جنات کی دشمنی - اردو کہانی پارٹ 14 آخری

 Urdu Story

ثانیہ نے روقیہ بیگم سے پوچھا کہ امی جان اتنی بھی کیا جلدی ہے شادی کی
تو روقیہ بیگم مسکرا کر بولی کس نے کہا شادی ھوگی ہم تو بس تم دونوں کا نکاح کرینگے یہاں شادی تو گاؤں جاکر ھوگی میں اپنے گھر سے رخصت کرونگی اپنی بیٹی کو بڑے چائوں کے ساتھ ثانیہ کو ایک پل کو راحت ملی تھی مگر اب پھر سے لگ رہا تھا کہ نکاح کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے کیا کروں کیسے روکوں کیا امی جان کو آزر کا بتا دوں؟

نہیں وہ تو پہلے ہی ہر وقت جننات کو کوستی رہتی ہیں وہ آزر کو نہیں سمجھ پائنگی کیا کروں اب
کچھ سمجھ نہیں آرہی
اور یہ شاہ پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خد کو ایک بار سامنے آجاتا تو کیا بگڑ جاتا اس کا اسے تو چائیے تھا وہ خد کوئی حل نکالتا کیسی محبت ھے اسکی ھاتھ پر ھاتھ رکھے بیٹھا ھے جن کہیں کا
مجھے تو لگ رہا ھے اسے مجھ سے محبت ہی نہیں ھے کوئی اپنی جیسی چڑیل مل گئی ھوگی اسے
اپنے شاہ کے بارے میں ایسا سوچ کر ہی اس کی جان منہ کو آگئی تھی اور وہ اس سے ایسا بے خبر تھا کہ کتنی آسانی سے اسے کسی اور کا ھونے دے رہا تھا
ثانیہ کی آنکھیں بھر آئیں تھی روقیہ بیگم نے ثانیہ کا چہرہ اپنے ھاتھوں کے پیالے میں لیا اور ماتھا چوما تم کیوں پریشان ھوتی ھو تم تو مجھ سے بھی زیادہ اچھے سے جانتی ھو کے سب تمہیں کتنا پیار کرتے ہیں تم یہاں بہت خوش رھو گی میری جان اب مسکراؤ مجھے تمہارے چہرے پر یہ اداسی اچھی نہیں لگتی ماں کا دل رکھنے کے لئے ثانیہ کو ناچاہتے ھوے بھی اپنے آنسوں پی کر مسکرانا پڑا تھا
آغا صاحب (ثانیہ کے داداجان) اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے جب پیر صاحب اور خان بابا ایک ساتھ ان کے کمرے میں داخل ھوئے دادا جان تھوڑے حیران تو ھوئے مگر پھر کھڑے ہو کر ان سے ہاتھ ملایا اور انہیں بیٹھنے کو کہا
پیر صاحب خیریت تو ہے کوئی مسئلہ تو نہیں آغا صاحب نے گھبراتے ہوئے پوچھا کیونکہ وہ آغا صاحب سے سب کے سامنے مل چکے تھے بات کوئی بڑی تھی جو سب کے سامنے نہیں ھو سکتی تھی اسی لیے وہ اب ان سے دوبارا ملنے آئے تھے
آغا صاحب کے زہن میں یہی سوچ چل رہی تھی
جب پیر صاحب بولے آغا صاحب آپ پریشان نہ ہوں سب اللہ کے کرم سے ٹھیک ھے اور انشاء اللہ سب ٹھیک ہی رھے گا
کچھ دیر پیر صاحب خاموش رھے اور پھر خد ہی دوبارا بات شروع کی آغا صاحب نے انکی بات غور سے سنی مگر جو بات خان بابا اور پیر صاحب کر رہے تھے آغا صاحب ان کی بات نہیں مان رھے تھے پیر صاحب اور خان بابا کچھ دیر وہاں خاموش بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر باہر نکل آئے
رات کافی ھوچکی تھی کھانا کھایا جاچکا تھا اب پیر صاحب نے سب سے اجازت چاہی اور خان بابا کو ساتھ لئے آغا ھاؤس سے ودا ھونے لگے ثانیہ نے بڑی آس سے خان بابا کو دیکھا تھا
مگر خان بابا سر جھکا گئے تھے
وہ ابھی جانے ہی لگے تھے روقیہ بیگم اٹھ کر ان کے پاس آئی میں چاہتی ہوں میری بیٹی کا نکاح آپ پڑھائیں پیر صاحب آپ انکار مت کرنا اگر آپ نکاح پڑھائیں گے تو ہم سب کو بہت اچھا لگے گا اور ویسے بھی مجھے لگتا ہے آپ کو ثانیہ کے نکاح تک تو رکنا چاہیے سب نے رکنے کو کہا تو پیر صاحب کو رکنا پڑا
ورنہ ان کا دل بہت اداس تھا ثانیہ اور آزر کے لئے جو ایک دوسرے کو اپنی جان سے زیادہ چاہتے تھے
۔
پیر صاحب اور خان بابا کے لیے کمرے کا انتظام کیا گیا اور چائے پینے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں آگئے ثانیہ بھی کچھ دیر دادی جان تائی امی اور امی جان کے پاس بیٹھنے کے بعد اپنے کمرے میں آگئی
گھر میں سب بس اس کے نکاح کی ہی بات کررہے تھے ثانیہ نے سب کے سامنے تو خد پر ضبط کر لیا مگر کمرے میں آتے ہی اس کی آنکھیں ساون کی طرح برس پڑی تھی
کیوں آخر کیوں اگر آزر میرا ہمسفر نہیں بن سکتا تو وہ میری زندگی میں آیا ہی کیوں اور مجھے محبت آزر سے ہی کیوں ھوئی عبداللہ سے کیوں نہیں
جب آپ نے میری تقدیر میں عبداللہ کو لکھ دیا تھا تو آزر کا پیار میرے دل میں کیوں اتارا یا اللہ میں عبداللہ کو کبھی بھی آزر کی جگہ پر نہیں سوچ سکتی میں کتنی بے بس ھوں یا اللہ میں بکھر گئی ھوں مجھے سمیٹ لے میرے مالک
ثانیہ زمین پر بے ترتیب سی بیٹھی کبھی اپنے اللہ سے سوال کررہی تھی تو کبھی دعائیں مانگ رہی تھی
عبداللہ جو اسے اپنے کمرے میں جاتا دیکھ رہا تھا اس سے بات کرنے اس کے پیچھے آیا تھا مگر ثانیہ کو ایسے دیکھ کر اس کا دل بھی مٹھی میں آگیا تھا
وہ ثانیہ کو پیار کرتا تھا مگر ثانیہ آزر سے عشق کرتی تھی عبداللہ کو آزر سے جلسی ھوئی تھی وہ ان دونوں کے درمیان نہیں آنا چاہتا تھا بس حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ وہ انکار نہیں کر سکتا تھا اپنے بارے میں ثانیہ کو اللہ سے باتیں کرتے دیکھا تو عبداللہ نے بھی ایک پل کو اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا تھا کہ کیوں ثانیہ کو اس سے محبت نہیں ھوئی
اسے کسی سے محبت تھی مگر وہ میں نہیں تھا
اور یہ بات مجھ سے زیادہ اسے رلاتی تھی
عبداللہ بس اس شعر کو سوچ کر رہ گیا تھا اور ثانیہ سے کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے چلا گیا تھا وہ بات کرتا بھی تو کیا؟
نا جانے کتنی ہی دیر ثانیہ ایسے ہی زمین پر بیٹھی روتی رہی لائبہ ثانیہ کے لئے ڈریس لے کر آئی تھی جو صبح نکاح پر اسے پہننا تھا مگر ثانیہ کو ایسے زمین پر بیٹھ کر روتے دیکھا تو جلدی سے کمرے میں آکر دروازہ بند کیا اور ڈریس رکھ کر ثانیہ کے پاس آئی
یہ کیا حالت بنا رکھی ھے اپنی تم نے ثانیہ جو ھونا ھے وہ ھو کر ہی رھے گا اور ہمارا رب کبھی بھی ہمارے لئے کوئی برا فیصلہ نہیں کرتا وہ وہی کرتا ہے جو ہمارے لئے بہتر ھوتا ھے ضروری نہیں جو آج ہمیں اچھا لگ رہا ھے وہ ہمارے لئے بھی اچھا ھو ہمارا اللہ ہمیں وہ نہیں دیتا جو ہمیں اچھا لگتا ہے بلکہ وہ ہمیں وہ دیتا ہے جو ہمارے لئے اچھا ھوتا ھے
خد کو سنبھالو اپنی امی جان کے بارے میں سوچو تم کتنی خد غرض بن رہی ھو صرف اپنے بارے میں سوچ رہی ھو عبداللہ کے بارے میں سوچو ذرا اس کا کیا قصور ہے وہ کیوں تمہارے ساتھ باندھا جارہا ہے جب کہ وہ اچھے سے جانتا ہے تم اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی وہ پھر بھی گھر کی عزت کی خاطر لڑکا ھوکر چپ ھے تم خد کو کیوں سب کی نظروں میں گرا رہی ھو
تم نے اب بلکل بھی نہیں رونا اور جس کے لیے تم رو رہی ھو کیا وہ ایک بار بھی تم سے ملنے آیا ؟
وہ بہت زخمی تھا پتہ نہیں کس حال میں ھوگا ثانیہ کے سلے لب کھلے تھے
ثانیہ ادھر دیکھو میری طرف تم میرے لئے میری چھوٹی بہن ھو دوست بھی ھو میں دل سے چاہتی تھی تمہیں وہ تمام خوشیاں ملے جن کی دعا تم کرتی ھو مگر کیا پتہ تمہاری خوشیاں آزر سے نہیں عبداللہ سے منصوب ھوں
اٹھو میری جان اگر چچی جان تمہیں ایسے دیکھے گی تو ان کے دل پر کیا گزرے گی پلیز ثانیہ اب کی بار ثانیہ اٹھی اور آکر بیڈ پر بیٹھ گئی ڈوپٹے سے چہرہ صاف کیا
اور لائبہ کی طرف دیکھا لائبہ میں آزر کے بغیر مر جاؤں گی وہ میری رگوں میں سرائیت کر چکا ہے میری رگوں میں خون کی جگہ اس کا پیار دوڑتا ہے تبھی زندہ ھوں میں
آنسو ایک بار پھر گالوں پر لڑک گئے تھے میں اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتی تم سمجھ رہی ھو نہ؟
لائبہ نے سائڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے گلاس میں پانی ڈالا اور ثانیہ کو پلایا ثانیہ نے تھوڑا سا پانی پیا اور لائبہ کے گلے لگ گئی اس کے پاس اپنے دل کی حالت بیان کرنے کے لیے لفظ ختم ہوگئے تھے لائبہ نے گلاس واپس ٹیبل پر رکھا اور ثانیہ کو بیڈ پر لیٹایا اور خد بھی اس کے پاس ہی لیٹ گئی
اپنے اللہ پر یقین ھے نا تمہیں؟
لائبہ نے پوچھا تھا
ہاں !!!
خد سے بھی زیادہ
ثانیہ نے لائبہ کی طرف دیکھ کر جواب دیا تھا
تو بس پھر سب اپنے اللہ پر چھوڑ دو
ہممم!!!!
اب لائبہ ثانیہ کا سر سہلانے لگی تھی ثانیہ بہت تھکی ہوئی تھی تھکن اس کے چہرے سے عیاں ھورہی تھی کچھ ہی دیر لگی تھی ثانیہ کو نیند کی وادی میں پہنچنے میں لائبہ اس کا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی اس چہرے کو لائبہ نے اپنی زندگی میں بہت کم پرسکون اور ہنستا ھوا دیکھا تھا لائبہ نے ثانیہ کے لئے دعا کی تھی اور وہی ثانیہ کے ساتھ ہی سوگئی تھی

پیر صاحب کمرے آکر کچھ دیر تو خان بابا سے باتیں وغیرہ کرتے رھے پھر سوگئے مگر خان بابا جو ایک بزرگ جن تھے جن کے کان ثانیہ کی تمام باتیں سن چکے تھے انہیں کسی پل چین نہیں آرہا تھا وہ کیسے آرام کرتے پیر صاحب کے سوتے ہی خان بابا اپنی وادی پہنچ گئے
آزر قبیلے والوں کا کوئی مسئلہ تھا اس پر بات کررہا تھا جب خان بابا نے سب کو محفل برخاست کرنے کا حکم دیا
یہ پہلی بار تھا کہ قبیلے کا بہت ہی اہم مسئلہ تھا جس پر بات ھورہی تھی اور خان بابا نے سب کو اٹھا دیا تھا اور جانے کو بولا تھا
سب کے جانے کے بعد خان بابا آزر کے پاس آئے تھے بہت محبت کے دعوے کرتے تھے نا تم کہا گئے وہ دعوے تمہیں پتہ بھی ھے کہ وہ کس حال میں ھے تم پھر بھی جہاں پرسکون بیٹھے ھو کیا صرف اسے رولانا ہی تھا اس نے تم پر یقین کیا تم اسے کسی اور کا ھونے نہیں دوگے اور تم!!!!!
خان بابا اب خاموش ہوگئے تھے آزر نے خان بابا کو چپ دیکھا تو بولا
خان بابا اس نے تو اپنے اندر کا درد آنسوؤں کے ساتھ بہا دیا ہے مگر میرا درد ہمیشہ اس دل میں ایسے کا ایسا ہی رہے گا خان بابا میں اس فیملی کو اور کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا پہلے ہی اس گھر نے بہت سہا ہے اب جاکر اس گھر میں خوشیاں آرہی ہیں میں ان کا قاتل کیسے بن جاؤں اور مجھے وہ کبھی اپنی لاڈلی کی زندگی میں شامل نہیں ھونے دینگے یہ میں جانتا ہوں ان لفظوں میں آزر کی بے بسی شامل تھی وہ ایک جن زاد ھو کر انسانوں کے لئے ایک انسان کی طرح سوچ رہا تھا۔۔۔
جب بات ناممکنات پر آ کر رُک جاتی ہےتب میرا رب کہتا ہے
إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
خان بابا نے پرامید لہجے میں کہا تھا
اپنے اللہ پر بھروسہ رکھو وہ ناممکن کو بھی ممکن کر دے گا ہمت مت ہارو آزر اسے اس وقت تمہارے دلاسے کی ضرورت ہے !!!
آزر نے خان بابا کو گلے لگا لیا تھا آج مجھے لگ رہا ھے میرے سامنے میرے بابا کھڑے ھیں وہ ہمیشہ ایسے ہی سمجھاتے تھے مجھے آزر نے زخمی سا مسکرا کر کہا کہ مسکرانا بھی کتنا مشکل لگ رہا تھا
کچھ دیر خان بابا وہاں رکے اور پھر واپس پیر صاحب کے پاس پہنچ گئے تھے

ثانیہ گہری نیند سو رہی تھی جب اسے خواب میں زنجیروں سے بندھا ہوا آزر دیکھائی دیا ثانیہ نے تڑپ کر آنکھیں کھول دی اور اٹھ کر بیٹھ گئی دوپٹہ سر پر لیا اسے بہت بے چینی ھو رہی تھی شاہ ٹھیک تو ھے نا؟
ثانیہ نے خد سے پوچھا تھا
آہستہ آہستہ چلتی ثانیہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آگئی تھی اور ناجانے کیوں ثانیہ کے قدم خد ہی اس کمرے کی طرف بڑھنے لگے تھے جس میں اس نے آزر کو قید دیکھا تھا
وہاں پہنچی تو وہ کمرہ بلکل خالی پڑا تھا اب ثانیہ اس کمرے سے باہر آگئی تھی اور واپس اپنے کمرے میں جانے لگی تھی کہ
آزر کی تلاوت کرنے کی آواز ثانیہ کے کانوں میں پڑی ثانیہ کے لئے تو جیسے نئی زندگی کی نوید سنائی ھو کسی نے وہ واپس الٹے پاؤں بجلی کی رفتار سے بھاگی تھی

"شاہ"
کہاں ھو مجھے دکھائی کیوں نہیں دے رھے ھو؟
کیا مجھ سے ناراض ہو ؟
آزر سورہ یوسف کی تلاوت کر رہا تھا مگر دیکھائی نہیں دے رہا تھا ثانیہ اب وہی ایک جگہ بیٹھ کر اس کی آواز میں قرآن کریم سننے لگی تھی
جب سورہ یوسف مکمل ہوگئی تب آزر کی آواز پر ثانیہ نے ادھر ادھر دیکھا تھا
"میں جب بھی سورہ یوسف سے گزرتا ھوں"
"مجھے ایسا لگتا ہے ہر خواب پورا ھوسکتا ھے ہر بچھڑا ہوا مل سکتا ہے ہر دعا قبول ہو سکتی ہے ہر منزل پائی جاسکتی ہے کیا حوصلہ افزا کلام اترا ھے اس سورہ میں جس کا آغاز خواب سے ھوا,اور اختتام اسی خواب کی حقیقت پر"
یہ بات سن کر ثانیہ کے دل کو بھی کچھ سکون ملا تھا
اور پھر سے آزر کی آواز سنائی دی تھی
ثانیہ تم پریشان ھو کہ میں تمہارے سامنے کیوں نہیں آرہا
میں تم سے ناراض نہیں ہوں اور نا ہی میرے دل سے تمہارے نقش مٹے ھے اور کبھی مٹ بھی نہیں سکتے میں آج بھی تمہیں اسی شدت سے چاہتا ہوں کہ جب پہلی نظر تمہیں دیکھ کر تمہارا اسیر ھوا تھا
مگر ثانیہ میں ایک جن زاد ضرور ھوں
سب کچھ کرنے کی ہمت رکھتا ھوں تمہیں یہاں سے لے کر جا بھی سکتا ھوں کسی کو خبر تک نہیں ھوگی کہ تم کہاں چلی گئی لیکن ثانیہ میں تمہاری امی جان کے ساتھ یہ ظلم نہیں کرسکتا میں ایک بار پھر خد غرض نہیں بن سکتا تمہارے سامنے آؤنگا تو تمہاری محبت میں کھو جاؤنگا ثانیہ آج تو اپنی خوشی کے لیے باقی سب کو فراموش کر بھی دوں تو روزے قیامت اپنے
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے سامنے کیا جواز پیش کروں گا ؟
ثانیہ کو خاموش پایا تو آزر نے نرم لہجے میں کہا تم بس ایک بات کا جواب دے دو مجھے پھر جیسا تم کہو گی میں ویسا کرونگا
کیا تم چاہتی ھو کے روزے قیامت تمہارے شاہ کا سر شرم ساری سے جھکا ھوا ھو کہ اس نے ایک ماں سے اس کے جینے کا سہارا تک چھین لیا اس نے ایک اچھے خاندان کی عزت خراب کردی بنا نکاح کے تمہیں کیسے لے جاؤں یہاں سے؟
اور تمہارے گھر والے کبھی تمہیں میرے نکاح میں نہیں دینگے یہ تم بھی جانتی ھو اور میں بھی
ثانیہ کی روح تک کانپ گئی تھی شاہ کی باتوں نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ثانیہ کا جسم کانپنے لگا تھا مگر ایک سوال تھا جو ثانیہ کو شاہ سے کرنا تھا
جب آپ سب کچھ جانتے تھے تو پھر مجھے کیوں اپنے پیار کا احساس دلایا میرے دل کو اپنی محبت کا اسیر کر کے آپ کو یاد آیا کہ روزے محشر کیا ھوگا؟
ثانیہ مجھے شرمندہ مت کرو میں آج بھی تمہارا اسیر ھوں کل بھی تھا اور ہمیشہ رھونگا مگر ۔۔۔۔۔۔
بس کردیجئے میں سب سمجھ گئی کہ میں پتھر سے سر ٹکرا رہی تھی
ثانیہ کی آواز بھر آئی تھی
میں چلتی ھوں
ثانیہ میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر ثانیہ روتی آنکھوں کے ساتھ اپنے کمرے میں جاچکی تھی
ثانیہ میری پوری بات تو سن لیتی جیسے سورہ یوسف میں بچھڑے ہوئے مل گئے تھے اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی مل جائے گے۔
آزر اپنی وادی کی طرف پرواز کر گیا تھا مگر دل کی حالت بس خدا ہی جانتا تھا بس آزر خد کو کمزور نہیں کرنا چاہتا تھا اب اسکی منزل درگاہ تھی ۔۔۔۔۔
۔
کچھ عرصہ بعد
۔
گاؤں کی فضاء میں اداسی سی چھائی ہوئی تھی اور ایک پری پیکر حسینہ غم کا لبادہ اوڑھے جھولے پر بیٹھی تھی اور اس کی گود میں بیٹھا چار سال کا "نگاہ مصطفی" جسے دیکھ کر اسے اپنے چھوٹے بھائی کی یاد آگئی تھی بہت عرصے کے بعد ثانیہ کی پتھر آنکھوں سے آنسوں کے دو موتی گرے تھے ورنہ تو اسکی آنکھیں اب پتھر ہی ھوگئی تھی
آپ رو رہی ھو ؟
ننھے سے نگاہ مصطفی نے ثانیہ سے پوچھا تھا
نہیں ۔۔۔ نہیں تو میں کب روئی وہ تو آنکھ میں شاید کچھ چلا گیا ہے ثانیہ نے ہاتھ کی پشت سے اپنے گال رگڑتے ھوئے کہا تھا
اچھا اب بس !!!
چلو گھر چلیں بہت دیر ھو گئی ھے سب انتظار کر رہے ھونگے
یہ سنتے ہی نگاہ مصطفی نے ثانیہ کی گود چھوڑی اور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ھوا گھر آگیا
دونوں گھر کے اندر داخل ھونے تو روقیہ بیگم علی بھائی لائبہ عبداللہ اور نین کھانے کی ٹیبل پر لنچ کررھے تھے
نگاہ مصطفی دوڑتا ھوا ثانیہ سے پہلے جاکر عبدااللہ کی گود میں بیٹھ چکا تھا اور عبداللہ نے بھی کھانا چھوڑ کر اسے پیار کیا تھا
اوو ھو میرا شیر آگیا
کدھر رہ گئے تھے آپ
ہم سب نے آپ کا کتنا ویٹ کیا بس ابھی لنچ شروع کیا ھے عبداللہ نے نگاہ مصطفی کے گال پر بوسہ کرتے ہوئے کہا
اور اب اسے بھی اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے نوالے کھلانے لگا تھا
آؤ بیٹھو
لائبہ نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ والی چیئر پر بیٹھا لیا دیکھو آج چچی جان نے اپنے ھاتھوں سے سارا کھانا بنایا ہے کھاکر دیکھو بریانی کتنی لزیز ھے اور کورمے کا تو جواب نہیں اب ثانیہ نے بھی تھوڑا سا کھانا پلیٹ میں نکالا اور سب کے ساتھ مل کر لنچ کیا
کھانے کے بعد لائبہ اور ثانیہ نے مل کر برتن سمیٹے اور لائبہ چائے چڑھانے لگی تھی تھی کہ ثانیہ نے اسے روکا آج چائے میں بناؤ
تو لائبہ نے بھی مسکراتے ہوئے چائے کا برتن ثانیہ کو تھما دیا اور کچن سے نکل گئی
جب کے ثانیہ اب چائے بنانے لگی تھی اور ایک دم ثانیہ کی نظر کچن کی کھڑکی سے نظر آتے عبداللہ پر پڑی جو نگاہ مصطفی کے ساتھ کھیل رہا تھا اور نین عبداللہ کو پیار سے دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ بھی عبداللہ کو اب یہ خوشی دینے والی تھی
ثانیہ کی آنکھوں کے سامنے وہ دن آگیا جس دن اس کا عبداللہ سے نکاح ھونے والا تھا
صبح سے ہی پورے گھر میں بہت چہل پہل تھی کچھ قریبی رشتہ داروں کو بھی نکاح کی تقریب میں بلوایا گیا تھا اور سب تیاریاں مکمل ھوچکی تھی ثانیہ کپڑے پہنے تیار کھڑی تھی عبداللہ اور ثانیہ کو نکاح کے لئے ایک جگہ بیٹھا دیا گیا تھا ثانیہ کے چہرے پر گھونگھٹ تھا اور عبداللہ وائٹ ڈریس میں بہت پیارا لگ رہا تھا
کے دادا جان نے ثانیہ کو اپنے کمرے میں بلوایا جہاں وہ نین سے پہلی بار ملی وہ عبداللہ کے ساتھ ہی ابروڈ پڑھنے گئی تھی اور عبداللہ کو پسند کرنے لگی تھی دونوں ایک ساتھ ہی ڈاکٹر کی ڈگری لے کر واپس آئے تھے
نین نے دادا جان کو بولا تھا کے عبداللہ اور وہ دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں مگر عبداللہ گھر والوں کے ڈر سے اپنی پسند کبھی ان کے سامنے نہیں رکھ پایا اب وہ دادا جان کو سب بتا چکی تھی اس کے والدین بھی ساتھ ہی تھے انھوں نے بھی دادا جان کو منایا
کے یہ تو اچھا ھوا کے ہمیں انکی پسند کا پتہ چل گیا ورنہ تین لوگوں کی زندگی برباد ھوجاتی ہمیں اپنے بچوں کی خوشی بھی دیکھنی چاہیے
دادا جان نے ثانیہ سے پوچھا بیٹا آپ کیا چاہتی ھو؟
ثانیہ نے بھی سر جھکائے ہوئے بولا دادا جان مجھے لگتا ھے عبداللہ کی شادی اس سے ہی ھونی چاہیے جس سے وہ چاہتا ھے
ثانیہ کی اس بات پر عبداللہ نے بے اختیار ثانیہ کو دیکھا تھا
کہ چاہتا وہ تو ثانیہ کو ہی تھا بس ثانیہ کی خوشی کے لئے اس نے نین کو بلایا تھا کیونکہ نین عبداللہ کو شادی کے لیے پرپوز کرچکی تھی
ثانیہ کی بات جب دادا جان نے سنی تو وہ بھی عبداللہ اور نین کی شادی کے لئے مان گئے اور ثانیہ کی جگہ گھونگھٹ میں نین بیٹھ گئی اور ان دونوں کا نکاح ھوگیا ثانیہ کے دل پر تو راوی نے چین ہی چین لکھ دیا تھا ۔۔۔۔
عبداللہ کی پسند سمجھ کر سب نے نین کو کھلے دل سے اکسیپٹ کیا تھا مگر روقیہ بیگم کا دل ٹوٹا تھا اس لئے نکاح کے دو دن بعد ہی وہ ثانیہ کو لے کر اپنے گھر گاؤں آگئی تھی انکو گاؤں آئے کچھ ہی دن ھوئے تھے کہ علی اور لائبہ بھی شہر چھوڑ کر گاؤں ہی آگئے علی نے اپنا سارا بزنس عبداللہ اور عدیل کو سونپ دیا تھا اور گاؤں میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں چاند سا بیٹا عطا کیا جسکا نام انھوں نے "نگاہ مصطفی" رکھا
اور وہ ماں باپ سے بھی زیادہ ثانیہ سے اٹیچ تھا ایسا لگتا تھا جیسے لائبہ کا نہیں ثانیہ کا بیٹا ھو
اور اب دو دن پہلے نین اور عبداللہ روقیہ بیگم کو منانے آئے تھے اور روقیہ بیگم نے بھی پرانی باتیں بھلا کر انہیں معاف کر دیا تھا
اس عرصے میں ثانیہ کے لئے بہت سے رشتے آچکے تھے مگر وہ ہر رشتے سے کسی نہ کسی بہانے انکار کر دیتی تھی روقیہ بیگم بس اب جلدی سے ثانیہ کو اسکے گھر کا ھوتا ھوا دیکھنا چاہتی تھی
اس بیچھ پیر صاحب نے بھی دو تین بار چکر لگایا اور ایک دو رشتے بھی دکھائے جن میں سے روقیہ بیگم کو ایک رشتہ پسند بھی آگیا تھا مگر ثانیہ نے یہ کر رشتے سے انکار کر دیا کہ مجھے ایسے لڑکے سے شادی کرنی ھے جو ڈاکٹر ھو تو پیر صاحب نے روقیہ بیگم کو بتایا کہ خوش قسمتی سے جو رشتہ انہیں پسند آیا ھے وہ لڑکا ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے باہر جاچکا ہے تو روقیہ بیگم بہت خوش ھوئی اور ثانیہ کو ڈانٹ کر کہا کہ اب تمہاری ایک نہیں چلے گی
مجھے یہ رشتہ پسند ھے بس
اور اب ثانیہ اسی کے بارے سوچ رہی تھی کیونکہ وہ لڑکا کل کی فلائٹ سے واپس آنے والا تھا
اور روقیہ بیگم بہت خوش تھی
ثانیہ ۔۔۔۔ ثانیہ دیھان کہاں ھے تمہارا دیکھو تو چائے کا کہوا تو پورا جل گیا ھے لائبہ نے ثانیہ کو زور سے ہلایا اور ساتھ ہی چولہا بند کردیا
ہمم ثانیہ بے خیالی میں ادھر ادھر دیکھنے لگی اور سمجھ آنے پر شرمندہ سی ھو گئی
تم آج بھی اسے نہیں بھولی نہ جس نے مڑ کر یہ تک نہیں دیکھا کے تم کس حال میں ھو
لائبہ نے ثانیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا
نہیں لائبہ میں تو اس نئے رشتے کے بارے سوچ رہی تھی کہ۔۔۔۔
کہ اس سے کیسے جان چھڑواؤں
لائبہ نے ثانیہ کی ادھوری بات مکمل کی
میں نے ایسا کب کہا ثانیہ نے نظر چراتے ہوئے کہا
میں سب سمجھتی ھوں لائبہ نے ثانیہ کو چھیڑا ۔۔۔۔۔
میری ایک بات کان کھول کر سن لو اب اگر تم نے کوئی گڑبڑ کی نا تو باقی کی ساری زندگی تم سے کبھی بات تک نہیں کرونگی اور اسی پل علی بھی کچن میں آیا تھا بلکل ٹھیک کہا ھے لائبہ نے تم اور تنگ مت کرو چچی جان کو انکی عمر اب وہ نہیں رہی کے وہ یہ سب برداشت کرلیں ثانیہ میں نے زندگی میں کبھی کچھ نہیں کہا تم سے آج ایک چیز مانگ رہا ہوں پلیز انکار مت کرنا علی نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کہا تو ثانیہ نظریں جھکا گئی
جی بھائی بولے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ثانیہ کے منہ سے ادا ھوئے تھے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ علی بھائی کیا کہنے والے ھیں
پلیز اس رشتے کے لیے مان جاؤ ہم سب بھی تمہاری خوشیاں دیکھنا چاہتے ھیں
کچھ پل خاموشی رہی اور پھر ثانیہ نے بڑی مشکل سے سر ہلایا
علی بھائی نے سر پر ہاتھ رکھا اور کچن سے باہر چلے گئے ان کے پیچھے ہی ثانیہ بھی باہر نکل گئی مگر اپنے ہی گھر میں اسے کوئی جگہ ایسی نہیں مل رہی تھی جہاں بیٹھ کر وہ ایک بار اس روح من کو یاد کرکے رو لیتی
ثانیہ چلتے چلتے پھر اسی جھولے والے درخت کے پاس آگئی تھی کے یہ ہی تو اس کے شاہ کا کبھی مسکن ھوا کرتا تھا
وہ جھولے پر بیٹھی ہی تھی کہ کب کے چھائے بادل اب برسنے لگے تھے ہلکی بوندا باندی شروع ھو گئی تھی
دور کہی سے نصرت فتح علی خان کی آواز آرہی تھی
میں پہن کے پائل پاؤں میں
تیرا رستہ دیکھوں گاؤں میں
پیپل کی ٹھنڈی چھاؤں میں
مینوں یاداں تیریاں آؤندیاں نیں
مینوں یاداں تیریاں آؤندیاں نیں
کب تک تم پردیس رھوگے
آؤ گے نہ ۔۔۔ خط لکھو گے
میں گھٹ گھٹ کر جاں دے دونگی
پھر تم کس کو جان کہوگے
ڈھونڈو گے جنگل بیلے میں
ہر مستی میں ہر میلے میں
گاؤ گے یہی تم اکیلے میں
مینوں یاداں تیریاں آؤندیاں نیں
مینوں یاداں تیریاں آؤندیاں نیں
ثانیہ کو لگ رہا تھا کہ شاعری اس کے لئے ہی ھے اس کی زندگی پر لکھی گئی ہے
بہت دیر ثانیہ وہی بیٹھی بارش کے قطروں سے اپنے آنسو دھوتی رہی اور پھر عبداللہ اور نین کو اسی طرف آتے دیکھا جو کچھ دیر پہلے موسم اچھا دیکھ کر گاؤں گھومنے گئے تھے اب واپس آرھے تھے اور ان کا رخ جھولے والے درخت کی طرف تھا اس لیے ثانیہ ان کے یہاں پہنچنے سے پہلے ہی گھر واپس چلی گئی تھی
لڑکے کا گھر اسی گاؤں میں تھا بہت ہی خوبصورت اور عالی شان گھر تھا روقیہ بیگم ایک دو بار ان کے گھر گئی بھی تھی چھوٹی سی فیملی تھی انکی ایک لڑکے کا باپ ایک لڑکے کا بھائی اور بھابھی بس اور بھائی بھابھی ملک سے باہر سٹیل تھے بس اس کی شادی کے لیے کچھ ماہ پہلے ہی آئے تھے اور لڑکے کا باپ بہت اچھا انسان تھا
روقیہ بیگم کو دل و جان سے یہ رشتہ پسند تھا اور لڑکے کی فوٹو وغیرہ بھی دیکھ چکی تھی لڑکا بھی بہت خوبصورت اور دکھنے میں بہت ہی شریف لگ رہا تھا مگر وہ ایک بار اس سے آمنے سامنے ملنا چاہتی تھی
اب جب کے لڑکا آچکا تھا تو اس کے گھر والے باقاعدہ رشتہ لے آئے تھے
اور روقیہ بیگم تو پہلے سے ہی تیار تھی لڑکے کی بھابھی نے سر جھکائے بیٹھی ثانیہ سے پوچھا تھا کیا تمہیں یہ رشتہ منظور ھے اور ثانیہ نے بے بسی سے ہاں میں سر ہلا دیا تھا
بس پھر کیا سب لوگ بہت خوش تھے اور لڑکے والے بھی شادی جلد کرنا چاہتے تھے سو بس ایک دو بار آنے جانے کے بعد شادی کی تارخ رکھ دی گئی اور تیاریاں کرتے کرتے مہندی کی رات بھی آگئی ثانیہ نے ہمیشہ سوچا تھا کہ اپنے شاہ کے نام کی مہندی لگائے گی اپنے ھاتھوں پر اب جب وہ ہی اسے بھول بیٹھا تھا تو ثانیہ کیا کرتی نہ چاہتے ہوئے بھی کسی اور کے نام کی مہندی ثانیہ کے ہاتھوں میں لگ چکی تھی جیسے ثانیہ نے نظر بھر کر دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا
روقیہ بیگم بیٹی کی بلایئں لیتی نہیں تھک رہی تھی دادی جان دادا جان تائی امی تایا جان ساری فیملی بہت خوش تھی کہ ان سب کی لاڈلی بیٹی اپنے گھر کی ھوجائے گی سب کے لبوں پر بس دعائیں ہی تھی
مگر ثانیہ کو لگ رہا تھا اس کے لئے یہ دعائیں نہیں بدعائیں ھیں اس کا دل چاہ رہا تھا کاش اسی پل جان نکل جائے
لائبہ نے ثانیہ کو بہت خوبصورت تیار کیا تھا آج کیونکہ آج اس کی پیاری سی دوست اور کزن اپنی ایک نئی زندگی شروع کرنے لگی تھی بارات آچکی تھی مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا دولہے کو سٹیج پر بیٹھایا گیا اور دولہے کے ساتھ ثانیہ کو بٹھایا گیا اور اب نکاح خواں آکر ان کے سامنے بیٹھ چکے تھے جو کہ پیر صاحب تھے روقیہ بیگم کی خواہش پر ثانیہ کا نکاح پڑھوانے کی زماداری انکی تھی
نکاح پڑھوایا گیا ثانیہ جوکے اپنی ہی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی پیر صاحب کا کوئی بھی لفظ اسے متاثر نہیں کررہا تھا جب پیر صاحب نے پھر سے پوچھا
کیا یہ نکاح آپ کو قبول ھے؟
لائبہ نے ثانیہ کو ہلایا
پھر روقیہ بیگم نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ھے
"جی قبول ھے"
"قبول ھے"
"قبول ھے "
ثانیہ کی آواز کسی گہری کھائی سے آرہی تھی اب اسی پل سے وہ کسی اور کی ملکیت تھی یہ سوچ ہی اسے رولا گئی تھی

بہت ساری دعاؤں کے سائے میں ثانیہ کو رخصت کیا گیا نگاہ مصطفی تو ثانیہ سے ایسا لپٹا کے اسے چھوڑ ہی نہیں رہا تھا پھر عبداللہ نے آگے بڑھ کر ثانیہ کے ہاتھوں سے اسے اٹھایا اور بہت ہی آہستہ سا بولا
بہت خوبصورت لگ رہی ھو
شادی مبارک ہو
ہمیشہ خوش رھو
اور ثانیہ اب اپنے شوہر کے گھر آچکی تھی جہاں ایک نہایت ہی خوبصورت سجاوٹ والے کمرے میں اسے بیٹھایا گیا
پورے کمرے میں گلاب کے پھول ہی پھول بچھے ھوئے تھے اور ہلکے نیلے رنگ کی مدھم سی گلوب جلی ہوئی تھی اور ثانیہ بیڈ پر سرھانے کی ٹیک لگائے گم سم بیٹھی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی پھر آرام سے دروازہ کھلا اور دولہے صاحب کمرے میں تشریف لے آئے
ایسے اداس کیوں بیٹھی ہوئی ھیں؟
آپ سے کہا تھا نا کہ شادی کی پہلی رات آپ کو سورہ یوسف سناؤں گا
یہ لہجا یہ آواز ثانیہ کی سماعت سے ٹکرائی تو بے ساختہ ثانیہ کے لب پکار اٹھے
"شاہ"
"جی جان شاہ"
ثانیہ کی سانسیں اٹک گئی تھی
ثانیہ نے ادھر ادھر ہاتھ چلانے شروع کر دئیے مگر لائٹ جلانے والا بٹن نہیں مل رہا تھا پھر اچانک اسی دشمن جان نے کمرے کی لائٹس جلائی
ثانیہ ایک جھٹکے سے بیڈ سے اٹھی اور اس کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی
مگر اس نے چہرے پر سہرا لٹکا رکھا تھا
آپ کون ھو ؟
کیوں آپ کو کسی اور کا انتظار تھا کیا؟
شاہ کے لب ابکی بار ھولے سے ہلے
یہ آپ نے سہرا کیوں لگا رکھا ہے ؟
کیونکہ کسی نے ہمیں کہا تھا وہ ہمارا یہ چہرا کبھی نہیں دیکھنا چاہتیں
ثانیہ نے تڑپ کر رخ بدلا تھا اور پھر کچھ دیر بعد آزر کے قدموں میں بیٹھتی چلی گئی تھی مجھے معاف کردو جس چہرے کو دیکھ کر میں جینا چاہتی تھی اس کے لئے ایسے الفاظ بولے مگر مجھے یہ تو بتاؤ اب اور کتنے امتحان باقی ھیں؟
آزر نے ثانیہ کو دونوں بازوؤں سے تھام کر اٹھایا
اور پھر اپنے چہرے سے سہرا ہٹایا تو ثانیہ ناجانے کتنی ہی دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر اس کے چہرے کو چھو کر اسکی موجودگی کا احساس کیا
اور روتے ہوئے اس دشمن جان کے سینے سے جالگی
اور آزر نے اس کے ماتھے پر محبت کی محر ثبت کی
مجھے چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے اچانک ثانیہ نے سوال کیا؟
جس پر آزر حیران بھی ھوا اور مسکرایا بھی
تم نے ہی تو کہا تھا !!!!
مطلب میں کچھ بھی کہتی تو جیسے مان جاتے؟
کوئی بات بتاؤ جو ٹالی ھو !!!
میری شادی کسی اور سے ھوجاتی تو؟
مجھے میرے رب پر بھروسہ تھا کیسے کسی اور سے ھوجاتی !!!!
میرے دل کو تکلیف دے کر خوش رہ لیا تھا ؟
ہر ایک پل کانٹوں پر چلا ھوں بہت جتن کر کے تم تک پہنچا ھوں
اب کہیں چھوڑ تو نہیں جاؤگے؟
زندگی کا بھروسہ نہیں مگر جب تک زندہ ھوں تمہارا ھوں
صرف تمہارا " *شاہ* "
اب ثانیہ نے بیویوں والے سوال شروع کر دیئے تھے اور آزر کو اس پر بہت پیار آرہا تھا آزر ثانیہ کو اس پیار سے دیکھ رہا تھا کہ
ثانیہ ایک بار پھر آزر کے سینے میں منہ چھپا گئی
اگر میرے گھر والوں کو کچھ پتہ چل گیا تو؟
کتنے سوال کرتی ھو یار بیٹھنے تو دو سب کچھ ادھر کھڑے کھڑے ہی بتادوں کیا !!!
آج بھی ویسے کے ویسے ہی ھو
" جن کہیں کے "
خوشی کے مارے ثانیہ کے آنسوں رک ہی نہیں رہے تھے
آزر نے اپنے ھونٹوں سے وہ آنسوں چن لئے تھے اور ھولے سے بولا تھا
دیکھو یہ اب سب کے سامنے مت بولنا اب تو میں ماشاءاللہ
ڈاکٹر محمد آزر شاہ سلطان ھوں
ثانیہ مسکرائی اور آزر نے آگے بات شروع کی
جب عبداللہ کی شادی نین سے ھوئی تھی اس وقت ہی مجھے خان بابا نے بتا دیا تھا
مگر میں ایسے ہی تمہارے سامنے نہیں آسکتا تھا اس لئے پہلے میں نے اپنی ساری طاقتیں قہوت کو سونپ دی اور پھر خان بابا سے پوچھ کر ایک عمل کیا جس کے کرنے سے میں انسانوں میں انسانوں کی طرح رہ سکوں اور پھر میں نے رشتہ بھیجا جو کہ امی جان کو تو پسند آگیا
مگر آپ کو تو ڈاکٹر سے شادی کرنی تھی سو مجھے بھی عبداللہ کی طرح دو سال دھکے کھانے پڑے مگر افسوس مجھے وہاں کوئی نین نہیں ملی ثانیہ نے ایسے غور کر دیکھا تو آزر ہنستے ھوئے بولا
کیا اب جان لوگی اس معصوم سے جن کی
اور ثانیہ بھی ہنس دی
اور اب یہ ناچیز آپ کے سامنے ھے
کیا آپ نے اپنی طاقتیں کھو دی؟
نہیں کھوئی نہیں ہے اگر کبھی مجھے ان کے ضرورت پڑے گی تو مجھے واپس مل جائینگی کیونکہ ان طاقتوں پر میرا حق بھی اور اختیار بھی
اب سے میری طاقتوں کا استمعال چاہے قہوت ہی کریگا مگر سردار میں ہی ھوں
اور میں تمہارے ساتھ ایک نارمل زندگی جینا چاہتا ہوں ثانیہ
تمہارے ساتھ حج پر جانا چاہتا ہوں اور تمہاری من پسند جگہ جھیل سیف الملوک بھی
شاہ کو ثانیہ کی بولی ہر اک بات یاد تھی اور ثانیہ نے آج مان لیا تھا کے شاہ ایک جن زاد واقعی اس کا اسیر ھے
دونوں نے مل کر آج پہلی بار ایک ساتھ عشاء کی نماز ادا کی اور سورہ یوسف پڑھ کر اپنی زندگی کی حسین شعرعات کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکہ اے پربت کی آغوش میں سمائی ہوئی جھیل سیف الملوک
پر کھڑی وہ لڑکی سارے قدرتی حسن کو بے معنی کررہی تھی
ختم شدہ