معصوم بچے یا اوباش ذہن


زندگی جیسے جیسے گزرتی جارہی ہے مجھے مکمل کرتی جارہی ہے ہر روز ایک نئے سبق سے آگاہ کررہی ہے زندگی میں ملنے والے مختلف اسباق پر گہری نظر دوڑائی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ پتھروں کا دور اس جدت سے قدرے بہتر تھا پہلے بچے فحش گوئی کرتے سنائی نہیں دیتے تھے بنت حوا اور ابن آدم غلیظ سوچوں سے آزاد تھے اوربغیر کسی فساد کی برپائی کے ساتھ کھیلتے پر صنف نازک سے صنف آہن تک کا سفر معاشرے کو مہنگا پڑا معصوم بچے سے اوباش بچے تک کا یہ سفر دل سوز ہے۔۔
 
 آج میں بس میں سفر کررہی تھی کہ ایک عجیب حادثہ ہوا میں اسے حادثہ ہی کہونگی کہ بات ہی کچھ سنگین ہے کوئی دس گیارہ سالہ بچہ ہوگا، ہماری بس ٹریفک کی وجہ سے رکی ہوئی تو وہاں موجود پھل فروش یا مختلف کھانے پینے کی اشیاء والے تھیلیاں اپنے ہاتھوں میں تھامے رزق کی تلاش میں کھڑے تھے، ادھر ہی وہ بچہ بھی تھا ، میں دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ نجانے کیا مجبوری ہوگی اس بچے کی جو وہ اس عمر میں کام کر رہا ہے ، اس کے ساتھ ایک اور بھی مرد تھا کوئی تیس ، پینتس سال کا ،میں ابھی یہی سوچتے ہوۓ اسے دیکھ رہی تھی کہ اتنے میں اس بچے نے بہت ہی نازیبا حرکات کا اظہار کیا، جیسے اکثر اوباش قسم کے نوجوان کرتے ہیں ویسے ہی، یوں آنکھوں سے اشارے ، یوں زبان ہونٹوں پہ پھیرنا اور بھی بیہودہ سی حرکات کہ جسے دیکھ کر میرا دل کانپ اٹھا روح لرز گئی رونگٹے کھڑے ہوگئے اور چہرہ زرد پڑنے لگا۔
 
میں حیران تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور اس نے یہ حرکات دو تین بار کی مجھے اس سب کی امید نہیں تھی میں تو رحم دلی کے ساتھ دل ہی دل میں اسکی مجبوری پر افسوس کررہی تھی اور اسکا یہ غلطی کردار دیکھ کر مجھے سمجھ نہ آیا کہ میں کس ردعمل کا مظاہرہ کروں عقل دنگ رہ گئی آنکھیں روشنی سے محروم ہوگئی دماغ جیسے ٹھہر گیا ہو مجھے اپنا جسم بے جان محسوس ہونے لگا جیسے سوائے دل کے دھڑکنے کے اب کوئی حصہ کچھ کرنے کے قابل نہ رہا بچے کے جانے کے بعد مجھے یہ سوچ مسلسل پریشان کرتی رہی آخر اس بچے کی معصومیت کس نے چھین لی، وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے اسے وقت سے پہلے بڑا کر دیا اور نہ صرف بڑا کیا بلکہ اسے ایک اوباش نوجوانوں بنا دیا ہمارا معاشرہ کس قدر پستی کا شکار ہے کہ یہاں دس دس سال کے بچے عورت کو محض تفریح کا سامان سمجھتے ہیں انہیں تو شاید ابھی یہ تک نہیں معلوم کہ جو وہ کر رہے ہیں اس کا ان کی زندگیوں پہ کیا اثر ہوگا وہ بس ایک راستے پہ لگا دیے گئے ہیں اور وہ اسی پہ چلتے جا رہے ہیں ،
 
 خدا کی پناہ اسکے آنے والے وقت کا سوچ کے کانپ گئی جب یہی بچے بڑے ہو کر اسی سوچ کے ساتھ معاشرے میں کس قدر بھیانک کردار ادا کریں گے جن کی ابھی سے ایسی ذہن سازی کی گئی ہے کہ وہ عورت کو صرف ایک تفریح کی غرض سے دیکھتے ہیں وہ بڑے ہو کر کیا درندگی دیکھائیں گے میں اس وقت سے خوف زدہ ہوں اور یہ بگاڑ کسی خاص فرد خاص برداری زبان سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ معاشرے کے بگاڑ کی وضاحت کررہا ہے آؤ مل کر ان معصوم دلوں اور چہروں کہ چھینی ہوئی معصومیت سے انھیں آشنا کریں اپنے گھروں میں اپنے ان ننھے شھزادوں کی تربیت کریں تاکہ یہ معاشرے میں عزت پاسکیں اور ہم سب کی بیٹیاں ان شھزادو سے حفاظت اور امن حاصل کر سکیں اور یہ شھزادے معاشرے کے سدھار میں اپنا کردار ادا کر کے لوگوں کو فائدہ پہنچا سکیں میں سارا راستہ یہی سوچتی رہی اس سب کے پیچھے آخر ہاتھ کس کا ہے ، وہ کون سے لوگ ہیں جو ایسے معصوم بچوں کی اسقدر آلودہ ذہن سازی کر رہے ہیں آؤ مل کر معاشرہ سدھاریں معاشرے کے سدھار کی اس تحریک میں ہمارا ساتھ دیں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں