پیر صاحب خد پہ بہت غصہ تھے کہ وہ آزر سے بے خبر کیسے رہ گئے آخر ھے تو وہ ایک جن زاد ہی نہ جو کچھ بھی کرسکتا ھے وہ تو خد پیر صاحب کو بتا چکا تھا کہ وہ ثانیہ سے سچا عشق کرتا ہے وہ ثانیہ کو کسی اور کی کیسے ھونے دے سکتا تھا یہ سب اسی نےکیا ھے
پیر صاحب نے آزر سے غافل ہو کر بہت بڑی غلطی کردی تھی ایسا ان کو لگ رہا تھا انھوں نے فوراً شاہ لطیف کو اپنے آستانے پر بلایا شاہ لطیف بھی بنا دیر کئے ان کے پاس پہنچ گئے تھے اب دونوں پیر صاحب کی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے اور گاڑی آغا ھاؤس کی طرف گامزن تھی
آزر درگاہ سے سیدھا کالے پہاڑوں کی طرف ھوا کے دوش پر تیزی سے سفر کر رہا تھا جب اس کی نظر ایسے ہی اپنی وادی سے گزرتے ہوئے اپنے محل کی چھت پر پڑی جہاں آگ کا ایک الاؤ جلا ھوا تھا آزر نے پھر سے دیکھا تو اس آگ کے پاس شہربانو کھڑی تھی اور وہ آگ کوئی ایسی ویسی آگ نہیں جادوئی آگ تھی
آک پل میں آزر کو سب کچھ سمجھ آگیا تھا اور اب وہ بڑی سرعت سے اپنے محل کی چھت پر اترا تھا اور آگ کی طرف بڑھتی ہوئی شہر بانو کو اپنی طرف کھینچا تھا اور وہ آزر کی مظبوط بانہوں میں مچل کر رہ گئی تھی اور بار بار خد کو آگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کررہی تھی غصے میں آزر نے ایک زور دار تھپڑ شہربانو کے گال پر دے مارا پاگل ہو گئی ھو کیا یہ کیا کرنے جارہی تھی تم تمہیں پتہ بھی ھے کہ تمہارے بعد خان بابا کا کیا حال ھونا تھا پہلے ہی شمعون کی وجہ سے وہ بہت دکھی ھیں اوپر سے تم یہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کررہی ھو آزر شہربانو پر برس پڑا تھا
۔
شہر بانو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی کیا کروں میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا میں اتنی ہی بری ھوں کے آپ نے مجھے ٹھکرا دیا
آزر میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں آپ کوکھوکر جینا نہیں چاہتی میں آپ ہی بتاؤ میں کیا کروں شہربانو آزر کے گریبان کو پکڑے اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔
آزر کی سرخ آنکھوں میں بھی اب سمندر چھلک پڑا تھا آزر نے شہر بانو کی ردا اس کے سر پر اوڑھائی جوکے اس سارے معاملے میں نیچے گر گئی تھی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر نیچے محل میں لے آیا بیٹھو یہاں آزر اتنے نرم لہجے میں بولا کے شہربانو آزر کو دیکھتے ھوئے آرام سے بیٹھ گئی
شہربانو تم میرے لئے بہت معزز ھو میں تمہاری بہت عزت کرتا ہوں پلیز میری خاطر خد کو اتنا مت ستاؤ کے میں خد کو گناہ گار سمجھنے لگوں آج اگر تم اپنے ساتھ کچھ غلط کرلیتی تو میں تو کبھی کسی سے نظر نہ ملا پاتا پلیز مجھے سمجھنے کی کوشش کرو میں اگر تم سے شادی کر بھی لوں تو بھی تمہیں کبھی دل سے اپنی بیوی نہیں مان سکوں گا
میں اپنے عشق میں کافر نہیں ھونا چاہتا میرا عشق ثانیہ سے شروع ہو کر اسی پر ختم ھے میں نے کبھی بھی تمہارے بارے میں ایسا نہیں سوچا اور بری کی تو کوئی بات ہی نہیں ھے تم سے زیادہ خوبصورت اور اچھی لڑکی اس پوری وادی میں نہیں چاھو تو میری قسم لےلو
مگر میں تم سے شادی نہیں کرسکتا میں وہ رشتہ جوڑنا نہیں چاہتا جو میں نبھا نہ سکوں آزر نے شہربانو کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے تھے مجھے معاف کردو شہربانو پر یہ میرے اختیار میں نہیں اب کی بار آزر کی آنکھوں سے آنسوں بہہ گئے تھے جنہیں شہربانو نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے صاف کیا تھا
اور بولی تھی
جاؤ آزر اب میں مزید تمہارے رستے کی دیوار نہیں بنوں گی تمہیں تمہاری محبت مبارک ہو
مگر آزر شہربانو کے یہ الفاظ سن کر حیران رہ گیا اور عمر بھر کے لئے اس کا مقروض ھوگیا تھا
شہربانو ھولے سے اس کے سامنے سے اٹھ گئی تھی اور جانے لگی تھی جب آزر نے کہا دوبارا کوئی ایسی ویسی حرقت تو نہیں کرو گی نا؟
اور شہربانو نے نہ میں سر ہلایا تھا اور ایک زخمی سی مسکراہٹ ھونٹوں پر سجائے وہاں سے چلی گئی تھی
ابھی فجر کی آذان ھونے میں بہت وقت تھا جب پیر صاحب آغا ھاؤس پہنچ گئے تھے سب کے اترے ہوئے چہرے دیکھ کر پیر صاحب کو بڑی شرمندگی ھوئی تھی علی بھائی نے ان کو بیٹھایا اور پانی وغیرہ پلایا اور کھانے کا پوچھا مگر پیر صاحب نے صاف انکار کر دیا اور سب کو حوصلہ دیا کے ان کے بچوں کو کچھ نہیں ھوگا انشاء اللہ بہت جلد وہ دونوں آپ سب کے ساتھ ھونگے
اور پھر پیر صاحب نے علی بھائی کو ایک علیحدہ کمرے کا انتظام کرنے کو بولا جو بلکل خالی ھو علی بھائی نے ایک روم جس میں بہت کم سامان تھا خالی کروایا لائبہ اور علی کی امی نے مل کر اس کمرے کو بلکل خالی اور صاف شفاف کر دیا تھا
یہ ایک بڑا ھال کمرا تھا اب پیر صاحب نے سب کو بولا کے آپ سب اس کمرے کی طرف نہیں آئنگے اب آپ لوگ جاؤ یہاں سے تو سب لوگ انھیں وہی چھوڑ کر اپنے کمروں میں چلے گئے
پیر صاحب نے اس بڑے ھال کمرے میں اپنی جائے نماز تسبیح اور قرآن کریم رکھا اس کے بعد اس کمرے میں اگر بتیاں جلائی ساری کھڑکیاں اچھے سے بند کی اور شاہ لطیف نے ساری زیادہ روشنی والے گلوب اتار دئیے بس ایک کم روشنی والا چھوٹا گلوب رہنے دیا
اور اب کمرے کا دروازہ بھی بند کر دیا گیا تھا شاہ لطیف ایک حصار کھینچ کر اس کے اندر بیٹھ گئے تھے اور پیر صاحب اپنی جائے نماز پر بیٹھ کر ایک آیت کا ورد کرنے لگے تھے اور اشارے سے شاہ لطیف کو بھی اسی آیت کا ورد کرنے کو بولا تھا اور کچھ ہی دیر ایسے گزری تھی کے کمرے میں دھواں بھرنا شروع ھوگیا تھا اور پیاری سی خوشبو سے کمرہ معطر ھوگیا پیر صاحب کو آزر کو بلانے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی
آزر ابھی کالے پہاڑوں پر اترا ہی تھا کے اسے ہر طرف سے ثانیہ کی موجودگی کا احساس ھونے لگا تھا ایک لمحہ لگا تھا آزر کو یہ سمجھنے میں کہ صرف قہوت اور صاحبہ ہی نہیں ان لوگوں نے ثانیہ کو بھی بندی بنایا ھوا ھے اس سے پہلے کے آزر کوئی قدم اٹھاتا اسے کسی نے اپنی طرف بلانا شروع کر دیا تھا آزر نے بھی اپنی طاقتوں کے زور سے خد کو روکے رکھا مگر پھر اسے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم دی گئی تو ایک پل کی بھی آزر نے دیر نہ کی اور دوسرے ہی لمحے پیر صاحب کے سامنے تھا
ثانیہ نے بھی آزر کی خوشبو محسوس کی تھی ایسے جیسے بہت قریب سے مگر بہت انتظار کے بعد بھی آزر اسے نظر نہیں آیا ثانیہ کا دل دکھا تھا وہ دل سے آزر کو بلا رہی تھی مگر وہ تھا کہ ضد کئے بیٹھا تھا ثانیہ نے دل میں ایک پل کو سوچا تھا کہیں میں نے آزر کو ہمیشہ کے لیے کھو تو نہیں دیا
جی میں آتا ہے کہ اک بار تو چیخوں ایسے
ساری دنیا کو خبر ھو کے تجھے کھویا ہے
اور یہ سوچ آتے ہی ثانیہ رو دی تھی
عبداللہ نے ایک دم رونے پر ثانیہ کو حیرت سے دیکھا اور پوچھا تھا کیا ھوا ھے ثانیہ ؟
وہ یہاں آیا ھے عبداللہ مگر میرے سامنے نہیں آرہا مجھے اس کی خوشبو آرہی ہے وہ کہیں پاس ہی ھے مگر
مگر کیا ثانیہ ؟
وہ میرے پاس کیوں نہیں آرہا کہیں وہ مجھے بھول تو نہیں گیا دو سال بہت بڑی مدت ھے !!!
ثانیہ کو ایسے پریشان ھوتے دیکھا تو عبداللہ بھی کچھ پریشان سا ھوگیا مگر کچھ دیر بعد وردہ اور شمعون دو لوگوں کو ساتھ لئے آئے تھے اور انہیں بھی وہی باندھ دیا تھا جہاں عبداللہ اور ثانیہ بندھے تھے انہیں باندھ کر وہ دونوں وہاں سے جاچکے تھے جب قہوت اور صاحبہ نے حیرت سے ثانیہ کو دیکھا
دیدی آپ یہاں قہوت ثانیہ کو یہاں دیکھ کر بہت حیران ھوا تھا اور پریشان بھی اسے اندازہ ھوگیا تھا آزر کسی مشکل میں پھنس گیا ھے مگر اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ ہر طرح کے حالات سے مقابلہ کرنا اچھے سے جانتا ہے
ہممم ۔۔۔ ثانیہ نے ان دونوں کو دیکھ کر کہا
تم انہیں بھی جانتی ھو ؟
عبداللہ نے ایک سوال کیا
ہاں جانتی ھوں یہ قہوت ھے آزر کا دوست اور یہ صاحبہ قہوت کی بیوی
ثانیہ نے عبداللہ کو بتایا اور خاموش ہوگئی
پھر کچھ دیر بعد ثانیہ بولی تھی تم کو بچانے تمہارا سردار نہیں آیا ؟
وہ لازمی آتے مجھے لگتا ہے وہ خد کسی مشکل میں پڑ گئے ھیں قہوت نے بڑے احترام سے بات ثانیہ کو سمجھائی اور ثانیہ قہوت کی بات سںن کر ایک دم پیلی پڑ گئی تھی آزر کسی مشکل میں ھے ثانیہ نے زیر لب یہ جملہ دوبارا دھرایا تھا
قہوت بھی اس کی پریشانی سمجھ گیا تھا اور جھٹ سے بولا وہ ہر مشکل سے نکلنا اچھے سے جانتے ہیں آپ فکر نا کریں وہ بہت جلد ہر مشکل کو مات دے کر ہمارے پاس آئینگے قہوت اس کی ہمت بڑھا رہا تھا
پیر صاحب بھی حیران تھے کہ آزر اتنی جلدی کیسے آگیا
ان کے بلانے پہ
پھرانھوں نے آزر کو اپنے سامنے کونے میں بیٹھنے کو کہا آزر بیٹھ گیا مگر گونج کر بولا مجھے یہاں کیوں بلایا ھے کیا چاہیے آپ کو مجھ سے؟
ثانیہ ۔۔۔۔
ثانیہ کدھر ھے کہاں چھپا رکھا ھیں تم نے اسے ؟؟
کہاں قید کر رکھا ہے تم نے ثانیہ کو
پیر صاحب غصے سے پوچھ رھے تھے
آزر میں نے تم پر بھروسہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے
ثانیہ کو کہاں غائب کیا ھے جلدی بتاؤ ؟
آزر ھال کمرے کے ایک کونے میں بیٹھا تھا
مجھے نہیں معلوم ثانیہ کہاں ھے ہاں اگر آپ مجھے جانے دیں تو پتہ لگوا سکتا ھوں کہ ثانیہ کدھر ھے آزر اس وقت بڑی تکلیف میں تھا پر وہ کچھ کر ہی نہیں پارہا تھا
آزر مجھے پتہ ہے ثانیہ کو تم نے ہی کہی چھپایا ھے تاکے اسکی شادی نہ ھوسکے بولو کیا تم چاہتے ھو وہ کسی اور سے شادی کرلے کیا تمہاری محبت یہ برداشت کرسکتی ھے
نہیں برداشت کر سکتا یہ سچ ھے بہت محبت کرتا ھوں اس سے مگر پیر صاحب آپ مجھ سے قسم لےلیں میں نے ثانیہ کو کہیں نہیں چھپایا مجھے خد اس کی فکر ھو رہی ھے آپ مجھے جانے دیں پتہ نہیں وہ کس حال میں ھوگی
آزر نے منت بھرے لہجے میں کہا
دیکھو میں پہلے ہی بہت غصے میں ھوں مجھے اور غصہ مت دلاؤ اور سیدھے سے بتا دو کہ ثانیہ کہاں ھے
اس بار آزر دھاڑا تھا میں کہہ چکا ہوں میں نہیں جانتا آپ مان کیوں نہیں رھے میری بات کو ۔۔۔۔
کیونکہ مجھے تم پر اب زرا بھی بھروسہ نہیں ھے تمہارے علاوہ ایسا کوئی نہیں کرسکتا پیر صاحب نے جواب دیا
اسے میرے دشمنوں نے بندی بنا لیا ھے آپ مجھے چھوڑ دو میں خد اسے آپ کے پاس لے آؤنگا یہ میرا وعدہ ھے آپ سے آزر نے پیر صاحب کو ساری صورتحال سمجھانے کی کوشش کی
مگر پیر صاحب تو اس سے ایسے بدزن ھوئے کہ اسکی کوئی بات نہیں سن رھے تھے آزر کو ان پہ بہت غصہ بھی آرہا تھا اور ثانیہ کی فکر بھی ھو رہی تھی پر وہ خد اب قید میں تھا ثانیہ کو کیسے بچاتا پہلے اسے خد کو آزاد کروانا تھا اس کے بعد ہی وہ ثانیہ کو بچا سکتا تھا
آزر یہ ہی سوچ رہا تھا جب پیر صاحب نے پتہ نہیں کیا پڑھ کر آزر پر پانی کے چھینٹے مارے کہ سارا کمرہ آزر کی دھاڑ سے ہل گیا اس کے جسم پر جہاں جہاں پانی پڑا تھا اب وہاں وہاں ابلے بن گئے تھے اور بڑی تیزی سے وہ پھولتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب آبلے پھوٹ گئے اور خون رسنے لگا ان کی درد اور تکلیف اتنی زیادہ تھی کے آزر کراہ رہا تھا مگر پیر صاحب ایک ہی ضد پر اڑے ہوئے تھے کہ ثانیہ کو کہاں چھپا رکھا ھے بتاؤ؟
اور آزر بھی اپنی جگہ سچا تھا کہ اسے نہیں معلوم تھا ثانیہ کو ان لوگوں نے کہاں رکھا ھوا ھے
تین چار بار ایسے ہی پیر صاحب نے آزر کو بہت تکلیف دی مگر وہ پھر بھی صرف اتنا ہی بولا کہ میں کچھ نہیں جانتا
پیر صاحب نے شاہ لطیف کو حکم دیا کہ آزر کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے تو شاہ لطیف نے پل کی دیری کئے بنا آزر کو باندھ دیا مگر شاہ لطیف کو آزر پر بہت ترس آرہا تھا اس کے معصوم سے چہرے پر درد ہی درد رقم تھا شاہ لطیف کو لگ رہا تھا آزر جو بھی بول رہا ہے سچ بول رہا ھے مگر پیر صاحب کا دل تو شاید پتھر ھوگیا تھا جو آزر کی تکلیف محسوس ہی نہیں کرپارھے تھے
لطیف اپنی جگہ پر بیٹھ جا شاہ لطیف کی سماعت سے پیر صاحب کی کرخت آواز ٹکرائی تو وہ آکر اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئے
بہت دیر تک ایسے ہی آزر عزیئت سہتا رہا اور تڑپتا رہا مگر اس تڑپ سے زیادہ تڑپ ثانیہ کے لئے تھی کہ نہ جانے وہ دشمن جان کیسی ھوگی جس کی وجہ سے وہ یہ سب جھیل رہا تھا آخر کار پیر صاحب اور شاہ لطیف کمرے سے باہر آگئے علی بھائی بھی باہر ہی ان کا انتظار کررہے تھے
پیر صاحب اور شاہ لطیف علی بھائی کے ساتھ ہی ایک کمرے میں داخل ھوئے جہاں گھر کے سب لوگ بیٹھے تھے اور روقیہ بیگم بھی وہی بیٹھی رو رہی تھی پیر صاحب نے روقیہ بیگم کے سر پر ہاتھ رکھا اور انہیں حوصلہ دیا بیٹی ہمت سے کام لو انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا
اور وہیں سب کے ساتھ بیٹھ گئے آپ سب لوگوں سے ایک گزارش ھے جسے ہم نے قید کر رکھا ہے وہ بہت طاقتور جن زاد ھے وہ آزاد نہیں ھونا چاہئے غلطی سے بھی ادھر کوئی نہیں جائے گا میں نے اس کمرے کا حصار کر دیا ھے اس کمرے کے آگے دھاگہ باندھ دیا ھے اگر وہ دھاگہ ٹوٹ گیا تو سمجھو یہ جن زاد بھی آزاد ھوگیا ہمیں صرف اسے قید نہیں رکھنا ہمیں کچھ اور بھی کرنا ھوگا
اس کے لئے مجھے ایک چلہ کرنا پڑے گا جو آٹھ روز کا ھے میں آج چلہ کرنے بیٹھوں گا اور آٹھ روز بعد سب میرے سامنے ھوگا کہ آپ کے بچے کیسے ھیں اور کہاں ھیں تب تک شاہ لطیف یہاں آتا جاتا رھے گا مگر مجھے چلہ میرے آستانے پر ہی کرنا ھوگا وہ جگہ بہت ٹھیک ہے چلے کے لئے
اب میں چلتا ہوں آپ سب کو جو کہا ھے اسے زہن نشین کر لیں کوئی غلطی نہیں ھونی چاہیے ورنہ ہم زمادار نہ ھونگے یہ کہہ کر پیر صاحب وہاں سے اٹھے اپنی گاڑی میں بیٹھے اور آستانے کو چل دیئے
تین روز گزر چکے تھے گھر میں بہت اداسی چھائی ہوئی تھی ثانیہ اور عبداللہ کا کوئی اتاپتا نہیں تھا روقیہ بیگم کے تو رو رو کر اب آنسوں بھی سوکھ چکے تھے دادی جان انہیں حوصلہ دیتی کہ بیٹی اللہ تعالیٰ نے یہ مصیبت بھیجی ھے تو اس کا حل بھی وہی بھیجے گا ہمارے بچے انشاء اللہ بہت جلد ہمیں واپس مل جائے گے تو بے اختیار روقیہ بیگم ان کے گلے لگ گئی اماں جی میں بہت کمزور ہوگئی ھوں مجھ سے اب اور صبر نہیں ھوپارہا دادی جان کبھی ایک بہو کو تسلی دیتی تو کبھی دوسری کو عبداللہ کی امی جان بہت ہمت والی خاتون تھی مگر بات اب انکے بھی بیٹے کی تھی تو وہ دل ہاری بیٹھی تھی نہ گہانی آفت کی طرح ان کے گھر پر یہ قیامت ٹوٹی تھی چھوٹے بڑے سب ڈرے ہوئے تھے ایک دوسرے کو حوصلہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے تھے
ثانیہ کا دل اب بہت گبھرانے لگا تھا چار دنوں سے وہ لوگ وہاں تھے مگر آزر کا نام ونشان بھی نہیں تھا وہاں اسے اپنی فکر نہیں تھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ آزر پتہ نہیں کس مشکل یا مصیبت میں ھے اور ناجانے کیوں اس کے دل کو چین نہیں پڑ رہا تھا اس کا دل کہہ رہا تھا آزر بہت تکلیف میں ھے مگر ثانیہ کیا کرتی وہ تو خد اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی
البتہ قہوت نے ایک آدھ بار انہیں اپنے طاقت سے کھانا اور پانی دیا تھا مرتے کیا نہ کرتے کے مترادف انہیں وہ کھانا کھانا ہی پڑا تھا
ایک دم سے ثانیہ نے قہوت سے پوچھا آپکے پاس کتنی طاقتیں ھے ان کا استمعال سہی جگہ پر کیجیے نا
تو قہوت نے مسکرا کر کہا میرے پاس بس اتنی ہی طاقتیں ھیں کے اشد ضرورت کے وقت کھانے پینے کا انتظام کرسکوں
بس صرف یہ ہی ثانیہ نے بے دلی سے کہا
جی ھاں بس یہی
آپ زرا سوچو تو کوئی نہ کوئی اور طاقت تو ھوگی ہی آپ کے پاس شاید آپ اس سے لاعلم ھوں
تو اب کی بار قہوت کی جگہ صاحبہ بولی
ہم دونوں اگر اپنی طاقتوں کو ملاکر ان سے کوئی کام لینا چاہے تو لے سکتے ھیں مگر پھر اس کے بعد دو دن تک بھوکا رہنا پڑے گا قہوت نے منہ بسوڑ کر کہا
میں بھوکھی رہ لونگی ثانیہ نے کہا اسے دیکھتے ہوئے عبداللہ نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور صاحبہ نے بھی تو قہوت بولا ٹھیک ہے میں بھی رہ لونگا مگر اب کرنا کیا ہے
تو سب ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگ گئے پھر فٹ سے ثانیہ بولی مجھے دیکھنا ھے آزر کہاں ھے اور وہ ہمارے پاس کیوں نہیں آرہا تو سب ہی اس بات پر متفق ھو گئے
تو قہوت اور صاحبہ نے اپنی طاقتیں ملا دی اور انہیں حکم دیا بتائیں آزر کہاں ھے
سامنے والی دیوار پر ایک دم سے ایک آئنہ نمودار ہوا اور اس میں آغا ھاؤس نظر آنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کمرہ نظر آیا جس کے آگے دھاگے بندھے تھے اور پھر اندر کا منظر جہاں آزر بیٹھا تھا جس کے پورے جسم سے خون بہہ رہا تھا اور وہ کراہ رہا تھا اور جب تکلیف زیادہ بڑھتی تھی تو آزر دھاڑتا تھا اتنی زور دار آواز تھی اس کی دھاڑ سے سب کچھ دیکھانے والا آئنہ ٹوٹ گیا تھا اور اب سب کی آنکھیں ساون بھادوں بنی ہوئی تھی ثانیہ کا دل چاہ رہا تھا کہ ابھی اسکی سانسیں یہی رک جائے اس کی وجہ سے آزر اتنی عزیئت میں تھا عبداللہ دیکھا تم نے یہ ھے میرا آزر جو میری خاطر کتنا کچھ سہ رہا ہے میں جانتی ھوں اسے پیر صاحب نے قید کرلیا ھوگا جب کہ اسکی کوئی غلطی نہیں میں کیا کروں ثانیہ رونے لگی تھی اسے روتے دیکھ سب رو پڑے تھے عبداللہ کی آنکھیں بھی چھلکنے لگی تھی
تب ہی وہاں شمعون اور وردہ آئے اور ہنستے ہوئے کہنے لگے کہاں ھے تمہارا مہان سردار یہ وہ قہوت کو دیکھتے ہوئے بولے تھے جب کے قہوت نے حقارت سے شمعون کو دیکھا تھا
جب شمعون نے قہوت سے کہا تھا تم سے تو میں کوئی بات کرنا ہی نہیں چاہتا ایک بار تمہارا سردار سامنے آتا نہ اس کا حشر کرنے میں مجھے بہت مزا آتا شمعون نے زور دار کہکا لگایا
تو مجبوراً قہوت کو بھی بولنا پڑا تھا تمہارے جیسا بیٹا ھونے سے تو بہتر تھا خدا بے اولاد ہی رکھتا خان بابا کو
ابھی قہوت اتنا ہی بولا تھا شمعون نے اس کے منہ پر ایک مکا رسید کردیا اور قہوت منہ پر ھاتھ رکھے خاموش ھوگیا
مگر ثانیہ بول پڑی تھی تم لوگوں نے جو کچھ بھی کیا ہے نہ اس کا بدلہ تم لوگوں سے میرا آزرخد لے گا بہت جلد آئے گا وہ دیکھ لینا اور وہ تم لوگوں کو نست ونابود کر دے گا
اب کی بار وردہ نے آگے بڑھ کر ثانیہ کو بالو سے پکڑا تھا اور اس کے چہرے پر تھپڑ مارا تھا بہت میرا میرا کر رہی ھو اگر اتنا ہی تیرا ھوتا تو تجھے بچانے تو آتا بزدل ھے وہ نہیں آئے گا
وردہ نے ایک بار پھر کہکا لگایا
وہ بزدل نہیں ہے تم جیسوں کو دھول چٹا کر گیا تھا وہ کچھ نہیں بچا تھا یاد ھے نہ تمہیں یہ جن سانسوں پر اتنا اترا رہی ھو یہ اسی نے دان کی تھی تمہیں یہ اسی کا صدقہ ھیں ثانیہ نے مظبوط لہجے میں کہا تھا
اور عبداللہ کے ساتھ ساتھ سب ہی حیران تھے قہوت اپنے سردار کی پسند کو داد دے رہا تھا جو موت کے منہ میں بھی ایسے بہادری سے مقابلہ کررہی تھی جسے موت کا خوف نہیں تھا اور عبداللہ حیران تھا کہ ثانیہ بھی ایسی باتیں کرسکتی ہے کیا بات بات پر خفا ھونے والی چڑچڑی سی لڑکی ایک جن زادی کو للکار رہی تھی اب کی دفعہ وردہ نے اسے گلے سے پکڑ لیا وردہ کی آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے جب کہ ثانیہ کی آنکھوں کی چمک بھی بڑھ گئی تھی
مگر شمعون نے وردہ کو کھینچ کر پیچھے کیا کیا کرنے جارہی ھو ہم اس کے بدلے آزر سے اسکی طاقتیں مانگ سکتے ہیں اور وہ انکار نہیں کریگا مجھے یقین ھے بہت محبت کرتا ھے وہ اس سے
اور ثانیہ دشمن کے منہ سے یہ سن کر ایک دم پرسکون ھوگئی تھی وہ جانتی تھی کہ شمعون بلکل سچ بول رہا تھا مگر اس نے طے کرلیا تھا کے آزر کو ایسا نہیں کرنے دیگی
شمعون وردہ کو لیئے وہاں سے جاچکا تھا
اور سب ثانیہ کی آنکھوں کی چمک دیکھ رہے تھے ثانیہ نے سوچ لیا تھا وہ اب کمزور نہیں بنے گی ہمت سے حالات کا مقابلہ کرے گی اب سب بس ایک ہی دعا کررہے تھے کسی طرح آزر آزاد ھوجائے
لائبہ کا ہر اک پل عزیئت میں تھا کیونکہ وہ ہر روز آزر کی پردرد آوازیں سن سن کر تنگ آگئی تھی اور پتہ نہیں کیوں اسے لگتا تھا آزر ایسا نہیں کرسکتا وہ ثانیہ سے بہت محبت کرتا ھے اسے قید نہیں کرسکتا آج آزر کو قید کیئے 8 روز ھوچکے تھے مگر نہ تو ثانیہ اور عبداللہ کی کوئی خبر ملی تھی اور ناہی پیر صاحب ابھی تک واپس آئے تھے
لائبہ جب بھی اس کمرے کی طرف آتی تھی اس کا دل مٹھی میں آجاتا تھا اس کا دل ہمیشہ چاہتا تھا کہ وہ آزر کو آزاد کر دے اور آج اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کے چاہے جو ھوجائے وہ آزر کو اس کمرے سے نکال دے گی آزر کی تکلیف اب اس سے برداشت نہیں ھورہی تھی
لائبہ نے طے کیا کہ رات کو جب سب سوجائے گے تب وہ آزر کو ہر بندھن سے آزاد کردے گی اور اس نے ایسا ہی کیا جیسے ہی آغا ھاؤس کی لائٹس بند ھوئی سب اپنے اپنے کمروں میں سو گئے تو لائبہ چپکے سے اٹھی وہ جانتی تھی وہ بہت بڑا رسک لے رہی ہے مگر وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی وہ آہستہ قدم اٹھاتی اس کمرے کے پاس آئی اور سب سے پہلے اس دھاگے کو توڑا لائبہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ایسا لگتا تھا ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا مگر لائبہ اب ہلکے قدم اٹھاتی دروازے کے پاس پہنچ گئی تھی اور ایک دم دروازے کو زور سے دھکا دیا تو دروازہ کھلتا چلا گیا مگر اندر بہت اندھیرا تھا کچھ نظر نہیں آرہا تھا لائبہ کی سانس اب رکنے لگی تھی مگر پھر لائبہ کو ایک آواز سنائی دی
آزر جان چکا تھا کوئی ھے جو اسے پہچان چکا ھے اور اب اس کی مدد کو آرہا ھے آج اللہ تعالیٰ سے رو رو کر جو آزر نے فریاد کی تھی وہ سنی جاچکی تھی اور اللہ نے لائبہ کو وسیلہ بنایا تھا لائبہ نے دروازہ کھولا تو آزر اسے پہچان گیا تھا تبھی آزر نے اسے آواز دی
لائبہ آپی آپ ؟
لائبہ اس آواز کو پہچانتی تھی سرعت سے اس آواز کی طرف بڑھی اب اسے اس اندھیرے میں تھوڑا تھوڑا نظر آنے لگا تھا اب وہ آزر کے سامنے بیٹھی تھی مگر اس کی جو حالت تھی دیکھ کر لائبہ کی آنکھوں سے خاموش آنسوں بہنے لگے تھے
آزر نے نظریں جھکا لی تھی اور ھولے سے مسکرایا تھا
آپی مجھے یقین تھا آپ میری مدد ضرور کریں گی
آپ بس میری زنجیر کھول دو اور یہاں سے چلی جاؤ کیونکہ اس حالت میں تو میں آٹھ بھی نہیں پاؤنگا مجھے اپنے اصلی روپ میں آنا ھوگا جو آپ دیکھ نہیں پاؤگی
لائبہ نے جلدی سے آزر کی زنجیریں کھولیں اور پھر وہاں سے ہٹ گئی اور جلدی سے اپنے کمرے میں آگئی
مگر تھوڑی ہی دیر گزری ھوگی کہ بہت ہی بھیانک آوازیں آنا شروع ھوگئی اور پھر ایک زور دار دھاڑ کے ساتھ کچھ گرنے کی آواز آئی اور پھر ایک دم سکوت چھا گیا مطلب آزر جا چکا تھا اب لائبہ بھی اپنے بیڈ پر لیٹ گئی تھی اور بہت راتوں کے بعد آج وہ سو پائی تھی۔