جنات کی دشمنی - اردو کہانی پارٹ 9

  Urdu Story

سارے رستے ثانیہ کو آزر کی پردرد آوازیں سنائی دیتی رہیں ثانیہ گھٹنوں میں سر جھکائے روتی رہی اسے لگ رہا تھا آزر بھی اس کے ساتھ ہی ھے اس کے دھاڑنے کی آوازیں ابھی بھی ثانیہ کو اپنے کانوں میں گونجتی محسوس ھورہی تھی....
لائبہ نے ایک دو بار اس سے بات کرنا چاہی مگر اس نے سر نہیں اٹھایا تو اسے لگا وہ سو رہی ھے گاڑی بہت تیز چل رہی تھی مگر ثانیہ کی زندگی وہی آزر کے آس پاس رک گئی تھی۔

گاڑی کو رستے میں کہی بھی روکا نہیں گیا تھا اور قریب رات کے گیارہ بجے گاڑی آغا ھاؤس کے اندر داخل ھوئی اور سب سے پہلے گاڑی سے نکلنے والی ثانیہ تھی وہ بجلی کی رفتار سے دوڑی اور سیدھی روقیہ بیگم کے کمرے میں جا پہنچی جہاں روقیہ بیگم کو سرہانے کے سہارے بیٹھا دیکھا ماں کہہ کر ان کے گلے جا لگی اتنے عرصے بعد ماں کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکی اور ہجکیوں سے رو دی ثانیہ کو پانچ سال بعد اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ماں کی ممتا بھی بے تاب ھوگئی تھی دونوں کافی دیر ایسے ہی گلے لگی رہیں پھر علی نے آگے بڑھ کر دونوں کو چپ کروایا کہ یہ تو خوشی کا موقع ھے اور آپ نے ہم سب کو بھی رولا دیا اب بس چچی جان میں اپنی گڑیا کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا
روقیہ بیگم نے ثانیہ کے چہرے کو چھوا ماتھا چوما اسکی آنکھیں چومی اور ایک بار پھر اسے گلے لگایا
امی اب آپ کیسی ھو ؟
روتی ہوئی آواز میں ثانیہ نے پوچھا
ٹھیک ھوں میری جان اپنی ماں کو معاف کر دینا تمہیں اتنے صدموں میں اکیلا چھوڑ دیا پتہ نہیں کیا گزری ھوگی میری بچی پر کس درد اور تکلیف سے گزری ھوگی میری بچی روقیہ بیگم بار بار ثانیہ کے ہاتھوں اور چہرے کو چوم رہی تھی
امی آپ مت روئے پلیز مجھے اچھا نہیں لگ رہا اور دیکھیں ادھر میرے ساتھ تو میری پوری فیملی ھے سب نے مجھے بہت پیار دیا ھے مجھے سمبھالا ھے دنیاداری سیکھائی ھے مجھے آگے پڑھایا ھے میری ہمت بنے ھیں
امی جان بس جب آپ کو بیمار دیکھتی تھی تو دل کو کچھ ھوتا تھا بہت تکلیف ھوتی تھی اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ھے کہ آپ ٹھیک ھو گئی ھو اور میرے سامنے ھو مجھے دیکھ رہی ھو مجھ سے باتیں کر رہی ھو۔
آپ نے کچھ کھایا دوا لی کچھ چاہئے کیا آپ کو مجھے بتائیے؟
ثانیہ پاگلوں کی طرح پوچھ رہی تھی
نہیں میری جان مجھے کچھ نہیں چاہیے تمہاری تائی جان نے سوپ پلا دیا تھا اور دوا بھی دے دی تھی
اب سب باری باری روقیہ بیگم سے مل رھے تھے سب سے ملنے کے بعد روقیہ بیگم ادھر ادھر دیکھنے لگی دادی جان نے پوچھا بیٹی کسے ڈھونڈ رہی ھو؟
اماں جی وہ عبداللہ بیٹا نظر نہیں آرہا روقیہ بیگم جواب تو دادی جان کو دے رہی تھی مگر نظرے عبداللہ کی امی پر تھی۔
عبداللہ کی امی آکر روقیہ بیگم کے پاس بیٹھی ان کا ہاتھ پکڑا اور بولی عبداللہ پڑھائی کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ھوا ھے دو سال بعد آئے گا ڈاکٹر بن کر انشاء اللہ
تو روقیہ بیگم نے بھی کہا
انشاء اللہ
کچھ دیر سب لوگ وہی بیٹھے رہے پھر سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے رات بھی کافی ھو چکی تھی
ثانیہ ادھر ہی اپنی امی کے پاس بیڈ پر لیٹ گئی تھی وہ ثانیہ کا سر سہلا رہیں تھی اور ثانیہ نے ان کے گلے میں باہیں ڈالی ھوئی تھی باتیں تو بہت تھی مگر کہاں سے شروع کرتی اور کہاں تک سناتی ثانیہ سوچتے سوچتے کب سو گئی اسے پتہ بھی نہیں چلا روقیہ بیگم ماں تھی انہیں نیند نہیں آرہی تھی وہ اپنے جگر کے ٹکرے کو یاد کررہی تھی ان کے لئے تو ان کا بیٹا ان کا آصف آج ہی ان سے دور ھوا ھے ایسا انہیں لگ رہا تھا وہ خاموش آنسوں بہا رہی تھی کہ کہیں ثانیہ اٹھ نہ جائے
بہت دیر بعد انھوں نے اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے دعائیں اور اپنے لئے صبر مانگا اور شکر ادا کیا کے کم از کم انکی بیٹی تو انکے سامنے ھے یونہی تھوڑی دیر بعد انہیں بھی نیند آگئی اور آغا ھاؤس میں بہت عرصے بعد سب سکون کی نیند سوئے تھے

رات بہت گزر چکی تھی مگر آزر ابھی بھی ثانیہ کے کمرے میں اسی جگہ پر بیٹھا تھا جہاں وہ اسے چھوڑ گئی تھی ماں بابا کے جانے کے بعد آزر نے کبھی اپنے لئے کچھ نہیں مانگا تھا
اللہ تعالیٰ سے جب بھی مانگا تھا ثانیہ کی محبت مانگی تھی اس کی خوشی مانگی تھی بچپن سے لے کر اب تک آزر ہمیشہ ثانیہ کے ساتھ رہا تھا اس کے دکھ سکھ میں اور اب اسے اس سے دوری برداشت نہیں ھو رہی تھی
مہماں چلا گیا گھر سے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ خالی مکان رہ گیا
جان لے گیا وہ دل کا جانی یہ بت بے جان رہ گیا
اب یہ خالی مکان اسے کاٹنے کو دوڑ رہا تھا اس کا دم گھٹ رہا تھا ۔
آزر کے دل میں ایک آخری بار ثانیہ سے ملنے کی حسرت جاگی تھی صبح کی آذان ھونے ہی والی تھی جب آزر اٹھا اپنے سفید پرو کو کھولا اور اڑان بھری اس کا رخ سیدھا آغا ھاؤس کی طرف تھا وہ ثانیہ کے روم میں پہنچا مگر ثانیہ وہاں نہیں تھی پھر اس نے ثانیہ کی خوشبو محسوس کی اور خوشبو کے پیچھے چلتا گیا اب وہ روقیہ بیگم کے روم میں کھڑا تھا جہاں ثانیہ امی جان کے گلے میں باہیں ڈالیں سورہی تھی مگر اسکی آنکھوں کی سوجھی ہوئی پتلیاں بتا رہی تھی کے وہ آج بے تحاشا روئی تھی آزر کچھ دیر یونہی ثانیہ کو دیکھتا رہا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ کے ثانیہ کی امی جان ٹھیک ھو گئی ھیں
ثانیہ نے کروٹ بدلی تو ایک دم سے اس کی آنکھ کھلی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی پانی والا جگ پاس ہی رکھا تھا وہ پانی گلاس میں ڈال کر پینے لگی ۔
اسکی سانسوں سے کوئی جانی پہچانی سی خوشبوں ٹکرائی تو اس نے گلاس ٹیبل پر رکھا اور اپنی امی کو ایک نظر دیکھا جو پرسکون سوئی ھوئی تھی اب ثانیہ کمرے سے باہر نکل آئی تھی اور اپنے کمرے میں آکر ثانیہ نے وضو کیا اور جائے نماز بیچھا کر شکرانے کے نوافل ادا کئے
آزر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا اسے یہاں بہت اچھا لگ رہا تھا دل کو کچھ قرار سا آیا تھا ثانیہ نے جب سلام پھیر لیا تو اس کی نظر آزر پر پڑی کچھ گھنٹوں کی دوری نے آزر کو بے جان کر دیا تھا اس کا روشن چہرہ اب بہت اداس اور بجھا بجھا سا تھا بال بکھرے پڑے تھے خوبصورت گہری آنکھوں سے لالی چھلک رہی تھی
ثانیہ کا دل تڑپ کر رہ گیا اس کا شاہ ایسا تو نہیں تھا
ثانیہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور آزر کو دیکھنے لگی وہ بھی مدھوش سا اسی کو دیکھ رہا تھا ثانیہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی اور ھولے سے بولی
شاہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں ؟
یہ کیوں نہیں کہتی کے شاہ ابھی تک زندہ کیوں ھیں
آزر نے ثانیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا اور ثانیہ کی آنکھوں میں آزر کو ایک درد کی لہر نظر آئی تھی۔
اللہ نہ کرے کیسی باتیں کررھے ھیں آپ اللّٰہ کرے آپ ہمیشہ سلامت رھو ثانیہ نے دعا دی
اور ہمیشہ ایسے ہی تڑپتا رھو آزر نے بے بسی سے کہا
ثانیہ کی آنکھیں بھر آئیں
کیا حالت بنا لی ھے آپ نے اپنی ثانیہ نے آزر کو دیکھے بنا کہا
ادھر دیکھو!! ثانی
بلکل ویسی ہی ھے نا میری حالت جیسی تم چاہتی تھی
آزر چاہتا تھا بس ایک بار اگر ثانیہ اسے اپنے دل کی بات بتا دے تو وہ ہر ایک سے لڑ جائے اور ثانیہ کو اپنے سینے میں چھپا لے مگر ثانیہ اس سے سچ نہیں بول رہی تھی اور یہ بات آزر کو زیادہ درد دے رہی تھی
آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ آپ کو ایسے دیکھ کر مجھے خوشی ھوگی ؟
شاہ آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں
پہلے کی بات اور تھی آپ میرے محافظ بن کر میرے ساتھ تھے مگر اب مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے کسی سے بھی تو آپ بھی اب اپنی دنیا میں جاؤ اور مجھے بھی میری دنیا میں جینے دو پلیز
ثانیہ نے اب کی بار آزر کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے تھے
آزر کو لگا جیسے کسی نے اسے عرش سے فرش پر گرا دیا ھو
اسنے ثانیہ کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو پکڑا اور ایک ہاتھ اپنے سر پر رکھ دیا ثانیہ نے ہاتھ چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر آزر نے نہیں چھوڑا
میری قسم کھا کر جواب دینا ثانیہ میں یہ آخری بار تم سے پوچھ رہا ہوں
کیا تم مجھ سے پیار کرتی ھو؟
کیا مجھ سے شادی کرنا چاہتی ھو؟
کیا میرے ساتھ زندگی جینا چاہتی ھو؟

ثانیہ کی آنکھیں تھی کہ ساون کی جھڑیاں بہت سارے آنسو ایک ساتھ بہہ گئے تھے
ثانیہ نے ایک جھٹکے سے ہاتھ پیچھے ہٹایا تھا اور رخ موڑ کر بولی تھی
نہیں کرتی میں آپ سے پیار اور اس بات کو آپ اچھے سے دماغ میں بٹھالو
شادی کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتی
اور آپ سے تو بلکل بھی نہیں
ثانیہ کا دل پھٹ سا گیا تھا یہ سب بولتے ہوئے
اگر آپ مجھ سے محبت کرتے ھو تو اسی محبت کا واسطہ ھے آپ کو مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو وہ دیوار کے ساتھ لگی رو دی تھی
آزر ثانیہ کی آنکھوں سے گرنے والے آنسوؤں کو دیکھ کر یہ جان گیا تھا ثانیہ بے انتہا محبت کرتی ھے اس سے مگر پتا نہیں ایسا کیا تھا جو اسے آزر سے دور کر رہا تھا
آزر ثانیہ کے بلکل قریب اسکے کان کے پاس کچھ بولنے لگا تھا اور اسے اپنے اتنے قریب محسوس کرکے ثانیہ کی جان ہی نکل گئی تھی
ٹھیک ھے ثانی اگر یہی مرضی ھے تمہاری تو یہ ہی سہی
اگر تم مجھے یہ کہتی نہ کے آزر مرجاؤ تو میں دوسرا سانس بھی نا لیتا یہ تو تمہاری خوشی کے لئ تم سے دور جانا ھے غور سے دیکھ لو اس چہرے کو آج کے بعد یہ چہرہ تم کبھی بھی دیکھ نہیں پاؤگی اس نے اپنی لہو رنگ آنکھیں ثانیہ کی آنکھوں میں گاڑ دی تھی
ایک اور بات
اگر میں چاھوں تو تمہیں ابھی کے ابھی اپنی ملکیت بنالوں تمہیں اپنی دنیا میں لے جاؤں کوئی میرا کچھ بھی نہیں بیگار پائے گا مگر میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی کمزور ھوں۔
جن زاد ھوں
میں کچھ بھی کر سکتا ہوں پر تمہاری مرضی کے بغیر تمہیں نہیں لے جاسکتا میں نے تمہیں بے پناہ محبت کی ھے اس محبت پر الظام نہیں آنے دونگا۔
ثانی میں تم سے دور تو رہ سکتا ھوں
مگر تم سے محبت کرنا نہیں چھوڑ سکتا چاہ کر بھی نہیں میں مر مر کے جی لوں گا
بس تم خوش رھو اور کچھ نہیں چاہیے مجھے اب یہ جن زاد کبھی تم سے ملنے نہیں آئیگا
اب تم خد بلاؤگی تو بھی میں نہیں آؤنگا ثانی
چلتا ھوں دونوں بہت دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر آزر غائب ھوگیا
آزر اپنا ٹوٹا دل لئے آنکھوں میں ثانیہ کی تصویر بسائے اپنی دنیا میں واپس جا چکا تھا
ثانیہ وہی بیٹھی رہ گئی تھی تھوڑی دیر بعد فجر کی آذان پورے آغا ھاؤس میں گونجنے لگی تو ثانیہ نے اٹھ کر منہ دھویا اور نماز کےلئے کھڑی ہوگئی
کچھ دنوں تک تو ثانیہ اپنی امی جان کی خدمت میں مصروف رہی مگر اب امی جان بلکل ٹھیک ھو گئی تھی اور وہ زیادہ تر اپنے کام خد ہی کر لیتی تھیں
ثانیہ اب بہت اداس رہنے لگی تھی اسے ہر وقت لگتا رہتا کہ ابھی آزر آجائے گا کبھی اسے تنہائی میں سلطان کی آوازیں آتی اور کبھی وہ خواب میں اپنے ساتھ آزر کو دیکھ کر ایک دم سے اٹھ جاتی اور رو نے لگتی
گھنٹوں جائے نماز پر گزار دیتی اور کھانے کے نام پر بس سب کے ساتھ بیٹھ جاتی
اس کے اس رویے سے سب بہت پریشان ہوگئے تھے
اور ثانیہ کی حالت بھی بگڑنے لگی تھی چہرہ مرجھا سا گیا تھا آنکھیں بے نور ھوگئی تھی سب اس سے بہت بار پوچھ چکے تھے کے اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے مگر وہ کسی کو کچھ بتاتی ہی نہیں تھی بس چپ کرکے بیٹھی رہتی کبھی خد ہی ہنس دیتی تو کبھی رو دیتی
روقیہ بیگم بھی بہت دکھی تھی کہ انکی اکلوتی بیٹی کو ناجانے کیا ھوگیا ھے وہی تو اب ان کے جینے کا سہارا تھی اور وہی ہر چیز سے بے خبر ھوتی جارہی تھی
روقیہ بیگم دو سال سے اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھ رہی تھی اب ان سے اپنی بیٹی کی یہ حالت اور برداشت کرنا مشکل ھوگیا تھا وہ ثانیہ کے پاس چلی آئی جو کہ جائے نماز پر بیٹھی پتہ نہیں کون سے وقت کی نماز پڑھ رہی تھی کیونکہ ابھی کسی نماز کا وقت نہیں تھا
ثانیہ میری بچی کیا ھوگیا ھے تمہیں آخر کیا دکھ ھے جو تمہیں جینے نہیں دے رہا مجھے بتاؤ شاید کوئی حل نکل آئے ثانیہ نے سر ماں کی گود میں رکھا اور خالی آنکھوں سے ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی اب کوئی حل نہیں نکل سکتا امی جان مگر آپ میری فکر نہ کریں میں بلکل ٹھیک ھوں
تم کہہ رہی ھو کے تم ٹھیک ھو مگر مجھے لگ رہا ھے تم صدیوں سے بیمار ھو ثانیہ
میری بچی مجھے اور تکلیف مت دو مجھ سے برداشت نہیں ھوتا اب تمہاری یہ حالت دیکھ کر دل چاہتا ہے میں بھی مر جاؤں۔
ثانیہ نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اللہ نہ کرے امی جان کے آپ کو کبھی کچھ ھو میں آپ کو دوبارا کھونا نہیں چاہتی دیکھے میں ٹھیک ھوں ثانیہ نہ چاہتے ھوے بھی مسکرائی تھی
تو پھر تمہارے دل میں اگر کوئی بھی بات ھے تو مجھے بتاؤ پلیز
روقیہ بیگم نے اسکے چہرے کو چھو کر کہا
امی جان ایسی کوئی بات نہیں ھے
کیا تم کسی کو پسند کرتی ھو ثانیہ؟
روقیہ بیگم نے پھر سے سوال کیا اب کی بار ثانیہ کا دل کانپ گیا کیا اس کی ماں اس کے دل کے حال سے واقف تھیں
ثانیہ جلدی سے بولی نہیں امی جان میں کسی کو بھی پسند نہیں کرتی
اور یہ بات سچ بھی تھی کیونکہ ثانیہ تو عشق کرتی تھی وہ بھی ایک جن زاد سے جو اس سے ناراض ھوکر اسے چھوڑ گیا تھا
اور شاید بھول گیا تھا تو وہ کیا بتاتی امی جان کو
ثانیہ کہاں کھو گئی ھو تمہیں پتہ ھے دو دن بعد عبداللہ آرہا ھے
ثانیہ نے اچانک ماں کی طرف دیکھا اور سوچا
کیا دو سال گزر گئے شاہ بغیر
ثانیہ میری بات سنو غور سے امی جان نے ایک بار پھر ثانیہ کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا
تمہیں پتہ ھے اب وہ ڈاکٹر بن گیا ہے
تم جب چھوٹی سی تھی اس وقت تم سے عبداللہ نے پوچھا تھا کہ تم بڑی ھو کر کیا کروگی تو تم نے کہا تھا
میں بڑی ھو کر شادی کروگی
اس نے کہا کس سے شادی کروگی
تو تم نے کہا تھا کسی ڈاکٹر سے
اس نے پوچھا وہ کیوں ؟؟
تو تم نے اسے کہا تھا کیونکہ میں چاہتی ھوں میری دادی جان ہمیشہ میرے ساتھ رھے اگر ڈاکٹر سے شادی کرونگی تو وہ بھی میرے ساتھ ہی رھیں گی انہیں شہر نہیں جانا پڑے گا
جب تم دونوں یہ باتیں کررھے تھے تو ہم لوگ بھی تمہاری باتیں سن رہے تھے اسی دن تمہارے تایا جان نے تمہیں اپنی بیٹی بنا لیا تھا اور تمہارے بابا بہت خوش تھے کہ تم بیاہ کر اپنے تایا کے گھر جاؤگی جہاں سب تمہارے اپنے ھونگے
ثانیہ اب عبداللہ آ رہا ھے تو تمہارے تایا جان تم دونوں کی شادی کی بات کررہے تھے
روقیہ بیگم اپنے ہی سر میں اس پر پہاڑ گرارہی تھی اور ثانیہ کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک رنگ جارہا تھا
کچھ بولو تو خاموش کیوں ھو روقیہ بیگم نے اسے بلایا
کچھ نہیں امی جان کچھ بھی تو نہیں
اچھا پھر اٹھو جلدی سے فریش ھوکر باہر آؤ
لائبہ تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہے
ثانیہ کا دل ہر چیز سے اچاٹ ھو چکا تھا اسے اب کسی بھی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر امی جان کی خاطر اسے اٹھنا پڑا
جلدی باہر آؤ میں تمہارے لئے کوفی بناتی ھوں تب تک
روقیہ بیگم یہ کہہ کر کمرے سے جاچکی تھی
اور ثانیہ سوچ رہی تھی پتہ نہیں اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے
وہ جس کا انتظار کررہی تھی وہ تو آ نہیں رہا تھا
اور جس کا انتظار نہیں کررہی تھی وہ آرہا تھا
قدرت ثانیہ کا سخت امتحان لے رہی تھی اور وہ کیا کرسکتی تھی اپنے ھاتھوں سے کئے کا الظام کس کو دیتی
وہ یہ سب سوچتی ھوئی اٹھی اور فریش ھونے چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد فریش ھو کر نکلی اب اسے لائبہ سے ملنا تھا

آزر اپنی بلند کرسی پر سر پر تاج سجائے مغرور انداز میں بیٹھا تھا اس کے ساتھ خان بابا بھی بیٹھے تھے وہ آج سب قبیلے والوں سے انکی ضرورتوں کے بارے پوچھنے آیا تھا ان گزرے دو سالوں میں آزر کا مقام اس کے قبیلے والوں کے لیے اور بھی بڑھ گیا تھا اور کسی کی اتنی جرت نہیں ھوتی تھی کی اس کے قبیلے کے لوگوں کو آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی سکے سارا قبیلہ بہت خوش تھا اس نے ان دو سالوں میں بہت سے دشمن قبیلوں کو دھول چٹائی تھی اب ہر کوئی اس کی طاقتوں سے واقف تھا کوئی اس کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا
آزر نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا کہ قہوت کچھ پریشان سا اس کے پاس پہنچا قہوت نے آزر کے کان میں نہ جانے کیا بتایا کہ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور بنا کسی سے کوئی بات کئے آنکھوں میں درد کا طوفان لئے وہاں سے غائب ہو گیا تو خان بابا نے سب سے معزرت کرکے محفل برخاست کر دی اور اس کے پیچھے چلے گئے کہ کہیں وہ کچھ غلط نہ کردے مگر آزر آندھی طوفان بنا کسی جنگل میں اترا تھا اور اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ سارا جنگل ہل گیا تھا پرندے سہم گئے تھے درختوں کے پتے جل کر راکھ ہو گئے تھے درد سے آزر کا سینہ پھٹ رہا تھا
اس کی ثانی کسی اور کی دلہن بنے گی یہ بات آزر کو انگاروں پر گھسیٹ رہی تھی وہ خد پر قابو کھو رہا تھا
قہوت کو اس نے حکم دیا تھا کہ وہ ثانیہ کا خیال رکھے اس کی خبر آزر کو پہنچاتا رھے
قہوت جب بھی آتا تھا کبھی ثانیہ کی بیماری کی خبر لاتا تو کبھی یادوں میں گھری ہوئی ثانیہ کا درد سناتا اس کے آنسو اسکی باتیں آکر آزر تک پہنچاتا اور ایک اور بات قہوت نے آزر کو بتائی تھی جو اس دن سے زیادہ آج آزر کو تکلیف پہنچا رہی تھی وہ جان گیا تھا کہ خان بابا نے ثانیہ سے وعدہ لیا تھا کہ وہ آزر کو خد سے دور کر دے آزر آج بہت غصے میں تھا خان بابا کی وجہ سے اس کی دنیا بسنے سے پہلے اجڑ گئی تھی جو وہ ثانیہ کے ساتھ بسانا چاہتا تھا
آزر اب جنگل میں ٹہل رہا تھا جب خان بابا وہاں پہنچے آزر نے ان سے رخ موڑ لیا تو دوسری طرف سے اس کے سامنے آگئے
آزر یہ کیا طریقہ ہے اپنی قوم کو بلا کر ان سے کوئی بھی بات کئے بنا وہاں سے چلے آئے ھو وہ کیا سوچے گے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا
خان بابا آپ جائیے یہاں سے اس وقت مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی آزر نے غصے سے انہیں کہا
آزر زندگی میں پہلی بار تم مجھ سے اس لہجے میں بات کررھے ھو ایسی کیا بات ہے جو تمہیں اس حد تک لے آئی ھے
خان بابا آپ نے میرے اور ثانیہ کے ساتھ بلکل بھی اچھا نہیں کیا ادھر اس کی جو حالت ھے نہ وہ مجھ سے برداشت نہیں ھوتی اور ادھر میں گھٹ گھٹ کر جی رہا ہوں آپ کی وجہ سے آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ہمارے ساتھ آزر خان بابا کی جھولی میں سر رکھ کر رو دیا تھا
ایک جن زاد 9 قبیلوں کا سردار جس کے سامنے آنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی وہ ایک لڑکی کے لئے رو رہا تھا آج خان بابا کو بھی اپنی غلطی کا احساس ھوگیا تھا اب بہت دیر ھو گئی تھی گزرا وقت بدلا نہیں جا سکتا تھا
خان بابا بہت دیر رونے کے بعد آزر نے انہیں مخاطب کیا تھا مگر خان بابا کے بولنے سے پہلے ہی خد بول پڑا تھا
اب ثانیہ کی شادی ھو جائے گی
میری ثانی کسی اور کی دلہن بن جائے گی آزر کا دل اسے آگے بولنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا اسے لگ رہا تھا وہ کچھ بھی بولے گا تو اس کا جگر پھٹ جائے گا
آزر بیٹا میری بات ٹھنڈے دماغ سے اور غور سے سنو
تمہارا اور اس کا کوئی میل نہیں تھا میرے بچے
وہ تمہارے لئے نہیں بنی قدرت نے تمہارے نصیب میں جو لکھا تھا وہی تم دونوں نے پایا ھے
اب اگر اس کی شادی ھو رہی ھے تو اچھی بات ہے اس طرح تو وہ جلد خد کو سنبھال پائے گی اور تمہیں بھول جائے گی
تم بھی تو اسے خوش ہی دیکھنا چاہتے ھو نا جہاں بات ثانیہ کی خوشی کی آتی تھی وہاں آزر کی ہر بات ہر خواہش ختم ھوجاتی تھی
خان بابا وہ ٹھیک تو ھو جائے گی نا ہاں بیٹا انسان کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہی ایسا ھے کہ وہ وقت کے ساتھ سب بھول جاتے جیسے ثانیہ اپنے بھائی اور بابا کو بھول گئی خد کو سنبھال لیا اس نے یہ سب قدرت کا تحفہ ھے انسان کے لیے اور بیٹا اس نے تمہارے لئے اتنی بڑی قربانی دی ھے آپنی محبت کی قربانی تاکے تم اپنا فرض نبھا سکو تم نے پیچھلے دو سالوں میں بہت کچھ پایا ھے اور باقی سب قبیلوں سے آگے نکل آئے ھو اب اس دنیا کا مت سوچو خان بابا چپ کرگئے تھے اور آزر سوچ رہا تھا کیا واقعی اس کی ثانی اسے بھول جائے گی مگر اس کے دل سے کوئی جواب نہیں آیا تھا

ثانیہ جب لان میں آئی تو لائبہ اور علی بیٹھے اسی کا انتظار کر رہے تھے ثانیہ بھی آکر ان کے ساتھ بیٹھ گئی
لائبہ اور علی کی شادی ایک سال پہلے ہی ھوئی تھی اور ثانیہ کو انکی جوڑی بہت پسند تھی
کیسی ھے میری گڑیا بہت دنوں بعد دیکھ رہا ہوں آج
کہاں گم رہتی ھو علی نے مسکرا کر کہا
تو ثانیہ کچھ شرمندہ سی ھو گئی نہیں بھائی میں ٹھیک ھوں بس کچھ دنوں سے طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی مگر اب بہتر ھوں نا چاہتے ہوئے بھی ثانیہ کو مسکرانا پڑا تھا
ثانیہ ہم تم سے عبداللہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے وہ تمہیں بہت پسند کرتا ہے تم سے شادی کرنا چاہتا ھے
کیا تم بھی ۔۔۔۔۔۔۔
لائبہ نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی اور ثانیہ دل میں یہ سوچ کر ہی رہ گئی کہ
ایک ہی شخص کی ہوتی ہے یہاں گنجائش
خانہءدل کبھی بازار نہیں ہو سکتا
تمہارے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں ہے تم سوچ سمجھ کر جواب دے دینا مگر یہ ضرور زہن میں رکھنا کے سب کی خوشی بھی اسی میں ھے اور تمہارے بابا کی آخری خواہش بھی یہی تھی اور ہم بھی دل سے چاہتے ہیں کہ تم ہمیشہ ہمارے ساتھ رھو
آخری فیصلہ تمہارا ھوگا اور مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری گڑیا ہمارا مان رکھے گی علی بھائی ابھی بات کررہے تھے کہ ان کے موبائل کی رنگ ٹون بجی اور وہ وہاں سے اٹھ گئے ثانیہ بھی اٹھنے لگی تھی جب لائبہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا اور شرماتے ھوئے بولی ثانیہ تم خالہ اور پھوپھو ایک ساتھ بننے والی ھو ثانیہ پہلے تو لائبہ کو دیکھتی رہی اور اس کی بات سمجھنے کی کوشش کرتی رہی اور پھر ایک دم سے بولی
مبارک ہو آپ دونوں کو اللہ تعالیٰ آپ کی خوشیاں سلامت رکھے آمین یہ کہہ کر ثانیہ وہاں رکی نہیں اور اپنے کمرے کی طرف چلنے لگی مگر آج پورے دو سال بعد ثانیہ کو آزر کی خوشبو محسوس ھوئی تھی جو ثانیہ کو پاگل کر دینے کے لیے کافی تھی ۔۔۔۔
آزر بہت دیر وہاں جنگل میں بیٹھا رہا خان بابا بھی اسکے پاس بیٹھے رھے پھر جب آزر تھوڑا سنبھلا تو اٹھ کر کھڑا ہوگیا
خان بابا میں آپکی بہت عزت کرتا ہوں اور آپ نے جو باتیں کی وہ بھی ٹھیک تھی مگر میں ثانیہ کو نہیں چھوڑ سکتا وہ صرف میری ھے اور میری ہی رھے گی اب آپ مجھے مت روکنا میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر کیا ھے اور اس بار میں کسی کی بھی بات نہیں سنوں گا چاہے کچھ رھے یا نا رھے مجھے کسی چیز کی فکر نہیں
مگر آزر خان بابا اسے پکارتے رہ گئے اور وہ انکی نظروں سے اوجھل ہو گیا