آتش فشاں - پارٹ 1

Urdu Novel PDF

جب عابد علی گھر میں داخل ہوا تو اس کی بیوی شگفتہ اسے دیکھ کر پریشان ہو گئی کیونکہ اس کے چہرے پر بے چینی اور بدحواسی کے آثار نمایاں تھے۔ وہ فوراً سمجھ گئی کہ عابد کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔ عابد نے بتایا کہ دکان پر بیٹھے بیٹھے اس کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی تھی، لیکن کوئی خاص بات نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے بیٹے وجدان کی طرف متوجہ ہو گیا جو اس وقت اپنے کمرے سے نکل کر وہاں آ گیا تھا۔ عابد علی عام طور پر رات کو گھر آتے ہوئے کوئی پھل یا میٹھائی لے کر آتا تھا، لیکن آج وہ خالی ہاتھ تھا۔ وجدان نے اپنے باپ کی پریشانی بھانپ لی تھی، اس لیے اس نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ خالی ہاتھ کیوں آیا۔ شگفتہ نے عابد سے کہا کہ وہ منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدل لے کیونکہ وہ کھانا لگا رہی تھی اور وجدان نے بھی ابھی تک کھانا نہیں کھایا تھا۔ اس کے بعد وہ کچن کی طرف چلی گئی۔

عابد علی اپنے کمرے میں چلا گیا، جہاں وہ چند لمحوں تک کھڑا رہا اور پھر باتھ روم میں چلا گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد جب وہ باہر نکلا تو شگفتہ نے کھانے کی میز پر کھانا لگا دیا تھا۔ وجدان پہلے ہی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ عابد نے دیکھا کہ وجدان کو آج بہت بھوک لگی تھی۔ وجدان نے اشارہ کیا کہ عابد نے اس دن کافی دیر کر دی تھی۔ عابد نے وضاحت کی کہ اس نے دکان جلدی بند کر دی تھی، لیکن راستے میں کچھ کام پڑ جانے کی وجہ سے دیر ہو گئی۔ شگفتہ بھی اب عابد کے سامنے اپنی کرسی پر بیٹھ چکی تھی، اور سب نے مل کر کھانا شروع کیا۔

ابھی عابد نے چند ہی لقمے کھائے تھے کہ لاؤنج میں رکھا ٹیلی فون بج اٹھا۔ وہ اٹھنے لگا، لیکن شگفتہ اس سے پہلے اٹھ گئی اور لاؤنج میں جا کر رسیور اٹھایا۔ اس نے فون پر بات کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا، صرف گہری سانسوں کی آواز سنائی دی۔ شگفتہ نے دوبارہ پوچھا، لیکن جواب میں وہی گہری سانسوں کی آواز آئی۔ غصے میں آکر اس نے رسیور پٹخ دیا اور کھانے کی میز پر واپس آ گئی۔ عابد نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، لیکن شگفتہ نے بتایا کہ کوئی بدتمیز شخص تھا جس نے جواب نہیں دیا، بس گہری سانسوں کی آواز سنائی دی۔ وہ ابھی بات کر ہی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی دوبارہ بج اٹھی۔ اس بار عابد اٹھ کر لاؤنج میں گیا اور رسیور اٹھایا۔ اس نے فون پر بات کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسری طرف سے گہری سانسوں کی آواز کے ساتھ ایسی آواز آئی جیسے کوئی کتا گرج رہا ہو۔ عابد کا چہرہ دھواں ہو گیا، اور اس کے دل کی دھڑکن اچانک تیز ہو گئی۔ وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا، پھر رسیور رکھ کر کھانے کی میز پر واپس آ گیا۔ شگفتہ نے اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات دیکھ کر اندازہ لگایا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے، لیکن عابد نے کہا کہ کوئی بات نہیں، بس کوئی بدتمیز شخص تھا۔ اس کے بعد فون کی گھنٹی نہیں بجی، اور سب نے کھانا مکمل کیا۔

کھانا ختم کرنے کے بعد وہ لاؤنج میں آ گئے۔ وجدان بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہ سمجھدار بچہ اپنے ماں باپ کی پریشانی دیکھ کر الجھن میں پڑ گیا تھا۔ عابد نے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ جا کر سو جائے کیونکہ صبح سکول جانا تھا۔ وجدان نے اپنے ماں باپ کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ شگفتہ نے عابد کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا کہ جب سے وہ گھر آیا تھا، وہ اسے پریشان دیکھ رہی تھی، اور فون کال کے بعد اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات ابھر آئے تھے۔ اس نے کہا کہ عابد نے آج تک اس سے کچھ نہیں چھپایا، لیکن آج وہ ضرور کوئی بات چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ عابد نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے کوئی بات نہیں چھپائے گا۔ شگفتہ نے اصرار کیا کہ وہ بتائے کہ کیا بات ہے۔ عابد نے پوچھا کہ کیا اسے ملک نوازش علی یاد ہے۔ شگفتہ نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا کہ وہ اس شیطان کو کیسے بھول سکتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں اپنا گھر اور وطن چھوڑنا پڑا تھا۔ اس وقت وجدان صرف دو ماہ کا تھا، اور وہ اس معصوم بچے کو لے کر اس شیطان سے چھپتے پھر رہے تھے۔ 

عابد نے کہا کہ جس طرح بارہ سال گزرنے کے بعد وہ ملک نوازش علی کو نہیں بھولے، شاید وہ بھی انہیں نہیں بھولا۔ شگفتہ کا چہرہ دھواں ہو گیا، اور اس نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ عابد نے کہا کہ اگر وہ ملک نوازش علی کو نہیں بھولی تو اسے دارا بھی یاد ہوگا۔ شگفتہ کے چہرے کے تاثرات بگڑ گئے۔ اس نے کہا کہ دارا کو وہ کیسے بھول سکتی ہے، وہ تو انسان نہیں، درندہ تھا۔ اس نے ان کے گھر کو آگ لگا کر انہیں زندہ جلانے کی کوشش کی تھی۔ اگر اس روز پولیس بروقت نہ پہنچتی تو وہ اس مکان کے ساتھ جل کر راکھ ہو چکے ہوتے۔ اس کے شیطانی قہقہوں کی آواز آج بھی اس کے کانوں میں گونجتی تھی۔

جب عابد علی گھر میں داخل ہوا تو اس کی بیوی شگفتہ اسے دیکھ کر پریشان ہو گئی کیونکہ اس کے چہرے پر بے چینی اور بدحواسی کے آثار نمایاں تھے۔ وہ فوراً سمجھ گئی کہ عابد کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔ عابد نے بتایا کہ دکان پر بیٹھے بیٹھے اس کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی تھی، لیکن کوئی خاص بات نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے بیٹے وجدان کی طرف متوجہ ہو گیا جو اس وقت اپنے کمرے سے نکل کر وہاں آ گیا تھا۔ عابد علی عام طور پر رات کو گھر آتے ہوئے کوئی پھل یا میٹھائی لے کر آتا تھا، لیکن آج وہ خالی ہاتھ تھا۔ وجدان نے اپنے باپ کی پریشانی بھانپ لی تھی، اس لیے اس نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ خالی ہاتھ کیوں آیا۔ شگفتہ نے عابد سے کہا کہ وہ منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدل لے کیونکہ وہ کھانا لگا رہی تھی اور وجدان نے بھی ابھی تک کھانا نہیں کھایا تھا۔ اس کے بعد وہ کچن کی طرف چلی گئی۔

عابد علی اپنے کمرے میں چلا گیا، جہاں وہ چند لمحوں تک کھڑا رہا اور پھر باتھ روم میں چلا گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد جب وہ باہر نکلا تو شگفتہ نے کھانے کی میز پر کھانا لگا دیا تھا۔ وجدان پہلے ہی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ عابد نے دیکھا کہ وجدان کو آج بہت بھوک لگی تھی۔ وجدان نے اشارہ کیا کہ عابد نے اس دن کافی دیر کر دی تھی۔ عابد نے وضاحت کی کہ اس نے دکان جلدی بند کر دی تھی، لیکن راستے میں کچھ کام پڑ جانے کی وجہ سے دیر ہو گئی۔ شگفتہ بھی اب عابد کے سامنے اپنی کرسی پر بیٹھ چکی تھی، اور سب نے مل کر کھانا شروع کیا۔ ابھی عابد نے چند ہی لقمے کھائے تھے کہ لاؤنج میں رکھا ٹیلی فون بج اٹھا۔ وہ اٹھنے لگا، لیکن شگفتہ اس سے پہلے اٹھ گئی اور لاؤنج میں جا کر رسیور اٹھایا۔ اس نے فون پر بات کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا، صرف گہری سانسوں کی آواز سنائی دی۔ شگفتہ نے دوبارہ کوشش کی، لیکن جواب میں وہی گہری سانسوں کی آواز آئی۔ غصے میں آکر اس نے رسیور پٹخ دیا اور کھانے کی میز پر واپس آ گئی۔ عابد نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، لیکن شگفتہ نے بتایا کہ کوئی بدتمیز شخص تھا جس نے جواب نہیں دیا، بس گہری سانسوں کی آواز سنائی دی۔ 

وہ ابھی بات کر ہی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی دوبارہ بج اٹھی۔ اس بار عابد اٹھ کر لاؤنج میں گیا اور رسیور اٹھایا۔ اس نے فون پر بات کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسری طرف سے گہری سانسوں کی آواز کے ساتھ ایسی آواز آئی جیسے کوئی کتا گرج رہا ہو۔ عابد کا چہرہ دھواں ہو گیا، اور اس کے دل کی دھڑکن اچانک تیز ہو گئی۔ وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا، پھر رسیور رکھ کر کھانے کی میز پر واپس آ گیا۔ شگفتہ نے اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات دیکھ کر اندازہ لگایا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے، لیکن عابد نے کہا کہ کوئی بات نہیں، بس کوئی بدتمیز شخص تھا۔ اس کے بعد فون کی گھنٹی نہیں بجی، اور سب نے کھانا مکمل کیا۔

کھانا ختم کرنے کے بعد وہ لاؤنج میں آ گئے۔ وجدان بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہ سمجھدار بچہ اپنے ماں باپ کی پریشانی دیکھ کر الجھن میں پڑ گیا تھا۔ عابد نے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ جا کر سو جائے کیونکہ صبح سکول جانا تھا۔ وجدان نے اپنے ماں باپ کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ شگفتہ نے عابد کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا کہ جب سے وہ گھر آیا تھا، وہ اسے پریشان دیکھ رہی تھی، اور فون کال کے بعد اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات ابھر آئے تھے۔ اس نے کہا کہ عابد نے آج تک اس سے کچھ نہیں چھپایا، لیکن آج وہ ضرور کوئی بات چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ عابد نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے کوئی بات نہیں چھپائے گا۔ شگفتہ نے اصرار کیا کہ وہ بتائے کہ کیا بات ہے۔ عابد نے پوچھا کہ کیا اسے ملک نوازش علی یاد ہے۔ شگفتہ نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا کہ وہ اس شیطان کو کیسے بھول سکتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں اپنا گھر اور وطن چھوڑنا پڑا تھا۔ اس وقت وجدان صرف دو ماہ کا تھا، اور وہ اس معصوم بچے کو لے کر اس شیطان سے چھپتے پھر رہے تھے۔ عابد نے کہا کہ جس طرح بارہ سال بعد بھی وہ ملک نوازش علی کو نہیں بھولے، اسی طرح اس نے بھی انہیں نہیں بھولا۔ اگرچہ ملک نوازش علی خود نہیں آیا، لیکن اس کا آدمی دارا سنگاپور پہنچ گیا تھا۔

عابد نے بتایا کہ اس دن دارا اس کی دکان پر آیا تھا، اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ عابد نے دارا کو دکان میں داخل ہونے سے پہلے ہی دیکھ لیا تھا اور فوراً کاؤنٹر سے اٹھ کر دکان کے پچھلے کمرے میں چلا گیا تھا۔ دارا پانچ چھ منٹ تک دکان میں رہا، ایک اسٹیٹ ایکسپریس کا ڈبہ خرید کر چلا گیا۔ عابد کو پہلے لگا کہ شاید دارا نے اسے نہیں دیکھا اور اس کا دکان پر آنا محض اتفاق تھا، لیکن رات کی فون کالز نے اسے یقین دلایا کہ وہ کالز دارا نے ہی کی تھیں۔ اگرچہ دارا نے فون پر کچھ نہیں کہا، لیکن اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا تھا۔ شگفتہ کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ گیا۔ اسے فکر لاحق ہوئی کہ کیا انہیں سنگاپور سے بھی بھاگنا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ بارہ سال پہلے جب وہ پاکستان سے بھاگے تھے، وجدان صرف دو ماہ کا تھا اور کچھ نہیں سمجھتا تھا، لیکن اب وہ بارہ سال کا سمجھدار لڑکا تھا اور صورتحال کو سمجھ سکتا تھا۔ اس نے سوال کیا کہ وجدان کیا سوچے گا اور کیا ہوگا۔ عابد نے کہا کہ کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ یہ لاہور نہیں، سنگاپور ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ اس نے یقین دلایا کہ دارا اگر ان کی تلاش میں بھی آیا ہو تو یہاں اسے کچھ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ شگفتہ نے کہا کہ دارا ایک جرائم پیشہ شخص ہے اور ایسے لوگ ہر جگہ اپنا کام کر گزرتے ہیں۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے مشورہ دیا کہ عابد کو سردار پرتاب سنگھ سے بات کرنی چاہیے، جو ان کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا۔ پرتاب سنگھ نے ہی انہیں سنگاپور میں سہارا دیا تھا اور یہاں کے بڑے لوگوں سے اس کے قریبی تعلقات تھے۔ عابد نے تسلیم کیا کہ شگفتہ ٹھیک کہہ رہی تھی اور پرتاب سنگھ سے بات کرنا ضروری تھا۔

اسی دوران دروازے کی کال بیل بجی، جو خاموشی میں بم کے دھماکے سے کم نہ تھی۔ عابد اور شگفتہ دونوں خوف سے اچھل پڑے۔ شگفتہ کو لگا جیسے اس کا دل حلق میں آ گیا ہو، اور عابد کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو گئی۔ عابد نے شگفتہ سے کہا کہ وہ وہیں رہے، وہ خود دیکھتا ہے۔ شگفتہ اپنی جگہ پر کھڑی رہی، لیکن اس نے فوراً ڈریسنگ ٹیبل کی نچلی دراز سے جرمن لوگر پستول نکال لیا، جو انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے رکھا تھا۔ عابد وقتاً فوقتاً اس کی صفائی کرتا رہتا تھا، اگرچہ اسے کبھی استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ شگفتہ پستول لے کر دبے قدموں لاؤنج کے دروازے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ عابد کمپاؤنڈ میں قدم اٹھاتا ہوا بیرونی دروازے تک پہنچا۔ کال بیل اس دوران ایک بار اور بج چکی تھی۔ عابد نے دروازے کے قریب رکتے ہوئے پوچھا کہ باہر کون ہے۔ باہر سے سردار پرتاب سنگھ کی آواز آئی کہ وہ ہے اور دروازہ کھولنے کو کہا۔ عابد نے گہرا سانس لیتے ہوئے دروازہ کھولا۔ پرتاب سنگھ اندر آیا، اور عابد نے دروازہ بند کر دیا۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے اندر کی طرف بڑھے۔ 

شگفتہ نے پرتاب سنگھ کی آواز سن کر گہرا سانس لیا اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی رہی، پستول ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ پرتاب سنگھ نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہی ادھر ادھر دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیسی خاموشی ہے اور کیا شگفتہ سو گئی ہے۔ عابد نے بتایا کہ شگفتہ جاگ رہی ہے۔ پرتاب سنگھ نے کہا کہ چونکہ عابد اس کے گھر نہیں آیا، اس لیے وہ خود چکر لگانے آ گیا۔ اس نے شگفتہ کے ہاتھ میں پستول دیکھا تو حیران ہوا اور پوچھا کہ یہ اسلحہ کیوں اٹھایا ہوا ہے۔ شگفتہ نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اسے لگا شاید کوئی چور ڈاکو ہو، اس لیے احتیاط کی۔ پرتاب سنگھ نے مذاق میں کہا کہ کیا اسے چور ڈاکو سمجھ لیا۔ شگفتہ نے جلدی سے وضاحت کی کہ بات یہ نہیں، بس صورتحال ایسی تھی کہ احتیاط کرنی پڑی۔ پرتاب سنگھ سنجیدہ ہو گیا اور عابد سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ عابد نے کہا کہ وہ کچھ دیر بعد اس کے پاس آنے والا تھا۔ اس نے شگفتہ سے چائے بنانے کو کہا اور پرتاب سنگھ کے ساتھ ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔

پرتاب سنگھ صوفے پر بیٹھ گیا۔ ڈرائنگ روم دیکھ کر عابد کی مالی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا، جسے بنانے میں اس نے بہت محنت کی تھی، لیکن اب یہ چھوٹا سا گھر بھی خطرے میں نظر آ رہا تھا۔ پرتاب سنگھ نے عابد سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ عابد نے کہا کہ پرتاب سنگھ کو معلوم ہے کہ وہ کب اور کن حالات میں سنگاپور آیا تھا۔ اگر پرتاب سنگھ نے مدد نہ کی ہوتی تو اسے نہیں معلوم ہوتا کہ اس پر کیا بیتتی۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنی بیوی اور دو ماہ کے بچے کو لے کر پاکستان سے اس لیے بھاگا تھا کہ ملک نوازش علی انہیں ختم کروانا چاہتا تھا۔ اگر اس کا ایک دوست اسے فرار ہونے میں مدد نہ دیتا تو وہ کب کا ختم ہو چکے ہوتے۔ شگفتہ اس دوران چائے لے کر آئی، سب کے سامنے کپ رکھے اور خود بھی ایک کپ لے کر بیٹھ گئی۔ پرتاب سنگھ نے کہا کہ وہ عابد کی سچائی سے متاثر ہوا تھا، لیکن یہ پرانی بات تھی، اب کیا مسئلہ تھا۔ عابد نے بتایا کہ جس طرح وہ بارہ سال بعد بھی ملک نوازش علی کو نہیں بھولے، اسی طرح اس نے بھی انہیں نہیں بھولا۔ اگرچہ ملک نوازش علی خود نہیں آیا، لیکن اس کا آدمی دارا سنگاپور پہنچ گیا تھا۔ 

عابد نے دارا کے دکان پر آنے اور فون کالز کا ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ وہ اب یقین سے کہہ سکتا ہے کہ دارا نے اسے دیکھ لیا تھا، اس کا فون نمبر معلوم کر لیا تھا، اور شاید اس کا گھر بھی دیکھ چکا تھا۔ پرتاب سنگھ نے کہا کہ شاید یہ عابد کی غلط فہمی ہو، اور فون کالز کوئی شرارت ہو سکتی ہیں۔ عابد نے اصرار کیا کہ وہ کوئی خوش فہمی میں نہیں، اور وہ پرتاب سنگھ سے مشورہ لینا چاہتا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ کیا اسے سنگاپور چھوڑ دینا چاہیے؟ پرتاب سنگھ نے کہا کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ بھاگنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس نے کہا کہ اگر دارا نے واقعی عابد کو دیکھ لیا تھا تو چھپنے یا بھاگنے کے بجائے صورتحال کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس نے یقین دلایا کہ سنگاپور میں قانون کی گرفت سخت ہے، اور دارا کوئی حماقت نہیں کر سکتا۔ تاہم، اس نے عابد کی جان کے خطرے کو نظر انداز نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ وہ صبح دو مسلح افراد کو عابد کی حفاظت کے لیے مقرر کر دے گا جو چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ رہیں گے۔ اس نے اپنے دوست جانشو نامی پولیس افسر کو صورتحال سے آگاہ کرنے کی بات کی، جو عابد کی حفاظت کا بندوبست کر سکتا تھا۔ عابد نے کہا کہ وہ ساری زندگی پولیس اور باڈی گارڈز کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ پرتاب سنگھ نے تسلی دی کہ یہ صرف چند روز کی بات ہے، اور دارا حفاظتی انتظامات دیکھ کر خاموشی سے واپس چلا جائے گا۔ اس نے یقین دلایا کہ دارا کوئی حرکت نہیں کر سکے گا، ورنہ وہ قانون کے جال میں پھنس جائے گا۔ پرتاب سنگھ کی باتوں سے عابد اور شگفتہ کو بڑا حوصلہ ملا۔

وہ تینوں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اس موضوع پر بات کرتے رہے۔ رات ایک بجے کے قریب پرتاب سنگھ انہیں تسلیاں دیتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد عابد نے تمام دروازے لاک کیے اور شگفتہ کے ساتھ بیڈ روم میں چلا گیا۔ وہ دونوں بستر پر لیٹے دیر تک باتیں کرتے رہے، لیکن نیند کسی کو نہیں آ رہی تھی۔ پرتاب سنگھ نے اگرچہ انہیں بھرپور تسلی دی تھی اور حفاظت کا بندوبست بھی کر دیا تھا، لیکن عابد مطمئن نہیں تھا۔ وہ ملک نوازش علی کو اچھی طرح جانتا تھا، اور اس کے درندہ صفت کارندوں سے بھی واقف تھا۔ دارا اس کا سب سے قابل اعتماد اور بے رحم ساتھی تھا۔ انسانی زندگی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ بارہ سال پہلے عابد اس سے بچ نکلا تھا، اور سنگاپور آنے کے بعد اسے یقین تھا کہ ملک نوازش علی اور اس کے کارندے اس کا سراغ نہیں لگا سکیں گے۔ لیکن بارہ سال بعد انہوں نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا۔ دارا جتنا بے رحم تھا، اتنا ہی چالاک بھی تھا۔ اس نے عابد کو دیکھ لیا تھا، لیکن یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ اسے نہیں دیکھا۔ رات کی خاموش فون کالز نے عابد کو یقین دلایا کہ دارا نے اسے دیکھ لیا تھا۔

عابد علی رات بھر سوچتا رہا کہ کیا وہ ہمیشہ خوف کے سائے میں جیتا رہے گا۔ اس نے پرتاب سنگھ کے مشورے پر غور کیا، جو اسے بہت مناسب لگا۔ بارہ سال پہلے وہ ملک نوازش علی اور اس کے درندوں سے ڈر کر پاکستان سے بھاگا تھا۔ اگر آج وہ دارا کے خوف سے سنگاپور چھوڑ دیتا تو کل اسے کسی اور جگہ سے بھی بھاگنا پڑتا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب بھاگنے کے بجائے نڈر ہو کر صورتحال کا مقابلہ کرے گا۔ اس فیصلے نے اس کے دل سے بوجھ ہلکا کر دیا، اور وہ پرسکون ہو کر نیند کی گہری وادی میں چلا گیا۔ صبح ناشتے کے دوران اس نے شگفتہ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ وہ ملک نوازش علی اور دارا کے خوف سے بھاگنے کے بجائے سنگاپور میں رہ کر مقابلہ کرے گا۔ ناشتے کے بعد وہ دکان جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ 

عابد نے رسیور اٹھایا اور پرسکون انداز میں بات کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسری طرف سے گہری سانسوں اور کتے کے گرجنے جیسی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی، لیکن اس نے جلد ہی خود پر قابو پا لیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ یہ دارا ہی تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ فون پر ہی دارا کو کھری کھری سنا دے اور واضح کر دے کہ وہ اب ڈر کر نہیں بھاگے گا، لیکن اس نے رسیور پٹخ دیا۔ شگفتہ نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، اور عابد نے بتایا کہ وہی بدتمیز شخص تھا۔ اس نے شگفتہ کو تسلی دی کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ پرتاب سنگھ سے بات کر کے پولیس والوں کو گھر کی حفاظت کے لیے بلا لے گا۔ اس نے پرتاب سنگھ کے یقین کی بات دہرائی کہ دارا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ پھر اس نے شگفتہ سے اپنا خیال رکھنے کو کہا، مسکرایا، اور گھر سے نکل گیا۔

عابد پرتاب سنگھ کے گھر پہنچا، جو اس کے گھر کے ساتھ والے مکان میں رہتا تھا۔ پرتاب سنگھ نے دھوتی اور بنیان پہن رکھی تھی، اور سر پر جالی دار ٹوپی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ عابد کا انتظار کر رہا تھا اور آدھے گھنٹے پہلے پولیس افسر چانگشو کو فون کر چکا تھا۔ اس نے بتایا کہ چانگشو کے بھیجے ہوئے دو کانسٹیبل جلد ہی عابد کے گھر پہنچ جائیں گے، جبکہ اس کے اپنے دو آدمی، جن میں سے ایک سوتر سنگھ تھا، عابد کی دکان کی حفاظت کے لیے جائیں گے۔ اس نے عابد کو شیر بن کر جینے کی تلقین کی۔ عابد نے کہا کہ اس نے اب شیر بن کر جینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس نے پرتاب سنگھ سے ہاتھ ملایا اور گھر سے نکل کر گلی سے گزرتا ہوا دکان کی طرف روانہ ہو گیا۔ اسے راستے میں ٹیکسی مل گئی، اور وہ معمول سے صرف پانچ منٹ کی تاخیر سے دکان پر پہنچا۔ کچھ دیر بعد سوتر سنگھ اور اس کا ایک ساتھی، جو دونوں تنومند اور لمبے جوان تھے، دکان پر پہنچ گئے۔ ایک دکان کے باہر کھڑا ہو گیا، جبکہ دوسرا اندر رہا۔ اس دن عابد دکان پر بے چینی سے بیٹھا رہا۔ اس کے دل میں خوف تھا، اور وہ بار بار اپنی سیٹ پر پہلو بدلتا رہا۔ 

دکان کے سامنے سے گزرنے والا ہر شخص اسے مشکوک لگتا تھا۔ اگلے دو تین دن بھی اسی کیفیت میں گزرے، لیکن اس دوران نہ تو دارا نظر آیا اور نہ ہی اس کا اجنبی ساتھی۔ گھر پر بھی کوئی پراسرار فون کال نہیں آئی۔ آہستہ آہستہ عابد اور شگفتہ کے دل سے خوف کم ہوتا گیا۔ عابد کو یقین ہو گیا کہ دارا کا دکان پر آنا محض اتفاق تھا اور اس نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ خاموش فون کالز بھی شاید کسی کی شرارت تھیں۔ ایک ہفتے بعد، چانگشو کے بھیجے ہوئے پولیس والے عابد کے گھر کی حفاظت کر رہے تھے، اور پرتاب سنگھ کے آدمی اس کی حفاظت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس دوران کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا۔ عابد نے فیصلہ کیا کہ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے پولیس یا باڈی گارڈز کی ضرورت ہے۔ اس نے شگفتہ سے مشورہ کیا اور اگلے دن پرتاب سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پولیس اور باڈی گارڈز کو ہٹا دیا۔ اس کے بعد وہ اپنی معمول کی زندگی گزارنے لگا، اور اس کے دل سے خوف بالکل ختم ہو گیا۔ اس نے ابتدائی چند دنوں کی کیفیت کو ایک بھیانک خواب سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔

اتوار کا دن تھا، اور اس دن وجدان کی سالگرہ تھی۔ وہ بارہ سال کا ہو چکا تھا اور اس کی زندگی کا تیرہواں سال شروع ہونے والا تھا۔ عابد اور شگفتہ ہر سال وجدان کی سالگرہ سادگی سے مناتے تھے۔ وہ یا تو گھر پر کیک کاٹتے یا کسی ہوٹل میں ڈنر کرتے۔ انہوں نے کبھی سالگرہ پر مہمانوں کو مدعو نہیں کیا، حتیٰ کہ پرتاب سنگھ کو بھی، جو عابد کا قریبی دوست تھا۔ اس دن وہ صبح سویرے سینتوسا جزیرے پر چلے گئے اور دن بھر وہاں پکنک منائی۔ شام کو گھر واپس آ کر کچھ دیر آرام کیا اور پھر اسکاٹس روڈ پر واقع رائل ہالیڈے ان ہوٹل میں ڈنر کا پروگرام بنایا۔

 گھر سے کچھ دور جا کر انہیں ٹیکسی مل گئی، اور ہوٹل تک جانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ رات گیارہ بجے جب وہ ہوٹل سے نکلے تو ٹیکسی سٹینڈ پر کوئی ٹیکسی نہیں تھی۔ انہیں آرچرڈ روڈ کے چوراہے تک پیدل جانا پڑا، جہاں ڈائنا سٹی ہوٹل کے سامنے انہیں ٹیکسی مل گئی۔ اپنے بنگلے کے سامنے ٹیکسی سے اتر کر عابد ڈرائیور کو کرایہ ادا کر رہا تھا کہ ایک سیاہ کار تیزی سے گلی میں مڑی اور ان کی ٹیکسی کے قریب آ کر رک گئی۔ کار کے دروازے کھلے، اور چار آدمی باہر نکل کر عابد، شگفتہ اور وجدان کی طرف بڑھے۔ ان میں سب سے آگے والے آدمی کو دیکھ کر عابد کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا، اور اسے سانس رکتے ہوئے محسوس ہوا۔ وہ دارا تھا۔
👇👇
آتش فشاں - پارٹ 2