جنات کی دشمنی - اردو کہانی پارٹ 13

 Urdu Story

آزر بہت کمزور محسوس کررہا تھا خد کو
اس کا سارا جسم زخمی تھا اور زخم رس رھے تھے
اسے اپنی غلطی کا احساس ھوگیا تھا کہ اسے پیر صاحب کے سامنے اپنے انسانی روپ میں نہیں آنا چاہیے تھا
پیر صاحب نے اسے انسانی روپ میں ہی قید کر دیا تھا اس لیے اس سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ھورہا تھا اور قید ھونے کی وجہ سے وہ اپنے اصلی روپ میں نہیں آپارہا تھا اگر وہ اپنے جن زاد والے روپ میں ھوتا تو پیر صاحب کا مقابلہ کرتا مگر اب یہ سب سوچ کر ٹائم ضائع کرنے سے بہتر تھا وہ اپنے اصلی روپ میں آکر جیسے ھوسکے یہاں سے نکلے اور آزر نے ایسا ہی کیا تھا
بڑی مشکل سے اس نے اپنا روپ بدلا تھا مگر زخموں کی وجہ سے اس کے پر جل چکے تھے سفید خوبصورت پر اب سیاہ ھوچکے تھے جتنی وہ تکلیف میں تھا اتنا بھیانک اب اس کا روپ تھا جلے ہوئے پرو سے آزر نے پرواز شروع کی آج پہلی بار وہ خد کو بہت کمزور اور تھکا ہوا محسوس کررہا تھا
آج کچھ دیر لگی اسے پہلے وہ اپنی وادی پہنچا جہاں خان بابا پہلے سے اس کے انتظار میں کھڑے تھے وہ جانتے تھے آزر انکی طرف آرہا ھے مگر ایسے وہ یہ نہیں جانتے تھے جس طرح آزر کراہ رہا تھا خان بابا کا دل بھی کٹ کر رہ گیا تھا وہ آزر کو آج پہلی بار اپنی طاقت کے زریعے وادی سے درگاہ لے آئے تھے اور آزر کو وہاں لٹا کر اسکے اوپر اس درگاہ کی خاک ڈال دی تھی آزر اس حالت میں بھی صرف ایک ہی نام پکار رہا تھا
" ثانیہ "
کچھ دیر یونہی خان بابا اس پر خاک ڈالتے رھے اور کچھ پڑھ کر دم کرتے رھے اور آب زم زم کے پانی سے آزر پرچھینٹے مارتے رہے اور آخر میں اس کو آب زم زم پلایا تو آزر کو اپنے اندر بہت طاقت سی محسوس ہوئی آزر کے دل میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی
اتنے میں درگاہ پر قوالی شروع ہوگئی اور آزر تو پہلے ہی دیوانا تھا اس پاک ہستی کا جس کا زکر قوال بار بار کر رہے تھے ایک لمحہ لگا آزر کو اٹھنے میں اور اب وہ مستی میں جھوم رہا تھا خان بابا اور وہاں موجود سب حیران تھے کہ کیسے آیا تھا آزر یہاں اور اب قوالی کے سروں پر جھوم رہا تھا
خان بابا بہت خوش تھے کہ وہ اب ٹھیک ہے خان بابا وہی بیٹھ کر اسے دیکھنے لگے اور اس کے لئے دعائیں مانگنے لگے
پیر صاحب کا آج آخری دن تھا چلے کا اور اب تک انہیں اس بات کا احساس ھو چکا تھا کہ ایک بار پھر وہ گمراہ ھوگئے تھے ایک بے گناہ کو سزا دے چکے تھے جبکہ گناہ کرنے والا کوئی اور تھا اور پیر صاحب یہ بھی جان گئے تھے کہ آزر کو کسی نے آزاد کر دیا ھے تبھی ان کے دل کا کچھ بوجھ ہلکا ھوا تھا اب انہیں صبح کا انتظار تھا جب ان کا چلہ مکمل ھوجانا تھا لیکن وہ مطمئن تھے وہ جان گئے تھے کہ جیسا آزر کے بارے میں وہ سوچھ رھے تھے وہ بلکل بھی ویسا نہیں ھے وہ اکیلا ہی کافی ہے ثانیہ کو بچانے کے لئے اور پیر صاحب اب بس فجر کی آذان کا انتظار کر رہے تھے

قہوت اور صاحبہ کو وردہ نے
پھر سے کسی اور جگہ قید کردیا تھا اور ثانیہ کا حال اب بہت برا ھوچکا تھا وہ بھوک پیاس سے نڈھال ھوچکی تھی چہرہ پیلا پڑ چکا تھا سوکھے ہونٹ بتا رھے تھے کہ ناجانے کتنے دنوں سے وہ پانی سے محروم ھے اب تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا بس کسی کے آنے کا انتظار اتنا شدید تھا کہ بوجھل آنکھیں ابھی تک کھلی ہوئی تھی
۔
تیرے انتظار میں ہم پتھر کے ھوگئے
اب تو توں لوٹ آ اے میرے ہم نواں
ثانیہ کو لگ رہا تھا کہ بس اب جو سانس آئیگی وہی آخری ھوگی دل میں بس ایک بار اس روح من کو دیکھنے کی حسرت تھی پھر چاہے موت آجائے اسے کوئی غم نہیں تھا
بس ایک بار آزر میرے سامنے آجاؤ بس ایک بار
کپکپاتے لبوں پر ایک ہی بات تھی۔۔۔۔۔
وردہ نے عبداللہ کو مہمان خاص کے حجرے میں رکھا ھوا تھا جہاں اسے بندی بنا کہ رکھا گیا تھا حجرے کے چاروں طرف چار جن زاد پہرہ دے رہے تھے عبداللہ نے دو تین بار ثانیہ کے پاس جانے کی کوشش کی مگر وہ جن زاد اسے باہر نکلنے ہی نہیں دے رھے تھے وردہ بھی عبداللہ سے ملنے آئی تھی اسکی للچاتی ھوئی نظروں سے عبداللہ کو سخت الجھن ھو رہی تھی
آپ کی بیزاری بھی ختم ھو جائے گی مگر اس سے پہلے مجھے اس آزر کو ختم کرنا ہے اپنی ان آنکھوں سے اس کا خاتمہ دیکھنا چاہتی ھوں اس کے بعد میں آپ سے شادی کرونگی اور آپ ہمیشہ میرے ساتھ رھیں گے ایک زور دار کہکا پورے حجرے میں گونجا تھا اور عبداللہ تو بس اسے دیکھ کر ہی رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شمعون وردہ سے بارہا عبداللہ کا پوچھ چکا تھا مگر وردہ کا ایک ہی جواب تھا شاید کہیں بھاگ گیا ھو مجھے نہیں معلوم وہ کدھر گیا ھے
جبکہ شمعون پریشان تھا کہ عبداللہ کی وجہ سے وہ لوگ کسی مشکل میں نہ پڑجائے
اور وردہ پرسکون تھی کیونکہ وہ تو اچھے سے جانتی تھی کہ عبداللہ کہاں ھے
شمعون حیران تھا آزر ابھی تک نہیں آیا تھا
وہ اس لڑکی کو بچانے بھی نہیں آیا تھا جس سے محبت کا وہ دعوے دار تھا ۔۔۔۔
اب شمعون بہت پریشان تھا کہ اس نے یہ سہی کیا ہے کہ غلط مگر اب بہت دیر ھو چکی تھی واپسی کی کوئی راہ نہیں تھی
۔
آزر کو جب ھوش آیا تو یہ فجر کی آذان کا وقت تھا اسے کچھ یاد نہیں تھا کہ وہ درگاہ سے اپنے محل کیسے آیا شاید خان بابا لائے ھونگے دل میں سوچا
اب آزر کافی حد تک سنبھل چکا تھا
ثانیہ کا معصوم چہرہ آزر کی آنکھوں میں گھومنے لگا تھا اور آزر کی آنکھیں سرخ ھوگئی تھی آزر نے فجر کی نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور اب وہ کالے پہاڑوں کی طرف ایک بار پھر سے پرواز کر گیا تھا
مگر اب وہ ایک جن زاد کے روپ میں تھا اس کے اس روپ سے اڑتے ہوئے پرندے بھی گبھرا کر نیچے گر رھے تھے آزر بہت غصے میں تھا اپنے غصے میں وہ یہ بھی نہیں دیکھ رہا تھا کہ اس کا سایہ جن درختوں پر پڑ رہا تھا وہ بھی جل کر راکھ ہوتے جارھے تھے صبح کا سورج طلوع ھو رہا تھا جب آزر کالے پہاڑوں پر اترا تھا
آزر نے چاروں طرف چکر لگا کر دیکھا اسے ثانیہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی وہ پاگل ہو رہا تھا پھر اس نے خد پہ کچھ قابو پانے کی کوشش کی اسے اس وقت دل سے نہیں دماغ سے کام لینا تھا
آزر نے ایک چھوٹے سے پرندے کا روپ لیا اور اللہ کا نام لے کر آگے بڑھنا شروع کیا سب سے پہلے آزر کو قہوت اور صاحبہ ملے جو مندر کے دائیں سائڈ پر بنے کھنڈر نما کمرے میں بدھے ہوے تھے آزر نے اپنی طاقت سے ایک ناگ زمین پر چھوڑا جس نے پل کی بھی دیری کئے بنا وہاں کھڑے پہرے دار کو ڈس لیا اور وہ ڈھیر ھوگیا اب آزر اپنے اصلی روپ میں قہوت کے سامنے تھا ایک پل کو تو قہوت کی بھی جان منہ کو آگئی مگر پھر اس نے محسوس کیا کہ یہ تو اس کا سردار ھے
تو قہوت آزر سے لپٹ گیا
کدھر تھے آپ ہم نے کتنا ویٹ کیا آپ کا آپ کہاں رہ گئے تھے پتہ نہیں اس شمعون کو کیا ھوگیا ھے ایک سٹکی ھوئی عورت کا ساتھ دے رہا ھے
اپنے والد اور بھائی جیسے سردار کو دھوکھا دے رہا ہے
اس کی عقل کہا گئی ہے
قہوت مجھے یہ بتاؤ ثانیہ کہاں ھے وہ کس حال میں ھے اسے کہاں رکھا ھے ان لوگوں نے؟
جتنی جہاں تپش ھے ہم جیسوں سے جہاں رہا نہیں جارہا وہ تو پھر معصوم سی موم کی گڑیا ھے پتہ نہیں کس حال میں ھوگی قہوت نے دل مسوس کر کہا تھا
مجھے اس تک لے چلو قہوت وہ دشمن جان کہاں ھے ؟
آزر صاحبہ اور قہوت کو کھول چکا تھا
جب وردہ اور شمعون ایک ساتھ ادھر آئے اور آزر کو دیکھ کر مسکرائے اور بولے ہم کیا بچے ھے کے ہمیں اب تم اپنے روپ بدل بدل کر ڈراؤ گے
شمعون دیکھ تیری دشمنی مجھ سے ھے تو جو کہے گا میں کرنے کو تیار ھوں ان سب کو چھوڑ دے آزر شمعون سے بات بھی کررہا تھا اور ایکطرف سے قہوت اور صاحبہ کو یہاں سے نکلنے کا اشارا بھی کر دیا اور ایک پل میں قہوت اور صاحبہ غائب تھے
قہوت نے صاحبہ کو اپنے حجرے میں چھوڑا اور خان بابا کو ساری صورتحال سمجھائی اور کچھ قبیلے والوں کو ساتھ لے کر آزر کی طرف جانے کی ٹھانی

آزر اتنی آسانی سے کیسے تمہیں اس تک لے جاؤ چلو ایک سودا کرلو اس لڑکی کے بدلے اپنی ساری طاقتیں مجھے دے دو اور میں تمہیں اس لڑکی کے ساتھ یہاں سے زندہ جانے دونگا ورنہ وردہ تو تمہیں مرتے ھوئے دیکھنا چاہتی ہے
دیکھو شمعون میں تمہیں ختم کرکے بھی اس تک پہنچ سکتا ھوں آزر نے دھاڑ کر کہا
ہاہاہاہاہاہاہا شمعون آزر کی بات پر کہکا لگا کر ہنسا
تجھے کیا لگتا ھے کہ یہ اتنا آسان ھے ارے میں نے تو اسے جادوئی چادر میں چھپا رکھا ھے وہ میری مرضی کے بنا تمہیں پاتال سے بھی نہیں ملے گی
ہاہاہاہاہاہاہا
اب وردہ نے بھی کہکا لگایا
آج میں تمہیں تڑپا تڑپا کر مارونگی تم نے ہمارے خاندان کو ہی نہیں بلکہ ہمارے قبیلے کو بھی موت کی نیند سلایا ھے اب میں تمہیں بتاؤں گی بدلہ کسے کہتے ہیں
مجھے اپنی موت کا کوئی ڈر نہیں مگر تم دونوں ایک بات اچھے سے سمجھ لو اگر ثانیہ کو ایک خروچ بھی آئی نہ کالے پہاڑوں کا نام صفحہ اے ہستی سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گا
ابھی آزر بات کر ہی رہا تھا کہ وردہ کے اشارے پر ایک ساتھ چار جن زاد نے آزر پر حملہ کیا
آزر بھی حملے کے لئے تیار تھا اس نے بھی ایک ہی جست میں ان چاروں کو جہنم رسید کیا
وردہ کو اپنے باپ کا حال یاد آگیا اب اس نے شمعون کو اشارہ کیا تو اس نے ثانیہ کو ظاہر کر دیا
ثانیہ کی ایک جھلک دیکھتے ہی آزر دیوانہ وار اس کی طرف بھاگا تھا
مگر وہ ایک چھل آئنہ تھا جو وردہ کے حکم سے ثانیہ کا سراپا دیکھا رہا تھا آزر کا ہاتھ لگتے ہی وہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ھوگیا
اور اسی لمحے شمعون اور وردہ نے ایک ساتھ آزر پر تیر چلائے تھے یہ عام تیر نہیں تھے بلکہ جادوئی تیر تھے اب کچھ اور جن زاد نے آزر پر حملہ کیا آزر نے اپنی طاقت سے انہیں دور اچھالا اور وہ بھی واصل جہنم ھوئے
اب عبداللہ اس حجرے سے نکل چکا تھا کیونکہ پہرے دار آزر پر حملہ کرنے میں مصروف تھے
عبداللہ چاہ کر بھی آزر کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ ایک عام انسان تھا اور یہ جنگ جننات سے جننات کی تھی
اب وہ ثانیہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا اس نے وردہ کے حجرے میں بھی دیکھا تھا اب وہ شمعون کے حجرے میں تھا مگر ثانیہ کہیں بھی دیکھائی نہیں دے رہی تھی
عبداللہ حجرے سے باہر نکلنے لگا تو ایک کپڑا اس کے پاؤں میں الجھا وہ بوکھلا کر گر پڑا اور منہ میں بڑبڑایا
اب ثانیہ کو کہاں ڈھونڈوں پتہ نہیں وہ کہاں ھے ؟
اس وقت عبداللہ اپنے پاؤں سے وہ کپڑا نکال رہا تھا وہ اس کپڑے کو پکڑے ھوئے ہی بڑبڑایا تھا تو اسی وقت وہ کپڑا عبداللہ کے پاؤں سے خد ہی نکل کر سامنے دیوار پر جا چپکا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کپڑا غائب ہو گیا اور اس کی جگہ ایک چھوٹا سا دروازہ بن گیا دروازے کی دوسری طرف عبداللہ کو رسیوں میں جکڑی ثانیہ نظر آئی عبداللہ نے بنا کچھ سوچے سمجھے اس دروازے کو کھولا اور اندر چلا گیا جلدی سے ثانیہ کی رسیاں کھولیں اور اسے اپنی بازؤں پر اٹھا کر باہر لے آیا عبداللہ نے ثانیہ کو زمین پر لٹایا اور اور حجرے میں نظر دوڑائی ایک صراحی میں پانی پڑا تھا جلدی سے ثانیہ کے منہ پر پانی کی چھینٹیں ماری اور کچھ پانی اسے پلایا تو ثانیہ کو کچھ ھوش آیا عبداللہ نے جلدی سے اپنے پوکٹ سے لیٹر نکالا اور اس دروازے کو آگ لگا دی وہ دروازہ ہی جادوئی چادر تھی اور ادھر وردہ کو بھی آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا کیونکہ اس نے اپنی جان اس جادوئی چادر میں چھپائی ھوئی تھی اور شمعون کو وہ چادر سنمبھال کر رکھنے کو کہی تھی مگر اسکی موت ایک اشرف المخلوقات کے ہاتھوں سے ھونی لکھی جاچکی تھی سو قدرت نے خد ہی ساری پلینگ کر رکھی تھی
وردہ کا پورا جسم راکھ بن چکا تھا اور اس کے سارے ساتھی آزر کو وردہ کا قاتل مان رھے تھے اور شمعون بھی آگ بگولہ ھوکر آزر کی طرف بڑھا تھا
سب نے ایک ساتھ آزر پر ہر طرف سے حملہ کیا تھا باقی سب کو تو آزر نے ایک پل میں ملیا میٹ کر دیا تھا مگر اب
اس کے سامنے اپنے استاد محترم اپنے محسن اور بہت پیار کرنے والے خان بابا کا فرزند تھا کتنے لاڈ پیار سے پالا تھا انھوں نے شمعون کو آزر چاہ کر بھی اسے چوٹ نہیں پہنچا پا رہا تھا اور شمعون وردہ کی موت کا زمادار بنا کر آزر پر بار بار وار کئے جارہا تھا
کچھ سوچ کر شمعون اپنے حجرے کی طرف بھاگا تھا جہاں عبداللہ ثانیہ کو ھوش میں لانے میں کامیاب ہو گیا تھا
شمعون نے سرعت سے ثانیہ کے گلے پر خنجر رکھا تھا اور اسے لئے آزر کے سامنے آیا تھا عبداللہ نے ثانیہ کو چھڑانے کی کوشش کی تو شمعون نے اسے پیچھے دھکیلا
آزر زخموں سے چور چور تھا کہیں تیر تھے تو کہیں گہرے گھاؤ مگر اب اسے اپنی پرواہ ہی کہاں تھی اسکی دشمن جان اس کے سامنے تھی ثانیہ کی ایسی حالت دیکھ کر آزر خون کے آنسو رو رہا تھا
جبکے ثانیہ آزر کی خوشبو پاکر اپنے گلے پر رکھے خنجر کو بھول گئی تھی اس کی نظر چاروں طرف اٹھی تھی مگر بے مراد لوٹ آئی تھی کیونکہ جس چہرے کو وہ ڈھونڈ رہی تھی وہ چہرہ وہاں تھا ہی نہیں ثانیہ کے ثامنے جو تھا وہ تو کوئی خوفناک مخلوق تھی۔۔۔۔
آزر اب بھی وقت ہے اگر اس کی زندگی چاہتے ھو تو اپنی ساری طاقتیں مجھے سونپ دو میں تم دونوں کو یہاں سے جانے دونگا شمعون کی آواز پر ثانیہ نے ایک بار پھر بے یقینی سے سامنے دیکھا تھا
ثانیہ کے لئے یقین کرنا مشکل ھو گیا تھا کہ سامنے خون میں لتھ پتھ جو مخلوق ھے وہ آزر ھے وہی آزر
محمد آزر شاہ سلطان ھے ؟
ثانیہ شمعون کی گرفت میں ہی جھول گئی تھی اور اسی دم خنجر کی نوک نے ثانیہ کے گلے پر لکیر کھینچ دی تھی آزر اپنی جگہ پر بیٹھا ایسے دھاڑا تھا کے ہر اک چیز ہل گئی تھی
آزر نے ایک ہی جست میں شمعون کو دبوچا تھا اور اسے دوسری طرف پٹخ کر ثانیہ کو سنبھالا تھا
ثانی ادھر دیکھو مجھے دیکھو میں تمہارا شاہ تمہارے پاس ھوں ثانی آنکھیں کھولو میں اب کبھی تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا دیکھو ثانیہ پلیز مجھے کوئی سزا مت دینا مجھے چھوڑ کے مت جانا میری زندگی تم سے ہی ھے اگر تمہیں کچھ ھوگیا تو میں فناہ ھوجاؤں گا
آزر ثانیہ کے گلے سے بہتے خون کو دیکھ کر پاگل ھوگیا تھا
ثانی آنکھیں کھولو پلیز ورنہ میں سب فناہ کر دونگا کچھ باقی نہیں رہے گا ثانی تم نہیں تو کچھ نہیں کچھ بھی نہیں
تمہارا شاہ بھی نہیں
آزر کی آواز ایسے تھی کے عبداللہ نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے ھوئے تھے مگر پھر بھی اسے لگ رہا تھا اس کے کان یا تو بہرے ھو جائے گے یا کانوں سے خون بہہ جائے گا
اور شمعون اپنے ہاتھ میں خنجر پکڑے آزر کے پیچھے سے اس کے دل پر وار کرنے والا تھا جب خان بابا قہوت اور کچھ قبیلے والے وہاں پہنچے تھے
خان بابا نے شمعون کا خنجر واپس اسی کی طرف موڑ دیا جو خنجر آزر کو لگنا تھا اب وہ شمعون کے دل میں پیوست تھا
اور بہت سے آنسوؤں نے خان بابا کی سفید داڑھی کو بھیگو گئے تھے
شمعون سمنبھل کر واپس خان بابا کی طرف بڑھا تھا جب آزر نے شمعون کو پکڑ کر اس کے پرخچے اڑا دیئے تھے شمعون کو چیخنے چلانے کا موقع بھی نہ مل سکا
عبداللہ بہتی آنکھوں کے ساتھ ثانیہ کی طرف بھاگہ پہلے اس کی سانسیں چیک کی جو مدھم مدھم سی چل رہی تھی پھر اپنے پوکٹ سے رومال نکال کر ثانیہ کا زخم صاف کیا اور رومال اس کی گردن پر باندھا خان بابا نے قہوت کو حکم دیا کہ سب کو واپس لے جائے وہ سب کے ساتھ جاچکا تھا
جب آزر نے ثانیہ کو آٹھایا خان بابا نے عبداللہ کا ھاتھ پکڑا اور تھوڑی اونچائی پر جاکر آزر نے مڑ کر دیکھا اور پھر عبداللہ نے بھی مڑ کر دیکھا وہ کھنڈر وہ مندر وہ پہاڑ سب ایک جھٹکے کے ساتھ زمین بوس ہو گئے تھے مظبوط پہاڑ اب اپنی جگہ پر نہیں تھے زمین میں دھنس چکے تھے عبداللہ کے لئے اب یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی وہ بہت کچھ ایسا دیکھ چکا تھا جو زندگی میں پہلی بار اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا پہلے تو قصے کہانیاں ہی سنی ھوئی تھی مگر آج اسے یقین ھوگیا تھا کہ ایسا بھی ہوتا ھے جننات بھی ھوتے ھیں انکی کہانیاں بھی ھوتی ھیں وہ اچھے بھی ھوتے ھیں برے بھی مسلم بھی غیر مسلم بھی ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سب محل میں پہنچ چکے تھے آزر کو کسی طور چین نہیں تھا
حلانکہ طبیب بھی اس کی زندگی کی نوید سنا چکا تھا مگر آزر اپنے دل کا کیا کرتا جیسے چین نہیں پڑ رہا تھا
عبداللہ سوالیہ نظروں سے خان بابا کو دیکھ رہا تھا جب خان بابا نے عبداللہ سے پوچھا بیٹا کیا بات ھے آپ کچھ کہنا چاہتے ھو ؟
جج ۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔ عبداللہ نے گھبراتے ہوئے کہا
بیٹا گھبرانے کی ضرورت نہیں تم بتاؤ کیا کہنا چاہتے ھو
و۔۔۔وہ۔۔۔ہم۔۔۔ہمیں۔۔۔گھ۔۔ر ج۔۔۔جانا ۔۔۔ھ۔ے
خان بابا نے ایک نظر آزر کو دیکھا جو ابھی تک اپنے انسانی روپ میں نہیں آیا تھا اور وہ عبداللہ کی طرف بڑھا تھا وہ عبداللہ کی آنکھوں میں ثانیہ کے لئے محبت اور فکر دیکھ چکا تھا
عبداللہ میں آپکے جذبے کی قدر کرتا ہوں مگر میں یہ کبھی نہیں چاھوں گا کے ثانیہ کی مرضی کے خلاف اس کی شادی آپ سے ھو اگر ثانیہ نے آپ کو چن لیا تو اس کی خوشی کے لئے میں راستے سے ہٹ جاؤں گا اور اگر اس نے مجھے چنا تو آپ کو بھی یہ سمجھنا پڑے گا کہ وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ھے
لیکن میں چاہتا ہوں وہ خد مجھے پکارے میرے ساتھ بات کرے اگر اب بھی اس نے خد سے بات نہ کی تو میں اس کے سامنے نہیں آؤنگا اب آزر ایک سائڈ پر ھوگیا تھا
اور خان بابا آزر کے اس رویے پر مسکرائے تھے
اور پھر بولے بیٹا جیسے ہی ثانیہ بیٹی کو ھوش آتا ہے ہم خد تم کو چھوڑ آئے گے
آزر نے تڑپ کر خان بابا کو دیکھا تھا جیسے کہنا چاہتا ھو کہیں نہیں جائنگے یہ مگر خاموش رہا شاید وہ بھی تھک چکا تھا حالات و واقعات سے۔۔۔۔۔
دن ڈھلنے کو تھا جب ثانیہ کو کچھ ھوش آیا ادھر ادھر نگاہ کی آزر کا محل ھے یہ تو
ثانیہ نے پاس بیٹھے عبداللہ سے پوچھا ہم یہاں کیسے آئے
اب عبداللہ کیا کہتا بس خان بابا کو دیکھنے لگا عبداللہ کے تعاقب میں ثانیہ نے بھی خان بابا کو دیکھا

اب خان بابا نے ثانیہ کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے بیٹا مجھے معاف کر دینا میں تمہارا بھی گناہ گار ھوں اور آزر کا بھی
مگر ثا نیہ نے جلدی سے خان بابا کے ہاتھ پکڑ لئے آپ میرے سامنے ہاتھ مت جوڑے مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں کوئی شکایت نہیں میرے لئے آپ میرے بابا کی طرح ھیں اورمیں آپ کا بہت احترام کرتی ھوں
۔
خان بابا نے سر پر ہاتھ رکھا اور بولےچلو بیٹی میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ آؤں اب آپ بلکل ٹھیک ھو نہ ؟
ثانیہ نے جی بولا اور مسکرانے کی کوشش کی مگر مسکرا نہ سکی نظریں مسلسل کسی کو ڈھونڈ رہی تھی
عبداللہ بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور ثانیہ کو سہارا دے کر کھڑا کیا محل سے نکلنے تک ثانیہ کی نگاہیں منتظر رہیں
میری یہ نظر اداس ہی لوٹ آئی
مگر وہ روح من کہیں نہیں دکھا
پیر صاحب نے آغا ھاؤس کی طرف گاڑی موڑی ہی تھی جب گاڑی ایک دم رک گئی اور گاڑی کے آگے ایک نفیس سے بزرگ آکر رک گئے
پیر صاحب گاڑی سے باہر نکلے تو سامنے ثانیہ اور عبداللہ کو دیکھا تو پیر صاحب ساری بات سمجھ گئے انہیں اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھایا جب سب بیٹھ گئے تو پیر صاحب نے ان بزرگ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں
تو خان بابا نے اپنا تعارف کروایا تو پیر صاحب بہت شرمندہ ھوئے کے ان کی وجہ سے معاملہ اتنا بگڑ گیا تھا
یونہی باتیں کرتے کرتے گاڑی آغا ھاؤس پہنچ گئی سب لوگ پیر صاحب سے ثانیہ اور عبداللہ کے بارے پوچھنے کے لئے بے تاب تھے مگر ثانیہ اور عبداللہ کو دیکھ کر ایک پل کو تو سب کے سب ساکت ہو گئے تھے
خوشی کے مارے سب رو دئیے تھے ثانیہ کو روقیہ بیگم اس کے کمرے میں لے آئی تھی ناجانے کتنی دیر اسے دیکھتی رہی پیار کرتی رہی ان کی ممتا کو کرار سا آگیا تھا
پیر صاحب سے ان بزرگ کا پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ خان بابا ان کے بہت اچھے دوست ھے
پیر صاحب کے کہنے پر سب اس بات پر متفق ھوئے کے
ثانیہ اور عبداللہ کا نکاح پہلے طے شدہ تاریخ پر ہی کیا جائے تو بہتر ھے مطلب کل نکاح کے لئے بہت اچھا دن ھے
عبداللہ اور ثانیہ دونوں حیران پریشان تھے اس صورت حال سے مگر کسی سے کوئی بات نہیں کررھے تھے یا سب کو خوش دیکھ کر انہیں پھر سے تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔