ثانیہ کیا بات ھے؟
آزر اس سے پوچھ ہی رہا تھا جب قہوت حجرے میں آیا اور ایسے بنا اجازت آنے پر اب بہت شرمندہ تھا
وہ میں کچھ دیر بعد آتا ھوں قہوت یہ کہہ کر حجرے سے نکلنے لگا تو آزر نے اسے روکا
تم یہاں کیا کررہے ھو تمہیں تو ثانیہ کی جگہ اس کے گھر بھیجا تھا نا ؟
ہاں مگر میں وہاں اور نہیں رک پایا ایک تو میری اپنی حالت ٹھیک نہیں اوپر سے آپ کی فکر ھو رہی تھی اور سونے پہ سہاگہ وہ لڑکی کیا نام ہے اسکا ہاں لائبہ اس کے ساتھ رہنا بہت مشکل ہے اسی لئے میں واپس آگیا
آزر نے اب اسے غصے سے دیکھا
ایسے تو نہ دیکھو مجھے قہوت نے شرارت سے کہا
تو آزر دو قدم اس کی طرف بڑھا
رکو رکو یار میں نے دیدی (ثانیہ)کی جگہ وہاں اب صاحبہ کو بھیجھ دیا ھے اور اسے سب کچھ اچھے سے سمجھا بھی دیا ھے
اور اب یہ بھی جان لیا ھے کہ تم بلکل ٹھیک ھو تو میں اب چلتا ہوں اپنے حجرے میں جاکر کچھ آرام کر لیتا ہوں قہوت شرارت سے مسکراتا ہوا حجرے سے باہر چلا گیا
آزر اب ثانیہ کے چہرے پر نظریں جمائے کھڑا تھا جو قہوت کی نا جانے کس بات پر ناچاہتے ھوے بھی ھولے سے مسکرائی تھی ثانیہ کو آزر کی نظروں کی تپش محسوس ھوئی تو اس نے اپنا رخ موڑ لیا
ثانی کیا بات ھے تم بہت عجیب ری ایکٹ کررہی ھو کیا بات تمہیں پریشان کررہی ہے مجھے بتاؤ تو آزر اب ثانیہ کے بلکل سامنے کھڑا تھا
مجھے گھر جانا ھے شاہ ثانیہ نے نظریں چراتے ھوئے کہا
آج تو نہیں مگر کل اس ٹائم تم اپنے گھر ھوگی میں خد تمہیں لے جاؤنگا اور کوئی حکم ؟
نہیں مجھے دوسرے حجرے میں جانے دیں
ثانیہ تمہیں کہیں میری اصلیعت جان کر ڈر تو نہیں لگ رہا آزر کو لگا شاید وہ اس سے ڈر رہی ہے
میں آپ سے کیوں ڈروں گی آپ تو میرے محسن ھیں مجھے تو خد سے ڈر لگ رہا ھے شاہ اپنے دل کی کیفیت سے ڈر لگ رہا ھے مجھے تو خد بھی کچھ سمجھ نہیں آرہی اپنے اس رویے کی میں کشمکش میں مبتلا ھوں
اب آپ بھی آرام کرو میں چلتی ھوں
آزر کی آنکھوں میں درد ہی درد تھا اس نے سوچا تھا ثانیہ اسکے پاس بیٹھے گی اس سے باتیں کرے گی اس کے بارے میں پوچھے گی اور آزر اسے جی بھر کے دیکھے گا اور ثانیہ کو اپنی نظروں میں ہمیشہ کے لیے بسا لے گا مگر وہ تواس سے منہ موڑ گئی تھی یا شاید ثانیہ کے دل تک آزر کے عشق کی آگ ابھی پہنچی ہی نہیں تھی
"بن کے فقیر آپ کی خاطر میں صحرا صحرا بھٹکا ھوں
ایسے میں منہ موڑنے والا کوئی بھی ھوتا آپ نہ ھوتے"
ثانیہ کا ایک قدم حجرے کے اندر اور ایک باہر تھا جب اس کے کانوں نے درد میں ڈوبی آزر کی آواز سنی
ثانیہ کا دل چاہا ساری دنیا کو ایک سائڈ پر رکھ کر وہ جاکے آزر کو بتا دے کہ اس کا دل بھی ایسے ہی تڑپ رہا ہے مگر وہ مجبور تھی اس نے خان بابا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آزر کو خد سے دور کر دے گی
بیٹی مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے خان بابا ثانیہ سے کہہ رہے تھے جو بات میں ابھی آپ سے کروں گا اسے آرام سے سننا اور سمجھنا ھے آپ نے
ثانیہ نے آہستہ سے سر ہلایا
آپ اس وقت جہاں ھو یہ جننات کی وادی ھے اور جہاں جننات کے دس قبیلے آباد ھے جن میں سب سے زیادہ طاقتور قبیلہ ہمارا قبیلہ حنون ھے اور باقی نو قبائل ہمارے ماتحت ھیں اور ان دس قبیلوں کا سردار پتہ ھے کون ہے خان بابا جیسے اس سے پوچھ رہے تھے
تو ثانیہ نے نہ میں سر ہلایا
ہمارے سردار کا نام ھے
محمد آزر شاہ سلطان تمہارا سلطان
وہ بچپن سے تمہارے ساتھ رہا ھے اور تم سے بہت محبت کرتا ھے اپنی جان سے بڑھ کر اپنے فرض سے بڑھ کر کیونکہ فرض سے پہلے اس نے تمہیں محبت کرنا سیکھا تھا
مگر بیٹا آگ اور مٹی کا کوئی میل نہیں ھے
اور یہ تم دونوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے
تمہاری دنیا طور طریقے رہن سہن ہم سے الگ ھے
ہم جننات ھیں اور آپ لوگ انسان
میں نے بہت سمجھایا ھے اسے مگر یہ کچھ سمجھتا ہی نہیں ھے بیٹی بہت امید سے تم سے یہ سب کہہ رہا ھوں ہمارا بیٹا ہمارا سردار ہمیں واپس موڑ دو یہ ھے تو بہت مشکل لیکن نہ ممکن نہیں ہے
اب خان بابا ثانیہ کی طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ ثانیہ کے جواب کے منتظر تھے
ثانیہ کے چہرے پر حیرت اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات تھے اور چہرہ سرخ ھوچکا تھا آنکھوں سے آنسوں کا ایک سیلاب رواں تھا
قدرت نے ایک اور امتحان لے لیا تھا ثانیہ کا نازک سا دل جو ابھی پیار کی دہلیز پر قدم رکھنے ہی والا تھا اپنے اس دل کا گلہ گھونٹ کر ثانیہ کو اب یہی سے پیچھے ہٹنا تھا اور وہ اپنے جذبات کو کچل کر خان بابا کی بات کا مان رکھ گئی تھی خان بابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے دعا دی
مگر ثانیہ کو تو جیسے اب کسی دعا کی ضرورت ہی نہ رہی تھی
کیوں آبسا ھے وہ میری روح و جان میں
وہ شخص جس کو میرا ھونا بھی نہیں ھے
یہ بھی محبت کا عجب قانون ھے دوست
پایا نہیں جیسے اسے کھونا بھی نہیں ھے
اب ثانیہ اپنے حجرے میں بیٹھی زیر لب یہ شعر دھرا رہی تھی اور خد کو نارمل کرنے کی کوششیں کررہی تھی جب اسے اپنے سامنے شاہ کھڑا نظر آیا مگر وہ ایک بار پھر منہ موڑ گئی تھی
تو جس کی خاطر دربدر بھٹک رہا ھے شاہ
اس نے تیرے مرجانے پہ رونا بھی نہیں ھے
آزر نے ثانیہ کا شعر مکمل کردیا تھا مگر اب وہاں رکا نہیں اس کے حجرے سے نکلتا چلا گیا
ثانیہ کے آنسوں تھے کے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اب خد کو سنبھالنا اور بھی مشکل لگ رہا تھا
بھلا کوئی سمجھ دار انسان ایسا گھاٹے کا سودا کرسکتا ھے جیسا ثانیہ نے کیا تھا
آزر کی بے لوث محبت کے بدلے ۔۔۔۔۔۔۔ اپنا دامن آنسوں اور دل کی ٹوٹی کرچیوں سے بھر لیا تھا
محبت کا جہاں آباد ھونے سے پہلے ہی برباد ھوگیا تھا
اب بس ثانیہ جلد گھر پہنچ جانا چاہتی تھی کیونکہ وہ آزر سے زیادہ دیر تک اپنے جزبات چھپا نہیں سکتی تھی
ثانیہ بیڈ پر لیٹ گئی اور پتہ نہیں کب وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی
ادھر آزر اپنے زخموں کے درد بھول گیا تھا اسے یاد تھا بس ثانیہ کا بدلہ ھوا رویہ وہ بہت دیر تک حجرے میں چہل قدمی کرتا رہا پھر خد کو خد ہی دلیلے پیش کرنے لگا کہ شاید آج کے واقعات کی وجہ سے ثانیہ کا رویہ ایسا ھو
مگر اس کے دل کو کسی طور چین نہیں پڑ رھا تھا یہ رات آزر نے کانٹوں پر گزاری تھی
فجر کی آذان سن کر اسے کچھ سکون نصیب ھوا تھا وہ حجرے سے نکلا اور مسجد کی طرف چل دیا نماز ادا کی اور بے اختیار سجدے میں رو دیا
اے مالک اس انسان کی محبت میرے دل میں تو نے ہی ڈالی تھی یہ تیری مرضی سے ھوا ھے جو بھی ھوا ھے اب میرے لئے یہ حالات سہل فرما اور مجھے ثابت قدم رکھ اسے میرے مقدر میں لکھ دے اے مہربان اللہ آزر نے اب اپنا معاملہ اپنے رب کے سامنے رکھ دیا تھا اور دعا مانگ کر مسجد سے نکل آیا تھا
ثانیہ بھی نماز کے ٹائم پر اٹھ گئی تھی اور نماز پڑھ کر اب سرخ آنکھوں اور کانپتے ہاتھوں سے دعا مانگ رہی تھی
ثانیہ عجیب کشمکش میں مبتلا تھی
دل چاہتا تھا آزر شاہ کو اپنے دل کا سلطان بنا لے
اور دماغ کہتا تھا بس اپنا وعدہ یاد رکھو جو تم نے خان بابا سے کیا ھے ثانیہ نے چہرہ صاف کیا اور جائے نماز سے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی کچھ دیر بعد وہی لڑکی جو رات کو اسے کھانا دینے آئی تھی حجرے میں داخل ھوئی
ثانیہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
میں آپ کو جگانے آئی تھی مگر آپ تو پہلے سے جاگی ھوئی لگ رہی ھے لگتا ھے آپ جلدی اٹھنے کی عادی ھے وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی
ثانیہ نے بھی ہلکے سے مسکرا کر سر ہاں میں ہلا دیا تو وہ دوبارا بولی
اب آپ فریش ھو جائے میں اس ٹائم اپنے لئے چائے بناتی ھوں آپ کے لئے بھی بنا لاتی ھوں
نہیں رہنے دے مجھے چائے نہیں چاہئیے ثانیہ نے بیزاری سے کہا ۔۔۔
تو کچھ اور بتا دے وہ بھی بضد تھی شاید
اسکی ضد کے آگے ثانیہ بھی ہار مان گئی تھی
اور مسکراتے ہوئے بولی نام کیا ھے آپ کا
اس نے خد کو چھو کے پوچھا میرا
ثانیہ نے ہممم کہا
تو وہ مسکراتے ہوئے بولی ہمارا نام شہربانو ھے
ثانیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بیٹھا لیا
بہت پیارا نام ہے آپکا مجھے یہ نام بہت پسند ہے ثانیہ نے اب اس کا چہرہ غور سے دیکھا تھا اسے لگا وہ کوئی پری ھے یا شہزادی کتنی خوبصورت ھے ثانیہ اسکو دیکھے جا رہی تھی
جب اسنے ثانیہ سے پوچھا کیا ہوا ؟
آپ ادھر ہی رہتی ھو الٹا ثانیہ نے اسے ہی سوال کردیا
جی میں یہی رہتی ھوں اپنے بابا کے ساتھ کل آپ ان سے ملی تھی نہ "خان بابا" وہی میرے بابا ھے
جتنے اچھے آپ کے بابا ھے آپ بھی اتنی ہی اچھی ھو
بلکہ بہت پیاری بھی ھو ثانیہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
اچھا اب آپ بتائے آپ کیا لیں گی
میرے سر میں بہت درد ھے مجھے کوفی پینی ھے اسی سے میرا سر درد ٹھیک ھوتا ھے،
اچھا ہم ابھی آئے وہ کہہ کر اٹھی اور جانے لگی
میں آپ کے ساتھ چلوں ثانیہ نے پوچھا
جی ضرور وہ بہت پیاری سی مسکان ھونٹوں پر سجا کر بولی
اور اب دونوں حجرے سے نکل کر راہ داری سے گزر کر کچن کی طرف آرہی تھی جب ثانیہ نے بے چینی سے شاہ کے حجرے کی طرف دیکھا اور فورن ہی نظر جھکا لی
شہربانو نے کچن میں آتے ہی چولہےجلائے ایک پر چائے چڑھائی اور دوسرے پر کوفی کے لیے دودھ گرم کرنے لگی جب ثانیہ کے کانوں میں وہ خوبصورت آواز گونجی
تلاوتِ قرآنِ کریم کی آواز
آزر سورہ ملک کی تلاوت کر رہا تھا ثانیہ نے خد کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر اس کے قدم خد ہی آزر کے حجرے کی طرف اٹھنے لگے تھے وہ چلتی چلتی آزر کے حجرے کے سامنے آگئی تھی اور اب حجرے کے اندر
مگر آج نہ تو آزر نے تلاوت بند کی اور نہ آنکھ کھول کر اس کی طرف دیکھا بلکہ
تلاوت کرتا ہی رہا اور اب ثانیہ اس کے سامنے بیٹھ گئی تھی ثانیہ آزر کو بہت دیر ایسے ہی دیکھتی رہی اور سنتی رہی اچانک آزر کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے
آزر کی آنکھ سے بہنے والا ہر آنسو ثانیہ کے دل پر گررہا تھا اور اب ایک اللہ کا کلام پڑھ کے رو رہا تھا اور دوسرا سن کر رو رہا تھا دونوں کے دل غمگین تھے اور دکھ سانجھے وہ نہ جانے کتنی دیر تک ایسے ہی بیٹھے روتے رہتے کہ حجرے کے باہر سے کسی نے آواز دی آزر آپ کے لئے کوفی لائی ھوں
یہ آواز شہربانو کی تھی آواز سنتے ہی دونوں نے ایک ساتھ حجرے کے پردے کو دیکھا
اور پھر آزر نے ثانیہ کی آنکھوں میں دیکھا جو کے رونے سے لال ھوچکی تھی
اس بار ثانیہ نے منہ نہیں موڑا بلکہ وہ بھی اب آزر کی اداس آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھے دیکھے جا رہی تھی
جب ایک بار پھر سے شہربانو کی آواز آئی
آزر آپ کافی پیئے گے کیا
ہاں لے آؤ اب ثانیہ نے بھی نظر کا زاویہ بدلا
میں تو آپ کو کچن میں ڈھونڈ رہی تھی اور آپ جہاں ھو
شہربانو نے ثانیہ سے بولا
آپ کےسردار تلاوت بہت خوبصورت انداز میں کرتے ہیں
ثانیہ تعریف کئے بنا نہ رہ سکی
ہاں یہ تو سچ کہا آپ نے شہربانو نے بھی مسکراتے ھوئے کہا
آزر اب ثانیہ کو بلکل فراموش کر کے ہاتھ میں کوفی کا مگ پکڑے حجرے سےباہر جارہا تھا
شہربانو
آزر نے اس کا نام پکارا
جی بولے
آپ میرا ناشتہ زرا جلدی بنا دے
آپ نے کہیں جانا ھے کیا ؟
میں نے آج 9 قبیلوں کو بلوایا ھے کچھ مسلوں کے حل کے لئے تو اسی کی تیاری کرنی ہے
جی میں ابھی لے آتی ھوں ناشتہ بس ابھی آئی کہہ کر شہربانو کچن میں چلی گئی
آزر ابھی حجرے کے در پر ہی کھڑا تھا نا جانے کیوں وہ اس دشمن جان سے بے خبر نہیں رہ پارہا تھا
آپ نے کہا تھا آپ مجھے گھر چھوڑ آؤگے ثانیہ کی بجھی بجھی سی آواز پہ آزر نے اسے مڑ کر دیکھا
آج جہاں ایک بہت ضروری کام ھے مجھے
اگر جلدی کام ھوگیا تو آج ہی چھوڑ آؤں گا پتہ نہیں آزر نے کس دل سے چھوڑ آنے کی بات کی تھی وہ تو چاہتا تھا ثانیہ ہمیشہ کے لئے اسی کے پاس رہ جائے مگر یہ شاید ابھی ممکن نہیں تھا
آزر میرا دم گھٹ رہا ہے یہاں
میں کچھ نہیں جانتی مجھے یہاں اور نہیں رہنا
پلیز مجھے ابھی چھوڑ آئے
ابھی نہیں ثانی کام ھوجانے کے بعد وہ آزر سے ضد کر رہی تھی جو آزر کو بہت اچھا لگ رہا تھا وہ ھولے سے مسکرا دیا تو ثانیہ کو لگا ہر طرف پھول کھل گئے ھیں جیسے جلتے ھوئے دل پر کسی نے برف کا ٹکڑا رکھ دیا ھو
وہ دیکھ رہی تھی آزر بہت پریشان تھا کل سے مگر ابھی اسے وہ کچھ بہتر لگا
ناشتہ لگا دیا ہے شہربانو نے آکر بتایا
آزر اپنی کوفی پی چکا تھا مگر ثانیہ کی ابھی ویسے ہی پڑی تھی
ارے آپ نے تو اپنی کوفی بھی ٹھنڈی کر دی آپ کو بھوک نہیں لگی کیا کل سے آپ نے کچھ بھی نہیں کھایا
شہربانو ثانیہ سے پوچھ رہی تھی
آزر کے قدم وہی رک گئے وہ پلٹا شہربانو آپ ان کا بھی ناشتہ لگا دو یہ آرہی ہیں ابھی
جی اچھا کہہ کر شہر بانو ایک بار پھر چلی گئی
۔
۔
۔
کل سے کچھ کھایا پیا نہیں چلو میرے ساتھ ناشتہ کرلو
مجھے آپ کے ساتھ ناشتہ نہیں کرنا بلکہ مجھے ناشتہ کرنا ہی نہیں ھے آپ جاؤ اپنی شہر بانو کے ساتھ ناشتہ کرو
اب آزر کو ایسا محسوس ھوا ثانیہ بھی اس سے محبت کرتی ھے وہ جیلس فیل کررہی تھی شہربانو سے اور وہ بھی بنا بات کے یا پھر اس کی خوبصورتی کی وجہ سے آزر نے سوچا ؟
تم چل رہی ھو یا ۔۔۔
یا کیا نہیں چلتی میں تو؟
ثانی مجھے لیٹ ھو رہی ھے
تو چلے جاؤ نا آپ ۔۔۔۔
لاسٹ بار پوچھ رہا ھو خد چلو گی کے اڑا کے لے جاؤں
ہمم بڑے آئے اڑاکے لے جانے والے ثانیہ کا اتنا کہنا تھا
بس پھر کیا آزر نے اپنے پنکھ کھولے اور ثانیہ کو اڑاتا ھوا باہر لے آیا
پتا نہیں یہ کون سی جگہ تھی ناشتے سے سجی ٹیبل اور کرسیاں رکھی تھی ایسا لگ رہا تھا کوئی لان یا باغیچہ ہے ہر طرف پھول ہی پھول تھے پرندے کی چہچہاہٹ تھی
ثانیہ تو بھول ہی بیٹھی تھی کے وہ ایک جن زاد ھے جو کچھ بھی کرسکتا ھے
اور کوئی حکم ؟
وہ سر کو جھکائے بول رہا تھا
اور ثانیہ کا دل کٹ رہا تھا وہ اتنا پیار کرنے والے کو تکلیف کیسے دے سکتی ھے
اچھا بیٹھو اور شروع کرو ناشتہ بسم اللّٰہ پڑھ کر
میں نے کہہ دیا نا مجھے ناشتہ نہیں کرنا اور آپ کے ساتھ تو بلکل نہیں کرنا تو آپ کیوں ضد کررھے ھو اتنی
وہ جیسے پھٹ پڑی تھی ۔۔۔
آزر ایک دم سے اٹھا اور ثانیہ کو ایک درخت کے ساتھ لگا دیا ایک ہاتھ پکڑ کر پیچھے کو موڑا اور اس کے کان کہ پاس ھولے سے بولا
ثانیہ میری محبت کا ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ چپ چاپ بیٹھ کر ناشتہ کرو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ھوگا
آپ سے برا کوئی ھے بھی نہیں
جن کہیں کے
ثانیہ نے دوسرا فقرا آہستہ بولا مگر آزر سن چکا تھا
اگر اس جن سے بچنا چاہتی ھو تو بات مان جایا کرو ہر بات پر ضد کرنا ضروری نہیں ھوتا ثانی
اب دونوں ناشتہ کررہے تھے ان کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھ کر
ہر اک زرہ انکے ساتھ کی دعا کررہا تھا اور تقدیر پاس کھڑی مسکرا رہی تھی
مجھے پتہ ھے ثانی تم مجھ سے کوئی بات کہنا چاہتی ھو مگر کہہ نہیں رہی ھو اور اسی بات کی وجہ سے تم پریشان ھو تو وہ بات کہہ کیوں نہیں دیتی آزر نے ٹشو پیپر سے منہ صاف کرتے ہوئے کہا
آزر آپ کو میں پریشان اس لئے لگ رہی ھوں کیونکہ میں یہاں بہت بور گئی ھوں اور کوئی بھی بات نہیں ھے اور دیکھے میں نے ناشتہ بھی کرلیا اب آپ جاؤ ورنہ لیٹ ھو جائے گی آپ کو
آزر ثانیہ کو دیکھ کر مسکرایا اور دوسرے ہی لمحے اسکی کرسی خالی تھی ثانیہ کی آنکھ سے ایک آنسو چھلک کر اس کے رخسار پر گرا تھا اس نے بے دردی سے اپنا گال رگڑ دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی
وہ کمزور پڑ رہی تھی اور وہ جانتی تھی وہ تھوڑی دیر اور اس کے ساتھ رہتا تو وہ اس کے سامنے ٹوٹ کر بکھر جاتی اور وہ ایسا نہیں چاہتی تھی
ثانیہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی جب شہر بانو وہاں ناشتے والے برتن اٹھانے آئی آپ ابھی ادھر ہی کھڑی ہو شہر بانو کی آواز سے ثانیہ اپنے خیالوں سے باہر نکلی
ہممم شہر بانو مجھ سے کچھ کہا کیا آپ نے ؟
جی آپ اب اپنے حجرے میں جائے اور آرام کریں
میں تو آرام کرکرکے تھک گئی ہوں شہربانو کے کہنے پر ثانیہ نے دل میں سوچا
جی جاتی ھوں مگر مجھے رستے کا نہیں پتہ آپ چلے میرے ساتھ مجھے رستہ دیکھا دیں زرا
چلیں شہربانو کے کہنے پر ثانیہ اس کے ساتھ حجرے تک آگئی اور اب اسے پتہ چلا کہ وہ لوگ محل کے پیچھے حصے میں واقع باغیچے میں تھے
میں چلتی ھوں کسی بھی چیز کی ضرورت ھوئی تو مجھے بتائیے گا ضرور شہربانو کے جانے کے بعد ثانیہ ایک صوفے پر بیٹھ گئی اور سوچنے لگی پتہ نہیں میں کب جاؤنگی اپنے گھر سوچتے سوچتے ثانیہ وہی سوگئی
آزر جب پہنچا تو سب قبیلوں والے آچکے تھے اور قہوت نے سب کچھ اچھے سے سمبھال لیا تھا خان بابا بھی بڑی کرسی پر بیٹھے تھے اور سردار کی کرسی خالی تھی آزر جاکر اس کرسی پر بیٹھا اور سب کو سلام کیا
سب نے سلام کا جواب دے کر اسے عزت دی
تو اس نے اپنی بات کہنی شروع کی
بڑائی صرف اللہ کی زات کے لئے ھے غرور بھی اسی پہ سجتا ہے اور وہ بہترین حفاظت کرنے والا مہربان ہے
وہ مہربان اپنے پیارے محبوب حضرت محمد (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقے ہم سب پر رحم فرمائے اور سب کی حفاظت فرمائے آمین
جب کوئی سردار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اس کا فرض ھوتا ھے اپنی قوم کی حفاظت اسے اپنی جان دے کر بھی کرنی پڑے تو کرے انکی ضرورتوں کا خیال رکھے اور ہمیشہ ان کے ساتھ مخلص رہے میں نے آپ سب کو بلوایا کس لئے بلوایا سب جاننا چاہتے ھونگے تو میں بتا دوں اس لئے بلایا تاکہ آپ سب سے یہ کہہ سکوں میرے لئے چاہے حنون قبیلے کے لوگ ھو یا آپ سب میں سے کوئی بھی کسی بھی قبیلے سے ھو میرے لئے سب برابر ہیں میں سب کا سردار اور بیٹا ھوں لیکن اگر کسی نے میری طاقتوں کو حاصل کرنے کے لئے میرے قبیلے پر یا مجھ سے جڑے لوگوں پر کوئی ظلم کیا کوئی زیادتی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ھوگا اور مجھ سے برا کوئی ھے بھی نہیں یہ زہن میں رکھنا سب
اور ایک بات اور بھی آپ سب ذہن نشین کر لیں
مجھے مار کر بھی کوئی میری طاقتیں نہیں چھین سکتا اور میں چاہ کر بھی ابھی کسی کو یہ طاقتیں نہیں دے سکتا کیونکہ یہ قدرت کی دین ھے
ایک بات اور آپ سب میرے لئے کابل احترام ھے کوئی بھی بات ھو کیسی بھی پریشانی ھوں آپ بے جھجھک مجھ سے کہہ سکتے ھیں اور میں ہر حال میں آپ سب کے ساتھ ھوں
میری باتوں کو سننے کے لئے آپ کو یہاں آنا پڑا اس کے لئے آپ سب کا شکریہ کے آپ لوگ آئے اور میری بات کو عزت بخشی آزر نے مسکرا کر سب کا شکریہ ادا کیا اور کرسی سے اٹھ گیا
اس کا رعب اور دبدبہ ہی اتنا تھا کے کوئی بھی اس کے خلاف کھڑا نہ ھو سکا اور وہ اپنی بات کہہ کر محفل برخاست کرتا سیدھا اپنی زندگی کے پاس جا پہنچا تھا
آزر جب ثانیہ کے حجرے میں آیا تو اسے بے خبر سوتا ھوا دیکھ کر اس کے پاس بیٹھ گیا مگر ثانیہ نے جیسے اس کی آمد کو محسوس کر لیا تھا وہ جھٹکے سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی آ۔۔۔پ۔۔۔۔ک۔۔۔ب۔۔۔۔آئے
جب آپ محترمہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی
آزر بہت خوش لگ رہا تھا سب نے اسے دل سے سردار مان لیا تھا کہیں کوئی دقت نہیں آئی تھی
کام ھوگیا آپ کا ثانیہ نے آزر سے پوچھا
جی ھوگیا ھے
تو مجھے چھوڑ آئے نہ میرے گھر میں
چھوڑ آتا ھوں مگر اس سے پہلے میرے ساتھ چلو
میں تمہیں اپنی وادی کی سیر کرواؤں اس کے بعد تمہارے گھر چھوڑ آؤنگا منظور ھے تو بتاؤ ؟
ٹھیک ھے منظور ھے ثانیہ نے منہ پھولاتے ھوئے کہا
تو پھر جلدی سے تیار ھو جائے میں بھی ابھی آتا ھوں یہ کہہ کر آزر چلا گیا اور ثانیہ جلدی سے اٹھی اور تیار ھونے لگی ثانیہ بلکل تیار ھوکر حجرے سے نکلنے لگی کہ آزر سے ٹکرا گئی
افف اللہ دیکھ تو لیتے کہ میں آرہی ھوں
وہی تو دیکھ رہا تھا میری کوئی غلطی نہیں
تو کس کی غلطی ھے ؟
تمہاری اتنی اچھی لگ رہی ھو میں نظر ہی نہیں ہٹا پایا
ثانیہ کا چہرہ سرخ ھوگیا تھا
اب دونوں پوری وادی میں گھوم پھر رھے تھے اتنا پیارا جھرنا اونچے اونچے پہاڑ خوبصورت موسم ثانیہ کو یہ سب بہت ا چھا لگ رہا تھا وہ آزر کے ساتھ فضاؤں میں اڑتے ہوئے سب نظارے دیکھ رہی تھی جب ایک پہاڑ پر آزر اترا
ثانی ایک بات پوچھوں؟
ہاں پوچھو نہ
میں تمہیں کیسا لگتا ھوں؟
کیوں پوچھ رہے ھو ؟
بس ایسے ہی اچھا بتاؤ نہ اب ؟
سچ بتاؤں بہت اچھے لگتے ہیں آپ مجھے
کیا تم مجھ سے شادی کروگی
ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ۔۔۔ میں۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ یہ
آپ یہ کیسی باتیں کررھے ھیں ؟
مجھے بس اتنا بتا دو محبت کرتی ھو مجھ سے ؟
میں کیسے محبت کرسکتی ھوں شاہ مجھے تو محبت کا
م بھی نہیں آتا ابھی میں ان جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتی کھل کر جینا چاہتی ھوں
تم نے ہی بولا میں تمہیں اچھا لگتا ھوں
ہاں ا چھے لگتے ہیں آپ مگر اچھے لگنے میں اور محبت کرنے میں فرق ھوتا ھے بہت بڑا فرق
مطلب تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ؟
ہاں نہیں کرتی ثانیہ نے منہ دوسری طرف موڑ لیا اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ چکے تھے
آزر خاموش ھوگیا باقی رہ کیا گیا تھا سننے کو
۔
۔
۔
کچھ دیر دونوں وہاں کھڑے رھے اور پھر آزر ثانیہ کو گھر لے آیا جہاں سب شہر واپس جانے کی تیاری میں مصروف تھے کیونکہ روقیہ بیگم کومہ سے نکل آئی تھی انہیں ھوش آگیا تھا اور وہ ثانیہ سے ملنا چاہتی تھی ایک طرف ماں سے ملنے کی خوشی تھی اور دوسری طرف آزر سے دوری
حاکم چچا لوگ اپنے گھر جا چکے تھے صاحبہ ثانیہ کا سامان پیک کررہی تھی جب آزر نے اسے وادی واپس جانے کا کہا اب ثانیہ اپنے سامان کے پاس کھڑی تھی اور باہر لائبہ اسے آوازیں دے رہی تھی
آزر نے بڑی آس سے ثانیہ کی طرف دیکھا اور بولا
میرا درد تم نہ سمجھ سکے مجھے سخت اس کا ملال ہے
زرا پھر سمجھ کر جواب دے میری زندگی کا سوال ھے
ایک اشک آزر کی آنکھ سے بہہ گیا ثانیہ رخ موڑ کر باہر لائبہ کی طرف چل دی وہ لائبہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی
جب اسے آزر کی دھاڑ سنائی دی
ثانیہ کا جگر پھٹ گیا تھا اشک لڑی کی طرح بہنے لگے تھے۔