لائبہ نے نظر بھر کر ثانیہ کو دیکھا تھا
کیونکہ اس نے سپنے میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ثانیہ ایسا کچھ بولے گی وہ بھی عبداللہ سے
چائے پاس ہی پڑے ٹیبل پر رکھی اور اس نے عبداللہ کا چہرہ دیکھا جس پر ایک پل میں موت کی زردی چھا گئی تھی لائبہ کے دل کو کچھ ھوا تھا کتنا پیار کرتا ھے عبداللہ ثانیہ سے مگر ثانیہ کو اسکی قدر ہی نہیں لائبہ اس پل بس یہی سوچ سکی تھی
آپ خاموش کیوں ھو گئی ھیں آپ بولے میں سن رہا ھوں
عبداللہ نے زخمی سا مسکرا کر کہا
ثانیہ اس کی حالت سمجھ رہی تھی مگر وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو کسی تور بھی کسی دوسرے کو آزر کی جگہ نہیں دینا چاہتا تھا ثانیہ نے قرآن کو سینے سے لگا رکھا تھا اسکی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا اور قرآن کے غلاف میں جذب ھوگیا
میں آپ کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتی مگر اب حقیقت جاننا آپ کا حق ھے اور بتانا میری مجبوری کیونکہ اگر آپ کو ساری بات نہ بتائی تو آپ میرے بارے میں خد سے مفروضے نہ قائم کر لیں
میں ابھی بہت چھوٹی سی تھی جب اسے مجھ سے عشق ھوا تھا آپ لوگوں کو یاد ھے میرے پاس ایک پرندہ تھا جو مجھے پیر ناصر شاہ صاحب نے تحفے کے طور پر دیا تھا جس وجہ سے میں آج بھی آپ سب کے سامنے ھوں اس نے لائبہ کو یاد دلانے کی کوشش کی
جو لائبہ کو فورن یاد آ بھی گیا مگر بات کچھ سمجھ میں نہیں آرہی تھی لائبہ نے پھر بھی ہاں میں سر ہلا دیا
اور گاؤں میں ہم ایک لڑکے سے ٹکرا گئی تھیں جس کی آپ نے بہت تعریف بھی کی تھی کہ وہ بہت اچھا ھے
ہاں ہاں کیا نام تھا اس کا "محمد شاہ" لائبہ نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا اور محمد شاہ کا چہرہ لائبہ کی آنکھوں کے سامنے تھا وہ واقعی بہت اچھا تھا اور خوبصورت تو انتہا کا تھا جب وہ قرآن کریم پڑھتا تھا تو لائبہ کو لگتا تھا وہ کسی اور ہی دنیا کا مکیں ھے
لائبہ۔۔۔ ثانیہ نے لائبہ کو پکارا
تو وہ پھر سے ثانیہ کی طرف متوجہ ھوئی
عبداللہ ان دونوں کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا اور ساتھ اپنے دھڑکتے دل کی بے ترتیبیوں کو کنٹرول کررہا تھا جو کے اسے نہ ممکن لگ رہا تھا
لائبہ اس نے مجھے پرپوز کیا تھا اپنی ماں کے کنگن بھیجھ کر پہلے تو میں نے وہ کنگن اتار کر پھینک دیئے تھے تب میں نہیں جانتی تھی یہ کس نے بھیجے ھیں مگر اس نے دوبارا مجھے اپنے تحفے کا بتایا اور میرے کمرے میں وہ کنگن دو بارا رکھ دیئے تب تک میں واقعی میں مکمل تور پر محمد شاہ کو دل کی سلطنت کا شاہ مان چکی تھی
پتہ ھے وہ کہتا تھا وہ میرا اسیر ھے
مگر اس نے مجھے اسیر کر لیا
ثانیہ نے اپنے بہتے آنسوں صاف کرتے ھوئے کہا جیسے میں سلطان سمجھتی تھی وہ بھی وہی تھا اپنی جان پر کھیل کر اس نے پانچھ سال میری حفاظت کی خد قید میں رہا میری وجہ سے اس نے اپنی طاقتیں کھو دی میرے بابا کے قاتل کو میرے سامنے جلا کر راکھ کر ڈالا
گاؤں میں دو بار مجھ پر حملہ ھوا جس میں اس نے میری جان بچائی پیر صاحب نے جب سلطان کو مجھے دیا تھا تو انھوں نے کہا تھا بیٹا یہ تمہارے لئے" قدرث کا تحفہ" ھے
ان سب واقعات کے بعد میں اچھے سے جان گئی تھی وہ میرے لئے میری سانسوں سے بھی بڑھ کر ھے مگر پھر ایک دن اس کے ایک بزرگ میرے پاس آئے جنھوں نے مجھے بتایا کہ
محمد شاہ مطلب "محمد آزر شاہ سلطان" ایک جن زاد ھے اور مجھ سے اسے واپس اسکی دنیا میں بھیجنے کا وعدہ کرگئے میں نے نا چاہتے ہوئے بھی اسے محبت کا واسطہ دے کر خد سے دور کر دیا اس کے بعد وہ کبھی میرے پاس لوٹ کر نہیں آیا
مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ انسان ھے یا جن زاد اس نے میرے لئے بہت کچھ کیا ھے سب باتوں سے بڑھ کر مجھے اس سے شدید محبت ھے
لائبہ میں اس کے سوا کسی دوسرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی میری زندگی اسی سے شروع ھو کر اسی پہ ختم ھوتی ھے
میں اسی کی ھوں وہ بچپن سے میرا اسیر تھا اس نے میری خاطر سب کچھ چھوڑ دیا تھا اور جب میری باری آئی تو میں نے سوائے دکھ اور تکلیف کے اسے کچھ نہیں دیا ناجانے وہ کس حال میں ھوگا مجھے ہر وقت اپنے کئے پر شرمندگی اور افسوس ھوتا ھے اسکی بے پناہ محبت کو میں سمجھ ہی نہیں پائی تھی اور جب سمجھی تھی تو اسے کھو بیٹھی تھی میں خد کو بڑا مہان سمجھ رہی تھی پر حقیقت میں تو میں بڑی کمزور نکلی ثانیہ یہ کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی اس کے بہتے آنسو عبداللہ کو بہت تکلیف دے رہے تھے
شاہ آپ کہتے تھے نا آپ مجھے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے پلیز لوٹ آؤ میں جان چکی ھوں میری زندگی صرف آپ ھو قرآن کو سینے میں بینچے وہ اپنے شاہ کو بلا رہی تھی
عبداللہ کا دل بے چین ھوگیا تھا
لائبہ بھی اب ثانیہ کا درد محسوس کررہی تھی
وہ ایک جن زاد ھے اور تم انسان ھو تم دونوں کیسے ایک ھوسکتے ھو عبداللہ نے ناچاہتے ھوے بھی ثانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تھا وہ جانتا تھا دل پر اگر ایک بار کوئی اپنے قدم جمالے تو اسے کھرچ پانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ھوتا ھے اسے ثانیہ کی باتیں کسی فلم کی سٹوری لگ رہی تھی وہ سمجھ رہا تھا ثانیہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی اس لئے یہ سب بول رہی ھے اس کے لئے یقین کرنا مشکل ھورہا تھا مگر ثانیہ کی حالت جو تھی وہ یہی کہہ رہی تھی اسکی بولی ہر بات سچ ھے
اور لائبہ بھی یہ جان کر حیرت کے سمندر میں غرق تھی کے محمد شاہ ایک جن زاد تھا اور ان کے بیچھ رہ رہا تھا مگر انہیں کبھی شک وشبعہ نہیں ھوا تھا
میں نہیں جانتی وہ واپس کب آئے گا پر اتنا میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کے میرے دل میں نہ پہلے آپ کے لئے کچھ تھا نہ ھے اور نہ کبھی ھوسکتا ھے
جس وقت شاہ نے میرے دل کی زمین پر قدم رکھا تھا اسی وقت باقی سب کے لئے دل کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوگئے تھے جو کبھی کسی صورت نہیں کھل سکتے
اور آپ کی بات کا جواب میں پہلے ہی دے چکی ھوں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون ھے مجھے بس محبت ھے اس سے اور بے پناہ محبت ھے ثانیہ نے پہلی بار عبداللہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا جو کے عبداللہ ا چھے سے سمجھ بھی گیا تھا
ثانیہ چائے پیئے بغیر وہاں سے اٹھنے لگی تھی جب عبداللہ بول پڑا ثانیہ میں تمہیں ہر حال میں اپنانے کو تیار ھوں کیا پتہ وہ عمر بھر نہ آئے اور تم انتظار کی سولی پر لٹکی رھو۔
وہ ضرور آئے گا مجھے یقین ہے ثانیہ نے اتنے یقین سے کہا تھا کہ عبداللہ اور لائبہ اسے دیکھ کر رہ گئے تھے
میں تمہاری خوشی کے لیے آج ہی اس شادی سے انکار کردونگا تمہیں میری وجہ سے پریشان ھونے کی ضرورت نہیں ھے عبداللہ نے پختہ لہجے میں کہا تھا
ہاں انکار کردو تاکے گھر والے جلدی سے کوئی دوسرا رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کردے یہ کس کس کو حقیقت بتاتی پھرے گی اور تمہیں گھر سے نکال دیا جائے گا تم اچھے سے جانتے ھو پھر بھی تم لائبہ کی بات سن کر
عبداللہ اور ثانیہ کے اٹھتے قدم ایک ساتھ رک گئے تھے تو آپ ہی بتاؤ بھابھی میں کیا کروں
گھر والے جو کرتے ہیں انہیں کرنے دو اور ثانیہ تم جتنی جلدی ھوسکے اسے بلانے کی کوشش کرو باقی سب قسمت پر چھوڑ دو اگر اسکا اور ثانیہ کا ایک ھونا تقدیر میں لکھا جاچکا ہے تو وہ آکر لے جائے گا اسے ورنا یہ کہیں اور رسوا ھوتی پھرے اس سے بہتر ھے ہمارے ساتھ ہی رہے لائبہ کا اشارا عبداللہ کی طرف تھا عبداللہ بھی لائبہ کو مشکور آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور ثانیہ نے بھی قسمت پر سب چھوڑ کر ہاں میں سر ہلا دیا تھا عبداللہ کے چہرے پر اب کچھ اطمینان اترا تھا
چائے ٹھنڈی ھوچکی تھی لائبہ چائے اٹھا کر واپس جاچکی تھی عبداللہ اور ثانیہ ایک دوسرے کی طرف پشت کئے وہی کھڑے تھے
جب ثانیہ بولی تھی
عبداللہ
اسکی زبان سے اپنا نام سن کر عبداللہ جی جان سے اس کی طرف مڑا تھا
مجھے معاف کر دیں میں آپ کا انتظار نہ سکی!!!
ثانیہ نے عبداللہ کے آگے ہاتھ جوڑے اور معافی مانگی
عبداللہ کو اپنا دل کٹتا ھوا محسوس ھوا
اس نے ثانیہ کے ہاتھوں کو تھاما تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ھے پگلی
اور ویسے بھی محبت سوچ سمجھ کر یا دیکھ بھال کر تھوڑی ھوتی ھے وہ تو بس ھوجاتی ھے میری طرف سے اپنا دل صاف رکھو مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ھے
تھوڑی خاموشی کے بعد ۔۔۔۔۔
ویسے ایک بات بتاؤ کیا وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت ھے عبداللہ نے ثانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا
نہیں۔۔ ثانیہ غصے سے بولی تھی
اسکے غصے میں بھی شاہ کے لیے پیار تھا
پورا جن ھے وہ
وہ خوبصورت نہیں ھے
بہت برا ھے میرے کہنے پر مجھے چھوڑ کر چلا گیا ایسا بھی کرتا ھے کوئی کیا اپنی محبت کے ساتھ
ثانیہ منہ بناتے ہوئے بولی تھی
اور عبداللہ ہنس دیا تھا
میری خوبصورتی کا کیا فایدہ محبت تو تمہیں اس جن سے ہی ھوگئ نا عبداللہ اس بار کھل کر مسکرایا تھا
ثانیہ نے اس کی آنکھوں میں درد کی ایک لہر دیکھی تھی مگر پھر بھی اس کے مسکرانے میں اس کا ساتھ دے گئی تھی جوکہ عبداللہ کو اچھا لگا تھا
روقیہ بیگم جو ابھی ابھی لان میں آئی تھی ثانیہ اور عبداللہ کو ایک ساتھ مسکرا کر بات کرتے دیکھا تو انہیں دعائیں دیتی وہی سے واپس چلی گئی بہت عرصے بعد ایک ماں نے اپنے بچی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تھی
جب کے عبداللہ ثانیہ کی آنکھوں کے بھیگے کونے دیکھ کر بولا تھا
۔۔۔۔ کھیلتی ہے دلوں کے ساتھ 

زندگی بہت شرارتی ھے محترمہ 

اب دونوں اپنے اپنے کمروں کی جانب قدم بڑھا چکے تھے
آزر نے اپنی طاقتوں سے پتا چلایا تھا کہ شمعون کالے پہاڑوں والے مندر میں چھپا بیٹھا ہے قہوت اور اسکی بیوی کو شمعون نے بندی بنا لیا تھا اور کالے مندر میں جس
(جن ذادی) عورت نے آزر پر تیر چلایا تھا اسی کے کہنے پر شمعون یہ سب کر رہا تھا اس عورت نے شمعون سے شادی کرنے اور بہت سے خزانے دینے کا وعدہ کیا تھا آزر تو اسے کمزور سمجھ کر چھوڑ آیا تھا کیونکہ وہ عورتوں پر دست درازی کرنے کا کائل نہیں تھا مگر اس عورت نے قسم کھائی تھی اپنے باپ کے قتل کا بدلہ آزر سے لے کر رہے گی
اور اسی قسم کو پورا کرنے کے لیے اس نے شمعون کو محرہ بنایا تھا جو کے آسانی سے اسکی باتوں میں آبھی گیا تھا
چاہے خان بابا جیسے بھی تھے جو بھی انھوں نے کیا تھا لیکن یہ بھی سچ تھا وہ آزر سے محبت تو کرتے تھے اور آزر کے سامنے اب ان کا بیٹا تھا اس لئے وہ ایک بار خان بابا سے اس بارے میں بات کرنا چاہتا تھا
ورنا تو اس کی رگوں میں خون کی جگہ آگ دوڑ رہی تھی قہوت اسکو بھائی کی طرح پیارا تھا آزر کو وہاں بلانے کے لیے انھوں نے اسے بندی بنایا تھا
وہ خان بابا سے بات کرنے گھر جانے لگا جب اسے محسوس ہوا خان بابا درگاہ کی طرف جارہے ہیں وہ بھی ان کے پیچھے ھو لیا انکی بات کے لئے درگاہ سے اچھی جگہ کوئی ھو ہی نہیں سکتی تھی کیونکہ درگاہ کی حد میں آتے ہی کالی کشتیاں جل کر راکھ ھوجاتی تھی
یہ درگاہ انکی وادی سے زرا دور برفیلے علاقے میں واقع تھی اللہ کے بہت ہی نیک بندے کی مزار تھی اور آزر کے قبیلے والے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرین کے بعد اس درگاہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے اور خد آزر بھی یہاں آکر خد کو پرسکون محسوس کرتا تھا پہلے خان بابا درگاہ پہنچے وضو کرکے درگاہ کے ساتھ والی مسجد میں نفل پڑھے اور دعا مانگنے لگے آزر ان کا انتظار درگاہ پر کر رہا تھا
کے وہاں قوالی ھونے لگی
آزر نے خد کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر روک نہیں پایا اس کے اندر سوئے عشق نے جھومنا شروع کر دیا اب سب کی نظر آزر پر تھی اور وہ اپنی ہی مستی میں نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں پڑھی جانے والی قوالی پر جھوم رہا تھا اور خان بابا اسے دیکھے جا رھے تھے
اچانک آزر کی آنکھیں برسنا شروع ھوگئی تھی اور جیسے ہی قوالی ختم ہو ئیں ثانیہ کا چہرہ آزر کی آنکھوں میں آسمایاتھا درد ہی درد اسکی آنکھوں سے چھلکنے لگا تھا خان بابا نے آگے بڑھ کر آزر کو تھاما اور ایک سائڈ پر لے جاکر آزر کو بیٹھایا جو اپنی بے ترتیب ھوتی سانسوں سے منہ ہی منہ میں کچھ بول رہا تھا
۔
اے "عشق" ادھر آ تجھے "عشق" سکھاؤں
در یار میں بیٹھ کر تجھے "بیعت" کراؤں
تھک جاتے ہیں لوگ اکثر تیری عین پر آ کر
عین شین سے آگے تیرے "قل" میں سماؤں
اے عشق تیرا عاشق ھوں آ سنگ تو میرے
سینے سے لگا کر تجھے سر مست بناؤں
تو جھوم اٹھے دیکھ کے "دیوانگی" میری
آ وجد کی حالت میں تجھے رقص سکھاؤں
خان بابا نے اس کا سر سہلایا تو اس نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا اسکی آنکھوں میں اتنا درد تھا کہ خان بابا اسکی آنکھوں میں دیکھ ہی نہ پائے تھے سر جھکا کر بس اتنا بولے
مجھے معاف کر دے میرے بچے میں خد غرض ھو گیا تھا
آزر نے ان کا ہاتھ تھام لیا خان بابا شمعون میرے خلاف کھڑا ھوگیا ھے مجھے بتائے میں کیا کروں آزر بے بسی سے بولا تھا
جانتا ہوں بیٹا وہ صرف تمہارا ہی نہیں اللہ کا بھی مجرم ھے کیونکہ اس نے تمہیں نیچا دکھانے کے چکر میں اپنا مذہب بھی بدل لیا ھے اور آج سے میرا صرف ایک ہی بیٹا ہے محمد آزر شاہ سلطان میں کسی شمعون کو نہیں جانتا وہ میرے رب کا نافرمان ھوا ھے اب میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں تم اس سے وہی سلوک کرنا جو ایک دشمن سے کیا جاتا ہے مجھے تم سے کوئی شکوہ نہ ھوگا
اللہ تعالیٰ تمہیں کامیاب کرے آمین
خان بابا بس اتنا کہہ کر جاچکے تھے آزر جانتا تھا خان بابا نے شمعون کو کتنے لاڈ پیار سے پالا تھا انھوں نے دل پر پتھر رکھ کر یہ سب بولا تھا
آزر نے اپنے پر کھولے اور پرواز کرنے لگا اس کا رخ کالے پہاڑوں کی طرف تھا اور آنکھوں میں قہوت کا معصوم سا چہرہ آزر نے طے کر لیا تھا آج کچھ بھی باقی نہیں رہنے دے گا سب کچھ راکھ کر دے گا مگر وہ ابھی تک آدھا سچ جانتا تھا اور آدھے سچ کا اسے علم ہی نہیں تھا
آج آغا کاؤس میں سب بہت خوش تھے کیونکہ عبداللہ اور ثانیہ کی شادی کی ڈیٹ فکس ھوگئی تھی اور صرف دس دن کا گیپ رکھا گیا تھا کیونکہ علی کو پورے ایک سال کے لیے کام کے سلسے میں ملک سے باہر جانا تھا اور سب کا کہنا تھا کہ ایک سال تک ویٹ نہیں کرسکتے اس لئے انہیں دس دن بعد ہی شادی کی ڈیٹ رکھنی پڑی مگر وہ سب بہت خوش تھے صرف ثانیہ ہی تھی جو گم سم تھی
اور عبداللہ اسے ایسے دیکھ کر پریشان تھا کے اگر شادی واقعی میں ھوگئی تو وہ ثانیہ کی نظر میں گر جائے گا مگر اور وہ کر بھی کیا سکتا تھا ثانیہ کی عزت کی خاطر ابھی وہ اس شادی سے انکار نہیں کر سکتا تھا سو دونوں چور نظروں سے ایک دوسرے کو ایک آدھ بار دیکھ چکے تھے
ایک لائبہ ہی تھی جو ان دونوں کا ساتھ دے رہی تھی باقی سب اس کھچڑی سےانجان تھے
سب لوگوں نے مل کر کھانا کھایا اور شام کی چائے سب کے کہنے پر باہر لان میں پی گئی اور اب سب بڑے باتوں میں مصروف تھے
علی اور لائبہ بھی کوئی پرسنل بات کرکے مسکرا رھے تھے
چھوٹے سب کزنز بھی اپنے اپنے موبائلز میں بزی تھے
ثانیہ اور عبداللہ چپ سادھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ایسا لگ رہا وہ دونوں کسی اور ہی دنیا کے باسی ھوں اور غلطی سے ادھر آ بھٹکے ھوں
ایک دم سے تیز ہوائے چلنا شروع ھوگئی تھی عجیب و غریب آوازیں سنائی دینے لگی اور شور اتنا زیادہ تھا کہ سب نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے تھے
اس اچانک افتاد کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا سب بہت گھبرا گئے تھے
اچانک وہاں ایک عفریت نازل ہوئی تھی جیسے دیکھ کر ڈر کے مارے سب کی چیخے نکل گئی تھی ثانیہ نے بے اختیار اپنے گلے کو چھوا تھا جہاں پیر صاحب کا دیا تعویز ھوا کرتا تھا جو کے اب نہیں تھا
اب وہ عفریت ثانیہ کی طرف بڑھ رہی تھی سب کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کیا کریں شور بدستور ویسے کا ویسا ہی تھا ایک دوسرے کی آواز تک سنائی نہیں پڑ رہی تھی
اس عفریت نے ایک ہی جست میں ثانیہ کا بازو اپنے ہاتھ سے جکڑا تھا ثانیہ کی آواز اس کے گلے میں ہی کہیں پھنس گئی تھی وہ ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی مگر بے سود سب ایک ساتھ ثانیہ کی طرف لپکے تھے صرف عبداللہ کا ھاتھ ثانیہ کے ہاتھ سے ٹکرایا تھا اس نے ایک پل کی دیری کئے بنا ثانیہ کا ہاتھ زور سے تھام لیا تھا اب ہر طرف دھواں پھیل گیا تھا پھر کچھ دیر میں شور اور آوازیں ایک ساتھ بند ہوگئی
دھواں چھٹنے میں 5 منٹ لگے تھے سب ایک دوسرے کو آوازیں دے رھے تھے کہ آیا سب ٹھیک ھیں کسی کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا سب لوگ موجود تھے بس ثانیہ اور عبداللہ نہیں تھے مطلب وہ جو کوئی چیز تھی انہیں اپنے ساتھ لے گئی تھی ثانیہ کی امی کا رو رو کر برا حال تھا اور دوسری طرف عبداللہ کی امی جان کا بھی یہی حال تھا کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ایک پل میں کیا ھوگیا ھے
پہلے تو لائبہ کا دل کیا وہ آزر کے بارے میں سب سچ سچ بتا دے مگر پھر ایک خیال کے آتے ہی اس نے دل کی بات دبادی اسے نہیں لگتا تھا کہ آزر یہ سب کر سکتا ہے اس لئے اس نے چپ رہنے میں ہی بہتری جانی
سب لوگ اتنے پریشان تھے کے ان کے دماغ چلنا بند ہوگئے تھے اچانک روقیہ بیگم کو پیر ناصر شاہ صاحب یاد آئے تو انہوں نے ضد پکڑ لی کے پیر صاحب کو بلاؤ
علی نے جلدی سے حاکم چچا کو کال کی ان سے شاہ لطیف کا نمبر لیا اور پھر شاہ لطیف نے جیسے ہی کال اٹینڈ کی علی نے انہیں ساری بات بتائی اور پیر صاحب کو ساتھ لانے کا بولا تو لطیف شاہ نے علی کو سمجھایا بیٹا اس ٹائم بہت رات ھو چکی ھے اور اس ٹائم پر پیر صاحب چلہ کرتے ھیں میں صبع فجر کے وقت ان سے مل پاؤنگا کیونکہ ان کا چلہ اس وقت ہی مکمل ھوتا ھے میں ان کو ساری بات بتاؤنگا اور ہم فجر پڑھ کر وہاں سے نکل آئے گے تب تک آپ سب کو صبر رکھنا ھوگا یہ کہہ کر شاہ لطیف نے کال کاٹ دی تھی
اور علی بھائی نے بڑی مشکل سے سب کو سنبھالا تھا ایک طرف اسکی بہن جیسی کزن تھی اور دوسری طرف اسکا پیارا بھائی تھا علی خد بھی ٹوٹ گیا تھے مگر نا جانے کیسے خد کو کمپوز کیے وہ سب کی ڈھارس بندھا رہا تھا
روقیہ بیگم کو بے ھوشی کے دورے پڑنے لگے تھے وہ سب کچھ کھو چکی تھیں اب اپنی بیٹی نہیں کھونا چاہتی تھی ایک پل میں ان کے سامنے سے ان کے بچے غائب ہو گئے تھے روقیہ بیگم کی حالت زیادہ بگڑ گئی تھی علی نے اپنے فیملی ڈاکٹر کو کال کرکے گھر بلوایا تو ڈاکٹر نے ان کو پرسکون کرنے کے لئے نیند کا انجیکشن لگا دیا تھا جس سے کچھ ہی دیر میں وہ سو گئیں سب گھر والے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے انکو اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا گھر کی سب عورتیں روقیہ بیگم والے کمرے میں ہی رک گئی تھیں جب کے سب مرد اور لڑکے دادا جان کے روم میں بیٹھے بار بار یہی سوچ رھے تھے کہ ثانیہ اور عبداللہ ٹھیک تو ھونگے نا؟
شمعون اور وردہ ایک ساتھ کالے پہاڑوں پر اترے تھے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تھے ثانیہ کو ساتھ لے آئے تھے مگر ثانیہ کا ہاتھ پکڑے عبداللہ بھی انکے ساتھ ہی آگیا تھا کیونکہ شمعون اور وردہ نے اپنی طاقتوں کے زور پر ایک دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کیا تھا اور ثانیہ کو ساتھ لانے میں کامیاب ھو نے کی خوشی میں وہ یہ دیکھ نا پائے کہ عبداللہ بھی انکے ساتھ ہی آرہا ہے
شمعون تو عبداللہ کو دیکھ کر چلا ہی اٹھا تھا مگر جب وردہ نے عبداللہ کو دیکھا تو پہلی نظر میں ہی اس پر فدا ھوگئی اس نے شمعون کو سمجھایا کہ اب تو یہ آچکا ہے اور ہم کو دیکھ بھی چکا ہے اب اسے واپس چھوڑنے کے چکر میں ہم پھنس ہی نہ جائے اور ویسے بھی اس انسان سے بھلا ہمیں کیا خطرہ ھوسکتا ھے تو شمعون بھی خاموش ھوگیا
ثانیہ تو پہلے اس جگہ آچکی تھی اس لئے وہ اب خد کو سنبھال چکی تھی اور ثانیہ اس عورت وردہ کو دیکھ کر پہچان گئی تھی کہ یہ وہی ھے جس نے اسکے شاہ کو زخمی کیا تھا مگر اس کے ساتھ جو لڑکا تھا ثانیہ اسے پہلی بار دیکھ رہی تھی
عبداللہ حیرانی سے یہ سب دیکھ رہا تھا ثانیہ کی بتائی ہوئی ہر بات سچ ثابت ھو چکی تھی اب دونوں کو ایک کھنڈر نما جگہ پر لایا گیا تھا جہاں شمعون نے انہیں رسیوں سے باندھا اور خد باہر نکل گیا جب کہ وردہ ان دونوں کو غور سے دیکھ رہی تھی
تمہاری وجہ سے یہ سب شروع ھوا ھے تمہاری موت کے ساتھ ہی ختم ھوگا تمہیں تو میں نہیں چھوڑوں گی نہ تم بچو گی اور نہ ہی آزر بچے گا وردہ نے ثانیہ کی طرف انگلی کرکے بولا تھا ثانیہ دل میں بس سوچ کر رہ گئی تھی
اک طرف ھیں یہ خسارے سارے جہان کے
اک طرف میرے ہاتھوں سے گوایا ھوا توں
مگر ثانیہ آگے سے کچھ نہیں بولی تو وہ عبداللہ کی طرف پلٹی اور تم !!!
تم ہمیشہ میرے غلام بن کر رھوگے یہاں ہاہاہاہاہاہاہا
وردہ نے ایک زور دار کہکا لگایا تھا اور وہاں سے چلی گئی تھی
اب ثانیہ عبداللہ سے غصہ ھو رہی تھی
میرا ہاتھ کیوں پکڑا تھا آپ نے؟
کیوں کا کیا مطلب
میں تو تمہیں بچانے کی کوشش کررہا تھا عبداللہ نے بے چارگی سے کہا
اچھا کرلی کوشش میرے ساتھ ساتھ خد بھی پھنس گئے
اچھا ھے نا تمہیں تو مجھے تھینکس بولنا چاہئے کہ تم یہاں اکیلی نہیں ھو
میں بھی تمہارے ساتھ ہوں کم از کم ایک دوسرے سے کوئی بات ہی کر لینگے تم بور نہیں ھوگی عبداللہ نے شرارت سے کہا
اس بار ثانیہ بھی مسکرائی تھی
ویسے یہ لوگ ھیں کون انسان تو نہیں لگتے
عبداللہ نے پھر سے پوچھا؟
ہاں یہ انسان نہیں ھیں یہ عورت ایک جن زادی ھے اور اس کے ساتھ جو آدمی ھے اسے میں نہیں جانتی مگر وہ بھی عام انسان نہیں لگ رہا عبداللہ کے پوچھنے پر ثانیہ نے اسے بتایا تھا
عبداللہ دیکھ رہا تھا کہ ثانیہ یہاں بہت پرسکون نظر آرہی تھی وہ نا تو گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی اور نہ ہی ڈری ہوئی
عبداللہ کو بہت حیرت ہوئی موت کے منہ میں آکے کوئی اتنا پرسکون کیسے ہو سکتا ہے اس سے رہا نہ گیا تو اس نے ثانیہ سے پوچھ ہی لیا
تم اتنی پرسکون دیکھائی دے رہی ھو
کوئی خاص وجہ ھے کیا ؟
عبداللہ نے بڑے تجسس سے کہا
ثانیہ نے پہلے عبداللہ کو دیکھا اور پھر بولی
یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر آزر کی وادی ھے جہاں کا وہ سلطان ھے اگر اسے میری زرا سی خوشبو بھی پہنچی تو دوسرے ہی پل وہ ہمارے سامنے ھوگا اور اگر میری خوشبو اس تک نہ بھی پہنچی تو یہ لوگ اسے خد بلائے گے یہاں ضرور میرے بدلے یہ لوگ آزر سے کوئی سودا کریں گے جس کے لئے اسے جہاں آنا ہی ھوگا ثانیہ نے بڑے آرام سے عبداللہ کو بتایا تو وہ سر ہلا کر خاموش ہو گیا
شاہ لطیف اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے جب انکو پیر ناصر شاہ صاحب کی کال موصول ہوئی سلام دعا کے بعد پیر صاحب نے حال احوال پوچھا سب خیر خیریت معلوم کی جس پر پہلے تو شاہ لطیف نے ان سے ان کے چلے کے بارے پوچھا جوکے انھوں نے بتایا کہ طبیعت کچھ ناساز تھی اس لئے آج نہیں کیا چلہ تو پھر شاہ لطیف نے انہیں ثانیہ اور عبداللہ کے غائب ہونے والی بات بتائی اور یہ بھی بتایا کہ ان دونوں کی شادی ھونے والی تھی تو پیر صاحب کا شک سیدھا آزر پر ہی گیا تھا اور انھوں نے اسی وقت آزر کو اپنے پاس بلانے کا ارادہ کر لیا تھا