میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ کون عورت ہے؟ جس پر ٹھا کر نے بری نظر ر کھی اور مارا گیا ؟ اور اگر تم ٹھا کر کے قتل کی کوئی اور وجہ جانتی ہو تو ہ بھی بتا د و۔ دیواروں کے اندر ٹھاکر جو کچھ کرتا تھا ، وہ میں نہیں جانتی، در گا جانتا ہے۔ میں اُن عورتوں کے نام بتادوں گی جن کے ساتھ اس کے تعلقات تھے ۔ اُس نے تین چار نام بتائے لیکن مجھ کو اب دُرگا کے نام کے ساتھ زیادہ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ میں نے اس عورت سے درگا کی بیوی اور اُس کی بہن کی بابت پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ دونوں بہت چالاک ہیں۔ ٹھا کر ان کو اس عورت کے ہاتھ تحفے بھیجا کرتا تھا۔ وہ تحفے لے لیتی تھیں مگر اس کے ہاتھ نہیں آتی تھیں۔ ٹھاکر اُن کے گھر جاتا تھا اور وہ دونوں اُس کی بہت خاطر تواضع کرتی تھیں۔ ایسے کہہ لیں کہ وہ دونوں ٹھاکر کو بیوقوف بنارہی تھیں ۔ کیا ایسا نہیں ہوا کہ درگا کو پتہ چل گیا کہ تھا کہ اس کی بیوی اور بہن کے ساتھ دوستی لگانے کی کوشش کر رہا ہے؟" میں نے پوچھا۔ نہیں اُس نے جواب دیا وہیں بہت احتیاط کرتی تھی ... اب اگر اُس کو شک ہوا ہو یا اس کی بہن یا بیوی نے بتا دیا ہو تو میں نہیں جانتی۔ اس عورت کے ساتھ میں نے بہت دماغ سوزی کی ۔ اس سے مجھ کو ہی حاصل ہوا کہ ٹھاکر عورتوں کا شکاری تھا۔ میرا خیال تھا کہ اُس کے قتل کا باعث یہی تھا۔ میرے ذہن میں سوال یہ تھا کہ وہ عورت کون تھی جس کے خاندان کے کسی آدمی نے اس کو زہر دے کر مار دیا ہے۔
اس عورت کو میں نے جانے نہ دیا۔ اس کو باہر بٹھا دیا اور دو کانسٹیبلوں کو ساتھ لے کر نمبردار وغیرہ کو کہا کہ وہ مجھ کو در گا کے گھر لے چلیں۔ چوکیدار ہمارے آگے آگے چل پڑا اور ایک مکان کے دروانے پر گیا۔ میں نے اُس کو کہا کہ وہ دروازے پر دستک دے. اُس نے دروازے پر زور زور سے ہاتھ مارے۔ اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ دوسری بار کھٹکھٹانے پر دروازہ کھلا ۔ میں نے ٹارچ جلائی ۔ دروازہ کھولنے والی عورت تھی۔ میں نے تیزی سے دروازے سے داخل ہو کہ اس عورت کو بازو سے پکڑا چوکیدار نے کہا ” پولیس ہے میں اس عورت کو صحن میں لے گیا۔
درگا کہاں ہے ؟" میں نے پوچھا۔
وہ کل شام کو گیا تھا اُس نے جواب دیا " ابھی تک گھرنہیں آیا "۔
کمرے سے ایک اور عورت باہر آئی اور بولی یہ کون ہیں ؟
پولیس والے ہیں اس عورت نے جواب دیا جو میرے قبضے میں تھی۔ بتی جلاؤ نمبردار نے کہا یہ پولیس انسپکٹر ہیں۔ اُس نے لالٹین جلاتی ہمارے پاس ٹارچ نہیں تھیں، ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبلوں کو معلوم تھا کہ کسی کے گھر چھاپہ مارنے کے موقع پر اُن کی ڈیوٹی کیا ہوتی ہے۔ وہ گھر میں ادھر اُدھر ہو کر کونے کھدرے دیکھ رہے تھے۔ میں کمرے میں چلا گیا۔ وہاں ایک بوڑھی عورت تھی۔ کمرے میں چارپای بچھی ہوئی تھیں۔ اس کمرے کے دائیں اور بائیں ایک ایک کوٹھڑی تھی ایک میں کانسٹیبل گیا اور دوسری میں میں چلا گیا۔ ہم نے چار پائیوں کے نیچے اور سامان کے پیچھے دیکھا۔ سارا گھر کھنگال ڈالا، درگا نہ ملا۔ بوڑھی عورت درگا کی ماں تھی۔ وہ اتنی بوڑھی نہیں تھی کہ اُٹھ نہ سکتی
اُسے بڑا تیز بخار تھا۔ اس کا جسم کمزور تھا لیکن زبان میں پوری طاقت تھی۔ اُس نے مجھ کو اور میرے ساتھ کے تمام آدمیوں کو گالیاں نہیں دیں ، باقی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ کہتی تھء کہ در گا ٹھاکر کے گھر ہو گا۔ وہاں نہیں تو اُس کے باغ میں ہوگا۔ وہ پوچھتی تھی کہ اُس نے کیا جرم کیا ہے۔ میں نے اُسے نہ بتایا ۔
وہاں درگا کی بہن تھی اور بیوی۔ بتانے والوں نے تھوڑا بتایا تھا۔ وہ زیادہ خوبصورت تھیں۔ میں نے برآمدے میں چارپائی پر بیٹھ کر تفتیش شروع کر دی۔ پہلے درگا کی بیوی سے پھر اُس کی بہن سے پوچھ گچھ کی۔ دونوں نے بتایا کہ وہ ٹھاکر کی نیت کو سمجھتی تھیں اور اس سے کھا ہی رہی تھیں۔ کیا درگا کو اُس پر شک نہیں ہوا ؟"
" شک کیوں ہوتا درگا کی بیوی نے جواب دیا " نیت ٹھا کر کی خراب تھی ہماری نیت تو بالکل صاف تھی ہم دونوں میں سے کوئی بھی اُس کے ساتھ الگ تنہائی میں نہیں بیٹھتی تھی دونوں چالاک معلوم ہوتی تھیں۔ وہ جان گی تھیں کہ میں در گا کوٹھا کر کے قتل کے سلسلے میں ڈھونڈ رہا ہوں۔ دونوں نے کہا کہ در گا ٹھا کر کے کسی کام سے کہیں باہر گیا ہوتا تو گھر بتا کر جاتا ۔ وہ کہتی تھیں کہ وہ جب بھی گاؤں سے باہر جاتا ہے، بتا کر جاتا ہے۔ میں اس کا یہی مطلب لے سکتا تھا کہ درگا رُوپوش ہو گیا ہے میں نے ان عورتوں پر یہ ظاہر کیا کہ انہوں نے میرا شک رفع کر دیا ہے اور میں درگا کونہیں ڈھونڈوں گا۔ وہاں سے باہر آ کر میں نے دو مخبروں کو یہ ڈیوٹی وی کہ وہ اس گھر پر نظر رکھیں ۔
اس کے علاوہ بھی میں نے چھان بین اور پوچھ گچھ کی تھی کہ قتل کا کوئی اور باعث سامنے آجاے لیکن کوئی واضح اشارہ اور سراغ نہیں مل رہا تھا۔ میں گاؤں سے تھانے چلا گیا بسات آٹھ آدمی تھانے میں آتے ہوتے تھے ۔ یہ سب ٹھا کر کے باغ والے مکان میں جو آکھیلنے جایا کرتے تھے۔ ان میں تین چار آدمی اچھے خاندانوں کے تھے۔ انہیں جو آبازی کی عادت ہو گئی تھی۔ باقی آدمی پیشہ ور جو آباز تھے۔ ان میں ایک جرائم پیشہ تھا اور دو سال سنرا بھی کاٹ چکا تھا۔ یہ بڑی لمبی کہانی ہے کہ میں نے ان سے کس طرح تفتیش کی کیا کیا پوچھا اور انہوں نے کیا کیا بتا یا مختصر بتاتا ہوں کہ جرائم پیشہ آدمیوں اور پیشہ ور جو آباندوں سے پوچھ گچھ کرنے کا طریقہ کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ لوگ اندر کے راز دے دیا کرتے ہیں لیکن ان میں جو ڈھیٹ پن پر اتر آتے ، اس کے ساتھ مشکل پیش آتی ہے۔ اس کیس میں بھی پیش آتی جو میں نے حل کر لی دوسروں نے میرے ساتھ تعاون کیا اور جو بات میں نے نہ پوچھی وہ بھی اُنہوں نے بتائی۔ اس طرح چند اور آدمی سامنے آے۔ پھر میں نے ان لوگوں سے تفتیش کی بطور پیشہ ور نہیں تھے۔ وہ شوقیہ یا عادت کی وجہ سے جوے کی بازی لگایا کرتے تھے۔ یہ جرائم پیشہ نہیں تھے، بد معاش بھی نہیں تھے صرف آوارہ تھے۔ ان کا پالا پولیس کے ساتھ کبھی نہیں پڑا تھا۔ یہ سیدھے سادے دیہاتی بھی نہیں تھے۔ بڑے زمیندار یا اُن کے بیٹے تھے۔ انہوں نے تو اپنی عزت کی خاطر اور پولیس کے ڈر سے اپنے سینے کھول کر میرے آگے رکھ دیتے اور مقتول ٹھاکر کی باتیں اس طرح بیان کیں جیسے وہ ان کا دشمن تھا۔ انہوں نے میرے بعض شک رفع کئے اور ان کی جگہ نئے شک پیدا کر دیتے۔ ایسے سمجھ لیں کہ کبھی مجھ کو پتہ لگتا کہ میں صحیح راستے پر تفتیش کر رہا ہوں اور کبھی میں اپنے آپ کو گمراہ سمجھنے لگتا ۔کچھ اس طرح معلوم ہونے لگا جیسے قتل کا باعث رقابت تھا۔ اس کو ثابت کرنے کے واسطے ایک جوان عورت کا نام سامنے آیا اور اُس کے ایک آشنا کا نام بھی لیا گیا۔
دو طوائفوں کے نام پتے بھی ملے جن کو ٹھا کر کبھی کبھی اپنے باغ میں بلایا کرتا تھا۔ ایسے اشارے ملے تھے کہ شک ہوتا تھا کہ قتل کے پس منظر میں یہ طوائفیں بھی ہیں۔ یہ گانے اور ناچنے والی تھیں۔ ان لوگوں سے تفتیش کرتے چار پانچ دن گزر گئے ۔ انہوں نے جن افراد کے نام لئے، میں نے اُن کو بھی تھانے بلایا۔ دو تین دن ان کے ساتھ لگ گئے۔ ابھی تک مجھے کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ درگا واپس نہیں آیا تھا۔ اب تو یقین ہو گیا تھا کہ وہ روپوش ہے۔ میں نے اس سلسلے میں یہ کارروائی کی کہ دوسرے تھانوں کو اُس کا نام وغیرہ اور حلیہ لکھ کر بھجوایا اور ایک کام یہ کیا کہ درگا کی بیوی اور بہن کو تھانے میں بیٹھا لیا۔ رات کو ان کو جانے کی اجازت دی اور اگلے دن اے ایس آئی کو تین چار کانسٹیبل دے کر کہا کہ در گا کے گھر چھا پہ ما رے اور اس کے بعد اس کی بیوی اور بہن کو تھانے لے آئے ۔ یہ میں اس واسطے کر رہا تھا کہ درگا کو اطلاع ملے کہ اُس کے گھر کی جوان عورتوں کی بے عزتی ہو رہی ہے تو وہ خود ہی تھانے آجائے ۔ میں ان دونوں عورتوں کو کہتا تھا کہ وہ صرف یہ بتا دیں کہ اُنہوں نے درگا کو بتایا تھا کہ ٹھاکر نے اُن کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ وہ انکار کرتی تھیں۔ مجھ کو یہ شک تھا کہ ان کو معلوم ہے کہ در گانے اپنی بیوی یا بہن یا دونوں کی بے عزتی کا انتقام لینے کے واسطے ٹھاکر کو زہر دے دیا ہے۔ شراب کی بوتل اور گلاسوں پر انگلیوں کے جو نشان تھے ، ان کی رپورٹ الہ آباد سے اگی تھی گلاسوں میں چند قطرے شراب رہ گئی تھی ۔ ایک میں شراب اور پانی کے جو قطرے تھے، ان میں زہر کی ملاوٹ تھی مقتول کے معدے اور جگر کے ٹکڑوں کی بھی رپورٹ گئی تھی۔ اس میں تصدیق کی گئی
تھی کہ مقتول کو زہر دیا گیا ہے ۔ دوسرے کیس بھی زیر تفتیش تھے۔ ان کے علاوہ بھی تھانے کے کام تھے۔ عدالتوں میں زیر سماعت کیسوں میں گواہیاں دینے اور گواہوں کو ساتھ لے جانے کا کام بھی تھا۔ ان سب کاموں کی وجہ سے ٹھاکر کے قتل کی تفتیش آگے ہی آگے ہوتی گئی۔ ویسے بھی یہ تفتیش لمبی ہوگئی ۔ میں میل دور اُس شہر میں بھی گیا تھا جہاں کی دو گانے والی طوائفیں مقتول کے ہاں جایا کرتی تھیں۔ میں نے تین دن ان سے پوچھ گچھ کی اور بہت مغز مارا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔
اب مجھ کو درگا کی تلاش تھی۔ اُس کا لاپتہ ہو جانا بے معنی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے آدمیوں نے مجھ کو بتایا تھاکہ درگا معمولی قسم کا بدمعاش نہیں اور اس کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔
بایس تیس دن گزر گئے ٹھاکر کا قتل ابھی تک معمہ بنا ہوا تھا۔ درگا کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ اچانک ہم پر ایک مصیبت آپڑی ہمارا ڈی ایس پی جو انگریز تھا، ایک روز تھانے میں آ گیا۔ ڈی ایس پی اور ایس پی اسی طرح اچانک کسی نہ کسی تھانے میں آجاتے اور زیر تفتیش کیسوں کی فائلیں دیکھتے اور مصیبت کھڑی کر دیتے تھے۔ وہ علاقے کا دورہ بھی کرتے تھے ۔ ہمارا ڈی ایس پی آیا تو اسے میں اُس کا اچانک دورہ سمجھا لیکن وہ کسی اور مقصد کے واسطے آیا تھا۔ اس نے آتے ہی ٹھا کر کے گاؤں کی ایک لڑکی کا نام لے کر کہا کہ اس کی گمشدگی کی فائل دکھاؤ ۔۔۔۔ میں نے اس کہانی کے شروع میں ایک لڑکی کا ذکر کیا ہے جو لاپتہ ہوگئی تھی۔ اس کی رپورٹ درج کرانے کے واسطے لڑکی کا باپ آیا تھا اور اس کے ساتھ مقتول ٹھاکر تھا۔ میں نے یہ کیس اپنے جونیر کو دے دیا تھا اور اس کیس کو میں نے اہمیت نہیں دیی تھی ٹھا کرنے کہا تھا کہ لڑکی خود ہی ادھر ادھر ہوگئی ہوگی میرا بھی یہی خیال تھا۔ اس کے دو تین دن بعد ٹھاکر کا زہر خورانی کاکیس گیا اور میں الھجھ گیا ۔
ڈی۔ ایس۔ پی نے فائل دیکھی۔ اس میں سب انسپکٹر نے فضول سی چند ایک منمنیاں لکھ کر کارروائی ڈالی ہوی تھی۔ ڈی ایس پی نے پوچھا کہ ایک مہینے میں یہ تفتیش ہوتی ہے؟ ہمارے پاس بغلیں جھانکنے کے سوا کوی جواب نہ تھا۔ ڈی ایس پی نے نہیں اردو زبان میں بہت گالیاں دیں اس نے کہا تم لوگوں نے اس کیس کو صرف اس وجہ سے دبایا ہوا ہے کہ گشندہ لڑکی ایک غریب باپ کی بیٹی ہے۔ تم اُن وارداتوں میں دلچسپی لیتے ہو جن کی تفتیش میں تمہاری خاطر تواضع ہوتی ہے۔ اس نے ہمیں بھو کے اور بے ایمان ہندوستانی کیا اور اُس کے منہ میں جو آیا وہ کہتا چلا گیا۔ ہم دونوں سب انسپکٹر چپ چاپ سنتے ر ہے۔ ہماری خیریت چپ رہنے میں ہی تھی۔ ڈی۔ ایس پی نے بتایا کہ اس لڑکی کا بڑا بھائی فوج میں نائک ہے۔ اُس کو اپنی بہن کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی۔ یہ اطلاع اُس کے باپ نے بذریعہ خط بھیجی جس میں اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ پولیس نے ذراسی بھی دلچسپی نہیں لی: نائک نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کو درخواست دے دی کمانڈنگ آفیسر نے درخواست بریگیڈ کمانڈر کو بھیج دی۔ بریگیڈ کمانڈر نے نائک کے ضلعے کے ڈپٹی کمشنر کو چھٹی لکھی اور ساتھ نائک کی درخواست منسلک کر دی ڈپٹی کمشنر نے چھٹی پولیس کے آئی جی کو بھیج دی۔ یہ تمام افسر انگریز تھے۔ ایک تو وہ کوتاہی برداشت نہیں کر تے تھے اور ایک وجہ اور بھی تھی کہ ان انگریز افسروں نے ایک نائک کی درخواست پر احکام جاری کئے اور انگریز ڈی ایس پی ہمارے تھانے میں آپہنچا۔ وجہ یہ تھی جنگ عظیم دوم دوسرے سال میں داخل ہو چکی تھی ، حکومت برطانیہ کی حالت رہی تھی۔ اس کے ہندوستانی فوج مختلف محاذوں پر لڑ رہی تھی۔
انگریز فوج کو خوش رکھنے کے واسطے بہت کچھ کرتے تھے۔ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ کوئی معمولی سا سپاہی بھی اپنے کمانڈنگ آفیسر کو درخواست دے دیتا کہ اس کے گاؤں میں اُس کے خاندان کی دشمن پارٹی اس کے گھر والوں کو تنگ کرتی ہے تو کمانڈنگ آفیسر فورا آکاروای کرتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کو لکھا جاتا تھا۔ وہ فوری طور پر پولیس کو سپاہی کے دشمنوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیتا تھا۔ ہماراڈی ایس پی بھی اوپر کے حکم سے آیا تھا۔ وہ خود بھی انگریز تھا۔ اُسے بھی ایک ہندوستانی فوجی کی شکایت رفع کرنے کا پورا پورا احساس تھا مگر ہم نے یہاں کچھ بھی نہیں کیا تھا ڈی ایس پی نے میرے جونیر سب انسپکٹر کو حکم دیا کہ ابھی گمشدہ لڑکی کے گاؤں جاؤ اور تفتیش شروع کر دو۔ میں تم دونوں کولائن حاضر کر دوں گا ڈی ایس پی نے کہا ۔ پھر تمہارے خلاف محکمانہ کارروائی ہوگی ۔ میں تم کو صرف پانچ دن دیتا ہوں۔ مجھ کو صحیح رپورٹ چاہیئے کہ لڑکی اغوا ہوی ہے یا اپنی مرضی سے گی ہے ۔ اگر اغوا ہوی ہے تو ملزم رپورٹ کے ساتھ موجود ہوں یہ ڈی ایس پی ہمارا خون خشک کر کے چلا گیا۔ ہم نے ٹھا کر کے قتل کی تفتیش اور دوسرے کیس کی تفتیشیں الگ رکھ دیں اور اس لڑکی کی گمشدگی کے پیچھے پڑگئے۔ ڈی ایس پی نے ہمیں لائن حاضر کرنے کی صرف دھمکی نہیں دی تھی۔ ہم تو اپنے آپ کو لائن حاضر سمجھنے لگے تھے۔
اگر میں یہ بیان کروں کہ مسلسل دو دن میرے جو نیر سب انسپکٹر نے کیا تفتیش کی تو یہ کہانی بہت لمبی ہو جائے گی۔ میں آپ کو صرف یہ بتا دیتا ہوں کہ ہماری جان پر بنی ہوئی تھی۔ ہم نے اس طرح کیا کہ جس پر بھی ذرا سا شک ہوا اس کو خوب پھینٹی لگائی ۔ تفتیش کو پانچ دنوں کے اندر کسی نتیجے پر پہنچانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ میں نے ایک طریقہ یہ بھی اختیار کیا کہ اُٹھتے بیٹھتے اپنے اللہ کو یاد کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یا اللہ ! اتنی سروس ایمانداری اور دیانتداری سے کی ہے، اپنی خدائی کے صدقے میری مدد کر یہ میرا تجربہ ہے کہ ایمانداری اور دیانتداری ضائع نہیں جاتی۔ اللہ صلہ دیتا ہے۔ میں آپ کو اپنا یہ تجربہ بھی بتادوں بعض گناہگار سزا سے بچ جاتے میں قتل اور دیگر جرائم کے بعض مجرم بری ہو جاتے ہیں اور وہ خوشیاں مناتے، مٹھائیاں تقسیم کرتے اور کہتے پھرتے ہیں کہ وہ بے قصور تھے لیکن وہ اللہ کی لاٹھی سے نہیں بچ سکتے۔ عمر کے کسی نہ کسی حصے میں اُن کو سزا ضرور ملتی تفتیش کا تیسرا دن تھا۔ میں نے اور جونیئر سب انسپکٹر رام سہانے نے گاؤں کی ایک چوتھائی آبادی کو پھینٹی لگا لگا کر استری کر دیا تھا مگر لڑکی کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ ڈی ایس پی کے دیے ہوئے پانچ دنوں میں سے صرف دو دن باقی تھے۔ تیسرے دن کا سورج غروب ہونے والا تھا۔ میں تھانے میں سخت پریشانی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ سب انسپکٹر رام سہاتے گاؤں سے آتا نظر آیا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا اور اس کی چال بتا رہی تھی کہ آج بھی وہ ناکام ٹوٹ رہا ہے۔ اس کے پیچھے پیچھے چار پانچ دیہاتی تھے۔ یہ مشتبہ تھے۔ مجھے رام سہانے کا بہت افسوس ہو رہا تھا۔ اس کو سب انسپکٹر ہو ے ابھی چھ ہی مہینے ہوتے تھے۔ وہ اچھا آدمی تھا۔ وہ میرے سامنے کرسی پر اس طرح بیٹھ گیا جیسے اُس نے شکست مان لی ہو۔ اُس کے ساتھ ابھی بات نہیں ہوی تھی کہ ایک ڈا کیا (پوسٹ مین آیا . اس نے مجھ سے ذرا دور رک کر اشارہ کیا۔ وہ مجھ کو بلا رہا تھا۔ پہلے تو مجھ کو غصہ آیا لیکن میں نے اپنے اوپر کنٹرول کر لیا۔ میرے دماغ میں سوچ آگئی کہ ہو سکتا ہے یہ شخص کام کی کوئی بات بتانے آیا ہو۔ ایک سوچ یہ بھی آئی کہ اس نے اگر کسی کی سفارش کی تو میں دو کانسٹیبلوں کے سپرد کر کے اس کو بھی استری کرا دوں گا ۔
میں یہاں کے ڈاک خانے کا پوسٹ مین ہوں اس نے کہا ۔ میں دیہات میں ڈاک تقسیم کرنے جاتا ہوں جس گاؤں کی لڑکی لاپتہ ہے، اُس گاؤں کے دس بارہ خط تھے ۔ آپ جانتے ہیں کہ لوگ ان پڑھ ہیں۔ وہ مجھ سے خط پڑھواتے ہیں میں نے ایک خط پڑھا۔ یہ ایک حوالدار کا ہے جو اسی رجمنٹ میں ہے جس میں لاپتہ لڑکی کا بھای نانک جگموہن داس ہے حوالدار نے اپنے گھر والوں کو لکھا ہے کہ نائک کی بہن اپنے بھای کے پاس آی ہوی ہے۔ اس حوالدار نے گھر والوں کو کوئی چیزیں بھیجنی ہیں۔ اُس نے لکھا ہے کہ وہ یہ چیزیں دلاری (گمشدہ لڑکی کے ہاتھ بھیج دے گا جو الدار نے یہ بھی لکھا ہے کہ اُس نے اپنی رجمنٹ کے فیملی کوارٹروں میں درگا کو بھی دیکھا ہے یہ مجھے کہ ایسے لگا جیسے اس ڈاکیے کو میں خواب میں دیکھ رہا ہوں، اور اگر یہ خواب نہیں تو یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے مجھ کو کسی معجزے کی توقع نہیں تھی ۔
کیا بکواس کرتے ہو ا میر سے منہ سے بے اختیار نکلا دلاری کے بھائی نے ہی درخواست دی ہے کہ اس کی بہن لاپتہ ہو گی ہے۔ میں کس طرح مان سکتا ہوں کہ بہن کو اُس نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور اُس کی گمشدگی کی درخواست دے دی ہے ؟ ... اور یہ در گا وہاں کیا کر رہا ہے؟ آپ اس حوالدار کے گھر چلے جائیں ۔ ڈاکیے نے کہا مجھ کو معلوم ہے کہ دلاری کی گمشدگی پر گاؤں میں کیا مصیبت آتی ہوتی ہے۔ اس گاؤں میں پولیس کا سپاسی چلا جائے تو لوگ ادھر اُدھر بھاگ جاتے ہیں حوالدار کے باپ نے مجھ کو ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ میں کسی کے ساتھ اس خط کا ذکر نہ کروں ورنہ پولیس ہم سب کو تھانے لے جا کر مارے گی. میں نے حضور اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ مجھ کو بے شک آپ گواہوں میں شامل کر لیں۔ اگر یہ لوگ خط سے انکاری ہوں تو مجھ کو بلالیں میں آپ کو اُس وقت کی ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ اب تو تعلیم دیہات میں بھی چلی گی ہے۔ اس وقت دیہات میں کوئی کوئی آدمی صرف اتنا پڑھا ہوا ہوتا تھا کہ خط پر لکھ پڑھ سکتا تھا۔ جنگ کے زمانے میں فوجیوں کے خط آتے تھے جو ڈا کیا پڑھ کر اُن کے گھر والوں کو سناتا تھا۔ گھر والے اس کے عوض ڈا کیے کو تھوڑا سا گڑیا دو چار انڈے یا دانے وغیرہ دے دیتے تھے۔ خطوں کے جواب بھی ڈاکیے سے لکھوائے جاتے تھے۔
اس کا معاوضہ عموماً دو پیسے ہوتا تھا۔ یہ ڈاکیا عجیب و غریب خبر لایا تھا۔ میں نے اُسی وقت سب انسپکٹر رام سہانے اور دو کانسٹیبلوں کو ساتھ لیا۔ ایک لیکر منگوایا اور اس گاؤں کو روانہ ہو گیا۔ رات ہو گئی تھی چوکیدار سے حوالدار کے گھر کا پتہ کیا اور اس کے دروازے پر جا کر ہاتھ مارا حوالدار کے باپ نے دروازہ کھول کر جب اپنے سامنے دو تھانیدار دیکھے تو اس کی حالت ایسی ہو گئی کہ مجھ کو ڈر لگا کہ یہ ابھی بے ہوش ہو کر گر پڑے گا۔ اس نے ہاتھ جوڑ دیے اور اس کے منہ سے الفاظ کی بجاۓ عجیب عجیب آوازیں نکلنے لگیں ۔ مت ڈرو بھائی ! میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ہم تجھے کھانے تو نہیں آے۔ تمہارے بیٹے کا جو خط آیا ہے وہ دے دو۔ حضور ا اُس نے کہا میں غریب آدمی ہوں میں آپ کو خط دے دوں گا مجھ کو تھانے نہ لے جانا، آپ خط دیکھ لیں میرے بیٹے کا اس میں کوئی قصور نہیں ۔ہم اندر چلے گئے۔ اُس کا سارا خاندان جاگ اُٹھا۔ لالٹین کی روشنی میں ہر فرد کانپتا ہوا نظر آرہا تھا تو حوالدار کے باپ نے معلوم نہیں کہاں سے خط نکال کر مجھے کر دے دیا میں نے خط پڑھا۔ اس میں وہی لکھا تھا جوڈا کیے نے بتایا تھا خط سے یہ پتہ لگا تھا کہ حوالدار کو معلوم نہیں کہ جس لڑکی کا اُس نے ذکر کیا ہے وہ لاپتہ ہے اور پولیس نے سارے گاؤں کے لئے مصیبت کھڑی کی ہوی ہے۔ اُس کو شاید یہ معلوم تھا کہ لڑکی ویسے ہی بھائی سے ملنے آئی ہوی ہے۔ ہم نے خط اپنے قبضے میں لے لیا اور حوالدار کے باپ کو کہا کہ وہ بالکل نہ ڈرے۔ اس کو ہم صرف گواہ بنائیں گے اور وہ اتنی سی گواہی دے گا کہ اُس کو اپنے بیٹے کا یہ خط تھا اور خط ڈا کیسے نے پڑھ کر سنایا تھا ۔ بوڑھا باپ بے چارہ اتنا ڈرا ہوا تھا کہ اس نے بیٹھ کر میرے پاؤں پکڑ لئے اور کہنے لگا کہ اس کو جیسی بھی گواہی کے واسطے کہا جائے گا وہ دیسی ہی گواہی دے گا۔ بوڑھے کو تسلی دلاسہ د سے کر ہم واپس آگئے۔
صبح سویر ے پہلی لاری سے میں علاقہ ڈی ایس پی کے ہیڈ کوارٹر کو روانہ ہو گیا۔ لاری نے ایک گھنٹے سے پہلے مجھ کو وہاں پہنچا دیا۔ ڈی ایس پی ابھی دفتر میں نہیں آیا تھا۔ میری حالت تو یہ تھی جیسے میرے اندر بارود بھرا ہوا ہو۔ میں ڈی ایس پی کے بنگلے میں چلا گیا۔ وہ تیار ہو کر باہر نکل رہا تھا۔
مجھ کو دیکھ کر اس نے غصے سے گھورا۔ میں نے سلیوٹ کیا ۔ کیار پورٹ لاے ہو ؟ اُس نے پوچھا اس لڑکی کی گمشدگی کی رپورٹ لاے ہویا کوئی اور کام ہے؟"
میں نے جیب میں سے حوالدار کا خط نکال کر اس کے آگے رکھ دیا۔ آگے رکھ دیا۔
اُس نے کاغذ کھولا اور میری طرف پھینک دیا۔ پڑھ کر سناؤ اس نے کہا ہم صرف اردو بول سکتے ہیں میں نے خط پڑھ کر سنایا پھر اس کو بتایا کہ ڈاکیے نے مجھ کو کیا اطلاع دی تھی۔ پھر میں نے ڈی ایس پی کو کہا کہ مجھ کو جبل پور چھاؤنی میں اس جاٹ رجمنٹ میں جانے کا اجازت نامہ دیا جائے اور مجھ کو اتھارٹی لیٹر دیا جائے کہ میں وہاں تفتیش کر سکوں ۔میرے دفتر میں آجاؤ۔ اُس نے کہا اور اپنے سائیکل پر سوار ہو کر دفتر کو روانہ ہو گیا۔
قصہ مختصر یہ کہ ڈی ایس پی نے مجھ کو سرکاری چھٹی دے دی جس پر میں رجمنٹ میں جا کر تفتیش کر سکتا تھا اور فوجی افسروں پر پابندی تھی کہ وہ میرے ساتھ تعاون کریں۔میں دوسرے دن کی شام جبل پور پہنچا اور وہاں کے پولیس ہیڈ کوارٹر چلا گیا۔ رات وہاں گزاری۔ علی الصبح مجھ کو وہاں کے ایس پی کے سامنے چلا گیا۔ میں نے اُس کو چھٹی دکھای اور کیس سنایا۔ اس نے غالباً بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کو ٹیلی فون کیا اور میرے واسطے تمام راستے صاف کر دیے۔ دن کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے جب میں اُس جاٹ رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر کے دفتر میں پہنچ گیا جس میں خط لکھنے والالڑکی کا بھائی نانک جنگ موسن تھے۔ میں نے اس انگریز افسر کو وہ چٹھیاں دکھائیں جو میں ساتھ لے گیا تھا۔
آپ کو کس طرح معلوم ہوا ہے کہ لڑکی یہاں ہے ؟ اس انگریز نے مجھ سے پوچھا ۔میں نے حوالدار کا خط اس کو پڑھ کر سنا دیا۔ وہ مسکرانے لگا۔ اگر ہم ذور نہ ڈالتے تم لوگ پر واہ ہی نہ کرتے کہ لڑکی کو کون اُٹھا کرلے گیا ہے کرنل نے کہا نے ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ تم لوگ پبلک کا کتنا خیال رکھتے ہو اور اپنی ڈیوٹی میں تم کتنے کو بنتے ہویا "صاحب بہادر ! میں نے کہا اگر ایک لڑکی گاؤں کے ایک ایسے بدمعاش کے ساتھ جس سے گاؤں کے سب لوگ ڈرتے ہیں، خود ہی گھر سے کہیں چلی جائے تو ہماری تفتیش کیا کر سکتی ہے ؟ اس خط میں درگا نام کے جس شخص کا ذکر ہے، یہ بہت بڑا بدمعاش ہے اور یہ شخص ایک آدمی کے قتل میں پولیس کو مطلوب ہے ۔ درگا قتل کی رات سے لاپتہ ہے کیا آپ کو یقین ہے کہ قتل کا مجرم درگا ہے ؟ کرنل نے پوچھا۔ یقین تو تفتیش میں کیا جائے گا صاحب بہادر ! میں نے کہا۔ حالات اور شہادت اس شخص کے خلاف جارہی ہے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ درگا اور اس لڑکی کو میرے حوالے کر دیں۔ ہو سکتا ہے مجھے آپ کی رجمنٹ کے کچھ اور لوگوں کے بھی بیان لینے پڑیں۔ میں آپ سے تعاون خواست کرتا ہوں کرنل خاموش رہا۔