میرے گلے سے ہاں کہنے کی آواز نہیں نکل رہی تھی
ایسا لگنے لگا جیسے الفاظ میرے گلے میں پھنسنے لگے ہوں ایسا لگتا تھا کہ کوئی انجانی قوت مجھے " ہاں کہنے سے روک رہی ہے ایسا میرے ساتھ پہلے بھی دو دفعہ ہوا تھا لیکن اس وقت میری آواز غائب ہوجانے پر کچھ لمحے آنکھوں کے نیچے اندھیرا سہ چھاگیا
میں مافوق الفطرت پر یقین نہیں رکھتی تھی مگر ان چند لمحوں میں مجھے صاف احساس ہوا کہ میرے پیچھے تاج الدین بابا کھڑے ہوں اور ا‌نھوں نے میرے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے
میں نے انھیں اپنے پیچھے اپنی آنکھوں سے نہیں بلکہ احساس کی آنکھ سے واضح طور پر دیکھا انھوں نے سختی سے میرے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا
مجھے بلکل بھی نہیں معلوم کہ اس وقت میرے منہ سے " ہاں " کی آواز نکلی تھی یا نہیں مجھ پر غنودگی سی طاری ہوگئی تھی
لیکن یہ تو جیسے رسمی سی بات ہوگئی تھی کہ میں نے ہاں کہا یا نہیں ...!!!؟؟ ہر طرف سے مبارکباد کا شور بلند ہوگیا تھا اور ہر طرف سے چھوہارے اور بادام اچھالے گئے
نکاح ، کھانا ، رخصتی ، ان سب کاموں میں رات کے گیارہ بج گئے تھے کمال اور فرقان صاحب نے بہت ہی کم اور مخصوص لوگوں کوہی برأت کا حصہ بننے کا شرف دیا تھا
جس سے سارے کام بخوبی اور پروقار انداز میں نپٹ گئے تھے مجھے ایک سجی سجائی بڑی گاڑی میں کمال کے ساتھ بٹھا کر رخصت کیاگیا امی ابو کی سسکیاں اور دعائیں بہت پیچھے رہ گئی اور میں اپنے نئے زندگی کے سفر پر تنہاہ ہی نکل پڑی
میں بظاہر تو سجی سنوری خوبصورتی سے تزئین کۓ گۓ پھولوں کے بیڈ پر بیٹھی کمال کا انتظار کر رہی تھی لیکن میرے منتشر ذہن میں نکاح کے وقت تاج الدین بابا کے خیال میں ڈوبا تھا
کافی دیر بیٹھ کر میری پیٹھ میں درد ہونے لگا تو میں اپنے سوچوں سے نکلی حد درجہ خاموشی کا راج تھا دور کہی کہی جھینگر پکار رہے تھے میں سیدھی ہوکر کمرے کا جائزہ لینے لگی
کمرے کو پھولوں سے کافی ڈیکوریٹ کیا گیا تھا لیکن گھر میں چھائے اس قدر ویرانے سے یہ گھر کہی سے بھی شادی والا نہیں لگ رہا تھا
یہ تو اب میں اپنے خیالوں سے تھک کر چونکی تھی نجانے کب سے یہ خاموشی یہاں ڈیرا ڈالے ہوئی تھی مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا کمال کا کوئی پتہ نہیں تھا
میں نیچے جا نہیں سکتی تھی میں نے تو ٹھیک سے گھر بھی نہیں دیکھا تھا کمال کو کہاں سے ڈھونڈتی کہ وہ کہاں ہے
یہاں کوئی موجود بھی نہیں تھا کہ جس سے پوچھا جائے کہ کمال کہاں ہے میں الجھن کا شکار ہوگئی تھی دن بھر کی تھکان مجھ پر غالب آرہی تھی میں نے تھک کر سوچوں کے حوالے ذہن کردیا اور بیڈ کی کور سے سر ٹکا گئی
شاید میں سوگئی تھی رات کا آخری پہر تھا جب اچانک ایک کراہیت والے احساس سے خوفذدہ ہوکر میں نے آنکھیں کھولی تھی
یہ احساس کسی لیس دار چپ چپی سی شئے کا تھا جو میرے گالوں پر ٹھنڈک کا احساس لئے ہوئے تھا میں نے جب آنکھیں کھولی تو کمال میرے قریب ہی بیٹھے تھے
ایک لمحے کو میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا نیم روشن کمرے میں ، میں کمال کی آنکھیں بخوبی دیکھ سکتی تھی
اللہ کی پناہ ......!!!!
وہ آنکھیں میں کبھی بھول نہیں سکتی .....!!!
گول پتلیوں کی جگہ کمال کی آنکھیں لمبی پیلی ریڈیم کی طرح ہری چمکتی ہوئی بڑی خوفناک لگ رہی تھی یہ منظر بس میں نے کچھ ہی لمحے دیکھا تھا
دوسرے ہی لمحے کمال کی آنکھیں مجھے نارمل لگی میں اس حقیقت کو اپنے آنکھوں سے دیکھ کر وہم نہیں کہہ سکتی تھی
"خیریت....!!!اتنا گھبرا کیوں رہی ہو ..!!"مجھے پسینہ میں شرابور دیکھ کمال نے مسکراتے ہوئے کہا جیسے میری اس کیفیت سے لطف اندوز ہورہے ہو میں چاہ کر بھی کچھ بول نہ سکی اور نہ ہی میں نے دوبارہ کمال کی طرف دیکھا تھا
"تم کافی تھک گئی ہوگی ابھی سوجاؤ صبح بات کریں گے مجھے بھی خوب نیند آرہی ہے ....!!" کمال نے بستر پر سیدھا ہوتے ہوئے انگڑائی لی اور کروٹ لے کر سوگیا
میں کچھ لمحے حیرت سے کمال کو دیکھتی رہی تھی پھر آہستہ سے بیڈ کے کنارے گٹھری سی بنی زیوروں میں پھنسی میں بھی لیٹ گئی دو آنسو میری آنکھوں سے نکلے اور تکیہ بھگو گئے
 
..........................
.........................
......................... 
.........................
 

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں