حافظ عبداللہ سیلابی کٹاؤ کے کنارے ایک اونچے ٹبے پر بیٹھا نجانے کس سوچ میں گم تھا۔ وہ حافظ قرآن تھا۔ دنیا بھر میں اکیلا اور اس وقت زندگی کے پچیسویں سال میں تھا۔ نور کوٹ گاؤں کی ایک بے آباد چھوٹی سی مسجد کو آج سے سات سال پہلے آ کر اس نے آباد کیا تو گاؤں والوں نے اس کی دو وقت کی روٹی اور ضروری اخراجات کو ہنس کر اپنے ذمے لے لیا۔ اس نے اس سے زیادہ کا مطالبہ بھی نہ کیا۔ گاؤں کے بچوں کو نماز فجر کے بعد قرآن پڑھانا اس کے معمولات میں شامل تھا۔ گاؤں کے چوہدری حسن دین کے گھر سے اسے خاص تعلق تھا۔ اس نے چوہدری حسن دین کے تین بیٹوں رفاقت، عنایت، لطافت اور ایک بیٹی نادرہ کو قرآن پاک پڑھایا تھا۔
اس کا ایک عرصے سے معمول تھا کہ روزانہ عصر کے بعد نور پور سے چار فرلانگ دور مشرق میں واقع ایک خانقاہ سے تقریباً ڈیڑھ سو گز دور، ایک اونچے ٹبے پر اُگے پیپل کے درخت کے نیچے آ بیٹھتا اور قرآن حکیم کی دہرائی شروع کر دیتا۔ جب سورج، شفق کی لالی سے دامن چھڑانے لگتا، تب وہ قرآن پاک کو چوم کر سینے سے لگاتا۔ اٹھتا۔ درخت کو تھپکی دیتا، جیسے اس سے رخصت ہو رہا ہو اور مسجد کو چل دیتا جہاں اسے پانچ وقت اذان بھی خود ہی دینا ہوتی تھی۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہ سوچوں کے گرداب میں ایسا گم ہوا کہ خود سے بے خبر ہو گیا۔ وقت گزرنے کا احساس ناپید ہو گیا۔ پھر جب سورج کی ٹکیہ اپنے آخری مقام کو
چھونے لگی تو اسے ہوش آیا۔ ایک طویل سانس لے کر اس نے حدِ نظر تک پھیلی سیلابی چادر پر ایک نگاہ ڈالی اور اٹھ گیا۔ پھر ایک دم چونک پڑا۔
اس کی نظریں پانی میں بہتے آ رہے درخت کے ایک تنے پر جم گئیں جس کے ساتھ کوئی انسانی جسم چمٹا ہوا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا۔ وہ کوئی عورت تھی، کیونکہ دور سے بھی اس کے پھولدار کپڑوں کی جھلک نمایاں تھی۔
حافظ عبداللہ نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ خانقاہ کی جانب نظر دوڑائی مگر درویش کو آواز دینے کا اسے حوصلہ نہ ہوا۔ چاہا کہ گاؤں سے کسی کو مدد کے لئے بلائے مگر اتنا وقت نہ تھا۔ جب تک وہ کسی کو مدد کے لئے بلاتا، اندھیرا مزید بڑھ جاتا۔ پھر وہ دریا میں بہتی اس عورت کو بچا پاتا، اس کا اسے یقین نہ تھا۔ اس نے زیادہ تردد میں پڑنے کے بجائے کندھوں سے گرم چادر اور سرسے ٹوپی اتار کر درخت کے نیچے رکھتے ہوئے پاؤں سے چپل بھی نکال دی۔ پھر آستینیں اُڑستے ہوئے ٹھنڈے یخ پانی میں چھلانگ لگا دی۔
اس کا خیال درست تھا۔ درخت کے تنے کے قریب پہنچا تو پتہ چلا کہ اس سے چمٹی ہوئی وہ ایک جواں سال لڑکی ہی تھی جو بیچاری نجانے کہاں سے سیلاب کے ریلے میں بہتی چلی آ رہی تھی۔ اس نے بڑی مضبوطی سے درخت کی چھوٹی چھوٹی شاخوں کو اپنے ہاتھوں سے جکڑ رکھا تھا۔ آنکھیں بند تھیں اور بیہوش تھی۔ سردی
اور سرد پانی کے باعث اس کے ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے۔
حافظ عبداللہ نے اس کے جسم سے چپکے ہوئے کپڑوں سے بری طرح جھانکتے اس کے جسم سے نظریں چراتے ہوئے درخت کے تنے کو پیروں کی جانب سے کنارے کی طرف دھکیلنا شروع کیا اور بڑی مشقت سے تقریباً پندرہ منٹ بعد ٹبے کے قریب لانے میں کامیاب ہو گیا۔
کنارے کی کچی زمین پر ایک چوتھائی درخت کو کھینچ لینے کے بعد اس نے آنکھیں بند کر کے جگہ جگہ سے پھٹ جانے والے کپڑوں سے جھانکتے لڑکی کے نیم برہنہ اکڑے ہوئے جسم کو اس پر سے اتارا۔ اس کی مدھم سی چلتی ہوئی سانس کو محسوس کیا۔ ٹبے سے اپنی چادر اٹھائی۔ اس میں لڑکی کو لپیٹا۔ ٹوپی سر پر رکھی۔ پاؤں میں چپل ڈالی۔ درخت کو حسبِ معمول تھپکی دی اور ٹبے سے اتر آیا۔ پھر لاحول پڑھ کر شیطانی خیالات کو دور بھگاتے ہوئے آنکھیں بند کر کے لڑکی کا چادر میں لپٹا جسم کندھے پر ڈالا۔ اس کے اپنے گیلے کپڑے جسم سے
چپکے ہونے کی وجہ سے سردی ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی۔
اسی وقت خانقاہ سے "اللہ اکبر" کی صدا بلند ہوئی۔ وہ ایک پل کو حیران ہوا۔ درویش خانقاہ کے باہر ایک اونچی جگہ کھڑا اذان دے رہا تھا۔ وہ لڑکی کا جسم کندھے پر لئے حتی الامکان تیز قدموں سے خانقاہ کی جانب چل دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
جب تک وہ خانقاہ کے قریب پہنچا، درویش اذان دے کر اندر جا چکا تھا۔ اس نے ایک لمحے کو خانقاہ سے باہر کھڑے رہ کر کچھ سوچا، پھر اللہ کا نام لے کر اندر داخل ہو گیا۔
پہلے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وہ ایک پل کو اس کے باہر رکا۔ اندر سے کسی کے ہلکی آواز میں قرات کرنے کی آواز آ رہی تھی۔ شاید درویش نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے دوسرے کمرے کا رخ کیا جس کا دروازہ کھلا تھا۔ باہر ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ کمرے کی واحد کھڑکی سے آتی ہوئی ملگجی سی روشنی کمرے کا اندھیرا دور کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کمرے کے ماحول کو محسوس کیا۔ چند لمحے بُت بنا کھڑا رہا۔ پھر جب اس کی آنکھیں نیم اندھیرے میں دیکھنے لگیں تو وہ قدم قدم آگے بڑھا۔ کمرے کی بائیں دیوار کے ساتھ بچھی بان کی چارپائی پر لڑکی کو ڈالا اور دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا سانس اعتدال پر آتے آتے دو تین منٹ گزر گئے۔ لڑکی پر ایک طائرانہ نظر ڈال کروہ آہستہ سے پلٹا۔ اس کا ارادہ تھا کہ درویش سے جا کر ملے اور اسے ساری بات بتا کر اس صورتحال میں اس سے مدد مانگے۔
ابھی وہ دو ہی قدم چلا تھا کہ رک گیا۔ کمرے میں اچانک ہی روشنی کی ایک لہر در آئی تھی۔ اس نے ٹھٹک کر دیکھا۔ درویش کمرے کے دروازے میں جلتا ہوا چراغ ہاتھ پر رکھے کھڑا اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
" بابا۔ آپ۔۔۔ " حافظ عبداللہ نے اسے دیکھ کر کہنا چاہا۔
"شش۔۔۔ " درویش نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے بولنے سے روک دیا اور آگے بڑھ آیا۔ " خاموش۔ " وہ دبی آواز سے بولا۔ " کمرہ امتحان میں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ "
"کمرہ امتحان؟" حافظ عبداللہ نے حیرت سے کہا۔
"ہاں۔ " درویش نے چراغ اسے تھما دیا۔ " یہ لے۔ اسے طاق میں رکھ دے۔ "
"بابا۔ " حافظ عبداللہ نے چراغ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ وہ اب بھی حیرت زدہ تھا۔ "کیسا امتحان؟ "
"یہ۔۔۔ " درویش نے چارپائی بے سدھ پر پڑی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔ " یہ امتحان ہی تو ہے جس میں تو نے خود کو ڈال لیا ہے۔ "
"یہ۔۔۔ یہ تو۔۔۔ سیلاب کے پانی میں بہتی چلی آ رہی تھی۔۔۔ میں تو اسے بچا کر یہاں اٹھا لایا ہوں۔ " حافظ عبداللہ نے اسے بتایا۔
"اچھا کیا۔ بہت اچھا کیا۔ " درویش نے ایک کونے میں پڑا کمبل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا کہ لڑکی کو اوڑھا دے۔ " نیکی کی ہے ناں۔ اب بھگت۔ نیکی کرنا اتنا آسان ہوتا تو ساری دنیا کرتی پھر تی۔ نیکی کرنا اس کی مشیت کے تابع ہونا ہے حافظ۔ تابعدار ہونا چاہا ہے ناں تو نے؟ ایک بار سوچ لے۔ اچھی طرح۔ ابھی وقت ہے کہ تو آزمائش میں پڑے بغیر نکڑ کی گلی سے نکل جائے۔ کچھ دیر اور گزر گئی تو یہ راستہ بند ہو جائے گا۔ پھر تو چاہے نہ چاہے، تجھے امتحان دینا پڑے گا۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟ نہ تو جانتا ہے نہ میں۔ بس وہ جانتا ہے۔" درویش نے چھت کی جانب انگلی اٹھا دی۔ " وہ۔۔۔ جو سب جانتا ہے اور کچھ نہیں بتاتا۔ جسے بتاتا ہے اسے گونگا بہرہ کر دیتا ہے۔ اندھا بنا دیتا ہے۔ ابھی وقت ہے۔ سوچ لے۔ سوچ لے۔ " درویش نے اپنی بے پناہ چمک دیتی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا۔
"بابا۔ " حافظ نے چراغ طاق میں پڑے قرآن پاک کے چند بوسیدہ نسخوں کے پاس رکھا اور کمبل میں لڑکی کا بدن خوب اچھی طرح لپیٹ کر درویش کی جانب پلٹا۔ "میں کچھ نہیں سمجھا۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ "
"کھل کر سمجھاؤں تجھے؟" اچانک درویش کا لہجہ جھڑکی دینے کا سا ہو گیا۔ " تو سُن۔ جا۔ اس کو وہیں سیلاب کے پانی میں پھینک آ۔ نیکی ہے ناں۔ اسے اسی دریا میں ڈال آ، جہاں سے نکال کر لایا ہے۔ نیک نہ بن۔ خطا کار بنا رہ۔ جان بچی رہے گی۔ نیک بنے گا تو امتحان میں ڈال دے گا تجھے۔۔۔ " اس نے سسکی لی۔ "بڑا ڈاہڈا ہے وہ۔ رعایتی نمبر آسانی سے نہیں دیتا۔۔۔ " پھر جیسے وہ جھلا گیا۔ "مگر میں تجھے یہ سب کیوں سمجھا رہا ہوں ؟ کیوں تیرا اور اپنا وقت خراب کر رہا ہوں ؟ جو تیرے جی میں آئے کر میاں۔ " اس نے حافظ کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔ " کل کو تو اس کے سامنے میرے خلاف گواہی دے دے گا کہ میں نے تجھے نیکی کرنے سے روکا تھا۔ نہ بابا نہ۔ تو اپنی مرضی کر۔ تو جانے اور وہ۔ مجھے معاف رکھ۔ " وہ بڑبڑاتا ہوا جانے کے لئے پلٹا۔
"بابا۔ " حافظ عبداللہ لپک کر اس کے راستے میں آ گیا۔ " مجھے کس الجھن میں ڈال کر جا رہے ہیں آپ؟ میں۔۔۔ میں۔۔۔ اس کا کیا کروں ؟" اس نے بازو دراز کر کے لڑکی کی جانب اشارہ کیا جو ہولے سے کسمسائی تھی۔
درویش ایک بار ساری جان سے لرز گیا۔ پھر اس نے بڑی اجنبی نظروں سے حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔ حافظ ان نظروں سے گھبرا کر رہ گیا۔ عجیب سی سردمہری تھی ان میں۔
"میں نے کہا تھا کہ وقت گزر گیا تو امتحان شروع ہو جائے گا تیرا۔ " درویش نے بڑے گمبھیر لہجے میں کہا۔ " گھنٹی بج چکی۔ پرچہ حل کرنے کا وقت شروع ہو گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ تو نے باتوں میں وہ سارا وقت گزار دیا جو تجھے بھاگ جانے کے لئے دیا گیا تھا۔ نکڑ کی گلی بند ہو گئی۔ اب تو جس دروازے سے کمرہ امتحان میں داخل ہوا تھا اسی سے باہر جائے گا مگر اس وقت جب پرچہ حل کر لے گا۔ خالی کاغذ دے کر جانا چاہے گا تو میں نہیں جانے دوں گا۔ " درویش نے کسمسا کر کراہتی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔ "یہ پرچہ تجھے ہی حل کرنا ہے۔ میں دعا کروں گا کہ تجھے اس میں زیادہ سے زیادہ رعایت دی جائے۔ اب وہ مانے یا نہ مانے، یہ اس کی مرضی۔ " وہ چل دیا۔
"بابا۔ " حافظ اس کے پیچھے لپکا۔ " مجھے مسجدجانا ہے۔ وہاں کسی کو پتہ نہیں کہ میں کہاں ہوں اور کس کام میں الجھ گیا ہوں۔۔۔ اس کے وارثوں کا بھی کوئی پتہ نہیں۔ یہ کون ہے؟ کہاں سے بہتی آئی ہے؟ اسے یوں کیسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں ہم؟"
"ہم نہیں۔ " درویش نے ہاتھ اٹھا کر اسے ٹوک دیا۔ "تم۔۔۔ صرف تم۔ میرا اس سے کیا تعلق؟ " وہ بد لحاظی سے بولا۔
"مگر بابا۔ رات بھر میں اس کے ساتھ کیسے۔۔۔ یہاں۔۔۔ اکیلا۔ " حافظ ہکلا کر رہ گیا۔
"یہی تو میں تجھے سمجھا رہا تھا اس وقت۔ " درویش ملامت کے سے انداز میں بولا۔ " اسی لئے تو میں نے کہا تھا کہ اسے جہاں سے لایا ہے وہیں ڈال آ۔ خواہ مخواہ مصیبت میں نہ پڑ۔۔۔ مگر ۔۔۔ "
"تمہارا مطلب ہے بابا۔ میں اسے واپس سیلاب کے پانی میں پھینک آتا؟" حافظ عبداللہ نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
"ہاں۔ " درویش سر جھٹک کر بولا۔ " یہی مطلب تھا میرا۔ مگر تو نے کج بحثی میں سارا وقت گنوا دیا۔ اب بھگت۔ "
" بابا۔ تم جانتے ہو اس سے کیا ہوتا؟" حافظ عبداللہ اب بھی حیران تھا۔
"کیا ہوتا؟" درویش نے لاپرواہی سے پوچھا۔
"یہ مر جاتی۔ "
"بچانے والے کی کیا مرضی ہے، یہ تو کیسے جانتا ہے؟ اگر اسے بچانا ہوتا تو وہ اسے تیرے واپس پانی میں پھینکنے پر بھی بچا لیتا۔ "
"بالکل ٹھیک۔ " حافظ کا لہجہ اچانک بدل گیا۔ "مگر بابا۔ پھر میں اسے کیا منہ دکھاتا۔ اپنے اس ظلم کا کیا جواز پیش کرتا اس کے سامنے، جو میں اس مظلوم کی جان پر کرتا۔ "
"تو نہ پیش کر جواز۔ اب بھگت۔ اس اندھیری رات میں ، اس کے ساتھ اکیلا رہ اور اس کی دیکھ بھال کر۔ اس کی خدمت کر۔ اسے زندہ رکھنے کی کوشش کر۔ آزمائش کے کمرے میں بیٹھ کر پرچہ حل کر۔ اگر صبح تک تو اپنے آپ سے بچ گیا تو میں تجھ سے آن ملوں گا ورنہ۔۔۔ " اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
" آپ کہاں جا رہے ہیں بابا؟" حافظ نے گھبرا کر پوچھا۔
"پتہ نہیں۔ مگر یہاں بہرحال نہیں رہوں گا۔ " درویش اس کی جانب دیکھ کر عجیب سے انداز میں بولا۔ " یہاں رہا تو تجھے میرا آسرا رہے گا۔ حوصلہ رہے گا کہ تو اکیلا نہیں ہے۔ میں تیرے آس پاس ہوں۔ تجھے میرے یہاں ہونے کی شرم مارے گی۔ تو جو کرنا چاہے گا، اس میں میرے یہاں ہونے کا خیال رکاوٹ بن جائے گا۔ پھر تو موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔ اور میں تیرے کسی بھی فعل میں اگر مدد نہیں کرنا چاہتا تو تیرے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں حائل ہونے کا بھی مجھے کیا حق ہے؟"
"بابا۔ " حافظ نے کہا اور چراغ کی مدھم سی روشنی میں گردن گھما کر لڑکی کی جانب دیکھا جو ایک بار پھر بالکل بے سدھ ہو گئی تھی۔ شاید کمبل کی گرمی نے اسے سکون پہنچایا تھا۔ پھر وہ درویش کی جانب متوجہ ہوا۔ "اب جو ہو سو ہو۔ اب مجھے مجبوراً یہاں رکنا پڑے گا۔ "
"تو رک۔ میں کب نکال رہا ہوں تجھے۔ ہاں ایک پل ٹھہر۔ " درویش کمرے سے نکل گیا۔ ذرا دیر بعد وہ لوٹا تو اس کے ایک ہاتھ میں چنگیر اور دوسرے ہاتھ میں ایک کھیس اور تکیہ دبا ہوا تھا۔ " یہ لے۔ اس میں تیرے اور اس کے لئے کھانا ہے اور یہ تیرا رات گزارنے کا سامان ہے۔ اکڑ کر مر گیا تو میں اسے کیا جواب دوں گا؟"
حافظ عبداللہ نے اس کے ہاتھ سے دونوں چیزیں لے لیں۔
"جا رہا ہوں۔ اب تیرے اور اس کے سوا یہاں اور کوئی نہیں ہے۔ "’
"ہے بابا۔ " حافظ عبداللہ مسکرایا اور کھیس اور تکیہ دیوار کے ساتھ فرش پر ڈال دیا۔
"جس کی تو بات کر رہا ہے، میں اس کی بات نہیں کر رہا۔ وہ تو ہر کہیں ہے۔ بس ہمیں اس کا یقین نہیں آتا۔ " درویش پلٹ گیا۔ "صبح ملاقات ہو گی۔ "
"انشاءاللہ۔ " حافظ کے لہجے میں نجانے کیا تھا کہ درویش نے مڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
"انشاءاللہ۔ " ہولے سے اس نے کہا اور دروازے سے نکل گیا۔
خالی دروازے کو چند لمحوں تک دیکھتے رہنے کے بعد حافظ عبداللہ آہستہ سے لڑکی کی جانب پلٹا۔ چراغ کی زرد اور تھرتھراتی روشنی میں اس نے دیکھا کہ وہ چارپائی پر بالکل چت پڑی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں کی سرخی لوٹ رہی تھی۔ گیلے بالوں کی لٹیں چہرے پر بکھری ہوئی تھیں
حافظ عبداللہ نے گھبرا کر اس کی طرف سے نگاہیں پھیر لیں۔ شیطانی خیالات سے نجات پانے کے لئے تین بار لاحول پڑھ کر سینے پر پھونک ماری اور آگے بڑھ کر چنگیر اس الماری نما کھڈے میں رکھ دی جو طاق کے ساتھ بنا ہوا تھا۔
کھیس اور تکیہ اٹھاتے ہوئے اچانک ہی اسے سردی کا احساس ہوا۔ اس نے کچھ سوچا۔ پھر دونوں چیزیں اینٹوں کے فرش پر ڈال کر کمرے سے نکل آیا۔ دونوں کمرے خالی تھی۔ درویش واقعی کہیں جا چکا تھا۔ مزار سے باہر ایک طرف لگے ہینڈ پمپ کی طرف جاتے ہوئے اس نے آسمان پر نگاہ دوڑائی۔ تارے نکل رہے تھے۔ دل ہی دل میں اس نے چاند کی تاریخ کا حساب لگایا۔ گزشتہ دن میں ربیع الاول کی گیارہ تاریخ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بارہ ربیع الاول کی شب شروع ہو چکی تھی۔ آسمان صاف تھا اور چاند ابھرنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔
انہی خیالات میں ڈوبا وہ ہینڈ پمپ پر پہنچا۔ گیلا کُرتا اور بنیان اتار کر اچھی طرح نچوڑ کر دوبارہ پہننے کے بعد اس نے ایک نظر مزار کے اندرونی دروازے پر ڈالی۔ پھر وہاں سے ہٹ گیا۔ مزار کے پیچھے جا کر اس نے جلدی سے شلوار اتاری۔ خوب اچھی طرح نچوڑ کر پانی نکالا اور جھاڑ کر پہن لی۔ ہولے ہولے چلتا ہوا ہینڈ پمپ پر آیا۔ ہتھی کو چھوا تو جسم میں کپکپی سی دوڑ گئی۔
تاہم اس نے حوصلے سے کام لیا اور ہتھی پر زور ڈال دیا۔ تھوڑی دیر تک پانی نکلنے دیا۔ پھر دوسرا ہاتھ نکلتے ہوئے پانی کے نیچے کیا تو پانی کم ٹھنڈا محسوس ہوا۔ تھوڑا پانی اور نکالنے کے بعد اس نے "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کہہ کر وضو شروع کر دیا۔ فارغ ہوا تو اس کے دانت بج رہے تھے۔ گیلی ٹوپی کو سر پر جماتے ہوئے وہ کانپتا ہوا اندر کو چلا۔ کمرے میں داخل ہوا تو لڑکی بدستور اسی حالت میں چت پڑی سو رہی تھی، جیسے وہ چھوڑ گیا تھا۔ اس نے اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالی اور جوتی دروازے میں اتار کر کونے میں کھڑی کھجور کی چٹائی کی طرف بڑھا۔ اسے کھولا۔ جھاڑا اور چارپائی کے مقابل دیوار کے ساتھ فرش پر بچھا دیا۔ پھر کھیس اٹھایا اور کس کر اس کی بکل مار لی۔ اسی وقت کھلے دروازے سے ہوا کا ہلکا سا جھونکا اندر داخل ہوا۔ ٹھنڈک کو کمرے کے ماحول کے سپرد کیا اور ناپید ہو گیا۔ پلٹ کر
حافظ عبداللہ نے دروازہ بھیڑ دیا۔
اسی وقت کھلے دروازے سے ہوا کا ہلکا سا جھونکا اندر داخل ہوا۔ ٹھنڈک کو کمرے کے ماحول کے سپرد کیا اور ناپید ہو گیا۔ پلٹ کر حافظ عبداللہ نے دروازہ بھیڑ دیا۔ فوراً ہی اسے کمرے کی یخ بستگی میں کمی کا احساس ہوا۔ یہ شاید اس کے محسوس کرنے کا اعجاز تھا، ورنہ اتنی جلدی سردی کا کم ہو جانا ممکن نہ تھا۔
وہ پاؤں جھاڑ کر صف پر کھڑا ہوا۔ ایک بار نظر گھما کر سارے کمرے کا جائزہ لیا۔ پھر قبلہ رخ ہو کر اس نے نماز کی نیت کی اور ہاتھ بلند کر دئیے۔
"اللہ اکبر۔ " حافظ عبداللہ کے ہونٹوں سے سرگوشی بر آمد ہوئی اور سارا ماحول عجیب سے سکون میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس نے ہاتھ ناف پر باندھے اور آنکھیں سجدے کی جگہ پر جما کر اتنی آہستہ آواز میں قرات شروع کر دی جسے وہ خود سن سکتا تھا یا پھر اس کا معبود، جو پہاڑ کی چوٹی پر چیونٹی کے رینگنے کی آواز سننے پر بھی قادر تھا۔ چراغ کی لو نے تھرتھرانا بند کر دیا۔
شاید وہ بھی حافظ عبداللہ کی قرات سننے میں محو ہو گئی تھی۔
نماز سے فارغ ہو کر حافظ عبداللہ کچھ دیر چٹائی پر سر جھکائے بیٹھا رہا۔ وہ اب تک کی صورتحال پر غور کر رہا تھا۔ درویش کی باتیں اس کے دل و دماغ میں بھونچال سا پیدا کر رہی تھیں۔ اس کی کئی باتوں کا مفہوم اسے اب سمجھ آ رہا تھا۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔ پھر وہ اس وقت چونکا جب لڑکی کے ادھ کھلے ہونٹوں سے ایک ہلکی سی کراہ خارج ہوئی۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور چارپائی کے پاس چلا آیا۔ لڑکی غنودگی ہی کے عالم میں کراہی تھی۔ ابھی تک اس کے ہوش میں آنے کے آثار واضح نہیں تھے۔ اس نے تو اب تک کروٹ بھی نہ لی تھی۔ چت پڑی تھی۔
حافظ عبداللہ نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ وہ اچھی خاصی قبول صورت تھی۔ عمر بیس بائیس سے زیادہ نہ ہو گی۔ شادی شدہ بھی نہ لگتی تھی۔ کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں۔ ناک میں لونگ نے اس کی کشش کو بڑھا دیا تھا۔ اس کے ہونٹوں کی نیلاہٹ اب تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ کمبل میں اس کے بدن کا گداز حافظ عبداللہ کو یاد آیا تو وہ تھرا کر رہ گیا۔ "استغفر اللہ" کہہ کر اس نے لڑکی کی چہرے سے نظریں ہٹانا چاہیں ، مگر چونک کر رک گیا۔ نجانے کیوں اسے لگا کہ لڑکی بڑا کھینچ کر سانس لے رہی ہے اور اس کے چہرے پر نمایاں ہوتی ہوئی تمتماہٹ کمرے کے ماحول یا کمبل کی گرمی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اپنا شک دور کرنے کے لئے اس نے اپنا ہاتھ لڑکی کے صبیح ماتھے پر رکھا اور گھبرا کر واپس کھینچ لیا۔ ماتھا تو آگ کی طرح تپ رہا تھا۔ اپنے اندیشے کی تصدیق کیلئے اس نے ذرا سا کمبل سرکایا اور
لڑکی کا پہلو میں پڑا ہاتھ چھو کر دیکھا۔ ہاتھ بھی انگارہ بنا ہوا تھا۔
"کہیں اس پر نمونیہ کا حملہ تو نہیں ہو گیا؟" اس کے ذہن میں ایک خیال سرسرایا۔
یہ ناممکن بھی نہیں تھا۔ وہ نجانے کب سے سیلاب کے یخ پانی میں بہ رہی تھی۔ پانی سرد، اوپر سے سردی کا موسم۔ اس کا اکڑا ہوا بدن تو اب نرمی پکڑ رہا تھا مگر سردی یقیناً اس پر اپنا اثر دکھا چکی تھی۔
لڑکی کا ہاتھ کمبل کے اندر کر کے وہ سیدھا ہو گیا۔ اس وقت، اس جگہ وہ اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ دوا کے نام پر وہاں پھانکنے کو دھول تک نہ تھی۔ اور اس صورتحال میں وہ اس کے لئے کیا احتیاطی اور طبی تدبیر کرتا، اس سے وہ نابلد تھا۔
کچھ سوچ کر وہ باہر نکلا، دروازہ بھیڑ دیا اور ساتھ والے کمرے میں چلا آیا۔ یہ وہ کمرہ تھا جس کے اندر سے اسے درویش کے نماز میں قرات کرنے کی آواز سنائی دی تھی۔ کمرے کے قبلہ رخ طاق میں چراغ جل رہا تھا۔ مغربی دیوار کے پاس آگے پیچھے دو چٹائیاں بچھی تھیں۔ آگے والی چٹائی پر عین درمیان میں رحل پر سبز جزدان میں ملفوف قرآنِ حکیم دھرا تھا۔ اس کے علاوہ کمرے میں اور کوئی سامان نہ تھا۔
وہ چاروں طرف نظر دوڑا کر باہر نکل آیا۔ اب اس کا رخ مزار کی جانب تھا۔ مزار کے باہر چپل اتار کر اس نے سبز دروازہ وا کیا اور اندر داخل ہو گیا۔ صحن کے پار سامنے سبزمنقش چادروں اور پھولوں سے ڈھکی بابا شاہ مقیم کی قبر پر چند اگر بتیاں سلگ رہی تھیں ، جن کی بھینی بھینی خوشبو سے وہاں کا ماحول اس اکیلی رات میں عجیب پُراسرار سا ہو گیا تھا۔ صحن کے بائیں ہاتھ بنے کمرے کو دیکھتا ہوا وہ بابا شاہ مقیم کے گنبد میں داخل ہو گیا۔
گنبد کے اندر شمالی جانب ایک لکڑی کی الماری میں اَن گنت قرآن پاک کے نسخے، سیپارے اور دوسری وظائف کی کتب پڑی تھیں۔ چھت کے درمیان کسی چاہنے والے نے قندیل لٹکا دی تھی۔ دیواروں پر پھولدار ٹائلیں جڑی تھیں۔ قبر کے ارد گرد دیواروں تک کی تقریباً چار چار فٹ کی جگہ پر کھجور کی صفیں ترتیب سے بچھی تھیں۔ مشرقی سمت میں ایک بڑی کھڑکی تھی جو اس وقت بند تھی۔ قبلہ رخ محراب بنی تھی تاکہ اگر کوئی وہاں نوافل وغیرہ پڑھنا چاہتا تو اسے دقت نہ ہوتی۔
حافظ عبداللہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا بابا شاہ مقیم کے چہرے کی جانب آیا اور دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ بے اختیار اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ سر جھک گیا اور ہاتھ گود میں آ پڑے۔ کچھ دیر اسی عالم میں گزری تو غیرمحسوس انداز میں اس کے دل کی دھڑکن مدھم سی ہو گئی اور وہ ارد گرد سے بے خبر ہو گیا۔
بڑی آہستگی سے ایک انجانی سی مہک کا ایک جھونکا جاگا اور حافظ عبداللہ کے گرد ہالہ سا تن گیا۔ مہک نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ اسے لگا، اس کے بالوں میں بڑی نرمی سے کوئی اپنی انگلیاں پھیر رہا ہے۔ اسے دلاسہ دے رہا ہے۔ تشفی دے رہا ہے۔ پیار کر رہا ہے۔ ہمت بندھا رہا ہے اس کی۔ حوصلہ دے رہا ہے اسی۔
کتنی دیر گزری، اسے پتہ نہ چلا۔ جب یہ احساس مدھم پڑا تو دھیرے سے اس نے سر اٹھایا، تب اسے علم ہوا کہ اس کی داڑھی آنسووں سے تر تھی۔ شبنم، اس کے گود میں دھرے ہاتھوں پر قطرہ قطرہ گر رہی تھی۔ گریبان بھیگا ہوا تھا اور اندر جیسے دھُل سا گیا تھا۔
آہستہ سے اس نے ہاتھ چہرے پر پھیرے۔ اشک سارے چہرے پر ملتے ہوئے لگا جیسے اس نے وضو کر لیا ہو۔
"بابا۔ " اس کے نہاں خانہ دل سے بے اختیار ایک سرگوشی ایک بار پھر آنسوؤں کی برسات لئے نکلی اور ماحول میں رچی مہک کے ساتھ ہو لی۔ ہچکیاں لیتے ہوئے اس نے قبر کے تعویذ پر سر ٹیک دیا۔
وہ کیوں رو رہا تھا؟ اسے خود معلوم نہ تھا لیکن اسے تو سب معلوم تھا جو اسے رُلا رہا تھا۔ نہیں۔ رُلا نہیں رہا تھا، اسے پاکیزگی کا غسل دے رہا تھا۔ اس پانی سے وضو کرا رہا تھا جو ہر ایک کے اندر تو ہوتا ہے، باہر نصیب والوں ہی کے آتا ہے۔
٭٭٭٭٭
رات آدھی سے زیادہ جا چکی تھی۔
حافظ عبداللہ چٹائی پر بیٹھا تھا۔ جو قرآن پاک رحل پر اس کے سامنے کھلا رکھا تھا، یہ وہی تھا جو اسے دوسرے کمرے میں ملا تھا۔ مزار سے نکل کر جب وہ لڑکی والے کمرے میں آیا تو لڑکی ابھی تک بے سدھ تھی۔ تاہم مزار سے واپسی پر جب اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر حرارت کی شدت جاننا چاہی تو حیرت انگیز طور پر اس میں نمایاں کمی آ چکی تھی۔ اس کا دل تشکر اور ممنونیت سے لبالب ہو گیا۔ یہ صاحبِ مزار کی کرامت ہی تو تھی جو اللہ کے فضل سے ظاہر ہوئی تھی۔
اس نے لڑکی کو ہوش میں لانے کا خیال ترک کر دیا۔ ساتھ والے کمرے میں گیا اور وہاں سے قرآن پاک اور رحل اٹھا لایا۔ کمرے کا دروازہ بھیڑ دیا۔ کھیس کی بکل ماری۔ طاق میں رکھے چراغ کے قریب، چٹائی پر دو زانو بیٹھ کر قرآن پاک کو بوسہ دیا۔ کھولا اور منزل کرنے میں لگ گیا۔
کبھی کبھی وہ آہستہ سے گردن گھما کر لڑکی کا طائرانہ سا جائزہ لے لیتا اور دوبارہ دہرائی میں محو ہو جاتا۔
وقت گزرنے کا اسے احساس تو ہو رہا تھا مگر کتنا گزر گیا، یہ اسے علم نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد صبح ہو جائے تاکہ وہ گاؤں جا سکے۔ گاؤں کا خیال آیا تو اس کا دھیان مسجد کی جانب چلا گیا۔ مغرب اور عشاء کے وقت وہ وہاں موجود نہ تھا۔ نمازیوں کو بڑی دقت ہوئی ہو گی اور ساتھ ہی وہ فکرمند بھی ہوئے ہوں گے کہ آج حافظ کہاں چلا گیا؟ کسی کو بھی پتہ نہ تھا کہ وہ عصر کے بعد روزانہ کہاں جاتا ہے؟ ورنہ اب تک اسے کوئی نہ کوئی تلاش کرتا یہاں تک آ ہی چکا ہوتا۔
قرآن پاک کے الفاظ زبان سے ادا ہو رہے تھے اور دماغ ایسی ہی ادھر ادھر کی سوچوں میں بار بار الجھ رہا تھا۔ ایک آیت ختم کرتے ہوئے اس نے لڑکی کا جائزہ لینے کے لئے آہستہ سے گردن گھمائی اور الفاظ لڑکھڑا گئی۔ وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔ شاید اسے پیاس لگی تھی۔
لڑکی کی پیاس کا خیال جب تک حافظ عبداللہ کے دل میں آتا، تب تک برانگیختہ کر دینے والی کتنے ہی سوچیں اس پر یلغار کر چکی تھیں۔ لڑکی کا لبوں پر زبان پھیرنے کا انداز اتنا دلفریب تھا کہ حافظ عبداللہ کا دل بے قابو ہو گیا۔
"پانی۔۔۔ " اسی وقت لڑکی کے لبوں سے بڑی مہین سی آواز نکلی۔
حافظ عبداللہ چونک کر اپنی دگرگوں کیفیت سے باہر آیا۔ کھیس کو بدن سے الگ کیا۔ چنگیر کے پاس پڑا مٹی کا پیالہ اٹھا یا اور کمرے سے نکل گیا۔ چند لمحے بعد لوٹا تو پیالے میں پانی تھا۔ ساتھ ہی اس کے چہرے پر وضو کے اثرات نمایاں تھے۔ سرد پانی نے اسے اپنی غیر ہوتی ہوئی حالت کو سنبھالنے میں بڑی مدد دی تھی۔
وہ چارپائی کے قریب آ کھڑا ہوا۔ لڑکی کے پپوٹے لرز رہے تھے۔ اب بھی وہ ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی اور "پانی۔۔۔ پانی" کے الفاظ وقفے وقفے سے ادا کرتے ہوئے آہستہ آہستہ سر کو دائیں بائیں حرکت دے رہی تھی۔
"لیجئے۔ پانی پی لیجئے۔ " حافظ عبداللہ نے اسے پکارا۔
لڑکی نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ تھی۔ حافظ عبداللہ نے اسے چار پانچ بار پکارا مگر وہ تو نیم بیہوشی کے عالم میں پانی مانگ اور سر دائیں بائیں مار رہی تھی۔
حافظ عبداللہ تھوڑی دیر پیالہ ہاتھ میں لئے کچھ سوچتا رہا پھر اس نے جیسے کوئی فیصلہ کر لیا۔ پانی کا پیالہ دائیں ہاتھ میں لے کر اس نے دل کڑا کیا اور بایاں ہاتھ لڑکی کی گردن میں ڈال دیا۔ پھر اسے اوپر اٹھاتے ہوئے ذرا سا جھکا اور جگہ بنتے ہی چارپائی کی پٹی پر ٹک گیا۔ جسم کی کپکپی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے پیالہ لڑکی کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ چھوٹے چھوٹے تین چار گھونٹ بھر نے کے بعد لڑکی نے منہ ہٹا لیا تو حافظ عبداللہ نے اٹھتے ہوئے اسے واپس چارپائی پر لٹا دیا اور خود پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پرے ہٹ گیا۔
سردی کی رات میں ابھی چند منٹ پہلے وہ یخ پانی سے وضو کر کے آیا تھا۔ اس کے باوجود اس کی پیشانی پسینے کے گرم قطروں سے یوں بھیگ چکی تھی جیسے وہ اب تک دہکتے تندور پر جھکا رہا ہو۔ لڑکی اب اتنی بے سدھ نہ تھی۔ حافظ عبداللہ کو لگا، تھوڑی دیر میں وہ ہوش میں آ جائے گی کیونکہ اس کی آنکھوں پر جھکے پپوٹے ہولے ہولے پھڑک رہے تھے اور وہ بار بار گلا تر کرنے کے انداز میں تھوک بھی نگل رہی تھی۔
پیالے میں ابھی کچھ پانی باقی تھا۔ حافظ عبداللہ نے چاہا کہ پانی پی لے تاکہ اس کے حواس میں بھڑکتی آگ میں کچھ تو کمی آئے۔ پھر نجانے کیا سوچ کر رک گیا۔ اس نے پیالہ چارپائی کے سرہانے فرش پر رکھا اور کمرے سے نکل گیا۔ ہینڈ پمپ پر جا کر اس نے ایک بار پھر چہرے پر سرد پانی کے چھینٹے ماری۔ اوک میں لے کر حلق تک پانی پیا۔ پھر کرتے کے دامن سے چہرہ اور ہاتھ خشک کرتا ہوا واپس لوٹ آیا۔
کمرے میں داخل ہوا تو چونک پڑا۔
لڑکی ہوش میں آ چکی تھی۔ اس نے کمبل ایک طرف ڈال دیا تھا اور لرزتی کانپتی چارپائی سے اتر چکی تھی۔ حافظ عبداللہ پر نظر پڑی تو وہ ٹھٹکی۔ گھبرا کر اس نے کمبل سے اپنے نیم برہنہ جسم کو چھپا یا اور دیوار کی طرف الٹے پاؤں سرکتے ہوئے متوحش ہرنی کی طرح اسے دیکھنے لگی۔
"گھبرائیے نہیں۔ " حافظ عبداللہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید پیچھے ہٹنے سے روک دیا۔ "مجھ سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ " اس نے دروازے کے اندر آتے ہی اپنے قدم روک لئے۔ اتنی دیر میں وہ دیوار کے بالکل ساتھ جا لگی۔
"میں اس وقت کہاں ہوں ؟" کچھ دیر تک حافظ کو بغور گھورتے رہنے کے بعد اس نے آہستہ سے پوچھا۔
"نور پور گاؤں یہاں سے کچھ ہی دور ہے۔ " حافظ عبداللہ نے جواب دیا اور ایک قدم آگے بڑھ آیا۔
"نور پور؟" حیرت سے اس کا منہ کھل گیا۔
"جی ہاں۔ " حافظ عبداللہ نے چٹائی پر پڑا کھیس اٹھا کر اپنے جسم کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔ " میں نور پور کی اکلوتی مسجد کا امام ہوں۔ یہ جگہ بھی نور پور ہی کی حد میں آتی ہے۔ بابا شاہ مقیم کے مزار کا ایک کمرہ ہے جہاں آپ اس وقت موجود ہیں۔ "
"بابا شاہ مقیم۔ " لڑکی بڑبڑائی۔ " مگر میں اتنی دور۔۔۔ "
" آپ ایک درخت کے ساتھ چمٹی ہوئی سیلابی ریلے میں بہتی جا رہی تھیں۔ میں اتفاق سے وہاں ٹبے پر موجود تھا۔ اللہ نے ہمت دی اور میں آپ کو پانی سے نکال لایا۔ "
"یہ کب کی بات ہے؟"لڑکی اب بھی پریشان تھی۔
" آج شام کے قریب کا وقت تھا۔ تب سے آپ بیہوش پڑی تھیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے پانی مانگا تو میں نے چند گھونٹ آپ کو پلائے۔ پھر میں۔۔۔ " حافظ عبداللہ کہتے کہتے رک گیا۔ ایک پل کو اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔ پھر وہ نظر اس کے سراپے سے ہٹا کر بولا۔ "وضو کرنے چلا گیا۔ واپس آیا تو آپ شاید بھاگنے کی تیاری میں تھیں۔ " ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔
"نن۔۔۔ نہیں۔ بھاگنے کی نہیں۔ " وہ گڑبڑا گئی اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر حافظ عبداللہ کی طرف دیکھا۔
"میں آپ کی کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔ " حافظ عبداللہ نے کہا۔ " اس صورتحال میں آپ کا کوئی بھی اقدام اپنی حفاظت اور مجھ پر بد گمانی کے لئے جائز ہے۔ " اس نے دروازہ آدھا بھیڑ دیا۔
"یہ دروازہ کیوں بند کر دیا آپ نے؟" وہ جلدی سے دو قدم آگے آ گئی۔
"ہوا بہت سرد ہے۔ " حافظ عبداللہ نے نرمی سے کہا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ " آپ کا بخار شاید اب کم ہو گیا ہے۔ تاہم جب میں آپ کو پانی سے نکال کر لایا تھا تو آپ انگارے کی طرح دہک رہی تھیں۔ ابھی ٹھنڈی ہوا آپ کے لئے نقصان دہ ہے۔ پھر میں نے دروازہ بند نہیں کیا، صرف بھیڑ دیا ہے۔ آپ خود کو سنبھالئے۔ شک اور اندیشہ اس وقت آپ کا حق ہے مگر ہم دونوں کے علاوہ بھی ایک ہستی یہاں موجود ہے، جس کے ہوتے ہوئے آپ کو ہر اندیشے سے بے نیاز ہو جانا چاہئے۔ "
"کون۔۔۔ کون ہے تیسرایہاں ؟" لڑکی نے چونک کر پوچھا۔
"کون۔۔۔ کون ہے تیسرا یہاں ؟" لڑکی نے چونک کر پوچھا۔
"وہ۔۔۔ " حافظ عبداللہ نے چھت کی جانب انگلی اٹھا دی۔ "وہ، جو ہر جگہ موجود ہے۔ صرف آپ کو اس کا یقین ہونا چاہئے، جیسے مجھے ہے۔ " وہ مسکرا دیا۔
"اوہ۔۔۔ " لڑکی خجل سی ہو گئی۔ اس نے شرمندہ شرمندہ سی نظروں سے حافظ عبداللہ کی طرف دیکھا اور سر جھکا کر پاؤں کے ناخن سے زمین کریدنے لگی۔
"صبح تک آپ کو یہیں ٹھہرنا ہو گا۔ " حافظ عبداللہ نے پھر کہا۔ " کل کی بارش نے کیچڑ بہت کر دیا ہے۔ سواری کوئی موجود نہیں ہے اور گاؤں تک اس اندھیرے میں پیدل جانا نری مصیبت ہے۔ آپ نے نجانے کب سے کچھ نہیں کھایا۔ وہ طاق میں چنگیر رکھی ہے۔ کھانے کو اس وقت یہی میسر ہے۔ کھا لیجئے۔ پیالے میں پانی بھی ہے۔ " اس نے چارپائی کے سرہانے زمین پر پڑے مٹی کے پیالے کی جانب اشارہ کیا۔ پھر چٹائی کے پاس آگیا۔
قرآن پاک کو چوم کر سینے سے لگایا۔ رحل اٹھائی اور لڑکی کی جانب دیکھا جو دیوار سے لگی کھڑی اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ حافظ عبداللہ کو لگا، اس کی نظروں میں عجب سحر سا کروٹیں لے رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈورے، گالوں پر بکھری دو تین لٹیں اور سینے کا زیر و بم، کسی بھی خیال، کسی بھی سوچ کو گمراہی کا راستہ دکھانے کے لئے کافی تھے۔
"اگر آپ کو اپنے اور میرے اللہ پر بھروسہ ہے تو بے فکر ہو جائے۔ کھانا کھائیے اور چارپائی پر آرام کیجئے۔ " اچانک حافظ عبداللہ کی آواز نے کمرے کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ "میں دوسرے کمرے میں جا رہا ہوں۔ آپ اندر سے کنڈی لگا لیجئے۔ صبح ہوتے ہی میں آپ کو نور پور لے چلوں گا۔ وہاں چوہدری حسن دین آپ کو آپ کے گھر بھجوانے کا انتظام کر دیں گے۔ "
دروازے کے قریب پہنچ کر وہ رک گیا۔ پلٹ کر لڑکی کی جانب دیکھا جو ابھی تک اپنی سابقہ حالت میں تھی۔
"اگر کوئی کام ہو تو اس کھڑکی پر دستک دے دیجئے گا۔ " اس نے دونوں کمروں کی درمیانی دیوار میں بنی چار ضرب چار کی بند کھڑکی کی طرف اشارہ کیا اور دروازے سے نکل گیا۔
لڑکی خاموش کھڑی کتنی ہی دیر تک خالی دروازے کو گھورتی رہی۔ اس کے دل و دماغ میں ایک جنگ سی جاری تھی۔ حافظ عبداللہ کی باتیں اور اب تک کا رویہ اسے قائل کر رہا تھا کہ وہ اس پر اعتبار کر لے جبکہ ایک جوان مرد کے ساتھ، اس جگہ رات بھر رہنے کا فیصلہ کرنا اس کے لئے بڑا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ جہاں دو جوان موجود ہوں ، وہاں شیطان کو آتے دیر نہیں لگتی۔ اور وہ ایسی طاقتور بھی نہیں تھی کہ شیطان اور حافظ عبداللہ کا تنہا مقابلہ کر سکتی۔
اس نے سر جھکا لیا اور ایک ایک کر کے حافظ عبداللہ کی باتوں پر غور کرنے لگی۔ اس کی کسی بات میں کوئی ول چھل نہ تھا۔ اس کی نگاہوں میں اسے اپنے لئے کوئی ایسا تاثر نہ ملا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ وہ اس کے لئے خطرہ ہے۔ اگر وہ اس کے ساتھ کوئی الٹی سیدھی حرکت کرنا چاہتا تو وہ بقول حافظ عبداللہ کی، شام سے اس کے پاس اس کمرے میں بیہوش پڑی تھی۔ اس دوران اسے روکنے والا کون تھا مگر وہ محفوظ رہی۔ اور اب تو وہ جاگ رہی تھی۔ پورے ہوش و حواس میں تھی۔ اب وہ کم از کم اس کے کسی اقدام کے خلاف مدافعت تو کر ہی سکتی تھی۔
سوچ سوچ کر اس کا دماغ درد کرنے لگا۔ بدن میں تھکاوٹ سی در آئی تو اس نے خود کو اللہ کے آسرے پر موجودہ صورتحال کے سپرد کرنے کا ارادہ کر لیا۔
سر اٹھا کر اس نے کھلے دروازے کی جانب دیکھا۔ پھر اندر سے کنڈی لگانے کے خیال سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی چلی۔ چراغ کے قریب سے گزرنے پر اس کی لو تھرتھرائی۔
وہ دروازے کے قریب پہنچی تو ایک خیال کے تحت ایک پل کو رکی۔ پھر دبے پاؤں باہر نکل آئی۔ ساتھ والے کمرے کے دروازے کے پاس ٹھہر کر اس نے ذرا سی گردن آگے نکالی اور بھڑے ہوئے دروازے میں سے اندر جھانکا۔
حافظ عبداللہ کی پشت کمرے کے دروازے کی جانب تھی اور وہ کھیس کی بکل مارے چٹائی پر بیٹھا تھا۔ قرآن پاک اس کے آگے رحل پر کھلا دھرا تھا۔ چراغ اس نے اپنے دائیں ہاتھ اینٹوں کی ایک ڈھیری پر رکھ چھوڑا تھا تاکہ اس کی روشنی قرآن پاک پر پڑتی رہی۔ وہ سر جھکائے ہولے ہولے آگے پیچھے ہل رہا تھا۔
غور سے سنا تو لڑکی کے کانوں میں قرآن پاک پڑھنے کی ہلکی سی آواز کسی خوشخبری کی طرح اترتی چلی گئی۔ سکون اور اطمینان نے اس کے حواس پرتسلی کی چادر تان دی۔
چند لمحے وہاں کھڑا رہنے کے بعد اس نے گردن پیچھے کھینچ لی۔ خاموش قدموں سے کمرے میں لوٹی۔ دروازہ بند کیا تو اس کا دل ایک بار پھر زور سے دھڑکا۔ یہ دیکھ کر کہ دروازے کے اندر کی جانب کنڈی کا نام و نشان ہی نہ تھا۔ لگتا تھا بہت دیر پہلے وہ ٹوٹی اور دوبارہ کسی نے اسے لگانے کی کوشش ہی نہ کی۔
خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس نے خود کو سنبھالا۔ دروازے کو اچھی طرح بند کیا مگر جب کنڈی ہی نہ تھی تو وہ بند رہتا یا کھلا، ایک برابر تھا۔
کچھ سوچ کر وہ کھڑکی کے قریب آئی۔ کھڑکی بند ضرور تھی مگر اس میں بھی کوئی کنڈی یا چٹخنی موجود نہ تھی۔ شاید دوسرے کمرے کی طرف ہو گی۔ ایک بار پھر غیر محفوظ ہونے کا خیال اندھیرے کی دبیز چادر کی طرح اس کے دماغ پر پھیلا۔ بے اختیار اس کا سر کھڑکی سے جا لگا۔ اسے چکر سا آ گیا مگر دوسرے ہی لمحے اس کے سارے اندیشے بند کھڑکی کی دوسری طرف سے آتی حافظ عبداللہ کی تلاوت کی آواز پر قربان ہو گئے۔ اس کا جی چاہا وہ اس آواز کو سنتی رہے جو اس کے جسم و جان میں عجب سکون بھری سرگوشیاں کر رہی تھی۔ اسے اپنے اللہ پر بھروسے کا سبق دے رہی تھی۔ اسے بتا رہی تھی کہ وہ وہاں اکیلی نہیں ہے۔ بقول حافظ عبداللہ کے، وہاں اس کا خالق و مالک موجود ہے۔ اور وہ تو ہر جگہ موجود ہے، بس ہمیں اس کا یقین نہیں آتا۔
اس خیال کا آنا تھا کہ اس کے جسم میں ایک طاقت عود کر آئی۔ یقین، بھروسے اور اعتبار کی طاقت۔ اس نے جھکا ہوا سراٹھایا۔ چند لمحوں تک بند کھڑکی کو گھورتی رہی۔ پھر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی چارپائی کے پاس آ گئی۔
چنگیر پر نظر پڑی تو بھوک جاگ اٹھی۔ وہ چارپائی پر بیٹھ گئی۔ کمبل کے پلو کھولے۔ اسے اپنے شانوں پر دائیں بائیں پھیلایا۔ چنگیر اٹھا کر گود میں رکھی۔ رومال کی تہہ کھولی تو اندر مکئی کی دو روٹیوں پر سرسوں کا ساگ دیکھ کر پیٹ میں اینٹھن سی ہوئی۔ ایک نظر بند دروازے اور کھڑکی پر ڈالی، پھر اس کا ہاتھ بے اختیار روٹی کی طرف بڑھ گیا۔
حافظ عبداللہ پوری طرح محو ہو کر منزل کر رہا تھا۔
قرآن پاک اس کے سامنے رحل پر کھلا پڑا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ ہولے ہولے جھومتا ہوا بڑی نرمی، آہستگی اور جذب کے ساتھ تلاوت کر رہا تھا۔ چودہ سطری قرآن پاک کا ایک ایک صفحہ سطر بہ سطر اپنے آغاز و اختتام کے الفاظ کے ساتھ اس کے ذہن پر نقش اور دل میں محفوظ تھا۔ جونہی صفحے کا آخری لفظ اس کی زبان سے ادا ہوتا، غیر ارادی طور پر اس کا دایاں ہاتھ حرکت میں آتا، ورق الٹ جاتا اور زبان اگلے صفحے کی عبارت کو چومنے لگتی۔
دوسرا پارہ اختتام کو پہنچا تو اس نے آنکھیں وا کیں۔ سر جھکا کر قرآن پاک کو بوسہ دیا۔ چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر قرآن پاک بند کر کے اٹھ گیا۔ کھیس اتار کر وہیں رکھا۔ دروازے میں پڑی چپل پہنی۔ باہر نکلا۔ چار قدم چلا اور ساتھ والے کمرے پر آ رکا۔ آہستہ سے ہاتھ دروازے پر رکھ کر دبایا۔ دروازہ ہلکی سی چرر کی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔ اس نے قدم اندر رکھا۔ چراغ کی لو تھرتھرائی۔ اس نے وہیں رک کر چارپائی کی طرف دیکھا۔ لڑکی کمبل میں سمٹی پڑی تھی۔ اس کا چہرہ دروازے ہی کی جانب تھا اور وہ سو رہی تھی۔
وہ چند لمحوں تک اس کے صبیح چہرے کو تکتا رہا۔ سوچوں کی پرچھائیاں اس کی آنکھوں میں تیر رہی تھیں۔ بلا آخر آہستہ سے پلٹ کر وہ باہر نکل گیا۔ دروازہ بند ہوا اور اس کے قدموں کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔
آواز ختم ہوتے ہی ایک دم لڑکی اٹھ بیٹھی۔ اس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو چکا تھا۔ ایک طویل سانس سینے سے خارج کرتے ہوئے وہ چارپائی سے اتر آئی۔ اب اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ اس نے اسی وقت سانس روک لیا تھا جب حافظ عبداللہ نے دروازہ کھولا تھا۔ پلکوں کی درز سے وہ اسے اس وقت تک بے حس و حرکت پڑی دیکھتی رہی، جب تک وہ واپس نہ لوٹ گیا۔ حافظ عبداللہ کا اس وقت کمرے میں آنا، اسے خاموش کھڑے ہو کر دیکھتے رہنا، آگے بڑھتے قدم کو روک لینا اور پھر جیسے مجبوراً لوٹ جانا۔ پھر حافظ عبداللہ کا باہر سے دروازے کی کنڈی لگا دینا۔ ان سب باتوں نے اس کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔
بے آواز قدموں سے چلتی ہوئی وہ دروازے تک آئی۔ کان لگا کر سننے کی کوشش کی۔ باہر مکمل خاموشی تھی۔ کمبل میں لپٹی وہ کھڑکی کے پاس آئی اور اس کے پٹ سے کان لگا دئیے۔ دوسری طرف سے کتنی ہی دیر تک جب کوئی آواز نہ سنائی دی تو اس کا حلق خشک ہو گیا۔ لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ وہاں کوئی ایسی شے موجود نہ تھی جسے وہ کسی بھی خطرے کے وقت اپنی حفاظت اور مدافعت کے کئے استعمال کر سکتی۔
اضطراب کے عالم میں اس نے لکڑی کی کھڑکی کی ایک درز سے آنکھ لگا دی۔ دوسرے کمرے کا منظر اس کی آنکھ میں اترا اور وہ سُن ہو کر رہ گئی۔ حافظ عبداللہ کمرے میں شمالاً جنوباً بیتابی سے اس طرح چٹائی پر ٹہل رہا تھا کہ اس کے قدموں کی آواز نہ ابھر رہی تھی۔ کھڑکی سے دو فٹ دور سے وہ واپس لوٹ جاتا۔ اس کے ماتھے پر شکنوں کا جال تنا ہوا تھا۔ لگتا تھا وہ کسی گہری سوچ میں ہے اور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ اس نے آنکھ درز سے ہٹا لی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔
"وہ کیا سوچ رہا ہے؟ "اس نے اپنے دل سے پوچھا۔ فوراً ہی جواب اس کے ذہن میں اتر آیا۔ ظاہر ہے وہ بد نیتی سے اور اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اگر اس کی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ چوروں کی طرح اس کے کمرے میں نہ آتا۔ اس کا خاموشی سے واپس لوٹ جانا اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا مگر اسے اس طرح بے چینی سے ٹہلتے دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ وہ اسی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی حالت سے دوچار ہے۔ شاید وہ کوئی ایسی ترکیب سوچ رہا تھا جس پر عمل کر کے وہ اس پر قابو پا لے اور۔۔۔۔
اس سے آگے کی بات کا خیال آتے ہی دونوں ہاتھ جوڑ کر اس نے پر نم آنکھوں سے کمرے کی چھت کی جانب دیکھا۔ "یا اللہ۔ " بے اختیار اس کے لبوں سے نکلا اور ماتھا جڑے ہوئے ہاتھوں پر ٹکا کر وہ سسک پڑی۔ اس وقت وہ بھاگ کر جاتی بھی کیسے اور کہاں ؟
حافظ عبداللہ بیتابی سے چٹائی پر ٹہل رہا تھا۔ وہ ساتھ والے کمرے میں یہ دیکھنے گیا تھا کہ لڑکی کا حال کیا ہے؟ دوبارہ بخار نے تو اسے نہیں آ لیا؟ اسے پیاس نہ لگی ہو۔ لڑکی کا خیال رکھنا لازم تھا۔ وہ اسے اپنی ذمے داری لگنے لگی تھی مگر جس طرح وہ بے سدھ سو رہی تھی، اس کے پُر کشش چہرے کو دیکھ کر اس کے جذبات میں آگ سی لگ گئی۔ اکیلی لڑکی، رات کی تنہائی، کسی تیسرے کا وہاں نہ ہونا۔ ان سب نے مل کر اس کے دل و دماغ پر یلغار کر دی۔ جتنی دیر وہ وہاں کھڑا رہا، بڑے ضبط سے کھڑا رہا تھا۔ پھر خدا کے خوف سے دل کو تھپکتا ہوا وہ بڑی مشکل سے باہر نکلا۔ دروازے کی کنڈی لگائی تو اس خیال سے کہ اس کے کھٹکے سے لڑکی جاگ جائے اور وہ اپنے شہوانی خیالات کو لڑکی کے جاگ جانے کی لگام دے سکے۔
اپنے کمرے میں آ کر اس نے منزل کرنے کی بڑی سعی کی مگر دل تو کسی اور ادھیڑ بُن میں لگ گیا تھا۔ اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے؟ حیوانی جبلت اسے شیطان کے ہاتھوں بِک جانے پر اکسا رہی تھی مگر اس کے اندر چھپا بیٹھا حافظِ قرآن خود کو مسلسل کمزور پڑتا دیکھ کر باقاعدہ ہاتھ پاؤں مارنے لگا تھا۔ کشمکش تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ الاؤ تھا کہ اس کی تپش اسے جھلسائے دے رہی تھی۔
ٹہلتے ٹہلتے ایک دم وہ رک گیا۔ قدم قدم چلتا ہوا ننگے پاؤں باہر نکلا۔ گھور اندھیرے میں اسے سوائے مزار، دور دور تک پھیلی خاموشی، اکیلے پن اور سناٹے کے کچھ بھی نہ ملا۔ و ہ چند لمحے کھڑا سرد ہوا کو گھونٹ گھونٹ جذبات کے حلق سے نیچے اتارتا رہا۔ تپتا ہوا جسم باہر سے سرد ہونے لگا تو اسے اپنی کنپٹیوں میں سنسناہٹ سی دوڑتی محسوس ہوئی۔ ایسی سنسناہٹ، جس میں بے چینی کے بگولے ریت اڑا رہے تھے۔ بیتابی کا غبار سانسوں کو بوجھل کر رہا تھا۔ حلق میں کانٹے سے پڑ گئے تو اس نے تھوک نگلنے کی ناکام کوشش کی۔ درد بھری ایک ٹیس ابھری اور اس کے جبڑے اکڑ سے گئے۔ منہ کھول کر اس نے فضا میں رچی ٹھنڈک کو پی لینا چاہا۔ ایک دم اسے جھرجھری سی آ گئی۔ ایک نظر مزار پر ڈال کر وہ واپس جانے کے لئے پلٹا۔ اسی وقت پھر کسی نے اسے پکارا۔ اس نے آواز کی سمت کا اندازہ لگانا چاہا مگر کامیاب نہ ہوا۔ سر جھٹک کر اس نے خود کو قائل کرنا چاہا کہ یہ اس کا وہم تھا۔ پھر وہ کمرے کی جانب چل دیا۔
"حافظ۔ " ایک دم اس کے قدم زمین میں گڑ گئے۔ اس نے پلٹ کر دیکھنا چاہا مگر گردن اکڑ گئی تھی۔ آواز کس کی تھی، اسے صاف پتہ چل گیا۔ اس کی آنکھیں یوں مند گئیں جیسے کسی نے زبردستی انہیں بند کر دیا ہو۔ ان پر کس کر پٹی باندھ دی ہو۔
"حافظ۔ " درویش نے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ " بُوٹی لینے باہر آیا ہے۔ نقل مارنا چاہتا ہے۔ فیل ہو جائے گا۔ یہ امتحان تجھے بغیر کسی کی معاونت کے دینا ہے۔ میں تجھے ایک موقع لے کر دینے میں بڑی مشکل سے کامیاب ہوا ہوں۔ دوبارہ اس کی امید نہ رکھنا۔ اندر جا اور پرچہ حل کر۔ جا۔ تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے۔ ہمت سے گزار لے۔ جا۔ "
اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ سارا بوجھ، سارا وزن ختم ہو گیا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ وہ اکیلا کمرے کے باہر کھڑا تھا۔ درویش وہاں کہاں تھا؟ اس نے محسوس کیا کہ اس کا جسم ہوا کی طرح ہلکا ہو گیا ہے۔ کوئی تپش اب اسے جھلسا رہی تھی نہ کوئی الاؤ اس کے اندر دہک رہا تھا۔ ایک بار پھر اس نے درویش کی تلاش میں چاروں طرف دیکھا۔ پھر مزار کی جانب نگاہ کی۔ دل میں تشکر دھڑکا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا دوسرے کمرے کے دروازے پر پہنچا۔ آہستگی سے کنڈی کھولی اور لوٹ کر اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔ دروازہ اپنے پیچھے بھیڑ کر وہ سر جھکائے چٹائی پر آ بیٹھا۔ کھیس کی بُکل ماری اور چراغ کی جانب دیکھا۔ اس کی ہلکی ہلکی زرد روشنی اسے بڑی بھلی لگی۔ چند لمحے وہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر ایک طویل سانس لے کر اس نے قرآن پاک کو بوسہ دے کر کھولا۔ تیسرے پارے کی پہلی سطر پر نگاہ ڈالی اور آنکھیں موند لیں۔
"اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ " اس کے لبوں سے نکلا اور آواز بھرا گئی۔
"بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ " زبان پر خوشبو پھیلی اور آنسو رخساروں پر آ گئے۔
"تلک الرسل۔۔۔ " ایک ہچکی تھی جو اس کے حلق سے آزاد ہوئی اور وہ اپنے آپ سے جدا ہو گیا۔
آنسو وضو کراتے رہے۔ زبان، آیتوں کو بوسے دیتی رہی۔ حواس میں پاکیزگی اترتی چلی گئی اور وہ اس بات سے بے خبر ہلکورے لیتا اپنے معبود کی ثنا کرتا رہا کہ کوئی اسے کھڑکی کی درز سے مسلسل دیکھ رہا ہے۔ اس کی کیفیت پر انگشت بدنداں ہے۔ اس کی کیفیت کو سمجھنے کی ناکام سعی کر رہا ہے اور روح کو سیراب کرتی ہوئی نمی۔۔۔ وہ تو اس جھانکنے والے کی آنکھوں میں بھی ہے۔
"لن تنالو البر" کے الفاظ اس کی زبان پر تھے کہ اسے لگاجیسے دونوں کمروں کی درمیانی کھڑکی پر "ٹھک" کی آواز ابھری ہو۔ ایک لمحے کو وہ رکا۔ پھر تلاوت کرتی اس کی آواز بلند ہو گئی۔ "ٹھک" کی آواز پھر ابھری۔ اس نے کان بند کرنے کے لئے ان پر ہاتھ رکھ لئے۔ تیسری بار آواز ابھری تو اس نے آنکھوں کو اور زور سے بند کر لیا۔ آنکھوں پر زور پڑنے کی دیر تھی کہ چارپائی پر بے سدھ پڑا وہ جوان سراپا اس کے سامنے نمایاں ہو گیا جو تنہائی اور موقع سے مزین تھا۔ گھبرا کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ قرآن پاک کے الفاظ پر دھیان جماتے ہوئے اس نے صفحہ پلٹا تو لگا جیسے الفاظ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ہوں۔ صفحہ اسے بالکل کورا دکھائی دیا۔ کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگی۔ نظروں میں دھند سی پھیلی اور زبان مروڑا کھا گئی۔ دماغ ایک دم سکرین بن گیا جس پر ایک جوان بدن پڑا اسے صدائیں دے رہا تھا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا چاہا مگر اس کے سامنے کھلے پڑے قرآن پاک کا سامنے کا صفحہ بالکل کورا بالکل صاف تھا۔ اس پر کچھ لکھا ہوا نہ تھا۔ اس نے حافظے پر زور دے کر یاد کرنا چاہا مگر کچھ یاد نہ آیا کہ وہ کیا اور کہاں سے تلاوت کر رہا تھا ؟
خوف کی ایک لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی۔ یہ کیا ہوا؟ مجھے یاد کیوں نہیں آ رہا کہ میں قرآن پاک کہاں سے دہرا رہا تھا؟ یہ۔۔۔ یہ صفحات کورے کیوں ہو گئے؟ قرآن پاک کے الفاظ کہاں غائب ہو گئے؟ سنا اور پڑھا تھا کہ قیامت کے قریب قرآن پاک کے الفاظ خود بخود صفحات سے اڑ جائیں گے۔ غائب ہو جائیں گے۔ تو کیا قیامت آ گئی؟ کیا۔۔۔ ؟
اور اس "کیا " کے آگے سوچنا اس کے لئے محال تھا۔ سوچ پر تو وہ جوان جسم قابض تھا جو چارپائی پر پڑا اسے پکار رہا تھا۔
"میرے مالک۔ " اس کے پھڑکتے لبوں سے ایک سرگوشی آزاد ہوئی۔ "میرے معبود۔ میری مدد فرما۔ اپنے حبیب کریم کے صدقے میں میری آزمائش نہ لے۔ میں تیری کسی آزمائش، کسی امتحان کے قابل نہیں ہوں۔ مجھے معاف فرما دے۔ مجھے معاف فرما دے۔ مجھے معاف فرما دے۔ " اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھا ان پر رکھ دیا۔
سرگوشی مدھم ہوتے ہوتے ناپید ہو گئی۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس نے سراٹھایا۔ لڑکی کا سراپا ابھی تک اس کے ذہن میں رقصاں تھا۔ اس کی بھویں تن گئیں۔ دانت بھینچ کر اس نے ایک پل کو کچھ سوچا۔ پھر نجانے کیا ہوا۔ آہستہ سے اس نے گردن کو حرکت دی اور دایاں ہاتھ چراغ کی لو پر سائبان کر دیا۔ لو بھڑکی اور اس کی ہتھیلی چاٹنے لگی۔ اس کی آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اپنے ہاتھ پر جم گئیں جو چراغ کی لو پر ساکت ہو چکا تھا۔
گوشت جلنے کی چراند کمرے میں پھیلی۔ درد کی ایک لہر اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی مگر اس درد میں کیا لذت چھپی تھی کہ اسے نشہ سا ہونے لگا۔ اسے لگا جیسے ایک دم آنکھوں کے سامنے سے ساری دھند چھٹ گئی ہو۔ نظر جھکائی تو کورے کاغذ کا دامن گلاب رنگوں سے پُر دکھائی دیا۔ قرآن پاک کے الفاظ اس کی جانب سر اٹھائے مسکرا رہے تھے۔ قیامت ٹل گئی تھی۔ اسے توبہ کا وقت مل گیا تھا۔ زبان کی اینٹھن روانی میں بدل گئی۔ حافظ اسی مقام پر جا کھڑا ہوا جہاں پر وہ آیت سے جدا ہوا تھا۔
قرآن پاک کے الفاظ اس کی جانب سر اٹھائے مسکرا رہے تھے۔ قیامت ٹل گئی تھی۔ اسے توبہ کا وقت مل گیا تھا۔ زبان کی اینٹھن روانی میں بدل گئی۔ حافظ اسی مقام پر جا کھڑا ہوا جہاں پر وہ آیت سے جدا ہوا تھا۔
ہاتھ لو پر جلتا رہا۔ مگر اس جلن میں درد نہ تھا، ایک سرور تھا جو اسے لوریاں دے رہا تھا۔ زخم نہ تھا، گلاب تھا جو کھلتا ہی جا رہا تھا۔ منزل ہو رہی تھی یا منزل اس کی جانب خود چل پڑی تھی؟ کون جانے۔ جانے تو بس وہ جانے جو اوپر بیٹھا اپنے آدم کی آزمائش لے رہا تھا۔ فرشتوں کو دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا:
"کیا میں نے کہا نہ تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ وہ دیکھو۔ میرا آدم میری طرف چل کر آ رہا ہے اور مجھے دوڑ کر اس کی طرف جانا ہے۔ اسے گرنے سے پہلے تھام لینا ہے۔ جاؤ۔ اس کے ہاتھ کا، اس کے جسم کا سارا درد سمیٹ کر اس میں وہ مستی بھر دو جس میں صرف میرا ذکر، میرا شکر اور میرا امر لو دے رہا ہو۔ "
کھڑکی کے دوسری جانب دم بخود کھڑی لڑکی کے حواس مختل ہو چکے تھے۔ اس کی آنکھوں میں وہ منظر سما ہی نہ رہا تھا۔ حافظ عبداللہ کا ہاتھ جل رہا تھا۔ گوشت پگھل کر قطرہ قطرہ گر رہا تھا مگر اسے جیسے اپنا ہوش ہی نہ تھا۔ وہ جھوم جھوم کر تلاوت کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ چہرہ اور اب جسم بھی پسینے میں یوں بھیگا جا رہا تھا جیسے کسی نے اس پر جگ بھر پانی انڈیل دیا ہو مگر وہ ہر احساس سے بے نیاز منزل کر رہا تھا۔ منزل اس کی جانب بھاگی چلی آ رہی تھی۔
اسی وقت باہر سے " اللہ اکبر" کی صدا ابھری۔
درویش لوٹ آیا تھا۔ وہ فجر کی اذان دے رہا تھا۔
امتحان کا وقت ختم ہو گیا تھا اور شاید امتحان بھی۔
یہ صدا اعلان تھی اس بات کا کہ حافظ عبداللہ کامیاب ہو گیا۔
لڑکی کے کانوں میں اللہ اکبر کی صدا پڑی تو وہ چونکی۔ گھبرا کر درز سے پیچھے ہٹی اور دروازے کی طرف لپکی۔ ایک پُر شور آواز کے ساتھ دروازہ کھول کر وہ باہر نکلی۔ کمبل اس کے شانے پر لٹکا ہوا ساتھ ساتھ گھسٹتا آ رہا تھا۔ تقریباً بھاگتی ہوئی وہ دوسرے کمرے میں داخل ہوئی۔ دیوانہ وار آگے بڑھی اور نیم بیہوش مگر تلاوت میں محو حافظ عبداللہ کے پاس جا رکی۔
"حافظ صاحب۔ " ایک چیخ اس کے لبوں سے نکلی اور اس نے اس کا جلتا ہوا ہاتھ کھینچ کر چراغ کی لو سے پرے ہٹا دیا۔
ایک دم حافظ عبداللہ نے آنکھیں کھول دیں اور جیسے ہوش میں آ گیا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر لڑکی ایک پل کو دہشت زدہ ہوئی پھر اس کی طرف سے نگاہ ہٹا کر اس نے کمبل کے پلو میں حافظ عبداللہ کا چرر مرر ہاتھ لپیٹ لیا۔
"یہ آپ نے کیا کیا ؟" اس کی آواز میں درد ہی درد تھا۔
"کیا کیا؟" حافظ عبداللہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ حواس میں آتے ہی درد اس پر پوری شدت سے حملہ آور ہو گیا۔
"حی علی الفلاح۔ "
اچانک وہ باہر سے آتی ہوئی درویش کی آواز پر چونکا۔ "بابا۔ " اس نے سرسراتے لہجے میں کہا۔ " بابا لوٹ آئے۔ "
"کون بابا؟" لڑکی کی آواز اب بھی بھرائی ہوئی تھی۔ وہ کمبل میں لپٹا اس کا ہاتھ تھامے بیٹھی آنسو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
مگر حافظ عبداللہ اس کے سوال کا جواب دینے سے پہلے ہی غش کھا گیا۔ اب درد کی اذیت اس کی برداشت سے باہر ہو چکی تھی۔
"حافظ صاحب۔۔۔ حافظ صاحب۔ " لڑکی اسے بے اختیار پکارے جا رہی تھی۔
"بس۔ " اچانک ایک آواز سن کر وہ چونکی۔ ایک جھٹکے سے گردن گھما کر اس نے اندر آتے ہوئے درویش کو دیکھا جو تین چار لمبے لمبے ڈگ بھر کر اس کے پاس پہنچا اور حافظ عبداللہ کا سر گود میں لے کر بیٹھ گیا۔
" آرام کرنے دے اسی۔ " وہ والہانہ حافظ عبداللہ کے چہرے کو دیکھے جا رہا تھا۔ اس کے گالوں پر محبت سے ہاتھ پھیر رہا تھا۔ " سونے دے اسے۔ ساری رات امتحان دیتا رہا ہے پگلا۔ تھک گیا ہے۔ سونے دے اسے۔ "
"بابا۔ " لڑکی نے اس سے پوچھنے کی کوشش ہی نہ کی کہ وہ کون ہے۔ وہ اسے اجنبی لگا ہی نہ تھا۔ بالکل ایسا لگا جیسے وہ برسوں سے اسے جانتی ہو۔ "بابا۔ ان کا ہاتھ۔۔۔ "
"کیا ہوا اس کے ہاتھ کو؟" درویش نے اس کا ہاتھ کمبل کے پلو سے باہر نکالا۔ پھر جلے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
"بابا۔ انہوں نے دیے کی لو پر اپنا ہاتھ رکھ چھوڑا تھا۔ ہاتھ جلتا رہا مگر انہیں خبر ہی نہ ہوئی۔ وہ تو میں نہ آ کر ہٹاتی تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔ " وہ مزید سہہ نہ سکی اور سسک کر رو پڑی۔
"پگلی ہے تو بھی۔ " درویش نے اس کے سر پر تھپکی دی۔ " کچھ نہیں ہو گا اسے۔ میرا اللہ چاہے تو ابھی اس کا ہاتھ یوں ہو جائے جیسے اس پر کبھی کوئی خراش تک نہیں آئی مگر ۔۔۔ "
"مگر کیا بابا؟" لڑکی نے بیتابی سے پوچھا۔
"مگر میرا اللہ چاہتا ہے کہ حافظ عبداللہ کا ہاتھ دوا سے ٹھیک ہو۔ اس کا نقص باقی رہے۔ یہ عیب والا ہو جائے۔ "
"وہ کیوں بابا؟" وہ سوال پر سوال کئے جا رہی تھی اور درویش اس کے ہر سوال کا جواب یوں دے رہا تھا جیسے کوئی باپ اپنی بیٹی سے لاڈ کر رہا ہو۔
"اس لئے پگلی کہ اپنے اللہ سے محبت کا یہ نشان اس کے ہاتھ پر باقی رہے۔ اسے اور تجھے یاد رہے کہ یہ ہاتھ کیوں اور کیسے جلا تھا؟"
"میں سمجھی نہیں بابا؟" ایک دم لڑکی کا ذہن جیسے سلیٹ کی طرح صاف ہو گیا۔
"کیا تو نہیں جانتی کہ حافظ نے اپنا ہاتھ جلتے چراغ کی لو پر کیوں رکھ دیا تھا؟" اچانک درویش کا لہجہ عجیب سا ہو گیا۔ "شیطان آ گیا تھا اس کے پاس۔ شیطان جو آگ سے بنا ہے۔ نفس کی آگ کو حافظ عبداللہ نے اپنے اللہ کے حکم پر نور کے الاؤ میں دھکیل دیا۔ نفس جل گیا۔ شیطان خاک ہو گیا۔ نور باقی رہا۔ اب اس نور کا نشان تا عمر میرے حافظ کے ہاتھ پر باقی رہے، اس کے اللہ کی نشانی اس کے پاس رہے، یہی اس کے معبود کی رضا ہے۔ سمجھیں پگلی۔ " درویش نے اس کی جانب پیار سے دیکھا۔
"ہاں بابا۔ " لڑکی کی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے آئی۔ "سب سمجھ گئی۔ " اس کی نگاہیں جھک گئیں۔ رات بھر کی ساری کیفیات ایک پل میں اس کی نظروں میں پھر گئیں۔ اس کی ساری بدگمانیاں شرمندگی کا پسینہ بن کر اس کی پیشانی سے بہہ نکلیں۔ وہ حافظ عبداللہ کی حرکات سے کیا اخذ کرتی رہی اور حقیقت کیا تھی؟ یہ جان کر اسے خود پر شرم آ گئی۔
