آزر خان بابا سے تو کہہ چکا تھا کے وہ اب ثانیہ کو اور تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھ سکتا اور ثانیہ کو کسی اور کی ھوتے ھوئے دیکھنا آزر کے لئے بہت مشکل تھا مگر اصل میں وہ خد بھی کشمش میں تھا ایک طرف تو ثانیہ کے سامنے کبھی نہ آنے والی بات تھی اور دوسری طرف اپنے قبیلے سے وفا کرنے کی بات تھی
اس کا دل کہہ رہا تھا وہ پلک جھپکنے سے پہلے ثانیہ کے پاس پہنچ جائے اور دماغ کہتا تھا کہ اگر اپنی ہی بات سے مکر گیا تو پھر کبھی خد سے نظرے نہ ملا پائے گا
آزر ابھی ان ہی سوچو میں گم بیٹھا تھا کے اس کو دشمن کی خوشبو اپنے بہت پاس سے محسوس ھوئی وہ پہلے ہی بہت غم وغصے میں تھا اب اس سے ٹکر لینے کی جسارت کس نے کی یہ سوچ کر آزر کا خون کھول گیا تھا
اب وہ ثانیہ کے پاس نہیں جاسکتا تھا کیونکہ قبیلے والوں کو اس کی ضرورت تھی اور وہ ان کو خطرے میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا اپنے دل پر پتھر رکھ کر آزر نے لہو ھوتی آنکھوں میں ثانیہ کی تصویر دیکھی اور اپنا زخ اپنی وادی کی طرف کر دیا وادی پہنچ کر سب سے پہلے اس نے سب کو آنے والے خطرے سے الرٹ کیا اور اپنے کچھ جننات کو وادی کی حفاظت کی تاکید کی
اور واپس خان بابا کے پاس جا پہنچا جہاں خان بابا سر جھکائے پریشان حال بیٹھے تھے ان کے سامنے شہربانو بیٹھی تھی وہ شاید اس سے کوئی بات کررہے تھے
آزر وہی سے مڑنے لگا تھا جب اس کے کانوں میں شہربانو کی روتی ہوئی آواز پڑی آزر کے قدم وہی جم گئے تھے
بابا جان آپ تو کہتے تھے آزر صرف ہمارے ھیں ہم دونوں ایک دوسرے کے ہمسفر ھے میں نے بچپن سے اب تک صرف انہیں ہی اپنے شوہر کے روپ میں سوچا ھے ان کی امی جان نے خد ہمیں پسند کیا تھا آزر کے لئے تو اب ایسا کیا ھو گیا کہ آزر نے ایک پل بھی نہیں سوچا ہمارے بارے میں ٹھیک ھے وہ کسی انسان سے محبت کرتے ہیں لیکن انہیں ہمارے بارے میں بھی تو سوچنا چاہیے تھا نا وہ ایسے کیسے سب کچھ چھوڑ کر اس کے پاس جا سکتے ہیں
ہم کتنی محبت کرتے ہیں ان سے
کیا ان کو اس بات کا احساس نہیں ھے بابا جان آپ انکو ابھی کے ابھی واپس بلائے پلیز بابا شہربانو روتے ھوئے خان بابا سے کہہ رہی تھی اور آزر یہ ساری باتیں حیرت سے سن رہا تھا
آزر سیدھا ان کے پاس چلا آیا خان بابا نے کسی کے آنے کی آھٹ پائی تو سر اٹھا کر دیکھا اور سامنے آزر کو پایا
بیٹا تم؟؟؟
خان بابا کو معلوم تھا آزر سب سن چکا ہے اب
تو وہ شرمندگی سے نظریں چرا گئے تھے
جی میں!!!
خان بابا ماں بابا کے جانے کے بعد میں نے آپ کو اپنے والدین کی جگہ پر رکھا میں کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ آپ نے اپنی بیٹی کی ضد کی خاطر یہ سب کیا
اور آپ کے بیٹے نے دشمن قبیلے سے مل کر مجھے جان سے مارنے کی پلینگ کر ڈالی ھے
جب آزر خان بابا کے پاس آرہا تھا تو راستے میں اسے قہوت نے یہ بتایا تھا کہ یہ سب شمعون کا کیا دھرا ھے
خان بابا کا بیٹا شمعون
مجھے اپنے اوپر شرم آرہی ہے کہ میں ایک جن زاد ھو کر اپنے آس پاس اپنے خلاف ھونے والے خطرناک منصوبے سمجھ ہی نہ سکا میں جن کو اپنا سمجھتا رہا وہی میرے دشمن نکلے آزر بے بس ھوکر بیٹھ گیا تھا
دیکھیں آپ جیسا سوچ رھے ھیں ویسا کچھ نہیں ھے شہربانو یک لخت بولی
آپ خاموش رھے آزر جیسے دھاڑا تھا شہربانو کی جاں ہلق میں آگئی تھی
خان بابا بھی اٹھ کر کھڑے ہوگئے تھے
آزر شہربانو کو تمہاری امی جان نے خد تمہارے لیے پسند کیا تھا میں تمہیں کبھی یہ بات نہ بتا پایا کیونکہ تم اس لڑکی کے علاوہ کچھ سنتے ہی کہاں تھے تمہیں جہاں روکنے کے لئے اور اپنی بیٹی کا گھر بسانے کے لئے میں نے تم دونوں کو الگ کر دیا مگر میں اپنی بیٹی کی قسم کھا کر کہتا ھوں شمعون کیا کرتا پھر رہا ہے مجھے اس کا رتی برابر بھی علم نہیں ہے خان بابا نے ساری بات آزر کو بتاتے ہوئے کہا
وہ آپ کا بیٹا ھے اور جو کچھ وہ کر رہا ھے اس سے آپ بے خبر ھیں ایسا ھو ہی نہیں سکتا
مگر ایک بات غور سے سن لیں آپ
اگر میرے قبیلے کو یا مجھ سے جڑے کسی بھی فرد کو کوئی نقصان پہنچا تو میں بھول جاؤنگا کے وہ آپ کا بیٹا ھے آزر یہ کہہ کر جانے لگا تو
شہربانو نے اسے روکا
اگر مجھے پتہ ھوتا میری آپ سے منصوب ھونے کی خواہش میرے بابا کی تذلیل کی وجہ بنے گی تو کبھی بھی آپ کو اپنے دل میں جگہ نہ دیتی شہربانو بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتے ھوئے بولی تھی اور
بابا نے ہمیشہ آپ کو اپنے بچوں سے زیادہ پیار دیا ھے وہ کبھی بھی آپ کا نقصان نہیں چاہے گے آپ اپنا دل ان کی طرف سے صاف کرلیجئے
آزر نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور باہر نکل گیا
شہربانو روتے ہوئے بابا کے گلے جالگی تو خان بابا نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا بیٹا آزر ابھی اپنے ھوش و حواس میں نہیں تھا جب وہ آرام سے سوچے گا تو اس کا دل نرم ھوجائے گا ابھی میں آزر کے پیچھے جاتا ھوں اسے میری ضرورت ھوگی
یہ کہہ کر خان بابا بھی آزر کے پیچھے چل دیئے اور شہربانو نے دل میں عہد کرلیا تھا کے وہ اب اپنے بابا سے اس بارے میں کبھی بات نہیں کرے گی
ثانیہ بہت خوش تھی اس کے بے رونق چہرے پراب ایک الگ ہی چمک نظر آرہی تھی کیونکہ اسے اپنے آس پاس آزر کی موجودگی کا احساس ھورہا تھا
روقیہ بیگم اور باقی گھر والے بھی خوش تھے وہ لوگ سمجھ رھے تھے شاید عبداللہ کی واپسی سے ثانیہ خوش ھے جب کے ثانیہ تو بھول ہی چکی تھی کہ عبداللہ آنے بھی والا ہے آج شام کو سب نے اسے ایئرپورٹ پر لینے جانا تھا ثانیہ کو بھی روقیہ بیگم نے تیار ھونے کو بولا تو وہ بھی جلدی سے تیار ھو گئی جب وہ گاڑی میں بیٹھی تب اسنے سب کی باتوں سے یہ اندازا لگایا کے وہ لوگ عبداللہ کو لینے جارھے ھے ثانیہ کو اپنی امی جان کی بات یاد آئی کہ عبداللہ آنے والا ہے اور تمہارے تایا جان تم دونوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں میں انہیں کیا جواب دوں اور ثانیہ کی ساری خوشی ھوا ھو گئی
یا اللہ شاہ کدھر ھے اس کو کہاں ڈھونڈوں میں مجھے نہیں کرنی عبداللہ سے شادی مجھے میرے شاہ کے پاس جانا ھے
پلیز شاہ لوٹ آؤ
۔
آزر نے وادی کا چپہ چپہ چھان مارا تھا
مگر شمعون اسے کہیں نہیں ملا تھا
آزر چلتی پھرتی آگ لگ رہا تھا اگر اسے آج شمعون مل جاتا تو شمعون کا حشر بھی وہی ھونا تھا جو اس کافر جن کا ھوا تھا جس نے آزر کو کمزور سمجھا تھا اور منہ کی کھائی تھی اب شمعون کی باری تھی مگر ناجانے اسے زمین کھا گئی تھی یا آسمان نگل گیا تھا آزر نے ساری وادی چھان ماری تھی
مگر شمعون وادی میں ھوتا تو اسے ملتا
ہاں اتنا ضرور طے تھا کے شمعون کوئی بہت بڑی پلائنگ کر رہا تھا جس سے آزر بے خبر تھا مگر آزر نے سب کو محطاط کردیا تھا
سب لوگ عبداللہ سے مل کر بہت خوش ھوے عبداللہ واقعی پہلے سے زیادہ ڈیسنٹ اور پیارا لگ رہا تھا لائبہ نے عبداللہ کو دیکھتے ہی ثانیہ کو کوہنی ماری اور آنکھ سے اشارا کیا جیسے کہہ رہی ھو ارے واہ کتنا ھینڈسم ھے
مگر ثانیہ کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑا تھا نہ تو اسے عبداللہ کے جانے کا کوئی دکھ یا خوشی ہوئی تھی
اور نہ ہی اس کے آنے کی
وہ تو بس اس ایک پر مر مٹی تھی جو ناجانے اسے اکیلا چھوڑ کر کہاں گم ھوگیا تھا
سب لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے عبداللہ ثانیہ سے کوئی بات نہ کر سکا کے کہی سب اس کا مزاق نہ بنائیں اور سب لوگ عبداللہ کو ساتھ لئے گھر واپس آچکے تھے
گھر آتے ہی عبداللہ اپنے کمرے میں فریش ھونے چلا گیا۔
اور جب وہ واپس آیا تو اسکی پسند کے بہت سے کھانے ٹیبل پر سجائے جاچکے تھے سب گھر والوں نے بھی اس کے ساتھ یٹھ کر کھانا کھایا
مگر عبداللہ کی نظر کھانا کھاتے ھوئے بھی بار بار ثانیہ پر جا ٹکتی تھی وہ اپنی بے قراری پہ قابو پانے میں ناکام ھورہا تھا ثانیہ بھی اس کی نظر خد پر محسوس کررہی تھی جو اسے بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا
ثانیہ نے تھوڑا بہت کھانا کھایا اور اپنے کمرے کی طرف چل دی
عبداللہ نے بھی ثانیہ کے جاتے ہی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا اور ہاتھ دھو کر سیدھا اپنے کمرے میں آگیا تھا اسے ثانیہ شروع سے ہی بہت پر اسرار لگتی تھی کم گو کھوئی ھوئی سی مگر تھوڑی بہت کبھی کبھی بات کر لیتی تھی
لیکن آج عبداللہ کو ثانیہ کا رویہ بہت عجیب لگا وہ دو سال بعد لوٹا تھا اور کامیاب ھوکر ایک طرح سے دیکھا جائے تو ثانیہ کا سپنا پورا کرکے لوٹا تھا مگر ثانیہ نے اسے مبارک تک نہیں دی تھی حال احوال پوچھنا تو دور کی بات تھی
وہ ایک بار ثانیہ سے بات کرنا چاہتا تھا مگر اسے ڈر تھا کہی ثانیہ اسے ریجکٹ نہ کردے وہ ثانیہ کو کھونا نہیں چاہتا تھا عبداللہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھا کہ لائبہ اس کے لئے چائے لے آئی
کیا بات ھے عبداللہ بہت پریشان لگ رھے ھو کیا سوچ رہے ھو اور یہاں کیوں چلے آئے وہاں ہم سب کے ساتھ بیٹھتے کچھ دیر ہم سب نے تمہیں بہت مس کیا ھے لائبہ نے مسکراتے ہوئے کہا
اور ثانیہ نے عبداللہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولا
کیا بات ھے عبداللہ کیا ثانیہ نے کچھ کہا ھے تمہیں لائبہ نے پریشانی سے اسے مخاطب کیا
نہیں بھابھی اسی بات نے تو مجھے پریشان کر رکھا ہے کہ اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی پیچھلے دو سالوں میں میری گھر کے تمام تر لوگوں سے بات ھوتی رھی ھے روقیہ چچی سے بھی بات ھوئی ھے مگر اس نے کبھی ھیلو تک نہیں بولا میں سمجھتا تھا کہ شاید وہ شرماتی ہے مگر ایسا نہیں ہے مجھے اس کے چہرے پر شرمانے کے نہیں بلکہ غصے ڈر خوف کے آثار نظر آئے ھیں اللہ کرے میری سوچی ہر بات جھوٹ ھو عبداللہ نے تڑپ کر دعا مانگی تھی
اچھا تم زیادہ مت سوچو اور آرام کرو صبع ہم دونوں مل کر ثانیہ سے بات کریں گے اب میں چلتی ھوں لائبہ یہ کر چلی گئی اور عبداللہ پھر سے ثانیہ کے بارے میں سوچنے لگا
ثانیہ اپنے کمرے میں آئی تو اسے پھر سے ایسا لگا جیسے آزر اس کے کمرے میں اس سے پہلے آچکا ھے مگر ہر طرف نگاہ دوڑانے پر بھی اسے کچھ دیکھائی نہیں دیا تو وہ بہت پریشان ہوگئی وہ آزر کو دیکھنا چاہتی تھی اس سے معافی مانگنا چاہتی تھی اس عجیب کشمکش میں وہ انجانے میں اپنا ہی نقصان کر بیٹھی تھی آزر کو خد سے دور کر کے وہ بھی بہت دکھی تھی اور وہ جانتی تھی آزر بھی بہت تکلیف میں مبتلا ھوگا
اور ایک طرف عبداللہ کا مسلہ بن گیا تھا ثانیہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے امی سے کیا بولے کہ اسے عبداللہ سے شادی کیوں نہیں کرنی اور اسے ایک جن زاد پسند ھے جسکی کوئی خبر نہیں آرہی تھی ثانیہ کو چاہے اسکی موجودگی کا احساس بار بار ھو رہا تھا مگر اب اسے لگنے لگا تھا کہ یہ اس کا وہم ھے کیونکہ وہ پریشان ھے تو یہ سب اس کا وہم ھے
ثانیہ یہ سوچتے سوچتے ہی سوگئی تھی
ایک بہت بڑا ھال کمرا تھا جس کے ایک کونے میں ایک نوجوان لڑکے کو کسی نے زنجیروں سے باندھ رکھا تھا
اور اس لڑکے کے بلکل سامنے ایک حصار کھینچا ھوا تھا اس حصار میں ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا
اس کمرے میں روشنی بہت کم تھی اور کمرے میں دھواں بھی بھرا ہوا تھا حصار میں بیٹھے آدمی نے نا جانے کیا پڑھ کر اس لڑکے کی طرف پھونکا تھا کہ اس لڑکے کی چیخ و پکار سے وہ کمرہ ہل گیا تھا
ثانیہ نے جب آگے بڑھ کر یہ دیکھنا چاہا کہ یہ کون لوگ ھیں اور آدمی اس لڑکے کے ساتھ کر کیا رہا ھے تو وہ تین چار قدم ہی چلی تھی کی اس کی نظر اس لڑکے کے چہرے پر پڑی ثانیہ کے قدم زمین نے وہی جکڑ لئے تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس کے شاہ کی ایسی حالت ھوگی ایک بار پھر سے اس آدمی نے کچھ پڑھا اور اس لڑکے پر پھونکا تو پورا کمرہ پھر سے اسکی دھاڑ سے کونج گیا ثانیہ نے کم روشنی میں دوبارا اسے دیکھ کر تسلی کرنی چاہی کے آیا یہ اس کا شاہ ہی ھے مگر ثانیہ نے جو منظر دیکھا وہ دیکھنے کے بعد تو اس کی جان ہی نکل گئی
وہ اس کا شاہ ہی تھا
جسکے سارے جسم سے خون رس رہا تھا چہرہ درد کی تصویر بنا ھوا تھا اور اس کے سامنے پیر ناصر شاہ صاحب بیٹھے تھے اس نے بھاگ کر اپنے شاہ کے گلے لگنا چاہا مگر یہ کیا وہ دوسری دیوار سے جا ٹکرائی تھی اسنے پھر سے شاہ کو چھونے کی کوشش کی مگر نہیں چھو پائی ثانیہ کا دل بہت گھبرا رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کرے تو کرے کیا
جب اس کے کانوں نے یہ سنا پیر صاحب آزر سے کہہ رھے تھے ہم نے تم پر بھروسہ کیا تمہیں ایک سچا اور اچھا جن زاد مانا اور تونے ان کے گھر کی رہی سہی خوشی بھی چھین لی بول کہاں ھے ثانیہ اسے کہاں چھپایا ھے تم نے بول دے ورنہ میں تمہیں جلا کر خاکستر کر دونگا
آزر ثانیہ کا نام لے کر زور سے دھاڑا تھا میں نہیں جانتا مجھے کچھ پتہ نہیں میں تو خد اسے ڈھونڈ رہا ہوں اور مجھے موت سے زرا بھی خوف نہیں ہے مجھے جلا دو کیونکے اگر میں زندہ بچ گیا تو پھر کوئی نہیں بچے گا سب کچھ تباہ کر دونگا مجھے میری ثانیہ چاہئے پیر صاحب کے بار بار پوچھنے پر بھی آزر بس ایک ہی بات بول رہا تھا مجھے ختم کردو آزر کی یہ حالت دیکھ کر ثانیہ تڑپ رہی تھی اسے لگ رہا تھا یہ سارے زخم آزر کے جسم پر نہیں اس کے جسم پر لگ رھے ھیں وہ کئی بار آزر اور پیر صاحب کے بیچ حمائل ھوئی مگر بے سود اب جو اس کی نظر پڑی تو پیر صاحب نے آزر کی طرف ایک خنجر پھینکا جو سیدھا جاکر آزر کے دل پر لگا تھا اور ثانیہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھی تھی وہ پسینے پسینے ھو رہی تھی اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور گلہ سوکھ کر لکڑی ھوگیا تھا
روقیہ بیگم وضو کرکے نماز پڑھنے ہی لگی تھی کے انہیں ثانیہ کی چیخ سنائی دی تو وہ بھاگ کر اپنے کمرے سے نکلی لائبہ بھی ثانیہ کے کمرے کی طرف آرہی تھی کیا ھوا چچی جان اس نے گھبراھٹ سے روقیہ بیگم کو پوچھا تھا
وہ بنا کچھ بولے ثانیہ کے کمرے میں داخل ھوچکی تھیں کیونکہ ابھی انہیں خد بھی کچھ پتہ نہیں تھا تو لائبہ کو کیا بتاتی
کمرے میں داخل ھوتے ہی انکی نظر ثانیہ پر پڑی جو پسینے سے شرابور ھانپ رہی تھی لائبہ اس کی حالت کو سمجھتے ھوے جلدی سے پانی لے آئی تھی ثانیہ نے پانی پیا اور بے یقینی سے سارے کمرے میں نظرے دوڑائی اس کے دل کو کچھ راحت ملی تھی تو یہ ایک خواب تھا ثانیہ بہت ڈر گئی تھی وہ آزر کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی تھی
کیا ھوا ثانیہ تم ٹھیک تو ہو لائبہ نے اس سے پوچھا؟
وہ ..... اسے ۔۔۔۔۔۔ مارنے۔۔۔۔۔ لگے تھے ثانیہ مشکل سے بس اتنا ہی کہہ پائی اور پانی کا گلاس دوبارا منہ سے لگا لیا
لگتا ھے کوئی برا خواب دیکھا ھے اس نے اور ڈر گئی ھے روقیہ بیگم نے لائبہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
برا ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔ بہت۔۔۔۔۔ برا۔۔۔۔ خواب ۔۔۔۔ تھا
امی جان۔۔۔۔ آپ دعا کیجیے۔۔۔ کہ یہ۔۔۔ خواب کبھی۔۔ سچ نہ ھو
بات کرتے وقت ثانیہ کے آنسو بہنے لگے تھے لائبہ نے اس کے آنسو صاف کئے ہم تو تمہاری خوشیوں کی دعا مانگے گے ہی تم بھی اٹھو اور نماز پڑھ لو فجر کی آذان ہوگئی ھے اور اپنے مہربان اللّٰہ تعالیٰ سے خد اپنے لئے دعا مانگوں بڑے سے بڑا شہنشاہ بھی اسی کے در کا سوالی ھے وہ اپنے بندوں کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ان کے اور اس کے در سے کبھی کوئی خالی نہیں آتا لائبہ نے اسے سمجھایا تو روقیہ بیگم نے لائبہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اس وقت ثاللائبہ انہیں ثانیہ کی سکی بہن لگی وہ خوش تھی کہ انکی بیٹی کو بہت اچھا سسرال مل رہا تھا جہاں سب اس سے بہت محبت کرتے تھے
اٹھو بیٹا نماز پڑھ لو میں بھی کمرے میں جائے نماز رکھ کر آئی تھی یہ کہہ کر روقیہ بیگم چلی گئی اور لائبہ نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اٹھایا کہی پھر سے نا سو جانا اٹھو جلدی ثانیہ جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تو لائبہ بھی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی
ثانیہ کو مسلسل اپنے شاہ کی موجودگی محسوس ھورہی تھی تو اس نے ایک بار پھر سارے کمرے میں دیکھا کوئی بھی نہیں تھا اب اسے لگ رہا تھا کے وہ پاگل ھوجائے گی بہت ساری سوچیں ایک ساتھ دماغ پر زور ڈال رہی تھی اس نے سر جھٹکا اور جلدی سے وضو کرکے آئی نماز پڑھی اور رو رو کر آزر کی سلامتی کی دعائیں مانگی
اے میرے مالک میرے دل میں اسکی محبت تونے ہی ڈالی ھے میری مدد فرما اسے میرا محرم بنا دے سب تیرے اختیار میں ہے تجھ سے کچھ بھی نہیں چھپا میرے ہر معاملے میں میری مدد فرما جو میرے لئے بہتر ھے وہ عطا کردے اور جو بہتر نہیں اس کی تمنا ہی دل سے مٹا دے یہ کہتے ہوئے ثانیہ کا دل کانپ گیا تھا اس نے دل میں سوچا تھا کیا شاہ میرے لئے بہتر ہے اس سے آگے وہ سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی
اے مالک الملک میں نے اپنے مسائل کی پوٹلی تیرے سامنے رکھ دی مجھ میں ان کو سلجھانے کی سکت نہیں ھے توں تو سب کے بگڑے کام بناتا ہے توں میری مدد فرما میں ہر معاملے میں بے بس ھوں توں عظیم ھے اے اللہ میں نے سب تیرے سپرد کیا میرے گھر والوں کی عزت اور میری محبت سب تیرے حوالے کانپتے ھونٹوں سے ثانیہ نے آمین بولا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا آنسوؤں سے تر چہرا صاف کیا اور جائے نماز سے اٹھ گئی
گاؤں سے آتے وقت اس کا سامان صاحبہ نے پیک کیا تھا تو اس نے آزر کا قرآن پاک بھی ثانیہ کے سامان میں رکھ دیا تھا ثانیہ نے وہی قرآن کریم بہت احترام سے اٹھایا چوما اور سینے سے لگائے ہوئے باہر لان میں آ گئی جہاں صبح کا نور پھیل چکا تھا مگر ابھی تک سورج نہیں نکلا تھا ٹھنڈی ھوا نے اس کا استقبال کیا تھا پھولوں نے اپنی خوشبوئے اس پر نچھاور کی تھی ثانیہ لان میں لگے جھولے پر آکر بیٹھ گئی اور ناجانے کیوں آج اسنے سورہ فتح کی تلاوت شروع کر دی جب وہ اپنے کمرے سے نکلی تھی تو وہ سوچ رہی تھی وہ سورہ ملک کی تلاوت کرے گی مگر سب سے پہلے قرآن کو کھولنے پر اسے سورہ فتح نظر آئی اس نے وہی پڑھنی شروع کر دی جیسے جیسے ثانیہ تلاوت کر رہی تھی اسکی روح پرسکون ھوتی جارہی تھی ثانیہ اپنی ہی مستی میں تلاوت کررہی تھی اس بات سے انجان کے کوئی اسے بہت قریب سے دیکھ اور سن رہا تھا
سورہ مکمل کرکے ثانیہ نے سر آسمان کی طرف اٹھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا اس وقت ہی اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ھوا اس نے جلدی مڑ کر دیکھا تو اس کے پیچھے عبداللہ کھڑا تھا ثانیہ بھی اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور بنا دوبارا عبداللہ کو دیکھے وہ وہاں سے جانے لگی جب عبداللہ نے آگے آکر اسے روکا
مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ثانیہ
عبداللہ نے سنجیدگی سے اسے بولا
ثانیہ نے سر اٹھایا جی بولیں
دو ٹوک جواب تھا
میں آپ سے محبت کرتا ہوں
عبداللہ کو بات گھوما کر کرنا نہیں آتا تھا اس لئے وہ سیدھے پوائنٹ پر آیا
ایسا مزاق بار بار نہیں کیا کرتے ثانیہ نے گاؤں والی بات اسے یاد کروائی تو وہ شرمندہ سا ھوگیا اور ھولے سے بولا
آپ اگر بیٹھ جائے تو ہم ٹھیک سے بات کرپائنگے عبداللہ کے کہنے پر ثانیہ پھر سے جھولے پر بیٹھ گئی تھی
عبداللہ بھی ایک چیئر گھسیٹ کر اس کے سامنے ہی بیٹھ گیا تھا
ثانیہ نہ میں نے اس وقت جھوٹ بولا تھا اور نہ اب جھوٹ بول رہا ہوں بس کچھ وقت ان سب باتوں کے لیے موزوں نہیں ھوتے اس وقت ڈر تھا تم مجھ سے بدظن نہ ھوجاؤ اور اب ڈر ھے کے تم ریجکٹ نہ کر دو وجہ اس وقت بھی محبت تھی اور اب بھی وجہ محبت ہی ھے
اور تمہاری رائے لینا اب میرا حق بھی ھے کیونکہ اتنا تو تمہیں پتہ ہی ھوگا گھر میں ہماری شادی کی بات چل رہی ھے میں تو چاہتا ہوں کہ تمہیں اپنی دلہن بناؤں مگر مجھے یہ جاننا ھے کیا تم بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ھو یا نہیں ؟؟
ثانیہ بس عبداللہ کی طرف دیکھے جارہی تھی بہت شدت سے اس کا دل چاہا تھا کہ نہیں بول دے مگر خاموش رہ گئی تھی
ثانیہ کو ایسے خاموش دیکھ کر عبداللہ نے دوبارا اسے مخاطب کیا تھا
ثانیہ تمہیں پتہ ھے جب ہم کسی سے سچی محبت کرتے ہیں تو ہمیں ہماری خوشی سے زیادہ اس کی خوشی پیاری ھوتی ھے بے شک میں تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں مگر میں خد غرض نہیں ھوں
ثانیہ میں نہیں چاہتا میں تمہارے خوابوں کی مزار پر اپنی خوشیوں کا محل بناؤں اس لئے تم سے پوچھ رہا ہوں اگر تم کسی کو پسند کرتی ھو تو ابھی بتا دو تمہیں کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ھوگی میں خد اس شادی سے منا کردوں گا میرے لئے تمہاری خوشی سب سے زیادہ امپوٹینٹ ھے
عبداللہ کی باتوں سے ثانیہ کو کچھ حوصلہ ملا تھا اس نے نظرے جھکاتے ھوئے عبداللہ سے کہا تھا
یہ سچ ہے میں آپ سے پیار نہیں کرتی اور شادی بھی نہیں کرنا چاہتی
ابھی ثانیہ نے اتنا ہی بولا تھا کے لائبہ بھی وہی چائے لئے آگئی